الثلاثاء، 05 شعبان 1446| 2025/02/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

’’عربوں کی طرف سے "اسرائیل" کے لیے تو حمایت مگر غزہ کی عوام سے غداری‘‘

(عربی سے ترجمہ)

 

الواعی میگزین شمارہ نمبر 461 -460

39 انتالیسواں سال

جمادی الاول - جمادی الثانی 1446 ہجری،

بمطابق دسمبر - جنوری 2025 عیسوی

 

جب ایک طرف صیہونی فوج روزانہ کی بنیاد پر غزہ کی پٹی میں معصوم وبےگناہ شہریوں کے خلاف قتل عام، ظالمانہ محاصرے، منظم بھوک اور نسل کشی جیسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کر رہی تھی، تودوسری طرف بعض غیر ذمہ دار عرب حکومتیں خفیہ طور پر ’’اسرائیل‘‘ اور اس کی فوج کو خوراک کی فراہمی میں مدد فراہم کر رہی تھیں، جس کی وہاں پر شدید قلت تھی۔ اور پھر ان حکومتوں نے اعلان کر دیا کہ وہ غزہ کو خوراک اور ادویات کی امداد فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ’’اسرائیل‘‘ کے خلاف کھڑی ہو تاکہ نسل کشی کو روکا جا سکے، محاصرہ ختم کیا جا سکے اور مظلوموں کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ ’’اسرائیل‘‘ کے لیے عرب حمایت ایک ناقابل انکار حقیقت بن گئی۔ یہ حمایت اس وقت اور بھی واضح ہو گئی جب ’’اسرائیلی‘‘ وزارت صحت نے یرموک دریا کے پانیوں اور وہاں سے درآمد شدہ زرعی اجناس میں ہیضہ کے بیکٹیریا کی دریافت کے باعث اردن سے پھلوں اور سبزیوں کی درآمد روکنے کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام نے جارحیت کے دوران ’’اسرائیل‘‘ کے لیے عرب حمایت سے متعلق ان خبروں پر یقین کو مزید تقویت دی اور ان حکومتوں کو بے نقاب کر دیا جو خفیہ طور پر ’’اسرائیل‘‘ کی تو حمایت کرتی رہیں جبکہ عوامی سطح پر غزہ کو نظر انداز کرتی رہیں۔

 

ابراہم ایکارڈز پیس انسٹیٹیوٹ جو کہ امریکہ میں قائم ایک ’’اسرائیل‘‘ نواز تنظیم ہے، اس کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں، غزہ پر جنگ کے آغاز سے ہی بعض عرب ممالک کی جانب سے ’’اسرائیل‘‘ کے لئے بھرپور تجارتی حمایت کی تعریف کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، 2023ء کے آخری تین مہینوں میں ’’مغربی ‘‘ ممالک کی جانب سے ’’اسرائیل‘‘ کو دی جانے والی برآمدات میں 18 فیصد کمی واقع ہوگئی جبکہ ’’عرب‘‘ ممالک کی برآمدات میں صرف 4 فیصد کمی آئی۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ مصر کی طرف سے ’’اسرائیل‘‘ کو برآمدات میں 168 فیصد اضافہ ہوا، اور مراکش سے ’’اسرائیل‘‘ کی درآمدات میں 200 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا، جو کہ غزہ پر جارحیت کے آغاز سے ہی دیکھنے میں آیا۔ حال ہی میں، ’’اسرائیلی‘‘ مرکزی ادارہ برائے شماریات کے اعداد و شمار نے ظاہر کیا کہ غزہ پر جارحیت کے دوران عرصہ میں مصر، امارات، اردن اور مراکش کی طرف سے یہودی وجود کو برآمدات ہوتی رہیں۔ صرف مئی کے مہینے میں مصر سے ’’اسرائیل‘‘ کو جانے والی برآمدات کی مالیت تقریباً 25 ملین ڈالر تھی، جبکہ سال 2024 عیسوی کے پہلے پانچ مہینوں میں امارات سے تقریباً 1.2 بلین ڈالر، اردن سے 129.1 ملین ڈالر، اور مراکش سے 7.4 ملین ڈالر مالیت کی برآمدات ہوئیں۔ عبرانی خبررساں ادارے ’’والا‘‘ کی ویب سائٹ نے تصدیق کی کہ امارات نے سعودی عرب اور اردن کے ذریعے 2,000 کلومیٹر طویل زمینی راستہ قائم کیا ہے جو حیفہ کی بندرگاہ تک جاتا ہے۔ یہ راستہ تجارتی سامان کی ترسیل کے لیے بنایا گیا ہے، تاکہ حوثیوں کی جانب سے ’’اسرائیل‘‘ کو محاصرے میں لینے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے اور اسے غزہ پر جارحیت روکنے پر مجبور نہ کیا جا سکے۔

 

اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے کہ کچھ لاپرواہ عرب حکومتوں کی جانب سے ’’اسرائیل‘‘ کو کس حد تک مدد اور خدمات فراہم کی گئیں ، تو ’’اسرائیلی‘‘ حکومت کی انتہائی خفیہ معلومات کی روشنی میں جو داخلی سطح پر جنگ کے اثرات کے بارے میں ہیں، ’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ نے گزشتہ اپریل میں ایک خطرناک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا : ’’’’اسرائیلی‘‘ ریلیف تنظیمیں 'یہودیوں کی عید (عید فصح)' آنے سے قبل خوراک کے بحران سے نمٹنے کے لئے کام کر رہی ہیں، جو جنگ کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے‘‘۔ اس مضمون میں غزہ سے ملحقہ بستیوں پر حملے کے بعد فلسطینی مزاحمت کے نتیجے میں ہونے والی خوراک کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ہونے والی ان مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے جن کا ’’اسرائیلیوں‘‘ کو سامنا کر پڑ رہا ہے۔ اخبار نے کہا کہ حماس کے حملے نے ’’اسرائیل‘‘ میں زراعت کو مفلوج کر دیا اور اخبار نے پہلی بار یہ انکشاف کیا کہ 7 اکتوبر کو زرعی شعبہ میں ’’اسرائیل‘‘ تقریباً 40 فیصد افرادی قوت اور 30 فیصد زرعی زمین سے محروم ہو چکا تھا، جب ملک کا زرعی مرکز، یعنی غزہ کا علاقہ ایک جنگ زدہ علاقے اور موت کی وادی میں بدل گیا اور مکمل تباہ وبرباد ہو گیا۔ ’’اسرائیل‘‘ کی تقریباً 20 فیصد زرعی زمین غزہ کے علاقے میں واقع ہے۔ اکتوبر کے وسط میں ’’گلوبس‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق جس میں ’’اسرائیلی‘‘ فارمرز یونین کے سربراہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ، ’’اسرائیل‘‘ میں استعمال ہونے والی 75 فیصد سبزیاں، 20 فیصد پھل اور 6.5 فیصد دودھ غزہ کے علاقے سے آتا ہے، اور 7 اکتوبر کے بعد سے ان سب اجناس کی پیداوار رُک گئی تھی۔ اگر کچھ نالائق عرب حکومتیں متبادل خوراک کی فراہمی میں مدد نہ کرتیں تو یہ تمام نقصانات نیتن یاہو کو غزہ کی تباہی اور عام شہریوں کے قتل عام سے باز رکھ سکتے تھے۔

 

اسی کے ساتھ ساتھ ’’اسرائیل‘‘ کی وزارت زراعت اور دیہی ترقی کے مطابق،  شمالی ’’اسرائیل‘‘ میں زیر قبضہ علاقے جو لبنان سے حزب اللہ کے راکٹ حملوں کی زد میں ہیں، اس یہودی وجود کی زرعی زمین کا ایک تہائی حصہ بنتے ہیں۔  الجلیل اور گولان کے علاقے مقامی پیداوار کا تقریباً 73 فیصد انڈے اور مرغیاں فراہم کرتے ہیں۔ یہ پیداوار بھی رک چکی ہے اور یہ نتین یاہو کو جنگ روکنے کے لیے اضافی رکاوٹ بن سکتی تھی، اگر یہ ناہنجار عرب حمایت شامل نہ ہوتی۔ جہاں تک ان فارموں کا تعلق ہے جن کا بنیادی ڈھانچہ تباہ یا نقصان کا شکار نہیں ہوا، وہ بھی تقریباً بند ہو چکے ہیں کیونکہ وہاں مزدوری کے لیے افرادی قوت دستیاب نہیں۔ وزارت زراعت اور دیہی ترقی کے اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر کے بعد تقریباً 10 ہزار غیر ملکی ملازمین ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے اور 20 ہزار فلسطینی ورکرز کو اب ’’اسرائیل‘‘ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہودی وجود کے اندر زرعی پیداوار تقریباً مکمل طور پر رک چکی ہے۔ یہ سب حساس معلومات ہیں جو  ’’اسرائیلی‘‘ میڈیا میں شاذو نادر ہی شائع ہوتی ہیں۔ یہ معلومات انکشاف کرتی ہیں کہ جنگ کے باعث ’’اسرائیل‘‘ میں غذائی بحران کس حد تک شدید ہو گیا اور اس سے جنگ کے رکنے کے امکانات موجود تھے، اگر نااہل عرب حکومتوں کی حمایت شاملِ حال نہ ہوتی۔

 

اور اس دوران جب مصری حکومت ’’اسرائیل‘‘ کو سبزیاں اور پھل برآمد کرنے کی اجازت دئیے ہوئے تھی، تو مصری شہری خود خوراک کی بڑھی ہوئی قیمتوں سے شدید متاثر ہو رہے تھے۔ صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ مصر کو بنیادی خوراک کی اشیاء درآمد کرنے کے لیے ہر ماہ ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ عالمی بینک نے اعلان کیا کہ گزشتہ سال کے وسط سے اب تک مصر میں، جو کہ اپنی خوراک کی ضروریات کا 65 فیصد درآمد کرتا ہے، اس میں خوراک کی قیمتیں دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ 2024 میں امریکی محکمہ زراعت کے مطابق متحدہ عرب امارات، جس نے غزہ پر جنگ کے دوران ’’اسرائیل‘‘ کو خوراک کی فراہمی کے لئے زمینی پل قائم کئے رکھا، وہ خود اپنی خوراک کی ضروریات کا 90 فیصد سے زیادہ درآمد کرتا ہے۔ البتہ اردن ان امیر ممالک میں شامل نہیں ہے جو خوراک کی وافر اضافی مقدار رکھتے ہیں۔ عالمی تجارتی تنظیم نے 2022ء میں اردن کو خوراک کی قلّت کا شکار ملک قرار دیا تھا، کیونکہ وہ اپنی بنیادی خوراک کی ضروریات کا تقریباً 70 فیصد درآمد کرتا ہے جیسا کہ 2021ء میں کارنیگی انسٹیٹیوٹ نے بتایا اور امریکی محکمہ زراعت کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق، اردن نے 2.7 بلین ڈالر مالیت کی درآمدات کیں۔ تو پھر یہ حکومتیں اپنے ہی شہریوں کے بدلے’’اسرائیل‘‘ کی حمایت کا خطرہ کیوں مول لے رہی ہیں؟ حالانکہ جنگ کی وجہ سے ’’اسرائیل‘‘ کو ہونے والے نقصانات کا موازنہ غزہ کے بچوں، عورتوں اور 2.3 ملین عام شہریوں کی اس حالت زارسے ہرگزنہیں کیا جا سکتا، جو کبھی بھوک وپیاس سے نڈھال ہیں اور کبھی بمباری کا شکار ہوتے ہیں۔ پھر بھی یہ بے شرم عرب حکومتیں ’’اسرائیل‘‘ اور اس کی فوج کو ان خوراک کی اشیاء کی کمی پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں جو انہیں درکار ہیں اوراس کے ساتھ ہی ساتھ وہ غزہ میں مظلوموں کو ریلیف فراہم کرنے میں اپنی ناکامی کا ڈرامہ رچائے ہوئے ہیں۔

 

الوعی: عرب حکومتوں کی جانب سے ’’اسرائیل‘‘ کو خوراک کی فراہمی کرنا ایک ناقابل جواز حمایت ہے، اور جارحیت میں کھلی شراکت ، شمولیت اور غزہ میں مظلوموں کے ساتھ غداری ہے۔ ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کے باعث ’’اسرائیل‘‘ کے اندر غذائی بحران کس حد تک شدید ہو گیا،  اور ممکن تھا کہ یہ جنگ رک جاتی اگر ان بے شرم عرب حکومتوں کی حمایت نہ ہوتی۔

 

Last modified onمنگل, 04 فروری 2025 20:45

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک