بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
جس کو رکاز ملے اس میں خمس ہے
ابو احمد کو
سوال:
اس کو شخصی طور بھیجا گیا بعد میں اس کو خاص وعام کے لیے شائع کیا گیا
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور درود وسلام ہمارے آقا احمد ﷺ پر السلام علیکم ورحمۃ اللہ میرا تعلق فلسطین سے ہے یہاں جو دوسرے کی زمین میں قیمتی معدانیات تلاش کرتے ہیں اگر ان کو عثمانی جرمانے ملیں جن کو 1916 میں عثمانی ریاست نے چھپائے تھے اب ان کو ترکوں کے حوالے نہیں کر سکتے تو جس کو مال ملے اس کو بھی حصہ ملے گا یا زمین کے مالک کو صرف اس خزانے کی حفاظت کرنے کی اجرت ملے گی اور کیا اس مال کو جو کہ اصل میں ریاست کا ہے سب کے سب فقراء کو دیا جائے گا یا صرف خمس کو؛ آپ کا شکریہ اللہ آپ کی مدد کرے اور اللہ آپ کی اور مخلصین کی حفاظت کرے
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
ہم نے اس سے قبل سے ملتے جلتے سوال کا جواب ایک بار سے زیادہ دیا ہے میں اس میں سے آپ کےلیے نقل کرتا ہوں:
1۔ 8/11/2013 کے سوال کے جواب میں سے:
(۔۔۔جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے جو رکاز کے بارے میں ہے، جس کو رکاز ملے اس میں خمس ہے جس کو اسلامی ریاست کے حوالے کرے گا جس کو مسلمانوں کے فوائد کے مد میں رکھا جائے گا اور باقی چار حصے اسی کے ہیں ہیں جس کو رکاز ملا مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس کو رکاز کسی اور کی زمین میں نہ ملا ہو۔
اگر اسلامی ریاست موجود نہ ہو جیسا کہ اس وقت ہے جس کو رکاز ملا ہو وہ اس میں سے خمس کو فقراء مساکین اور مسلمانوں کے فائدکےلیے نکالے گا ۔۔۔اور حق داروں کو تلاش کرے گا، باقی چار حصے اس کے اپنے ہیں۔
جہاں تک اس کی دلیل کی بات ہے:
ا۔ رکاز زمین میں دفن کیا ہوا مال ہے چاندی ہو یا سونا جواہرات ہوں یا موتی یا کوئی اور چیز جیسے زیورات اسلحہ ، چاہے گزشتہ اقوام کی جانب سے دفن کیا گیا خزانہ ہو جیسے مصری، بابلی، آشوری، ساسانی، رومانی، یونانی وغیرہ، نقدی ہوں، زیورات ہوں، جواہرات ہوں جو ان کے بادشاہوں اور بڑے لوگوں کی قبروں میں ملتے ہیں، یا ان کے پرانے تباہ شدہ شہروں کے کھنڈرات میں، یا سونے اور چاندی کے نقدی ہوجو کسی مٹکے وغیرہ میں رکھ کر زمانہ جاہلیت یا اسلامی دور میں کہیں زمین میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ سب رکاز ہے۔
رکاز رکز سے مشتق ہے جیسے غرز یغرز جب چھپ جائے، کہاجاتاہے: رکز الرمح "تیر چھپ گئی" جب تیر زمین میں پیوست ہوتی ہے، اسی سے الرکز دہیمی آواز ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
(أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا)
"یا تم ان کی کوئی آہٹ سنتے ہو"[مريم 98].
جبکہ معدن وہ ہے جس کو اللہ نے زمین میں اس دن پیدا کیا جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، جیسے سونا، چاندی، تانبا، پیتل وغیرہ۔ معدن عَدَنَ فی المکان ایک جگہ ٹہر گیا سے مشتق ہے یعدن ٹہرتاہے اسی سے جنت عدن ہے؛ کیو کہ یہ ہمیشہ ٹہرنے کی جگہ ہے۔ یوں معدن اللہ کی تخلیق ہے بندے کا دفنایا ہوا نہیں، اس لیے یہ رکاز سے الگ ہے؛ کیونکہ رکاز بندے کا دفنایا ہوا ہوتاہے۔
ب۔ معدن اور رکاز میں اصل رسول اللہ ﷺ سے ابوہریرہ کی روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا: «العجماءُ جرحها جُبار، وفي الركاز الخمس» "جانوروں کے زخم کی دیت نہیں اور رکاز میں خمس ہے" اس کو ابو عبید نے روایت کی ہے۔۔۔اور عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عام ویران جگہ پڑے مال کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا : «فيه وفي الركاز الخمس» "اس میں اور رکاز میں خمس ہے"، علی بن ابی طالب سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«وفي السيوب الخمس. قال: والسيوب عروق الذهب والفضة التي تحت الأرض»
"اور سیوب میں خمس ہے۔ فرمایا: اور سیوب زمین کے اندر سونے اور چاندی کا عرق(پسینہ)ہے" اس کو ابن قدامہ نے المغنی میں ذکر کیا ہے۔
ج۔ اس بنا پر ہر قسم کا مدفون مال جیسے سونا، چاندی، زیورات، جواہرات وغیرہ اگر قبروں، کھنڈرات، گزشتہ امتوں کے شہروں، بنجر زمین، عادیوں کے ویران زمین یعنی قوم عاد سے منسوب زمین، جو جاہلیت میں دفنایا گیا ہو یا مسلمانوں نے گزشتہ اسلامی دور میں دفنایا ہو اسی کی ملکیت ہوگی جس کو ملا ہو وہ اس میں سے خمس کو بیت المال کو دے دے گا۔
اسی طرح قلیل مقدار میں معدانیات جو محدود مقدار میں ہو لا محدود نہ ہو، جیسے سونا یا چاندی چاہے عرق (مائع) ہو یا اینٹ(ٹھوس) ایسی بنجر زمین میں ملے جو کسی کی ملکیت نہ ہو تو یہ اسی کی ملکیت ہے جس کو ملا ہو، وہ اس میں سے خمس بیت المال کو دے گا۔ اگر وہ لامحدود ہو یعنی کان ہو محدود مقدار میں دفنایا گیا نہ ہو تو یہ عوامی ملکیت کے حکم میں داخل ہے اس کی الگ تفصیلات ہیں۔
رکاز پانے والے اور معدانیات پانے والے سے لیا جانے والا خمس فئی کی طرح ہے، اسی کے حکم میں ہے، بیت المال میں دیوان فئی اور خراج میں رکھا جائے گا، اس کا معاملہ خلیفہ کے حوالے ہے، وہ اس کو امت کے امور کی دیکھ بھال اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے پر اپنی رائے اور اجتہاد کے مطابق خرچ کرے گا،جس میں بھی اس کو خیرو بھلائی نظر آئے۔
د۔ جس شخص کو اپنی ہی ملکیت جیسے زمین یا مکان میں رکاز ملے وہ اس کا مالک ہے چاہے یہ زمین یا عمارت اس کو میراث میں ملا ہو یا اس نے خریدی ہو۔ جس کو دوسرے کی زمین یا مکان میں رکاز ملے تو ملنے والا رکاز اس شخص کا ہے جس کی زمین یا عمارت ہے اس شخص کا نہیں جس کو ملا ہے۔ 5 محرم الحرام 1435 بمطابق 8/11/2013 ) سوال کا جواب ختم ہوگیا۔
2۔ 18/9/2014 سوال کے جواب میں سے:
(۔۔۔بخاری اور مسلم نے ابن شہاب سے انہوں نے سعید بن مسیب سے انہوں نے ابی سلمہ بن عند الرحمن سے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«وَفِي الرِّكَازِ الخُمُسُ»
"اور رکاز میں خمس ہے"
رکاز قدیم زمانے میں دفنایا ہوا مال ہے یا محدو معدانیات کا عرق(رگیں یا مائع)۔۔۔جس کو اس کی اپنی ملکیت زمین یا عمارت میں ملے تو وہی اس کا مالک ہے، جس کو اپنی زمین کے علاوہ کہیں اور ملے تو جس کی زمین یا عمارت میں رکاز یا معدن ملا ہو اسی کا ہے جس کو ملا ہے اس کا نہیں، ۔۔۔رکاز ملتے ہی خمس واجب ہوتا ہے، اس کو بیت المال کو ادائیگی میں تاخیر جائز نہیں۔
رہی یہ بات کہ کیا خمس زکواۃ ہے یا فئی "ریاست کی ملکیت" جواب یہ ہے کہ یہ زکواۃ نہیں بلکہ فئی ہے، اس کے دلائل میں سے وہ ہے جس کو ابو عبید نے مجالد سے اس نے الشعبی سے روایت کی ہے کہ ( ایک آدمی کو شہر سے باہر دفنائے گئے ایک ہزار دینار ملے، وہ ان کو لے کر عمر بن الخطاب کے پاس آیا، آپ نے ان میں سے خمس یرنی دو سو دینار لیا اور بقایا اس آدمی کو واپس دیا، عمر نے ان دو سو دینار کو وہاں پر موجود مسلمانوں میں تقسیم کیا، جن میں سے کچھ بچ گئے تو فرمایا: وہ دینار والا کدھر ہے؟ وہ سامنے آیا تو فرمایا کہ یہ تم لے لو)۔
الشعبی کی حدیث سے یہ واضح ہو گیا کہ عمرنے رکاز پانے والے سے جو لیا وہ صرف خمس تھا باقی چار حصے اسی کو واپس دیا، یہ لیا جانے والا خمس زکواۃ نہیں تھا بلکہ فئی کی طرح تھا، کیونکہ اگر یہ زکواۃ ہوتی تو اس کو صرف زکواۃ کے مصارف پر خرچ کرتا اور اس میں سے اس شخص کو نہیں دیتا جس کو رکاز ملا تھا، کیونکہ وہ مالدار تھا، زکواۃ مالدار کےلیے جائز نہیں۔
یو رکاز جتنا بھی زیادہ ہو اس کے چار حصے اس کے ہیں جس کو رکاز ملا ہو پانچواں حصہ بیت المال کا ہے، یہ نصاب پر موقوف نہیں کیونکہ یہ زکواۃ نہیں، اس لیے چاہے رکاز کی قیمت نصاب کے برابرا ہو یا اس سے کم اس میں سے خمس ہر حال میں بیت المال کو دینا ہے۔
موجودہ وقت چونکہ بیت المال کا وجود نہیں اس لیے جس کو رکاز ملا ہو وہ اس کا خمس مسلمانوں پر خرچ کرے گا یا ان میں سے ضرورتمندوں کو دے گا۔۔۔جو وہ بہتر سمجھتا ہے کرے گا۔
23 ذو القعدہ 1435 ہجری بمطابق 18 /9/2014 کے سوال کا جواب ختم ہو گیا۔
یہ کافی ہے اللہ ہی زیادہ علم وحکمت والا ہے
تمہارا بھائی عطاء بن خلیلابو الرشتہ
19 صفر1444 ہجری
بمطابق 15/9/2022