الأربعاء، 06 شعبان 1446| 2025/02/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

نئی  شامی انتظامیہ فیصلہ سازی میں آزادی اور

دیگرممالک کے احکامات کے سامنے جھکنے کے خطرے کے درمیان کھڑی ہے

(ترجمہ)

تحریر: استاد احمد الصرانی

نئی شامی انتظامیہ کے وزیر خارجہ، اسعد الشیبانی، نے سعودی عرب، قطر، امارات اور اردن کا  دورہ کیا۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب مغربی اور غیر ملکی ممالک کے وفود روزانہ دارالحکومت دمشق پہنچ رہے ہیں، جن میں امریکی، فرانسیسی، جرمن اور دیگر وفود شامل ہیں۔

ان وفود کا استقبال کرنے والوں کی سربراہی نئی شامی انتظامیہ کے رہنما، احمد الشراء، نے کی۔

انہوں نے متعدد پریس کانفرنسیں منعقد کیں، جن میں لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس ، جو 11 جنوری 2025 کو دمشق آئے تھے، اور ایک پریس کانفرنس ترک وزیر خارجہ حاکان فیدان کے ساتھ 23 دسمبر 2024 کو منعقد ہوئی، اوراس کے علاوہ بھی دیگر اہم ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔

مغربی ممالک کی جانب سے ملاقاتیں نئی شامی انتظامیہ کو اپنے احکامات پہنچانے کے لیے تھیں۔ ان کی بنیادی توجہ  ریاست کے سیکولر تشخص، نسلی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، اور "دہشت گردی" اور "دہشت گرد تنظیموں" کے خلاف جنگ پر تھی۔ وفود، خاص طور پر امریکی وفد، نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مسلح تنازع کو شامی سرحدوں سے باہر نہ پھیلایا جائے، جو صریحاً یہودی وجود کے تحفظ کو یقینی بنانے کی طرف اشارہ تھا۔ احمد الشراء نے اس معاملے پر  17 دسمبر 2024 کو نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ "شام 1973 کی جنگ کے خاتمے کے بعد طے پانے والے 1974 کے معاہدے پر عمل پیرا رہے گا۔"

1974 کا معاہدہ شام اور یہودی وجود کے درمیان 6 اکتوبر 1973 کی جنگ کے بعد طے پایا تھا، جس کا مقصد دونوں فریقوں کی متحارب افواج کو الگ کرنا اور انہیں جنگی تصادم سے دور رکھنا تھا۔

مغربی سیاست دانوں کے بیانات مسلسل جاری ہیں، جن میں تکبر، زبردستی مسلط کی گئی شرائط اور سیاسی بلیک میلنگ نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، جرمن وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ ان کا ملک اسلامی ڈھانچوں کی حمایت نہیں کرے گا، یعنی وہ اسلامی نظام کو مسترد کرتے ہیں اور مالی امداد یا سیاسی وجود کوتسلیم کرنے کے بدلے سیکولر نظام کو لازمی شرط کے طور پر مسلط کرتے ہیں۔ دوسری طرف، امریکی حکام نے کہا کہ وہ محض بیانات سے مطمئن نہیں بلکہ اقدامات کے منتظر ہیں، گویا وہ ہمارے سرپرست ہوں!

نئی انتظامیہ نے ان بیانات کے خلاف کوئی سخت مؤقف اختیار نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس، اس نے شامی حکومت پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ وہی پابندیاں ہیں جو عالمی نظام نے بشار الاسد کے ظالمانہ جرائم اور شامی عوام کے خلاف قتل و غارت کے نتیجے میں عائد کی تھیں اور جو اب تک نافذ العمل ہیں۔

دوسری جانب، عرب ممالک کے مطالبات شامی ریاست کی وحدت، قومی سرحدوں کے تحفظ اور ان کی سیکیورٹی برقرار رکھنے کے گرد گھومتے رہے۔ عراق، اردن اور لبنان نے اس مؤقف کی تصدیق کی، جسے ان سرحدوں پر اسمگلنگ کی روک تھام کے پردے میں پیش کیا گیا۔

جہاں تک حکومتی نظام کے ڈھانچے کا تعلق ہے، نگران حکومت کے شامی وزیر خارجہ، اسعد الشیبانی، نے کہا کہ انہوں نے اپنی سعودی عرب کے دورے کے دوران ایک قومی نقطہ نظر پیش کیا، جو ایک ایسی حکومت کے قیام پر مشتمل ہے جو شراکت داری اور اہلیت کی بنیاد پر قائم ہو اور ملک کے تمام فریقوں کو اس میں شامل کرے۔

ان  حالات میں کوئی بھی نئی شامی انتظامیہ کے بیانات کا جائزہ لے، چاہے وہ اس کے رہنما احمد الشراء کے ہوں یا وزیر خارجہ اسعد الشیبانی کے، وہ واضح طور پر دیکھ سکتا ہے کہ یہ انتظامیہ مسلسل تمام ممالک کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ عالمی نظام کی منظوری حاصل کر سکے۔ تاہم، درحقیقت جو چیز مطلوب ہے، وہ ایک آزاد اور خودمختار مؤقف ہے، جو اللہ کی شریعت سے ماخوذ ہو اور اہلِ شام کے انقلابی اصولوں پر مبنی ہو۔

یہی ممالک، جو آج تسلیم شدگی کی بات کر رہے ہیں، ایک ماہ قبل تک اس ظالم نظام کو دوبارہ مسلط کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے، جس نے اہلِ شام کے خون سے ہولی کھیلی، ملک کو تباہ کیا، جیلوں کو بھر دیا، لاکھوں کو شہید کیا اور کروڑوں کو بے گھر کر دیا۔ اس لیے، نئی انتظامیہ کو ان تلخ حقائق کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ان ممالک کے احکامات کے آگے جھکنا اور انہیں خوش کرنے کی کوشش کرنا نہ تو نئی انتظامیہ کے لیے فائدہ مند ہوگا اور نہ ہی اہلِ شام کے لیے۔ بلکہ اس کے برعکس، یہ رویہ شام پر مغربی تسلط کو مزید مضبوط کرے گا اور ملک کو مغربی استعمار کے تابع رکھے گا، بالکل اسی طرح جیسے منہدم الاسد حکومت کا حال تھا۔ اس جھکاؤ اور خوشامد کا نتیجہ مزید رعایتیں دینے، کمزوری اور ذلت کے سوا کچھ نہیں نکلےگا۔

نئی انتظامیہ کو سب سے پہلے ایک مضبوط اور دو ٹوک مؤقف اپنانا ہوگا، جو ہر اس بغاوت کے خلاف ہو، جو ملک میں موجود ہے، چاہے وہ SDF کے علاقوں میں ہو، سویدا میں دروز کے گروہوں کی طرف سے ہو، ساحلی علاقوں میں باقیاتِ اسد کی صورت میں ہو، یا ملک کے کسی بھی حصے میں کسی بھی فریق کی جانب سے ہو۔ دوسرے یہ کہ نئی انتظامیہ  کا ملک پر سیکولرازم مسلط کرنے اور الشام کے لوگوں کے معاملات پر تسلط اور محکومیت کی حقیقت مسلط کرنے کی کوششوں سمیت دیگر ممالک کی مداخلت کے بارے میں واضح موقف ہونا چاہیے۔

اس انتظامیہ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرنا چاہیے، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے اور تمام دیگرممالک کی رسیوں کو کاٹ دینا چاہیے۔ یہی وہ راستہ ہے جو اسے درپیش مشکلات اور چیلنجز سے نکال سکتا ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جو اس کے لیے حلال رزق کا ذریعہ بنے گا اور ملک کی معیشت کو بحال کرے گا۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

 

وَمَن يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجاً ۝ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً

"اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ اور جو اللہ پر بھروسہ کرے، تو وہی اس کے لیے کافی ہے۔ بے شک، اللہ اپنے حکم کو پورا کرنے والا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے۔"(الطلاق،3-2)۔

اسلامی نظام اور اس کے حل ہی وہ واحد راستہ ہے جو لوگوں کے مسائل کو حل کریں گے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ یہی نظام تمام شہریوں کے لیے خوشحالی اور باوقار زندگی کو یقینی بنائے گا۔ نئی انتظامیہ کو ایسے اصولی مؤقف اپنانے ہوں گے جو رب العالمین کو راضی کریں، نہ کہ وہ جو مغربی ممالک کو خوش کرنے کے لیے ہوں، کیونکہ مغربی طاقتوں کو خوش کرنے کا نتیجہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضگی کی صورت میں نکلے گا۔

اس سلسلے میں، حزب التحریر نے ایک اسلامی دستور کا مسودہ تیار کیا ہے، جو زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے تمام دفعات صرف اور صرف معتبر ترین شرعی مصادر سے ماخوذ ہیں، اور کسی اور چیز پر مبنی نہیں۔ لہٰذا، ہم ہر اس شخص کو نصیحت کرتے ہیں جو اللہ کے دین کو قائم کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس دستور کے مسودے کا بغور مطالعہ کرے اور اس کے نفاذ کے لیے کام کرے۔

ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم اپنے دشمنوں کی چالبازی سے نہیں بچ پائیں گے، اور نہ ہی ہم دنیا اور آخرت میں اپنی عزت اور فتح کو حاصل کر پائیں گے، سوائے اس کے کہ ہم صرف اسلام کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں۔ اسلامی منصوبے کے ذریعے ہی تمام مسلم امت کو یکجا کیا جائے گا اور اس کی عظمتیں واپس لائی جائیں گی، تاکہ اسلام ایک ہدایت اور روشنی کا پیغام بن کر پوری انسانیت کو بچا سکے۔

Last modified onمنگل, 04 فروری 2025 19:59

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک