بسم الله الرحمن الرحيم
عسکری ڈاکٹرائن سے اقتباس ۔۔۔
مسلم افواج کو غزہ کی مدد کرنے میں کیا شئے مانع ہے ؟
(حصہ اول)
الواعی میگزین، شمارہ نمبر 456
انتالیسواں سال، محرم الحرام 1446ھ،
بمطابق اگست، 2024ء
از قلم : استاذ بسام فرحت
ولایہ تیونس
ایک بار پھر، غاصب صیہونی وجود کے لئے ہونے والی سیاسی سوچ وبچار غزہ کے خلاف جارحیت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا نعرہ بن چکا ہے جو سیاسی ماحول کو اپنی طرف راغب کرتا ہے، اس کے تمام دھڑوں کو یکجا کرتا ہے اور ایک ایسی قوم کے روحانی اور مذہبی جذبات کو تازہ کرتا ہے جس کی اجتماعی یادداشت کو’یوشع، طالوت، اور داؤد‘ کے کنعانی قبائل کے خلاف کیے گئے خونی قتل عام نے پروان چڑھایا ہے، جنہیں وہ ”تاریخی عظمتوں“ کے طور پر شمار کرتے ہیں۔
نام مختلف ہو سکتے ہیں، جیسے ”گریپس آف راتھ آپریشن (Operation Grapes of Wrath)“، ”کاسٹ لیڈ آپریشن (Operation Cast Lead) “،”پروٹیکٹیو ایج آپریشن (Operation Protective Edge)“، ”غزہ انویلوپ (Gaza Envelope) “، لیکن حقیقت وہیں کی وہیں رہتی ہے: ایک خونی فوجی منظرنامہ اور ایک سفاک ترین و خونریز یک طرفہ جنگ جس میں دنیا کی سترہویں طاقتور ترین فوجی طاقت، جو کہ نیوکلئیر کلب کی رکن بھی ہے، ایک بے بس اور بے یار و مددگار آبادی کے خلاف وحشیانہ اور ظالمانہ جنگ برپا کئے ہوئے ہے۔ اس جنگ میں، نام نہاد ”مشرقِ وسطیٰ کی واحد جمہوریت“ اپنے طاقتور اور مہلک ترین اسلحہ کا استعمال کر رہی ہے اور نسل کشی کے بھیانک ترین طریقوں کا ارتکاب کر رہی ہے، جو کہ اس شدت بھری نفرت، عداوت، بے رحمی، مجرمانہ پن اور کینہ پروری کو ظاہر کرتا ہے جو یہودی کردار میں اس حد تک کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ امڈ امڈ کر باہر بہہ رہا ہے۔ مسلسل دس ماہ سے غزہ اور اس کے بے یار و مددگار، ثابت قدم لوگوں کے خلاف کھلی نسل کشی جاری ہے، جس میں انتہائی ناگوار وحشیانہ پن و سفاکی کے ساتھ پتھروں، درختوں، انسانوں اور جانوروں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان سطور کی تحریر کے وقت تک، شہداء کی تعداد 40,000 تک پہنچ چکی ہے، جبکہ 80,000 افراد شدید زخمی ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر شیر خوار، معصوم چھوٹے بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں، اور اس کے علاوہ بنیادی شہری ڈھانچے کی بڑے پیمانے پر تباہی ہو چکی ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کی جیتی جاگتی زندگی کی یہ منظم تباہی دن دہاڑے، دنیا بھر کی آنکھوں کے عین سامنے، نام نہاد آزاد دنیا کی ترغیب و حمایت کے ساتھ، اور عرب حکمرانوں کی شرمناک ملی بھگت اور نوازشوں کے ساتھ وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ یہ حکمران نہ صرف غزہ کے لوگوں کی مدد کرنے کے اپنے فریضے کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ صیہونی وجود کو نقل وحمل میں مدد فراہم کرنے تک بھی چلے گئے ہیں، اور اسے خوراک اور ایندھن جیسی بنیادی ضروریات فراہم کر رہے ہیں۔
انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ایسا رویہ، جس سے جنگلی جانور بھی شرما جائیں، حیران کن نہیں ہے۔ یہ تو بنی اسرائیل کے وسیع تر جرائم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جو ایک نسل کشی سے دوسری تک اپنے قتل عام کی کارکردگی کو مزید خونریز بناتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ وہ بے دخل کر دینے کی گھناؤنی ترین انتہا پر ”عظیم اسرائیل (Greater Israel)“کے اپنے ترمیم شدہ تلمودی منصوبے میں ضم ہو جائیں، جس کا مطلب فلسطین کی مقدس سرزمین کو نسلی قتل عام (Ethnic cleansing) کے ذریعے صفایا کر کے گریٹر اسرائیل کا مرکز بنانا ہے۔
تاہم، جیسا کہ کہا جاتا ہے، ”ہر سختی کے ساتھ آسانی آتی ہے“۔ اس بے جا جارحیت کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ مسلم امت نے اپنی افواج کے سامنے اپنا اعتماد دوبارہ بحال کرنا شروع کر دیا ہے۔ دہائیوں کی تقسیم، بداعتمادی اور گہری دشمنی کے بعد اب مسلم امت براہ راست اپنی افواج سے مخاطب ہو رہی ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے: کیا مسلم ممالک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اس اعتماد کے قابل بھی ہے اور کیا وہ اس کے لئے تیار ہے؟ اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے، تو آخر اس فوج کو اس استعماری شکنجے سے کیسے آزاد کرایا جائے، امت کے گلے سے واپس کیسے لگایا جائے اور امت کے مقاصد کی حفاظت کے لیے کیسے متحرک کیا جائے؟
*امت کو اس کی طاقت سے دور کرنا*
1- مایوسی اور ناامیدی:
20ویں صدی کے وسط سے، مایوسی اور ناامیدی کی ایسی باتیں چاہے وہ سرکاری سطح پر ہوں، تعصب کے باعث ہوں یا مشہور کی گئی ہوں، مسلسل امت کی افواج کو کمتر اور بے وقعت قرار دیتی رہی ہیں۔ ان بیان بازیوں میں افواج کی اہمیت کو کم کرکے پیش کیا جاتا ہے، ان کی جنگی صلاحیتوں پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، اور یہاں تک کہ ان کی دیانتداری پر بھی شک کیا جاتا ہے۔ اکثر انہیں ایک جابرانہ قوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس سے مدد لینا حرام سمجھا جاتا ہے، یا انہیں عوام کو دبانے اور ایجنٹ حکمرانوں کی حفاظت کے لیے استعمال ہونے والے آلۂ کار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ تاثر پھیلتا ہے کہ ان افواج سے کوئی خیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی، اور نجات صرف تب ہی ممکن ہے جب ان کو برطرف کر دیا جائے۔
یہ زہریلا دعویٰ نہ تو سماجی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی سیاسی اصولوں سے۔ استعماری تسلط سے آزادی کو عملی طور پر صرف اس وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب اس کے پیچھے ایک عسکری قوت موجود ہو جو اس کی حمایت کرے، اس کا تحفظ کرے، اور اس راہ میں حائل تمام ظاہری رکاوٹوں کو دور کرے۔ تبدیلی لانے کے لیے صرف شعور اور خواہش ہی کافی نہیں ہیں، اس کے لیے طاقت اور قوت کی حمایت بھی ضروری ہے۔ کسی فوجی قوت کو صرف اسی نوعیت کی دیگر مقابل قوت کے ذریعے ہی مؤثر طریقے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
یہ دعویٰ ان افواج کی حقیقت کے بھی برعکس ہے۔ افواج امت میں سے ہی ہیں اور امت مسلمہ کا ایک لازمی حصہ ہیں، جو امت کے بہترین ہیروز پر مشتمل ہیں، جو امت کے دکھ سکھ میں سانجھے ہوتے ہیں، اور امت کی ہی طرح اس کے مقدسات کے محافظ ہیں، اور اللہ کے دین کی سربلندی اور آزادی کی آرزو رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ مسلم ممالک میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کھلم کھلا مذہب-مخالف ہے۔ اور یہ اسٹیبلشمنٹ نہ تو سیاسی اور نفسیاتی اور نہ ہی نظریاتی طور پر مسلمانوں سے معاونت لینے کے لئے تیار ہے اور نہ ان کی مدد کرنے کے لیے آگے بڑھنے کو تیار ہے۔ یقیناً یہ اسٹیبلشمنٹ عوام کو دبانے کے لئے آلۂ کار ہیں، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں، استعماری مفادات کا تحفظ کرنے والے ہیں، ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے اور استعمار کے ایجنٹوں کو حکمرانی کے تخت پر تحفظ دینے والے ہیں۔
البتہ، یہ نہایت ضروری ہے کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ اور انفرادی جوانوں میں فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ ایک سرکاری استعماری ڈھانچہ ہے، جو استعماری طاقتوں کے لیے ہی وفادار رہنے کو قائم کیا گیا ہے، اور اسی مقصد کے لئے اسے تربیت یافتہ اور مسلح کیا گیا ہے۔ لیکن انفرادی فوجی جوان امت مسلمہ کا حصہ ہیں، جو امت کے ایمان اور جذبۂ دین میں برابر کے شریک ہیں اور وہ بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کے شعلوں تلے جل رہے ہیں۔ اسی لئے، ان جوانوں میں موجود ایمان کو مخاطب کرنا، انہیں موجودہ بگڑی ہوئی صورتحال کے خلاف تحریک دینا اور انہیں اسلامی احیاء کے منصوبے کی مدد کے لیے متحرک کرنا عین ممکن ہے۔
2۔ ایک استعماری چال :
نتیجتاً، استعماری کفار نے عسکری قوتوں کو ان کی امت کی تحریکوں سے دور رکھنے میں ہی اپنا فائدہ دیکھا۔ استعمار نے ان افواج کو ان کے اپنے ہی لوگوں کو مغلوب رکھنے، ان کے جذبات کو کنٹرول میں رکھنے اور اسلامی طرزِ زندگی کے احیاء کو روکنے کے لئے استعمال کیا۔ اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ یہ انتہائی مذموم استعماری چال تھی جس کا مقصد امت کو اس کی اپنی طاقت سے علیحدٰہ رکھنا یعنی امت کو اس کی افواج سے الگ کرنا تھا۔ یہ ایک ایسی چال تھی جس کا مقصد ایک ایسی نفسیاتی اور سیاسی رکاوٹ پیدا کرنا تھا جو امت کو اس کی اپنی طاقت اور حفاظت کے ذریعہ سے دور کر دے۔ اس دوری پیدا کرنے کا مقصد امت کا ان پر انحصار کرنے کو برقرار رکھنا اور اگر ان میں کوئی تحریک پیدا بھی ہو تو نجات حاصل کرنے کی کسی بھی تحریک کو کچل دینا تھا۔
ستم ظریفی تو یہ رہی کہ اس استعماری چال کو حقیقی توثیق اور حمایت ملتی رہی۔ غزہ میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اس کی زندہ مثال ہیں۔ صیہونیوں کی طرف سے برپا کی جانے والی سفاکانہ خونریزی کے باوجود، جس نے دشمن کے اپنے اندر تک اُن کی حکومتوں اور عوام دونوں کو ،انسانی خدشات کی بنیاد پر ،ہلا کر رکھ دیا اور مغربی رائے عامہ میں روایتی صیہونی حمایت کا بت توڑتے ہوئے یورپ کے بڑے شہروں میں تحریکیں نکل پڑیں، جن میں سے خصوصاً صیہونیت کے گڑھ اور امریکہ کی کلیدی یونیورسٹیاں اور یورپین سیاسی اشرافیہ میں ہونے والے احتجاج شامل ہیں، لیکن ان سب کے باوجود بھی ان مسلم افواج میں کوئی جنبش نہ ہوئی اور یہ سب بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف رہا۔ مسلم افواج میں ان چیخ وپکار کو سننے والا کوئی بھی نظر نہ آیا، جبکہ اس کے بجائے یہ افواج اپنے ہی لوگوں میں تحریکوں کو کچلنے میں مصروف تھیں اور صیہونی وجود کے ہمراہ غزہ کے لوگوں کا محاصرہ کرنے اور ان پر جبر کرنے میں حصہ لے رہی تھیں۔
یہ تلخ حقیقتیں، جن کے بارے میں سوچنا ہی کس قدر مشکل ہے، ہمارے بنیادی یقین کو ہلا دیتی ہیں اور اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں : مسلمانوں کی افواج کو غزہ میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے میں آخر کیا شے مانع ہے ؟ کیا وہ اسلامی عقیدے کے لحاظ سے متحد نہیں ہیں ؟ کیا وہ نسلی، قبائلی اور قومیت کے بنیادی رشتوں تک میں باہمی بندھے ہوئے نہیں ہیں؟ کیا بیواؤں اور یتیموں کی پکاریں، ستائے ہوؤں کی آہیں، اور معصوم بچوں اور شیرخواروں کے آنسو بھی ان افواج میں غیرت، حمیت اور فرض کا کوئی جذبہ نہیں جگا پاتے ؟ کیا خون آلود چیتھڑے، کٹے پھٹے اجسام اور جلی ہوئی مسخ شدہ اور بوسیدہ لاشیں بھی ان افواج میں بنیادی انسانی ہمدردی کی کوئی ایک بھی رمق پیدا نہیں کر سکیں ؟ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک امریکی عیسائی فوجی، آرون بشنل، تو صیہونیوں کے ہاتھوں اس بربریت کے مظالم کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنے آپ کو آگ لگا سکتا ہے لیکن پھر بھی ایک مسلمان فوجی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی جان و حرمت کا دفاع کرنے سے گریز کر رہا ہے ؟
*قیادت کا قابو گروپ (Control Panel) *
1۔ فوج کی تصوراتی شخصیت :
ان سوالات کی پیچیدگی اور بظاہر ان کی متضاد نوعیت کے باوجود جواب خاصا سادہ اور صاف، منتقی بلکہ بالکل سیدھا ہے۔ استعمار نے مسلمان افواج کا ”ڈیش بورڈ“ یا سادہ الفاظ میں کہیں تو ان کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے، جو کہ ان افواج کی عسکری جنگی ڈاکٹرائن ہے۔ استعمار نے انہیں ان احکام کے تابع کر دیا ہے اور یوں وہ استعمار کے اختیار میں ہیں۔ جس طرح کسی ایک فرد کی ایک حقیقی شخصیت ہوتی ہے جو اس کی عقلیہ اور نفسیہ پر مشتمل ہوتی ہے اور یہی شخصیت اس فرد کے افکار، فہم، میلانات، رویہ، پسند و ناپسند کے ادراک اور ترقی کی سطح کا تعین کرتی ہے بالکل اسی طرح اقوام اور افواج بھی اخلاقی، باطنی اور ادراک پر مبنی شخصیت رکھتی ہیں۔ اور یہ شخصیت بھی اسی طرح انہی عناصر پر مشتمل ہوتی ہے جن پر ایک فرد کی شخصیت ہوتی ہے۔ اس شخصیت کا فوج کی حقیقت اور کردار پر وہی اثر ہوتا ہے، جو کہ فوج کے افکار، فہم، رویہ، میلان، پسند اور فروغ کو تشکیل دیتا ہے۔
یہ واضح رہے کہ جب حقائق کا معلومات سے ربط کیا جائے تو استدلال میں استعمال ہونے والی فکری بنیاد کس قدر اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور یہ بنیاد تصورات کو تحریک دیتی ہے۔ یہی بنیاد شخصیت کے دونوں پہلوؤں کو ایک مخصوص انداز میں تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہی بنیاد کسی معانی کو ایک تصور میں ڈھالتی ہے اور وہ تصور رویوں کو منظم کرتا ہے اور ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ بنیاد جذبات کو ترجیحات اور میلانات میں ڈھالتی ہے، جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ضروریات کیسے پوری کی جائیں۔
جب اس رجحان اور ثقافت کی مساوات کا اطلاق مسلح افواج کی حقیقت پر کیا جاتا ہے۔ تو اس کا ترجمہ ”عسکری ڈاکٹرائن“ کی اصطلاح میں ہی نکلتا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن ہی اس فکری بنیاد کا کام کرتی ہے جسے فوج کا ادارہ استدلال کرنے، اور دونوں طرح سے یعنی فکری اور نفسانی رجحان کی سطح پر اپنے تصورات کی شخصیت کے نقوش کو تراشنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن، فوج کو اس بارے میں بنیادی اصول فراہم کرتی ہے کہ فوج کو جنگی حالات میں اپنے کارگر ہونے، وفاداری، اطاعت اور نظم وضبط کو یقینی بناتے ہوئے کس طرح سے سوچنا چاہئے۔ البتہ ادارے سے وفاداری وہ بنیادی عنصر ہے جس کی بنا پر عسکری ڈاکٹرائن کا تعین کیا جاتا ہے۔ اور یہی اس مسئلے کی اصل جڑ ہے۔
2۔ افواج کی کنجی:
جدید افواج کے تین اہم عناصر ہیں جو ان پر کنٹرول کو ممکن بناتے ہیں :
أ) درجہ بندی اور عہدوں پر مبنی ڈھانچہ
ب) نظم و ضبط کا کڑا نظام، اور
ج) عسکری ڈاکٹرائن
یہ تینوں عناصر مل کر ایک کنٹرول پینل کا کام کرتے ہیں، جو فوجی ادارے کو تابع کرنے، منظم کرنے اور ہدایات دینے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں تا کہ ریاست کے سیاسی مقاصد اور سکیورٹی مفادات کو پورا کیا جائے۔
اعلیٰ فوجی عہدے داران کے پاس ”جادوئی نسخہ (magic formula)“ ہوتا ہے، جو کنٹرول اور قیادت کے لیے درج ذیل چیزوں پر مشتمل ہے:
جدید فوجی ڈھانچے میں یہ کنٹرول ایک مخصوص انتظامی تنظیم اور کڑے نظم و ضبط کے نظام پر مبنی ہوتا ہے۔ عسکری ادارہ ایک انتظامی درجہ بندی والے ڈھانچے پر قائم ہوتا ہے، جو اوپر سے نیچے تک ایک شاخ دار تنظیمی درخت کی شکل میں پھیلا ہوتا ہے، جس کے مختلف لیڈر اور مختلف عہدوں پر فا ئز لوگ اس کے مختلف اعضا ء کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جیسے جیسے اس ڈھانچے میں نیچے کی طرف آئیں، بنیادی حصہ وسیع ہوتا جاتا ہے، جنرل سے کرنل اور پھر لیفٹیننٹ تک، اور پھر اسی طرح نیچے فوجی جوانوں تک۔ اور اسی طرح اوپر کی طرف جاتے ہوئے یہ کم ہوتا جاتا ہے۔
لہٰذا، صحیح عہدے پر توجہ مرکوز کرنا اور اسے جیت لینا پورے فوجی ادارے یا اس کے اہم حصوں، جیسے کور، ڈویژن، بریگیڈ اور بٹالین، پر کنٹرول حاصل کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ ان کمانڈروں کے احکامات کو نچلے درجے کے عہدوں پر بلا کسی چوں چراں کے اور کسی شکایت کے بغیر ماننا ضروری ہوتا ہے، اور نافرمانی پر سخت سزا، یہاں تک کہ پھانسی بھی ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر ملک حالتِ جنگ میں ہو، کیونکہ اسے غداری سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت افواج کی ریڑھ کی ہڈی اور انتہائی ضروری حصہ یعنی سپاہیوں میں بغاوت کے خیالات کو دبایا جاتا ہے اور ان کے فرمانبردار رہنے اور استحصال کرنے کو فروغ دیا جاتا ہے۔
3۔ بنیادی ستون
بلاشبہ، ان تین عناصر پر مبنی نظام میں سب سے اہم عنصر عسکری ڈاکٹرائن (military doctrine) ہے، جو افواج کی فکری، ثقافتی، اور نظریاتی پہلوؤں کو تشکیل دیتی ہے۔ دوسرے دونوں عناصر، یعنی درجہ بندی اور کڑا نظم و ضبط، ادارے کی صرف انتظامی اور تنظیمی سطح کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ فوجی اصولوں، ثقافت، نظریہ، اور اطاعت و تابعداری کے درمیان ایک گہرا اور مربوط تعلق ہوتا ہے۔ عسکری ڈاکٹرائن کا افواج کی وفاداری اور اثر انگیزی پر گہرا اثر ہوتا ہے، جو یقینی اور خود بخود انجام پاتا ہے۔ یہ نظریہ ان پہلوؤں کو متعین کرتا ہے اور ان کی پاسداری کو یقینی بناتا ہے۔
ایک فوجی شخص، چاہے اس کا عہدہ کچھ بھی ہو، ایک انسان ہی ہوتا ہے، جس کے اعمال اس کی زندگی کے تصورات، معیارات اور عقائد سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہی تصورات اس کی جذباتی تحریکات کا تعین کرتے ہیں اور اس کے اعمال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انہی تصورات کے مطابق ہی ایک سپاہی اپنے مفادات کو منظم کرتا ہے اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کو تشکیل دیتا ہے۔ اسی نکتہ نظر سے، ایک عسکری ڈاکٹرائن کسی بھی انسانی گروہ کی فوجی پالیسی کو تشکیل دینے کے لئے بنیادی ستون ہے، چاہے وہ انسانی گروہ ترقی یافتہ ہو یا ابتدائی حالت میں ہو، چاہے وہ ایک سلطنت ہو، ریاست ہو، قبیلہ یا مافیا ہو۔ کوئی بھی فوجی ادارہ، بغیر کسی عسکری ڈاکٹرائن کے نہ تو چل سکتا ہے اور نہ ہی اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے، چاہے وہ ڈاکٹرائن کتنی ہی بنیادی یا جبلی نوعیت کی کیوں نہ ہو، جیسے کہ لوٹ مار کرنا، انتقام یا بدلہ لینا۔ اہم بات یہ ہے کہ فوجی ادارہ ایک تصور، ایک وژن، نقطہ نظر، اور مقصد کے تحت کام کرتا ہے، جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ، افراتفری پیدا ہو جائے گی، یکجہتی ختم ہو جائے گی، اور شکست و ناکامی کا سامنا ہوگا۔
لہٰذا، جو کوئی بھی فوج بنانا چاہتا ہو، اس کی وفاداری، حمایت اور فتح حاصل کرنا چاہتا ہو، تو اسے اس کے عسکری ڈاکٹرائن کو لازمی ہدف بنانا ہو گا، چاہے وہ اس ڈاکٹرائن کو تشکیل دے، مرتب کرے، برقرار رکھے، اور اس پر توجہ دے یا اسے تبدیل کر دے اور موافق بنائے۔ یہی ایک عمومی طریقہ ہے۔ مزید تفصیلات میں جانے کے لیے ہمیں درج ذیل سوالات کے جواب دینے ہوں گے: عسکری ڈاکٹرائن سے کیا مراد ہے؟ اس کے درجات اور مصادر کیا ہیں؟ اس ڈاکٹرائن میں بنیادی ثقافتی پہلو کا کیا کردار ہے؟ اس ڈاکٹرائن کا ریاست کے سیاسی ڈاکٹرائن کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہ ڈاکٹرائن افواج کو کنٹرول میں کرنے اور ان کی جنگی کارکردگی کو مزید مؤثر کرنے میں کیسے کردار ادا کرتی ہے؟ آخر اس ڈاکٹرائن کو کیسے ہدف بنایا جا سکتا ہے اور پھر اسے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟
*عسکری ڈاکٹرائن :*
1۔ تعریف اور دائرہ کار:
کسی بھی اہم ترین معاملے کی نوعیت کی طرح، عسکری ڈاکٹرائن کی بھی مختلف طریقوں سے تعریف بیان کی گئی ہے، جس میں تکنیکی، عملی، اسٹریٹجک، سیاسی، اخلاقی، اور نظریاتی پہلوؤں کو مدِنظر رکھا گیا ہے۔ ان تعریفوں کی وسعت کے باوجود، ان کا ایک مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ یہ ریاست کے سیاسی نظریے، اس کی قومی سلامتی، اور عمومی عسکری پالیسی پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہ سب تعریفیں مجموعی طور پر درج ذیل اہم سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتی ہیں : ہم کب لڑیں؟ ہم کس کے خلاف لڑیں؟ کس کے ساتھ مل کر لڑیں؟ ہمیں کیسے لڑنا ہے ؟ ہمیں کیوں لڑنا ہے ؟ اور آخر کب تک ہمیں لڑتے رہنا ہے ؟
عسکری ڈاکٹرائن کی سب سے جامع اور مختصر تعریف یہ ہے: ”ریاست کے سیاسی ڈاکٹرائن کے حصول کے لیے مسلح تنازعات کو منظم کرنے کا فن اور سائنس“۔ اس تعریف کے مطابق، عسکری ڈاکٹرائن ریاست کے سیاسی ڈاکٹرائن کی محافظ، مددگار اور نافذ کرنے والی ہوتی ہے، جو قوم کی تہذیب سے جنم لینے والی تعلیمات، اعلیٰ اقدار، اور سیاسی، فوجی، معاشی، سماجی، اور روحانی اصولوں کا مجموعہ ہوتی ہے، اور یہ تعلیمات عوام کے شعور اور اجتماعی سطح پر ان کی روح میں گہرائی سے راسخ ہوتی ہیں۔
اس تعریف کے مطابق، عسکری ڈاکٹرائن کے کئی اہم کلیدی مصادر ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ اہم درج ذیل ہیں :
- ریاست کی ڈاکٹرائن، چاہے وہ مذہبی ہو، نظریاتی ہو یا اصولی ہو، جو کہ سیاسی قائدین تشکیل دیتے ہیں۔
- وہ اقدار، اصول، روایات، قاعدے و قوانین اور رواج جو ریاست کے اندر عام ہوں اور عوام میں مقبول ہوں۔
- ریاست کی فوجی تاریخ، جو برسوں کے تجربات، آزمائشوں اور سیکھے گئے اسباق کا مجموعی نتیجہ ہوتی ہے۔
- تکنیکی اور ٹیکنالوجی کی ترقی، جو ہتھیاروں، ساز و سامان، اور فوجی صلاحیتوں کو موجودہ وقت کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔
- قومی سلامتی کے تقاضے، جیسے کہ ممکنہ خطرات کے ذرائع اور عالمی نظام میں ہونے والی تبدیلیاں، اور اس کے ساتھ ساتھ متوقع جنگوں کی نوعیت، اقسام، شکل، درجات، اور ان کا دائرۂ کار۔
ریاست کے جغرافیائی اور اسٹریٹجک عوامل، جیسے اس کا محل وقوع، وسائل، معاشی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی حالات فوجی اداروں کے حجم، ڈھانچے، طریقہ کار، اور داخلی و خارجی پالیسیوں پر اہم اثر رکھتے ہیں۔
اس فہم کی بنیاد پر، عسکری ڈاکٹرائن ہر ریاست کے لیے ایک خود مختار اور اس ریاست کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے، جو اس ریاست کے مخصوص حالات اور خصوصیات کے مطابق تشکیل دیا جاتا ہے۔ کوئی ایسی عالمی عسکری ڈاکٹرائن نہیں ہے جو ہر ریاست کے لیے ایک معیار کے طور پر قابل اطلاق ہو۔ بلکہ، ہر ریاست کی اپنی عسکری ڈاکٹرائن ہوتی ہے، جو اس کی حقیقت، حالات، اور خصوصیات کی عکاسی کرتی ہے۔
کسی دوسری ریاست کو یہ اجازت دے دینا کہ وہ ایک ملک کے لیے اس کی عسکری ڈاکٹرائن تشکیل دےایک سنگین ترین جرم ہے، کیونکہ اِس کا مطلب اُس ملک کی استعماری، استحصالی، اور جبری غلامی ہے جو کسی دوسری ریاست کے مفاد میں ہوگا۔
*عسکری ڈاکٹرائن کے درجات (Levels):*
مذکورہ بالا ذرائع کی بنیاد پر، ہم عسکری ڈاکٹرائن کے پانچ درجات (Levels) میں فرق کر سکتے ہیں:
1۔ ڈاکٹرائن کا نظریاتی درجہ: یہ درجہ مجموعی طور پر فوج کے نظریاتی پس منظر کو اور اس کے ساتھ ساتھ فوجی جوانوں کے مخصوص عقائد کی فکری اور ثقافتی بنیاد کو متعین کرتا ہے۔ یہ درجہ دنیا کے بارے میں فوج کے مجموعی نکتۂ نظر کو اور فوج کے ارکان کی انفرادی سوچ کو تشکیل دیتی ہے۔
2۔ اسٹریٹجک درجہ: یہ درجہ ریاست کو درپیش یا متوقع خطرات، چیلنجز اور خدشات کی نشاندہی اور تعریف کرتا ہے۔ اس درجے میں عسکری ڈاکٹرائن کو ریاست کی سکیورٹی ڈاکٹرائن کے ساتھ اور ریاست کی سلامتی کی حکمت عملی کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاتا ہے تاکہ یہ یقین دہانی کی جائے کہ فوجی پالیسیاں ان خطرات کو مؤثر طریقے سے حل کر سکیں۔
3۔ تکنیکی و ٹیکنالوجیکل درجہ:یہ درجہ ہتھیاروں، ساز و سامان، اور فوج کی مجموعی صلاحیتوں کو جدید بنانے پر توجہ دیتا ہے۔ یہ درجہ فوج کی حرکت میں آنے کی تیاری کو برقرار رکھتے ہوئے یہ یقین دہانی رکھتا ہے کہ اسلحہ سازی، ٹریننگ اور نقل وحمل کی ٹیکنالوجی میں بڑھوتری معیار کے مطابق ہے۔
4۔ آپریشنل و حکمت عملی کا درجہ:یہ درجہ جنگی کوششوں سے متعلق ہے، جس میں ریاست کے وسائل اور مسلح افواج کو جنگ کے لیے متحرک کرنا شامل ہے۔ اس درجے میں فوج کی جنگی ڈاکٹرائن، ادارہ بندی، منصوبہ بندی، تیاری اور جنگ میں شامل ہونے اور فوجی مقاصد حاصل کرنے کی تربیت شامل ہوتی ہے۔
5۔ اخلاقی درجہ: یہ درجہ فوجی ڈاکٹرائن کے انسانی اور اخلاقی پہلوؤں سے متعلق ہے۔ یہ درجہ فوج کو اعلیٰ اخلاقی اقدار فراہم کرتا ہے، اسے نیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے، اور اس کے مشن کی تکمیل کے دوران اس کے رویے پر مذہبی، انسانی، اور اخلاقی پابندیاں عائد کرتا ہے۔
یہ پانچوں درجے عسکری ڈاکٹرائن کی جامع اور مکمل تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، یہ نہ صرف یہ تعین کرتے ہیں کہ فوج کیسے کام کرے گی، بلکہ یہ یقین دہانی بھی کہ وہ ریاست کے وسیع تر مقاصد اور اقدار کے ساتھ کیسے ہم آہنگ ہو گی۔
یہ پانچوں درجات نہایت پیچیدگی سے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا یا کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ہر درجہ دوسرے درجے کی تکمیل کرتا ہے۔ یہ سب مل کر ایک جامع عسکری ڈاکٹرائن تشکیل دیتے ہیں، جسے مکمل معنوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے: ”فکری اقدار اور اصولوں کا ایک مجموعہ، جو فوجی سائنس کے نظریات اور جنگ کے فن کی تشکیل میں معاون ہوتا ہے، اور امن و جنگ کے دوران مسلح افواج کے ڈھانچے اور استعمال کو ریاست کے اعلیٰ ترین مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے متعین کرتا ہے“۔
اگرچہ ان میں سے زیادہ تر درجات تکنیکی اور عملی نوعیت کے ہیں، لیکن نظریاتی اور ثقافتی پہلو ان سب کے درمیان ربط کا ایک ناطہ ہے۔ یہ ڈاکٹرائن کا درجہ صرف یہ نہیں بتاتا کہ لڑنا کیسے ہے، بلکہ یہ ایک ایسے بنیادی اصولوں کا مجموعہ بھی مقرر کرتا ہے جو مختلف قسم کی جنگی صورتحال میں مسلح افواج کی سوچ کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہی ڈاکٹرائن یہ طے کرتی ہے کہ کس سے اتحاد کرنا ہے، کس کی مخالفت کرنی ہے، کس کے ساتھ لڑنا ہے، کب، کیسے، کیوں اور کس حد تک لڑنا ہے۔اس لحاظ سے، عسکری ڈاکٹرائن فوجی ادارے کے دماغ، جذبات، اور ضمیر کا کردار ادا کرتی ہے۔
لہٰذا، جو کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ وہ اس ادارے میں سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملائے، اس ادارے کو حرکت میں لائے یا اِس ادارے کی مدد حاصل کرے تو اُسے اِس ڈاکٹرائن کو ایک فیصلہ کنداخلی راستے کے طور پر اپنا ہدف بنانا ہوگا، بشرطیکہ وہ ڈاکٹرائن فوج کے جوانوں اور عوام کے درمیان مشترک ہو۔ لیکن اگر بدن تو مسلمان ہو اور عقل، جذبات اور حواس مغربی، عیسائی یا صیہونی ہوں، تو یہ استعماری غلامی، زوال، اور سیاسی خودکشی کا نسخہ بن جاتا ہے۔
[جاری ہے]
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...