
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه 8 )
"انسانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ"
(العقدة الكبرى)
)ﺗﺮﺟﻤﮧ(
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ آٹھویں قسط ہے، جس کا عنوان " انسانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ (عقدة الكبرى)" ہے۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ 6 پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒنے بیان کی ہے۔
وہ کہتے ہے:" ان اشیاء کے بارے میں مکمل نقطہء نظر دینا ہی انسان کے سب سے بڑے سوال (یعنی عُقْدَةُ الْكُبرىٰ) کا حل ہے۔ جس وقت یہ سوال حل ہو جائے، باقی سوال بھی حل ہو جائیں گے۔کیونکہ باقی سوال یا تو اسی سوال کا جزو ہیں یا وہ اس کی فروعات ( شاخیں) ہیں۔ لیکن یہ حل اُس وقت تک صحیح نشاۃِ ثانیہ (نہضہ ) تک نہیں پہنچاسکتا جب تک کہ یہ حل ایک صحیح حل نہ ہو، جو انسانی فطرت (فطرة) کے عین موافق ہو ، عقل کو قائل کرے، یوں یہ دل کو حقیقی سکون و اطمینان عطا کرتا ہے۔"
ہم اللہ کی مغفرت، بخشش، رضا اور جنت کی امید رکھتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ : ایک بچہ چا ہے لڑکا ہو یا لڑکی، اور اس کی نسل، رنگ، یا زبان کوئی بھی ہو، جب یہ بچہ شعور کی عمر، یعنی بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے، تو تین سوالات اس کی سوچ اور عقل میں ابھرتے ہیں جو اس دنیاوی زندگی میں انسانوں کا وجود، اس وجود کا سبب، اور ان کے حتمی انجام اور اختتام سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ان بچوں کے ذہنوں میں ابھرتے ہیں، اپنے اپنے مطلب لیئے ہوئے ،چاہے وہ ان سوالات کو ہو بہو اِنہی الفاظ میں بیان نہ بھی کریں۔
یہ تین سوالات یہ ہیں: "میں کہاں سے آیا؟"، "میں یہاں کیوں ہوں؟"، اور "میری آخری منزل کیا ہے؟"
یہ تین سوالات اُس مسئلے کی تشکیل کرتے ہیں جسے سب سے بڑا مسئلہ (یعنی عُقْدَةُ الْكُبرىٰ) کہا جاتا ہے، اور یہ ان بڑھتی ہوئی عقلوں کو بے چین رکھتے ہیں، اور ایسے جوابات کا مستقل طور پر تقاضہ کرتے ہیں جو ان کی فطرت کے مطابق ہوں، عقل کو قائل کریں، اور دلوں کو سکون بخشیں۔ اگر ان تین سوالات میں سے کسی ایک کا بھی جواب نہ دیا جائے تو سب سے بڑا مسئلہ حل نہیں ہو پاتا۔
نوٹ:
شیخ تقی الدین النبهانی ؒ فرماتے ہیں: " ان اشیاء کے بارے میں مکمل نقطہء نظر دینا ہی انسان کے سب سے بڑے سوال (یعنی عُقْدَةُ الْكُبرىٰ) کا حل ہے۔ جس وقت یہ سوال حل ہو جائے، باقی سوال بھی حل ہو جائیں گے۔کیونکہ باقی سوال یا تو اسی سوال کا جزو ہیں یا وہ اس کی فروعات ( شاخیں) ہیں۔ لیکن یہ حل اُس وقت تک صحیح نشاۃِ ثانیہ (نہضہ ) تک نہیں پہنچاسکتا جب تک کہ یہ حل ایک صحیح حل نہ ہو، جو انسانی فطرت (فطرة) کے عین موافق ہو ، عقل کو قائل کرے، یوں یہ دل کو حقیقی سکون و اطمینان عطا کرتا ہے۔"
جہاں تک ان جوابات کا انسانی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا تعلق ہے، تو اس سے مراد یہ ہے کہ جوابات انسان کی فطری میلان کے مخالف یا متضاد نہ ہوں۔ مثال کے طور پر، اگر انسانی فطرت ملکیت کی خواہش رکھتی ہے، اور جوابات کسی ایسے عقیدے پر مبنی ہوں، جیسے کہ کمیونسٹوں کا عقیدہ، جو اس فطری میلان کو رد کرتا ہے، تو ایسے جوابات انسانی فطرت کے مطابق نہیں ہوں گے اور ہم آہنگی پیدا نہیں کریں گے۔
جہاں تک ان جوابات کا تعلق عقل کو قائل کرنے سے ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جوابات ان حقائق کے ساتھ ہم آہنگ ہونے چاہئیں جن کا وہ حوالہ دیتے ہیں اور واضح سچائیوں کے خلاف یا ان سےمتضاد نہیں ہونے چاہئیں۔ خالق کے وجود کا انکار کرنا سورج کے وجود کا انکار کرنے کی طرح ہے۔ دونوں صورتوں میں، یہ جوابات عقل کو قائل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، کیونکہ یہ حقیقت سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور واضح حقائق کی نفی کرتے ہیں۔ خالق مدبر ، جو بلند و بالا ہے، حقیقت میں موجود ہے، اور اس کے وجود کے دلائل بہت سادہ ہیں (اس پر بعد میں مزید وضاحت کی جائے گی)؛ اسی طرح سورج کا وجود بھی خود ایک واضح حقیقت ہے۔
جہاں تک دل کو سکون عطا کرنے کا تعلق ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو جوابات انسانی فطرت کے مطابق ہوں اور عقل کو قائل کریں، وہ ان تین سوالات کرنے والے فرد کے لیے سب سے بڑے مسئلے کا حل فراہم کردیتے ہیں۔ یوں ایک درست منظم عقیدے کی بنیاد قائم ہوجاتی ہے۔یہ درست منظم عقیدہ ہی وہ فکری بنیاد بنتا ہے جس پر زندگی کے بارے میں تمام افکار کی تعمیر ہوتی ہے۔یہ افکار اور تصورات ان لوگوں کے ذہنوں میں مضبوطی سے پیوست ہوجاتے ہیں، جو اس عقیدے کو اپنا لیتے ہیں اور مثبت نتائج کی طرف لے جاتے ہیں۔ جو شخص اس عقیدے کو اختیار کرتا ہے، وہ اپنے تمام سوالات کے لیے جامع، اطمینان بخش ، اور قائل کرنے والے جوابات حاصل کرتا ہے، اور اپنے ہر مسئلے کا ایک مناسب اور بنیادی حل پالیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، وہ ایک پُرامن، خوشحال، اور مطمئن زندگی گزارتا ہے اور اپنے خاندان، اپنی کمیونٹی، اور اپنی اُمت کی ترقی، تعمیر، اور کامیابی کی طرف گامزن رہتا ہے۔
جہاں تک سب سے بڑے مسئلے کا حل نہ ہونا، یا غلط حل ہونا ہے، یعنی ایسا حل جو انسانی فطرت کے مطابق نہ ہو، عقل کو قائل نہ کرے، اور دل کو سکون نہ عطا کرے، تو اس صورت میں ان تین سوالات کو پوچھنےوالا شخص بے چینی اور عدم استحکام کی حالت میں رہتا ہے۔ وہ نہ تو سکون حاصل کر پاتا ہے اور نہ ہی استحکام، اور بعض اوقات تو وہ خودکشی کے بارے میں بھی سوچنے لگتا ہے۔
ایک مبلغ بیان کرتا ہے: 'ہم اللہ کی رضا کے لیے ایک مشن پر نکلے، اور امریکہ کی ایک مسجد میں گئے۔ وہاں ہم نے ظہر کی نماز باجماعت ادا کی اور ایک مبلغ کی جانب سے کتاب ریاض الصالحین سے ایک حدیث سُنی۔ اس کے بعد ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا، اور اپنے عظیم نبی (صلى الله عليه وسلم) کے حکم کے مطابق مسجد میں قیلولہ کرنے کے لیے آرام کیا۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: قِيلُوا إِنَّ الشَّيَاطِينَ لا تَقِيلُ ۔ "قیلولہ کرو، کیونکہ بے شک شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔"
جب ہم گہری نیند میں تھے، سکون سے آرام کر رہے تھے، پریشانیوں سے آزاد، نہ کوئی بے چینی اور نہ ہی اضطراب، اور اللہ پر مکمل بھروسہ کر رہے تھے، جو ہمارا خالق، رازق، اور ہمارے امور کا نگران ہے، ہماری زندگیوں کی مدت، رزق، اور تقدیر اسی کے ہاتھ میں ہے، ہم نے نہ تو روزی کے حصول کی فکر کی اور نہ ہی موت کا خوف محسوس کیا، کہ اچانک ایک امریکی شخص آیا اور ہمارے سر کے پاس کھڑا ہو گیا، وہ ہمارےجاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ امریکی حیرت زدہ، ششدر، اور متجسس تھا کہ ہم کس طرح اتنی پرسکون نیند لے رہے ہیں، بغیر کسی پریشانی اور بے چینی کے، جب کہ ہمارا اللہ (سُبحانہُ و تعالٰی) پر مکمل اعتماد تھا۔ جب ہم سب جاگ گئے اور اُس کے گرد جمع ہوئے، تو ہم نے اُس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں ہے۔ اُس نے اپنے دل کی تکلیف اور درد کا اظہار کیا، جو ان لوگوں کی مشکلات کی عکاسی کرتا ہے جنہوں نے سب سے بڑے مسئلے کا حل حاصل نہیں کیا، یا جن کا حل غلط ہے، انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہیں، عقل کو قائل نہیں کرتا، یا دل کو سکون فراہم نہیں کرتا۔ ، میں سوچتا ہوں ،آخر اُس نے کیا کہا ؟
اس نے کہا، 'میں نے دنیا کی کسی بھی خوشی یا لذت کو چھوڑا نہیں، نہ ہی نفس کی کسی بھی حسی لذت سے دور رہا، بلکہ ان میں سے ہر ایک کا لطف اٹھایا اور اپنی خوشی کے لیے اسے پورا کیا، تاکہ مکمل خوشی اور کامل اطمینان حاصل کر سکوں۔ لیکن، میں نے خوشی، سکون، چین، یا استحکام کا کوئی ذائقہ نہیں چکھا، نہ نیند میں اور نہ ہی بیداری میں، نہ کھڑے ہو کر اور نہ بیٹھ کر۔ میں نے ہر قسم کا کھانا کھایا اور ہر قسم کے مشروبات پیے، اور مختلف قومیتوں کی عورتوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ میں ہر طرح کے بستر پر سویا، جیسے کہ ریشمی، کاٹن، سپنج، مخملی، اور ہوا بھرے گدے۔ میں گھومنے والے برقی بستر پر اور رنگین روشنیوں کے نیچے بھی سویا۔ پھر بھی، میں نے خوشی یا سکون کا کوئی احساس نہیں پایا۔ میں نے کئی بار خودکشی کے بارے میں سوچا پھر کسی نے مجھے آپ کے پاس بھیجا، یہ امید کرتے ہوئے کہ آپ کے پاس اس کا حل مل جائے گا۔ میں سوچتا ہوں ،میں نے جو کچھ دیکھا ہے، اس میں کیا راز ہے؟
یقیناً، یہ بات بلا شبہ درست ہے کہ سب سے بڑے مسئلے کا حل اسی موضوع میں پوشیدہ ہے۔ تاہم، ہم یہ بھی پوچھتے ہیں: اگر اسلامی ریاست کے نہ ہونے کی صورت میں نیند کے دوران سکون اور اطمینان کا احساس موجود ہے، تو آپ کے خیال میں، اسلامی ریاست کی موجودگی میں یہ کیفیت کیسی ہوگی؟
اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، آپ اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔