دارالحکومت کے سابق پولیس کمانڈرڈال بابو نے حکومت کی انتہاپسندی کو روکنے کی پالیسی 'پریونٹ' (باز رجھنے) کی مخالفت کی اور کہا کہ اس نے ایک زہریلی شکل اختیار کرلی ہے، جسےبرطانیہ کے مسلمان شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا یہ تبصرہ سنڈے ٹیلی گراف کے اس اعلان کے ایک دن بعد سامنے آیا تھا جس میں سیکریٹری داخلہ تھریسامے نےانتہا پسندی کا مقابلہ کرنے والے قوانین کی مدت میں اضافے کا اعلان کیا تھا اور جس کا حزب اختلاف کے عدلیہ کے معاملات کے شیڈو وزیر صادق خان نے پُرجوش خیر مقدم کیا۔ یہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ "شدت پسندی " کا سب سے زیادہ مخالف ظاہر کرنے کے لئے اب سر کردہ پارٹیوں کے درمیان گویا جیسے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ شروع ہوگئی ہے۔
تاجی مصطفی ٰنے،جو برطانیہ میں حزب التحریر کے میڈیا کے نمائندے ہیں ،نے اس خبر پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ"یہ 'پریونٹ' کا قانون یقیناً ایک زہریلا نشان ہے۔ صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس کو غلط طور پر نافذ کیا گیا یا اس کے حوالے سے غلط فہمی ہوئی ہے ، بلکہ یہ اپنی بنیاد سے ہی ایک ناقص اور زہر آلود منصوبہ ہے ، کیونکہ اس کی بنیاد ایک باطل مفروضے پر رکھی گئی ہے اور وہ یہ کہ ایک انسان جتنا زیادہ اسلام پسند ہوگا ،اتنا ہی وہ اندرونی طور پر خطرےکا باعث ہو سکتا ہے"۔
"یہ قانون اس مفروضے پر نافذ کیا گیا کہ ایسے لوگ جو اسلامی اقدار کے حامل ہوتے ہیں یا ریاست کے نقطۂ نظر کے برعکس سیاسی رائے رکھتے ہیں، یہی لوگ مشکوک تصور کئے جائیں گے ،چنانچہ ریاست کو چینل پروگراموں کے ذریعے دوبارہ پروگرامنگ کی ضرورت ہے"۔
"اس قانون میں جان بوجھ کر خارجہ پالیسی کو کلی طور پر نظر انداز کیا گیا ، جب کہ برطا نیہ کے اندر تشدد کی کاروائیوں کا خارجہ پالیسی کے ساتھ تعلق ثابت شدہ ہے"۔
"یہ وہ پالیسی ہے جس میں سیاسی اور مذہبی عقائد سے نبٹنے کے لئے سیکورٹی وجوہات کو دلیل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اُس وقت ہی واضح ہوگیا تھا جب دسمبر 2014 میں پولیس چیف سر پیٹر فاہی نے کہا تھا کہ مجھے خدشہ ہے کہ پولیس "افکار کی نگرانی کرنے والی پولیس" میں تبدیل ہوجائے گی"۔
"یہ وہ پالیسی ہے جو اکثر جابر ریاستوں میں نظر آتی ہے۔ فاہی نے اپنے اسی تبصرے میں اشارہ کیا تھا کہ کیونکہ شدت پسندی کی باریکی سے تعریف نہیں کی گئی تھی لہٰذا پولیس اپنے طور پروضع کردہ مخصوص تعریفوں کی بنیاد پر کام کرتی رہی۔ اس نے مزید اپنے خدشات کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ یہی "پولیس اسٹیٹ" کی طرف بڑھنے کاراستہ ہے"۔
"دہشت گردی کی روک تھام کا موجودہ قانون اور سیکورٹی ایکٹ نے فکری پولیسنگ کا کام کرنے کی ذمہ داری استادوں ، نرسری ورکرز، صحت کے شعبےمیں کام کرنے والوں اور یونیورسٹیوں پر ڈالی ہے۔ یہ پالیسی 1950 کی میک کارتھیسیزم کی یاد دلاتی ہے، بلکہ مشرقی جرمنی کے سٹاسی قوانین کی یاد دلاتی ہے"۔
"حزب التحریر کو اس بات کا احساس ہے کہ مسلم کمیونٹی اور بالعموم پورے معاشرے کے سامنے ان ناپاک ، بے وقعت اور ناقص ہتھکنڈوں کو مسلسل بے نقاب کرنا واجب ہے ، اور ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم ایسا ہی کرتے رہیں گے جیسا کہ ہم ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں"۔
برطانیہ میں حزب التحریر کا میڈیا آفس