بسم الله الرحمن الرحيم
عسکری ڈاکٹرائن سے اقتباس ۔۔۔
مسلم افواج کو غزہ کی مدد کرنے میں کیا شے مانع ہے ؟
(حصہ دوم)
الواعی میگزین، شمارہ نمبر 457
انتالیسواں سال، صفر الخیر 1446ھ،
بمطابق ستمبر، 2024ء
از قلم : استاذ بسام فرحت
ولایہ تیونس
اسلامی عسکری ڈاکٹرائن : ثقافتی پہلو کی بنیاد :
1- اطاعت اور انکار (الولاء والبراء)
عسکری ڈاکٹرائن کے اسلامی تصور کا لب لباب اطاعت کرنے اور انکار کرنے کے اصول میں مضمر ہے۔ اور یہاصول رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جن قبائل سے نُصرہ (مادی مدد) طلب کی گئی تھی، رسول اللہ ﷺ نے ان پر اپنی نبوت پر ایمان لانے، رسالت کے پیغام پر ایمان لانے اور رسالت کے سیاسی منصوبے پر ایمان لانے کی شرائط عائد کیں۔ آپ ﷺ نے یہ شرط بھی رکھی کہ وہ قریش کے مشرکین کے خلاف کسی قسم کے تحفظات کے بغیر لڑیں گے کیونکہ قریش اللہﷻ کی مخالفت کرتے تھے، اس کے رسول ﷺ کا انکار کرتے تھے، اور حق کی بجائے باطل پر بھروسہ کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بنو عامر بن صعصعہ اور بنو شعبان کی مشروط مدد کو بھی مسترد کر دیا کیونکہ اس سے نُصرہ (مادی مدد) کا مقصد ہی کمزور پڑ جاتا اور اس کی اصل قدر مفقود ہو جاتی، جس سے جنگ کا دائرہ اور اسباب محدود ہو جاتے، اور اس کے ساتھ ساتھ مطلوبہ مقاصد بھی محدود ہو کر رہ جاتے۔ ان قبائل کی شرائط انسانی قوانین اور دنیاوی مفادات کو اللہ ﷻ کے شرعی قوانین اور اسلام اور مسلمانوں کے مفادات پر فوقیت دیتی تھیں، جس سے کفار کو مؤمنوں پر اختیار حاصل ہو جاتا۔
اطاعت اور انکار کا اصول اسلام میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی اصول ہی ایک مسلمان کو، چاہے وہ شہری ہو یا فوجی، یہ واضح کرتا ہے کہ کس کی حمایت کرنی ہے اور کس سے لاتعلقی اختیار کرنی ہے، اور یہ کہ معاہدات اور دشمنی کی بنیاد کیا ہونی چاہیے۔ یہی اصول ہی وہ شرعی جائز مفادات طے کرتا ہے جن کے لئے لڑنا ضروری ہے، کہ کس دشمن کے خلاف لڑنا ہے، یا کس اتحادی کے ساتھ مل کر لڑنا ہے، اور یہاں تک کہ فوج میں شمولیت کے فریضہ کا حکم، جہاد کی نوعیت اور اس کے درجے، جنگ کی اقسام، خواہ وہ نظم و ضبط کے لیے ہو، بغاوت کے خلاف ہو، یا دشمن کے خاتمہ کے لیے ہو، اور مزید یہ کہ شہید ہو جانے والے کی جزا کیا ہو گی۔ یہ اصول بنیادی طور پر اسلامی عقیدہ پر مبنی ہے۔ اطاعت کرنا اور انکار کرنا خالصتاً اور صرف اللہ ﷻ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہی ہونا چاہئے۔ ہم صرف ان کے ساتھ ہی اتحاد کرتے ہیں جو اللہ ﷻ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں، اور ہم صرف ان سے لاتعلقی اختیار کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف لڑتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، « أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ؛ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى » ”مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ یہ گواہی نہ دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ کہ وہ نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں۔ اور اگر وہ یہ سب کر لیں، تو انہوں نے اپنی جانوں اور مال کی مجھ سے حفاظت لے لی، سوائے اس کے کہ وہ کوئی ایسا عمل کر بیٹھیں جو اسلام میں قابلِ سزا ہو۔ تو ان کا ذمہ اللہ کے پاس ہو گا“۔ (بخاری اور مسلم)
اسلامی ریاست کے لئے اسلامی عقیدہ ہی اس کا سیاسی نظریہ ہے۔ یہی عقیدہ ہی ریاست کی وہ اساس ہے، کہ جس کے بغیر ریاست کا ڈھانچہ، ساخت، احتساب، یا ریاست سے متعلق کچھ بھی امر وجود نہیں رکھ سکتا، کیونکہ کل اوامر کا اسلامی عقیدہ پر استوار ہونا لازمی ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کے گرد ریاست کے فکری مفاہیم(concepts)، معیار (criteria) اور اعتقادات(convictions) کا احاطہ کرتے ہوئے ریاست کی اتھارٹی قائم ہوتی ہے، اور انہیں ریاست داخلی طور پر نافذ کرتی ہے اور اسی دعوت کا پیغام دنیا تک لے کر جاتی ہے۔ اور اسی عقیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ ریاست کا ڈھانچہ، اس کے تمام نظام ہائے حیات، آئین، اور قوانین اسلامی عقیدہ سے ہی ہم آہنگ ہوں اور بعینہٖ اسی طرح سے فوجی ڈاکٹرائن بھی اسلامی عقیدہ سے ہم آہنگ ہونا لازمی ہے۔ مزید یہ کہ، فوج کا ادارہ ریاست کے ڈھانچے میں ایک اہم ستون ہوتا ہے، کیونکہ اسلامی ریاست ایک پُرعزم ریاست ہوتی ہے، اور اس میں جہاد جاری رہتا ہے، چاہے وہحق کو پھیلانے کے لئے ہو یا شر کے خاتمہ کے لئے۔ لہٰذا، فوجی ڈاکٹرائن میں کوئی بھی تبدیلی، خواہ وہ معمولی سی ہی کیوں نہ ہو، ریاست کو اس کے اسلامی کردار سے محروم کر دیتی ہے اور ریاست کی حاکمیت اور اس کی خودمختاری کو سلب کر لیتی ہے۔ اطاعت کرنا اور انکار کرنا خالصتاً اور صرف اور صرف اللہ ﷻ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے ہی ہونا لازم ہے۔ جدید سیاسی اصطلاح میں اسے فوج کے ادارے کے جنگی ڈاکٹرائن کے ضابطہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
2۔ جامعیت اور کمال
عسکری ڈاکٹرائن کا اسلامی عقیدہ پر استوار ہونا ہی اسے جامع اور مکمل بناتا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن کسی بھی عسکری معاملے کو، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، تفصیل، وضاحت، اور شرعی تدوین کے بغیر یونہی نہیں چھوڑ دیتا۔ اس ڈاکٹرائن میں جنگی ڈاکٹرائن، سکیورٹی ڈاکٹرائن، نقل وحمل، فوجی حکمت عملی، اسلحہ سازی، فوجی ٹریننگ، افواج میں بھرتی، افواج کا حرکت میں لانا، تنظیمی کاروائی، اقدامِ حرب، ثقافت، روحانیت، اخلاقیات، اور طرزِعمل شامل ہیں۔ اسلام عسکری ڈاکٹرائن کو نہایت خاص اہمیت دیتا ہے کیونکہ اسلام کی سربلندی یعنی جہاد کے لئے اس ڈاکٹرائن کا خاصا اہم کردار ہے اور اسی نظریہ میں ہی وہ اہلیت ہے جو ایک مسلم مجاہد کو روحانی طور پر طاقت بخشتی ہے، اور اس سے اس کی جنگی کارکردگی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اسی لئے اسلامی شرعی احکام فوجی امور کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں، چاہے وہعقائد ہوں، نظریاتی ہوں، جغرافیائی حکمت عملی سے متعلق ہوں، تکنیکی امور سے متعلق ہوں، ترغیب دلانے کے لئے ہوں، سیاسی تحفظ کے لئے ہوں، یا انسانی اخلاقیات کے حوالے سے ہوں، اور یہ ڈاکٹرائن ان تمام امور کو لازمی شرعی احکام قرار دیتے ہوئے ان پر اسلامی مہر ثبت کرتا ہے جن کی پابندی کرنا لازم ہوتا ہے :
نظریاتی سطح پر، اسلام فوج میں اسلامی ثقافت اور اسلام کے عمومی فہم کو راسخ کرنے اور اس میں اسلامی عقیدہ کو پیوست کرنے پر زور دیتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں توبہ کرنے، عبادت کرنے، روزے رکھنے، نماز پڑھنے، نیکی کا حکم دینے، برائی سے منع کرنے، اور جنت کے حصول کی خاطر جان و مال تک قربان کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،﴿إِنَّ ٱللَّهَ ٱشۡتَرَىٰ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ أَنفُسَهُمۡ وَأَمۡوَٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلۡجَنَّةَۚ ﴾”بے شک اللہ نے مؤمنین سے جنت کے عوض ان کی جانیں اور مال خرید لئے ہیں“ (التوبۃ؛ 9:111)، اور اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے، استقامت کرنے اور اگلے مورچوں کی حفاظت کرنے پر بھی زور دیا، ارشاد ہے،﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱصۡبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ ﴾”اے ایمان والو ! تم صبر کرو، اور مقابلہ میں مضبوط رہو اور جنگ کی تیاری کرو اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ“ (آل عمران؛ 3:200)۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کی ترغیب دی،«مَقَامُ الرَّجُلِ فِي الصَّفِّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الرَّجُلِ سِتِّينَ سَنَةً» ”ایک شخص کا اللہ کی راہ میں جہاد کی صف میں کھڑا ہونا ایک آدمی کے ساٹھ سال تک عبادت کرنے سے زیادہ افضل ہے“۔
اور ٹیکنیکل سطح پر، اللہ ﷻ نے مادی تیاری کرنے کو فرض قرار دیا ہے، جس میں اسلحہ، سازوسامان، اور وسائل کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق بروئے کار لانا شامل ہیں، تاکہ دشمن پر رعب طاری کیا جا سکے، یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جدید فوجی ترقیات اور ٹیکنیکل ترقی کے اعلیٰ ترین درجہ پر پہنچا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،﴿وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ﴾”اور جہاں تک ہوسکے قوت و طاقت سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو تاکہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں اور خوداپنے دشمنوں پر ہیبت ڈال سکو “ (الانفال؛ 8:60)۔ اس تیاری کی علت (شرعی وجہ) یہ ہے کہ دشمن پر ہیبت طاری کی جائے، اور یہ تیاری وقت، جگہ، دشمن کی تعداد، اور ٹیکنیکل ترقی کے لحاظ سے بدل بھی سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اسلامی فوج کی ترقی اور اسے ایسے اسلحے سے لیس کرنے پر بہت توجہ دیتے تھے جو عربوں کے لیے نئے تھے۔ آپ ﷺ نے اہلِ طائف کے خلاف منجنیقیں نصب کرائیں، مدینہ کے اطراف خندق کھدوائی، اور جدید ترین ہتھیار درآمد کیے، اور ان ہتھیاروں کی اسلحہ سازی سیکھنے کے لیے ان کے پاس اپنے سفیر بھیجے جو اس کام کے ماہرین تھے۔ آپ ﷺ تیراندازی، گھڑ سواری، اور تیراکی سیکھنے کی بھی ترغیب دیتے تھے، جو آپ ﷺ کے دور کے جدید ترین فوجی علوم میں شامل تھے۔
3۔ افواج کو حالتِ جنگ میں لانا اور ان کی ٹریننگ :
عملی طور پر افواج کو حالتِ جنگ میں لانے کے لئے اسلام نے مسلمانوں پر جہاد فرض کیا ہے اور فوجی تربیت کو لازم قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،﴿وَقَٰتِلُوهُمۡ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتۡنَةٞ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِۖ﴾”اور ان سے قتال کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب اللہ کا ہو جائے“ (الانفال؛ 8:39)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،«جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ» ”اپنے مالوں سے، اپنی جانوں سے اور اپنی زبان سے مشرکین کے خلاف جہاد کرو“ (ابو داؤد)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قتال کرنے پر زور دیا ہے، ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ حَرِّضِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ عَلَى ٱلۡقِتَالِۚ﴾”اے نبی، مومنوں کو جہاد پر ترغیب دو“ (الانفال؛ 8:65)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ شہادت پانے کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ﴿وَلَا تَحۡسَبَنَّ ٱلَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمۡوَٰتَۢاۚ بَلۡ أَحۡيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمۡ يُرۡزَقُونَ﴾”جو لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں ان کو ہر گزمردہ نہ سمجھو،بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس سے روزی دئیےجاتے ہیں“ (آل عمران؛ 3:169)۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا، «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُقَاتِلُهُمُ الْيَوْمَ رَجُلٌ فَيُقْتَلُ صَابِرًا مُحْتَسِبًا مُقْبِلًا غَيْرَ مُدْبِرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ» ”اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آج کوئی بھی شخص ایسا نہ ہو گا جو ان سے لڑتے ہوئے صابر رہے، ثواب کی طلب میں آگے بڑھتا رہے، پیٹھ نہ دکھائے اور مارا جائے تو اس کا صلہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا“ (ابن اسحٰق)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ صبر کرنے اور استقامت دکھانے کی ترغیب دیتے ہوئے مزید فرماتے ہیں،﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱصۡبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ﴾”اے ایمان والو ! تم صبر کرو، اور مقابلہ میں مضبوط رہو اور جنگ کی تیاری کرو اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ“ (آل عمران؛ 3:200)۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اللہ کی راہ میں پہرہ دینے کی اہمیت پر زور دیا، «عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» ”دو آنکھیں ایسی ہیں جنہیں جہنم کی آگ کبھی نہ چھو پائے گی، ایک وہ جو اللہ کے خوف سے روتی ہے اور دوسری وہ آنکھ جس نے اللہ کی راہ میں جہاد میں پہرہ دینے پر گزار دی“ (ترمذی)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہم پر یہ فرض کیا ہے کہ ہم اپنے مومن مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ﴿وَإِنِ ٱسۡتَنصَرُوكُمۡ فِي ٱلدِّينِ فَعَلَيۡكُمُ ٱلنَّصۡرُ﴾”اگر وہ تم سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو تم پر(ان کی) مدد کرنا لازم ہے“(الانفال؛ 8:72)۔
اسٹریٹیجک-سکیورٹی سطح پر، رسول اللہ ﷺ فوجی منصوبہ بندی اور چالوں پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ آپ ﷺ ان معلومات کو مشرکین سے چھپاتے، انٹیلی جنس جمع کرتے، جاسوسوں اور مخبروں کو تعینات کرتے، اور رومیوں اور فارسیوں پر رعب ڈالنے کے لئے چالیں چلتے تھے (مثلاًغزوۂ موتہ اور غزوۂ تبوک میں)۔ آپ ﷺ نے غطفان کو قریش سے الگ کرنے یا ان کے اور یہودیوں کے درمیان اتحاد توڑنے کے لئے بھی چالیں چلیں۔
4۔ عسکری اخلاقیات :
اخلاقی سطح پر، رسول اللہ ﷺ نے ایک اخلاقیاتی فوجی ضابطہ قائم کیا جو اعلیٰ انسانی اخلاقیات کو واضح طور پر بیان کرتا تھا، جن پر ایک مسلمان سپاہی کو جنگوں کے دوران عمل پیرا ہونا لازمی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا،«لَا تَخُونُوا، وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تُمَثِّلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا طِفْلًا صَغِيرًا، وَلَا شَيْخًا كَبِيرًا، وَلَا امْرَأَةً، وَلَا تَقْطَعُوا نَخْلًا وَلَا شَجَرَةً مُثْمِرَةً، وَلَا تَذْبَحُوا شَاةً وَلَا بَقَرَةً وَلَا بَعِيرًا إِلَّا لِمَأْكَلَةٍ. وَسَوْفَ تَمُرُّونَ بِأَقْوَامٍ قَدْ فَرَّغُوا أَنْفُسَهُمْ فِي الصَّوَامِعِ فَدَعُوهُمْ وَمَا فَرَّغُوا أَنْفُسَهُمْ لَهُ» ”غداری نہ کرو، دغا نہ دو، دھوکہ نہ دو، اعضاء نہ کاٹو، چھوٹے بچوں، بزرگوں، یا عورتوں کو قتل نہ کرو۔ کھجور کے درختوں یا پھل دار درختوں کو نہ کاٹو، اور نہ ہی بکریوں، گائے، یا اونٹوں کو سوائے اس کے کہ کھانے کے لئے ذبح کرو۔ تمہارا ایسے لوگوں سے سامنا ہو جنہوں نے اپنے آپ کو خانقاہوں میں عبادت کے لیے وقف کر دیا ہے تو انہیں اور ان کے کام کو چھوڑ دو“۔
اخلاقیات کا یہ ضابطہ انسانیت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا ضابطہ تھا، جو کہ اس جنیوا کنونشنز سے بھی چودہ صدیوں قبل آ گیا تھا، جس پر پہلی جنگِ عظیم کے بعد بڑی طاقتوں نے اتفاق کیا تھا۔ مزید یہ کہ اسلام کے احکام لازمی شرعی احکام ہیں جو کہ رنگ، نسل یا مذہب سے قطع نظر تمام انسانیت پر لاگو ہوتے ہیں۔ اسلام کے احکام جنیوا کنونشنز کے قوانین کی طرح نہیں ہیں جو پروپیگنڈے کے لئے ہیں یا ان کی نوعیت یہ ہے کہ انہیں منسوخ کیا جا سکتا ہے، اور صرف یورپی عیسائی علاقوں تک ہی محدود ہیں، جبکہ دیگر لوگوں کے لئے ان قوانین کی کچھ پرواہ نہیں کی جاتی۔ اس کی مثال غزہ کے لوگوں کے خلاف کئے جانے والےخونریزی اورقتل عام کے مظالم ہیں، جو عین ان کی آنکھوں کے سامنے برپا ہو رہے ہیں جو انسانی حقوق کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ اسلامی عسکری ڈاکٹرائن پر انحصار استحکام، مستقل مزاجی، اور تسلسل کو یقینی بناتا ہے، جبکہ اس کے برعکس جدید سیکولر عسکری ڈاکٹرائن جو کہ بیرونی تکنیکی، سیاسی، سکیورٹی صورتِ حال اور حکمت عملی کے اثرات کے تابع ہے۔ اور اسی وجہ سے موجودہ سیکولر ڈاکٹرائن مسلسل تبدیلی اور تغیر کا شکار ہوتا رہتا ہے۔
5۔ نظریاتی آمیزش :
اسلامی عقیدہ ہی اسلامی عسکری ادارے کا دماغ، احساسات اور جذبات ہوتا ہے۔ یہی عقیدہ ایک مسلمان مجاہد کی ذہنیت کو تشکیل دیتا ہے، اس کے منفرد عسکری کردار کو قائم کرتا ہے، اور اسلامی عسکری ڈاکٹرائن کو اعلیٰ اصولوں اور عظیم روحانیت سے بھر دیتا ہے۔ اس عقیدہ کے براہ راست اثرات کارکردگی، ساکھ اور کامیابیوں کے حوالے سے مسلمان مجاہد سپاہی اور اسلامی فوج پر ہوتے ہیں۔ اسلامی عقیدہ نے ہی اسلامی دور سے قبل کے مردہ جسم میں جان ڈال دی تھی، اور اس نے عربوں اور تمام مقبوضہ اقوام کو ایک نڈر شیر میں بدل دیا جو نہ تو موت سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ان کے آگے کوئی مقابلہ کے لئے ٹھہر سکتا ہے۔ اور یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کلمات کے عین مطابق ہے،﴿أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾”کیا وہ جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندگی عطا کی اور اسے ایک روشنی دی جس کے ساتھ وہ لوگوں کے درمیان چل سکتا ہے، کیا وہ ان لوگوں کی مانند ہو سکتے ہیں جو مکمل اندھیرے میں ہیں اور اس سے وہ کبھی باہر نہیں نکل سکتے؟ اسی طرح ہم نے کافروں کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دئیےہیں“ (سورۃ الانعام؛ 6:122)۔ یہ عقیدہ مسلمان مجاہد میں قربانی اور لگن کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے، خیر کے منبع سے تقویت دیتے ہوئے اسے بھرپور قوت اور غیر معمولی طاقت سے بھر دیتا ہے، اور اسے شہادت کی آرزو رکھنے والا ایک امیدوار بنا دیتا ہے۔ جہاد اسلام کا عروج ہے، اور شہادت مؤمن کا حتمی عزم ہوتا ہے۔ کوئی بھی اور قوم ایسی نہیں جس کے لوگ ایسے ہوں جو اپنے عقیدے کے خاطر اپنی جانیں تک قربان کر دیں اور اپنے آپ کو موت کے لیے اس طرح پیش کر دیتے ہوں، جیسا کہ اسلامی امت کے لوگ کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسلامی عقیدہ اپنے ماننے والوں سے جبلتِ بقا کے بنیادی مقصد کو دور کر دیتا ہے، انہیں غیر معمولی حوصلے اور بے مثال جرأت مندی سے بھر دیتا ہے، اور انہیں موت کو کسی خاطر میں نہ لانے اور حتیٰ کہ موت کی ایسے آرزو کرنے پر راضی کرتا ہے، جیسے دوسرے زندگی کی آرزوئیں کرتے ہیں۔ ان کے لیے موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتی بلکہ شہادت تو ہمیشہ باقی رہنے والی خوشیوں کے ساتھ حقیقی ابدی زندگی کا آغاز ہے، اور یہی جذبہ انہیں شہادت کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اسلامی عقیدہ ہی روحانی نوعیت کے اعتبار سے ظاہرہوتے ہوئے دشمن ہونے کے تصور کو تشکیل دیتا ہے، اور ایک مؤمن میں فریضہ ہونے اور جوابدہ ہونے کے حوالے سے شدید دشمنی کا احساس بھر دیتا ہے۔ ایک مسلمان جنگجو کی اپنے دشمن کے خلاف دشمنی اس کی ذاتی دشمنی یا کسی مفاد کے لئے نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ تو ایک پاکیزہ دشمنی ہے کیونکہ وہ دشمن اللہ ﷻ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف لڑتا ہے اور زمین پر اللہ ﷻ کے نور کو بجھا دینے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ ان دشمنوں سے لڑنا بعینہٖ نماز کی طرح فرض ہے، کیونکہ یہ اللہ ﷻ، اس کے رسول ﷺ، اور اس کے دین کے لیے فتح ہے، جو مسلمان مجاہد کو ایسی زبردست حربی قوت، طاقت، ثابت قدمی، اور عزم سے بھر دیتا ہے جو دنیاوی عقائد کو چیلنج کر دیتی ہے۔ اسلامی عقیدہ دشمن کی قدر و اہمیت کو بھی کم کرتا ہے، دشمن کے بودے پن اور نفسیاتی کمزوری کو عیاں کرتا ہے، اس کا مقام گھٹاتا ہے، اور مسلمان جنگجو کو اس کے خلاف ڈٹے رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے،﴿لَن يَضُرُّوكُمۡ إِلَّآ أَذٗىۖ وَإِن يُقَٰتِلُوكُمۡ يُوَلُّوكُمُ ٱلۡأَدۡبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ ﴾”وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے کہ ایک معمولی تکلیف دیں۔ اور اگر وہ تم سے لڑیں گے تو وہ بھاگ جائیں گے اور ان کے پاس کوئی بھی مددگار نہ ہو گا“ (آل عمران؛ 3:111)۔ اللہ ﷻ یہ بھی فرماتے ہیں،﴿لَا يُقَٰتِلُونَكُمۡ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرٗى مُّحَصَّنَةٍ أَوۡ مِن وَرَآءِ جُدُرِۢۚ بَأۡسُهُم بَيۡنَهُمۡ شَدِيدٞۚ تَحۡسَبُهُمۡ جَمِيعٗا وَقُلُوبُهُمۡ شَتَّىٰۚ﴾”وہ تم سے سب ملکر کبھی نہیں لڑیں گے، مگر محفوظ قلعوں میں یا دیواروں کے پیچھے سے۔ ان کے درمیان دشمنی شدید ہے، تم انہیں متحد سمجھتے ہو، مگر ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں“ (سورۃ الحشر 59:14)۔ اللہ ﷻ مزید فرماتے ہیں، ﴿وَلَا تَهِنُواْ فِي ٱبۡتِغَآءِ ٱلۡقَوۡمِۖ إِن تَكُونُواْ تَأۡلَمُونَ فَإِنَّهُمۡ يَأۡلَمُونَ كَمَا تَأۡلَمُونَۖ وَتَرۡجُونَ مِنَ ٱللَّهِ مَا لَا يَرۡجُونَۗ﴾”دشمن کا تعاقب کرنے میں سستی نہ دکھاؤ۔ اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو جیسے تمہیں تکلیف پہنچتی ہے ویسے ہی انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ لیکن تم اللہ سے ایسی امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے“ (سورۃ النساء 4:104)۔ یہ آیات اور دیگر آیات دشمن کی اوقات کو بے نقاب کرتی ہیں، اسے اس کی عزت سے محروم کرتی ہیں، اور اسے ایک ایسی کھلی کتاب کی طرح ظاہر کرتی ہیں، جس کی سیاہی ان کی بزدلی، کمزوری، اور ناگزیر شکست ہے۔
تو یہ ہوتا ہے اسلامی فوج کا ڈاکٹرائن اور ایسی ہوتی ہیں اس کی نظریاتی اساس اور اس کے عملی ثمرات، جنہوں نے تاریخِ اسلامیہ کو ایسے بے مثال کارناموں اور دلیرانہ واقعات سے بھر دیا ، جو دنیاوی مادی عقائد کو چیلنج کرتے تھے۔ تو پھر آخر استعماری کافر نے اس ڈکٹرائن کو کیسے ہدف بنالیا؟
اسلامی عسکری ڈاکٹرائن کے خلاف استعماریت کی حکمت عملی :
1۔ امت کی شناخت کو نشانہ بنانا :
حربی قوت کے لیے اسلامی عسکری ڈاکٹرائن کی قدر واہمیت اور میدانِ جنگ میں مسلمان سپاہیوں کے کارناموں پر اس ڈاکٹرائن کا طاقتور اثر، کفر کے سربراہوں اور استعماریت کے ماسٹر مائنڈز سے مخفی نہ رہا۔ صدیوں کی جنگوں کے دوران، انہوں نے اس ڈاکٹرائن کے اثرات کو براہ راست محسوس کیا، اور اسی لیے انہوں نے اپنے تخریبی منصوبوں میں اس ڈاکٹرائن کو سبوتاژ کرنے کو اولین ترجیح دی۔ سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط سے پہلے، انہوں نے آزاد عیسائی مِشنریوں، اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے یہودی ڈونمہ بہروپیوں (Jewish Dönmeh)، کمیٹی برائے اتحاد وترقی اور ان کے ساتھ ساتھ نوجوان ترکوں کے ہاتھوں اس ڈاکٹرائن کو مسخ کرنے، تبدیل کرنے، اور اس میں ترامیم کے ذریعے اسے نشانہ بنایا۔ ان گروہوں نے امت کو داخلی تنازعات میں دھکیلتے ہوئے عسکری ڈاکٹرائن کو تحلیل کر کے کمزور کیا اور اطاعت اور انکار(الولاء والبراء) کے تصور کو قوم پرستی، ترک پرستی اور وطنیت پسندی کے کرپٹ زہر سے بگاڑ دیا، جس سے امت کی یکجہتی کمزور ہو کر رہ گئی، اس کی طاقت ٹوٹ گئی، اور اسے مہلک ضرب لگی۔
خلافت کے انہدام اور قومی سرحدوں پر مشتمل ممالک کے قیام کے بعد، کفار نے امت کی افواج کو دشمن کے مفادات کو پورا کرنے کی خاطرسائیکس-پیکو کی کھینچی لکیروں کی حفاظت کرنے، اپنے ہی لوگوں پر جبر کرنے، ان کے اندر موجود اسلامی روح کو بجھا دینے اور ان کا استحصال کرنے اور ان کی حرمات کی پامالی کرنے کے لئے ان کے علاقوں کو کھولتے ہوئے، ان کی تشکیل بندی اور تسلط کے ذریعے اس اسلامی عسکری ڈاکٹرائن کو مزید نشانہ بنایا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ناقابل تسخیر قلعوں کو صرف اندر سے ہیضرب لگائی جا سکتی ہے، اور یہ بھی جانتے ہوئے کہ اسلامی فوج اسلامی امت کا حصہ ہے، کفار نے امت کی فکری اور تحریکی شناخت کو نشانہ بناتے ہوئے عسکری ڈاکٹرائن کو کمزور کرنے کا راستہ ہموار کیا۔ انہوں نے سائنس، طب، جدیدیت اور مہارت کے تبادلے کی آڑ میں ثقافتی حملوں کے ذریعے مسلم وجود میں نظریاتی اور سیاسی طور پر دراندازی کرنے کی کوشش کی۔ ان کی حملہ آور مہمات نے اسلامی اقوام کی شناخت کو مسخ کرنے، اسلامی شخصیت کو مٹا دینے، اور ان کے خیالات، میلان، اور وفاداریوں کو اسلامی عقیدہ کے رشتہ اور خلافت سے وفاداری کی بجائے مغربی ثقافت، نسلی، قومی، اور فرقہ وارانہ رشتوں کی بنیاد پر دوبارہ تشکیل دینے کا کام کیا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے تعلیمی نظام، میڈیا، سیکولر اشرافیہ، گمراہ کن علماء، اور سیاسی و فوجی چالوں کا استعمال کیا۔
چونکہ افواج اپنے عوام کا ہی عکاس ہوتی ہیں، چنانچہ اس زہر آلود اقدام نے ان کے عسکری ڈاکٹرائن کو نشانہ بنانے میں آسانی پیدا کر دی، جس کے نتیجے میں انہیں بے مثال کامیابی حاصل ہوئی، جس نے ان فوجوں کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ کے آلات اور اپنے دشمنوں کے محافظوں میں تبدیل کر دیا۔ آخر استعماری کفار نے اس قدر مشکل معاملے کو کیسے حاصل کیا، اور اس صورتحال سے امت کے موجودہ اور مستقبل کے حالات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
2۔ عسکری عمرانیات (Military Sociology) :
ایک ایسے مشن کا سامنا کرتے ہوئے جو پہلی نظر میں تو ناممکن لگتا تھا، استعماری کفار نے اپنے آپ کو عسکری سوشیالوجی کے نظریات سے مسلح کیا۔ انہوں نے ڈاکٹرائن، وفاداریوں، تنظیمی ڈھانچے، تنظیم بندی، ٹریننگ، اسلحہ اور کام کی نوعیت سطح پر جا کرمسلم علاقوں کی افواج کی بنیادی تنظیم نو کی۔ انہوں نے اسلامی عسکری ادارے میں ایک بیرونی روح بھر دی، جو اس کے ساتھ ہم آہنگ نہ تھی، یہاں تک کہ وہ اس حد تک بڑھ گئی کہ اس کے فوجی اور جنگی نظریے کو اس کے مذہبی نظریے کے ہی خلاف کر دیا، جس سے اندرونی طور پر ایک قسم کی علیحدہ شخصیت پیدا ہوئی۔ اس کے خیالات اس کے میلان سے منقطع ہو گئے، اس کے جذبات اس کی آگاہی سے علیحدہ ہو گئے، جس نے اسے استعمار کے ہاتھوں میں ایک گونگا اور بہرہ آلہ بنا کر رکھ دیا، جو کہ ایک عجیب تضاد کا شکار ایک خود تخریبی ہتھیار اور امت اور اس کے دشمنوں کے مابین اور امت اور اس کے ظالم حکمرانوں کے درمیان ایک مادی رکاوٹ بن کر رہ گیا۔ استعماری کفار نے ان افواج کی رہنمائی کرنے والے اطاعت و انکار کے تصور کو ہی مٹا ڈالا، ان کے اعمال کرنے کے معیار کو بگاڑ دیا، ان کے خوشی وسعادت کے تصور کو تبدیل کر دیا، اور زندگی، موت اور پسند سے متعلق ان کے تصورات کو بھی بدل دیا۔ کفار نے ان کے حوصلے کو کمزور کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کو ماند کرنے کے لیے کافی محنت کی، ان کے قربانی، حوصلے، اور لگن کی روح کو مٹا دیا، انہیں دنیاوی مفادات کے پیچھے دوڑنے والے کرائے کے سپاہیوں میں تبدیل کر دیا، جو خوشی، منافع، عہدوں، تمغوں، ترغیبات، ترقیوں کی دُھن میں تھے ، اور اپنے ہی لوگوں اور امت اسلامیہ میں اپنے ہمسایوں کے خلاف فرضی کامیابیوں کی تلاش میں لگے رہتے تھے۔
کفار نے مسلم سپاہیوں کو میدانِ جنگ کے شیروں اور جانثاروں کی نسلوں سے بدل کر انہیں محض پریڈوں اور کھوکھلے جلسے جلوسوں کے افراد میں تبدیل کر دیا جنہیں امن کے دَور میں شہری تحفظ، آگ بجھانے اور عوامی نظم وضبط برقرار رکھنے کے لئے مقرر کیا جاتا ہے اور یوں انہیں اللہ ﷻ کی راہ میں جہاد اور فتح کے عظیم مشن سے ہٹا دیا۔ وہ عسکری ڈاکٹرائن جو کسی دور میں طاقتور ترین افواج کو بھی دہلا کر رکھ دیتا تھا اور اس نے تاریخ کی عظیم ترین فتوحات حاصل کی تھیں، استعماری کفار نے اس ڈاکٹرائن کو اقدامی ڈاکٹرائن سے بدل کر ایک دفاعی ڈاکٹرائن میں تبدیل کر دیا، جس نے اسلامی فوج کو، جو دعوت اور جہاد کی علمبردار تھی، ایک قومی جمہوری فوج میں بدل دیا، جس کا کام سائیکس-پیکو کی کھینچی لکیروں کی حفاظت کرنا، جمہوری نظام اور اس کے حکمرانوں کی حفاظت کرنا، مغربی ثقافت، مغربی نظاموں اور ان کے مفادات کا دفاع کرنا، اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے بنائی گئی مصنوعی قومی سرحدوں کی حفاظت کرنا رہ گیا تھا۔ ان سرحدوں پر وہ جھنڈے نصب تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے رایہ (جھنڈے) کی جگہ لے لی تھی۔
3۔ کنٹرول کو مزید تر سخت کرنا :
اس صورت حال کو برقرار رکھنے اور اچانک ضمیر کی بیداری سے انہیں بچانے کے لیے، جو کہ معاملات کو دوبارہ ابتدائی حالت میں واپس کر سکتے ہیں، استعماری کفار نے ان افواج کے اذہان اور سیاسی موقفوں کو بھی سلب کرنے کی کوشش کی۔ کفار نے مسلمان سپاہیوں میں اسلام پسندوں کے خلاف ایک گہری نفرت اور شک پیدا کر دیا، ان کے درمیان دشمنی کے جال بُنے، اور انہیں ”دہشت گرد“ یا ”ظلم کے ایجنٹ“ کے طور پر پیش کیا۔ کفار نے ان کی خاموش غیر جانبداری کو یقینی بنایا، انہیں سیاسی امور سے الگ رکھا اور امت کے دل میں موجود ان کی یہ خواہش کہ وہ اس سیاسی امور کے دو لازمی عناصر یعنی عوام اور حکمرانی کے لئے طاقت کی منتقلی میں کردار ادا کریں ، اس سے انہیں دور کر دیا، اور انہیں ایک غیر جانبدار تیسری پارٹی بنا دیا، جو رنگ، ذائقہ، یا بو سے عاری تھی، اور انہیں استعمار کے موقف اور منصوبوں اور مفادات کے ساتھ باندھ دیا۔
کفار نے اس صورتحال کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ادارہ جاتی عہدوں میں سخت درجہ بندی قائم کی، اہم عہدوں پر ان لوگوں کو تعینات کیا جو کفار کے لیے سب سے زیادہ وفادار اور اسلامی شناخت سے دور تھے اور لوگوں میں کم قبولیت والے افراد مثلاً نسلی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں کومسلط کیا ، جیسا کہ شام میں علوی اور پاکستان میں قادیانیوں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ یوں ان کی کافر استعمار کے ساتھ وفاداری اندھی ہو گئی تھی، ان کا رشتہ کافر استعمار کے ساتھ ایسا ہی ناگزیر ہو گیا جیسے رحم میں موجود طفل کا رشتہ اپنی ماں سے ایک نالی سے جڑا ہوتا ہے۔ پھر کفار نے اس سب کو ایک سخت نظم وضبط کے نظام سے مزید تقویت دی تاکہ کوئی بھی شخص فوجی احکامات کو انکار کرنے کی جرأت نہ کر سکے، چاہے وہ احکام کتنے ہی غیر عادلانہ، غیر انسانی، یا اسلامی نظریے اور مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔
فوج اور امت کے درمیان خلیج کو مزید بڑھانے کے لیے استعماری طاقتوں نے افواج کو ان کے اپنے لوگوں کے ساتھ تنازعات میں اُلجھا دیا، جیسا کہ رباء، الجزائر میں سیاہ دہائی، حماء، فلسطین کی دفاعی سکیورٹی، اور اس کے علاوہ اپنے ہمسایہ مسلم قوموں کے ساتھ خونی فوجی جھڑپوں کے ذریعے امت اور اس کی طاقت کے درمیان ایک نفسیاتی دیوار قائم کی، تاکہ کفر کے خلاف امت کے اتحاد کو روکا جا سکے، اس کی مثالیں ایران اور عراق، مراکش اور الجزائر، سعودی عرب اور یمن، شام اور لبنان، لیبیا اور چاڈ، مصر اور لیبیا، عراق اور کویت، پاکستان اور افغانستان اور مصر اور سوڈان کے درمیان تنازعات ہیں۔ کفار نے علیحدہ خصوصی شہر قائم کرتے ہوئے فوجی اور سکیورٹی فورسز کو عوام سے الگ کر کے علیحٰدہ بستیوں میں محدود کر دیا، جیسے کہ سعودی عرب کا ماڈل، انہیں کسی بھی قسم کی اسلامی مہک سے دور کیا، اور ان کی اس حد تک نگرانی کی کہ حتیٰ کہ ان کے سسرال اور بیویوں تک بھی نظر رکھی جیسا کہتیونس میں ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کفار نے فوجی افسران کو مادی فوائد میں ڈبوتے ہوئے اور سرمایہ دارانہ حِرص سے آلودہ کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں کو معیشت میں کھلا چھوڑ دیا تاکہ کفار کے ساتھ ان کی وفاداری کومزید گہرا کیا جا سکے، ان کے اپنے مفادات کی ضمانت کے بدلے انہیںکفار کے مفادات کا دفاع کرنے پر مجبور کیا، اور ان کی بقاء کو اپنے ساتھ ہم آہنگ کر دیا، جیسے کہ مصری فوج کی مثال ہے۔
4۔ طاقت کو غیرمؤثر کر دینا :
یہ سوچتے ہوئے کہ امت کی یہ افواج کہیں کفار کے اس منصوبے سے باہر نہ نکل جائیں یا کہیں افواج کی طاقت اسلام پسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائے، استعماری کفار نے انہیں ایوی ایشن، نیوی، آبدوزوں اور جوہری ٹیکنالوجی کے میدان میں انتہائی اہم نوعیت کی جنگی مہارت سے دور رکھتے ہوئے ان افواج کے پَر کاٹ دئیے۔ کفار نے ان افواج میں موجود ہونہار ترین افراد کو اپنے مقاصد کے لئے چنتے ہوئے انہیں مادی لذتوں کی طرف مائل کرنے یا پھر انہیں قتل کروا دینے کے لئے بھی کام کیا، جیسا کہ عراق اور مصر کے ایٹمی پروگرام کے سائنسدان اور تیونس کےایروسپیس انجنئیر محمد الزواری۔ کفار نے مسلم فوجیوں کو مغربی تعلیم، ٹیکنالوجی، اسلحہ، تربیت، اور جنگی مشقوں پر انحصار کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے انہیں صرف وہ ٹیکنالوجی مہیا کی جو مخصوص کاموں کے لیے ہی استعمال ہو سکے۔ اگر اس مخصوص کام کی نوعیت عوام سے حکومت کی حفاظت کرنا تھا، تو کفار نے انہیں شہری جنگ کے ہتھیار فراہم کیے، جیسے تیونس کی فوج کے لیے اسٹیر رائفلزSteyr AUG۔ اگر اس مخصوص کام کی نوعیت کا مقصد یہودی وجود کی حفاظت کرنا تھا، تو کفار نے انہیں ناقص ہتھیار فراہم کیے، جیسے 1948ء کی جنگ میں اردنی فوج کو جو ہتھیار فراہم کئے گئے تھے، یا پھر خود سے ان کا اسلحہ تباہ کیا، جیسا کہ 1967ء کی جنگ میں مصری فضائیہ کے ساتھ ہوا، یا پھر انہیں ایسے ہتھیار خریدنے پر مجبور کیا جنہیں وہ استعمال یا کنٹرول بھی نہیں کر سکتے تھے، جیسے سعودی عرب کے لیے AWACS (ایئر بورن وارننگ اور کنٹرول سسٹم) نگرانی کے طیارے وغیرہ۔ اور اگر اس مخصوص کام کا مقصد ایک عسکری ڈرامہ رچانا تھا تا کہ امت کے غصے کو بھی کم کیا جائے اور یہودی وجود کا تحفظ برقرار رکھا جائے، تو کفار نے ان پر اسلامی عقیدے کی باگیں ڈھیلی کر دیں اور انہیں بہترین ہتھیار فراہم کیے، جیسا کہ 1973ء کی جنگ میں جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کے لیے کی گئی تھی۔
اگر ان کا مشن اندرونی یا علاقائی طور پر اہم استعماری مفادات، بین الاقوامی اثر و رسوخ کی جنگ، اور سیاسی اسلام کے خلاف تھا، تو کفار نے مسلم افواج کو خطرناک اور مہلک ترین ہتھیار فراہم کیے۔ یہ اس شرط پر تھا کہ ان ہتھیاروں کا استعمال صرف مخصوص مشن کے لیے ہو، جیسے سوویت فوج کے خلاف افغان مجاہدین کے لیے اسٹنگر میزائل، خلافت کا مطالبہ کرنے والوں کو ختم کرنے کے لیے شامی کیمیائی ہتھیار، بھارت اور چین کو روکنے کے لیے پاکستانی ایٹمی ہتھیار، اور سُنّی (ممالک کے )گروہ کو استعمار کے بازوؤں میں دھکیلنے کے لیے ایران کا ایٹمی منصوبہ۔ اگر کفار کا ان افواج کے ڈاکٹرائن پر مضبوط کنٹرول نہ ہوتا، تو وہ ان خطرناک مہمات میں کبھی ہاتھ نہ ڈال پاتے جن کے نتائج ان کےلئے اور یہودی وجود کے لیے غیر یقینی تھے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ ایسا مہلک اسلحہ اکٹھا کرتے جا رہے ہیں، جو یہودی وجود سے صرف چند قدم کے فاصلے پر ہیں، لیکن ان علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک انگلی تک نہ ہلائیں جن پر یہودی وجود نے قبضہ کیا ہوا ہے، جیسے گولان کی پہاڑیاں اور رفح۔ مسلم افواج نے اپنے ہی مسلمان لوگوں کے خلاف یہ ہتھیار استعمال کیے، جیسے مصر، شام، عراق اور سعودی عرب میں، یا ان کو استعماری منصوبوں کے لئےمسلمانوں کی جانوں کی قربانی دے کر استعمال کیا، جیسے عراق ایران جنگ میں، یمن میں عرب اتحاد، اور شام و لیبیا میں ترک افواج نے کیا۔
5۔ نتیجہ :
اس بنیاد پر، تمام مسلم ممالک کے دساتیرنے متفقہ طور پر اپنی فوجی دفعات میں چھ اصولوں پر اتفاق کیا ہے:
• پہلا: فوج کے عسکری ڈاکٹرائن میں مذہب کو علیحدہ رکھنا۔
• دوسرا: فوج کا ”دہشت گردی“ اور ہر طرح کے اسلام سے لڑنے اور ریاست کی حدود کو اسلامی سرگرمیوں کی بنیاد، گڑھ، یا میدان بننے سے روکنے کا عہد۔
• تیسرا: فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا پابند ہونا۔
• چوتھا: فوج کا اقتدار کی منتقلی میں کوئی کردار نہ ہونا۔
• پانچواں: فوج کو اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ حسنِ ہمسائیگی کے اصول پر عمل کرنا اور ان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنا۔
• چھٹا: فوج کا کسی بھی طرح کے حالات سے قطع نظر ہر حال میں اپنے عالمی معاہدات کا احترام کرنا ۔
ان دفعات کے علاوہ ہر ریاست کی مخصوص صورتحال، حقائق، اور حالات کے مطابق کچھ اضافی دفعات بھی مختص کی گئی ہیں۔ تو یہ ہے وہ عسکری ڈاکٹرائن جو استعماری کفار نے موجودہ مسلم ممالک کی افواج کے لئے مقرر کیا ہے۔ اس ڈاکٹرائن کے اصولوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ استعماری طاقتوں نے کس قدر بدنیتی سے مسلمان فوجیوں اور ان کے عسکری ادارے کی شخصیت کو اس انداز میں تشکیل دیا ہے کہ وہ کفار کے تابع رہیں اور ان کے کنٹرول میں ہوں۔ کفار نے ان کی دینی عقیدے کو کمزور کیا، اطاعت اور انکار (الولاء والبراء)کے اصول کو مٹا دیا، ان کے مفاد اور نقصان کے تصور، دشمن اور دوست کی پہچان کو بدل دیا، اور انہیں اسلحہ اور ٹریننگ میں کفار کے ساتھ منسلک کر دیا۔ کفار نے ان کی عقل، رائے، اور سیاسی مؤقف کو گدلا کر دیا، انہیں ان کے علاقائی حالات، عوام اور امت سے جدا کر دیا، اور ان کے کردار و فرائض کو استعماری مفادات کی خدمت کے لیے موڑ دیا، اور اقوام کے وسائل لوٹنے کی عالمی دوڑ میں ان افواج کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا۔ کفار نے مسلم افواج کو ایک گونگے، اندھے مادی آلے میں تبدیل کر دیا تاکہ وہ ان کے مفادات اور ایجنٹوں کی حفاظت کرتے رہیں، اور ان کے ان منصوبوں کو پورا کریں جو اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں، امت کی تقسیم کو برقرار رکھنے اور اس میں کسی اسلامی جذبے کو ابھرنے سے روکنے کے لیے، تاکہ اسلامی عقیدے کی بنیاد پر امت کا اتحاد نہ ہونے پائے۔
یوں آخر کار، استعماری کفار نے امت کی طاقت پر کنٹرول حاصل کر لیا، اس کی فوجی شناخت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، اور اسے اس کے اپنے دین، تہذیب، ثقافت، اور عوام کے خلاف کر دیا۔ کفار نے امت کی فوجی طاقت کو مردہ، بے جان لاشوں میں بدل دیا، جن میں بھلائی کی کوئی امید نہ ہو، اور پھر انہیں مقامی ایجنٹوں کے ذریعے خود اپنے آپ کو استعماری بنانے پر مجبور کر دیا۔
یہ ناقابل یقین تضاد کبھی ممکن نہیں ہو سکتا تھا اگر استعماری طاقتوں کا مسلم افواج کے عسکری ڈاکٹرائن پر کنٹرول نہ ہوتا، جس نے مسلم فوجوں کو ایک سیکولر مزاج، عمومی طور پر قوم پرست اکائی بنا کر دیا ہے، البتہ استثنائی طور پر کچھ نسلی اور فرقہ وارانہ رنگ بھی چھوڑ رکھا ہے؛ جس کا مشترکہ دشمن سیاسی اسلام ہے، اور جس کی داخلی، علاقائی، اور عالمی پالیسیاں اپنے مغربی آقاؤں کے مفادات کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ اس نے مسلم افواج کو امت کے خلاف جنگ میں اور اس کے دشمنوں کے لیے امن کی ضمانت میں ایک آلہ بنا دیا ہے۔ تو کیا اب ہمیں کوئی حیرت ہونی چاہیے کہ مسلم افواج غزہ میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے اور غاصب یہودی وجود کے خلاف ان کی حمایت کرنے سے کیوں گریز کرتی ہیں ؟
مسلمان افواج کو دوبارہ اپنی امت کے ساتھ جوڑنا
1۔ ممکنات کے دائرے میں رہتے ہوئے :
مسلم افواج کی حالت کا جائزہ لینے اور اس مرض کی نشاندہی کر لینے کے بعد جو ان کے بنیادی ڈھانچے کو کھائے جاتی ہے، ان کی حرکت کو مفلوج کرتی ہے، ان کے خیر کے منبع کو خشک کر دیتی ہے، انہیں ان کی امت سے بیگانہ کر دیتی ہے، ان کے عظیم مشن سے بھٹکاتی ہے، اور انہیں دشمنوں کی خدمت کرنے پر مجبور کرتی ہے، اسسے ایک مرکزی سوال پیدا ہوتا ہے: کیا اس استعماری گرفت کو توڑ کر مسلم افواج کو دوبارہ امت کی آغوش میں لانا ممکن ہے، تاکہ وہ ان اہم مقاصد کے لیے وقف ہو جائیں؟ کیا یہ مشن قابل ِعمل بھی ہے اور ممکنات کے دائرے میں آتا ہے یا یہ ایک ناممکن کام ہے؟
جواب دینے سے پہلے، ابتدا ہی سے یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ استعماریت نے مسلم افواج کے ساتھ جو کچھ حاصل کیا، وہ نہ کوئی معجزہ تھا اور نہ ہی مافوق الفطرت، اور نہ ہی اسے پورا کرنے کے لیے غیر معمولی افراد کی ضرورت تھی، خاص طور پر خلافت کے زوال، غداریوں کی بھرمار، جہالت، پسماندگی، غربت، اور اسلام کے صحیح فہم کی کمی کے دور میں جو اس وقت امت میں غالب تھا۔ لارنس آف عریبیہ کوئی غیر معمولی شخصیت نہیں تھی کہ اس نے جزیرہ عرب کے بدوؤں کو ان کے اسلامی ریاست کے خلاف بھڑکانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس نے صرف ان کے وفاداری اور انکار کے اصول میں تھوڑی سی تبدیلی کی، اسلامی خلافت سے عرب خلافت کی طرف، جس نے امت کو تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ یہی بات فرانس، روس، اور اٹلی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے جنہوں نے مسلم افواج کو اسلامی سرزمینوں کو زیر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ جرم سیاسی ممکنات کے دائرے میں آتا ہے، اس سے ماوراء نہیں ہے۔ استعماری طاقتوں نے مسلم افواج پر عسکری سماجی علوم کے نظریات کا اطلاق کیا، ان کی گہرائیوں کا مطالعہ کیا، ان کی کمزوریوں کو سمجھا، اور اپنے ایجنٹوں، بے تحاشہ خرچ، اور عسکری اداروں پر کنٹرول کے ذریعے ان کا استحصال کیا۔ پھر استعماریت نے مسلم جنگجوؤں کے کمانڈ سینٹر، ان کے عسکری اور جنگی ڈاکٹرائن پر مضبوط گرفت حاصل کی، اور ان کی فوجی ذہنیت اور رجحانات کو اس طرح ڈھالا کہ وہ ان کے دینی عقائد کے برخلاف ہو گئے۔ اس نے ان کے وفاداری اور انکار کے تصور کو مٹا دیا، ان کے بھلائی کے عمومی تصور کو بدل دیا، ان کی زندگی اور موت کی ترجیحات تبدیل کر ڈالی، اور ان کے خوشی و سعادت کے تصور کو از سر نو ترتیب دیا اور یوں انہیں مکمل طور پر اپنے احکامات کے تابع بنا دیا۔
مرض کی تشخیص:
مسلم افواج کا مسلم مسائل پر، خاص طور پر غزہ کے واقعات کے حوالے سے، ہچکچاہٹ اور ملی بھگت پر مبنی مؤقف ان کے اصل اندرونی احساسات اور مواقف کی عکاسی نہیں کرتا۔ وہ شدید غم و غصہ اور مایوسی کا شکار ہیں۔ ان پر ایک سخت تادیبی نظام کے تحت زبردستی ناپسندیدہ احکامات نافذ کرائے جاتے ہیں، جبکہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے بے تاب ہیں اور صیہونی وجود کو مٹانا چاہتے ہیں، لیکن وہ اس سخت درجہ بندی والے نظام کو توڑنے سے قاصر ہیں جو پوری فوج کو متحرک ہونے سے روکتا ہے۔ انفرادی اقدامات بے سود ہیں، ابتدا ہی سے ناکام قرار دیے جاتے ہیں، اور اکثر سزائے موت پر منتج ہوتے ہیں۔ درحقیقت، پوری عسکری تنظیم اس ناکامی کی ذمہ دار ہے، جس میں سپاہی اور نچلے درجے کے افسر محض ایک مشینری کے پُرزے ہیں، جو فیصلے کرنے کے بجائے صرف احکامات پر عمل کرتے ہیں۔
یہی صورتحال فوجی کمانڈرز اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے ساتھ بھی ہے، سوائے چند استثنائی حالات کے۔ لیکن، باوجود ان کے عقائدی اور انسانی جذبات سے متاثر ہونے کے، ان کے فیصلے دو رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہیں: پہلی رکاوٹ یہ ہے کہ وہ پیش قدمی نہیں کرتے کیونکہ وہ ذمہ داری ایک دوسرے پر منتقل کرتے ہیں اور اپنے ذاتی تحفظ کی غرض سے دوسروں کا انتظار کرتے ہیں۔ دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ وہ نامعلوم میں کودنے سے ڈرتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ کیا نتیجہ نکلے گا، کیا ضمانتیں ہیں، اور اقدام کے بعد کیا ہوگا۔ وہ ایک مضبوط قوت کے منتظر ہیں، اور نہیں چاہتے کہ ان کی پیش قدمی محض ایک بے سوچی سمجھی اور غیر یقینی عمل ثابت ہو۔
اسلامی افواج ہمیشہ سے خیر کا سرچشمہ رہی ہیں اور جب تک ان کا حفاظتی والو(valve) جو کہ اسلامی عقیدہ ہے، زندہ اور متحرک رہے گا، یہ اسی طرح رہیں گی۔ یہی وہ افواج ہیں جنہوں نے علاقے فتح کئے، قوموں کو حیران کیا، طاقتور سلطنتوں کو گرا دیا، سب سے مضبوط فوجوں کو شکست دی، بہترین ہیروز پیدا کیے، اور شاندار فتوحات حاصل کیں۔ آج ان کی مخصوص فوجی خصوصیات کو دو رکاوٹیں روک رہی ہیں: ایک جو ان کے رجحانات کو جکڑتی ہے، موت، ظلم، گھر کا چھن جانا، روزگار کے نقصان اور مراعات کے چھن جانے کا خوف؛ اور دوسری جو ان کی عقل کو باندھتی ہے، اسلام کی مسخ شدہ شکل اور اس کے احکامات و نظام کی صحیح سمجھ بوجھ کی کمی ۔
ان رکاوٹوں کو دور کرنا سیاسی ممکنات کے دائرے میں بہت زیادہ ممکن ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے اسلامی عقیدے کو مضبوط کیا جائے، انہیں اللہ ﷻ سے تعلق یاد دلایا جائے، آخرت کی یاد دہانی کرائی جائے، جنت کے وعدے سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، اور جہنم کے خوف سے انہیں ڈرایا جائے۔ انہیں خالص اور بے داغ اسلامی ثقافت فراہم کی جائے اور اسلامی شریعت کا درست فہم دیا جائے۔ ان کے مفاد، رزق، زندگی کے دورانیے، اور خوشی کے تصور کو درست کیا جائے، اور انہیں وہی توانائی دی جائے جو خالد بن ولیدؓ، قعقاع، قُطز، عمر مختار، اور آج کے حماس کے مجاہدین کو متاثر کرتی ہے۔
یہ کام اس سے کہیں زیادہ آسان ہے جو استعماری کفار نے مسلم افواج کے ساتھ کیا۔ تو کیا ہم اس میں ناکام رہیں گے کہ ان کی عسکری ڈاکٹرائن کو ان کے مذہبی عقیدے کے ساتھ ہم آہنگ کر سکیں، جبکہ استعماری کفار توان کے عسکری ڈاکٹرائن کو کمزور اور مسخ کرکے اسے ان کے عقائد سے ٹکراؤ میں لانے میں کامیاب ہو گئے؟
!
3۔ عملی اقدامات:
خلاصہ یہ ہے کہ مسلم فوجی ادارے کو دوبارہ زندہ کرنے اور اس میں نئی روح پھونکنے کے لیے ضروری ہے کہ استعماری فوجی نظریے کے عناصر کو ادارے میں شامل لوگوں کے ذہنوں اور دلوں سے مٹا دیا جائے اور اس کی جگہ اسلامی فوجی نظریہ قائم کیا جائے۔ اس میں مسلم فوج کی فوجی ذہنیت اور رجحانات کو ڈھالنا شامل ہے، اور مسلح افواج کے لیے بنیادی اصولوں کا ایک مجموعہ تیار کرنا ہے جو مختلف جنگی حالات میں ان کی سوچ کی رہنمائی کرے۔ اس میں شامل ہے کہ انہیں کس کے ساتھ اتحاد کرنا چاہئے، کس کے خلاف ہونا چاہئے، کس کے ساتھ لڑنا چاہئے، کیسے، کب، کیوں، اور کس حد تک لڑنا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے کہ فوجی ادارے کی ذہنیت، جذبات اور احساسات کو اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر استوار کیا جائے، تاکہ اسے اسلامی منصوبے کے ساتھ ہم آہنگ اور متحرک کرنے کے لیے تیار کیا جا سکے۔ اس عظیم کام کا ذریعہ براہ راست عقیدے پر مبنی گفتگو اور عملی اقدامات ہیں۔ فیلڈ کے عملی اقدامات مندرجہ ذیل ہیں:
• پہلا: فوجی بیرکوں کے قریب موجود مساجد کو ہدف بنا کر تمام عہدوں کے فوجی افراد کے ساتھ براہ راست رابطے کو بڑھانا، ان میں نیک افراد کا انتخاب کرنا، ان کا حوصلہ بلند کرنا، ان کی عزم کو تیز کرنا اور ان کے عزت کے احساس کو بیدار کرنا۔
• دوسرا: ان کے بنیادی مسئلے کو اجاگر کرنا اور اسلامی عقیدہ کو دیگر تمام عقائد سے ممتاز کرنا، اس کی برتری، شرافت، سچائی، عقل سے مطابقت اور انسانی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کو بیان کرنا، جبکہ اس عقیدہ کو کسی بھی آلودگی سے پاک کرنا۔
• تیسرا: انہیں حزب التحریر کے اسلامی منصوبے سے متعارف کرانا، انہیں اس پر آمادہ کرنا اور ان کے سامنے وہ اہم کردار واضح کرنا جو ان پر نُصرہ کی حمایت میں عائد کیا گیا ہے، انہیں انصار کے ساتھ تشبیہ دینا اور انہیں سعد بن عبادہؓ کے مقام پر رکھنا۔
• چوتھا: انہیں آگاہ کرنا کہ ان کے پیچھے ایک قائم حزب موجود ہے جو ایک عالمی اسلامی منصوبہ رکھتی ہے اور ایک پوری امت ان کے اقدام کی خواہاں ہے، اور ان کے ساتھ کندھا ملانے اور ان کی حمایت کے لیے تیار ہے، تاکہ ان کے دلوں کو اپنی مضبوط بنیاد پر اطمینان حاصل ہو۔
• پانچواں: ان کی آنکھیں اور ذہن دشمن کی اُن سازشوں کے متعلق کھولنا جو ان کی امت کے خلاف ہیں، جو ان کے اسلامی منصوبے کو روکنے، ان کی پسماندگی، استحصال اور انحصار کو برقرار رکھنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔
•چھٹا: ان میں وفاداری اور انکار کا تصور اس وقت تک داخل کرنا جب تک کہ وہ خالصتاً اللہ ﷻ کے لیے نہ ہو جائے، تاکہ ان کے اعلیٰ افسران کے احکامات ان کی نظروں میں چھوٹے ہو جائیں، کیونکہ اللہ ﷻ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔
• ساتواں: حوصلہ افزائی اور خوف دونوں کا استعمال کرنا، ان میں جنت اور اس کی ابدی نعمتوں کی خواہش پیدا کرنا اور جہنم اور اس کے دائمی عذاب سے بچنے کی تحریک دینا، جبکہ انہیں شہادت کی طلب پر اُکسانا اور انہیں یاد دلانا کہ وہ ابتدائی صحابہ رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
• آٹھواں: انہیں رزق کے تصور کی وضاحت کرنا، کہ وہ صرف اللہ ﷻ سے آتا ہے، اور کوئی اس کو دینے، روکنے یا فراہم کرنے کی طاقت نہیں رکھتا سوائے اس کے اذن کے، تاکہ ان کا رزق کھونے کا خوف دور ہو۔
• نواں: ان پر اجل کے تصور واضح کرنا، کہ موت کا واحد سبب اللہ کا فیصلہ ہے، اور یہ صرف اللہ ﷻ کے ہاتھ میں ہے، اور جب وہ وقت آجاتا ہے ﴿فَلَا يَسۡتَٔۡخِرُونَ سَاعَةٗ وَلَا يَسۡتَقۡدِمُونَ﴾”جب ان کا وقت آ جاتا ہے، وہ نہ ایک لمحے پیچھے ہٹ سکتے ہیں، نہ آگے بڑھ سکتے ہیں“(سورہ الاعراف 7:34)، تاکہ ان کا سزائے موت کا خوف دور ہو۔
• دسواں: ان پر خوشی و سعادت کے تصور کو واضح کرنا، کہ وہ ابدی سکون جس کی وہ خواہش کرتے ہیں وہ دولت، حیثیت، عہدوں یا عارضی لذتوں سے نہیں ملتا، بلکہ اللہ ﷻ کی رضا سے حاصل ہوتا ہے، جو صرف اس کے احکامات پر عمل کرنے اور اس کے حرام کردہ امور سے بچنے سے حاصل ہوتی ہے۔
یہ سب کچھ نُصرہ کے لیے مطلوب افراد پر زیادہ بوجھ ڈالے بغیر، طریقوں، ذرائع، حالات اورصورتِ حال کے محتاط انتخاب کے ساتھ کیا جانا چاہئے، تاکہ ان میں موجود فطری بھلائی کو ابھارا جا سکے۔ اللہ ﷻ کی رضا ہی حتمی مقصد ہے، وہ میرے اور آپ کے لیے کافی ہے، اور وہی ﷻ بہترین کارساز ہے۔
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...