
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه 5)
تَصَوُّرات کی تشکیل اور رویے میں تبدیلی کےلیے فکر کا کردار
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ پانچویں قسط ہے، جس کا عنوان " تَصَوُّرات کی تشکیل اور رویے میں تبدیلی کےلیے فکر کا کردار " ہے۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ چار پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒ نے بیان کی ہے۔
نبہانیؒ نے فرمایا، ''انسان اپنی اس فکر کی بنیاد پر نشاۃ ثانیہ ( نہضہ) حاصل کرتا ہے، جو وہ حیات ، کائنات، اور بنی نوع انسان کے بارے میں، اوراس دنیاوی زندگی سے قبل اور بعدسے اِن تمام کے تعلق ، کے بارے میں رکھتا ہے۔چنانچہ نشاط ثانیہ (نہضہ) کے لیے انسان کی موجوہ فکر میں جامع اور بنیادی تبدیلی لانا اور ا س کی جگہ ایک دوسری فکر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے ۔کیونکہ فکر ہی وہ چیز ہے جو اشیاء کے بارے میں تصورات پیدا کرتی ہےاور ان تصورات کو ایک مرکز پر جمع کرتی ہے ۔انسان زندگی کے بارے میں اپنے تصورات کے مطابق ہی اپنے رویے کو ڈھالتا ہے۔ پس اگر انسان ایک شخص کےمتعلق محبت کے تصورات رکھتا ہے تو اس کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح جس شخص کے بارے میں وہ نفرت کے تصورات رکھتا ہے ، اس کے ساتھ سلوک بھی اُسی قِسم کا کرتاہے۔ اورجس شخص کو وہ نہیں جانتااور اس کے بارے میں کوئی تصورات نہیں رکھتاتو انسان اس کے ساتھ اسی قسم کا رویہ رکھے گا۔"
اللہ سبحانہ وتعالی سے مغفرت، رحمت، رضامندی اور جنت کی امید رکھتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ : اس کتاب میں ہمارے لیے دیے گئے پیغام کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے، ہمیں پچھلے پیراگراف میں ذکر کردہ کچھ اصطلاحات کے معانی کو سمجھنا ہوگا۔
نہضہ( نشاط ثانیہ)، جیسا کہ ہم نے وضاحت کیا ہے، رویے میں ایک فکری بلندی کو کہتے ہیں۔جہاں تک فکر (سوچ) کا تعلق ہے، الفِكْرُ هُوَ حُكْمٌ عَلَى وَاقِعٍ "فکر حقیقت پر ایک فیصلہ ہوتاہے۔" بنیادی فکر (فکرِ اساسی) وہ فکر ہے جس سے پہلے کوئی اور فکر نہ ہو؛ یہ وہ فکر ہے جو عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے۔ جامع فکر (فکرِ شمولی) وہ فکر ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں جیسے سماجی، سیاسی، اقتصادی اور دیگر معاملات کو محیط کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ فکر ہی اشیاء کے بارے میں تصورات (concepts) پیدا کرتی ہے۔ تصورات(concepts)، افکار کا مفہوم ہوتے ہیں، الفاظ کے محض لغوی معنی نہیں۔ . افکار پر فیصلہ عقیدہ کے نقطہ نظر سے اخذ کیا جانا چاہیے۔ کسی فکر کو تصور (concept)ماننے کے لیے تین شرائط پوری ہونی چاہئیں: پہلی شرط یہ کہ فکر حقیقت کے ادراک پر مبنی ہو۔ دوسری شرط یہ کہ فکر تصدیق شدہ ہو۔ اور تیسری شرط یہ کہ انسان کے رویےسے فکر کا تعلق ضرور ہونا چاہیے۔
جیسا کہ کہا گیا ہے کہ تصور واضح ہو جاتا ہے ، مثال کے طور پر اگر ہم ایک پلیٹ پر "جلتا ہوا انگارہ" اور "ایک کھجور" رکھ کر ایک چھوٹے بچے کو پیش کریں اور کہیں، "یہ جلتا ہوا انگارہ ہے جو جلاتا اور تکلیف دیتا ہے،" اور "یہ کھجور ہے جو تمہارے جسم کو غذائیت پہنچاتی ہے،" اور پھر اسے چننے کی اجازت دیں، تو ممکن ہے کہ اس کا ہاتھ پہلے انگارے کی طرف بڑھے۔ لیکن جیسے ہی اس کا ہاتھ انگارے کے قریب پہنچے اور وہ جلنے کا احساس کرے، وہ فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لے گا۔ اگر ہم اسے دوبارہ انگارہ پیش کریں، تو وہ اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھائے گا بلکہ جلدی سے پیچھے ہٹ جائے گا تاکہ اس سے بچ سکے۔ کیا ہوا؟ بچے کے رویے میں ایک دم سے اس قدر تبدیلی کیسے آ گئی؟ کیسے وہ انگارے کی طرف بڑھنے کے بجائے اس سے دور ہو گیا؟ ہم نے اسے کہا تھا، "یہ جلتا ہوا انگارہ ہے جو جلاتا اور تکلیف دیتا ہے۔" یہ بیان ابتدا میں محض ایک فکر تھی جسے بچے نے نہیں سمجھا۔ پھر اس نے اس کی حقیقت کو سمجھا(اس کا ادراک کیا)، اس کی تصدیق کی، اور پھر اس سمجھ کا تعلق اپنے رویے سے جوڑ دیا۔صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) اسلام کے افکار کو رسول اللہ ﷺ سے حاصل کرتے تھے، اور وہ افکار مضبوطی کی بنا پر ان کے لیے تصورات (concepts)،میں بدل جاتے تھے۔ وہ ان سے دوزخ کی آگ کے بارے میں بات کرتے، اور وہ اس کی گرمی سے پناہ مانگتے جیسے کہ وہ ان کے سامنے ہو۔ وہ ان سے جنت کے بارے میں بات کرتے جیسے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہوں، یہاں تک کہ ایک صحابی نے کہا، إِنِّي لأجِدُ رِيحَهَا يَا رَسُولَ اللهِ "مجھے اس کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے، یا رسول اللہ!" آئیے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی زندگیوں سے ایک اور مثال پر غور کرتے ہیں تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ رویے کی تبدیلی کا تعلق زندگی کے بارے میں تصورات (concepts)کی تبدیلی سے ہوتا ہے۔ کسی تصور (concepts)کے بدلنے سے انسان کا رویہ ایک دم سے بالکل اس کے الٹ ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ ایک سو اسی ڈگری کا فرق آ سکتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) جو اسلام سے پہلے ایک مضبوط اور طاقتور شخص تھے، اور ایک وقت میں رسول اللہ ﷺ کو تلوار سے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، بعد میں اپنے ایمان کی طاقت کے ساتھ وہی تلوار اسلام کی حفاظت اور فروغ کے لیے استعمال کرنے لگے۔
حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) اپنے گھر سے نکلے، تلوار سے مسلح ہو کر رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے جا رہے تھے۔ راستے میں انہیں نعیم بن عبداللہ ملے، جو ان مسلمانوں میں سے تھے جنہوں نے اپنا اسلام چھپا رکھا تھا۔ نعیم نے ان کا راستہ روکا اور پوچھا: "اے عمر! کہاں جا رہے ہو؟" حضرت عمر نے انتہائی سنجیدگی اور پختہ عزم کے ساتھ جواب دیا، أُرِيدُ مُحَمَّداً، هَذَا الصَّابِئَ، الَّذِي فَرَّقَ أمْرَ قُرَيشٍ، وَسَفَّهَ أحْلامَهَا، وَعَابَ دِينَهَا، وَسَبَّ آلِهَتَهَا؛ فَأقتُلَهُ "میں محمد، کاہن (نعوذ باللہ ) کو تلاش کر رہا ہوں، جو قریش کے معاملے کو تقسیم کر رہا ہے، ان کے خوابوں کا مذاق اڑا رہا ہے، ان کے دین کو عیب دار کہہ رہا ہے، اور ان کے معبودوں کو گالیاں دے رہا ہے، تاکہ اسے قتل کر سکوں۔"
عمر بن خطاب کے بیان کو سن کر نعیم خوف اور گھبراہٹ میں مبتلا ہو گئے، کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے بڑا خطرہ دیکھا۔ نعیم نے دھمکی دیتے ہوئے کہا، وَاللهِ لَقَدْ غَرَّتْكَ نَفسُكَ مِنْ نَفْسِكَ. يَا عُمَرُ؛ أتَرَى بَنِي عَبدِ مَنَافٍ تَارِكِيكَ تَمْشِي عَلَى الأرضِ وَقَدْ قَتَلْتَ مُحَمَّداً؟
"اللہ کی قسم، تمہارے اپنے نفس نے تمہیں دھوکہ دیا ہے۔ اے عمر، کیا تم سمجھتے ہو کہ بنو عبد مناف تمہیں زمین پر چلنے دیں گے جب تم نے محمد کو قتل کر دیا ہو؟" پھر انہوں نے مزید کہا، أفَلا تَرجِعُ إِلَى أهْلِ بَيتِكَ فَتُقَيِّمَ أمْرَهُمْ؟ "کیوں نہ تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جا کر ان کے معاملات کو درست کرو؟"
عمر نے پریشانی میں پوچھا: أيَّ أهْلِ بَيتِي؟ "کون سے گھر والے؟" نعیم نے جواب دیا، ابنُ عَمِّكَ سَعِيدُ بنُ زَيدِ بنِ عَمْروٍ، وَأُختُكَ فَاطِمَةُ بِنْتُ الخَطَّابِ، فَقَدْ وَاللهِ أسْلَمَا وَتَابَعَا مُحَمَّداً عَلَى دِينِهِ؛ فَعَلَيكَ بِهِمَا "تمہارا چچا زاد بھائی سعید بن زید بن عمرو اور تمہاری بہن فاطمہ بنت خطاب، یہ دونوں اللہ کی قسم اسلام قبول کر چکے ہیں اور محمد کے دین پر چل رہے ہیں، تو تمہیں ان سے نمٹنا چاہیے۔"
عمر بن خطاب شدید غصے سے بھرے ہوئے تھے ، اپنے اصل ارادے کو بھول گئے۔ وہ جلدی سے اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ اندر داخل ہونے سے پہلے، انہیں کچھ سرگوشیاں اور عجیب آوازیں سنائی دیں۔ انہوں نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا اور بلند آواز میں پکارا، "دروازہ کھولو!" خباب فوراً چھپ گئے اور سعید نے دروازہ کھولا۔ عمر غصے سے بھرے ہوئے اندر داخل ہوئے، ان کی آنکھیں غصے سے دہک رہی تھیں۔ انہوں نے بغیر کسی اجازت کے پوچھا، مَا هَذِهِ الهَمْهَمَةُ الَّتِي سَمِعْتُ؟ "یہ سرگوشیاں کیسی ہیں جو میں نے سنی ہیں؟"
دونوں نے جواب دیا، مَا سَمِعْتَ شَيئاً، "آپ نے کچھ نہیں سنا۔" عمر نے اصرار کرتے ہوئے کہا،
وَاللهِ لَقَدْ أُخْبِرْتُ أنكُمَا تَابَعتُمَا مُحَمَّداً عَلَى دِينِهِ "اللہ کی قسم، مجھے خبر دی گئی ہے کہ تم دونوں نے محمد کے دین کی پیروی اختیار کرلی ہے۔" پھر انہوں نے سعید کو جسمانی طور پر مارنا شروع کیا۔ اس لمحے، سعید کی وفادار بیوی، فاطمہ، نے اپنے شوہر کا دفاع کیا۔ وہ عمر اور سعید کے درمیان آ گئیں اور عمر کو دور کرنے کی کوشش کی۔ شدید غصے کی حالت میں، عمر نے اپنی بہن پر حملہ کیا اور انہیں ایک زور دار ضرب لگائی جس سے ان کے سر سے خون بہنے لگا۔
سعید بن زید نے واضح چیلنج کے انداز میں عمر کا سامنا کیا اور کہا، نَعَمْ، قَدْ أَسْلَمْنَا وَآمَنَّا بِاللهِ وَرَسُولِهِ، فَاصنَعْ مَا بَدَا لَكَ "ہاں، ہم نے اسلام قبول کیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں، تم جو چاہو کر لو۔"
یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ عمر کی بہن فاطمہ، جو ایک کمزور عورت تھیں، جرأت مندی سے اپنے بھائی عمر کے سامنے کھڑی ہو گئیں اور اُس کا چہرہ پکڑکر کہا: ، وَقَدْ كَانَ ذَلِكَ عَلَى رَغْمِ أنفِكَ يَا عُمَرُ ،"اور یہ سب کچھ تمہاری ناپسندیدگی کے باوجود ہوا ہے، اے عمر!"
عمر حیران رہ گئے۔ یہ کیا ہو رہا تھا؟ کس چیز نے انہیں اس قدر دلیر بنادیا تھا؟ اپنی طاقت اور رُعب کے باوجود عمر اس عورت کے سامنے اپنے آپ کوکمزور محسوس کررہے تھے، گویا وہ ان کے سامنے ایک مضبوط پہاڑ بن گئی تھیں۔
اس کے باوجود، عمر نے کہا، فَاستَحْيَيْتُ حِينَ رَأيتُ الدِّمَاءَ. وَجَلَسْتُ، ثُمَّ قُلْتُ: أرُونِي هَذَا الكِتَابَ، "جب میں نے خون دیکھا تو مجھے شرم محسوس ہوئی۔ میں بیٹھ گیا اور پھر کہا، "مجھے وہ کتاب دکھاؤ۔"
دوسرا تکلیف دہ جھٹکا اس وقت لگا جب ان کی بہن فاطمہ نے ان سے کہا، يَا أخِي، إِنَّكَ عَلَى شِركِكَ نَجِسٌ، وَلا يَمَسُّ هذه الصَّحِيفَةَ إِلًّا طَاهِرٌ "اے میرے بھائی، تم اپنے کفر میں ناپاک ہو، اور اس صحیفے کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔"
عمر سب کی توقعات کے برعکس، غیر معمولی سکون کے ساتھ وضو کرنے گئے۔ جب انہوں نے وضو مکمل کیا، تو فاطمہ نے انہیں صحیفہ دیا تاکہ وہ اسے پڑھ سکیں۔ عمر نے اپنے دل، ذہن، اور زبان سے پڑھنا شروع کیا، بِسمِ اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِيمِ ،"اللہ کے نام سے، جو بہت مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔" پھر انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "یہ عظیم اور پاکیزہ نام ہیں۔" پھر انہوں نے مزید پڑھنا شروع کیا۔
(طه (١) مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ (٢) إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ (٣) تَنْزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى(٤) الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ(٥) لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَىٰ(٦) وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى(٧) اللَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ).(طه1- 8)
"طٰہٰ (1) ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ (2) بلکہ صرف ایک نصیحت کے طور پر ان لوگوں کے لیے جو ڈرتے ہیں (3) یہ اس کی طرف سے نازل کی گئی ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا (4) وہ نہایت مہربان ہے، جو عرش پر قائم ہے (5) اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے (6) اور اگر تم بلند آواز میں بات کرو تو وہ اس راز کو بھی جانتا ہے جو چھپا ہوا ہے اور جو اس سے بھی زیادہ مخفی ہے (7) اللہ! اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اسی کے لئے سب سے خوبصورت نام ہیں۔" (طٰہٰ 1-8)
عمر (رضی اللہ عنہ) ہل کر رہ گئے اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے عاجز اور اپنے آپ کو ٹوٹاہوا محسوس کرنے لگے۔ جب ایمان کی حرارت نے ان کے دل کو چھو لیا، تو انہوں نے کہا: فَعَظُمَتْ فِي صَدْرِي، فَقُلْتُ: مَا أَحْسَنَ هَذَا الكَلامَ! وَمَا أَجْمَلَهُ! "یہ کلام میرے سینے میں بہت عظیم محسوس ہوا۔ میں نے کہا: یہ کلام کتنا خوبصورت ہے! یہ کتنا دلکش ہے!"
یوں عمر (رضی اللہ عنہ) کی حالت یکسر بدل گئی۔ یہ انسانی تاریخ کے عظیم ترین لمحات میں سے ایک تھا، وہ لمحہ جب ایک شخص جو کبھی بتوں کی عبادت کرتا تھا اور مؤمنوں کو اذیت دیتا تھا، ایمان کے عظیم سپاہیوں میں سے ایک بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے عمر (رضی اللہ عنہ) کو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا بنایا اور ایک ایسا انسان جس نے اپنی ہر حرکت، ہر سکوت، ہر لفظ اور ہر سرگوشی میں اللہ کا ادراک کیا۔
صرف آٹھ آیات نے عمر (رضی اللہ عنہ) کی اس عظیم اسلامی داستان کو جنم دیا ۔
جب خباب نے عمر (رضی اللہ عنہ) کو یہ کہتے سنا، یہ کلام کتنا خوبصورت ہے! یہ کتنا دلکش ہے! تو وہ اپنے پوشیدہ مقام سے باہر آئے اور کہا: يَا عُمَرُ، وَاللهِ إِنِّي لأرْجُو أنْ يَكُونَ اللهُ قَدْ خَصَّكَ بِدَعوَةِ نَبِيِّهِ، فَإِنِّي سَمِعتُهُ أَمْسِ وَهُوَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ أَيِّدِ الإِسْلاَمَ بِأَبِي الْحَكَمِ بْنِ هِشَامٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ" اے عمر، اللہ کی قسم، میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے نبی ﷺ کی دعا میں منتخب کیا ہے۔ میں نے نبی ﷺ کوکل یہ کہتے سنا، "اے اللہ ! اسلام کی مدد ابو جہل ابن ہشام یا عمر ابن الخطاب کے ذریعے کر ۔ "!
عمر (رضی اللہ عنہ) نے پھر محمد ﷺ کے پیغام کو قبول کیا اور پوچھا، فَأينَ رَسُولُ اللهِ؟ "رسول اللہ کہاں ہیں؟"
خباب نے جواب دیا: إِنَّهُ فِي دَارِ الأرْقَمِ"وہ دار الأرقم میں ہیں" ۔
عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنی تلوار لی اور اسے اپنے گرد لپیٹ لیا، اور ایک بار پھر رسول اللہ ﷺ کی طرف روانہ ہوئے، لیکن اس بار وہ ایک مومن دل کے ساتھ آئے۔ جب وہ دار الأرقم کے دروازے پر پہنچے، عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا ، اندر رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب موجود تھے، تو ایک صحابی نے دروازے کے سوراخ سے جھانکا اور عمر کو دیکھا، پھر جلدی سے واپس رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا، يَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا عُمَرُ بنُ الخَطَّابِ مُتَوَشِّحاً السَّيف "اے رسول اللہ ﷺ، یہ عمر بن الخطاب ہیں، جنہوں نے اپنی کمر میں تلوار باندھی ہوئی ہے!
اس وقت، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دار الأرقم میں چالیس صحابہ (رضی اللہ عنہم) موجود تھے۔ اس تعداد کے باوجود، رسول اللہ ﷺ نے ان تمام صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے آگے بڑھ کر دفاع کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس نازک موقع پر، حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، جنہوں نے صرف تین دن پہلے اسلام قبول کیا تھا، مضبوطی سے کھڑے ہوئے اور کہا، فَأْذَنْ لَهُ، فَإِنْ كَانَ جَاءَ يُرِيدُ خَيْراً بَذَلْنَاهُ لَهُ، وَإِنْ كَانَ جَاءَ يُرِيدُ شَرّاً قَتَلْنَاهُ بِسَيْفِهِ "اسے اندر آنے دو۔ اگر وہ بھلا ئی کی تلاش میں آیا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے، اور اگر وہ برا کرنے آیا ہے تو ہم اس کی اپنی تلوار سے ہی اس کا کام تمام کردیں گے۔"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،ائْذَنُوا لَهُ، اسے اندر آنے دو"، اور عمر کو برکتوں والے گھر، الأرقم ابن ابی الأرقم کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ پھر انہیں ایک کمرے کی طرف رہنمائی کی گئی، اور رسول اللہ ﷺ ان کے پاس گئے، ان کی چادر کو مضبوطی سے پکڑ لیا، اور انہیں اپنی طرف کھینچتے ہوئے شدت سے فرمایا،
مَا جَاءَ بِكَ يَابْنَ الخَطَّابِ؟ فَوَاللهِ مَا أرَى أنْ تَنتَهِيَ حَتَّى يُنْزِلَ اللهُ بِكَ قَارِعَةً
"تم یہاں کیوں آئے ہو، اے ابن الخطاب؟ اللہ کی قسم، مجھے نہیں لگتا کہ تم رک جاؤ گے جب تک کہ اللہ تم پر کوئی مصیبت نازل نہ کر دے۔" اس پر عمر (رضی اللہ عنہ) نے ایک نرم آواز میں جواب دیا،
يَا رَسُولَ اللهِ، جِئْتُ لأُومِنَ بِاللهِ وَبِرَسُولِهِ، وَبِمَا جَاءَ مِنْ عِندِ اللهِ
"اے اللہ کے رسول، میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اس پر ایمان لانے آیا ہوں۔" یوں، عمر کا برتاؤ کفر کی انتہاؤں سے ایمان کی بلندیوں کی طرف تبدیل ہوگیا!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں ریاست ِ خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔