بسم الله الرحمن الرحيم
تفسیر سورۃ البقرۃ ۔ آیت 221
جلیل قدر فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب"التیسیر فی اصول التفسیر"سے اقتباس
]وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّؕ وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْكُمْۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا ؕ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْؕ اُولٰٓٮِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۖۚ وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَـنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖۚ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ[
"اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ یقیناً ایک مؤمن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آرہی ہو۔ اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اور یقیناً ایک مؤمن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک تمہیں پسند آرہاہو۔ یہ سب دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، جبکہ اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنی آیات لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ و ہ نصیحت حاصل کریں"۔
اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ میں مندرجہ ذیل امور ذکر فرماتے ہیں:
1-مومن عورت کی کسی مشرک مرد کے ساتھ شادی کرنے کی حرمت اورمسلمان مرد کی کسی مشرک عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حرمت، خواہ مشرک مرد یا مشرک عورتوں کی پسندیدگی کی وجہ کچھ بھی ہو جیسے دولت، عزت وغیرہ۔
یہاں حرمت کا قول آیت میں موجود نہی پر منتج ہے یعنی [وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ["مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو"اور[وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ["مشرک مردوں سے نکاح مت کرو"،اور یہاں نہی کے حتمی ہونے کا قرینہ بھی پایا جارہا ہے :[اُولٰٓٮِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ["یہ (تمھیں) آگ کی طرف بلاتے ہیں"۔چنانچہ آیت میں مذکور نہی ایک حتمی نہی ہے، یعنی ایسا نکاح حرام ہے۔
2- یہاں مشرک مرد اور مشرک عورتوں کے مفہوم میں ہر کافر شامل ہے،اس پر [اُولٰٓٮِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ["یہ (تمھیں) آگ کی طرف بلاتے ہیں"،دلالت کرتا ہے،یعنی وہ لوگ کفر کی دعوت دیتے ہیں جو آگ میں لے جانے کا باعث ہے۔چونکہ یہاں آگ کا ذکر جنت کے بالمقابل کیا گیا ہےجبکہ و ہ اہل جہنم جو کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے ،کفار ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ [اُولٰٓٮِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ["یہ(تمھیں) آگ کی طرف بلاتے ہیں"،تحریم کی علت ہے اور یہی الفاظ نکاح کے معاملے میں مومن باندی کی آزاد مشرک عورت پر فضیلت اور مومن غلام کی آزاد مشرک مرد پر فضیلت کے لیے بھی علت ہے۔
یعنی[اُولٰٓٮِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ["یہ (تمھیں) آگ کی طرف بلاتے ہیں"،مؤمنین کی فضیلت اور مشرک عورتوں کے ساتھ ان کے نکاح یا مؤمن عورتوں کے مشرکین کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے کی علت ہے۔
اس شرعی علت میں یہ معانی شامل ہیں، "وہ جو کفر کی دعوت دیتے ہیں جس کا نتیجہ آگ ہے"۔اس میں تمام کفار شامل ہو جاتے ہیں، چاہے وہ جس طرح کے بھی ہوں۔
یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آیت میں لفظ(مُشرِک) میں اہل کتاب شامل نہیں ، چنانچہ مشرکین اور مشرکات سے نکاح کی تحریم میں اہل کتاب شامل نہیں، کیونکہ کچھ ایسی آیات بھی آئی ہیں جو مشرکین کو اہل کتاب سے جدا کرتی ہیں۔ مثلاً:
﴿مَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ﴾
"کافر لوگ خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے، یہ نہیں پسند کرتے ہیں کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو۔"(البقرۃ:105)
ایسا کہنا دو وجوہات کی بنا پر درست نہیں:
ا-یہود ونصاریٰ قرآن ہی کی نص کی بنیاد پر مشرک ہیں ،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے:[وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ۨابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِؕ ذٰ لِكَ قَوْلُهُمْ بِاَ فْوَاهِهِمْ ۚ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ؕ قَاتَلَهُمُ اللّٰهُ ۚ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ. اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَـعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ؕ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ[
اور یہودی تو یہ کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں، اور نصرانی یہ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ سب اُن کی منہ کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ یہ اُن لوگوں کی سی باتیں کررہے ہیں جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں۔ اللہ کی مار ہو ان پر! یہ کہاں اوندھے بہکے جارہے ہیں؟ انہوں نے اللہ کے بجائے اپنے احبار(یعنی یہوی علماء) اور راہبوں (یعنی عیسائی درویشوں ) کو خدا بنالیا ہے، اور مسیح ابن مریمؑ کو بھی، حالانکہ اُ ن کو ایک اللہ کےسوا کسی کی عبادت کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اُس کےسوا کوئی معبود نہیں۔وہ پاک ہے جس کے بارے میں یہ شرک کرتے ہیں"(التوبہ:31-30)۔
اس سے ثابت ہوا کہ یہود و نصاریٰ مشرکین ہیں۔
ب- بلا شبہ(مشرکین) کا لفظ جب بغیر قرینے کے بولا جائے ،تو اس سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا، یعنی یہ صرف کفر کی ایک نوع پر دلالت کرتا ہے۔البتہ قرینے کے ساتھ وارد ہو تو اسی کے مطابق مراد لیا جاتا ہے۔یہاں یہ اس طرح آیا ہے کہ اس کے لیے ایک شرعی علت بیان کی گئی ہےاور وہ شرعی علت ہے" وہ جو آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور جو جنت میں داخل نہیں ہوں گے"۔ اس شرعی علت میں اہلِ کتاب میں سے ہر کافر بھی شامل ہے کیونکہ وہ جنت والوں میں شامل نہیں۔
جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے: [ مَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ [" کا فر لوگ خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے،یہ پسند نہیں کرتے"(البقرۃ:104)، یہ فقط کفر کی اقسام کے نام ہیں : اہلِ کتاب اور مشرکین۔ ہر ایک کا اپنا معنی ہے،یہی وجہ ہے کہ [الْمُشْرِكٰتِ ["مشرک عورتیں"اور[الْمُشْرِكِيْنَ ["مشرک مرد" جو آیت میں آیا ہے ، اس میں اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے ہر کافر شامل ہے، جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں۔
یعنی اس آیت سے معلوم ہوا:
مؤمن مرد کے کسی کافر عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی حرمت
اور مسلمان عورت کے کسی کافر مرد کے ساتھ نکاح کرنے کی حرمت
3-یہ آیت عام ہے اور اس کی تخصیص سورۃالمائدہ کی آیت میں آئی ہے:[ اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَـكُمُ الطَّيِّبٰتُ ؕ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّـکُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْـكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ["آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں، اور جن لوگوں کو (تم سے پہلے) کتاب دی گئی تھی ، ان کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے،نیز مؤمنوں میں سے پاکدامن عورتیں بھی اور ان لوگوں میں سے پاکدامن عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی"(المائدۃ:5)۔
پس یہاں کفر کی انواع میں سے ایک نوع کی تخصیص کی گئی ہے، یعنی اہلِ کتاب میں پاکدامن عورتیں، یعنی یہودی عورتیں اور عیسائی عورتیں۔یہی وہ عورتیں ہیں جن پر شرعی طورپر یہ لفظ (المحصنت)بولاجاتا ہے، اس لیے اہلِ کتاب میں سے پاکدامن عورتوں (العفیفات)کے ساتھ مسلمانوں کے لیے نکاح کرنا جائز ہے۔
جہاں تک مسلمان عورت کا کسی کافر مرد کے ساتھ نکاح کا تعلق ہے تو اس حوالے سے آیت میں تحریم اپنے عموم پر باقی ہے، اس میں کوئی بھی تخصیص نہیں آئی ہے، خواہ وہ مرد اہلِ کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب میں سے۔
4-جہاں تک اس بات کا تعلق ہے جو ہم نے کی کہ[الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْكِتٰبَ["وہ جنھیں کتاب دی گئی"یعنی اہل کتاب کا اطلاق یہود و نصاریٰ پر کیا جاتا ہے، قرآن کریم اور سنت میں اس حوالے سے بہت زیادہ نصوص آئی ہیں، مثلا:[ يٰۤـاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِىْۤ اِبْرٰهِيْمَ وَمَاۤ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰٮةُ وَالْاِنْجِيْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِهٖؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ["اے اہل کتاب! تم ابراہیمؑ کے بارے میں کیوں بحث کرتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد ہی تو نازل ہوئی تھیں؛ کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے؟"(آل عمران: 65) یعنی اہل کتاب یہود (تورات والے) اور عیسائی( انجیل والے) ہی ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ سے مجوس کے ساتھ لین دین کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: ((سنوا بهم سنة أهل الكتاب غير آكلي ذبائحهم ولا ناكحي نسائهم))" ان کے ساتھ اہل کتاب والا معاملہ کرو، سوائے ان کا ذبیحہ کھانے اور ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کے"(موطا:544، طبرانی کی معجم الکبیر:437/19، بیہقی:189/9، ابنِ ابی شیبہ:224/3، 243/12، عبدالرزاق:10025)۔ یعنی ان کے ساتھ یہود و نصاریٰ جیسا معاملہ کرو،سوائے ذبح شدہ جانوروں اور عورتوں کے ساتھ نکاح کے معاملے میں ۔ اس کے علاوہ بھی کئی نصوص ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں۔
5-لیکن حرمتِ نکاح سے اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں کا ہی استثناء کیا گیا ہے،سو مشرق و مغرب کی کفریہ ریاستوں میں آنے جانے والے بعض مسلمان جو کچھ کرتے ہیں کہ وہ اہلِ کتاب کی عورتوں سے شادیاں رچاتے ہیں اور عورت کی پاکدامنی کی کوئی فکر نہیں کرتے،تو ان کا یہ معاملہ حکمِ شرعی کے خلاف ہے۔ یہ اس لیے کہ ان ممالک میں نام نہاد شخصی آزادی کا رواج ہے،ان تصورات کی وجہ سےان کے نزدیک زنا ایک معمولی کا م ہے۔اس لیے یہ بات اہم ہے کہ مسلمان نوجوان اس بابت نہایت چوکنے رہیں۔ سو اگر انہیں اہل ِکتاب میں سے پاکدامن عورتیں ملتی ہوں تو ان کے ساتھ نکاح جائز ہے، ورنہ جائز نہیں تاکہ احکام ِشریعہ کی حفاظت کی جاسکے۔نیز نسب کو گڈ مڈ ہونے سے بچایا جاسکے،اس طرح متعدد پریشانیوں میں پڑنے سے بھی بچاؤ ہو جو ان جیسے معاملات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
ابن عطیہ نے روایت کی ہے کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ایک اہلِ کتاب عورت سے شادی کی۔ عمر ؓ نے چاہا کہ ان کے درمیان جدائی ہو جائے۔لہٰذا حذیفہؓ نے کہا:'اے امیر المؤمنین! کیا آپ اس کو حرام سمجھتے ہیں، تو میں چھوڑ دیتا ہوں؟'۔ عمر ؓ نے کہا:لا أزعم أنها حرام، ولكني أخاف أن تعاطوا المومسات منهن"میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ حرام ہے، مگر مجھے جس بات کا ڈر ہے وہ یہ ہے کہ تم لوگ بعد میں ان کی بدکار عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے لگوگے"۔
ابنِ عباسؓ نے بھی اسی طرح روایت کی ہے،یعنی عمرؓنے اس وجہ سے ہی اس کو برا سمجھا کہ اس قسم کے رویے میں عدم پاکیزگی کا احتمال ہوتا ہے۔ تو آج کفریہ ممالک میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
ایک اور روایت میں ہے جسے ابن جریرنے روایت کیا ہے،کہ انھوں نے ایک یہودی عورت سے شادی کی ،تو عمر ؓنے اسے خط لکھا : 'اس کو چھوڑدو'۔ انہوں نے جوابی خط لکھ کر پوچھا:'کیا آپ اس کو حرام سمجھتے ہیں کہ میں اس کو چھوڑدوں؟ '۔تو عمرؓ نے فرمایا:لا أزعم أنها حرام ولكني أخاف أن تعافوا المؤمنات' میں اس کو حرام نہیں سمجھتا لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم مؤمن عورتوں سے بھاگنا نہ شروع کر دو'۔
پس عمرؓ نےاہل کتاب کی عورتوں کےساتھ شادی کرنا اس لیے معیوب سمجھا تاکہ لوگ مسلمان عورتوں سے بیزار اور عدم دلچسپی کا مظاہر ہ نہ کریں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایک مسلمان نوجوان جب کسی اہلِ کتاب عورت سے شادی کرنا چاہے، تو اس پر اس بات کی تسلی کرنا لازم ہے کہ وہ پاکدامن ہو ،زنا اور فحاشی کے کاموں میں ملوث نہ ہو۔ اگرایسا ہے تو اگر چہ اس صورت میں اس کے لیے اس عورت کے ساتھ نکاح کرنا جائز تو ہوگا مگر بہتر یہ ہے کہ اس کے بجائے کسی مسلمان عورت سے نکاح کرے۔آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
((تنكح المرأة لأربع: لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها، فاظفر بذات الدين تربت يداك))
" عورت کے ساتھ چار وجوہات سے نکاح کیا جاتا ہے؛ اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے نسب کی وجہ سے ، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے ، پس دیندار عورت سے نکاح کرو"۔
6-گزشتہ بحث کی بنا پرکافر عورتوں کے ساتھ شادی کرنے سے صرف اہل کتاب کی مُحصَنات یعنی پاکدامن عورتوں کومستثنیٰ کیا گیا ہے۔ان کے علاوہ عورتوں کے ساتھ نکاح کو آیت حرام قرار دے رہی ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔
تویہ سمجھ حاصل کرنے سے اب اس آیت کے معنی یہ ہوں گے:
اے مسلمانو! تم پر کافر عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، سوائے اہلِ کتاب کی عفیف یعنی پاکدامن عورتوں کے۔ اور بے شک ایک مومن باندی مشرک عورت سے بہر حال اچھی ہے، بھلے مشرکہ عورت کا حسن کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اسی طرح تم پر یہ بھی حرام ہے کہ مؤمن عورتوں کا نکاح کفار کے ساتھ کرو، خواہ کسی بھی قسم کا کافر ہو، چاہے مشرکین میں سے ہو یا اہل کتاب اور مجوس وغیرہ یا دیگر کفار میں سے ۔ اور بے شک ایک مؤمن غلام مرد مشرک آدمی سے بہتر ہوتا ہے، خواہ مشرک پسند آنے کی وجہ کچھ بھی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں، ان کا طریقہ اہل جہنم کا ہے،جب کہ مسلمانوں کی دعوت اور طریقہ جنت والا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کا ہے۔
پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ آیت کے آخر میں واضح کر دیتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ یہ آیات،کفار کی جہنم کی طرف دعوت کے معاملے پر اور مومنین کی جنت اور اللہ کی مغفرت کے طرف دعوت کے معاملے پر واضح اور صریح ہیں۔ان آیات کا مقصد مومنین کو یومِ آخرت، جنت اور جہنم کی یادہانی کرانا ہے تاکہ وہ جنت کے قریب ہونے اور جہنم سے دور ہونے کی کوشش کرتے رہیں۔
[وَلَا تَنْكِحُوا["اور نکاح نہ کرو"، یعنی شادی نہ کرو۔
[وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ["یقیناً ایک مؤمن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے"۔یہاں باندی کا ذکر آزاد عورت کے مقابلے میں ہے،کیونکہ یہاں موضوع ایمان اور شرک کی ایک دوسرے پر فضیلت اور بہتری کا بیان ہے۔تو اس لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ ایمان بلندیوں پر لے جاتا ہے، حتی کہ غلامی کا طوق پہنی باندیاں ہی کیوں نہ ہو، اور شرک پستی میں لے جاتا ہے ، حتیٰ کہ ایک مشرک عورت آزاد ہی کیوں نہ ہو، یعنی ایمان ایک باندی کو ایک آزاد مشرک عورت سے بلند درجہ اور افضل مقام عطا کرتا ہے۔ پس اس آیت میں مؤمن باندی کی مشرک عورت پر مطلق فضیلت بیان کی گئی ہے۔ جہاں تک آزاد مؤمن عورت کی ایک مشرک آزاد عورت پر فضیلت کا تعلق ہے، تو وہ"من باب الاولیٰ" (بدرجہ اولیٰ)کے فقہی اصول کے مطابق ہے(یعنی مفہوم الموافقہ)۔
[وَّلَوْ اَعْجَبَتْكُمْ[" خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آرہی ہو"۔ یہ شرط ِمحذوف کا جواب ہے، جس پر سابقہ جملہ دلالت کرتا ہے، وہ شرطِ محذوف یہ ہے کہ ' ان کے ساتھ شادی نہ کروخواہ تمہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ ہوں'، کیونکہ ایک مؤمن باندی ان سے بہتر ہے۔
اور پسندیدگی میں ہر وہ چیز داخل ہے جونکاح کے خواہشمند کی نظر میں کافرہ عورت کوبھلی بناتی ہے، جیسے اس کا حسن ،مال اور وہ تمام اشیاء جن کی وجہ سے رغبت و شوق پیدا ہوتا ہے۔اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں:
(("لا تَزَوَّجوا النساء لحسنهن فعسى حسنُهن أن يُرْدِيَهُن، ولا تَزَوَّجوهن لأموالهن فعسى أموالُهن أن تُطْغِيَهن، ولكن تَزَوَّجوهن على الدين ولأمة خرماء سوداء ذات دين أفضل"))
"عورتوں کے ساتھ ان کے حسن و جمال کی وجہ سے نکاح نہ کیا کرو،ممکن ہے ان کا حسن ان کو ہلاک کردے، اور مال کی وجہ سے بھی ان سے شادیاں نہ کرو، ممکن ہے کہ ان کے مال ان کو سرکش بنادے، البتہ ان کے دین کی وجہ سے ان سے نکاح کرو، کیونکہ ایک چھدے ہوئے کان والی کالی دیندارباندی افضل ہے"(ابنِ ماجہ: 1849) ۔
[وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ["اوریقیناً ایک مؤمن باندی "،یہاں جملے کو لام ابتدا سے شروع کیا گیا ہے، جو تاکید پیدا کرنے میں لامِ قسم جیسا ہے۔ یہ مؤمن عورتوں کے ساتھ نکاح اور مشرکہ عورتوں سے شادی حرام ہونے، دونوں پر تاکید ہے۔اسی طرح [وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ["اور یقیناً ایک مؤمن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک تمہیں پسند آرہاہو"، اس سے بھی یہی معنی مقصود ہے،یعنی مسلمانوں میں دلچسپی اور مؤمن عورت کی کافر سے نکاح کی حرمت۔
نبی ﷺ نے فرمایا :
(("إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إن لا تفعلوه تكن فتنة في الأرض وفساد عريض"))
"جب تمہارے پاس کوئی ایساشخص رشتہ مانگنے آئے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو نکاح کرادو، ورنہ زمین میں بڑا فساد اور فتنہ کھڑا ہوگا"(ترمذی:1084، ابنِ ماجہ:1967)۔
[ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ[" اوروہ اپنے احکامات لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ و ہ نصیحت حاصل کریں"۔یہاں ]يَتَذَكَّرُوْنَ["تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں"، ذکر کیااورپچھلی آیت میں[تَتَفَكَّرُوْنَۙ["تاکہ وہ فکر کریں"،ذکر کیا کیونکہ سابقہ آیت حساس امور کے بعد ذکر کی گئی تھی ، یعنی شراب، جوا ، یتیم بچے اور ان کی اصلاح کی فکر،تو اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالی نے یہی فرمایا کہ[كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ. فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِؕ["اسی طرح اللہ تم پر آیات واضح کرتا ہےتاکہ تم اس دنیا اور آخرت میں غور و فکر کرو"(البقرۃ:220-219)، یعنی حساس معاملات پر توجہ دو تاکہ تم اس توجہ کے نتیجے میں اپنی دنیا اور آخرت کو بہتر بنانے کے راستے پر چل سکو۔
اور یہاں اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:
[اُولٰٓٮِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۖۚ وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَـنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖۚ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْن [
"یہ سب دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، جبکہ اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنی آیات لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ و ہ نصیحت حاصل کریں"۔
چونکہ جنت اور جہنم کا موضوع ایسے امور ہیں جو انسانی احساس میں نہیں آتے جن پر و ہ غور و فکر کرسکے، بلکہ ان کا سہارا نقل و روایت پر ہے۔ سو اللہ سبحانہ وتعالی نے [لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ["تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں"کے الفاظ فرمائے۔