الجمعة، 07 صَفر 1447| 2025/08/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اوجلان اور اسکی جماعت کی جانب سے ہتھیار چھوڑنے کے عمل میں تیزی

 

(عربی سے ترجمہ)

 

تحریر: اسعد منصور

 

9 جولائی 2025 کو کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے رہنما عبداللہ اوجلان کا ایک وڈیو بیان جاری ہوا، جس میں اس نے اپنی جماعت کی جانب سے ہتھیار چھوڑنے کے عمل کو تیز کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اس نے کہا: "ہم نے جو وعدے کیے ہیں، اُن کی تکمیل کے دائرے میں ایک ایسی مؤثر حکمتِ عملی وضع کی جانی چاہیے جس کے تحت اس عمل میں پیش رفت ہو، مسلح جدوجہد کا اختتام رضاکارانہ طور پر ہو، اور آئندہ کا سفر قانونی دائرے اور جمہوری سیاست کی طرف ہو۔"

 

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی جماعت، جس نے 12 مئی 2025 کو اس کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے خود کو تحلیل کرنے اور ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا تھا، ہتھیاروں کی مکمل تحویل کے عمل میں تاخیر سے کام لے رہی ہے، جس کے باعث اوجلان کی رہائی مؤخر ہوئی۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کے اندر کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو دانستہ طور پر اس عمل کو طول دے رہے ہیں تاکہ معاملہ معلق رہے؛ کیونکہ فریقین کے درمیان خفیہ مذاکرات 2009 میں شروع ہوئے جو بعد ازاں تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ اوجلان کو اندیشہ ہے کہ کہیں یہ عمل ایک بار پھر تعطل کا شکار نہ ہو جائے اور وہ جیل ہی میں قید رہے، کیونکہ اُس کی اصل غرض و غایت اپنی ذاتی نجات ہے۔

 

اس مقصد کے تحت اوجلان نے اُس ہدف سے بھی علانیہ دستبرداری اختیار کر لی ہے، جس کی بنیاد پر اس نے 1984 میں مسلح بغاوت کا آغاز کیا تھا۔ اس نے کہا: "پارٹی نے قومی ریاست کے قیام کے ہدف سے دستبرداری اختیار کر لی ہے، اور اسی کے ساتھ جنگی حکمتِ عملی سے بھی کنارہ کشی کر لی ہے۔ موجودہ تاریخی مرحلے میں مزید پیش رفت کی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔"

 

اسی لیے وہ ہتھیار ڈالنے کے عمل کو تیز کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس نے کہا: "ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے موزوں طریقۂ کار متعین کیا جائے گا اور فوری عملی اقدامات کیے جائیں گے۔" اور اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے مزید کہا: "ترک پارلیمان کے اندر اس وقت ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے تاکہ ہتھیاروں کا رضاکارانہ اور قانونی دائرے میں انخلاء ممکن ہو سکے، اور یہ ایک نہایت اہم اقدام ہے... ضروری ہے کہ جو بھی اقدامات کیے جائیں وہ حساس نوعیت کے ہوں اور تنگ نظری سے پاک ہوں۔"

 

یہ بات واضح ہے کہ اوجلان اُن عناصر پر تنقید کر رہا ہے جو اس عمل میں تاخیر یا رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ وہ اُن کے طرزِ فکر کو "تنگ نظری" سے تعبیر کر رہا ہے۔ اوجلان نے کہا: "میں اس قدم کو نیک نیتی کی علامت سمجھتا ہوں اور اس پر میرا ایمان ہے۔ میرا یقین ہتھیار پر نہیں، بلکہ سیاست اور معاشرتی امن پر ہے۔ میں آپ سب سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس اصول کو عملی جامہ پہنائیں۔"

 

أوجلان اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اس کے لوگ طے کی گئی باتوں پر جلد از جلد عمل درآمد کریں، تاکہ وقت ضائع نہ ہو جائے۔ کیونکہ اگر عمل درآمد میں تاخیر ہوئی تو وہ اپنے آپ کو اپنی جماعت پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی صلاحیت رکھنے والا رہنما ثابت کرنے کا تاریخی موقع کو کھو بیٹھے گا، جس کی بدولت وہ 1999 میں شروع ہونے والی قید سے آذاد ہونے کا موقع بھی کھو دے گا۔

 

اس بات کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ اوجلان کا یہ وڈیو بیان دراصل 19 جون 2025 کو اس کی جماعت سے قریبی تعلق رکھنے والی خبر رساں ایجنسی "فرات" نے ریکارڈ کیا تھا، مگر اسے 9 جولائی 2025 کو جاری کیا گیا۔ یہ تاخیر اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ بیان کی اشاعت اس وقت تک مؤخر رکھی گئی جب تک پارٹی کے اندر سے کسی حقیقی ردعمل یا عملی قدم کی امید پیدا نہ ہو گئی ہو۔ لیکن چونکہ پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کی طرف سے ٹال مٹول اور سست روی کا مظاہرہ سامنے آیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوجلان کے اعلان، اور خود پارٹی کے مؤقف کی عملی سطح پر کوئی قدر و قیمت باقی نہیں ہے۔ نتیجتاً معاملہ اپنی جگہ پر جمود کا شکار ہے، ان وعدوں کی طرح جو کیے تو جاتے ہیں، مگر کبھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔

 

اسی تناظر میں، اسی خبر رساں ایجنسی "فرات" نے اطلاع دی کہ 11 جولائی 2025 کو ایک علامتی اقدام کے طور پر پارٹی کے تیس ارکان پر مشتمل ایک گروہ، جن میں چار اہم کمانڈر بھی شامل تھے، نے عراق کے شمالی شہر سلیمانیہ میں کچھ ہتھیاروں کو تباہ کیا ہے۔ یہ کارروائی مختلف فریقوں کی موجودگی میں انجام دی گئی، جن میں: ترک انٹیلیجنس کے نمائندے، شمالی عراق کی صوبے کردستان کی حکومت کے نمائندے، کردستان یونین پارٹی (PUK)، اور برابری و جمہوریتِ اقوام پارٹی شامل تھے، جو ترک حکومت اور اووجلان کے درمیان ثالثی کردار ادا کر رہے ہیں۔

 

ترکی کے انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ابراہیم قالن نے 8 جولائی 2025 کو بغداد کا دورہ کیا، جہاں اس نے عراقی حکومت کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی "فرانس پریس" کو ایک عراقی عہدیدار نے بتایا کہ اس ملاقات کا مقصد ہتھیار ڈالنے کے عمل کے لیے درکار لوجسٹک پہلوؤں پر بات چیت کرنا تھا۔

 

ترکی نے PKK (کردستان ورکرز پارٹی) پر تاخیری حربے استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے کے عمل کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے 6 جولائی 2025 کو ایک بیان میں کہا: "امن کی کوششیں اُس وقت کچھ رفتار پکڑیں گی جب دہشت گرد تنظیم اپنے ہتھیار ڈالنے کے فیصلے پر عمل درآمد شروع کرے گی" اسی تناظر میں، برابری و جمہوریتِ اقوام پارٹی کا ایک وفد 7 جولائی 2025 کو اووجلان سے ملاقات کے لیے گیا، اور اگلے ہی دن یعنی 8 جولائی کو اُس وفد نے صدر اردوغان سے ملاقات کی، جس میں، ابراہیم قالن بھی موجود تھا۔

 

اردوغان نے اوجلان کے اپنے گروہ کے ہتھیار ڈالنے کے عزم کا اعلان کرنے کے ردعمل میں کہا: "ہم ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں جہاں آنے والے دنوں میں ہمیں مثبت خبریں ملیں گی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ عمل جلد از جلد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے گا، بغیر کسی حادثے یا تخریب کاری کی کوشش کے۔"

 

امریکہ، جو خطے میں سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھتا ہے، کے پاس فی الحال کسی کردستانی ریاست کے قیام کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اس نے شمالی عراق میں اس کی تشکیل کو مسترد کر دیا اور وہاں صرف خودمختار حکومت کو تسلیم کیا۔ اسی لیے وہ "قسد" تنظیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کی قیادت قومی کرد کر رہے ہیں، اور اسے شام کے نظام میں ضم کرنا چاہتا ہے جس کی قیادت احمد الشرع کر رہا ہے۔ اوجلان اس بات کو سمجھ چکا ہے، وہی اوجلان جس نے امریکہ کے مفاد میں کام کیا، جو اسے ترکی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتا رہا جب ترکی میں برطانوی ایجنٹوں کی حکمرانی تھی، مگر اب امریکہ، ترکی کی وحدت پر قائم ہے۔ وہ ترکی جو اردوغان کی قیادت میں امریکی پالیسی کے مدار میں گھومتا ہے، اور اردوغان خود کو امریکہ کا دوست اور حلیف کہتا ہے۔

 

ترکی اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ اردوغان ترکی کی تاریخ کی ایک عظیم تاریخی کامیابی حاصل کر سکے؛ یعنی اردوغان وہ شخص بن جائے جس نے کرد قومی مسلح بغاوت کو ختم کر کے کرد قوم پرستوں کو ترکی کی سیاست میں ضم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ کارنامہ اسے آئندہ انتخابات میں حمایت حاصل کرنے کے لیے نقاط فراہم کرے گا، خاص طور پر دستور میں ترمیم کرنے کے لیے جو اسے تیسری مدت کے لیے امیدوار بننے سے روکتا ہے یا قبل از وقت انتخابات کرانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے۔ اردوغان چاہتا ہے کہ اپنی پوری زندگی اور آخری دنوں کو ایسے گزارے کہ وہ اللہ کے غضب کا شکار ہو، کیونکہ وہ سیکولر، کافر، جمہوری نظام نافذ کر رہا ہے۔ اس نے عوام کے سادہ لوح اور بھولے لوگوں کو فریب دیا کہ وہ اسلام کو بتدریج نافذ کرے گا، جیسا کہ اس نے فلسطین کے دفاع کے موضوع پر بھی ان کو دھوکہ دیا۔ اب 21 ماہ سے غزہ قتل و غارت کا شکار ہے، لیکن اردوان نے وہاں کے لیے ایک گولی، ایک روٹی کا ٹکڑا یا ایک گھونٹ پانی بھی فراہم نہیں کیا، بلکہ یہودی وجود کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُس کے لیے اہم صرف ترکی کے محدود قومی مفادات اور اپنا ذاتی مفاد ہے کہ وہ امریکہ کی حمایت سے اقتدار میں رہے، کیونکہ امریکہ خطے میں اپنے بنیادی اڈے یعنی یہودی وجود کو کسی بھی قسم کی جارحیت سے بچانا چاہتا ہے۔

 

واضح ہے کہ اوجلان، جس نے اپنی پارٹی کے لیے نظریے کے طور پر سیکولرزم اور سوشلزم اپنایا ہے، قید سے جلد از جلد نکل کر سیاسی عمل میں شامل ہونے یا اپنے پیروکاروں کی رہنمائی کرنے کا مشتاق ہے، تاکہ اپنی قیادت اور ذاتی حاکمیت کی خواہش کو پورا کر سکے۔ وہ اور اس جیسے دیگر لوگ جن کے مقاصد قومی اور وطنی ہوتے ہیں، وہ اپنی تحریکات کا اختتام اکثر کسی منصب کی فراہمی پر کرتے ہیں، جیسا کہ ان انقلابی قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ ہوا جنہیں استعماری طاقتوں نے خلافت عثمانیہ کو توڑنے کے لیے ابھارا تھا، اور جنہوں نے اس ریاست کو کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر کے اپنے ایجنٹوں کو قوم پرستی اور وطن پرستی کے علمبردار بنا کر مسلط کیا، اور ان کے پیروکاروں نے ان کے نقش قدم پر چلنا جاری رکھا ہوا ہے۔

 

کتابِ "التكتل الحزبي" جو حزبِ التحریر کی ایک گہری اور روشن فکر کتاب ہے، میں ان لوگوں کے بارے میں ایک نہایت دقیق اور معنی خیز بات موجود ہے جو غیر ملکی نظریات جیسے سیکولرزم، جمہوریت، اور سوشلزم کے قائل ہیں: "۔۔۔ لہذا وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ امت کو کیا چیز بیدار کرتی ہے، اور وہ صرف اجنبیوں کی تقلید کرتے ہیں۔۔۔۔ وہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر حرکت میں نہیں آتے بلکہ صرف وطن یا عوام کے لیے حرکت میں آتے ہیں، جو کہ ایک غلط تحریک ہے۔۔۔۔ وہ اپنے ملک کے لیے کوئی حقیقی انقلاب برپا نہیں کرتے، اور نہ ہی عوام کے لیے مکمل قربانی دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ وہ واقعی کوئی انقلاب برپا کرتے ہیں اور بیداری کا مطالبہ کرتے ہیں، تو وہ کسی جھٹکے کے ردعمل میں پیدا ہونے والا انقلاب ہوتا ہے، جو ان کے ذاتی مفادات کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، یا پھر عوامی انقلاب کی تقلید میں ہوتا ہے، جو جھٹکے کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے چاہے وہ انقلاب انہیں کوئی عہدہ دے کر ختم ہو، یا ان کی خواہشات کو مطمئن کر کے، یا جب وہ انقلاب ان کی اپنی خود غرضی اور مفادات سے ٹکرا جائے یا جب انہیں نقصان اٹھانا پڑے۔"

 

پس، امت کی بیداری صرف اسلامی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر ہی ممکن ہے، اور اس کے لیے ایک ایسی ریاست کا وجود ضروری ہے جو اس آئیڈیالوجی کو نافذ کرے اور ایک مشن کے طور پر تمام انسانوں کو غلط نظریات، باطل عقائد، اور قومی و ملکی جذبات کی تنگ نظری سے آزاد کروانے کے لیے اس آئیڈیالوجی کے پیغام کی حامل بنے۔

 

Last modified onبدھ, 30 جولائی 2025 21:14

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک