المكتب الإعــلامي
ولایہ مصر
ہجری تاریخ | 25 من محرم 1447هـ | شمارہ نمبر: 03 / 1447 |
عیسوی تاریخ | اتوار, 20 جولائی 2025 م |
پریس ریلیز
العریش کے باسیوں کی جبری بے دخلی، ترقی کے پردے میں لپٹا ہوا ایک سیاسی جرم ہے۔
(عربی سے ترجمہ)
جب مصری حکومت العریش کی بندرگاہ کو ترقی دے کر ایک بین الاقوامی بندرگاہ بنانے اور اُسے نئے معاشی راہداری منصوبے سے جوڑنے کی بات کرتی ہے، تو اس کے پردے میں العریش کے رئیسة محلے کے مکینوں کے ساتھ ایک کھلی زیادتی اور ظلم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو بلڈوزروں کی گڑگڑاہٹ تلے زبردستی ان کے گھروں سے نکالا جا رہا ہے، اور ان کے مکانات کو ان کی مرضی کے خلاف "عوامی مفاد" کے نام پر منہدم کیا جا رہا ہے—جبکہ وہ شدید نفسیاتی دباؤ اور ایسی سودے بازیوں کا سامنا کر رہے ہیں جو انسانی وقار کے شایانِ شان نہیں، اور ان سب کے ساتھ ساتھ یہ عمل اسلامی احکام کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔
یہ منظرنامہ سیناء کے لیے نیا نہیں۔ یہاں کے لوگ برسوں سے اس ریاستی رویے کے عادی ہو چکے ہیں جو ان کے ساتھ اجنبیوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ ان کی زمینیں چھینی جاتی ہیں، ان کے مکانات گرائے جاتے ہیں، انہیں بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے، ان کی بستیوں کی توسیع پر پابندی عائد ہوتی ہے، اور انہیں شہری کے بجائے سیکیورٹی ہدف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ گویا ایک "سائے کے علاقے" میں زندگی بسر کر رہے ہیں—اپنے ہی وطن میں بے وقعت، حق سے محروم اور ریاست کی نگاہ میں ہمیشہ ملزم۔ ان کی فریادیں سنی نہیں جاتیں، اور ان کے مظالم کا ازالہ نہیں کیا جاتا۔
میدانی رپورٹوں کے مطابق، جولائی 2025 کے دوران مصری ریاست نے العریش بندرگاہ کے جغرافیائی دائرے میں واقع رئیسة محلے میں انہدامی کاروائیوں کے چوتھے اور پانچویں مرحلے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس مرحلے میں مکمل طور پر آباد گھروں کو مالکان کی رضامندی کے بغیر مسمار کیا گیا ہے۔ گھروں کے سامنے دھرنا دینے اور انخلاء کی دستاویزات پر دستخط سے انکار کے باوجود، لیکن بالآخر اُنہیں سیکیورٹی دباؤ کے تحت زبردستی علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا، بلکہ بعض کو ڈرایا دھمکایا گیا اور انہیں کسی بھی قسم کے احتجاج یا مزاحمت سے باز رہنے کی سخت تنبیہ دی گئی۔
اگرچہ ریاست یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ "معقول معاوضے" یا "متبادل رہائش" فراہم کر رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نلمعاوضے انکی جائیداد کی حقیقی قدر کے برابر نہیں ہیں، نہ قیمت کے لحاظ سے، نہ ہی ان کے محل وقوع کی اسٹریٹجک اہمیت (سمندر کے کنارے) کے لحاظ سے، اور نہ ہی ان سماجی بندھنوں کے لحاظ سے جو ان لوگوں نے دہائیوں کی محنت سے وہاں بنائے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ معاوضے کسی مکالمے یا مشاورت کے بعد نہیں، بلکہ دھمکیوں کے بعد دیے گئے—اور یہ فیصلہ باہمی رضامندی یا قبولیت کے نتیجے میں نہیں، بلکہ یکطرفہ طور پر مسلط کیا گیا۔
آزاد صحافتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ یہ انہدامی اقدامات براہِ راست افواج کی نگرانی میں کیے جا رہے ہیں، اور یہ اقدامات اس بندرگاہ کو ایک خودمختار فوجی علاقہ میں تبدیل کرنے کے منصوبے کے تحت کیے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہری قانونی طور پر اس پر اعتراض نہیں کر سکتے کیونکہ اسے "منفعتِ عامہ" کے زمرے میں ڈال کر نجی ملکیت کو ریاستی قبضے میں لے لیا گیا ہے۔
تاہم اصل سوال محض قانونی نہیں، بلکہ شرعی ہے:
کیا ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکال دے؟
کیا شرعی لحاظ سے جائز ہے کہ نجی ملکیت کو محض "ترقی" یا "منفعتِ عامہ" کے نام پر سرکاری ملکیت میں بدلا جائے؟
کیا اسلامی شریعت ایسا منظم جبری انخلاء جائز قرار دیتی ہے؟
اسلام نے نجی ملکیت کو اُن تین محترم چیزوں میں شامل کیا ہے جن کی پامالی حرام ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ؛ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ»
"ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔"
اسلام میں نجی ملکیت ایک محفوظ حق ہے اور اسے چھوا بھی نہیں جا سکتا۔ ریاست کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ کسی انسان کی زمین یا گھر اس کی رضا اور اختیار کے بغیر، یا بغیر واضح شرعی وجوہات کے، زبردستی اس سے چھین لے۔
اسلام میں "منفعتِ عامہ" جیسا کوئی شرعی تصور موجود نہیں جو لوگوں کی ملکیت ان کی رضامندی کے بغیر چھیننے کا جواز بن جائے۔ یہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کا تصور ہے، جس میں ریاست رعایا سے بالاتر ہو کر "اجتماعی مفاد" کی آڑ میں نجی املاک پر قبضہ کر لیتی ہے۔
ریاست کی جانب سے نجی ملکیت کو اجتماعی ملکیت میں تبدیل کرنا شرعی طور پر باطل ہے، کیونکہ ملکیت کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، نہ کہ ریاست کے پاس۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:
﴿وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ﴾
"اور لوگوں کو ان کی اشیاء کم نہ دو" (سورة الشعراء - آیت 183)
لہٰذا نجی ملکیت کو نہ عوامی ملکیت میں بدلا جا سکتا ہے، اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں؛ کیونکہ ایسا کرنا شریعت کے ایک واضح حکم کی خلاف ورزی اور اس پر دست درازی کے مترادف ہے۔
اسلام کسی بھی قسم کی ملکیت میں "مصلحت" یا "عوامی مفاد" کے نام پر چھیڑ چھاڑ کو حرام قرار دیتا ہے۔ تصرف کا حق صرف شریعت کے پاس ہے، حاکمِ وقت کے پاس نہیں۔ اللہ حقیقی مالک ہے، اور انسان اس کی طرف سے اس ملکیت کا امین ہے۔ چنانچہ کسی شرعی وجہ کے بغیر اس سے ملکیت چھیننا ناجائز ہے۔ پس اگر کسی مسلمان نے کسی گھر یا زمین کو شرعی طریقے سے حاصل کیا ہو، تو کسی کو—چاہے وہ فرد ہو یا ریاست—یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کی ملکیت اس سے چھین لے، چاہے اس کے لیے کسی بندرگاہ کی توسیع یا کسی ترقیاتی منصوبے کا جواز ہی کیوں نہ پیش کیا جائے۔ بلکہ لازم ہے کہ اس ملکیت کا احترام کیا جائے، اور ایسے شرعی حل تلاش کیے جائیں جو کسی کے حق کو پامال نہ کریں۔
جو کچھ العریش میں ہو رہا ہے، وہ سرمایہ دارانہ نظام کی بدترین شکل کا عملی مظاہرہ ہے۔ یہ اسلام کے مال، ملکیت اور حکمرانی سے متعلق احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس نظام کے تحت ریاست کی نظر میں عوام محض اعداد و شمار ہیں، زمین محض سرمایہ کاری کا موقع ہے، اور "ترقی" کا مفہوم انسانی وقار اور حقوق کی قربانی دے کر ہی مکمل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنا اور ان کی املاک کو ان کی مرضی کے بغیر مسمار کرنا—چاہے وہ موجودہ مصری قانون کے تحت جائز ہو—شرعی اعتبار سے حرام ہے اور ایک مکمل سیاسی جرم ہے، کیونکہ یہ مسلمانوں کی حُرمت پر ظلم اور زیادتی ہے۔
اسی طرح العریش کی بندرگاہ کو ایک بین الاقوامی بندرگاہ میں تبدیل کرنا جو کہ فوجی خودمختاری کے تحت ہو اور شہر کی بڑی زمینوں کو اس منصوبے میں شامل کرنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے:
کیا یہ سب واقعی اقتصادی ترقی کے لیے ہو رہا ہے؟
یا یہ بین الاقوامی منصوبوں اور یہودی وجود کے سابقہ پیش کردہ منصوبوں کا پیش خیمہ ہے اور غزہ کے عوام کو یہاں منتقل کرنے کی تیاری ہو رہی ہے؟
سیناء کے لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اس ظلم کو رد کریں، اس جابرانہ پالیسی کی مذمت کریں، اور اپنے حقوق صرف فریادوں سے نہیں بلکہ اس ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوششوں کے ذریعے حاصل کریں، اور ایسے نظام کے قیام کی جدوجہد کریں جو دین کو نافذ کرے اور ان کے حقوق کا محافظ ہو۔
اے افواجِ کنانہ میں موجود مخلصو!
جو کچھ سیناء میں تمہاری آنکھوں اور کانوں کے سامنے ہو رہا ہے، وہ ایک مکمل جرم ہے، اور اللہ تم سے اس کا حساب لے گا—ان کمزوروں کے بارے میں بھی، جنہیں تم نے نظر انداز کیا، اور غزہ کے ان باسیوں کے بارے میں بھی، جنہیں محصور کرنے میں تم حکومت کا آلہ کار بن گئے۔
خدا کی قسم! وہ رُتبے، تنخواہیں، تمغے اور سہولیات تمہیں نہیں بچائیں گے، جو یہ نظام تمہیں تمہاری خاموشی اور وفاداری خریدنے کے لیے فراہم کر رہا ہے، جبکہ وہ تمہیں امت پر ظلم کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
اپنا جواب تیار رکھو! کیونکہ حساب سخت ہے، اور تمہارے پاس اب تک کوئی زادِ راہ نہیں—سوائے ایک سچی توبہ کے، جس کے ذریعے تم اس نظام کو جڑ سے اکھاڑو، اس کے ظلم کو عوام سے ہٹاؤ، اہلِ فلسطین کا محاصرہ ختم کرو، اور ان لوگوں کو نصرۃ فراہم کرو جو نبوت کے نقشِ قدم پر خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہی تمہاری نجات کا راستہ ہے، اور اس کے سوا کوئی راہِ نجات نہیں—چاہے تم کچھ بھی کر لو۔ اور یہ ایک شرف ہے لہذا کہ کوئی تم سے اس معاملے میں سبقت نہ لے جانے پائے۔ آگے بڑھو، شاید اللہ تمہاری توبہ قبول فرمائے، تمہیں خیر کی طرف لوٹائے، اور تمہارے ہاتھوں فتح کو لکھ دے تاکہ تمہیں دنیا کی عزت اور آخرت کی کرامت حاصل ہو اور وہ وقت دور نہیں جب تمہیں ہماری یہ باتیں یاد آئیں گیں، اور ہم اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
﴿وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيراً﴾
"اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگار بنا دے۔"(سورة النسآء - آیت 75)
ولایہ مصر میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ مصر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: 01015119857- 0227738076 www.hizb.net |
E-Mail: info@hizb.net |