الخميس، 17 رمضان 1445| 2024/03/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر 224-225

 

جلیل قدر فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب"التیسیر فی اصول التفسیر" سے اقتباس

 


﴿وَلاَ تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً ِلأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (224 (لاَ يُؤَاخِذُكُمْ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (225 (

 

" اور اللہ تعالیٰ (کے نام )کو اپنی قسموں  میں اس غرض سے استعمال نہ کرو کہ اس کےذریعے  نیکی اور تقویٰ کے کاموں اور لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانے سے بچ سکو۔ اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے۔ اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا، البتہ جو قسمیں تم نے اپنے  دِلوں کے ارادے سے کھائی ہوں گی  ان پر گرفت کرے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بُردبار ہے"۔

 

 

متعدد احکامات  کے بیان کے ضمن میں اللہ تعالیٰ مندرجہ ذیل آیات میں بیان فرماتے ہیں:

 

 1-اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس بات سے منع فرماتے ہیں کہ کوئی شخص خیر کے کسی کام کو نہ کرنے کی قسم کھائے، اور اس کارِ خیر کے نہ کرنے میں قسم   نہ توڑنے کو ایک بہانہ اور حجت بنالے، یہ سوچ کر کہ اب اس قسم کو پورا کرنا واجب ہے ورنہ اللہ کی نافرمانی ہوگی۔

 

نیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ اس طرح کی قسم اٹھانا درست نہیں جو نیکی ،تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح جوئی سے روکے، بلکہ قسم کھانے والے کو چاہیے کہ وہ خیر کا وہ کام کر کے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے، جیساکہ حدیث میں آیا ہے:

من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليكفر عن يمينه ويفعل الذي هو خير

"جس نے(کسی کام کی) قسم کھائی ، پھر اس کام کے علاوہ کوئی اور کا م اُسے بہتر لگا ،تو وہ اپنی قسم کا کفارہ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہے"(مسلم:3113، ابن حبان:196/10)۔

 

 

             الکلبی نے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کےبارے میں اس وقت نازل ہوئی جب انہوں نے قسم کھائی  کہ وہ  اپنے داماد بشیر بن نعمان ملیں  گے ،نہ ہی اس سے بات کریں گے اورنہ ہی اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان صلح  کرائیں گے ، کیونکہ اُس نے ان کی بیٹی کو طلاق دے دی تھی اور اب  وہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کرنا چاہتا تھا، اور اس سے صلح کرنے کی کوشش  میں تھا۔ اسبابِ نزول  اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مؤمن کے لیے مناسب نہیں کہ اُس کی قسم اسے اُس بھلائی کے کا م سے منع کردے جس کے نہ کرنے کی اس نے قسم اٹھالی  ہو۔

 

 

آیت کریمہ کے اختتام میں اللہ سبحانہ نےبیان فرمایا ہے کہ وہ سب سننے والا ہے ، یعنی ان کی قسموں کو سننے والا ہے،اورسب جاننے والا ہے، یعنی ان کے احوال اور مقاصد کو جانتا ہے،اس سے ذرہ برابر بھی کوئی شے نہیں چھپتی،وہ ان کا رازداں ہے ،ان کی چھپی اور کھلی تمام باتوں کو جانتا ہے،﴿ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ   "اور اللہ سب سننے اور جاننے والا ہے"۔

 

 

(عُرْضَةً)،"بہانہ"،یہ فُعلۃٌ  کا ہم وزن ہے،جیسے :غُرفۃٌ یعنی کمرہ۔ اور یہ نصر ینصر اور ضرب یضرب دونوں بابوں  سےآتا ہے،جیسے عَرضَ الشیءَ یعرِضُ ،یَعرُضُ اس کے معنی ہیں: اس کو اعتراض والا بنا دیا، یعنی اُسے رکاوٹ بنادیا۔

 

﴿وَلاَ تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً ِلأَيْمَانِكُمْ﴾

" اور اللہ تعالیٰ (کے نام )کو اپنی قسموں  میں اس غرض سے استعمال نہ کرو "۔

 

 

یعنی  اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر اس  کو نیکی اور تقویٰ  و صلح  کے لیے آڑ مت  بناؤ ،یعنی اللہ تعالیٰ پر قسم  اٹھانے کو نیکی، تقویٰ اور اصلاح والے کام کرنے کی راہ میں  مانع نہ بناؤ،کہ جن کاموں کے نہ کرنے کی تم نے قسم اٹھائی ہوئی ہے، قسم کی وجہ سے ان کو مت چھوڑا کرو۔

 

 

چنانچہ ﴿لأَيْمَانِكُمْ﴾"تمھاری قسم کی وجہ سے"،میں لام تعلیل (وجہ بتانے)کے لیے ہے، یعنی تمہاری قسموں کی وجہ سے اور ﴿أَنْ تَبَرُّوا﴾"تاکہ تم متقی ہو" دراصل لِاَن تَبَرُّوا "تمھارے متقی بننے کیلئے"کے معنی میں ہے۔

 

2-دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ اس امت پر اپنا فضل وکرم بیان فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہماری لغو قَسموں سے درگزر کا اعلان کیا ہے، جو زبا نوں پر بے ساختہ جاری ہوتی ہیں، جیسا کہ عائشہ ؓ نے روایت کی ہے، فرماتی ہیں:یہ آیت ﴿لاَ يُؤَاخِذُكُمْ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ﴾" اللہ تمہاری لغو قَسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا "،انسان کے اس قول کے بارے میں نازل ہوئی کہ "اللہ کی قسم!  نہیں ، اور اللہ کی قسم! ہاں"(بخاری:4247،6170)۔ اور ابی قلابہ سے روایت ہے کہ : (لا والله)"اللہ کی قسم! نہیں" اور(بلى والله) "اللہ کی قسم!  ہاں" عربی زبان  کا ایک انداز ہے، جس سے قسم مراد نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوع کی لغو قسم سے درگزر فرمایا ہے اور اس پر ہماری پکڑ نہیں ہوتی ، سوائے ان قسموں کے جو ہم جان بوجھ کر اٹھائیں ، یعنی جو ارادے سے اور قصداًہو،یعنی  دل سے قسم اٹھائی گئی  ہو، جس میں قسم کے الفاظ دل کے اندر موجود بات کے موافق ہوتے ہیں۔   

 

 

مؤاخذہ یا پکڑ کبھی  کفارہ ادا کرکےختم  ہوتی ہے، یعنی قسم کھانے والا کفار ہ ادا کرکے دنیا اور آخرت میں گناہ سے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔کبھی پکڑ ایسی ہوتی ہے کہ جس میں کفارہ فائدہ نہیں دیتا بلکہ اس پر دنیا میں  اسلامی ریاست کی طرف سے شدید تعزیری سزا دی جاتی ہے یا پھر آخرت میں بڑا مؤاخذہ کیا جائے گا۔

 

 

پہلی قِسم جس میں کفارہ دیا جاتا ہے ،اس کو الأيمان المنعقدة کہتے ہیں، جس کو قسم کھانے والا پورا نہ کرسکے ،یعنی اس کو توڑ بیٹھتا ہے، یعنی قسم تو کھالیتا ہے مگر عمل نہیں کرتا،مثلاً اس طرح قسم کھائے کہ میں فلاں کام کروں گا ،پھر وہ نہ کرے، تو ا س میں کفارہ ہے، جیسے سورۃ المائدہ میں اس کو بیان کیا گیا ہے:

﴿وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمْ الإِيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ﴾

" لیکن جو قسمیں تم نے پختگی کے ساتھ کھائی ہوں،ان پر تمہاری پکڑ کرے گا۔ چنانچہ اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم  اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو، یا ان کو کپڑے دو، یا ایک غلام آزاد کرو۔ ہاں اگر کسی کے پاس (ان چیزوں میں سے) کچھ نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھے "(المائدہ:89)۔ اس قسم میں کفارہ دینے کے بعد اس پر کوئی بھی ذمہ داری نہیں آتی، نہ اسلامی ریاست کی طرف سے دنیا میں کوئی سزا ہے اور نہ آخرت میں کوئی گناہ ہے۔

 

 

دوسری قِسم جان بوجھ کر کھائی جانے والی جھوٹی قسم ہے ،  جس میں انسان ایک ایسی  بات کی خبر دیتا ہے جس کے بارے میں وہ جانتا ہےکہ  جھوٹ ہے ،اس قسم کو اليمين الغموس کہتے ہیں ، غموس کے معنی ڈوبنے کے ہیں،یہ اس لیے   کہ یہ قسم  آدمی کو جہنم کی آگ میں ڈبو دیتی ہے، کیونکہ ایسی جھوٹی قسموں سے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ  ڈالا جاتا ہے، اور فساد اسی کےذریعے پھیلایا  جاتا ہے۔

 

 

اس قسم کی قسمیں کفارہ سے بری الذمہ  نہیں ہوتیں، یہی وجہ ہے کہ اس میں کفارہ نہیں بلکہ اس میں دنیا میں اسلامی ریاست کی جانب سے شدید تعزیری  سزا دی جائے گی ،جس کا اندازہ قاضی مقرر کرتا ہے، جس سے قسم کھانے والے کو بھی  سبق حاصل ہو اور اس کے بارے میں سننے والو ں کو بھی اس کی شدت کی وجہ سے  ایک عبرت  حاصل ہو،اگر اسلامی ریاست کو اس کے بارے میں خبر نہ ملے تو  ایسا شخص اللہ کےعذاب سے بچ نہیں پائے گا،اس کو شدید عذاب کی دھمکی دی گئی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بیان فرمایا ہے، ابن عمرؓ سے روایت ہے: ((جاء أعرابي إلى النبي فقال: يا رسول الله ما الكبائر؟ فذكر الحديث وفيه اليمين الغموس وفيه قلت: وما اليمين الغموس؟ قال: الذي يقتطع بها مال امرئ مسلم هو فيها كاذب)) " ایک  بدو شخص نے   نبی پاک ﷺ کے پاس آکر عرض کی: یا رسول اللہ ! بڑے گناہ کو ن سے ہیں؟ ابن عمر نے آگے حدیث بیان کی ،اس میں  یہ بھی آیا ہے کہ جھوٹی قسم (اليمين الغموس )، راوی کہتا ہے ، میں نے عرض کی: جھوٹی قسم کیا ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال کھایا جائےاوروہ  اس میں جھوٹا ہو"(بخاری:6409)۔

 

اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے: آپ ﷺ نے فرمایا : ((خمس ليس لهن كفارة: الشرك بالله وقتل النفس بغير حق وبهت مؤمن والفرار يوم الزحف ويمين يقتطع بها مالاً بغير حق))"پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کاکوئی کفار ہ نہیں؛ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، بے گناہ انسان  کو قتل کرنا ،مؤمن پر بہتان لگانا، میدانِ جنگ سے بھاگ آنا، اورڈبونے والی قسم (اليمين الغموس)جس کے ذریعے ناحق مال کھایا جائے"(احمد:2/362) ۔

 

 

            اللہ تعالی ٰ نے آیت کا اختتام اس طرح کیا ہے کہ وہ  لغو قسم کی وجہ سے ہماری پکڑ  نہیں کرتے ، بلکہ اس پر سزا دیتے ہیں جس کا ہم دل سے ارادہ کریں، جیسا کہ ہم نے  بیان کیا،پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ غَفُورٌ حَلِيمٌ ہیں تو اللہ تعالیٰ لغو قسم کھانے پر ہماری پکڑ نہیں کرتے، اور وہ غَفُورٌ حَلِيمٌ ہیں تو وہ سزا وار لوگوں کے لیے سزا  میں جلدی نہیں کرتے۔ اورلفظ  الحلیم فعل (حَلُمَ یَحْلُمُ حِلماَ)سے ہے ، جس کے معنی  سزا میں تاخیر کرنے کے ہیں۔

 

تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر 224-225

جلیل قدر فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب"التیسیر فی اصول التفسیر"

سے اقتباس

﴿وَلاَ تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً ِلأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (224(لاَ يُؤَاخِذُكُمْ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (225(

" اور اللہ تعالیٰ (کے نام )کو اپنی قسموں  میں اس غرض سے استعمال نہ کرو کہ اس کےذریعے  نیکی اور تقویٰ کے کاموں اور لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانے سے بچ سکو۔ اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے۔ اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا، البتہ جو قسمیں تم نے اپنے  دِلوں کے ارادے سے کھائی ہوں گی  ان پر گرفت کرے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بُردبار ہے"۔

متعدد احکامات  کے بیان کے ضمن میں اللہ تعالیٰ مندرجہ ذیل آیات میں بیان فرماتے ہیں:

 1-اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس بات سے منع فرماتے ہیں کہ کوئی شخص خیر کے کسی کام کو نہ کرنے کی قسم کھائے، اور اس کارِ خیر کے نہ کرنے میں قسم   نہ توڑنے کو ایک بہانہ اور حجت بنالے، یہ سوچ کر کہ اب اس قسم کو پورا کرنا واجب ہے ورنہ اللہ کی نافرمانی ہوگی۔

نیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ اس طرح کی قسم اٹھانا درست نہیں جو نیکی ،تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح جوئی سے روکے، بلکہ قسم کھانے والے کو چاہیے کہ وہ خیر کا وہ کام کر کے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے، جیساکہ حدیث میں آیا ہے: من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليكفر عن يمينه ويفعل الذي هو خير "جس نے(کسی کام کی) قسم کھائی ، پھر اس کام کے علاوہ کوئی اور کا م اُسے بہتر لگا ،تو وہ اپنی قسم کا کفارہ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہے"(مسلم:3113، ابن حبان:196/10)۔

             الکلبی نے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کےبارے میں اس وقت نازل ہوئی جب انہوں نے قسم کھائی  کہ وہ  اپنے داماد بشیر بن نعمان ملیں  گے ،نہ ہی اس سے بات کریں گے اورنہ ہی اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان صلح  کرائیں گے ، کیونکہ اُس نے ان کی بیٹی کو طلاق دے دی تھی اور اب  وہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کرنا چاہتا تھا، اور اس سے صلح کرنے کی کوشش  میں تھا۔ اسبابِ نزول  اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مؤمن کے لیے مناسب نہیں کہ اُس کی قسم اسے اُس بھلائی کے کا م سے منع کردے جس کے نہ کرنے کی اس نے قسم اٹھالی  ہو۔

آیت کریمہ کے اختتام میں اللہ سبحانہ نےبیان فرمایا ہے کہ وہ سب سننے والا ہے ، یعنی ان کی قسموں کو سننے والا ہے،اورسب جاننے والا ہے، یعنی ان کے احوال اور مقاصد کو جانتا ہے،اس سے ذرہ برابر بھی کوئی شے نہیں چھپتی،وہ ان کا رازداں ہے ،ان کی چھپی اور کھلی تمام باتوں کو جانتا ہے،﴿ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ   "اور اللہ سب سننے اور جاننے والا ہے"۔

(عُرْضَةً)،"بہانہ"،یہ فُعلۃٌ  کا ہم وزن ہے،جیسے :غُرفۃٌ یعنی کمرہ۔ اور یہ نصر ینصر اور ضرب یضرب دونوں بابوں  سےآتا ہے،جیسے عَرضَ الشیءَ یعرِضُ ،یَعرُضُ اس کے معنی ہیں: اس کو اعتراض والا بنا دیا، یعنی اُسے رکاوٹ بنادیا۔

﴿وَلاَ تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً ِلأَيْمَانِكُمْ﴾ " اور اللہ تعالیٰ (کے نام )کو اپنی قسموں  میں اس غرض سے استعمال نہ کرو "۔

یعنی  اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر اس  کو نیکی اور تقویٰ  و صلح  کے لیے آڑ مت  بناؤ ،یعنی اللہ تعالیٰ پر قسم  اٹھانے کو نیکی، تقویٰ اور اصلاح والے کام کرنے کی راہ میں  مانع نہ بناؤ،کہ جن کاموں کے نہ کرنے کی تم نے قسم اٹھائی ہوئی ہے، قسم کی وجہ سے ان کو مت چھوڑا کرو۔

چنانچہ ﴿لأَيْمَانِكُمْ﴾"تمھاری قسم کی وجہ سے"،میں لام تعلیل (وجہ بتانے)کے لیے ہے، یعنی تمہاری قسموں کی وجہ سے اور ﴿أَنْ تَبَرُّوا﴾"تاکہ تم متقی ہو" دراصل لِاَن تَبَرُّوا "تمھارے متقی بننے کیلئے"کے معنی میں ہے۔

2-دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ اس امت پر اپنا فضل وکرم بیان فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہماری لغو قَسموں سے درگزر کا اعلان کیا ہے، جو زبا نوں پر بے ساختہ جاری ہوتی ہیں، جیسا کہ عائشہ ؓ نے روایت کی ہے، فرماتی ہیں:یہ آیت ﴿لاَ يُؤَاخِذُكُمْ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ﴾" اللہ تمہاری لغو قَسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا "،انسان کے اس قول کے بارے میں نازل ہوئی کہ "اللہ کی قسم!  نہیں ، اور اللہ کی قسم! ہاں"(بخاری:4247،6170)۔ اور ابی قلابہ سے روایت ہے کہ : (لا والله)"اللہ کی قسم! نہیں" اور(بلى والله) "اللہ کی قسم!  ہاں" عربی زبان  کا ایک انداز ہے، جس سے قسم مراد نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوع کی لغو قسم سے درگزر فرمایا ہے اور اس پر ہماری پکڑ نہیں ہوتی ، سوائے ان قسموں کے جو ہم جان بوجھ کر اٹھائیں ، یعنی جو ارادے سے اور قصداًہو،یعنی  دل سے قسم اٹھائی گئی  ہو، جس میں قسم کے الفاظ دل کے اندر موجود بات کے موافق ہوتے ہیں۔   

مؤاخذہ یا پکڑ کبھی  کفارہ ادا کرکےختم  ہوتی ہے، یعنی قسم کھانے والا کفار ہ ادا کرکے دنیا اور آخرت میں گناہ سے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔کبھی پکڑ ایسی ہوتی ہے کہ جس میں کفارہ فائدہ نہیں دیتا بلکہ اس پر دنیا میں  اسلامی ریاست کی طرف سے شدید تعزیری سزا دی جاتی ہے یا پھر آخرت میں بڑا مؤاخذہ کیا جائے گا۔

پہلی قِسم جس میں کفارہ دیا جاتا ہے ،اس کو الأيمان المنعقدة کہتے ہیں، جس کو قسم کھانے والا پورا نہ کرسکے ،یعنی اس کو توڑ بیٹھتا ہے، یعنی قسم تو کھالیتا ہے مگر عمل نہیں کرتا،مثلاً اس طرح قسم کھائے کہ میں فلاں کام کروں گا ،پھر وہ نہ کرے، تو ا س میں کفارہ ہے، جیسے سورۃ المائدہ میں اس کو بیان کیا گیا ہے:﴿وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمْ الإِيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ﴾" لیکن جو قسمیں تم نے پختگی کے ساتھ کھائی ہوں،ان پر تمہاری پکڑ کرے گا۔ چنانچہ اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم  اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو، یا ان کو کپڑے دو، یا ایک غلام آزاد کرو۔ ہاں اگر کسی کے پاس (ان چیزوں میں سے) کچھ نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھے "(المائدہ:89)۔ اس قسم میں کفارہ دینے کے بعد اس پر کوئی بھی ذمہ داری نہیں آتی، نہ اسلامی ریاست کی طرف سے دنیا میں کوئی سزا ہے اور نہ آخرت میں کوئی گناہ ہے۔

دوسری قِسم جان بوجھ کر کھائی جانے والی جھوٹی قسم ہے ،  جس میں انسان ایک ایسی  بات کی خبر دیتا ہے جس کے بارے میں وہ جانتا ہےکہ  جھوٹ ہے ،اس قسم کو اليمين الغموس کہتے ہیں ، غموس کے معنی ڈوبنے کے ہیں،یہ اس لیے   کہ یہ قسم  آدمی کو جہنم کی آگ میں ڈبو دیتی ہے، کیونکہ ایسی جھوٹی قسموں سے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ  ڈالا جاتا ہے، اور فساد اسی کےذریعے پھیلایا  جاتا ہے۔

اس قسم کی قسمیں کفارہ سے بری الذمہ  نہیں ہوتیں، یہی وجہ ہے کہ اس میں کفارہ نہیں بلکہ اس میں دنیا میں اسلامی ریاست کی جانب سے شدید تعزیری  سزا دی جائے گی ،جس کا اندازہ قاضی مقرر کرتا ہے، جس سے قسم کھانے والے کو بھی  سبق حاصل ہو اور اس کے بارے میں سننے والو ں کو بھی اس کی شدت کی وجہ سے  ایک عبرت  حاصل ہو،اگر اسلامی ریاست کو اس کے بارے میں خبر نہ ملے تو  ایسا شخص اللہ کےعذاب سے بچ نہیں پائے گا،اس کو شدید عذاب کی دھمکی دی گئی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بیان فرمایا ہے، ابن عمرؓ سے روایت ہے: ((جاء أعرابي إلى النبي فقال: يا رسول الله ما الكبائر؟ فذكر الحديث وفيه اليمين الغموس وفيه قلت: وما اليمين الغموس؟ قال: الذي يقتطع بها مال امرئ مسلم هو فيها كاذب)) " ایک  بدو شخص نے   نبی پاک ﷺ کے پاس آکر عرض کی: یا رسول اللہ ! بڑے گناہ کو ن سے ہیں؟ ابن عمر نے آگے حدیث بیان کی ،اس میں  یہ بھی آیا ہے کہ جھوٹی قسم (اليمين الغموس )، راوی کہتا ہے ، میں نے عرض کی: جھوٹی قسم کیا ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال کھایا جائےاوروہ  اس میں جھوٹا ہو"(بخاری:6409)۔

اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے: آپ ﷺ نے فرمایا : ((خمس ليس لهن كفارة: الشرك بالله وقتل النفس بغير حق وبهت مؤمن والفرار يوم الزحف ويمين يقتطع بها مالاً بغير حق))"پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کاکوئی کفار ہ نہیں؛ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، بے گناہ انسان  کو قتل کرنا ،مؤمن پر بہتان لگانا، میدانِ جنگ سے بھاگ آنا، اورڈبونے والی قسم (اليمين الغموس)جس کے ذریعے ناحق مال کھایا جائے"(احمد:2/362) ۔

            اللہ تعالی ٰ نے آیت کا اختتام اس طرح کیا ہے کہ وہ  لغو قسم کی وجہ سے ہماری پکڑ  نہیں کرتے ، بلکہ اس پر سزا دیتے ہیں جس کا ہم دل سے ارادہ کریں، جیسا کہ ہم نے  بیان کیا،پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ غَفُورٌ حَلِيمٌ ہیں تو اللہ تعالیٰ لغو قسم کھانے پر ہماری پکڑ نہیں کرتے، اور وہ غَفُورٌ حَلِيمٌ ہیں تو وہ سزا وار لوگوں کے لیے سزا  میں جلدی نہیں کرتے۔ اورلفظ  الحلیم فعل (حَلُمَ یَحْلُمُ حِلماَ)سے ہے ، جس کے معنی  سزا میں تاخیر کرنے کے ہیں۔

Last modified onپیر, 14 فروری 2022 03:38

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک