بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
علاج کا حکم
ابو حنیفہ فوالحہ کو
سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، جلیل القدر امیر! اگر سوال بوجھل ہو تومجھے معاف کیجئے، کیونکہ آپ کا وقت اس مصیبت زدہ امت کے لیے خیر کی تلاش میں صرف ہو رہا ہے۔۔۔مگر یہ معاملہ ایسا ہے کہ میں اس کوحل نہیں کرسکا۔ کیا علاج فرض ہے یا مندوب یا کچھ اور۔۔۔امید ہے جواب سے مستفید فرمائیں گے، اللہ برکت دے اور آپ کے ہاتھوں خیر کو کھولے ۔
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
آپ کے سوال کا جواب کتابچہ"کلوننگ"میں موجود ہے، علاج کے حکم کے حوالے سے اس میں عربی ورڈ فائل کے صفحہ30 -32 میں جو کچھ ہے وہ میں آپ کےلیے نقل کرتا ہوں:
[۔۔۔وضاحت سے حکم اخذ کرنے کےلیے ضروری ہے کہ ہم علاج کے بارے میں آنے والے دلائل کو پیش نظر رکھیں ۔بخاری نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«ما أنزل الله داءً إلاّ أنزل له شفاءً»
"اللہ نے جو بھی بیماری اتاری اس کی شفاء بھی اتاردی ہے"
اور مسلم نے جابرؓ بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«لكل داء دواء، فإذا أُصيب دواءُ الداءِ برئ بإذن الله عز وجل»
"ہر بیماری کی دوا موجود ہے جب (درست) دوا بیمار کو ملتی ہے اللہ عزوجل کے اذن سے بیمار تندرست ہوتاہے"
اور مسند ابن مسعود کی مرفوع حدیث ہے کہ
«إن الله عز وجل لم ينزل داءً إلاّ أنزل له شفاءً علمه من علمه، وجهله من جهله»
"اللہ عزوجل نے جو بھی بیماری اتاری ہے اس کی شفاء بھی اتاری ہے کچھ لوگ اس علاج کو جانتے ہیں اور کچھ نہیں"۔
ان تین احادیث میں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے بیماری نازل کی اور دوا بھی نازل کی، اگر دوا مل جائے تو اللہ کے اذن سے بیماری ٹھیک ہوجائے گی، اس دوا کا علم کچھ لوگوں کو ہوتا ہے اور کچھ کو نہیں۔ ان احادیث میں ارشاد ہے کہ ہر بیماری کی ایک دوا ہے جس سے اس بیماری سے شفاء ملتی ہے، جس سے اس بات کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ علاج کرنا چاہیے جسے اللہ کے اذن سے شفاء ملے گی، بیماری بھی اللہ کی طرف سے ہے اور علاج بھی اللہ کی طرف سے اور شفاء بھی اللہ کے اذن سے ہے، دوا سے نہیں۔ دوا میں شفاء کی خاصیت رکھی گئی ہے اگر وہ بیماری کے مطابق ہو۔ یہ راہنمائی ہے واجب نہیں۔
احمد نے انسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إن الله عز وجلّ حيث خلق الداء خلق الدواء فتداووا»
"اللہ تعالی نے جہاں بیماری پیدا کی ہے اس کی دوا بھی پیدا کی ہے اس لیے علاج کیا کرو"،
اور ابو داود اور ابن ماجہ نے اسامہ بن شریک سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ : میں نبی ﷺ کے پاس تھا کہ دیہاتی آئے اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم علاج کرا سکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
«نعم، يا عباد الله تداووا، فإن الله عز وجل لم يضع داءً إلاّ وضع له شفاءً... »
"جی ہاں اے اللہ کے بندو علاج کیا کرو کیونکہ اللہ نے جو بھی بیماری پیدا کی ہے اس کی شفا بھی رکھی ہے"۔
پہلی حدیث میں علاج کا حکم دیا، اس حدیث میں دیہاتیوں کو علاج کے بارے میں سوال کا جواب دیا، جو کہ بندوں سے خطاب ہے کہ علاج کیا کرو، کیونکہ اللہ نے ہر بیماری کی شفاء بھی رکھی ہے۔ دونوں حدیثوں میں خطاب امر کے صیغے کے ساتھ ہے۔ امر مطلق طلب کا فائدہ دیتا ہے، اور وجوب کا فائدہ صرف جازم ہونے کی صورت میں دیتا ہے، جبکہ جزم کےلیے اس پر دلالت کرنے والے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دونوں حدیثوں میں وجوب پر دلالت کرنے والا کوئی قرینہ نہیں، اور سابقہ تین احادیث میں صرف خبر دی گئی ہے اور راہنمائی کی گئی ہے، چونکہ ان دونوں احادیث میں علاج کا مطالبہ وجوب کےلیے نہیں، مزید یہ کہ علاج کو ترک کرنے کے جواز کے بارے میں بھی احادیث موجود ہیں جو ان دونوں حدیثوں سے وجوب کے فائدے کو ختم کرتی ہیں۔
چنانچہ مسلم نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«يدخل الجنة من أمتي سبعون ألفاً بغير حساب، قالوا من هم يا رسول الله؟ قال: هم الذين لا يَسْتَرْقون، ولا يتطيّرون، ولا يكتوون، وعلى ربهم يتوكلون»
"میری امت کے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے، لوگوں نے کہا وہ کون ہونگے اے اللہ کے رسولﷺ؟آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم کرتے ہیں نہ کرواتے ہیں نہ فال نکالتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں"،
اور بخاری نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: " یہ سیاہ فام عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا: مجھے مرگی کا مرض ہے میں بے حجاب ہوتی ہوں، میرے لیے اللہ سے دعا کریں،آپ ﷺ نے فرمایا:
«إن شئتِ صبرتِ ولكِ الجنة، وإن شئتِ دعوتُ الله أن يعافيك»
"اگر چاہو تو صبر کرو تمہارے لیے جنت ہے اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے اللہ سے دعا کروں کہ تمہیں شفا دے"،
عورت نے کہا:میں صبر کرونگی، لیکن میں بے پردہ ہوجاتی ہوں، اللہ سے دعا کریں کہ میں بے پردہ نہ ہوجاؤں۔ آپﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی"۔ یہ دونوں احادیث علاج کو ترک کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔
پہلی حدیث میں جنت میں داخل ہونے والوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دم نہیں کرواتے، فال نہیں نکالتے یعنی علاج نہیں کرواتے، بلکہ معاملہ اپنے رب پر چھوڑتے ہیں، اپنے امور میں اس پر توکل کرتے ہیں۔ دم کرنا اور فال نکالنا علاج ہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دم کرنے کی ترغیب بھی دی اور جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ پر دم کیا۔ آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا:
«الشفاء في ثلاثة: في شَرْطَةِ مِحْجَم، أو شَرْبة عسل، أو كَيّةٍ بنار، وأنهى أمتي عن الكَيّ»
"شفاء تین چیزوں میں ہے: حجامہ کرنے میں، شہد پینے میں اور آگ سے گرم کرنے(داغ دینے) میں ہے اور میں اپنی امت کو داغ دینے سے منع کرتا ہوں"۔ اس کو بخاری نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے۔
دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سیاہ فام عورت کو مرگی پر صبر کر کے جنت حاصل کرنے یا اللہ سے دعا کرکے مرگی کا علاج کرنے کے درمیان اختیار دیا ، جو کہ علاج ترک کرنے کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔ یوں یہ دونوں احادیث دیہاتیوں کو جواب دینے والی حدیث اور اس پہلی والی حدیث میں امر کو وجوب سے پھیر دیتی ہیں ، مگر چونکہ رسول اللہ ﷺ نے علاج کرنے کی بھر پور ترغیب دی ہے ،چنانچہ احادیث میں علاج کرنے کا امر ندب(مندوب ہونے) کے لیے ہے۔]
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
23شوال 1442 ھ
بمطابق 4جون 2021ء