بسم الله الرحمن الرحيم
تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر 219-220
جلیل قدر فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابو الرشتہ کی کتاب"التیسیر فی اصول التفسیر"سے اقتباس
يَسْــٴَــلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِؕ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ کَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُهُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ؕ وَيَسْــٴَــلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَؕ قُلِ الْعَفْوَؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ (219) فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِؕ وَيَسْــٴَــلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰىؕ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ؕ وَاِنْ تُخَالِطُوْهُمْ فَاِخْوَانُكُمْؕ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِؕ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ.
" لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ آپ کہہ دیجیے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں، اور دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ ( اللہ کی خوشنودی کے لیے ) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو۔ اللہ تعالیٰ اس طرح اپنے احکامات تمہارے لیے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر سے کام لو۔ دُنیا کے بارے میں بھی اور آخرت کے بارے میں بھی۔ اور لوگ آپ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ ان کے لیے بھلائی چاہنا نیک کام ہے، اور اگر تم ان کےساتھ مل جل کر رہو تو( کچھ حرج نہیں کیونکہ) وہ تمہارے بھائی ہی تو ہیں۔ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ کون معاملات بگاڑنے والا ہے اور کون سنوارنے والا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشکل میں ڈال دیتا، یقینا ً اللہ کا اقتدار بھی کامل ہے ، حکمت بھی کامل ہے"
اس عظیم سورت میں رسول اللہ ﷺ پر مسلسل آیات نازل ہوتی رہیں، جو عقیدہ اور احکام شرعیہ کے اعتبار سے ایک پختہ اسلامی شخصیت، یعنی اسلامی عقلیت اور اسلامی نفسیت ،کی تعمیر کے لیے متعدد مسائل کے حوالے سے شرعی احکامات بیان کرتی ہیں، جس کی بنا پر مسلمان سچے ایمان والا بنے اور اسلامی احکامات پر مضبوطی کے ساتھ کاربند رہ سکے،یعنی ان کا پابند رہ کر زندگی گزارے۔
1- کچھ مسلمانوں نے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھا، تو اللہ سبحانہ نے اس کا جواب دیا،فِيْهِمَآ اِثْمٌ کَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ" ان میں بڑا گناہ اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں"۔یہ نہیں کہا کہ(ھما اثم) یہ دونوں گناہ ہیں، اس لیے مسلمانوں نے اس آیت کریمہ سے شراب اور جوئے کا حرام نہ ہونا سمجھا، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سمجھا کہ یہ کام نہ کرنا بہتر ہے۔ کیونکہ : (اِثْمُهُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا)" ان کا گناہ ان کے فائدےسے بڑا ہے"۔
جہاں تک فائدے کی بات ہے تو یہ اس لیے کہ شراب کی تجارت اور اس پر حاصل ہونے والے منافع اس کا فائدہ اور نتیجہ تھا، اور قمار میں نفع وہ مال تھا جو ان کو قمار بازی سے منتقل ہوجاتا تھا، جس میں کوئی محنت و مشقت نہیں کرنی پڑتی،پھر یہ بھی نفع تھا کہ وہ فقیر اور مسکین لوگوں کو بھی اسی مال میں سے دیتے تھے۔
ان دونوں کاموں میں گناہ اس طرح تھا کہ شراب نوشی کے بعد شراب پینے والا نامناسب اور برے کاموں میں پڑتا اور نازیبا حرکات کرتا تھا۔ جوئے والا باطل طریقے سے مال کھاتا تھا، اور اگر خسارہ اُٹھاتا تو جوئے کے نتیجے کے طور پر اسے اپنا مال بیچنا پڑتا ، پھر اس سے جو دشمنیاں اور بغض پیدا ہوتا ہے،وہ گناہ اس پر مستزاد ہے۔
الواحدی کہتا ہے: یہ آیت عمر بن الخطاب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما اور انصار کے کچھ اور لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ، یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے،آکر پوچھا : " ہمیں شراب اور قمار کے بارے میں فتوی دیں، کیونکہ یہ دونوں عقل کو زائل کردیتے ہیں اور مال چھین لے جاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل کی"۔ (تفسیر البیضاوی ج/1ص 235)
اور خمر عربی لفظ ہے یہخَمَرَ سے ماخوذ ہے، یہ تب بولتے ہیں جب کوئی کسی چیز کو ڈھانپ لے یا چھپائے، اسی سے خمار المراۃ ہے، یعنی عورت کا دو پٹہ، کوئی بھی چیز جب دوسری چیز کو ڈھانپ لے تو عربی لغت میں اس کو خمر کہتے ہیں، اسی سے ((خَمَّروا آنیَتَکُم)) ہے جو حدیث میں آیا ہے، یعنی "اپنے برتنوں کو ڈھانک لیا کرو"۔ تو شراب کو خمر اس لیے کہتے ہیں کہ یہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے، یعنی اس پر پردہ ڈال دیتی ہے اور عقل کی صلاحیت کو مسدود کردیتی ہے۔
اور میسِر(قمار ) مصدر میمی ہے، یہ یُسر سے نکلا ہے جیسے مَوعِد وَعَدَ سے نکلا ہے، کہتے ہیں: یسرتہ اذا اقمرتہ ، میں نے اس کے ساتھ یسر کیا ،یہ تب بولتے ہیں جب جوا کھیلے،اس کی اصل یسر سے ہے ،اور یسر آسانی کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں کسی کا مال بآسانی لے لیا جاتا ہے، جس میں بہت زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی ہے۔
2- اور خمر ہر نشہ آور کا نام ہے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(( کلُّ مسکرٍ خمرٌ ))(مسلم ،ترمذی، نسائی ،ابن ماجہ ، احمد) " ہر نشہ آور شے خمر ہے"۔ یعنی شراب ہے۔ اور شراب حرام ہے، خواہ انہی چیزوں سے بنائی جائے جن سے عرب اس زمانے میں شراب بناتے تھے، (انگور، کھجور، گندم، جَو اور جوار) جیسا کہ ابوداؤد نے روایت کیا ہے،یا کسی بھی دوسری نوعیت کے اجزا سے تیار کی جائے ، بشرطیکہ گزشتہ حدیث کے مطابق مشروب کی حقیقت میں شراب کی حقیقت پایا جائے یعنی نشہ آور ہونا۔
یہی وجہ ہے کہ جدید نشہ آور تمام مشروبات جن میں الکحل ڈالا جاتا ہے، ان سب کو خمر یعنی شراب سمجھاجائے گا اور ان پر شراب کے احکامات ہی لاگو ہوں گے۔
شراب اس آیت (يَسْــٴَــلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِؕ قُلْ فِيْهِمَا اِثْمٌ کَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُهُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا)" لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ آپ کہہ دیجیے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں، اور دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ بڑھا ہوا ہے"، کی وجہ سے حرام نہیں ہوئی،جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، بلکہ سورۃ مائدہ کی اِن آیات کی بنا پر حرام ٹھہری یعنی
(يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ. اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَ فِى الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْـتُمْ مُّنْتَهُوْنَ).(المائدة/آية90-91)"
شراب ،جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر ، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو،شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بُغض کے بیج ڈال دے، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔اب بتاؤ کہ کیا تم( ان چیزوں سے) باز آجاؤگے؟"
یہ حتمی نہی کی قوی ترین قسم ہے:
اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ.
" شراب ،جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر ، یہ سب ناپاک ہیں۔
مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ " شیطانی کام ہیں"
فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ.." لہٰذا ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ"
اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَ فِى الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ " شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دُشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے"
وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ.اور تمہیں اللہ کی یاد
]وَعَنِ الصَّلٰوةِ[ اور نماز سے روک دے۔"
فَهَلْ اَنْـتُمْ مُّنْتَهُوْنَ "اب بتاؤ کہ کیا تم( ان چیزوں سے) باز آجاؤگے؟"
آیت کریمہ کے ان اجزا میں سے ہر ایک جزء حرام کردینے کے لیے کافی ہے، اسی وجہ سے صحابہ پکار اُٹھے تھے:انتھینا یا رب! "پروردگار! ہم رُک گئے"۔انہوں نے شراب چھوڑی بھی تو عجیب طریقے سے، کیونکہ ایک آدمی جو سالوں سے شراب نوشی کا عادی تھا، مگر سورۃ مائدہ کی آیت نازل ہونے پر شراب حرام ہونے کی خبر پہنچتے ہی،اُس نے فوراً بلا تاخیر یکسر اسے ترک کر دیا ،حتیٰ کہ اس وقت جو گھونٹ لیا تھا، وہ بھی پھینک دیا ، یہ نہ کہا کہ: اس کو پی کر بعد میں اجتناب کرنے لگوں گا۔
اور شراب سے متعلق دس اُمور حرام ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((فقد لعن رسول الله صلى الله عليه و سلم الخمرة ولعن معها عشرة: بائعها ومبتاعها والمشتراة له وعاصرها والمعصورة له وساقيها وشاربها وحاملها والمحمولة له وآكل ثمنها ))
"رسول اللہ ﷺ نے شراب پر لعنت کی، اور اس کے ساتھ دس چیزوں پر لعنت کی: اس کے بیچنے والے پر ،اس کے خریدنے والے پر ،جس کے لیے خریدی جائے، اس کو نچوڑنے والے پر ،جس کے لیے نچوڑی جائے، اس کے پلانے والے پر ، اس کے پینے والے پر، اور اس کو لے جانےوالے پر ،جس کے پاس لے جایا جائے، اور اس کی قیمت کھانے والے پر" (ابو داؤد، ترمذی)۔
اور شراب پینے والے کی سزا چالیس یا اسی کوڑے کی حد ہے، چالیس یا اسی کے علاوہ کوئی دوسری سزا جائز نہیں، چنانچہ پچاس یا ساٹھ جائز نہیں "، اس کی بنیاد یہ حدیث ہے، ("لما صح عن رسول الله ﷺأنه حدّ شارب الخمر أربعين وثمانين") " کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ صحیح حدیث ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے شراب پینے والے کو چالیس یا اسی کوڑے کی حد لگائی"۔(ابو داؤد)
جہاں تک اس کو بیچنے والے کی سزا کا تعلق ہے یا باقی دس کے حوالے سے ،تو ان کی سزا تعزیری ہے، کیونکہ اسلام میں ہر حرام عمل پر اسلامی ریاست ِخلافت کی طرف سے سزا دی جاتی ہے، یہ حد کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے ، یا جنایات ،تعزیر یا مخالفات کی صورت میں بھی ۔ جیسا کہ ہماری کتاب نظام العقوبات فی الاسلام میں سزاؤں کے باب میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
3- اور قمار جوئے کی ہر قسم کو کہتے ہیں،خواہ وہی ہو جو حرام کیے جانے کے زمانے میں عرب استعمال کرتے تھے یا بعد میں رائج ہونے والی اس کی کوئی بھی شکل ہو ،بشرطیکہ اس کی حقیقت وہی ہو جو حرام شدہ قمار کی ہے۔
اونٹوں کو ذبح کرکےان پر جوا کھیلنا عربوں کے ہاں رائج قمار ہی میں سے تھا، جن کو وہ خرید تے اور ان کی قیمت لگاکر متعین کرلیتے، پھر اپنے میں سے ہر ایک آدمی کے نام سےایک ایک تیر متعین کردیتے تھے، اس کے ساتھ ہر تیرکی مخصوص نشانیا ں مقرر کی جاتی تھیں، جن سے نامزدآدمی کا اونٹ میں سے حصہ معلوم کیا جاتا تھا،یعنی اس تیر کا اونٹ میں سے ایک حصہ ہے، اس کے دو حصے ہیں، بعض تیر ایسے ہوتے تھے جن کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، پھر ان تیروں کو کپڑے کے ایک تھیلےیعنی ترکش میں رکھ دیتے تھے، پھر ایک آدمی کو چن کر طے کرتے کہ وہ تھیلے میں ہاتھ اندر ڈالے اور اس میں موجود تیروں کو دو یا تین مرتبہ ہلا کر اُلٹ پلٹ کرکے ایک ایک کرکےتیر نکالے ۔
پس اگر کسی آدمی کا تیر نکل آتا تو اس پر لگی نشانی دیکھی جاتی تھی، اگر اس پر ایک حصہ لکھاہوتا تو وہ اونٹ کے گوشت میں سے ایک حصہ لے لیتا اور اگراس پر دو حصے ہوتے تو دو لیتاتھا، اور یہ حصے تب ملتے جب اونٹوں کو حصوں کے حساب سے تقسیم کردیتے،اور جس کا حصہ خالی نکل آتا اسے کچھ بھی نہ ملتا ،تاہم اس کو ذبح شدہ اونٹ کی قیمت دینی پڑتی۔
وہ فقیروں اور ناداروں کو بھی گوشت کا کچھ حصہ دیتے تھے ، یوں ان کے جوا کھیلنے سے فقراء بھی فائدہ اُٹھاتے تھے، جبکہ خالی حصے والے ذبح ہونے والے اونٹوں کی قیمت دیتے۔
یہ وہ جوا تھا جوان کے ہاں اس زمانے میں رائج الوقت تھا ،تاہم اس میں جوئےبازی کی ہر قسم شامل ہے جس کی شکل کوئی بھی ہو اورجس کے لیے کوئی بھی ذریعہ اپنایا جائے، تو جو کوئی ایسا کھیل کھیلے جس میں ہارنے والے آدمی کو متعین مقدار اپنی طرف سے دینا پڑتی ہے، تو اس کا یہ عمل قمار سمجھا جائے گا، اور مخصوص نمبروں والے کاغذ سمیٹنے میں شرکت کرنا ،یعنی لاٹری میں شرکت کرنا کہ اگر اس کا متعین کردہ نمبر نکل آتا ہے تو وہ انعام لے لیتا ہے، جس کا نمبرنہ نکلے تو دی ہوئی رقم چلی جاتی ہے، اور اس کو کچھ بھی نہیں ملتا ہے، تو یہ سب قمار بازی کے زمرے میں آتا ہے، خواہ لاٹری کے چوتھائی حصےمیں سے فقراء کو کچھ دیا جائے یا بعض خیراتی اداروں کوکچھ دیا جائے، جنہیں آج کل خیراتی لاٹری کہا جاتا ہے، تو یہ بھی قمار ہے ، بشرطیکہ نمبروں کے ذریعے شرکت کی جائے۔ یعنی جس کا نمبر نکلے ، وہ لےلیتا ہے، جس کا نہ نکلے ، وہ دی ہوئی رقم گنوا دیتا ہے اور اسے کچھ بھی نہیں ملتا۔
یہ سب قمار میں داخل ہے، کیونکہ قمار کی جو حقیقت جاہلیت کے دور سے ان کے ہاں پائی جاتی تھی، وہ ان سب کو شامل ہے۔یعنی جس کا تیر نکل آتا وہ اپنا حصہ حاصل کرلیتا۔اس طرح وہ فقراء کواس گوشت میں سے، جو اُن کے حصے آتا تھا،دے کرفائدہ پہنچاتے تھے۔پس ان کی حقیقت ایک ہے، حصوں پر کی جانے والی ہر جوئے بازی اس میں داخل ہے۔
جوئے کی حقیقت قرعہ اندازی سے مختلف ہے، جس کا ذکر حدیث میں موجود ہے:
(كان رسول الله ﷺإذا خرج أقرع بين نسـائه)
" رسول اللہ ﷺ جب سفر پر نکلتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کرتے تھے"(مسلم، احمد، ابنِ حبان)۔
(اعتق رجل من الأنصار ستة أعبد عند موته لم يكن له مال غيرهم فبلغ ذلك النبي ثم دعا بهم فجزأهم ثم أقرع بينهم فأعتق اثنين وأرق أربعة)
"ایک انصاری صحابی نے اپنی وفات کے وقت چھ غلام آزاد کردیے، ان غلاموں کے علاوہ اس کا کوئی اور مال نہیں تھا، نبی ﷺ کو اس کا پتہ چلا تو ان غلاموں کو بلایا،اور ان کے حصے بنائے پھر ان کے درمیان قرعہ ڈالا، جس کے نتیجے میں دو کو آزاد کردیا اور باقی چاروں کو(وراثت کے لیے) غلام رہنے دیا"۔
تو مذکورہ قرعہ انداز ی قرعہ ڈالنے والوں کے حصوں کی تعین کی لیے تھی، کیونکہ اس صورت میں ہر ایک کا حصہ دوسرے کی طرح تھا، اس قرعہ اندازی کا مقصد ہر ایک کا حصہ متعین کرنا ہوتاتھا،اور اسی پر قرعہ اندازی کرتے تھے، تو وہ پہلے سے ان حصوں کے مالک ہوتے تھے،جوئے کی وجہ سے مالک نہیں بنتے تھے،اس لیے قرعہ اندازی کی حقیقت جوئے سے مختلف ہے،یہ طیب اور حلال ہے اور قمار خبیث اور حرام ہے، جیسا کہ ہم اس کو بیان کریں گے، ان شاء اللہ۔
ہر قسم کا جوا حرام ہے، یہ حرمت اس آیت کی وجہ سے نہیں کیونکہ اس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ جوئے کے کاروبار میں اس کے نفع سے گناہ زیادہ ہے، جوئے کی حرمت سورہ مائدہ کی اسی آیت کی ذریعے ہوئی جو ہم نے اس سے قبل ذکر کی ہے۔ یعنی اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ" بلا شبہ شراب، جوا ،(اللہ کے علاوہ)بت (کیلئے قربانی) اور تیر ناپاک ہیں۔"
اور ہم نے یہ ذکر کیا کہ اس کی حرمت کتنی شدید ہے، ایک تو اس آیت کے الفاظ کی دلالت کی بنا پر ، دوسرا جوے بازی پر سزا(تعزیر) کی وجہ سے، تعزیر اسلام میں ایسی سزا کو کہتے ہیں جس کا اندازہ قاضی لگاتا ہے، لیکن اس میں یہ ضروری ہے کہ جوئے باز کو اس سزا سے سبق حاصل ہو، لہذا سزااتنی مقدار میں ہونی چاہیے کہ جوا کھیلنے والے کی سزا کے لیے کافی ہو، بلکہ دیگر جوئے باز وں کے لیے، جنہیں اس سزا کی اطلاع ہو،بھی تنبیہ کا باعث ہو، اس لیے یہ سخت ہونی چاہیے اور جرم کے مناسب مقدار میں ہونی چاہیے تاکہ عبرت بنے۔
موضوع کے آخر میں میں کہتا ہوں:
جو لوگ خیراتی لاٹری کو جو آج کل رائج اور عام ہے، حرام جوئے سے نکالنے کی کوشش میں لگے ہوئےہیں، اس دلیل کی بنا پر کہ اس سے حاصل شدہ منافع سے بعض غریب لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے، یہ گمراہی میں پڑے ہیں اور ان کی دلیل کمزور ہے،ان کا یہ قول یکسر باطل اور لغو ہے، کیونکہ جوئے کی حقیقت جو حرمت کے نزول کے وقت رائج تھا، اس میں بھی غریب لوگوں کو نفع پہنچایا جاتا تھا، کہ مخصوص حصے کے تیروں والے جوئے باز جو گوشت کمالیتے ، اس کو فقراء پر تقسیم کرتے تھے،حتی کہ جاہلیت میں وہ اس گوشت کو کھاتے ہی نہیں تھےبلکہ سارا گوشت فقراء کو دیدیتے تھے، اور اس پر فخر کرتے تھے، اور ایسا نہ کرنے والوں کی مذمت کیا کرتے تھے، اس کے باجود اسی جوئے کی حرمت اتری۔
یہی وجہ ہے کہ خیراتی لاٹری جوئے کی حرمت میں داخل ہے، اور اس کی کچھ مقدار سے فقراء کو نفع رسانی ،اس کو اس حرمت سے نہیں نکالتی،کیونکہ حرام شدہ قمار کی حقیقت اس پر لاگو ہوتی ہے۔
4- پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایک اور مسئلہ بیان فرمایا، گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا تھا کہ
يَسْــٴَــلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ؕ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِؕ
5- وَيَسْــٴَــلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَؕ قُلِ الْعَفْوَؕ"اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (اللہ کی خوشنودی کے لیے ) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ " جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین ، قریبی رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہیے۔ اور تم بھلائی کا جو کام بھی کرو، اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے"۔لہٰذا خرچ کرنے کے معاملے میں والدین، قریبی رشتہ دار، یتیم، مسکین اور مسافر کی ترجیح ہے، یہی وہ لوگ ہیں جن کی طرف خرچ کرنے کی رغبت ہے۔
لیکن یہ آیتِ کریمہ ایک اورموضوع کو بیان کرتی ہے،یہ گزشتہ آیت میں پوچھے گئے سوال کے علاوہ ایک اور سوال کا جواب ہے۔ اور یہ سوال خرچ کی مقدار سے متعلق تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو بیان فرمایا کہ:(الْعَفْوَؕ)"زائد"۔ یہ وہ مال ہے جو روز مرہ کے اخراجات سے زائد ہو یعنی بچت کامال۔
ابنِ اسحاق نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں: صحابہؓ میں سے کچھ لوگوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہوا تو انہوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا: ہم نہیں جانتے کہ ہمیں اپنے اموال میں سے جو کچھ خرچ کرنے کا کہا گیا ہے، وہ کتنا ہے؟ جبکہ اس سے پہلے کوئی اپنی ساری پونجی صدقہ کردیتاتھا، یہاں تک کہ اپنے اہل و عیال کے لیے بھی کچھ نہ چھوڑتا اور گھر والے بھوکے رہ جاتے،اس کے پاس دوبارہ صدقہ کرنے یا کھانے کے لیے کچھ نہ بچتا، بلکہ لوگ اس کو صدقہ دینے لگتے۔
تو اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا کہ صدقہ بچت کے مال میں سے دینا چاہیے یعنی روز مرہ کے خرچ سے فالتو مال میں ۔
رسول اللہ ﷺ سے اسی مضمون اورمطلب کی احادیث آئی ہیں، مثلا شیخین ، ابو داؤد اورنسائی نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے ،وہ رسول اللہﷺ کا ارشادہ نقل فرماتے ہیں:(خير الصدقة ما كان عن ظهر غنى وابدأ بمن تعولٍ) "بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری کے بل بوتے پر دیا جائے، اور پہلے اپنے اہل و عیال پر صدقہ کرو"(بخاری، مسلم، ابو داؤد، النسائی)۔یعنی مالدار کے صدقے کا مال کے مضبوط سہارے پر اعتماد ہوتا ہے، چنانچہ وہ صدقہ بھی کرتا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لیے مال بھی چھوڑتا ہے۔
6- پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس سورت میں متعدد شرعی احکامات کے ضمن میں ایک اور مسئلہ بیان فرماتے ہیں وہ مسئلہ یتیموں کے بارے میں ایک سوال کا جواب ہے، ہوا یوں کہ جب قرآن کریم نے یتیموں کا مال کھانے پر سخت وعید سنائی جیسا کہ سورۂ الانعام میں ہے:وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ[(الأنعام/آية:152)" اور یتیم جب تک پختگی کی عمر کو نہ پہنچ جائے، اُس وقت تک اُس کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو (اُس کے حق میں) بہترین ہو"۔ اسی طرح سورہ النساء کی آیت اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِىْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا ؕ وَسَيَـصْلَوْنَ سَعِيْرًا (النساء /10)" یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، اور انہیں جلد ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہونا ہوگا"۔ تو بعض صحابہ ؓ جن کی سرپرستی میں کچھ یتیم بچے تھےجن کی وہ کفالت کرتے تھے، اتنی احتیاط کرنے لگے کہ اچھی سر پرستی نہ ہونے کی صورت میں اللہ اور اس کے عذاب کا خوف دامن گیر ہوا ، اسی خوف کی وجہ سے یتیموں کے مالوں کو ہاتھ لگانے سے اجتناب کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ وہ اپنا کھانا پینا یتیموں کے کھانے پینے سے الگ کرنے لگے، حتی کہ بسا اوقات یتیموں کا بچا ہوا کھانا سڑجاتا تھا، سرپرست گناہ سے بچنے کی خاطر اس کو نہ کھاتے ، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی، جیساکہ ابوداؤد نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔اور اس آیت میں اللہ سبحانہ نے مندرجہ ذیل امور بیان فرمائے ہیں:
ا- بلا شبہ ہر وہ کام جس میں یتیموں کے اموال کی اصلاح ،اضافہ اور حفاظت ہو ،سرپرست وہ سب کام کرسکتا ہے، اور وہ اچھی طرح سے اور اخلاص کے ساتھ یہ کام کرتا ہے ، تو اِس میں اُس کے لیے اجر ہوگا۔
ب- ان کے ساتھ اکٹھے رہنا ان کو الگ کردینے سے افضل ہے، تو اگر تم ان کے ساتھ مل کر کھاتے پیتے ہو یا اکٹھا رہن سہن رکھتے ہو جس میں ان کے اموال کی اصلاح بھی ہو اور ان کی بہتری ہو تو یہ بات ان کو الگ رکھنےسے زیادہ بہتر اور عمدہ ہے، یہ افضلیت اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وَاِنْ تُخَالِطُوْهُمْ فَاِخْوَانُكُمْؕ"اور اگر تم ان کےساتھ مل جل کر رہو تو(کچھ حرج نہیں کیونکہ) وہ تمہارے بھائی ہی تو ہیں"۔
یہاں (فَاِخْوَانُكُمْؕ)" وہ تمہارے بھائی ہیں "، ذکر کیاگیا، اس میں یتیموں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ان کےساتھ معاملہ کرنے کی ترغیب اور حوصلہ افزائی ہے، گویا یہ بھی اپنے خاندان ہی کے افراد ہیں، اور یہ ترغیب اس لیے دی گئی تاکہ ان پر خوب توجہ دی جائے اور زیادہ اہتمام کیا جائے۔
ج- پھر اللہ سبحانہ نے بیان کیا کہ وہ خوب جانتا ہے کہ کون انصاف اور اصلاح سے کام لے رہا ہے اور اسی غرض سے میل جول کر رہتا ہے اور کون فساد کی غر ض سے۔یعنی اکٹھا معاملہ اس لیے رکھنا چاہتا ہے کہ ان کے مالوں کی حفاظت ہو یا ان کے اموال کھانے کے لیے اس اختلاط کو جواز بنانے کے ارادے دل میں لیے پھرتا ہے۔
د- پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آیت کے اختتام پر ان کو اپنی مہربانی یاد دلائی کہ ان کے لیے یتیموں کی کفالت میں آسانی کردی اور ان کے لیے ان کے ساتھ میل جول کرکے اچھے طریقے سے رہنے کو جائز کردیا، اور اس پر ان کے لیے بڑا اجر بھی تیار کیا ہے، اگر اللہ چاہتا تو ان پرتنگی کردیتا، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا (لَاَعْنَتَكُمْؕ)"وہ تمھیں مشکل میں ڈال سکتا تھا"،یعنی یتیم کی کفالت میں،اور اگر یتیموں کا کچھ مال لے کر ان کے ساتھ اکٹھے رہتے ،تو ان کو شدید سزا دیتا۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے کاموں پر غالب ہے، اسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی، وہ اپنے ہر ہر کام میں اور حکم میں حکمت بالغہ رکھتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ "یقینا ً اللہ کا اقتدار بھی کامل ہے ، حکمت بھی کامل ہے"۔