الثلاثاء، 25 صَفر 1447| 2025/08/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

امریکا شام سے کیا چاہتا ہے؟

 

(عربی سے ترجمہ)

 

تحریر: استاد عبد الحکیم عبد اللہ

 

مارچ 2011 میں شام کے انقلاب کے آغاز سے لے کر 8 دسمبر 2024 کو اسد کے دورِ حکومت کے خاتمے تک، امریکا کے شام سے متعلق اہداف واضح رہے ہیں، جو انقلاب کو سرحد پار برآمد ہونے سے روکنے اور شامی نظام کو گرنے نہ دینے، بلکہ اس کی مزید نکھار کر پیش کرنے پر مشتمل تھے۔ یہ اہداف اب تک تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ جہاں تک نظر آنے والی تبدیلیوں کا تعلق ہے تو وہ صرف ذرائع اور اسلوب کی حد تک محدود تھیں، جو درحقیقت اہداف کی خدمت کے لیے وجود میں لائے گئے تھے اور جب ان ذرائع اور اسالیب نے اپنا کردار کھو دیا تو انہیں تبدیل کرنا ضروری تھا۔ شام میں امریکا کے اثر و رسوخ کا مسئلہ زیر بحث تھا ہی نہیں کیونکہ بین الاقوامی کشمکش کا خاتمہ ہو چکا تھا اور ہر کوئی امریکی دائرہ کار میں تھا، سوائے کچھ خلل ڈالنے کی کوششوں کے، جو کہ کوئی کشمکش نہیں تھی۔ روس اور دیگر ممالک امریکی حکمتِ عملی کو نافذ کرنے کے لیے صرف پتے (کارڈز) اور آلات تھے۔

 

جیسے ہی امریکی نے اپنی پالیسی نرپ کی تو فورا یورپی یونین نے شام پر سے اپنی پابندیاں ہٹا لیں، جس میں مالیاتی اور توانائی کے شعبوں پر سے پابندیاں اٹھانا اور شامی سینٹرل بینک کو پابندیوں کی فہرست سے ہٹانا شامل تھا۔ روس میں، اس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ورشنین نے شام میں روسی فوجی اڈوں کی حیثیت کے بارے میں شامی حکومت کے ساتھ روس کے مذاکرات جاری رکھنے کی طرف اشارہ کیا۔ یہودی وجود کے وزیرِ خارجہ گیدعون ساعر نے أحمد الشرع اور ٹرمپ کی ملاقات کے بعد کہا کہ تل ابیب نئی شامی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، جو ٹرمپ کے لیے ایک مثبت پیغام ہے اور جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قابض یہودی وجود ٹرمپ کی سرپرستی میں شام کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف، باراک نے قابض یہودی وجود اور شام کے درمیان عدم جارحیت کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات کی تجویز پیش کی۔

 

اصل کشمکش تو امت اور پورے مغرب کے درمیان تھی، جس کی قیادت امریکا کر رہا ہے۔ کانگریس نے شامی جنگجوؤں کی مدد کے لیے لاکھوں ڈالر فراہم کیے جو اسد کے خلاف لڑ رہے تھے۔ امریکا نے شمال اور جنوب میں اپنے لیے دو کمانڈ سینٹر قائم کیے اور انقلابی تحریک کو ان سے جوڑ دیا۔ اس مقصد کے لیے بہت سے ممالک، تنظیموں اور افراد کو استعمال کیا گیا۔

 

شام مغربی ایشیا کے لیے بحیرہ روم پر ایک اہم گزرگاہ سمجھا جاتا ہے اور خلیج عرب کے علاقے اور یورپ کے درمیان خشکی اور سمندر کے ذریعے رابطے کا ذریعہ ہے۔ یہ خلیج اور ایران کے علاقے سے یورپ تک توانائی کی منتقلی کا ایک دروازہ ہے۔ شام کی جغرافیائی نوعیت ہموار ہے اور پہاڑوں جیسی قدرتی رکاوٹوں سے خالی ہے، لہذا شام میں تیل اور گیس کی پائپ لائنیں بنانا زیادہ آسان ہے اور ترکی کے مقابلے میں کم خرچ ہے۔ ترکی پہاڑی نوعیت کے جغرافیے کا حامل ہے اور یورپ تک توانائی کی منتقلی کا مرکز بننے کا خواہاں ہے۔ لہذا، شام مشرق وسطیٰ (ایران اور خلیج عرب کے علاقے) سے یورپ تک توانائی کے وسائل کی منتقلی کے لیے ایک قدرتی گزرگاہ اور پل کا کردار ادا کرتا ہے۔

 

علاوہ ازیں، شام اہم قدرتی گیس کے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خطہ ایک ایسا علاقہ ہے جس سے تاریخی، استعماری اور تہذیبی وابستگی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ اس کا اسلامی ماضی، اس کا کردار، اور یورپ کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے—اس کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حوالے سے بھی اس خطے کو ایک منفرد نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شام کی اہمیت کا سبب وہ روایات بھی ہیں جو اس کی فضیلت اور تبدیلی میں اس کے کردار کے بارے میں بیان ہوئی ہیں۔ لہٰذا، پورا مغرب شام کے علاقے کو ایک خاص اور الگ نظر سے دیکھتا ہے۔ اگرچہ تمام مسلم ممالک ایک ہی عقیدہ رکھتے ہیں لیکن شام کی سرزمین کچھ جدا خصوصیات کی حامل ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر، الریکہ نے شامی انقلاب میں گہری دلچسپی لی۔ اس کے علاوہ اس انقلاب کی نوعیت  عرب بہار کے انقلابات سے یکسر مختلف تھی، کیونکہ اس نے رسول اللہ ﷺ کا پرچم بلند کیا، اور اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کیا، اور اسلامی افکار رکھنے والی تحریکیں پیدا کیں۔ اور دنیا کے تمام ممالک سے مسلمانوں نے شام کے انقلاب کی مدد کے لیے دوڑ لگا دی۔

 

جب بشار کا زوال ہوا، تو امریکا نے نظام کو برقرار رکھنے کا ارادہ کیا، چاہے اس کے سربراہ کو تبدیل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ چنانچہ، یہ ذمہ داری ترکی کو سونپ دی گئی۔ اس سے پہلے بھی اسے شام میں ایک بڑا کردار دیا گیا تھا، یہاں تک کہ یہ ذمہ داری اس نہج پر پہنچ گئی کہ ترکی نے بعض ایسے افراد کا انتخاب کیا جنہیں امریکا اپنا دشمن کہتا تھا، بلکہ ان کے خلاف بین الاقوامی فیصلے اور مطالبات بھی جاری کیے گئے تھے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ترکی کی تیاری کافی عرصے سے جاری تھی اور ترکی اور الجولانی کے درمیان تعلقات کافی حد تک پرانے ہیں۔ ان کے درمیان تعلقات، عسکری حمایت اور انقلاب کے بعد ترک سرپرستی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ترکی کا کردار سب کو معلوم ہے، اور کوئی بھی اس سے نابلد نہیں ہے۔

 

بشار کے چلے جانے کے بعد، حالات بدل گئے اور واقعات تیزی سے رونما ہوئے، اور شام میں اندرونی اور بیرونی طور پر بہت سے اختلافات ظاہر ہوئے اور یہاں بلاشبہ راستے مختلف ہو گئے اور انقلاب کے سرپرستوں، بااثر امریکا اور ایک نئے کھلاڑی یعنی یہودی وجود کے منصوبے آپس میں متصادم ہو گئے، لیکن فیصلہ کن بات کا اختیار امریکا کے پاس ہی رہا۔ تو امریکا کیا چاہتا ہے؟

 

نئی انتظامیہ سے امریکا کے مطالبات متعدد اور کثیر ہیں، ان میں سے کچھ کا تعلق شام کے داخلی امور سے ہے اور کچھ کا تعلق اس کے خارجی امور سے ہے:

 

جہاں تک داخلی امور کا تعلق ہے تو، ان میں سر فہرست اسلام، آئین، شہری ریاست، حکومت و انتظامیہ میں اقلیتوں کا کردار اور دمشق کے ساتھ ان کا تعلق، حکومت کے نظام کی شکل، فیڈرل ازم، فوج کی تشکیل، انقلابیوں کا انضمام، ہتھیاروں پر کنٹرول اور اسے ریاست کے ہاتھ میں محدود کرنا، اور غیر ملکی جنگجوؤں کا مسئلہ اور ان میں سے بعض کو نکالنا، انہیں بے دخل کرنا اور فلسطینی جنگجوؤں کو جلا وطن کرنا شامل ہیں۔ وزارتِ دفاع نے اعلان کیا کہ: "حال ہی میں تشکیل دی گئی 84ویں ڈویژن میں 3500 غیر ملکی جنگجوؤں کا انضمام کیا گیا ہے"۔ امریکا کا موقف تبدیل ہو گیا، کیونکہ امریکی نمائندے باراک نے کہا کہ غیر ملکی جنگجوؤں کو باہر رکھنے کے بجائے انہیں ریاستی دائرے میں رکھنا بہتر ہے تاکہ وہ جہادی گروہوں میں شامل نہ ہوں۔

 

اسی طرح نجکاری، سرمایہ کاری اور امریکی کمپنیوں کا کردار، خاص طور پر تیل اور گیس کے میدان میں۔ ایسی میں شامی حکومت نے 29 مئی کو توانائی کے شعبے میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا ایک معاہدہ کیا۔ ان میں یو سی سی ہولڈنگ، پاور انٹرنیشنل، ارباکون ہولڈنگ (قطر)، اور کائلون جی ای ایس انرجی یاتیرملاری اور چینگز انرجی (ترکی) شامل تھے۔

 

جہاں تک خارجی مطالبات کا تعلق ہے، تو اس میں یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا، اس کے لیے خطرہ نہ بننا اور ابراہام معاہدوں کے ساتھ ہم آہنگی سے متعلق مطالبات شامل ہیں۔ الجزیرہ کے ایک مضمون جس کا عنوان ہے: امریکا نئے شام سے کیا چاہتا ہے؟ میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ: "تاہم، ٹرمپ اور الشرع کی ملاقات شام کے حوالے سے ٹرمپ کی واحد پیش رفت نہیں تھی، کیونکہ امریکی صدر نے شام پر سے امریکی پابندیاں بتدریج اٹھانے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے ان پابندیوں کو "وحشیانہ" اور "رکاوٹ" قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ "شام کے لیے دوبارہ اٹھ کھڑا ہونے کا وقت آ گیا ہے"۔ یہ اعلان دس سال سے زیادہ کی شدید پابندیوں کے بعد آیا ہے جنہوں نے شام کو عالمی مالیاتی نظام سے مکمل طور پر الگ تھلگ کر دیا تھا۔ اور یہ واضح ہے کہ واشنگٹن نے نئی شامی حکومت کے ساتھ ڈیل کرنے میں ایک نیا طریقہ اختیار کیا ہے، جس میں وہ تنہائی اور سزا کی پالیسی کو چھوڑ کر مشروط شمولیت اور محتاط حمایت کی پالیسی کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ امریکی حکام نے اس شرط پر دمشق کی عبوری حکومت کے ساتھ کام کرنے پر اپنی آمادگی ظاہر کی کہ شامی حکومت سیاسی حل کے راستے پر گامزن رہے اور بین الاقوامی مطالبات کا خیال رکھے۔"

 

ان متعدد اور کثیر مطالبات کے جواب میں، ہم دیکھتے ہیں کہ نئی انتظامیہ امریکا کے مطالبات کے ساتھ بڑی حد تک ہم آہنگ ہے، بلکہ اس کے لیے دوستانہ رویہ، قبولیت اور اطاعت دکھاتی ہے۔ اس نے یہود کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا، اور سویدا کے معاملے میں، اور اس سے پہلے غیر ملکی جنگجوؤں اور انقلاب کے سرپرستوں کے معاملے میں، اپنی ذلت آمیز اطاعت کا مظاہرہ کیا۔

 

خلاصہ کلام یہ کہ امریکہ، نظام کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا اور اس نے ایک ایجنٹ کو دوسرے ایجنٹ سے تبدیل کر دیا، تاکہ وہ ایسا کام کرے جو اس کا پیشرو بھی نہیں کر سکا۔ تو کیا انقلابی یہ ادراک رکھتے ہیں کہ وہ کس کے پیچھے جمع ہو رہے ہیں؟ اور کیا وہ شام میں الجولانی کے گروہ اور اس کے حمایتیوں کی جانب سے زمینی مجبوریوں، رخصت، صلح حدیبیہ اور دیگر پیش کردہ باتوں کے ذریعے کی جانے والی ہیرا پھیری اور فکری گمراہی کو سمجھتے ہیں؟

 

Last modified onپیر, 18 اگست 2025 21:27

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک