الأحد، 20 جمادى الثانية 1446| 2024/12/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

تبصرۂ خبر

 

اسلام اور مسلمانوں سے اپنی نفرت کی بنا پر ہی برطانیہ نے ہمیں محض غزہ کی حمایت کرنے اور اس کے لیے پکارنے پر دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ جبکہ درحقیقت خود برطانیہ کے ہاتھوں سے ہمارا لہو ٹپک رہا ہے، لیکن پھر بھی انہیں اپنا ظلم دہشت گردانہ نظر نہیں آتا!!!

 

(عربی سے ترجمہ)

 

برطانوی پارلیمنٹ نے اسلامی سیاسی جماعت، حزب التحریر کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔ یہ اقدام لندن میں ان مارچوں اور مظاہروں کے انعقاد میں حزب کی شرکت کے تناظر میں اٹھایا گیا ہے جو "اسرائیل" اور حماس کے درمیان تنازعہ کے دوران فلسطین کی حمایت میں منعقد کیے گئے تھے۔ ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز ،دونوں نے ہی ان منصوبوں کی حمایت کی، جس سے فوری طور پر پابندی کے نفاذ کی راہ ہموار ہوئی۔ یوں اس کے بعد، حزب التحریر سے تعلق رکھنا، حزب کی حمایت کا مطالبہ کرنا، یا عوامی مقامات پر اس کے نعرے لگانا وغیرہ، یہ سب اقدامات مجرمانہ کارروائی اور "ریاست مخالف" تصور کیے جائیں گے۔

 

مغرب اپنے تمام ظاہری رنگ، روپ، گروہوں اور شناختوں کے اندر رہتے ہوئے اپنے زہریلے ڈنک ظاہر کرتا چلا آرہا ہے جسے وہ ہمیشہ دنیا سے اور بالخصوص مسلمانوں سے چھپانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ آزادی رائے، انسانی حقوق، آزاد دنیا، جماعتی تکثیریت اور جمہوریت کے تمام نعرے برق رفتاری سے ایسے اڑ کر رہ گئے ہیں گویا وہ پانی کے قطرے تھے جو آگ پر رکھی ابلتی ہوئی گرم دیگچی پر جا گرے ہوں۔ وہ نعرے اس قدر جلدی سے بخارات بن کر اس بات پر مہر ثبت کر گئے کہ وہ ایک سراب سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھے۔ یہ وہ جھوٹ تھے جن کے بارے میں مغرب راگ الاپتا رہا تھا اور دنیا کے سامنے ان کی تشہیر کرتا رہا تاکہ انہیں استعمار کی کالونی بنایا جا سکے اور اس کے کنٹرول تلے اس کے لوگوں کا خون چوسا جائے۔ وہ نعرے کبھی بھی لاگو کرنے والے یا قبول کرنے والے نہ تھے۔

 

غمزدہ غزہ پر جاری اس وحشیانہ جنگ نے مغرب کے پاس اپنی سترپوشی کے لیے بھی کچھ نہیں چھوڑا کہ وہ خود کو چھپا ہی سکے۔ مغربی ریاستیں یہودی وجود کو عسکری، سیاسی، مادی اور اخلاقی مدد فراہم کرنے کے اپنے عزم پر باہمی متفق ہیں۔ اور ایسا اس لیے ہے تاکہ وہ غزہ میں مسلمانوں، معصوموں، بچوں، عورتوں اور زندگی کی ہر رمق کو شہید کرنے، ختم کر دینے اور کچل دینے کو جاری رکھے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے تاکہ اسلامی دنیا کے بیچوں بیچ امت مسلمہ کے قلب میں موجود اپنے فوجی اڈے یعنی "یہودی وجود" کو محفوظ رکھا جائے۔ مغرب نے اس بربریت اور یہودی وجود کی حمایت کو پھر بھی جواز فراہم کیا، حالانکہ وہ کسی مشترکہ مذہب، ثقافت، نسل یا زبان کے باعث متحد بھی نہیں ہیں۔ ان کے پاس تو یہ کہنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے جو وہ اس کی (یہودی وجود کی) حمایت کے عذر کے طور پر پیش کر سکیں، جیسا کہ یہ کہنا کہ ہم ایک مذہب، ایک نسل، ایک ثقافت، یا ایک زبان ہیں۔ حتیٰ کہ وہ انصاف، انسانیت اور انسانی حقوق کے نام نہاد مشترکہ نعرے کو بھی استعمال نہیں کر سکتے۔ اس کے بجائے، انہوں نے یہودی وجود کو دھماکا خیز مواد، میزائلوں اور بموں کی فراہمی کے لیے فضائی راستوں کو برقرار رکھا جنہوں نے ہرے بھرے کھلیانوں کو بھی خاک اور دھوئیں میں جھلسا کر رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ برطانوی وزیر اعظم خود بھی میزائلوں اور دھماکہ خیز مواد کے درمیان سے نمودار ہوا جنہیں وہ ذاتی طور پر ایک ٹرانسپورٹ طیارے میں لاد کر ساتھ لایا تھا۔ مغربی ریاستوں کے نزدیک یہ سب کچھ بالکل معمول کے مطابق ہے اور اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ تو اسے کسی بھی طرح دہشت گردی یا سفاکیت بھی نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یہ سب دہشت گردی اور بربریت کی انتہا ہے، کہ جس نے معصوم لوگوں، بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیا ہے اور اسکولوں، ہسپتالوں اور مسجدوں تک کو مسمار کر ڈالا ہے۔

 

دوسری طرف ان صلیبیوں کا خیال ہے کہ ایک مسلمان کا اپنے بھائی کی حمایت، ان لوگوں کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرنا جو اس کے مذہب، زبان، نسل اور ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں، خواہ یہ محض تقریر، رائے یا دلیل کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، ایک دہشت گردانہ عمل ہے، جس کی بنیاد پر حزب پر پابندی عائد کی گئی اور اسے ایک دہشت گرد تنظیم سمجھا گیا!! کیسا دوغلا پن ہے! کہ جو مظلوموں اور ستائے ہوئے کا دفاع کرتا ہے اسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے لیکن جو مجرم کو بم بارود اور اسلحہ فراہم کرتا ہے وہ امن کی فاختہ ہے۔

 

یہ وہ کمزور گھڑی ہے جو امت مسلمہ پر غالب آ چکی ہے۔ کسی قسم کی اقدار، اصولوں یا انسانیت سے عاری ایک مجرم، مغرب غالب آ گیا ہے۔ اس نے حق کو باطل اور باطل کو حق میں بدل دیا۔ اس نے نہ اپنی ساکھ اور نہ ہی اپنے لوگوں یا دنیا کی کوئی پرواہ کی اور اس نے اپنی شیطانیت عیاں کر کے رکھ دی ہے۔ یہودی وجود ان کا گود لیا ہوا بچہ ہے جو امت مسلمہ کا مقابلہ کرنے کے لیے عجلت میں ہے۔ وہ ایک وقت معین کی طرف دوڑے چلا جا رہا ہے جس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ باطل، ناانصافی اور استعمار کو نیست و نابود کر دیں گے۔ حق قائم ہو گا اور اسلام اور مسلمانوں کی فتح ہو گی۔ یہ اس لیے ہے کہ مسلمان دنیا کے مالک کے طور پر واپس آئیں اور اس کے قائدین انصاف، خوشی اور سکون سے دنیا کو بھر دیں۔ امت کے احیاء اور اس کی صحیح حیثیت کی طرف واپسی کو روکنے کے لیے مغربی ریاستیں جو کچھ بھی کرتی ہیں، اس سے نہ تو برطانیہ، نہ امریکہ اور نہ ہی پورے مغرب کو کوئی فائدہ ہو سکے گا۔ بیشک اللہ کی طرف سے فتح آنے ہی والی ہے اور روئے زمین کی کوئی طاقت اس کے فیصلے کو نہیں روک سکے گی۔ ہم اور وہ ایک مقررہ وقت پر ملیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿سَيَـعۡلَمُ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَىَّ مُنۡقَلَبٍ يَّـنۡقَلِبُوۡنَ﴾

" ظالم عنقریب جان لیں گے کہ وه کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں ۔"(الشعراء، 26:227)

 

ارض ِ مبارک فلسطین میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Last modified onجمعرات, 14 مارچ 2024 06:47

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک