الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

صدقہ الفطر اور کفارہ کا مالیاتی قیمت میں تعین

 

بکر سعید کے لیے

سوال:

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ خیر و عافیت سے رہیں۔

قسم اور ظہار کے کفارہ کی طرح صدقہ فطر اور کفارہ کا مالیاتی قیمت میں دینے کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ رقم اسی طرح سے دی جاسکتی ہے جیسے اللہ نے قسم کے کفارہ کے طور پر  10 مسکینوں کو اور ظہار کے کفارہ کے طور پر 60 مسکینوں کو رقم دینے کا کہا ہے؟

 

اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے

 

جواب:

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ دو چیزوں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں:

اول: کیا فطرانہ اور کفارہ کی قیمت ادا کرنا کافی ہے اس کے بجائے جو شرعی نصوص میں مذکور ہے مثلاً کھانا کھلانا اور لباس وغیرہ ؟

 

دوم: اگر نصوص میں ضرورت مندوں کی ایک مخصوص تعداد کا ذکر ہے تو کیا ایک مسکین کو پوری قیمت دی جائے گی، یا نصوص میں مذکور فقراء کی تعداد پر عمل کرنا ضروری ہے، اس لیے ایک مسکین کو پوری قیمت نہیں دی گئی بلکہ غریب افراد کی مقررہ تعداد کو دی گئی؟

 

1. جیسا کہ پہلے سوال کا تعلق ہے، علماء نے دی گئی قدر کو تقسیم کرنے میں اختلاف کیا، یعنی،

جیسا کہ احادیث مبارکہ میں ہے: بخاری نے نافع سے اور انہوں نےابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ آپؓ نے فرمایا:

»فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَدَقَةَ الْفِطْرِ صَاعاً مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعاً مِنْ تَمْرٍ عَلَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ«

"رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا ، ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور (اور اس کی ادائیگی واجب تھی) جوانوں اور بوڑھوں اور آزاد مردوں کے ساتھ ساتھ غلاموں پر بھی۔"

 

اسے ترمذی نے اخذ کیا، جس میں مزید کہا:»عَلَى الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى... قَالَ فَعَدَلَ النَّاسُ إِلَى نِصْفِ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ«"۔۔۔آدمی اور عورت پر۔۔۔آپ نے فرمایا: لوگ اسے آدھے صاع گندم کے برابر سمجھتے تھے۔ تو وہ اسے مذکور اشیاء کی شکل میں دیتا ہے۔"

 

یا مالیاتی قیمت کے لحاظ سے، یعنی صدقۃ الفطر کے سامان کی جو شکلیں احادیث میں مذکور ہیں ان کے مساوی مالیاتی قیمت کا تخمینہ لگا کر۔

 

ہمارے پاس سب سے زیادہ صحیح رائے وہی ہے جو کہ کتاب "ریاست خلافت میں فنڈز " میں قیمت دینے کے جائز ہونے کے بارے میں درج ہے اور یہ زکوٰۃ کے لئے درج ذیل دلائل کی وجہ سے کافی ہے:

 

ا۔ کتاب ، ریاست خلافت میں فنڈز ، صفحہ 150-151 (عربی) صفحہ 140 (انگریزی) :

 

[فصلوں اور پھلوں کی زکوٰۃ میں فصل یا پھل کی صحیح مقدار لینے کے بجائے ان کے مساوی کرنسی لینا جائز ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ امرو بن دینار نے طاؤس سے روایت کی ہے:

 

»أَنَّ النَّبِيَّ ﷺبَعَثَ مُعَاذاً إِلَى الْيَمَنِ فَكَانَ يَأْخُذُ الثِّيَابَ بِصَدَقَةِ الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ«

"نبیﷺ نے معاذ کو یمن بھیجا اور وہ گندم اور جَو کے صدقہ کے بدلے میں کپڑے لےلیتے تھے۔"ابو عبید ؓ نے روایت کی۔۔۔

 

صدقہ کے مضمون میں معاذ ؓسے مروی ہے کہ وہ اس کے بدلے سامان لیتے تھے۔ یہ ان کے بیان میں ہے:"مجھے پانچواں حصہ یا لباس دے دو جو میں تم سے صدقہ کے بدلے لے لوں ۔ یہ تمہارے لیے آسان ہے اور مدینہ کے مہاجرین کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے"۔سُنت میں یہ بھی ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺاور آپؐ کے صحابہؓ رقم میں حق ادا کرتے تھے پھر اسے کسی اور چیز میں بدل دیتے تھے جو دینے والے کے لیے اصل رقم سے زیادہ آسان ہوتا تھا۔ اسی طرح کا معاملہ سنت میں ہے جب یمن میں معاذؓ جزیہ لینے کے لیے گئے:»أَنَّ عَلَى كُلِّ حَالِمٍ دِينَاراً أَوْ عِدْلَهُ مِنَ الْمَعَافِرِ«"ہر بالغ شخص پر ایک دینار یا اس کے برابر کپڑوں کا حصہ ہے"۔(ابوداود نے روایت کی)۔تو نبیﷺ نے مخصوص چیز لینے کے بجائے سامان لیایعنی سونے کی بجائے کپڑے قبول کرلئے۔ اس میں سے یہ بھی ہے جو انہوں نے اہلِ نجران کو لکھا:

 

»أَنَّ عَلَيْهِمْ أَلْفَيْ حُلَّةٍ فِي كُلِّ عَامٍ، أَوْ عِدْلَهَا مِنَ الأَوَاقِيِّ «

"ان پر ہر سال دو ہزار کپڑے یا اس کے برابر سونے اور چاندی کے اونس۔"(ابوعبیدہؓ نے روایت کی)۔

 

ابنِ قدامہ نے ’’المغنی‘‘ میں ذکر کیا ہے: عمرؓ جزیہ میں سونے اور چاندی کی بجائے اونٹ لیتے تھے،جیساکہ علیؓ جزیہ میں سونے اور چاندی کی بجائے سویاں، رسیاں اور بڑی سوئیاں قبول کرلیتے تھے۔] اختتام۔

 

ب۔کتاب، ریاست خلافت میں فنڈز ، صفحہ 150-151 (عربی) صفحہ 140 (انگریزی):

 

سونے پر زکوٰۃ سونے، نمائندہ کرنسی اور قابل اعتماد کرنسی میں ادا کی جاتی ہے۔ چاندی کی زکوٰۃ چاندی، نمائندہ کرنسی اور قابل اعتمادکرنسی میں ادا کی جاتی ہے۔ اسی طرح سونے پر زکوٰۃ چاندی اور لازمی کرنسی میں ادا کی جا سکتی ہے جبکہ چاندی کی زکوٰۃ سونے اور لازمی کرنسی میں ادا کی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ سب کرنسی اور قیمتیں ہیں۔تو ان میں سے بعض دوسروں کی جگہ لے سکتے ہیں اور بعض کو دوسروں کی جگہ ادا کیا جا سکتا ہے اس مقصد کی تصدیق اس میں کی گئی ہے۔ فصلوں اور پھلوں کی زکوٰۃ کے باب میں اس مال کے بدلے قیمت لینے کے شواہد بیان کیے گئے ہیں جن پر زکوٰۃ واجب ہے۔]

 

اس بنا پر میں زکوٰۃ الفطر کو مالی قیمت میں ادا کرنے یا اس کے بدل سامان کی صورت کے ساتھ ادا کرنے کی اجازت دیکھتا ہوں جیسا کہ احادیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے۔

 

ت۔ معلومات کے لیے اس معاملے میں فقہاء کے اقوال ہیں، جن میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:

احناف کا خیال ہے کہ صدقہ فطر میں نصف صاع گندم، اس کا آٹا، اناج، کشمش یا ایک صاع کھجور یا جَو ہے۔ جہاں تک اس کی تفصیل کا تعلق ہے: رقم پر جو چیز مقرر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ رقم کی قدر عمومی طور پر ہو، نہ کہ کسی خاص چیز کے، اس لیے اس کی قیمت درہم، دینار، رقم، یا کسی بھی شکل میں دی جاسکتی ہے جس میں بھی وہ چاہے۔امام السرخسی نے المبسوط (3/107-108) میں کہا ہے: [اگر وہ گیہوں کی قیمت دے تو ہمارے لیے جائز ہے۔ کیونکہ یہ دیکھا جائے گا کہ دولت حاصل ہوئی، اور یہ فائدہ اس قیمت کی صورت میں بھی حاصل ہوا جیسے کہ گیہوں سے۔۔۔]یہ حنفی مکتبہ فکر ہے، وہ اس پر عمل کرتے ہیں اور ان کے فتاویٰ تمام زکوٰۃ، کفارہ، نذر، ٹیکس وغیرہ پر مبنی ہیں۔

 

عمر بن عبدالعزیز کا قول تھا کہ قیمت نکالنا جائز ہے۔ وکیع کی سند سے قُرۃ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: ہمارے پاس صدقہ فطر پر عمر بن عبدالعزیز کا خط آیا: ہر شخص کے لیے نصف صاع یا اس کی قیمت جو آدھا درہم ہے۔ " یہ اطہر روایات امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے "المُصَنِّف" (398/2) میں نقل کی ہیں۔

چنانچہ نصوص میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کی تصریحات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ مذکورہ شرعی شواہد کی بنا پر قیمت نکالنا جائز ہے۔

 

2۔جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو اس مسئلہ میں بھی علمائے کرام کا اختلاف ہے اور جو رائے مجھے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر متن میں فقراء کی ایک خاص تعداد کا ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ،

 

﴿فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ﴾

"تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا"(المائدہ:89)

 

﴿فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِيناً﴾

"پھر جس سے روزے بھی نہ ہوسکیں تو ساٹھ مسکینوں کا پیٹ بھرنا "(المجادلہ:4)

 

اس صورت میں مذکورہ نمبر (دس، ساٹھ) پر عمل کرنا ضروری ہے، خواہ عطیہ چیز کی صورت میں ہو یا قیمت کے، کیونکہ تعداد مقصود ہے، یہ ایک ضروری پابندی ہے، لیکن اگر متن میں بغیر کسی تعداد کا ذکر کیے غریبوں کو دینا ضروری ہو تو ایک مسکین کو دینا جائز ہے کیونکہ تعداد کی کوئی ممانعت نہیں ہے، اور یہ ایک سے زیادہ مسکینوں کو بھی دی جاسکتی ہے، جیسا کہ زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾

"صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور زکوٰۃ اکٹھا کرنے والوں ، جن کی دلجوئی مطلوب ہو، اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) کے لئے ہے، یہ حقوق اللہ کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا (اور)حکمت والاہے"۔ (التوبۃ:60)

 

لہٰذا زکوٰۃ ادا کرنے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ ایک مسکین کو دے، اور اسے بہت سے مسکینوں میں تقسیم کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ آیت میں کوئی خاص تعداد نہیں ہے، بلکہ "فقیر" کی اصطلاح بغیر کسی تعداد کےبیان ہوئی ہے۔ ۔۔۔لیکن وہ اس بات کو مدنظر رکھتا ہے کہ وہ زکوٰۃ کے اہل ہیں کیونکہ انہیں غریب بتایا گیا ہے۔

لہٰذا زکوٰۃ کی زیادہ سے زیادہ رقم وہ دے سکتے ہیں، خواہ وہ ایک کو دیں یا ایک سے زیادہ کو دیں ، وہی امر(فَقر)ہے جو انہیں زکوٰۃ کا محتاج بناتا ہے، یعنی وہ چیز جو انہیں اتنا مالدار بنادے کہ وہ زکوٰۃ کے مستحق نہ رہیں ، یعنی وہ زکوٰۃ جو انہیں دی گئی اس نے ان کی غریب ہونے کی صفت کو ختم کر دیا۔۔۔ اور ان کو اس سے زیادہ دینا جائز نہیں ہے۔۔۔ بلاشبہ رقم ہر شخص کے لیے اوراس کی صورتحال کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔

یہی ہے جو میں زیادہ صحیح دیکھ رہا ہوں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے، وہ بڑا حکمت والا ہے۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

28 رمضان 1443ھ

29/4/2022 عیسوی

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک