السبت، 19 جمادى الثانية 1446| 2024/12/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

فضائی آلودگی کا علاج اسلام میں ہے

 

خبر: 

 

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی بگڑتی ہوئی فضائی آلودگی اس کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے - ایک مطالعہ کے مطابق سالانہ 95 بلین امریکی ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو کہ ملک کے جی ڈی پی کا تقریباً 3 فیصد ہے۔ ایک عالمی کنسلٹنسی فرم ڈلبرگ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 2019 میں فضائی آلودگی نے "پیداواری صلاحیت میں کمی، کام پر غیر حاضری، اور قبل از وقت موت" کی وجہ سے ہندوستانی کاروبار کو 95 بلین امریکی ڈالر کا نقصان پہنچایا۔

 

 

تبصرہ:

 

جب دنیا سائنس کے سامنے سر نگوں ہو گئی تو وہ بھول گئی کہ تجربات کے کوئی اصول اور اخلاقیات نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی ترقی میں نئی پیش رفت کی تفصیلات کو خفیہ رکھا جاتا ہے جب تک کہ دنیا ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے ایٹمی تجربات کا نتیجہ بھگت نہیں لیتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قوم نے طاقت کے نشے میں دھت ہو کر ایک دوسری قوم کے بہت بڑے حصے کو تباہ و برباد کر دیا اور باقی دنیا کو ہمیشہ کے لیے جذباتی اور نفسیاتی غلام بنا لیا۔ اس  تجربہ نے دنیا کو ترقی کے خوفناک اثرات کی جھلک دکھا دی، لیکن اسے بس ایک بار ہو جانے والے ہولناک واقعہ گردانا گیا، کیونکہ دنیا اپنا رخ سامراجی نظام سے سرمایہ داری کی طرف موڑ چکی تھی اور سرمایہ داریت نے اسے ترقی اور کامیابی کے خواب دکھائے تھے۔

 

جب ہم نے مالی نقصانات کے اعداد و شمار اور حساب کا مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ ہندوستانی معیشت پر فضائی آلودگی کے تقریباً اقتصادی اخراجات $150 بلین سے زیادہ سالانہ ہیں۔ فضائی آلودگی کے اثرات سے نقصان کا تخمینہ تقریباً 47.8 بلین ڈالر سالانہ ہے۔ جو کہ پاکستان کی کل جی ڈی پی کے تقریباً 6 فیصد کے برابر ہے۔

 

اسلام میں، معاشی استحکام کا مطلب یہ ںہیں ہے کہ افراد مشین بن جائیں اور بہترین جی ڈی پی اور بہترین پیداوار کے لیے سب کچھ داوٴ پر لگا دیں۔  بلکہ اسلام میں مال اور دولت کا مقصد لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے تاکہ دنیا ایک بہتر جگہ بن جائے، جہاں لوگ عزت کے ساتھ زندگی گزاریں اور زندگی کا یہ نمونہ خلق خدا کو پیش کر سکیں۔

 

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ   نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

عُرِضَتْ عَلَىَّ أُمَّتِي بِأَعْمَالِهَا حَسَنِهَا وَسَيِّئِهَا فَرَأَيْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الأَذَى يُنَحَّى عَنِ الطَّرِيقِ وَرَأَيْتُ فِي سَيِّئِ أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ فِي الْمَسْجِدِ لاَ تُدْفَنُ

"میری امت کے اچھے اور برے اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے، تو میں نے ان میں سب سے بہتر عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے، اور سب سے برا عمل مسجد میں تھوکنے، اور اس پر مٹی نہ ڈالنے کو پایا ۔"

 

فطرت کی روش قوم پرستانہ نہیں ہے اور اس کی تباہی بھی اپنے جذباتی یا سیاسی وابستگی کے مطابق علاقوں کا انتخاب نہیں کرتی ہے۔ دہلی اور لاہور پر جو سموگ چھائی ہوئی ہے وہ فطرت کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا شاخسانہ ہے۔ فضائی آلودگی میں فصلوں کا بھوسہ جلائے جانے کو  سب سے زیادہ  مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ زرعی عمل صدیوں پرانا ہے، اگرچہ سموگ خود ابھی ایک ماضی قریب میں شروع ہونے والا مسئلہ ہے۔۔ 2019 میں پھیلنے والے وبائی مرض کرونا کے دورانیہ میں فصلوں کو جلانے کے عمل کے باوجود ماحولیاتی حالات سازگار ہو گئے، اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فصلوں کو جلانا ہی بھاری سموگ میں اضافہ کرنے والا واحد عنصر نہیں ہے۔ وبائی مرض کے دور میں اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، AQI ریڈنگز 18-65 کے درمیان مختلف ہیں جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں لاہور نے کئی بار اس خطرناک حد کو عبور کیا ہے۔ اس وقت لاہور میں، 2 نومبر کو ایئر کوالٹی انڈیکس بڑھ کر 1900 تک پہنچ گیا، دنیا بھر میں ہوا کے معیار پر نظر رکھنے والی سوئس کمپنی IQAir کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ دہلی کے ایئر کوالٹی انڈیکس سے بھی بدتر تھا۔ 2015 میں جب پاکستان میں سموگ دیکھی گئی تو ڈبلیو ایچ او نے ایک خوفناک رپورٹ پیش کی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2015 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 60,000 اموات ہوا میں مخصوص ذرات کی زیادہ مقدار کی وجہ سے ہوئیں، یہ دنیا میں فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات میں سب سے اونچی سطح ہے۔

 

تیسری دنیا کے ممالک پر آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی حریفوں کے طے کردہ معاشی معیارات پر پورا اترنے کے لیے دباؤ، انہیں عارضی ریلیف کے لیے ناقص طویل مدتی اثرات والے فیصلے کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPA) کے مطابق 2017 میں جاپان اور جنوبی کوریا سے 70,000 سے زائد استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان میں درآمد کی گئیں۔ یہ گاڑیاں اکثر پاکستانی حکومت کے طے کردہ کیمیائی اخراج کے معیار پر پورا نہیں اترتی ہیں، جس کی وجہ سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور آبادی کے لیے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ای پی اے کی رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر گاڑیوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے اور مزید ماحولیاتی انحطاط ہوتا ہے۔ اسی طرح پورے دہلی میں سیکڑوں غیر قانونی کارخانے الیکٹرانک کچرے اور دھات کے اسکریپ کو اکٹھا کرنے اور ذخیرہ کرنے والے، لونی میں ای-کچرے کو جلا رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 100,000 ٹن سے زیادہ ای ویسٹ ملک میں درآمد کیا جاتا ہے۔ اس ای ویسٹ میں اکثر خطرناک مواد جیسے سیسہ، مرکری اور کیڈمیم ہوتا ہے، جو مٹی، پانی اور ہوا کو آلودہ کر سکتا ہے۔

 

ماحول کی غلاظت سرمایہ دارانہ حرص کا نتیجہ ہے اور اس سے نجات کا واحد حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ ہمارے پاس حضرت عثمانؓ رضی اللہ عنہ کی مثال موجود ہے، جنہوں نے ایک کنواں خریدا، جسے بیر رومہ کہا جاتا ہے، جس کا مالک مقامی پانی کی فراہمی پر اپنی مجازی اجارہ داری کو استعمال کرتے ہوئے فی بالٹی بہت زیادہ قیمت وصول کر رہا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے نہایت شاندار طریقے سے اس کا آدھا حصہ خریدنے کا معاہدہ کیا، یعنی متبادل دنوں میں کنواں عثمانؓ کی ملکیت ہوتا۔ آپ نے اپنے حصے کے دنوں میں پانی مفت دینا شروع کر دیا، اور سب لوگوں  نے کنواں صرف ان دنوں میں استعمال کرنا شروع کیا جن دنوں وہ عثمانؓ کی ملکیت ہوتا، اس طرح وہ دوسرے مالک کو پیسے دے کر پانی لینے سے محفوظ ہو گئے۔ مایوسی کے عالم میں دوسرے مالک نے عثمانؓ سے کہا کہ وہ کنواں کی مکمل ملکیت خرید لیں۔

 

یہ ان بے شمار مثالوں میں سے ایک ہے جن سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے اور جس نے اسلام کو صحرائے عرب سے پوری دنیا میں پھیلانے میں مدد کی۔

 

خلافت بنی نوع انسان کے لیے یہ راحت واپس لائے گی اور اسلام کہ پاکیزہ ماحول میں لالچ بڑھنے اور پھیلنے میں ناکام رہے گا اور جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے علاج کا وعدہ کیا ہے، اس زمین پر لوگ خوشحالی اور سکون کا سانس لیں گے۔

 

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ فَإِذَا أُصِيبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

”ہر بیماری کے لیے دوا ہے، اور جب وہ دوا استعمال کی جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے شفاء ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم)

 

اخلاق جہاں کی طرف سے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھی گئی تحریر

Last modified onمنگل, 10 دسمبر 2024 20:38

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک