السبت، 19 جمادى الثانية 1446| 2024/12/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

غزہ: اکیسویں صدی کا شعبِ أبی طالب

 

سات اکتوبر کے واقعات اور اس کے بعد کے دنوں میں شروع ہونے والی ہولناکیوں کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں نے  اس ظلم و ستم اور موت کا سامنا ایسے کیا کہ پوری دنیا حیرت زدہ رہ گئی ۔ اور ان کی اس طاقت کا راز اللہ سے ان کی محبت اور ان کے یہ ادراک ہے کہ قیامت کے دن انہیں ان کا اجر اور انصاف ملے گا۔ 7 اکتوبر کے واقعات کے بعد سے وادی شعب ابی طالب اور بنو ہاشم کے بائیکاٹ کی کہانی بار بار ذہن میں آتی ہے۔ اس وقت کے مسلمانوں کو پیغمبر اکرم (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت اور اسلام کی دعوت دینے پر بے رحمی سے ستایا گیا۔ انہیں اس وادی میں 3 سال کے لیے معاشرتی اور اقتصادی بائیکاٹ کے تحت جلا وطن کردیا گیا۔ جہاں سے باہر نکلنے کی انہیں ہرگز اجازت نہ تھی۔  نیز جن لوگوں نے ان کی مدد کرنے کی کوشش کی تو انہیں بھی قریش کی جانب سے صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بنو ہاشم پر جو شرائط عائد کی گئی تھیں، جیسا کہ ابن اسحاق نے روایت کیا ہے، وہ یہ تھیں کہ "کوئی بھی ان کی عورتوں سے شادی نہ کرے اور نہ ہی ان کو شادی کے لیے عورتیں دے؛ اور یہ کہ کوئی ان کے ساتھ تجارت نہیں کرے گا۔" یہ بائیکاٹ تین سال تک جاری رہا لیکن آخرکار ایک دن  وہ ختم ہو گیا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر پایا. طلباء کو آج یہ واقعات پڑھائے جاتے ہیں، اور اساتذہ انہیں یہ کہتے ہیں کہ وہ سوچیں کہ آج کے مسلمانوں کے لیے اس کا کیا مطلب ہے۔  بحیثیت نوجوان طلباء، ہم ان واقعات اور اسباق کو پڑھتے تو ضرور ہیں لیکن ان کے معنی بہت مبہم اور  تجریدی سے لگتے ہیں۔ نتیجتاً ، ہم مسلمانوں کی طاقت و قوت کے بارے میں مبہم حوالے دیتے ہیں اور یہ نہیں سمجھ پاتے کہ آج جب ہمیں اللہ کی طرف سے مشکلات اور امتحانات کا سامنا ہے تو اس کا  ہماری زندگی سے اصل تعلق کیا ہے۔

 

اگر ہم اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جہدوجہد کے تناظر میں سوچیں تو یقیناً ہم آج ہم اپنے لیے اس میں مطابقت دیکھ سکتے ہیں- لیکن ظاہر ہے ہمیں اس پہلو پرتوجہ مرکوز کرنے کی تعلیم ہی نہیں دی جاتی ۔ ہمیں ایسے سوچنا سکھایا ہی نہیں جاتا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہم موجودہ نظام اور دنیا کے معاملات  پر سوال اٹھاتے۔ اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے قوانین پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ۔  جبکہ آج اگر ہم غزہ کے واقعات کو دیکھیں اور ان تمام  آزمائشوں پر غور کریں جن کا مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تو ان کو دیکھنے کے بعد ہم سمجھ پائیں گے کہ یہ صورت حال محض تاریخی حقائق و واقعات نہیں ، بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے ۔ غزہ کے واقعات نے ان لوگوں کے درمیان ریت میں ایک لکیر کھینچ دی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی ہولناکیوں کو دیکھتے ہیں اور جو نہیں دیکھتے ہیں۔ مسلم اُمہ نے نسل کشی پر اپنے ردعمل میں فوری طور پر ان ہولناکیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ اور ان کی حمایت میں دنیا بھر کے غیر مسلم فلسطینی حامی بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سب کو ہی نہ صرف مسلم بلکہ مغربی دنیا کے 'رہنماؤں' کے ذریعہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنے کو غیر قانونی بنانے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی گئی ہے۔ 'آزادیوں' اور انسانی حقوق کے قوانین کو صریحاً نظر انداز کیا گیا ہے کیونکہ مظاہرین کو ہراساں اور گرفتار کیا گیا ہے۔ 'اسرائیل' کو ہر ایک بین الاقوامی قانون کو توڑنے کا ایک مفت اجازت نامہ دے دیا گیا ہے ،حالانکہ وہ سرمایہ داراس نام نہاد بین الاقوامی قانون کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔  حال ہی میں ان ممالک نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ آئی سی سی کو نیتن یاہو کو ان جرائم کے لیے گرفتار کرنے کا کوئی حق حاصل ہے جو اس نے کیے ہیں اور کروائے ہیں۔

 

آنے والی نسلیں جب اس موڑ پر پلٹ کر دیکھیں گی تو وہ اس کی اہمیت کو سمجھیں گی۔ جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کی اہمیت کو دیکھتے ہیں۔  آج جو کچھ ہو رہا ہے، اور جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا، اس کے درمیان  کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں، اور ان شاء اللہ، وہ اللہ کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچتے ہوئے دیکھیں گے۔  کیونکہ اس وقت دنیا ایک اہم موڑ پر ہے، لوگوں کو انتخاب کرنا ہے کہ وہ کس طرف کھڑے ہیں - کیا وہ جھوٹ اور ناانصافی کی حمایت کریں گے یا اس کے خلاف لڑیں گے؟ یہ وہ انتخاب تھا جس کا سامنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگوں کو کرنا پڑا۔ جب  قریش اسلام کو دبانے اور اسلامی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے بھرپور طریقے سے کام کر رہے تھے۔ وہ  بھی سمجھتے تھے، جیسا کہ آج کے حکمران سمجھتے ہیں، کہ اسلام کا عروج واحد چیز ہے جس سے ان کی بقا اور اقتدار کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگوں کو ؛ یعنی مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو ؛ اس استحصالی نظام کا متبادل دے گا جس پر ان  حکمرانوں کی طاقت کا دارومدار ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو مغرب اور اس کے حامیوں کو خوفزدہ کرتی ہے - کیونکہ اگر دنیا یہ سمجھتی ہے کہ صرف اسلام ہی غزہ کے لوگوں کو بچا سکتا ہے، تو وہ اس کا ساتھ دیں گے۔ اور پھر وہ اس کی حمایت جاری رکھیں گے کیونکہ اس سے ان کی زندگی کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ وہ چیز ہے جسے مدینہ (اس وقت یثرب) کے قبائل نے اس وقت سمجھا جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کا انتخاب کیا اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مدینہ آنے کی دعوت دی۔ قریش نے اسلام کے عروج کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ اور اللہ کی حکمت اور منصوبہ بندی کی واضح  صورت ہمیں آج دکھائی دے رہی ہے کہ دنیا کس طرح موجودہ طرز زندگی سے دور ہوتی  چلی جارہی ہے۔ لوگ سرمایہ دارانہ نظام کا اصل چہرہ دیکھ رہے ہیں اور وہ اس سے بھاگنے لگے ہیں۔ اور یہ، ان شاء اللہ، اسلامی ریاست کے دوبارہ قیام کا باعث بنے گا، قطع نظر اس کے کہ مغربی ریاستیں اور ان کے حامی اس کو روکنے کے لیے کچھ بھی کریں۔

 

مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کے لیے تحریر کردہ

رکن مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر  فاطمہ مصعب

Last modified onمنگل, 10 دسمبر 2024 20:53

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک