الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر 222-223

 

جلیل قدر فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب"التیسیر فی اصول التفسیر" سے اقتباس

 

﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (222) نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (223)﴾

 

"اور آپﷺ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے وہ نجاست ہے، پس حیض میں عورتوں سے علیحدٰہ رہو اور ان کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہو لیں پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نےتمہیں حکم دیا ہے، بے شک الله توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اوربہت پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔(222) تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ اور اپنے لیے آئندہ کی بھی تیاری کرو اور الله سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ تم ضرور اس سے ملو گے اور ایمان والوں کو خوشخبری سنا دو "(223)

 

جب اللہ سبحانہ نے مسلمان مردوں کے لیے کافرہ عورتوں سے نکاح کا حرام ہونا بیان فرمادیا ماسوائے اہلِ کتاب کی پاکدامن عورتوں کے،اور یہ بیان فرمایا کہ مؤمن عورتوں کا بلا استثناء کسی بھی قسم کے کافر مرد سےنکاح حرام ہے، تو اب مذکورہ دو آیاتِ کریمہ میں ازدواجی زندگی سے متعلق چند  احکامات کا ذکر ہے، جن پر عمل پیرا ہوکر ایک پاکیزہ ،عمدہ اور ہم آہنگی سے بھر پور زندگی نصیب ہوتی ہے۔

ان آیات کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مندرجہ ذیل اُمور بیان فرمائے ہیں:

 

1-   حیض (ایامِ مخصوصہ) کے دوران اپنی شریک حیات کے ساتھ ہمبستری کی حرمت، اس حرمت کا تعلق مقامِ حیض  یعنی فرج کے ساتھ ہےاور یہ حرمت اس وقت تک ہے جب تک خون بند نہ ہوجائے۔

 

2-   خون بند  ہونے کے بعد شوہر کی اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کی اجازت،اور خون بند ہونے کے بعد اور غسل کے بعد ہمبستری کا مندوب ہونا۔

 

3-   کھیتی یعنی فرج کے مقام کے علاوہ عورت  کے ساتھ کسی اور مقام میں جماع کرنےکی حرمت،چنانچہ پیچھے (پاخانے کی جگہ) کی طرف سے بیوی سے ہمبستری کرنا حرام ہے، بلکہ  ہمبستری کا  مقصد صرف کھیتی یعنی نسل  کے مقام سے پورا کیا جائے ۔

 

جہاں تک   ان دو آیتوں سے استدلال کرنے  کی وجہ ہے تو وہ اس طرح ہے:

 

1. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ

"اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہہ دیجئے وہ نجاست ہے پس حیض میں عورتوں سے علیحدٰہ رہو اور ان کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہو لیں"۔

 

الْمَحِيضِ سے مراد حیض کا مقام ہے یعنی فرج۔ یہ تفسیر مصدر کے ساتھ اس کی تفسیر سے راجح ہے،کیونکہ سوال عورتوں سے ہمبستری کے حوالے سے کیا گیا تھا، تو اللہ سبحانہ نے حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہنے کا حکم دیا، اس کے سوا باقی حالات میں ان سے الگ رہنا مراد نہیں۔

 

تو جب اس لفظ الْمَحِيضِ کی تفسیر مصدر سے کی جائے ،تو سوال حیض کے خون کے بہنے سے متعلق ہوگا ،اور اگر یہی مصدری معنی ملحوظ رکھ کر سوال و جواب ایسے ہی کیے جائیں تو پھر معنی یوں بنتے ہیں: وہ آپ سے خون بہنے (عورت کی ماہواری  ) کے دنوں کے بارے میں پوچھتے ہیں،تو جواب ہوگا: ان دنوں میں عورتوں سے الگ ہوکر رہو۔ آیت کریمہ کے اس مقصود معنی کی دلیل اس کا واقعہ نزول ہے،کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کریمہ میں جماع کے علاوہ ، باقی کاموں سے الگ نہ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر سوال حیض والی جگہ سے متعلق ہو تو جواب ہوگا: ان سے الگ رہو،جس کا مقصود معنی یہ ہوگا کہ، قطع نظر باقی امور کے، خون والی جگہ سے دور رہا جائے ۔

 

یہ جواب آیت کے مدلول اور اس کے سببِ نزول کے موافق ہوگا۔انس ؓ فرماتے ہیں:

أن اليهود كانت إذا حاضت المرأة عندهم لم يؤاكلوها ولم يشاربوها ولم يساكنوها في البيوت وأخرجوها من البيت، فسأل أصحاب رسول اللهrالنبيrفأنزل الله  عز وجل-

" یہودیوں کی یہ عادت تھی کہ جب ان کے ہاں عورتوں کو حیض آجاتا تو اس  کے ساتھ کھانا پینا بند کر دیتے تھے، ایک ساتھ رہائش چھوڑ دیتے تھے،  ان کو کمرے سے باہر نکال دیتے تھے، رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے اس بارے رسول اللہ ﷺ سے استفسار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی،

﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ

"اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے وہ نجاست ہے پس حیض میں عورتوں سے علیحدٰہ رہو اور ان کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہو لیں"۔۔۔

 

آیت کے آخر تک۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«اصنعوا كل شيء إلا النكاح»"ہر کام کرو سوائے (اپنی بیویوں کے ساتھ) مباشرت کے"۔ یہود کو جب یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا"اس آدمی نے ہماری کوئی بات ایسی نہیں چھوڑی جس میں اس نے ہماری مخالفت نہ کی ہو، اس کے بعد اُسَید بن حُضَیرؓ اور عُباد بن بِشرؓ آئے اور کہا: یارسول اللہ ! یہود نے ایسا ایسا کہا ہے، تو ہم اپنی عورتوں سے جماع نہ کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوا،اتنا کہ  ہمیں گمان ہوا کہ آپ ﷺ ان  دونوں پر خفا ہوگئے ہیں،پھر وہ نکل گئے ،ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے پاس دوودھ کا ہدیہ آرہا ہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے بلا بھیجا اور ان کو بھی اس میں سے  پلایا،پھر وہ سمجھ گئے کہ آپ ﷺ ان سے ناراض نہیں"(مسلم:455، نسائی:286، ترمذی:2903)۔

 

پس اللہ تعالیٰ کا یہ قول

﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ

"پس اپنی بیویوں سے حیض میں دور رہو"،

 

اس سے فرج مراد ہے،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :«اصنعوا كل شيء إلا النكاح»"سب کچھ کرو، سوائے ہمبستری کرنے کے"۔

 

یہ جو ہم نے کہا ہے کہ ہمبستری کرنا حرام ہے،تو اس  کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں دورانِ حیض یا ماہواری کے دنوں میں جماع کرنے کی ممانعت آئی ہے، چنانچہ یہ طلبِ ترک ہے، یعنی چھوڑنے کا مطالبہ ہے۔

 

اور اللہ تعالیٰ کا قول

﴿قُلْ هُوَ أَذًى

"کہہ دو (اے محمد ﷺ) کہ یہ حرام ہے"،

 

اس کے معنی ہیں کہ یہ گندی جگہ ہے،  اور جماع  سے روکنے کا مقصد اس قول میں بتاکر مقرر کیا گیا ہے، کہ﴿وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ﴾"ان کے قریب مت جاؤ جب تک وہ پاک نہ ہوں"۔ اس سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ    گندگی کی مدت ختم ہوجانے پر جماع کی ممنوعیت بھی موقوف ہوجاتی ہے،چنانچہ یہ وصف مفہم ہے، جو جزم کا فائدہ دیتا ہے، کیونکہ اگر جزم کا فائدہ نہ دے تو شوہر  کے لیے حیض کے زمانے میں  جماع کرنا جائز ہوگا، یوں جو غایت ذکر کی گئی ہے، اس کا پھر کوئی مطلب نہیں بنتا، اور جب جماع کی ممنوعیت انتہاء سمیت اسی وصف پر مرتب سمجھی جائے تب یہ جزم پر دلالت کرے گا، نتیجہ یہ ہوگا کہ طلب جازم ثابت ہوگی ،یعنی یہ کہ دوران حیض  جماع کرنا حرام ہے۔

 

﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ

"وہ آپ سے محیض کے متعلق پوچھتے ہیں"

یعنی حیض والی جگہ  کے بارے میں۔

 

﴿قُلْ هُوَ أَذًى

"کہیے کہ یہ نجس ہے"

 

یعنی آپ کہہ دیجیے کہ حیض کے دوران وہ جگہ گندی ہوتی ہے۔

 

﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ

"حیض والی عورتوں سے بچو"

یعنی عورتوں کی حیض والی جگہ سے بچے رہو۔

 

﴿فَاعْتَزِلُوا

"دور رہو"

یعنی جماع نہ کرو۔

 

اس طرح اس  معاملے میں جوامر حرام ہے وہ جماع ہے، اس کے سوا زندگی کے باقی معاملات میں  شراکت میں کوئی حرج نہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

كنت أَتَعَرَّقُ العَرْق وأنا حائض فأعطيه للنبي فيضع فمه في الموضـع الذي وضعت فمي فيه وأشرب الشراب فأناوله فيضع فمه في الموضع الذي كنت أشرب منه"

میں ہڈی سے گوشت کھالیتی ،جبکہ میں حالتِ حیض میں ہوتی تھی، پھر وہ ہڈی حضور ﷺ کو دیدیتی ،آپ ﷺ اسی جگہ سے کھانے لگتے اوروہیں اپنا منہ مبارک رکھتے جہاں سےمیں نے کھایا  ہوتا تھا، میں پانی پی لیتی تھی ،پھر آپ ﷺ کو دیتی ،آپ ﷺ وہیں اپنا منہ مبارک رکھ کر پینے لگتے جہاں میں نے اپنا منہ لگایا ہوتا تھا"(مسلم:453، نسائی: 69)۔

 

یعنی رسول ﷺ اس ہڈی کا باقی سارا گوشت تناول فرمالیتے جس سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کھایا ہواہوتا تھا جبکہ وہ حیض یا ماہواری کی حالت میں ہوتی تھیں، اس طرح وہ برتن سے پانی پی لیتی تھیں پھر آپ ﷺ کو دیدیتی تھیں ،پھر آپ ﷺ اس کو اسی برتن سے پی لیتے تھے۔

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ حیض والی عورت اور اس کے شوہر کا باہمی بودو باش میں کوئی حرج نہیں، صرف یہ کہ وہ جماع نہیں کریں گے۔

یہ تمام باتیں خون ختم ہونے سے قبل کی ہیں۔ جب خون آنا بند ہوجائے تو حرمت ختم ہوجاتی ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حرمت کے لیے ایک انتہاء بھی مقرر کی ہے یعنی

﴿وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ

"ان کے قریب مت جاؤ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں"،

 

لفظ

﴿يَطْهُرْنَ

"وہ پاک ہوں"

 

کا مطلب ہے کہ ان کا خون آنا بند ہوجائے ۔لغت کے اعتبار سے  طہارت کی نسبت جب عورت کی طرف کی جائے تو اس سے لغوی طور پر غسل مراد نہیں ہوتا ہے، بلکہ لغت میں اس کے معنی خون رک جانا اور بند ہوجانا ہے، کیونکہ جب طَھُرَتْ بولا جائے جس کے معنی ہیں عورت پاک ہوگئی، یہ طمثت کی ضد ہے جو بمعنی  ماہواری آنے کے ہے، اسی طرح کہاجاتا ہے ، امراۃ طاھرٌ ،پاک عورت، یا نساء طاھرات ، پاک عورتیں:جب یہ کہا جائے، طَهُرْن من الحيض،"وہ حیض سے پاک ہو  گئیں"،اس کے معنی ہیں حیض سے پاک ہونا یعنی ان کا خون آنا بند ہوگیا۔

 

یہ  جو کہا جاتا ہے کہ یہ آیت  دو متواتر قرائتوں کے ساتھ پڑھی گئی ہے، یعنی يَطْهُرْنَ، طاء کی تخفیف یا سکون کے ساتھ ،اور يطّهرن، طاء کی شد کے ساتھ، تو یہ صحیح ہے۔ يَطْهُرْنَ، تخفیف کے ساتھ پڑھا جائے تو معنی ہوں گے ، کہ صرف خون آنابند ہوجائے۔ یہ دوسرے قراءت پر محکم ہے،یعنی يطّهرن، شد والی قرائت پر، جس کے معنی خون کی بندش اوراس کے بعد غسل کرنے کے ہیں۔ یہ متشابہ  قرائت میں سے ہے، چونکہ یہ دونوں قرائتیں متواتر ہیں، اور محکم کو متشابہ پر فوقیت ہے، چنانچہ دونوں قرائتوں کا معنی  متعین ہوکر انقطاع ِ دم یعنی بندشِ  خون کے  ہوتے ہیں۔   

 

            یعنی حرمت  کی انتہاء بندش خون پر ہوتی ہے،یہی انتہاء کا مفہوم ہے،

﴿وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ

"اور ان کے قریب مت جاؤ جب تک وہ پاک نہ ہوں"،

 

تو اس کا مطلب ہے،'ان کے ساتھ جماع نہ کرو یہاں تک کہ خون آنا بند ہوجائے '، معلوم ہوا کہ حرمت کی انتہاء خون کی بندش پر ہوجاتی ہے۔

 

تو جب کوئی شخص  عورت کا خون بند ہونے سے پہلے ہمبستری کرے ،تو اس نے حرام عمل کا ارتکاب کیا ،اسلامی ریاست میں اگر اس کامعاملہ عدالت میں چلا جائے تواس کو تعزیز ی سزا دی جائے گی، قاضی اپنے اندازہ سے اتنی سزا  مقرر کرے گا جس سے  اسے سبق حاصل ہو۔ قاضی کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ اسے صدقہ دینے کا حکم کرے، جیسا کہ امام احمد نے ابن عباس  رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت کی ہے:

أن من أتى امرأته وهي حائض يتصدق بدينار إن كان دما أحمر أو نصف دينار إن كان دما أصفر

" جو کوئی اپنی عورت کے پاس حالت حیض میں آئے یعنی اس  سے جماع کرے ، تو وہ ایک دینار صدقہ دے، بشرطیکہ خون کار نگ بالکل سرخ ہو یا نصف دینار دے، اگر خون کا رنگ پیلا ہوا ہو"(احمد:1928، درِ منثور:424/2)۔

 

قاضی کے لیے جائز ہے کہ اسے کوئی اور سزا دے جس سے فاعل کو سبق حاصل ہو، یہ تب ہے جب اس کی اطلاع عدالت کو ہوجائے ، ورنہ یہ کام کرنے والا توبہ اور استغفار  کرے گا۔  اُمید ہے کہ اگر مخلص ہوکر  اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے گا اور  توبہ کرے گا ،تو اللہ تعالیٰ  اس کی مغفرت کردے گا اور اس کی توبہ کو قبول کرلے گا۔

﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ

"بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک لوگوں سے محبت کرتا ہے"(البقرۃ:222)۔

 

2- بلا شبہ یہ آیت حیض گزر جانے کے بعد عورتوں کے ساتھ دو حالتوں  میں مباشرت کے جواز کا فائدہ دیتی ہے؛

أ‌-   جب خون آنا بند ہوجائے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ،

﴿وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ

"اور ان کے قریب مت جاؤ حتی کہ وہ پاک ہو جائیں"۔

 

اس آیت کا مفہوم  حیض کاخون بند ہونے کے بعد مباشرت کا حلال ہونا ہے۔

 

ب‌- بندش خون ہونے کے بعداور غسل کرلینے کےبعد ،

﴿فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ

"اور جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ"،

 

لہذا یہ دونوں صورتیں،یعنی غسل کے بعد اور خون بند ہو جانے کے بعد، درست ہیں۔پہلے کے مفہوم اور دوسرے کے منطوق کے درمیان کوئی تناقض یا تضاد نہیں۔

 

صرف اتنا فرق ہے کہ اللہ سبحانہ کےقول،

﴿وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ

"اور ان کے قریب مت جاؤ حتی کہ وہ پاک ہو جائیں"

 

نے مباشرت کی حرمت کے لیے ایک غایت  متعین کردی،یعنی خون کی بندش ،تو جب یہ غایت پائی جائے تو عورت سے مباشرت اسی طرح حلال ہوجاتی ہے جیسے پہلے تھی،یعنی مانع کی موجودگی سے قبل ،جہاں مانع سے مراد حیض ہے۔ پس خون بند ہونے کے بعد عورت کے ساتھ مباشرت کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔

 

جہاں تک اللہ تعالیٰ کے  قول،

﴿فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ

"جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ"،

 

کا تعلق ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کےخون بند ہونے اور غسل کرنے بعد اس کے ساتھ ہمبستری مندوب ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ کے اس ارشاد

﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ

"بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے"،

 

میں پاک صاف رہنے والوں کی مدح کی گئی ہے،اس میں  اس شوہر کی مدح پر دلالت کا اشارہ ہے جو اپنی بیوی کے پاس ہمبستری کرنے صرف اس وقت آتا ہےجب عورت کا خون بند ہوجائےاوروہ غسل بھی کر لے۔چونکہ یہ مدح جزم کے قرینے کے بغیر ہے ، اس لیے مندوب ہے،جیساکہ اصولِ فقہ میں مذکور ہے۔

 

ایک بات جو قابل ذکر ہے اور جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،وہ یہ کہ مندوب ،مباح  کے علاوہ ہوتاہے،کیونکہ مندوب وہ ہوتا ہے جس میں اجر اور ثواب ہو،تو جو شخص  بیوی کا خون بند ہونے اوراس کے غسل کر لینے کے بعد  ہمبستری کرے گا،اس  کا یہ عمل مندوب ہوگا ،جبکہ خون بند ہونے کے بعداور اس کے غسل کرنے سے پہلے ہمبستری صرف مباح ہے،اس صورت میں اس کو اجر نہیں ملے گا۔

 

3-عورت کے ساتھ کھیتی کے مقام ، یعنی بچہ پیدا کرنے کی جگہ کے علاوہ میں ہمبستری کرنا حرام ہے،کیونکہ اللہ سبحانہ فرماتے ہیں:

﴿فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ﴾

" ان کے پاس اسی طریقے سے جاؤ جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے"۔

 

ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں : اس سے مراد فرج میں جماع کرنا ہے اوراس جگہ کو چھوڑ کر کسی اور جگہ کی طرف تجاوز نہ کرو۔دوسری آیت میں اللہ سبحانہ نے اس کو بیان فرمایا ہے:

 

﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ

"تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ "،

 

یعنی وہ تمہاری لیے کھیتیاں ہیں، یعنی کاشت کی جگہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمبستری کرنے کے لیے کھیتی والی جگہ یعنی نسل پیدا کرنے کے مقام  کو متعین کردیا ۔

 

﴿فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ

" پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ "،

 

یعنی جیسے تم چاہو،وہ لیٹ کر، یا کروٹ کے بل، پیٹھ کے بل ہو یا آگے کی جانب سے،لیکن جیسا کہ تفصیل سے بیان ہوا کہ جگہ کھیتی والی یعنی نسل پیدا کرنے والی ہی ہوگی، یعنی  عورت کی اندام نہانی۔

 

اسی وجہ سے آدمی کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ اپنی بیوی سے پیچھے کی جگہ میں ہمبستری کرے،اس کو لوطیتِ صغریٰ یعنی کم درجے والی لواطت کہا گیا ہے،اس کام کے  کرنے والے کو سخت تعزیری سزا دی جائے گی، جس کا اندازہ قاضی لگائے گا، جس سے فاعل بھی  باز آئے،اور اس کے علاوہ باقیوں کے لیے بھی عبرت و نصیحت کا سامان ہو۔ یہ تب ہے جب اس کا معاملہ عدالت تک پہنچ جائے،ورنہ اس کو قیامت کے روز سزا ملے گی،سوائے یہ کہ وہ اللہ سے مغفرت طلب کرے اور توبہ کرے ،اللہ تو غفور و رحیم ذات ہے،لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ شدید العقاب بھی ہے، یعنی سخت عذاب دینے والا بھی ہے۔

 

جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ مذکورہ آیت سے پیچھے والی جگہ میں ہمبستری کی ممانعت معلوم ہوتی ہے،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت نے کھیتی والی جگہ کے علاوہ میں ہمبستری کرنے سے منع کیا ہے،یہ نہی اس آیت

 

﴿فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ

" پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ "

 

کے مفہوم میں موجود ہے۔اس میں جزم کا قرینہ بھی ہے، یعنی اس بات پر بھی قرینہ موجود ہے کہ یہ نہی جزمی اور حتمی ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

﴿وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ

"اور الله سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ تم ضرور اس سے ملو گے"،

 

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نافرمانی کرنے والوں کے لیے ایک وعید ہے، کہ اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ تعالی ٰ کے سامنے ضرور کھڑا کیا جائے گا۔یہ دھمکی ہے،سو تقویٰ کا امر اور سامنا کرنے کی دھمکی اور وعید کا مطلب اللہ کی طرف سے عقوبت کی دھمکی ہے،یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ مقام زراعت یعنی کھیتی کے علاوہ دیگر جگہوں میں ہمبستری کرنا ممنوع ہے،اور یہ ممانعت اور نہی جازم ہونے کی وجہ سے یہ عمل حرام ہے۔

 

اس حوالے سے صحیح احادیث بھی آئی ہیں:

بخاری اور دیگر محدثین نے جابرؓ سے روایت کی ہے:وہ کہتے ہیں کہ یہودکا خیال تھا کہ "جوکوئی  پیچھے کی طرف سے فرج میں ہمبستری کرے اور پھر اس سے حمل ٹھہر جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوگا"۔تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی،

 

﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ

"تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ "۔

 

 

ابن ابی حاتم نے .جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں ،

"یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا: جو کوئی اپنی عورت کے ساتھ پیچھے کی طرف سے ہوکر ہمبستری کرے گا، اس کا بچہ بھینگا پیدا ہوگا"،

 

تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل کی

 

﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ

"تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ"۔

 

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،

«مقبلة ومدبرة إن كان ذلك في الفرج»

"کوئی فرق نہیں کہ پیٹھ کے بل ہو یا سامنے سے جب تک فرج ہی کے ذریعے ہے"(درِ منثور:627/2،الکاملِ دعفاع الرجال:13/7، جس کی تاریخِ بغداد:484/12 نے تصدیق کی) ۔

 

 

رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:

«استحيوا إن الله لا يستحي من الحق، لا يحلّ أن تأتوا النساء في حشوشهن»

"حیاء کرو، اللہ تعالیٰ حق بات بتانے سے نہیں شرماتے،یہ حلال نہیں کہ تم عورتوں کے پیچھے کے راستے میں ہمبستری کرو"(درِ منثور:632/2، دارقطنی:288/3)۔

 

امام احمد نے عمرو بن شعیب سے ،عمرو نے اپنے والد شعیب سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«الذي يأتي امرأته في دبرها هي اللوطية الصغرى»

"جو شخص اپنی بیوی کے پیچھے والے راستے میں ہمبستری کرتاہے،تو اس کا یہ عمل دوسرے  درجے کی لواطت ہے"(احمد:187/1، درِ منثور:634/2)۔

 

اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کے لیے اس بیان کے ساتھ  اس آیت کا اختتام کیا ہے کہ معاشرت اور مباشرت کے آغاز میں وہ کام کریں جو ان کی بیویوں کے حق میں بہتر ہوں،یعنی نیک عمل ، اچھا گذارا اور جماع کے وقت بسم اللہ کہنا اور اس کے علاوہ وہ سب چیزیں جو الفت و محبت اور اچھی صحبت کے قیام میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔انہیں یہ بھی بتایا کہ اپنے تمام افعال میں اللہ سے ڈرا کریں،اور یہ کہ انہیں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کی ملاقات اللہ کے ساتھ ضرور ہوگی، پھروہ ان کو ہر گناہ و معصیت اور  ہر غلطی پرسزا  دے گا۔

 

اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کو بشارت دی ہیں جو اس کی فرمانبرداری  کو اپنے اوپر لازم کیے ہوئے ہوتے ہیں،جو سچے اور مخلص ہوں، یہ بشارت دی ہے کہ ان کے لیے بڑی نعمتیں رکھی ہیں، اور اللہ کی رضا سب سے بڑی نعمت ہے۔چنانچہ فرمایا :

﴿وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ

"اورمومنوں کو بشارت دے دو"۔

 

Last modified onمنگل, 21 دسمبر 2021 11:44

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک