بسم الله الرحمن الرحيم
سوال وجواب:وہ شرعی لباس جس کو اسلام نے عام زندگی میں عورت پر فرض کیا ہے
سوال:
میں حزب التحریر کا اورخاص طور پر اس کے شباب کی جانب سے اس کی کتابوں اور لیفلٹ میں ایک رائے کی سختی سے پابندی کرنے کا احترام کرتا ہوں ۔۔۔اس قسم کی پابندی دوسری اسلامی تحریکوں میں ناپید ہے۔۔۔مگرجب میں انٹرنیٹ کے صفحات پڑھتے ہوئے جلباب کے حوالے سے حزب کے شباب کے درمیان بحث کو دیکھتاہوں تو نظر آتا ہے کہ کچھ کہتے ہیں کہ جلباب ایک کپڑے کا لباس ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ جلباب دو کپڑوں کا لباس ہے۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ اس حوالے سے حزب کی کوئی ایک مخصوص رائے ہے اور حزب کے شباب اسی رائے کے پابند ہیں، خاص کر جب مسلم خواتین میں جلباب کے پھیلنے میں اسلامی تحریکوں میں سے سب سے زیادہ اثر حزب التحریر کا ہے۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا حزب نے اپنے شباب کی جانب سے حزب کی رائے کی پابندی کی پالیسی کو تبدیل کر لیا ہے؟ شکریہ۔
جواب:
سب سے پہلے میں سوال میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے بارے میں بات کروں گا۔ یقیناً حزب التحریر کے شباب اپنی صفوں میں منظم ہیں اور حزب کی رائے کے مکمل پابند ہیں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔۔۔جلباب کےایک ہی کپڑا ہونے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں: یہ ایک کھلا لباس ہے جس کو عام پہنے جانے والے لباس کے اوپر پہناجاتا ہے،یہ قدموں تک لٹکا ہوا ہوتا ہے جس سے پاؤں چھپ جاتے ہیں۔۔۔اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ جی ہاں ،مسلمان خواتین کے درمیان جلباب کے عام ہونے میں حزب التحریر کا بڑا اثر ہے، یہ اللہ کا فضل ہے، حزب نے عورت کے شرعی لباس کے موضوع کو مکمل واضح کیا ہے اور اسے حق کے ساتھ بیان کیاہے۔حزب التحریر نے اپنی کتاب" اسلام کا معاشرتی نظام" کے باب "عورت کی طرف دیکھنا" میں اس کو مکمل تفصیل سے بیان کیا ہے۔ شرعی لباس میں یہ شرط ہے کہ وہ جلباب اور خمار پر مشتمل ہو جو زیب وزینت کو ظاہر کیے بغیر عورت کے پردے کو مکمل کرے، یعنی ستر کو چھپا لینے والے ہر لباس میں عورت کا باہر نکلنا جائز نہیں بلکہ یہ ایک مخصوص لباس ہے جس کو شریعت نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔۔۔مندرجہ بالا نکات کی تفصیل پیش خدمت ہے:
1۔ کتاب "اسلام کا معاشرتی نظام "میں آیا ہے کہ عام زندگی میں عورت کا شرعی لباس وہ جلباب اور خمار ہے جو زینت کو ظاہر کیے بغیر ستر کو چھپا لے۔۔۔ اس موضوع کے حوالے سے "اسلام کا معاشرتی نظام" میں جو کچھ ہے،میں اس میں سے کچھ نقل کرتا ہوں:
[۔۔۔اس بات کی دلیل کہ شارع نے جِلد کو اس طرح چھپانے کا حکم دیا ہے کہ اس کا رنگ معلوم نہ ہو، آپ ﷺ کی یہ حدیث ہے ( لم يَصْلُحْ أن يُرى منها) "یہ درست نہیں کہ اس سے کچھ بھی دکھائی دے" ۔یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شارع نے ستر کو چھپانے کے حوالے سے یہ شرط لگائی ہے کہ پردہ اس طرح ہو کہ اس کے اندر سے جلد اور رنگ نظر نہیں آنا چاہیے، اس لیے عورت کو چاہیے کہ وہ ایسے کپڑے سے پردہ کرے جو باریک نہ ہو اور اس کے پیچھے کچھ نظر نہ آئے، نہ اس کے نیچے سے کچھ نظر آئے۔
یہ ستر کو ڈھانپنے کا موضوع ہے اور اس کو عام زندگی میں عورت کے پہنے جانے والے لباس کے موضوع سے نہیں جوڑنا چاہیے، نہ ہی کسی لباس میں اظہارِ زینت کے موضوع کے ساتھ جوڑنا چاہیے۔ اگر لباس عورت کو ڈھانپنے والا ہو تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت وہی لباس پہن کر عوامی زندگی میں بھی آسکتی ہے کیونکہ گھر سے باہر نکلنے کےلیے شارع نے مخصوص لباس مقرر کیا ہے، جس میں صرف ستر کو چھپانا کافی نہیں۔ چنانچہ پتلون اگر چہ ستر کو چھپاتی ہے مگر یہ عورت کی عام زندگی کا لباس نہیں یعنی عورت اس کو پہن کر گھر سے باہر نہیں آسکتی۔۔۔
جہاں تک عام زندگی میں عورت کے لباس کا تعلق ہے یعنی گھر سے باہر سڑکوں یا بازاروں میں جانے کےلیے تو شارع نے اس پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ بازاروں اور عام سڑکوں پر چلنے کےلیے گھر سے نکلتے وقت اس لباس کو اپنے عام پہنے جانے والے کپڑوں کے اوپر پہنے۔ اس پر فرض ہے کہ وہ چادر یا برقعہ پہنے اور اس کو نیچے تک اس طرح لٹکائے کہ اس کے پاؤں چھپ جائیں، اگر اس کے پاس ایسا کپڑا نہ ہو تو اپنی پڑوسن یا سہیلی یا رشتہ دار سے لے، اگر عاریتاً بھی کسی سے نہ لے سکی یا کسی نے اس کو نہیں دیا تو بھی اس کے بغیر اس کا گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں۔ اگر وہ اپنے کپڑوں کے اوپر یہ کپڑا (جلباب)پہنے بغیر نکلی پڑی تو گنہگار ہو جائے گی کیونکہ اس نے اللہ کے فرض کیے ہوئے کو ترک کر دیا۔ یہ تو عورت کے نچلے لباس کے حوالے سے ہے جہاں تک بالائی لباس کی بات ہے تو اس کےلیے خمار(دوپٹہ یا اسکارف) لازمی ہے، یا اس جیسا کوئی لباس جو اس کی جگہ سر اور گردن کو ڈھانپ لے اور اور سینے پر گریبان کو چھپالے۔ یہ بازاروں میں جانے یا عام سڑک پر چلنے کا لباس ہے یعنی عام زندگی(گھر کے باہر) میں پہنے جانے والا اوپر کا لباس ہے۔اگر اس کے پاس یہ دو لباس ہوں تو اس کےلیے اپنے گھر سے نکلنا، بازار جانا اور عام سڑکوں پر چلنا جائز ہے، یعنی عام زندگی میں نکلنا، لیکن اگر اس کے پاس یہ دو لباس نہ ہوں تو اس کےلیے کسی بھی حال میں نکلنا جائز نہیں، کیونکہ ان دو لباسوں کا حکم عام ہے تو یہ حکم تمام حالات کےلیے عام ہی رہے گا، اس کی تخصیص کرنے والا مطلقاً کوئی حکم نہیں۔ رہی بات عام زندگی میں ان دونوں لباسوں کی دلیل کی تو اوپر والے لباس کے حوالے سے اللہ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ﴾
"اور اپنی زینت کو آشکارہ نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے ظاہر رہتاہے اور اپنا خمار اپنے گریبان پر ڈال دیں" (النور:31)
، اور نچلے لباس کے حوالے سے اللہ کا یہ فرمان:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ﴾
"اے نبی ﷺ!اپنی ازواج، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہیں کہ اپنے اوپر اپنا جلباب اوڑھ لیں"(الاحزاب:59)۔
ام عطیہؓ سے روایت ہے کہ انہوں کہا:
«أَمَرَنا رسولُ اللهِﷺأن نُخْرِجَهُنَّ في الفِطْرِ والأضحى، العواتقَ والحُيَّضَ وذواتِ الخدورِ، فأما الحيّضُ فيَعْتَزلْنَ الصلاةَ وَيَشْهَدْنَ الخَير، ودعوةَ المسلمين. قلت يا رسولَ اللهِ إحدانا لا يكونُ لها جلبابٌ، قال: لِتُلْبِسْها أختُها من جِلبابِها»
" رسول اللہ ﷺ نےہمیں حکم دیا کہ چادر اوڑھے کنواریوں کوبھی ،حیض والیوں کو بھی، عید الفطر اور عید الاضحی کےلیے نکالیں، حیض والیاں نماز سے دور رہ کر خیر اور مسلمانوں کی دعوۃ (خطاب) کا مشاہدہ کریں گی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! اگرہم میں سے کسی کے پاس جلباب نہ ہوتو، فرمایا: اس کی بہن اپنے جلباب میں سے اس کو پہنائے"،اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
یہ دلائل عام زندگی میں عورت کے لباس پر دلالت کرنے میں صریح ہیں۔ اللہ تعالی نے ان دو آیات میں اس لباس کو جامع، مکمل اور واضح انداز میں بیان کیا جس کو عورت عام زندگی میں پہنے گی، چنانچہ عورت کے اورپر والے لباس کے بارے میں فرمایا:
﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ﴾
"اپنا خمار اپنے گریبان پر ڈال لیں"(النور:31)،
یعنی سرکو ڈھانپنے والے لباس کو گردن اور سینے پر ڈال لیں تاکہ گردن اور سینے میں قمیض کا کپڑا نظر نہ آئے۔ اسی طرح نچلے لباس کے بارے میں فرمایا:
﴿يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ﴾
"اپنے اوپر اپنا جلباب اوڑھ لیں"(الاحزاب:59)،
یعنی نکلنے کےلیے اپنے کپڑوں کے اوپر اس کو پہن لیں، چادر اور برقعہ کو نیچے تک لٹکائیں، اس لباس کی عام کیفیت کے بارے میں فرمایا:
﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾
"اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے ظاہر ہوتاہے"(النور:31)،
یعنی اپنی زینت کی جگہوں جیسے کانوں،بازوؤں پنڈلیوں وغیرہ کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے، جسے اس آیت کے نزول کے وقت عام زندگی میں کھلا رکھا جاتا تھا یعنی رسول اللہ ﷺ کے عہد میں، جو کہ چہرہ اور ہاتھ کی ہتھیلیاں ہیں۔ اس قدر باریک بینی سے بیان کے بعد یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ عام زندگی میں عورت کا کیا لباس ہے اور کیا ہونا چاہیے۔ ام عطیؓہ کی حدیث میں صراحت کے ساتھ اس بات کا بیان ہے کہ باہر نکلتے وقت کپڑوں کے اوپر اس کپڑے (جلباب) کو پہنے۔ وہ کہتی ہیں کہ
« إحدانا لا يكونُ لها جلبابٌ، قال: لِتُلْبِسْها أختُها من جِلبابِها»
"اگرہم میں سے کسی کے پاس جلباب نہ ہوتو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی بہن اس کو اپنا جلباب دے"،
یعنی جب اس نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: جب اپنے کپڑوں کے اوپر پہننے کےلیے وہ کپڑا نہ ہو جس کو نکلتے وقت پہنا جاتاہے تو اس کو حکم دیا کہ اپنی بہن سے عاریتاً وہ لباس لے جس کو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتاہے، جس کے معنی ہیں کہ اگر عاریتاً بھی نہ ملے تو پھر باہر نہ نکلے۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ اس حدیث میں امر وجوب کےلیے ہے، یعنی عورت جب باہر نکلنے کا ارادہ کرے تو کپڑوں کے اوپر جلباب پہننا اس پر واجب ہے، اگر جلباب نہیں پہنتی تو نہ نکلے۔
جلباب میں یہ شرط ہے کہ وہ اس قدر نیچے تک لٹکا ہوا ہو کہ اس سے پاؤں چھپ جائیں کیونکہ آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ﴾
"اپنا جلباب اپنے اوپر ڈالیں"(الاحزاب:59)،
یعنی جلباب کو لٹکائیں کیونکہ ﴿مِنْ﴾یہاں تبعیض(بعضیت) کےلیے نہیں بیان کےلیے ہے، یعنی چادر یا برقعے کو نیچے تک لٹکائیں، اسی طرح ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فَكَيْفَ يَصْنَعْنَ النِّسَاءُ بِذُيُولِهِنَّ قَالَ يُرْخِينَ شِبْرًا فَقَالَتْ إِذًا تَنْكَشِفُ أَقْدَامُهُنَّ قَالَ فَيُرْخِينَهُ ذِرَاعًا لاَ يَزِدْنَ عَلَيْهِ»
"جو تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے اللہ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا، تو ام سلمہؓ نے کہا: توپھر عورتیں اپنے گھسٹتے ہوئے کپڑوں کے ساتھ کیا کریں، فرمایا: ایک بالشت لٹکا دیں، ام سلمہؓ نے کہا :تب تو ان کے پاؤں نظر آئیں گے ،فرمایا: پھر ایک ہاتھ(بازو) لٹکائیں اس سے زیادہ نہیں"،
اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس میں صراحت کے ساتھ ہے کہ وہ کپڑا جس کو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے ،یعنی چادر یا برقعہ،نیچے تک لٹکا ہوا ہو یہاں تک کہ پاؤں چھپ جائیں۔ اگر پاؤں جراب یا جوتوں سے چھپے ہوئے بھی ہوں تو یہ کپڑے کو نیچے تک لٹکانے کا قائم مقام نہیں حلانکہ پاؤں چھپے ہوئے ہیں جن کو چھپانے کی ضرورت نہیں مگر پھر بھی کپڑے کو نیچے تک لٹکانا یعنی جلباب کو نیچے تک رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہی عام زندگی کا لباس ہے جس کو عام زندگی میں پہننا عورت کےلیے واجب ہے جس کا کھلا اور لٹکا ہوا ہونا ظاہر ہو ،تا کہ اللہ کے اس فرمان پر عمل ہو سکے،﴿يُدْنِينَ﴾"ڈھیلا کرکے ڈھانپیں" (الاحزاب:59)۔
اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ باہر نکلنے کےلیے عورت کا ایسا کھلا اور ڈھیلا ڈھالا لباس ہونا چاہیے جس کو وہ کپڑوں کے اوپر پہنے۔ اگر اس کے پاس ایسا لباس نہ ہو اور وہ باہر نکلنا چاہے تو اس کی کسی مسلمان بہن کو چاہیے کہ وہ کپڑوں کے اوپر پہناجانے والا اپنا یہ لباس عاریتاً اس کو دے ، اگر یہ کپڑا نہ ملے تو اس کے ملنے تک باہر نہ نکلے، اگر وہ کپڑوں کے اوپر پہنے جانے والے اس کھلے اور ڈھیلے لباس کے بغیر باہر نکلے، چاہے ستر چھپا ہوا بھی ہو تو بھی گنہگار ہو جائے گی کیونکہ کپڑوں کے اوپر ایسا کھلا اور ڈھیلا لباس پہننا جو نیچے تک لٹکا ہوا ہو فرض ہے۔اگر کوئی عورت گھر سے نکلتے وقت یہ نہیں پہنے گی تو وہ فرض کو ترک کرے گی، اس لیے وہ اللہ کے نزدیک گنہگار ہوگی اور ریاست تعزیراً اس کو سزا دے گی]ختم شد۔
2۔ مندرجہ بالا ذکر سے یہ واضح ہوتاہے کہ شرعی لباس وہ ہے جو لازمی طور پر ستر کو چھپائے، جس میں زینت ظاہر نہ ہو، یہ لباس خمار(دوپٹہ یا اسکارف) ہو جو سرکے بالوں ،گردن اور گریبان کو چھپائے، اوراس کے ساتھ جلباب ہو جو قدموں تک لٹکا ہوا ہو ۔ اس میں یہ بھی واضح ہے کہ جلباب ایک ہی ٹکڑا ہے : "ایک کھلا اور ڈھیلا کپڑا جس کو اس طرح نیچے تک لٹکایا جاتا ہے کہ اس سے قدم کھلے نہ رہیں چھپ جائیں"۔ یہ بات ہر دیدہ ِبینا رکھنے والے کےلیے واضح ہے، ہر بصارت اور بصیرت والا یہ جانتاہے چنانچہ عبارت یوں ہے:
۔شارع نے عورت پر یہ فرض کیا ہے کہ عورت کے پاس ایسا کپڑا ہونا چاہیے جس کو وہ اپنے عام پہننے والے کپڑوں کے اوپر پہنے۔۔۔
۔ چنانچہ اس کے پاس چادر یا برقعہ ہونا چاہیے جس کو وہ عام پہننے والے کپڑوں کے اوپر پہنے۔۔۔
۔ اپنے کپڑوں کے اوپر یہ لباس پہنے بغیر نکلے گی تو گنہگار ہو گی۔۔۔
۔ یوں اس کو صراحت کے ساتھ بیان کیا کہ باہر نکلتے وقت کپڑوں کے اوپر پہنے جانے والے لباس کا پہننا واجب ہے۔۔۔
۔ اس سب سے یہ واضح ہوتاہے کہ عورت کے پاس ایسا کھلا اور ڈھیلا کپڑا ہونا چاہیے جس کو وہ باہر نکلتے وقت پہنے گی۔۔۔
اس میں کپڑے کو مفرد طور پر دہرا یا، تاکید کےلیے چادر کو مفرد طور پر دہرایا: (اس کے پاس کپڑا ہو جس کو اپنے عام پہنے جانے والے کپڑوں کے اوپر پہنے۔۔۔ اس کے پاس چادر یا برقعہ ہو جس کو وہ اپنے کپڑوں کے اوپر پہنے گی۔۔۔اپنے کپڑوں کے اوپر یہ لباس پہنے بغیر نکلے گی تو گنہگار ہوگی۔۔۔ نکلتے وقت کپڑوں کے اوپر پہننے کےلیے اس کے پاس لباس ہونا چاہیے۔۔۔عورت کے پاس کھلا اور ڈھیلا لباس ہونا چاہیے جس کو نکلتے وقت اپنے کپڑوں کے اوپر پہنے گی۔۔۔) یہ تکرار اس بات کی تاکید کےلیے ہے کہ جلباب ایک کپڑا ہے جس کو عورت اپنے کپڑوں کے اوپر پہنتی ہے۔۔۔وغیر۔ یہ ایک مکمل واضح امر ہے۔
اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ آیت کریمہ
﴿يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ﴾
"اپنا جلباب اپنے اوپر ڈالیں"(الاحزاب:59)
اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جلباب کپڑے کا ایک ہی ٹکڑا ہے، کیونکہ مِن یہاں بیان کےلیے ہے یعنی جلباب کو اپنے اوپر ڈال لیں، ڈالنے یا ڈھانپنے کی نسبت جلباب کی طرف کی گئی جس کے معنی یہ ہیں کہ جلباب ایک ہی کپڑا ہے جس کو نیچے تک لٹکایا جاتاہے۔ آیت کریمہ کے الفاظ کے مطابق یہ یہ دو ٹکڑے نہیں ہوسکتے، کیونکہ لٹکانے کی نسبت جیسا کہ ہم نے کہا، جلباب کی طرف کی گئی ہے، اگر جلباب دو ٹکڑے ہوتا تو دونوں کو پیروں تک لٹکانا فرض ہوتا اور ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑےکے اوپر ہوتا اس لیے جلباب ایک ہی خارجی کپڑا ہے جس کو گردن سے پیروں تک لٹکایا جاتاہے۔۔۔یوں الفاظ کی لغوی بناوٹ اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ جلباب ایک ہی کپڑا ہے جس کو نیچے تک لٹکایا جاتاہے کیونکہ لٹکانے کی نسبت اس کی طرف کی گئی ہے۔۔۔یہ اس کی حقیقت ہے، اس کے علاوہ ہم نے لفظ کپڑا کو بار بار دہرایا ہے۔۔۔اس سے پہلے ہم نے یہ بیان کیا کہ جلباب ایک کھلا کپڑا ہے جس کو عورت اپنے عام کپڑوں کے اوپر پہنتی ہے جو پیروں تک لٹکاہوا ہوتا ہے۔
۔۔۔اسلام نے اس شرعی لباس کی سخت تاکید کی ہے یہاں تک کہ اگر عورت کے پاس یہ لباس نہ ہو تو وہ اپنی کسی بہن سے لے مگر اس کے بغیر نہ نکلے، کسی بھی کپڑے سے صرف ستر چھپانا کافی نہیں بلکہ کپڑوں کے اوپر جلباب اور خمار پہننا اور زینت کو ظاہر نہ کرنا ضروری ہے۔
3۔ یہ حزب کی تبنی کردہ رائے ہے حزب کے تمام شباب اس کے پابند ہیں اس کی خلاف ورزی درست نہیں۔۔۔مگر ایسا لگ رہا ہے کہ سوال کرنے والے نے انٹرنیٹ پر ایسے اقوال پڑھے ہیں جو اس کے بر خلاف ہیں اور ان اقوال کو ہمارے شباب کے اقوال خیال کیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جلباب دو ٹکڑے ہو سکتے ہیں( کوٹ، جیکٹ، قمیض، پتلون،اورکوٹ جو ٹخنوں تک ہوتا ہے) اس لیے اس نے گمان کیا کہ جلباب کی حقیقت کے بارے میں شباب کے درمیان اختلاف ہے۔۔۔ ہم قاری کو جواب دینے سے معذرت کرتے ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ انہوں نے کسی ایسے شخص کی رائے پڑھی ہو جوحزب کو چھوڑ چکا ہو یا سزا پر ہویا ناکثین میں سے ہو یا کوئی پروپگینڈا کرنے والے ہو اور یہ گمان کیا ہو کہ یہ حزب کی صفوں میں موجود منظم لوگ ہیں، خاص کر ہم ان جیسے لوگوں کی ، سوائے مخصوص حالات کے، بات نہیں کرتے۔۔۔ممکن ہے اسی وجہ سے انٹرینٹ سے پڑھنے والے کو یہ غلط فہمی ہوئی ہو کہ جلباب کے ایک یا دو ٹکڑے ہونے کے بارے میں حزب کے شباب کے درمیان اختلاف ہے۔۔۔
ہم سوال کرنے والے کو یقین دہانی کرتے ہیں کہ حزب کے شباب حزب کی رائے سے اختلاف نہیں کرتے کیونکہ یہ اس حزب کے منظم شباب ہیں، جلباب ایک ہی ٹکڑا ہے: یہ کھلا اور ڈھیلا لباس ہے جو قدموں تک لٹکاہوتا ہے جس کو عورت اپنے عام کپڑوں کے اوپر پہنتی ہے جس کے پہننے سے پاؤں چھپ جاتے ہیں اورنظر نہیں آتے۔۔۔ جن لوگوں کی اس کے علاوہ رائے ہے وہ یا تو تارکین ہیں یا سزایافتہ یا عہد شکن یا پروپگینڈا کے آلہ کار!
اللہ کے اذن سے حزب اور اس کے شباب کی جانب سے حزب کی رائے کی پابندی کے سامنے ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
میں اختتام بھی اسی بات سے کروں گا جس سے ابتدا کی تھی: (حزب کے شباب حزب کی صفوں میں مکمل طور پر منظم ہیں اور اس کی رائے کے مکمل پابند ہیں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔۔۔وہ جلباب کے کپڑے کا ایک ہی ٹکڑا ہونے میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے: ایک کھلا اور ڈھیلا ڈھالا کپڑا جس کو عام کپڑوں کے اوپر پہنا جاتاہے۔ اس کو اس طرح قدموں تک لٹکایا جاتا ہے کہ پاؤں نظر نہ آئیں بلکہ چھپ جائیں۔۔۔ اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ جی ہاں، مسلمان خواتین میں جلباب کے پھیلنے میں حزب کا بڑا اثر ہے ،یہ اللہ کا فضل ہے، حزب نے عورت کے شرعی لباس کے موضوع کو حق کے ساتھ مکمل طور پر بیان کیا اور کتاب "اسلام کا معاشرتی نظام" میں " عورت کی طرف دیکھنا" کے باب میں اس کو مکمل تفصیل سے بیان کیا، یوں عورت کے شرعی لباس میں یہ شرط ہے کہ یہ جلباب اور خمار پر مشتمل ہو جس سے زینت ظاہر کیے بغیر ستر کو چھپایا جاسکے، یعنی ستر کو چھپانے والا ہر لباس پہن کر عورت کا باہر نکلنا جائز نہیں، بلکہ باہرنکلنے کا مخصوص لباس ہے جس کو شریعت نے تفصیل سے بیان کیا ہے)۔
مجھے امید ہے کہ اس بات کو سمجھنے کےلیے یہ کا فی ہے کہ جلباب کے بارے میں حزب کی ایک ہی رائے ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا۔
9محرم الحرام 1440ھ
19 ستمبر 2018ء