
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه7 )
وہ فکری ڈھانچہ جس پر زندگی کے تمام تصورات تعمیر ہوتے ہیں۔
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ ساتویں قسط ہے، جس کا عنوان " کائنات، انسانیت، اور زندگی کے بارے میں جامع فکری خاکہ فراہم کرنا" ہے۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام ِاسلام ' کے صفحہ 6 پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانیؒ نے بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہے:
نوٹ: شیخ تقی الدین النبہانی ؒفرماتے ہیں: "انسان کے تصورات (مفاہیم) کو تبدیل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس دنیاوی زندگی کے بارے میں سوچ (فکر) پیدا کی جائے، تاکہ اس کے بارے میں درست مفاہیم پیدا کیے جا سکیں۔ دنیاوی زندگی کے بارے میں سوچ اس وقت تک نتیجہ خیز طور پر مرکوز نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان، زندگی، اور کائنات کے بارے میں اور دنیاوی زندگی سے قبل اور بعد کے ساتھ ان سب کے تعلق کے بارے میں فکر پیدا نہ ہو جائے۔ "
ہم اللہ سے مغفرت ، رحمت ، رضا اور جنت کی امید رکھتے ہوئےیہ کہتے ہیں :
یقیناً تصورات (مفاہیم -concepts)میں تبدیلی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ دنیاوی زندگی کے بارے میں ایک واضح فکر قائم کی جائے۔ دنیاوی زندگی کے بارے میں سوچ اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتی جب تک کہ کائنات، انسانیت، اور زندگی کے بارے میں ایک مضبوط سوچ موجود نہ ہو، اور اس بارے میں کہ دنیاوی زندگی سے پہلے کیا ہے، آیا ایک ابدی خالق ہے یا نہیں، اور اس کے بعد کیا ہے، آیا آخرت موجود ہے یا نہیں، اور اس کا تعلق اس سے پہلے کے ساتھ، یعنی خالق مدبر پر ایمان، اور اس کے بعد کے ساتھ، یعنی قیامت کے دن پر ایمان کے ساتھ موجود نہ ہو۔ اس طرح صحیح ایمان کی تشکیل ہوتی ہے، اور وہ فکری بنیاد قائم کی جاتی ہے جس پر زندگی کے تمام تصورات (concepts)تعمیر ہوتے ہیں۔ یہ ایمان عقل کو قائل کرتا ہے، فطرت کے مطابق ہوتا ہے، اور دل کو سکون بخشتا ہے، جو انسان کو اپنے اور اپنے معاشرے کے مفادکے لئے عملی کام کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اگر صحیح ایمان قائم نہ ہو تو انسان اپنی تقدیر کے بارے میں بے چینی میں رہتا ہے، بے سکونی محسوس کرتا ہے، اور تعمیری کام میں مشغول ہونے کی تحریک نہیں پاتا، بلکہ دوسروں کے لئے بوجھ بن کر رہ جاتا ہے اور اپنے معاشرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔
نوٹ: "اور دنیاوی زندگی سے پہلے اور اس کے بعد کیا ہے۔" "یعنی، آیا ایک ابدی خالق موجود ہے، اور آیا فیصلے کے لئے کوئی آخرت ہے یا نہیں۔" "یعنی، خالق پر ایمان رکھنے یا نہ رکھنے کا معاملہ۔""کائنات، انسانیت، زندگی، اور آخرت کے بارے میں فکر (سوچ)۔" "کائنات، انسانیت، اور زندگی سے ماوراء کے بارے میں اور ان سب کا تعلق ان سے ماقبل اورمابعد کے بارے میں کا فکری ڈھانچہ۔" "وہ فکری خاکہ جس پر تمام تصورات /افکارکی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
فکری بنیاد کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے، ہم یہ کہتے ہیں کہ : ہر ڈھانچے کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ قائم ہو سکے۔ شاخ تب ہی قائم ہو سکتی ہے جب جڑ مضبوط ہو۔ اس لیے، اگر بنیادی مسئلہ واضح نہ ہو تو ثانوی مسائل پر بحث کرنا ایک سنگین غلطی ہے۔ ایک دفعہ مجھے نویں جماعت کے طلباء کو اسلامی تعلیمات پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی، جو کمیونسٹ نظریات سے متاثر تھے۔ جب میں نے 'جرابوں پر مسح' کے موضوع پر پاکیزگی کا سبق شروع کیا، تو مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ کوئی بھی طالب علم میری بات نہیں سن رہا تھا۔ بلکہ، ان میں سے کچھ ایک دوسرے کی باتیں سننے میں مصروف تھے۔ اس صورتحال کے باعث مجھے سبق روکنا پڑا اور اسلامی تعلیمات کے تمام اسباق کو ترک کرکے انہیں صحیح راستے کی طرف موڑنا پڑا، جو کہ عقیدے کا مطالعہ تھا۔ چنانچہ میں نے پہلے '' عقل کے ذریعے خالق ، اللہ کے وجود کو ثابت کرنا ' 'کے موضوع پر گفتگو شروع کی۔ اور ہاں ! طلباء کی ان دروس کے لیے کتنی تڑپ تھی! وہ کتنے مثبت طریقے سے اس میں مشغول ہوئے تھے۔ اور میں انہیں دیکھ کر کتنی خوشی محسوس کر رہا تھا ! جب اللہ نے اس عمل کے اختتام تک ان کی رہنمائی کی ۔ پھر وہ اپنے رہنما 'جہاد' ، جس کا نام آج بھی میرے ذہن میں ہے، کی قیادت میں جبل الاشرا فیہ ، عمان کی 'مسجد ابو درویش 'میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے گئے۔
اسی طرح، میرے ایک ہم جماعت، جو اپنی انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے باعث کافی عرصے سے مجھ سے دور تھے اور سوویت یونین میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، واپس آئے تو ان پر کمیونسٹ نظریات کا گہرا اثر تھا، یہاں تک کہ کمیونسٹ فکر کی دعوت بھی ساتھ لے کر آئے تھے ۔ مجھے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، اور ان کو میرے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ وہ مجھے اپنے والد کی دکان کے سامنے کے مصروف سبزی منڈی میں ملے۔ انہوں نے مجھے گرم جوشی سے گلے لگایا، پھر میرے خیالات کی گہرائی کو جانچنے کے لیے گفتگو شروع کی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، “میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔” میں نے کہا، “پوچھیں!” انہوں نے پوچھا، “کیا یہ سچ ہے کہ کائنات میں سات آسمان ہیں؟” میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں اپنے جواب پر نظرثانی کا حق محفوظ رکھتے ہوئے اس کے سوال کا جواب دوں گا۔ میں نے کہا، “اگر ہم ظاہری سوال کا جواب دینا چاہیں تو ہم کہیں گے: ہاں، کائنات میں سات آسمان اور سات زمینیں ہیں!” انہوں نے حیرت اور تعجب سے جواب دیا، “اور سات زمینیں بھی؟؟!!”
میں نے کہا، “میں نے ظاہری سوال کا جواب دے دیا ہے، لیکن چونکہ آپ نے اتنی حیرت ظاہر کی ہے، تو میں سوال کے گہرے پہلو پر بات کروں گا۔" انہوں نے پوچھا، "سوال کا گہرا پہلو کیا ہے؟"میں نے جواب دیا، "گہرا پہلو یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جس کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں۔ اگر آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں، تو میں آپ کے ساتھ بات جاری رکھوں گا تاکہ آپ کو اپنے جواب پر قائل کر سکوں۔ اگر آپ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے، تو میں عقل سے اس خالق کی موجودگی کو ثابت کروں گا، پھر میں آپ کو یہ دکھاؤں گا کہ ا نبیاء (علیہم السلام) کی ضرورت کیوں ہے، اور کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیجا، جن میں آخری نبی محمد (صلى الله عليه وسلم) ہیں۔ میں یہ بھی عقل سے ثابت کروں گا کہ محمد اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کے رسول ہیں، اور آخر میں، میں آپ کو عقل سے قائل کروں گا کہ قرآن اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کی طرف سے ہے۔ اس کے بعد، میں آپ سے کہوں گا: اللہ سبحانہ و تعالی اپنی عظیم الشان کتاب میں فرماتے ہیں،
(خَلَقَ سَبعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الأرْضِ مِثْلَهُنَّ)
" اس نے سات آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان کی طرح ۔"
اس مقام پر، آپ کے پاس اللہ کے الفاظ کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا، جوبلند و بالا ہے۔ اپنے خیالات کا انکشاف کرتے ہوئے، انہوں نے جواب دیا، "یہ اخوان المسلمون" کی جماعت کے افراد کا طریقہ نہیں ہے"—کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا کہ میں ان میں سے ہوں۔ میں نے کہا، "میں اخوان المسلمون جماعت سے وابستہ نہیں ہوں۔"
اس کے بعد، وہ ایک اور مسئلے کی طرف منتقل ہونا چاہتا تھا جسے کمیونسٹ اکثر اسلامی عقیدے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس نے مجھ سے کہا، “میں آپ سے ایک اور سوال کرنا چاہتا ہوں: جنگ جمل کو اس نام سے کیوں جانا جاتا ہے؟” میں نے جواب دیا، “کیا ہم پہلے سوال کو ختم کر چکے ہیں قبل اس کے کہ آپ دوسرا سوال کریں؟ ایسا لگتا ہے کہ آپ کی گفتگو مارکیٹ کی متنوع نوعیت سے متاثر ہے جہاں متنوع اقسام کی سبزیاں اور پھل ہیں۔ کیا یہ صرف آپ کا حق ہے کہ آپ سوالات پوچھتے رہیں جبکہ میں جواب دوں؟ کیوں نہ میں سوالات پوچھوں اور آپ جواب دیں؟ اس نے کہا، "بیشک، آپ کا حق ہے کہ آپ سوالات بھی کریں۔" میں نے کہا، " میں پوچھتا ہوں: جنگِ جمل کو یہ نام کیوں دیا گیا؟” اس نے جواب دیا، “یہ جنگ اس لیے کہلائی گئی کیونکہ عائشہ اونٹ پر سوار تھیں جب وہ معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ ، علی ابن ابی طالب کے خلاف لڑ رہی تھیں، اور وہ اپنے ذاتی انتقام کی خاطر یہ جنگ کر رہی تھیں، کیونکہ اُس وقت علی بن ابی طالب نے ان کے شوہر، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، کو واقعہ افک کے بعد طلاق دینے پر اکسایا تھا۔
میں نے اس سے کہا: "یہ موضوع آپ کے لیے کیوں اھم ہے؟" اس نے جواب دیا، "صحیح کون ہے، علی یا عائشہ؟ "
اگر عائشہ غلط تھیں تو پھر اسلام کا نصف باطل ہو جائے گا، کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: 'اپنے دین کا آدھا حصہ اس سرخ بالوں والی عورت سے لو'، جس کا اشارہ عائشہ کی طرف تھا۔ اور اگر علی غلط تھے تو پھر اسلام کا دوسرا نصف بھی باطل ہو جائے گا، کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: 'میں علم کا شہر ہوں، اور علی اس کا دروازہ ہے۔' اس صورت میں، ہم نہ تو علی سے اور نہ ہی عائشہ سے اپنے دین کو لے سکیں گے!'
میں نے جواب دیا ، "میرے دوست، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ آپ کے خیالات کی فکری بنیاد غلط اور ناقص ہے، اور آپ نے جو ذرائع معرکہِ جمل کے بارے میں معلومات کے لیے استعمال کیے ہیں وہ غیر معتبر اور ناقابل اعتماد ہیں۔ یہ بازار ایسے اہم فکری موضوعات پر بحث کرنے کے لیے مناسب جگہ نہیں ہے۔ وہ لوگ جو اپنی عقل کا احترام کرتے ہیں، اپنے خیالات کی قدر کرتے ہیں، اور خود کو عزت دیتے ہیں وہ بحث کے لیے ایک مخصوص وقت، جگہ اور بنیاد طے کرتے ہیں جو موضوع کی اہمیت اور حیثیت کے مطابق ہوں۔ وہ ایک نقطے سے دوسرے نقطے کی طرف نہیں بڑھتے جب تک کہ پہلے نقطے کا مکمل طور پر جائزہ نہ لیا جائے اور تمام فریقین اس پر اتفاق نہ کریں۔ اگر آپ یہ بحث جاری رکھنا چاہتے ہیں تو آئیے ہم ایک مخصوص وقت اور جگہ پر اتفاق کریں جہاں ہم دونوں اس بحث پرطے کردہ شرائط کی پابندی کرسکیں۔
میرے دوست نے بحث جاری رکھنے کے لیے ایک تاریخ مقرر کی، اور وہ ساتھ میں علاقے کے کمیونسٹ پارٹی کے نظریہ دان کو بھی لایا، جبکہ میں مقامی ذمہ دار کو ساتھ لے گیا۔ ہم نے ان سے پوچھا، "کیا آپ بولیں گے، یا ہم؟" انہوں نے جواب دیا، "آپ بولیں۔" اس پر مقامی ذمہ دارنے ایک عمدہ گفتگو کی۔ ان میں سے کسی نے بھی ایک لفظ نہ کہا، اور وہ ایسے غور سے سننے میں مشغول تھے جیسے ان کے سر وں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ مقامی سربراہ نے کہا، "ہم بحث کے لیے آئے ہیں، لیکچر دینے کے لیے نہیں۔ کیا آپ کے پاس ہمارے ساتھ شیئر کرنے کے لیے کوئی قیمتی خیالات ہیں؟" کمیونسٹ پارٹی کے نظریہ دان نے اپنی پائپ سے دھواں اڑاتے ہوئے کہا، "ہمارے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔" کچھ عرصے بعد، میں نے اپنے اس کمیونسٹ دوست کو جبل الاشرافیہ، عمان کی مسجد ابو درویش میں جمعہ کی نماز ادا کرتے دیکھا!
اے مومنو! ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، آپ اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔