الأحد، 20 جمادى الثانية 1446| 2024/12/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

قابض فوج کے جانی نقصانات... فوجیوں میں معذوری، دماغی بیماریاں اور خودکشی کے واقعات پھیل رہے ہیں... جبکہ ان کے اہل خانہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں

 

خبر:

 

          غزہ کی پٹی پر یہودی وجود کی جنگ مسلسل 414ویں دن بھی جاری ہے، اور لبنانی سرزمین تک پھیل چکی ہے، عبرانی رپورٹس نے یہودی قابض افواج میں انسانی نقصانات کی سطح کو ظاہر کیا ہے۔ جنگ کے آغاز سے اب تک مرنے والے 804 فوجیوں کے نام شائع کیے گئے ہیں جن میں سپاہی اور افسران شامل ہیں۔ نقصانات صرف  یہیں تک محدود نہیں۔  "شدید" نفسیاتی عوارض میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جن میں سے کچھ "خودکشی کے رجحانات" میں مبتلا ہیں۔

یہودی ادارے کے اخبار کی رپورٹوں سے انکشاف ہوا ہے کہ 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے وزارت دفاع کے بحالی کے محکموں میں زیر علاج معذور فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 70,000 ہو گئی ہے۔ یہودی ادارے کے چینل 7 نے بتایا کہ 35 فیصد زخمی دماغی امراض کے لیے زیر علاج ہیں، جبکہ ایک ماہر کی طرف سے کئے گئے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ سال کے آخر تک ہسپتال میں داخل ہونے والے تقریباً 40 فیصد زخمی مختلف دماغی بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں، جن میں بے چینی، ڈپریشن، بعد از صدمے کے تناؤ میں اضافے، اور موافقت اور بات چیت میں مشکلات شامل ہیں۔ یروشلم پوسٹ نے اطلاع دی ہے کہ 10,000 سے زیادہ ریزرو فوجیوں نے دماغی صحت کی سہولیات کے حصول کے لیے درخواست کی ہے۔ Yedioth Ahronoth اخبار نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں کم از کم 6 فوجیوں نے خودکشی کی ہے، یہ بات اس نے پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں مبتلا فوجیوں کی نازک نفسیاتی حالت پر تیار کی گئی ایک رپورٹ میں کہا ہے۔ اس کے علاوہ اسی رپورٹ میں یہ  بھی بتایا گیا ہے کہ 98 فیصد قابض فوجیوں کے خاندانوں نے بتایا کہ ریزرو سروس کے نتیجے میں ان کے بچوں کو نفسیاتی یا ذہنی نقصان پہنچا ہے۔

 

 

تبصرہ:

 

   اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿وَلَا تَهِنُوۡا فِىۡ ابۡتِغَآءِ الۡقَوۡمِ‌ؕ اِنۡ تَكُوۡنُوۡا تَاۡلَمُوۡنَ فَاِنَّهُمۡ يَاۡلَمُوۡنَ كَمَا تَاۡلَمُوۡنَ‌ۚ وَتَرۡجُوۡنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا يَرۡجُوۡنَ‌ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا﴾

  "اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بےآرام ہوتے ہیں اور تم اللہ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور اللہ سب کچھ جانتا اور (بڑی) حکمت والا ہے ۔"(النساء، 4:104)۔

 

یہودی وجود کے افراد، جماعتوں اور قوتوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک عظیم اور ناقابل تسخیر ریاست ہے۔ انہوں نے اس کی صلاحیت پر فخر کیا کہ جو بھی اسے چیلنج کرتا ہے یہ وجود اسے ختم کر سکتا ہے۔ انہوں نے اس کی وحشیانہ جنگ، جو اس نے غزہ میں دفاع سے محروم لوگوں پر شروع کی، میں ہونے والے نقصانات کی حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔ انہوں نے شیر کی طاقت کی کہانی پھیلانے کی کوشش کی۔

 

   تاہم چونکا دینے والے اعدادوشمار سامنے آئے ہیں جس میں  یہودی وجود غزہ اور فلسطین میں اپنی مجرمانہ کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے، عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے، خود کو مظلوم قرار دے رہا ہے اور اپنی حالت پر رونے کا تماشا کرتا ہے، حالانکہ وہ خود ہی مجرم ہیں۔

 

یہ اعلان کردہ نقصانات اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہودی نہ تو لڑنے کے لائق ہیں اور نہ ہی ثابت قدم رہنے والے ہیں، خواہ وہ کچھ بھی دعویٰ کریں۔ وہ بے گناہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے خلاف امریکی اور عالمی صلیبی حمایت سے قتل و غارت گری اور نسلی کشی کے دوران اپنا دماغ کھو چکے ہیں۔ تو اُس وقت اِن کا کیا حال ہوگا اگر وہ واقعتاً کسی مسلمان فوج سے لڑے اور مارے جائیں، جو اس وقت اپنی بیرکوں میں موجود ہیں، چاہے قریب کی ہو یا دور کی؟! جو چیز اس حقیقت کو ہمارے لیے تلخ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ مسلم افواج کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس کے باوجود، وہ ایسے عذر کا سہارا لیتے ہیں جسے کوئی سمجھدار قبول نہیں کرے گا۔ مسلم افواج اِس فرض سے غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہیں جس کو پورا کرنا مشکل نہیں خصوصاً جب ان کے سامنے ایک  کمزور فوج اور بزدل لوگوں ہوں۔

 

میڈیا میں ان نقصانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ یہودیوں کو اتنا ہی نقصان پہنچ رہا ہے جتنا وہ فلسطین میں مسلمانوں کو پہنچا رہے ہیں۔ یہ تاثر اس لیے دیا جارہا ہے کہ فلسطین کی بابرکت سرزمین میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر امت کے غصے کو دور کیا جائے۔ یہ مسلمانوں کی فوجوں میں موجود مخلصین کے غصے کو کم کرنے اور یہودیوں کے مسلسل قتلِ عام کو جواز فراہم کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ البتہ شرعی نظریہ وہی ہے جو امت اور اس کی فوجوں کے ذہنوں میں سب سے اہم ہونا چاہیے، یعنی یہ کہ ایک مسلمان کا خون بہانا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک خانہ کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے، اور زمین کے تمام  کفار لوگوں کا خون اس کے برابر نہیں ہیں۔ تو ان لوگوں کے خون کی کیا اوقات ہے جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا؟!

 

لہٰذا امت اور اس کی فوجوں پر فرض ہے کہ وہ شہداء کے خون کی تعظیم کریں، جن کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، اور ان کا بدلہ لینے کے لیے شدت دکھائیں، اور یہودیوں کے نقصانات پر اس طرح مدہوش نہ ہوں، جیسے کوئی نشہ آور مشروب سے مدہوش ہوتا ہے! ایک عظیم الشان جنگ کی تیاری ضروری ہے جس میں امت یہودیوں سے لڑے گی اور انہیں قتل کرے گی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

 

«تُقَاتِلُونَ الْيَهُودَ حَتَّى يَخْتَبِيَ أَحَدُهُمْ وَرَاءَ الْحَجَرِ فَيَقُولُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ»

"تم یہودیوں سے لڑو گے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ پتھروں کے پیچھے چھپ جائیں گے۔ تو وہ پتھر بھی بول اٹھے گا کہ اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا بیٹھا ہے اسے قتل کر ڈال۔" (بخاری و مسلم)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے
ولایہ پاکستان سے بلال المہاجر نے تحریر کیا

 

Last modified onبدھ, 04 دسمبر 2024 20:45

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک