بسم الله الرحمن الرحيم
آخر اب اور کیا ہو گا؟
پاکستان میں جمہوریت کے تحت ہونے والے حالیہ انتخابات نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ نہ تو اُن کے ذریعے کوئی تبدیلی آ سکتی ہے اور نہ ہی مغربی طاقتیں اور ان کے ایجنٹ کوئی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اور حقیقی تبدیلی کو روکنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ بہرحال عوام اسی طرح مایوس اور برہم ہیں۔
تو آخر اب اور کیا ہو سکتا ہے؟ تبدیلی لانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ہمیں تبدیلی لانے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کرنا لازمی ہے۔ یہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت میں سے تین اعمال ایسے ہیں جن کو ہمیں پھر سے اپنانا چاہیے۔
پہلا عمل: اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو اسلامی تبدیلی کی تعلیم دینا
اللہ ﷻ نے فرمایا:
﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾
’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ‘‘۔ [سورہ الشعراء؛ 26:214]
رسول اللہ ﷺنے سب سے پہلے اپنی زوجہ خدیجہؓ کو دعوت دی اور وہ آپ ﷺ پر ایمان لے آئیں۔ پھر آپ ﷺنے اپنے چچا زاد بھائی علیؓ کو دعوت دی اور وہ آپ ﷺ پر ایمان لے آئے۔ آپ ﷺنے اپنے دوست ابو بکرؓ کو دعوت دی جو آپ ﷺ پر ایمان لے آئے۔ آپ ﷺ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ بعض نے مان لیا اور بعض نے انکار کیا۔ آپ ﷺنے دارِ ارقم میں ایمان لانے والوں کو جمع کیا، یا آپ ﷺنے کسی کو ان کے اپنے گھروں میں یا پہاڑی وادیوں میں حلقہ بندیوں کے لیے بھیجا۔ اسلام کا پیغام اُن کے دل و دماغ میں گہری جڑ پکڑ گیا۔ اسلام ان کی رگوں میں خون کی مانند بہنے لگا۔ اور وہ اسلام کی چلتی پھرتی مثال بن گئے۔
تو کیا ہم نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں، بھائیوں اور بہنوں، شوہروں اور بیویوں، والدین سے رابطہ کیا ہے کہ انہیں اسلامی تبدیلی کے بارے میں سکھائیں؟ کیا ہمارے گھر دار ارقم جیسے ہیں؟ کیا ہمارے گھروں میں حلقے ہو رہے ہیں؟
دوسرا عمل: اسلامی تبدیلی کے پیغام کو عام کرنا
اللہ ﷻ نے فرمایا،
﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤمَرُ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ﴾
’’پس وہی کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور مشرکوں سے کنارہ کشی اختیار کرو‘‘(سورۃ الحجر 15:94)۔
رسول اللہ ﷺ دار ارقم سے اپنے صحابہؓ کے ساتھ ایک جلوس کی صورت میں نکلے جسے عربوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، انہوں نے کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اسلام کے پیغام کا اعلان کیا۔ آپ ﷺنے ظالم قریش، ان کے معبودوں، عقائد اور اُن باطل افکار، بددیانتی اور گمراہی کو بےنقاب کرتے ہوئے اُن کی مخالفت کی۔ قرآن مجید کی آیات رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئیں جو کفارِ مکہ کے تمام فاسد طریقوں پر حملہ کرتی ہیں جن میں سود لینا، اپنی بچیوں کو قتل کرنا، ناپ تول میں دھوکہ دینا اور زنا کرنا شامل ہیں۔ آیاتِ قرآنی نے قریش کے سرداروں پر بھی حملہ کیا، ان کے آباؤ اجداد اور ان کی عقلوں پر ملامت کی۔ آیات نے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے خلاف ان کی سازشوں کو بے نقاب بھی کیا۔
تو کیا ہم مساجد میں اسلامی تعلیمات کا اہتمام کر رہے ہیں، جلسوں، لیکچرز اور عوامی مقامات پر بیانات دے رہے ہیں؟ کیا ہم سوشل میڈیا پر اسلامی تبدیلی کا پیغام پھیلا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے دین کے خلاف ظالموں کے جرائم اور سازشوں کو بے نقاب کر رہے ہیں؟ کیا ہم عوام میں شعور بیدار کر رہے ہیں کہ اسلامی نظام کیا ہے؟ کیا ہم اس کی تفصیلات فراہم کر رہے ہیں کہ اسلام کس طرح سے اسلامی دنیا کے ساتھ ساتھ باقی دنیا کو کیسے بدل دے گا؟
تیسرا عمل: فوج میں موجود اہل نصرة کی اسلامی نظام کے لیے نصرۃ (مادی حمایت) کو یقینی بنانا
بیعتِ عقبہ ثانی کے موقعہ پر رسول اللہﷺ نے فرمایا:
أُبَايِعُكُمْ عَلَى أَنْ تَمْنَعُونِي مِمَّا تَمْنَعُونَ مِنْهُ نِسَاءَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ
"میں آپ کو اس بنیاد پر بیعت کی دعوت دیتا ہوں کہ آپ میری اسی طرح حفاظت کریں گے جیسا کہ تم اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کرتے ہو" [مسند احمد]۔
البراء نے بیعت کرنے کے لیے آپﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا،
(فَبَايِعْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَحْنُ أَهْلُ الْحُرُوبِ وَأَهْلُ الْحَلْقَةِ وَرِثْنَاهَا كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ)
’’یا رسول اللہ ہم بیعت کرتے ہیں، اللہ کی قسم ہم ایسے جنگجو ہیں جن کے پاس ہتھیار ہیں جو پشت در پشت منتقل ہوتے آ رہے ہیں‘‘۔ اس طرح، یہ انصارؓ کے فوجی کمانڈر تھے جنہوں نے اسلام کو عملی طور پر نافذ کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اپنی نصرۃ (مادی مدد) دی۔
تو کیا ہم نے مسلح افواج میں اپنے بیٹوں، بھائیوں اور والد کو اسلامی تبدیلی کی حمایت کرنے کے فرض سے آگاہ کر دیا ہے؟ کیا وہ انصارؓ کو اپنے لئے عملی نمونہ کے طور پر دیکھتے ہیں؟ کیا وہ ظالموں کی حکمرانی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات اُٹھانے کےلئے تیار ہیں؟
یہ ہیں وہ اقدامات جن پر حزب التحریر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے کررہی ہے۔ حزب التحریر میں شمولیت اختیار کریں۔ حقیقی تبدیلی کے بارے میں جانیں اور حقیقی تبدیلی کے لیے کام کریں۔
اللہ ﷻ نے فرمایا:
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْراً﴾
’’یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ (کی زندگی) میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے‘‘۔ (سورۃ الاحزاب 33:21)
مصعب عمیر، ولایہ پاکستان
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...