الجمعة، 07 صَفر 1447| 2025/08/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

تجارتی محصولات بطورِ سٹریٹیجک دباؤ؛ امریکہ اور چین کے درمیان سرد محاذ؛ اور برکس کا چیلنج

 

(عربی سے ترجمہ)

 

تحریر: ڈاکٹر محمد جیلانی

 

گیارہ رکنی برکس تنظیم (برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ، مصر، ایتھوپیا، ایران، انڈونیشیا، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات) کے رکن ممالک نے ہفتے کے روز، 6 جولائی 2025 کو برازیل کے دارالحکومت ریو ڈی جنیرو میں اجلاس منعقد کیا، جہاں شریک ممالک نے ایک اہم دستاویز پر دستخط کیے، جس کا عنوان تھا: "جامع اور پائیدار حکمرانی کے لیے جنوبی ممالک کے مابین تعاون کا فروغ"۔ اس دستاویز میں برکس نے کثیرالجہتی نظام کے فروغ، بین الاقوامی قانون کے دفاع، اور زیادہ منصفانہ عالمی نظام کے قیام کے عزم کا اعادہ کیا۔

 

تاہم، اس اجلاس میں کسی نئے مالیاتی نظام کے اجراء، یا یوکرین کی جنگ اور مشرقِ وسطیٰ جیسے بین الاقوامی یا علاقائی بحرانوں پر کوئی حتمی فیصلہ یا منصوبہ پیش نہیں کیا گیا۔ برکس نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں امریکہ کی جانب سے مجوزہ تجارتی محصولات پر نکتہ چینی کی، جو امریکہ مسلط کرنے والا ہے۔

 

دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ امریکہ کسی بھی ایسے ملک پر 10 فیصد اضافی درآمدی محصولات عائد کرے گا جو برکس کی "امریکہ مخالف پالیسیوں" میں شمولیت اختیار کرے گا۔

 

ٹرمپ کی جانب سے اضافی تجارتی محصولات عائد کرنے کی دھمکی، اس وسیع تر امریکی حکمتِ عملی کی تصدیق کرتی ہے جس میں اقتصادی پالیسی کو بتدریج جغرافیائی سیاسی (جیوپولیٹیکل) اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ امریکی محصولات — بالخصوص وہ جو چین کو ہدف بناتی ہیں — ابتدا میں تجارتی عدم توازن کو درست کرنے کے لیے اصلاحی اقدامات کے طور پر متعارف کرائے گئے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ اقدامات ایک مرکزی حکمتِ عملی کا حصہ بن گئے ہیں، جو نہ صرف عالمی اتحادوں کی تشکیل میں استعمال ہو رہے ہیں بلکہ اقتصادی حدود کو ازسرِنو متعین کرنے کا ذریعہ بھی بن چکے ہیں۔

 

اپنی پہلی صدارت کے دوران، ٹرمپ نے چین کے خلاف ایک سخت گیر تجارتی جنگ کا آغاز کیا، جس کے تحت چین کی 360 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی اشیاء پر محصولات عائد کیے گئے۔ اگرچہ اس اقدام کا سرکاری جواز غیر منصفانہ تجارتی رویّوں اور دانشورانہ املاک کی چوری کے خلاف مزاحمت بتایا گیا، تاہم تزویراتی دستاویزات اور تحقیقی اداروں کی تجزیاتی رپورٹس کہیں زیادہ گہرے محرک کی جانب اشارہ کرتی ہیں: جو کہ چین کے بطور ایک ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی اور عسکری طاقت کے عروج کو روکنا ہے، جیسا کہ 2022 میں "ہیریٹیج فاؤنڈیشن" (Heritage Foundation) کی رپورٹ "نئی سرد جنگ میں فتح حاصل کرنے اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک منصوبہ" میں واضح طور پر بیان کیا گیا۔

 

یہ نقطۂ نظر، جسے "جیو-اکانومک پالیسی" (Geo-economic Policy) کا نام دیا گیا ہے، تجارتی محصولات، پابندیوں، اور برآمدات پر کنٹرول جیسے ذرائع استعمال کرتا ہے، تاکہ امریکہ کو عالمی معیشت اور سلامتی کے شعبوں میں اپنی برتری قائم رکھنے کا موقع ملے۔ یہ حکمتِ عملی بائیڈن انتظامیہ تک بھی منتقل ہو چکی تھی۔ جیسے کہ چینی سیمی کنڈکٹرز اور مصنوعی ذہانت کی صنعتوں کو نشانہ بنانے والی برآمدی پابندیاں عائد جرنا، اور کمپیوٹر چپس اور اسکی سائنس سے متعلق قانون وضع کرنا اور دونوں پارٹیوں میں یہ اتفاق رائے ہونا کہ بیجنگ کے ساتھ اقتصادی تعلقات امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ کارنیگی انڑرنیشنل پیس فاؤنڈیشن نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ تجارت اور سرمایہ کاری ہمیشہ مفادات اور تزویراتی مقابلے سے جُڑی ہوتی ہے۔ اب جنوبی چین کا سمندر اور ہند-پیسیفک خطہ اس حکمتِ عملی کے اطلاق کے دو مرکزی میدان بن چکے ہیں۔

 

تجارتی محصولات کا نفاذ اُسی وقت کیا جا رہا ہے جب فوجی موجودگی میں اضافے، جہاز رانی کی سرگرمیوں، اور ایسے اتحادوں کی تشکیل کی گئی، جن میں آکوس اتحاد (آسٹریلیا، امریکہ، اور برطانیہ) اور کواڈ اتحاد (آسٹریلیا، امریکہ، بھارت، اور جاپان) شامل ہیں۔ ان سب کا مقصد چینی بحری اثر و رسوخ اور علاقائی طاقت کو محدود کرنا ہے۔ پولیٹیکو 2024 کے مطابق، ٹرمپ کے دور میں اقتصادی دباؤ کی مہمات پینٹاگون کے مقاصد کے ساتھ مکمل ہم آہنگ تھیں، چاہے وہ بائیڈن کے دور حکومت میں ہوں یا ٹرمپ کے پہلے اور بعد کے دور میں۔

 

چین نے بارہا اور مسلسل ان پابندیوں کو رد کیا ہے، جنہیں  امریکہ سرد جنگ کی طرز پر نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ ماضی میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہوا تھا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے "یکطرفہ تجارتی محصولات اور تجارتی جنگوں" کو عالمی نظام کے استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا اور "حقیقی کثیرالجہتی نظام" اور "دونوں جانب فائدہ مند تعاون" کی بحالی کا مطالبہ کیا۔

 

چینی حکومت نے اپنی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے ایک دستاویز میں واضح طور پر "بلاک بندی کی پالیسی" کی مذمت کی ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے ٹرمپ کے 2025 کے اعلان کی شدید تنقید کرتے ہوئے اسے "معاشی دباؤ" قرار دیا اور کہا کہ اس کا مقصد دنیا کو متضاد محاذوں میں تقسیم کرنا ہے۔ چینی وزیرِ خارجہ نے ٹرمپ کی جانب سے تجارتی محصولات میں اضافے کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "تجارتی محصولات کو کسی بھی ملک پر دباؤ ڈالنے، دھمکانے، یا مداخلت کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔" (ٹائمز، 2025)

 

اب ٹرمپ کی حالیہ وارننگ اس تزویراتی مقابلے کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے۔ امریکہ درحقیقت اُن ممالک کو سزا دینے کی دھمکی دے رہا ہے جو معاشی طور پر برکس گروپ — جس میں برازیل، روس، بھارت، چین، اور جنوبی افریقہ شامل ہیں — کے قریب آتے ہیں، اور اس طرح امریکہ ایک ابھرتے ہوئے کثیرقطبی عالمی نظام میں وفاداری کی حد بندی کر رہا ہے۔ برکس کی انتظامیہ نے اسے ایک ایسے فورم کے طور پر پیش کیا ہے جو امریکہ مخالف پالیسیوں کو فروغ دیتا ہے، خاص طور پر ان کوششوں کے ذریعے جو "ڈالر کی عالمی حیثیت" کو کمزور کرنے، وسائل کی قومی ملکیت، اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے متبادل کے طور پر کثیرالطرفہ قرضہ جات کے قیام پر مرکوز ہیں۔ (فائننشل ٹائمز، 2025)

 

چنانچہ، اقتصادی انتقام اب محض دو طرفہ عدم توازن تک محدود نہیں ہے،  بلکہ ایک عالمی ہم آہنگی کا آلہ بن چکا ہے، جو آزاد اتحادوں کی تشکیل کو روکنے اور امریکہ کے گرد گھومنے والے تجارتی و حفاظتی ڈھانچوں کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹس کے مطابق، تجارتی محصولات کے ذریعے یہ دھمکیاں ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد عالمی نظام کو امریکی روایات، سپلائی چینز، اور سرمایے کی بالادستی کے اصول کے مطابق دوبارہ تشکیل دینا ہے۔

 

ان دھمکیوں کے گہرے اثرات ہیں۔ برازیل کے صدر لولا دا سلوا نے ٹرمپ کی وارننگ کو "غلط اور غیر ذمہ دارانہ" قرار دیتے ہوئے مسترد کیا، جبکہ برکس گروپ کے دیگر ارکان نے عالمی حکمرانی کی اصلاح کے عزم کا اعادہ کیا، جس سے عالمی معیشت کے ٹوٹنے کا خطرہ واضح تر ہو گیا ہے۔

 

یہ تقسیمیں متوازی مالی نظام، مسابقتی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، اور نظریاتی اختلافات پر مبنی تجارتی بلاکس کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہیں، جو کہ آج کل بہت سے ماہرین کی نظر میں "دوسری سرد جنگ" کا آغاز ہے۔ یہ جنگ مداخلتی جنگوں کے بجائے تجارتی محصولات، تکنیکی پابندیوں، اور سپلائی چینز کی تنظیم نو کے ذریعے لڑی جا رہی ہے۔

 

موجودہ بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ، سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں پر قائم ہے، اور اس سے بنیادی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ آج کا عالمی نظام طاقتور اقوام کے مفادات کے تحت تشکیل پا رہا ہے، جہاں انصاف، توازن، اور انسانی وقار جیسے اصول پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔

 

لہذا دنیا کو ایک نئی آئیڈیالوجی کی اشد ضرورت ہے، جو حکمرانی کے تصورات اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو نہ صرف اندرونِ ممالک بلکہ عالمی سطح پر بھی ازسرِنو مرتب کرے۔

 

اسلام، بطور ایک آئیڈیالوجی، اپنی تاریخی عدل و انصاف کی شہرت اور خالقِ حقیقی کی حکمرانی و شریعت کی بنیاد پر یہ کردار بخوبی ادا کر سکتا ہے۔ اسلام ایک ایسا آئیڈیالوجیکل ماڈل پیش کرتا ہے جو حقوق اور فرائض میں توازن قائم کرتا ہے، اور انسان کی بھلائی اور عدل کو سیاسی و اقتصادی نظام کے مرکز میں رکھتا ہے۔

 

﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾

"ے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں، اور ہم نے لوہا اتارا جس میں سخت لڑائی (کا سامان) ہے اور لوگوں کے لیے بہت سے فائدے ہیں، تاکہ اللہ جان لے کہ کون دیکھے بغیر اللہ کی اور اللہ کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ سب سے زیادہ قوت والا، سب پر غالب ہے۔"(سورۃ الحديد: آیت 25)

 

Last modified onبدھ, 30 جولائی 2025 21:06

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک