بسم الله الرحمن الرحيم
کیا یہ ممکن نہیں کہ نہر سویز اور رفح بارڈر کو اُمت کی افواج کے لیے کھولا جائے؟
(عربی سے ترجمہ)
خبر:
31 جولائی 2025 کو، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان میں کہا کہ (مصر کے سرکاری دورے کے دوران، پاکستانی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، جنرل ساحر شمشاد مرزا نے معزّز صدر عبدالفتاح السیسی کی موجودگی میں مصری قیادت سے ملاقات کی۔ بات چیت میں دو طرفہ عسکری تعاون، سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی اور خطے کی موجودہ صورتحال پر توجہ مرکوز رہی۔ دونوں جانب کے اعلیٰ حکام نے تربیت، مشترکہ مشقوں اور دفاعی تعاون کے شعبوں میں قائم عسکری تعلقات کو مزید وسعت دینے میں باہمی دلچسپی کا اظہار کیا۔ جامعہ ازہر کے شیخ، فضیلة الإمام الأکبر ڈاکٹر احمد محمد احمد الطیب سے ملاقات کے دوران، مصری محکمہ برائے مذہبی امور و اوقاف کے سربراہ نے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے مابین مذہبی و ثقافتی ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیا تاکہ رواداری، شمولیت کو فروغ دیا جا سکے اور دہشت گردی کی جڑوں کو ختم کیا جا سکے۔)
تبصرہ:
کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑی ضرورت اُس دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے جو یہودی وجود مسلمانوں پر غزہ میں روا رکھے ہوئے ہے؟ جب مصر کے مسلمانوں نے کھانے سے بھری بوتلیں بحیرۂ روم میں پھینکیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ان میں سے کچھ غزہ کے ساحل تک پہنچ جائیں، تو کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ نہر سویز کو پاکستانی بحریہ کے لیے کھولا جائے، تاکہ وہ امت کی بحری افواج کی قیادت کرتے ہوئے یہودی وجود کے خلاف بحری حملہ کریں؟ اور جب غزہ کے مسلمان رفح کی سرحد پر مدد کے لیے پکار رہے ہیں، تو کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان کی اسپیشل سروسز فورس، اس کے بکتر بند دستے اور پیادہ فوج امت کی افواج کی قیادت کرتے ہوئے یہودی وجود کے خلاف زمینی حملہ کریں؟ اور جب رفح کا آسمان یہودی وجود کے بموں کے دھوئیں اور شعلوں سے بھر چکا ہے، تو کیا وقت نہیں آ گیا کہ پاکستانی فضائیہ امت کے لڑاکا طیاروں کی قیادت کرتے ہوئے یہودی وجود پر فضائی حملہ کرے؟
اے امتِ اسلام! یہ جائز نہیں کہ غزہ کے مسلمانوں کو قتل، محاصرے، بھوک اور تباہی کا سامنا اکیلے کرنا پڑے جبکہ امت اور اس کی افواج، خصوصاً وہ جو مدد کرنے کی قدرت رکھتی ہیں، خاموش بیٹھے رہیں۔ خاموشی اور بے عملی ہرگز جائز نہیں، بلکہ حرکت میں آنا شرعی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے:
﴿وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾
"اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنا فرض ہے" (سورۃ الانفال، آیت 72)
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«فُكُّوا الْعَانِيَ، وَأَطْعِمُوا الْجَائِعَ، وَعُودُوا الْمَرِيضَ»
"قیدی کو آزاد کرو، بھوکے کو کھانا دو، مریض کی عیادت کرو"
اور طبرانی نے عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ»
"مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ نہ اُس پر ظلم کرتا ہے، اور نہ ہی اُسے دشمن کے حوالے کرتا ہے"۔
"لَا يُسْلِمُهُ" کا مطلب ہے: اسے دشمن کے حوالے نہ کرے، اُسے مدد سے محروم نہ رکھے، اُس کے بچوں کو مرتے دیکھ کر خاموش نہ بیٹھا رہے! امت کی افواج میں موجود اپنے تمام عزیزوں اور دوستوں سے رابطہ کریں، اور اُن سے کہ غزہ کی مدد کے لیے نکلنے، اور ہر اُس رکاوٹ کو دور کرنے کا مطالبہ کریں جو ان کے راستے میں حائل ہے۔
اے امتِ اسلام کے ع علماء اور شیوخ!
بےشک فلسطین ایک اسلامی سرزمین ہے... جسے عمرؓ نے فتح کیا، صلاح الدینؒ نے آزاد کیا، اور عبد الحمیدؒ نے محفوظ رکھا۔ یہ نہ تو فروخت کے لیے ہے، اور نہ ہی اسے اہلِ فلسطین اور اس کے غاصب دشمنوں کے درمیان تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کا حل دو ریاستیں بانانا نہیں ہے، بلکہ اس کا حل وہی ہے جو عزیز و جبار رب نے فرمایا، اور اس کا فرمایا ہوا حل برحق ہے:
﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ، وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾
"اور ان کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو، اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا، تم بھی انہیں وہاں سے نکال دو" (سورۃ البقرۃ، آیت 191)
بے شک وہ شرعی فریضہ جو ہر فریضے پر فوقیت رکھتا ہے، وہ ہے مظلوموں کی مدد اور اس غصب شدہ سرزمین کی آزادی۔ یہ فریضہ صرف عوام کا نہیں بلکہ مسلمانوں کی افواج کا ہے، کیونکہ وہی اہلِ اسلحہ اور اہلِ طاقت ہیں، اور وہی اس عظیم فریضے یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کے اہل ہیں ۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں:
(إذا دخل الكفار بلدة من بلاد المسلمين، أو حاصروا بلداً، صار الجهاد فرض عين على من يليه، ثم الأقرب فالأقرب)
"اگر کفار مسلمانوں کے کسی شہر میں داخل ہو جائیں یا اس کا محاصرہ کریں، تو جہاد اُن کے آس پاس کے لوگوں پر فرضِ عین ہو جاتا ہے، پھر جو اُن کے قریب ہوں اُن پر۔"
قرطبیؒ فرماتے ہیں:
(إذا تعين الجهاد، فلا يسوغ لأحد التخلف إلا لعذر ظاهر، ومن تخلف فقد أتى منكراً عظيماً)
"جب جہاد فرضِ عین بن جائے، تو کسی کو بغیر ظاہر عذر کے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں، اور جو پیچھے رہے وہ عظیم منکر کا مرتکب ہو۔"
ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:
(وإذا نزل العدو بساحَة بلد، أو استنفر الإمام الناس، تعيّن على الجميع الخروج، ولم يجز لأحد التخلف)
"جب دشمن کسی شہر میں اُتر آئے، یا امام لوگوں کو نکالنے کا حکم دے، تو سب پر نکلنا فرض ہو جاتا ہے، اور کسی کے لیے پیچھے رہنا جائز نہیں ہوتا۔"
ابن عابدینؒ اپنی حاشیہ (۳/۲۳۸) میں فرماتے ہیں،
(وفرض عين إن هجم العدو على ثغر من ثغور الإسلام فيصير فرض عين على من قرب منه، فأما من وراءهم ببعد من العدو فهو فرض كفاية إذا لم يحتج إليهم، فإن احتيج إليهم بأن عجز من كان بقرب العدو عن المقاومة مع العدو أو لم يعجزوا عنها ولكنهم تكاسلوا ولم يجاهدوا فإنه يفترض على من يليهم فرض عين كالصلاة والصوم لا يسعهم تركه، وثم وثم... إلى أن يفترض على جميع أهل الإسلام شرقاً وغرباً على هذا التدري)
"یہ فرضِ عین ہو جاتا ہے جب دشمن اسلام کے کسی سرحدی علاقے پر حملہ کرے، تو جو اس کے قریب ہیں ان پر فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ باقی لوگوں پر یہ فرضِ کفایہ ہے اگر اُن کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن اگر اُن کے قریب والے دشمن کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوں، یا وہ سستی کریں، تو ان کے بعد والوں پر بھی فرضِ عین ہو جاتا ہے، جیسے نماز اور روزہ، جسے چھوڑنا جائز نہیں۔ اور پھر اسی طرح باری باری سب اہلِ اسلام پر مشرق سے مغرب تک فرض ہو جاتا ہے۔"
کاسانیؒ اپنی تصنیف 'بدائع الصنائع' میں فرماتے ہیں:
(وإن ضعف أهل ثغر عن مقاومة الكفرة، وخيف عليهم من العدو، فعلى من وراءهم من المسلمين الأقرب فالأقرب أن ينفروا إليهم، وأن يمدوهم بالسلاح والكراع والمال؛ لما ذكرنا أنه فرض على الناس كلهم ممن هو من أهل الجهاد، لكن الفرض يسقط عنهم بحصول الكفاية بالبعض، فما لم يحصل لا يسقط)
"اگر سرحد کے لوگ کفار کے مقابلے میں کمزور پڑ جائیں، اور اُن پر دشمن کے غالب آنے کا اندیشہ ہو، تو پھر ان کے پیچھے والے مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مدد کو نکلیں، انہیں اسلحہ، سواری اور مال فراہم کریں؛ کیونکہ یہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے، مگر جب بعض کی طرف سے کفایت ہو جائے تو دوسروں سے ساقط ہو جاتا ہے، لیکن جب تک کفایت نہ ہو، ساقط نہیں ہوتا۔"
اے امتِ اسلام کی افواج کے افسران!
کسی ایسے حکم کا انتظار نہ کرو جو کبھی آنے والا نہیں، بلکہ اللہ کے حکم پر لبیک کہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ، وَيُخْزِهِمْ، وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ﴾
"ان سے جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں سے انہیں عذاب دے گا، انہیں رسوا کرے گا، تمہیں ان پر غلبہ دے گا اور مومنوں کے دلوں کو تسکین دے گا۔" (سورۃ التوبة، آیت 14)
اور جان لو کہ تم پر لازم ہے کہ ہر اُس رکاوٹ کو دور کرو جو تمہیں اس فریضے کی ادائیگی سے روکتی ہے، کیونکہ
"مَا لَا يَتِمُّ الْوَاجِبُ إِلَّا بِهِ فَهُوَ وَاجِبٌ"
یعنی جس چیز کے بغیر فرض کی تکمیل نہ ہوتی ہو، وہ چیز بھی فرض ہو جاتی ہے۔ پس ان حکومتوں کو اُکھاڑ پھینکو جو تم پر ننگ و عار لاتی ہیں، اور جو اللہ اور تمہارے دشمنوں کی حفاظت اور پشت پناہی کرتی ہیں۔ اور ان کی جگہ وہ ریاست قائم کرو جو اللہ کے لیے ہو، جو حق کے لیے افواج کو روانہ کرے، اور اہلِ حق کی نصرت کرے؛ یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر خلافتِ راشدہ۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے تحریر کردہ
مصعب عمیر –ولایہ پاکستان
Latest from
- شام کی سرزمین میں قابض یہودی وجود کی دراندازی...
- یہودی وجود کے ساتھ گیس کا معاہدہ،..
- اے مسلمانو! کیا تمہارے دلوں میں اب بھی ان رُوَيبضہ (نااہل و خائن) حکمرانوں کے لیے کوئی امید باقی ہے؟!
- جو قیادت کشمیر کے حصول کا سنہری موقع ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے ضائع کر دے،...
- حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس میں شعبہ خواتین نے ایک بین الاقوامی مہم کا آغاز کیا: