
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه 6)
(إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ)
"بیشک، اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کواس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے اپنے نفوس میں ہے ۔"
(سورۃ الرعد 13:11)
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو: , السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ اتنی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ چھٹی قسط ہے، جس کا عنوان ہے ؛" بیشک، اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کواس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے اپنے نفوس میں ہے"۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ چار پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒنے بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: " انسان کا رویہ اس کے تصورات کے ساتھ منسلک ہے۔ پس اگر ہم انسان کے پست رویے کو تبدیل کرکے اسے بلند رویے والا بنانا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے ہمیں اس کے تصورات (-conceptsمفاہیم) کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا : ( إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ) یعنی " بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کواس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے اپنے نفوس میں ہے"۔ ( سورۃ الرعد :11)
اور ہم اللہ کی مغفرت، بخشش، رضا اور جنت کی امید رکھتے ہوئے کہتے ہیں: بیشک، تبدیلی کے حوالے سے ،اللہ تعالیٰ کی ایک سنت (قانون الہیٰ) ہے، جو ہر مسلمان کو، ہر اس جماعت کو جو امت کی فلاح کے لیے کوشاں ہے، اور ہر اس تنظیم کوجو مسلمانوں اور اسلامی امت کی بدتر حالت کو بدلنے کے لیے کام کر رہی ہے، بلکہ پوری دنیا کو ، جو خلافتِ راشدہ کی عدم موجودگی اور کافر سرمایہ دارانہ ریاستوں کی بالادستی میں ہے، اُسے سمجھنا ضروری ہے ۔ تبدیلی کے لیئے اللہ کی سنت کو ہم سورۃ الرعد کی آیت نمبرگیارہ کی تفسیر سے سمجھ سکتے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ) " بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کواس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے اپنے نفوس میں ہے ۔ اور اگر اللہ کسی قوم کے لیے برائی کا ارادہ کر لے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا، اور نہ ہی اس کے مقابلے میں ان کا کوئی مددگار ہوگا۔"( سورۃ الرعد 13:11)۔ ہمیں اس مبارک آیت کی تفسیر کوبصیرت کے ساتھ اورگہرائی میں جا کر دیکھنا چاہیے تاکہ ہم اس کے حروف اور الفاظ پر روشنی ڈال سکیں اور اس کی تہوں میں موجود معانی کو اخذکر سکیں۔ (إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُمَا)" بیشک، اللہ نہیں بدلتا "، اور یہ کہ (حَتَّىٰ يُغَيِّرُ وا مَا) "جب تک وہ خود نہ بدلیں" یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تبدیلی کی دو اقسام ہیں: ایک تبدیلی، جو( قانون الہیٰ ) اللہ کی سنتوں میں شامل ہے، اور دوسری انسان کے ذریعےتبدیلی، جو لوگوں سے مطلوب ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان دونوں اقسام کی تبدیلی میں ہر ایک کے ساتھ 'مَا' (جو/ جو کچھ) کا لفظ آتا ہے، اصطلاح 'مَا' ، ایک نسبتی ضمیر ہے جس کا مطلب ہے 'جو /جو کچھ' اور یہ عمومیت پر دلالت کرتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہر تبدیلی کے ذکر میں اصطلاح ’مَا‘ کے بعد حرف’البَاء‘ منسلک ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ "بیشک، اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا" اور یہ بھی فرماتا ہے: حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ " جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے اپنے نفوس میں ہے "۔ تو کیا 'البَاء' کا معنی 'بِقَوْمٍ' ("کسی قوم میں") میں وہی ہے جو 'بِأَنفُسِهِمْ' ("ان کے اپنے نفوس میں ") میں ہے؟ اگر ہم ان دونوں سیاق و سباق میں 'البَاء' کے معنی کو صحیح طور پر سمجھ لیں، تو ہم اللہ کی طرف سے تبدیلی کے بارے میں سنت کو سمجھ جائیں گے۔
'بِقَوْمٍ' ("قوم میں") میں 'البَاء' کا کیا معنی ہے؟
اور 'بِأَنفُسِهِمْ' ("جو ان کے اپنے نفوس میں ") میں 'البَاء' کا کیا معنی ہے؟
’'بِقَوْمٍ‘میں ’البَاء‘ لگاؤ (تعلق) کے معنی کو ظاہر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہم کہتے ہیں: "الطفلُ أَمْسَكَ بِرِدَاءِ أُمِّهِ" (بچہ اپنی ماں کی چادر سے لٹک گیا)۔ یہاں 'البَاء' کا مطلب ہے تعلق، یعنی بچہ اس کے لباس سے چمٹ گیا۔ لہذا، جب اللہ فرماتا ہے: "إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ" ("بیشک، اللہ کسی قوم کی حالت کونہیں بدلتا") تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ یا اُن سے ، جڑی ہوئی حالت کو نہیں بدلتا۔
ایک قوم کی حالت میں اللہ کی طرف سے تبدیلی چار ممکنہ طریقوں سے ہو سکتی ہے:
پہلا: لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہونا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور شکر گزاری میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اس کے جواب میں، اللہ ان کی حالت کو ایک اچھی حالت سے بہتر حالت میں تبدیل کرے گا، جیسا کہ اس کے فرمان میں ہے: (وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ) "اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا "(سورۃ ابراہیم، 7)
اور اللہ کا یہ فرمان بھی ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ) "اور اگر ان بستیوں کے لوگوں نے ایمان لایا ہوتا اور اللہ سے ڈرتے رہے ہوتے تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل کرتے" (سورۃ الاعراف، 96)
دوسرا: اگر لوگ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہوں اور پھر فرمانبرداری سے نافرمانی کی طرف منتقل ہو جائیں، اور ایمان سے کفر کی طرف بڑھیں، تو اللہ ان کی حالت کو ایک اچھی حالت سے بُری حالت میں تبدیل کرے گا، جیسا کہ اللہ فرماتا ہے: (وَضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّهِ فَأَذَاقَهَا اللّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُواْ يَصْنَعُون ) "اللہ نے ایک بستی کی مثال دی جو امن و اطمینان میں تھی، اور اس کا رزق ہر جگہ سے وافر آتا تھا۔ لیکن انہوں نے اللہ کی نعمتوں کا شکر نہیں ادا کیا۔ تو اللہ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنایا، ان کے اعمال کی وجہ سے")سورۃ النحل، 112(
تیسرا: اگر لوگ اللہ تعالیٰ کے نافرمان ہوں اور پھر اپنی نافرمانی کو چھوڑ کر فرمانبرداری کی طرف لوٹ آئیں، اور کفر سے ایمان کی طرف آ جائیں، تو اللہ ان کی حالت کو بُری حالت سے اچھی حالت میں بدل دیتا ہے۔ یہ بات ایک حدیث قدسی میں واضح کی گئی ہے، جو ابو نعیم نے نقل کی ہے (کنز العمال، 44166)۔ عمیر بن عبد الملیک کہتے ہیں, علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے کوفہ کے منبر پر فرمایا: "میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی سوال کرتا، وہ ہمیشہ گفتگو کا آغاز مجھ سے کرتے تھے۔ جب میں کسی معاملے کے بارے میں پوچھتا تو وہ مجھے جواب دیتےتھے، اور جب وہ اپنے رب، عزت و جلال والے، کی بات کرتے تو وہ (حدیث قدسی )فرما تے: وَعِزَّتِي وَجَلالِي وَارْتِفَاعِي فَوْق عَرْشِي، مَا مِنْ أَهْلِ قَرْيَةٍ وَلا بَيْتٍ وَلا رَجُلٍ بِبَادِيَةٍ، كَانُوا عَلَى مَا كَرِهْتُ مِنْ مَعْصِيَتِي, ثُمَّ تَحَوَّلُوا عَنْهَا إِلَى مَا أَحْبَبْتُ مِنْ طَاعَتِي إِلا تَحَوَّلْتُ لَهُمْ عَمَّا يَكْرَهُونَ مِنْ عَذَابِي إِلَى مَا يُحِبُّونَ مِنْ رَحْمَتِي "اللہ کی عزت، جلال، اور عرش کی بلندی کی قسم، کوئی بھی گاؤں، گھر، یا صحرائی شخص جو نافرمانی کے اعمال میں مشغول ہو، پھر اس نافرمانی سے توبہ کرکے میری پسند کی اطاعت کی طرف لوٹ آئے، تو میں ان کی حالت کو ناپسندیدہ سزا سے پسندیدہ رحمت میں بدل دوں گا"
چوتھا: اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہے ہیں اور پھر اپنی نافرمانی میں اضافہ کرتے ہیں، (ہم ایسی حالت سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں)تو اللہ ان کی حالت کو بُری حالت سے اور بھی بُری حالت میں بدل دے گا، اس امید کے ساتھ کہ وہ اس کی اطاعت کی طرف لوٹ آئیں۔ یہ اللہ کی پہلے ذکر کردہ حدیث قدسی کے بیان کے مطابق ہے: وَمَا مِنْ أَهْلِ قَرْيَةٍ وَلا بَيْتٍ وَلا رَجُلٍ بِبَادِيَةٍ، كَانُوا عَلَى مَا أَحْبَبْتُ مِنْ طَاعَتِي, ثُمَّ تَحَوَّلُوا عَنْهَا إِلَى مَا كَرِهْتُ مِنْ مَعْصِيَتِي، إِلا تَحَوَّلْتُ لَهُمْ عَمَّا يُحِبُّونَ مِنْ رَحْمَتِي إِلَى مَا يَكْرَهُونَ مِنْ عَذَابِي " کوئی گاؤں، گھر یا صحرا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو میری اطاعت میں جس چیز کو پسند کرتا تھا اس میں مشغول ہو، پھر اس سے منہ موڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو جس نافرمانی کو میں ناپسند کرتا ہوں، تو میں ان کی حالت کو ان کی پسندیدہ رحمت سے ان کی ناپسندیدہ سزا میں بدل دوں گا "
یہ اللہ کے اس فرمان کے ساتھ بھی مطابقت رکھتا ہے: وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ''اور ہم ان کو بڑے عذاب سے پہلے تھوڑا سا عذاب ضرو ر چکھائیں گے، تاکہ وہ (ایمان کی طرف) لوٹ آئیں۔'' (سورۃ السجدہ، 21)
یہ تبدیلی الٰہی ہے جو اللہ کی سنت کا حصہ ہے، (إنَّ اللَّه لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ) (بیشک، اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا)۔ اور جہاں تک انسانی تبدیلی کا تعلق ہے، جو لوگوں سے مطلوب ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا، (حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنفُسِهِمْ) (جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے اپنے نفوس میں ہے)؛ یہ وہ تبدیلی ہے جسے ایک گروہ یا تنظیم کو لازم اپنانا چاہیے جو مسلمانوں کی بحالی اور انہیں اس بدتراور پست صورتحال سے نکال کر بلند کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ حالت اللہ سبحانہ وتعالی ، کائنات کے رب کو پسند آئے اور منظور ہو۔
مطلوبہ تبدیلی حاصل کرنے کے لیے، ہمیں "بِأ" کی اصطلاح کا معنی سمجھنے پر غور کرنا چاہیے جو کہ " بِأَنفُسِهِمْ " کے ساتھ ہے۔ یہاں "بِأ" کا مطلب ہے 'داخلی' یا 'اندر'۔ مثلاً، ہم کہتے ہیں: " آدمی کمرے میں ہے "یعنی وہ اس میں موجود ہے۔ " الرَّجُلُ بِالغُرفَةِ أو فِيهَا " (آدمی کمرے میں ہے)۔ تو اللہ فرماتا ہے، "حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنفُسِهِمْ" کا مطلب ہے کہ "جب تک وہ اس چیز کو تبدیل نہ کریں جو ان کے اندر ہے" ۔
توانسانی نفوس میں کیا تبدیلی آنی چاہیے تاکہ اللہ ان کی حالت کو بہتر اور زیادہ پسندیدہ بنادے ؟
جو لوگ تبدیلی اور ترقی کی تلاش میں ہیں، انہیں ایک مسلم فرد کی شخصیت کے دو اہم پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے: پہلا پہلو: اسلامی ذہن سازی (اسلامی عقلیہ) یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ان افراد کے خیالات، معیارات، اور عقائد پر توجہ دی جائے۔
دوسرا پہلو: اسلامی نفسیات کی تعمیر(اسلامی نفسیہ) یہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ان افراد کے جذبات اور احساسات پر دھیان دیا جائے۔
اسکامقصد یہ ہے کہ اسلامی شخصیات کو اسلامی عقلیہ کے ساتھ تعمیر کیا جائے: یعنی اسلامی فکر کے علاوہ کسی بھی فکر کو مسترد کرنا، اور اسلامی نظام کے علاوہ کسی بھی نظام کو مسترد کرنا۔ مزید یہ کہ ان شخصیات کی نفسیہ بھی اسلامی ہونی چاہیے: انہیں وہی پسند ہو جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے، اور وہ ناپسند ہو جو اللہ اور اس کے رسول کو ناپسند ہے۔ ان کی وفاداری صرف اللہ، اس کے رسول، اور مومنوں کی جماعت کے لیے ہونی چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنُونَ حِتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَينَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)
"آپ کے رب کی قسم، یہ لوگ مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں ۔" (سورہ النساء65 )
اے مومنو! ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، آپ اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
حاشیہ: تبدیلی کے لیئے اللہ کی سنت:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ﴾
" بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کواس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے اپنے نفوس میں ہے"۔
( سورۃ الرعد :11)
یہ آیت تبدیلی کے لیئے اللہ کی سنت کو بیان کرتی ہے، جسے ہر مسلمان کو سمجھنا چاہیے۔ یہ ان تمام گروہوں کے لیے بھی اہم ہے جو امت کو بلند کرنے اور مسلمانوں کی اس بدحال حقیقت کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کا سامنا پوری اسلامی امت کر رہی ہے، اور جس کا اثر پوری دنیا پر بھی ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے، آئیے ہم اس خاکے پر غور کریں:
اللہ کی طرف سے تبدیلی :
لوگوں سے جڑی ہوئی حالتیں :
1-ایک اچھی حالت سے مزید بہتر حالت میں۔
2- ایک اچھی حالت سے ایک بدتر حالت میں۔
3-ایک بُری حالت سے ایک بہتر حالت میں۔
4-ایک بُری حالت سے مزید بدتر حالت میں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰـكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
"اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑلیا۔"( سورۃ الاعراف96 )
حرف "الباء"- یہ "داخلی "یا "اندر" کےتعلق اور وابستگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ لوگوں (افراد) کی طرف سے تبدیلی: یہ اس بات پر توجہ دیتا ہے کہ لوگوں کے نفوس کے اندر کیا موجود ہے،
ذہنی پہلو: عقائد ،خیالات و تصورات (concepts) ، معیارات ، اور یقین(conviction) [نظام]۔
نفسیاتی پہلو: جذبات اور احساسات۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
: فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنُونَ حِتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَينَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
"آپ کے رب کی قسم، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں ۔" (سورہ النساء65 )
بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام - استاد محمد احمد النادیـ