بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
لبنان میں رونما ہونے والی نئی سیاسی تبدیلیاں
(ترجمہ)
سوال:
خبر رساں ادارے، العربی الجدید نے 21 جنوری، 2025ء کو اپنی ویب سائٹ پر خبر شائع کی : ”… نواف سلام آج شام، منگل کو صدارتی محل، بعبدا پیلس میں صدر جوزف عون سے ملاقات کے بعد روانہ ہو گئے، ان کے ہاتھ میں ایک سیاہ فائل تھی اور انہوں نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ آیا انہوں نے کوئی مسودہ نام یا وزارتی تشکیل پیش کی ہے یا نہیں…“، یہ بات یاد رہے کہ: ”سیاسی اختلافات کے باعث دو سال سے زائد عرصہ تک صدر کی نشست کے خالی ہونے کے بعد، لبنانی پارلیمنٹ نے 09 جنوری، 2025ء کو عون کو ملک کا صدر منتخب کر لیا ہے۔ ان کے منتخب ہونے کے چار دن بعد، عون نے نواف سلام کو نئی لبنانی حکومت تشکیل دینے کی ذمہ داری دی ہے“۔ (الجزیرہ، 20 جنوری، 2025ء)۔
لبنان میں آخر کیا ہو رہا ہے کہ، صدرکی نشست کے تقریباً دو سال سے زائد عرصہ تک خالی رہنے کے بعد، 9 جنوری 2025ء کو فوج کے کمانڈر جوزف عون کے بطور صدر تعیناتی پر تیزی سے اتفاق رائے ہو گیا، پھر چند ہی دن بعد 13 جنوری 2025ء کو نواف سلام کو بطور وزیر اعظم تعینات کرنے پر اتفاق کر لیا گیا؟ یہ سب اتنی جلدی کیسے ہوا؟ تو کیا یہ مستعدی اس بات کا اشارہ ہے کہ داخلی اور خارجی سطح پر لبنان کی شکل بدلنے کی تیاری پہلے سے کی جا رہی تھی اور ابھی بھی اس کی تیاری ہو رہی ہے یا یہ ایک معمول کی تبدیلی ہے، جیسا کہ خطے میں تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں؟
جواب:
مذکورہ بالا سوالوں کے جواب کی وضاحت کے لئے درج ذیل امور کا جائزہ لینا ضروری ہے :
اول : خطے میں اور دنیا میں ہونے والی بڑی سیاسی تبدیلیاں ہی وہ عوامل ہیں جو لبنان میں اس تیزی سے تبدیلی کا سبب بنے۔ اور پھر عون کو لبنان کا صدر منتخب کیا گیا، اور نواف سلام کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔
اس بات کی وضاحت کے لئے نکات ذیل میں ہیں:
1- یہودی وجود کی جانب سے ایرانی حزب کے رہنماؤں کے قتل کے فوری بعد اور جنگ بندی سے قبل، لبنان میں صدر منتخب کرنے اور اس عہدے کی نشست خالی رکھنے کو ختم کرنے کے لئے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ان آوازوں کی قیادت ایرانی حزب کے مخالفین نے کی، جیسا کہ سمیر جعجع کی جماعت نے کی، جنہوں نے جنگ میں غزہ کی حمایت کو کھل کر مسترد کیا تھا۔ یہ جنگ کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی ایک کوشش تھی، اور یہ یورپی سفیروں کے مشورے کے ذریعے ہی کیا گیا تھا جو کہ امریکی نمائندہ، ہوچسٹین Hochstein کے دوروں کے ساتھ ساتھ لبنان کا دورہ کر رہے تھے ، جبکہ امریکی سفیر نے جنگ بندی پر توجہ مرکوز رکھی ہوئی تھی۔ ایران کی حزب نے لبنانی اپوزیشن کی ان آوازوں کی مذمت کی تھی۔
2- لبنان میں گزشتہ دو سالوں کے دوران صدر منتخب کرنے کے لیے 12 ناکام اجلاسوں کے بعد، لبنان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے تقریباً اچانک ہی اتفاق کر لیا، اور فوج کے کمانڈر جوزف عون کو نیا صدر منتخب کر لیا گیا تاکہ اس عہدے کی نشست کا خالی رہنا ختم ہو سکے۔ ایران کی پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ ان کا امیدوار سلیمان فرنجیۃ ہے (العالم چینل، 07 جنوری، 2025)۔ فرنجیۃ ایران کے محور سے وابستہ ہیں اور بشار کے متروکہ نظام کے حمایتی ہیں، پھر سلیمان فرنجیۃ نے اپنے امیدوار کے طور پر دستبرداری کا اعلان کیا تاکہ اتفاق رائے تک پہنچا جا سکے۔
3- ایرانی محور کے حمایتیوں (ایرانی حزب اور تحریک أمل) نے جوزف عون کو پہلے ہی اجلاس میں منتخب نہیں کیا، یعنی ووٹنگ اس وجہ سے ناکام ہو گئی کہ دو تہائی (86) ووٹ حاصل نہ ہو سکے تھے۔ پھر دوسرے اجلاس میں اور ان پارلیمانی بلاکوں کے ساتھ ملاقات ہو جانے کے بعد، انہوں نے جوزف عون کو ووٹ دے دیا اور عون 99 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ اس طرح دوسرے اجلاس میں جوزف عون کے لئے ووٹ دینے کا مقصد دراصل یہ ظاہر کرنا تھا کہ اگر ایران کی حزب اور تحریک امل کے ووٹ نہ ہوتے تو جوزف عون صدارت نہ جیت سکتے تھے۔ اگرچہ اس کا مطلب یہ بھی نکل سکتا ہے کہ ایران کے پیروکاروں کا اثر و رسوخ ابھی بھی موجود ہے اور وہ ووٹنگ پر اثر انداز ہو رہے ہیں، لیکن ان کی طرف سے مزاحمت کرنے سے دستبردار ہو جانا حالانکہ وہ کر بھی سکتے تھے، تو یہ ان کی طرف سے پیچھے ہٹ جانے کا ایک اشارہ ہے۔
4- 13 جنوری، 2025ء کو نواف سلام کولبنان کا نیا وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔ انہیں سیاسی اتفاق رائے کے امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا تھا، کیونکہ وہ نہ تو نجیب میقاتی ہیں، جو ایران کی پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے امیدوار تھے، اور نہ ہی فواد مخزومی، جو سمیر جعجع کے گروپ کے امیدوار ہیں، یعنی ایران کی حزب کے مخالفین۔ یوں اس طرح، نواف سلام کو لبنان میں وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔
5- نواف سلام وہ امیدوار تھے جنہیں ایران کی حزب اور اس کے اتحادیوں نے لبنان میں مسترد کر دیا تھا۔ ایرانی حزب نے 2019ء میں سعد حریری کے استعفیٰ کے بعد نواف سلام کو مسترد کر دیا تھا اور اس وقت انہیں ”امریکی چیلا“ کہا تھا۔ اس وقت حسن دیاب کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا تھا، اور ایرانی پارٹی نے اسی سال بیروت پورٹ پر دھماکے کے بعد 04 اگست، 2019ء کو نواف کی نامزدگی کو دوبارہ مسترد کر دیا۔
6- ایسا لگتا ہے کہ اس انتخاب نے ایرانی حزب اور أمل تحریک کو خفا کر دیا : الجزیرہ کے نمائندے نے 13 جنوری، 2025ء کو رپورٹ کیا کہ حزب اللہ کے پارلیمانی بلاک نے لبنان کے وزیر اعظم کے لئے کوئی امیدوار نامزد نہیں کیا۔ حزب اللہ بلاک کے نمائندوں کی لبنانی صدر کے ساتھ وزیر اعظم کی نامزدگی کے لئے ہونے والی ملاقات کے بعد، پارٹی کے نمائندے محمد حسن رعد نے اپنے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ بعض لوگ گروپ کو خارج کرنے اور ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مزید کہا، ”ہم نے صدر مملکت کے ساتھ اپنی ملاقات میں ایک مثبت قدم اٹھایا، لیکن ہم نے ہاتھ بڑھتے ہوئے نہیں پایا“، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی جماعت قومی مفاد کو برقرار رکھنے کے لئے دانشمندی اور تحمل کے ساتھ عمل کرے گی۔
حزب اللہ کے قریبی ایک ذرائع نے رپورٹ کیا کہ پارٹی اور اس کی اتحادی، أمل تحریک جو کہ پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کی زیرِ قیادت ہے، میقاتی کی بطور وزیرِاعظم دوبارہ نامزدگی کے حق میں ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میقاتی کی دوبارہ نامزدگی ”اس معاہدے کا حصہ ہے جو سعودی سفیر یزید بن محمد بن فہد الفرحان کے ساتھ لبنان میں ہوا تھا، جس کے نتیجے میں حزب اللہ اور أمل نے گزشتہ جمعرات کو عون کو بطور صدر منتخب کرنے کا عمل آگے بڑھایا“۔ اسی تناظر میں، بی بی سی نے 13 جنوری، 2025ء کو پارلیمنٹ میں ایرانی پارٹی کے بلاک کے سربراہ سے رپورٹ کیا کہ عون کی دوبارہ نامزدگی ”اس معاہدے کا حصہ ہے جو سعودی سفیر کے ساتھ لبنان میں ہوا، جس کے نتیجے میں حزب اللہ اور أمل نے عون کو بطور صدر منتخب کرنے کے عمل کو آگے بڑھایا“۔
دوئم : یہ جائزہ لبنان میں ہونے والے واقعات کے حوالے سے تھا؛ پارلیمنٹ نے ایک نیا صدر منتخب کیا اور ایک نیا وزیر اعظم بھی مقرر کر لیا۔ قریب سے جائزہ لینے پر ہم یہ دیکھتے ہیں:
1- ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ لبنان میں ہونے والی نئی سیاسی تبدیلیوں سے مکمل طور پر مطمئن ہے، یا بلکہ امریکہ ہی ان تبدیلیوں کا ذمہ دار ہے۔ صدر بائیڈن نے ایک بیان میں کہا: ”میں انہیں لبنان کے صدر کے طور پر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں“، اور مزید کہا: ”صدر عون اس وقت اہم قیادت فراہم کریں گے جب لبنان اور’اسرائیل‘ مکمل طور پر جنگ بندی کو نافذ کریں گے اور لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے اور لبنان اپنی بحالی اور تعمیر نو کا عمل شروع کر دے گا۔ صدر عون کو میری مکمل حمایت حاصل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس وقت کے لئے نہایت موزوں رہنما ہیں“ (سی این این عربی، 09 جنوری، 2025ء)۔ اسی طرح، امریکہ کے ایجنٹ محمد بن سلمان نے بھی سعودی عرب میں انہیں مبارکباد پیش کی (الحرہ، 09 جنوری، 2025)۔
2- اس طرح، لبنان میں ہونے والی نئی سیاسی تبدیلیوں کا عالمی تنازعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لبنان اس وقت امریکہ کے ہاتھ میں تھا جب مشیل عون صدر تھے، جو ایرانی محاذ کا حصہ نظر آتے تھے۔ موجودہ صدر جوزف عون کو 2017ء میں امریکہ کے ایجنٹ مشیل عون نے ہی فوج کا کمانڈر مقرر کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ صدر جوزف عون دراصل امریکہ کے ایجنٹوں کے دستے سے ہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے 2022ء میں لبنان کے صدر کی نشست خالی ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی لبنانی فوج کو فوجی امداد فراہم کئے رکھی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کا فوج کے کمانڈر جوزف عون کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ نواف سلام، جو اپنی زندگی فرانسیسی اور امریکی یونیورسٹیوں میں اور بین الاقوامی اداروں میں تعلیم و تدریس دینے میں گزار چکے ہیں، اور حال ہی میں عالمی عدالتِ انصاف کے صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، وہ بھی اس (امریکی) فریم ورک سے کسی طور باہر نہیں ہو سکتے۔
3- اس طرح، امریکہ آج لبنان میں اپنے کھیل کے قواعد بدل رہا ہے۔ پہلے جہاں وہ لبنان میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے ایران، اس کے محاذ اور اس سے وابستہ قوتوں پر انحصار کرتا تھا، تو آج امریکہ ان قوتوں کو خارج کر کے نئی شخصیات کو سامنے لا رہا ہے تاکہ لبنان میں اپنے اثر و رسوخ کو جاری رکھ سکے۔ لبنان پہلے بھی امریکہ کے قابو میں تھا اور اب بھی ہے، لیکن امریکہ اپنے رُوپ اور طریقے کو بدل رہا ہے۔
4- جہاں تک یورپی اتحادی قوتوں کا تعلق ہے، تو وہ جانتے ہیں کہ ان کی طاقت امریکہ کی طاقت سے کم اہم ہے۔ فرانس، پانچ رکنی کمیٹی میں اپنی شمولیت کے ذریعے سے 2023ء سے جوزف عون کو صدر کے امیدوار کے طور پر مسترد کرتا آ رہا تھا جب امریکہ اور سعودی عرب نے شروع میں جوزف عون کا نام پیش کیا تھا (العربی الجدید، 22 ستمبر، 2023)، لیکن آخرکار فرانس کو جوزف عون کو قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ دوسری جانب، یورپی قوتوں کے پاس اتنا اثر و رسوخ نہیں ہے کہ وہ صدر کو اپنا ماتحت بنا سکیں۔ حتیٰ کہ سمیر جعجع، جن کے پاس پارلیمنٹ میں سب سے بڑے عیسائی بلاک کی حمایت حاصل ہے، ایرانی پارٹی کی طرف سے عون کی زبردست مخالفت کے باوجود صدر کے عہدے کے لئے اپنی خواہش کا اظہار نہیں کر پائے۔ ایرانی پارٹی نے کہا، ”سمیر جعجع کے علاوہ کسی بھی نام پر ویٹو نہیں ہے؛ کیونکہ ان کا منصوبہ لبنان کے لیے تباہ کن ہے“۔ (الشرق الاوسط، 06 جنوری، 2025)، اور ایرانی حزب نے وزیر اعظم کے لیے فواد مخزومی کے نام کو بھی مسترد کیا، جو اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے پیش کیا گیا تھا (آر ٹی، 13 جنوری، 2025)۔ اس لیے یورپی اتحادی قوتیں لبنان میں تین صدور میں سے کسی ایک پر بھی اجارہ داری قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں، اور یہ عہدے امریکہ کے پیروکاروں کے ہاتھ میں ہی رہے۔
5- تاہم، یورپی قوتوں نے لبنان میں ہونے والی نئی سیاسی تبدیلیوں کو قبول کر لیا ہے، فرانس کے صدر ایمینیول میکرون نے ایکس پلیٹ فارم پر اپنے اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں لبنان کے صدر منتخب ہونے پر عون کو مبارکباد دی۔ میکرون نے دیکھ لیا تھا کہ ”یہ انتخابات اصلاحات کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں اور لبنان کی خودمختاری اور خوشحالی کی بحالی کی طرف ایک قدم ہے“ (الحرہ، 10 جنوری، 2025)۔ فرانسیسی صدر کا بیان یورپی قوتوں کی حالت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بیان ان کی خوشی کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ ایران کا سایہ لبنان پر سے کم ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا ایک حصہ حاصل کرنے سے مطمئن ہیں، یعنی لبنان کو ایران سے دور ایک راستے پر ڈالنا، اور وہ لبنانی امور کی نگرانی کے لئے پانچ رکنی کمیٹی میں موجود ہونے پر مطمئن ہیں جو صدر کا عہدہ خالی ہونے کے بعد تشکیل دی گئی تھی، کیونکہ فرانس اس کمیٹی میں امریکہ، مصر اور سعودی عرب کے شانہ بشانہ بیٹھتا ہے، جبکہ قطر اس میں برطانیہ کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے۔
یعنی امریکہ آج لبنان میں ایک حاوی عالمی کھلاڑی ہے، اور یہ امریکہ ہی ہے جو چہروں اور طریقوں کو تبدیل کرتا ہے، جبکہ یورپی، لبنان سے ایران کے سائے کو ہٹانے سے ہی اس تمام عمل کو خوشی سے قبول کئے ہوئے ہیں۔
سوئم : جہاں تک داخلی اور خارجی سطح پر لبنان کا چہرہ بدلنے کا تعلق ہے، تو یہ مندرجہ ذیل امور سے واضح ہے:
1- جہاں تک لبنان میں داخلی طور پر بات ہے، اس بات کا امکان ہے کہ ایرانی حزب کے ہتھیاروں پر پابندیوں میں اضافہ ہوگا، کیونکہ لبنان میں صدارتی بیانات اور اعلانات کے ساتھ پہلے موجود ”مزاحمت“ کی ضرورت معدوم ہو گئی ہے اور نئے صدر کے بیانات سے بھی غائب تھی:
أ) (سابقہ ادوار کے روایتی بیانات کے برعکس جو لبنانی خانہ جنگی کے بعد کا خاصہ تھے، عون کا خطاب واضح پیغامات سے بھرپور تھا، سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ اس نے ”ریاست کے اسلحہ کی اجارہ داری کے حق کو قائم کرنے“ کی ضرورت پر زور دیا تا کہ لبنان کی خودمختاری کو مستحکم کیا جا سکے (الحرہ، 10 جنوری، 2025)۔ عون نے اپنے خطاب میں کہا: لبنانی ریاست - اور میں دوبارہ کہتا ہوں لبنانی ریاست - ’اسرائیلی‘ قبضے سے نجات حاصل کر لے گی۔ (سی این این عربی، 10 جنوری،2025)۔
ب) نواف سلام نے میڈیا لیکس پر تبصرہ کیا جو روایتی جماعتوں کو قلمدانوں کی تقسیم اور خاص طور پر حزب اللہ اور امل تحریک کی شرائط کے مطابق آگے بڑھنے کے حوالے سے ہیں، خاص طور پر انہیں وزارتِ خزانہ دینے کے بارے میں… سلام نے مزید کہا کہ انہوں نے ”کسی جماعت کو کوئی قلمدان دینے کا وعدہ نہیں کیا، جہاں تک وزارتِ خزانہ کا تعلق ہے تو یہ دیگر وزارتی قلمدانوں کی طرح ہے اور کسی ایک فرقے کی اجارہ داری نہیں“… انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ 24 وزراء پر مشتمل حکومت کے حق میں ہیں… (العربی الجديد، 21 جنوری 2025)۔
2- خارجی طور پر، جو کچھ رُونما ہو رہا ہے اس پر غور کریں تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
أ) غیر معمولی طور پر، ایران نے صدر اور وزیر اعظم کے انتخاب میں کوئی کردار نہیں دکھایا، حالانکہ اس کے کردار کا اثر لبنان میں ایرانی پارٹی کی پوزیشنوں کے پس پشت موجود ہے، اور چونکہ ایرانی پارٹی اور اس کے اتحادی ان تبدیلیوں میں رکاوٹ بھی ڈال سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذا یہ امریکی تبدیلیاں، جنہیں ایک عسکری بغاوت کے طور پر بیان کیا گیا ہے، ایران کی غیر واضح منظوری سے ہو رہی ہیں۔ حقیقت میں ایران کا اثر عرب خطے سے کم ہو رہا ہے۔ امریکہ نے شام میں سیاسی حل کے لیے ترکی کو ذمہ داری سونپی ہے اور ایران کو اس سے باہر کر دیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس نے شام سے روس کو مکمل طور پر ہٹا دیا ہے۔ یہ خطے کے لئے امریکہ کی نئی پالیسی ہے جو اس نے لبنان میں بھی اپنائی ہے۔ یہ صرف بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی نہیں ہے، بلکہ اگلی انتظامیہ کا بھی یہی وژن ہے، اور وہ شام اور لبنان میں اس پر مزید کام کرے گی اور عراق تک اس کی توسیع کرے گی۔ یہ امریکی پالیسی مکمل طور پر وہی ہے جو یہودی وجود چاہتا ہے، اور یہ ممکن ہے کہ یہ ایک وعدہ ہو جو بائیڈن انتظامیہ نے یہودی وجود سے کیا ہو جب اس نے لبنان میں جنگ بندی پر اتفاق کرنے کے لیے اسے آمادہ کیا تھا۔
ب) ایسا لگتا ہے کہ لبنان کے نئے صدر کو احساس ہے کہ امریکہ اسے بڑی تبدیلیوں کے لئے اس مرحلے پر لا رہا ہے جو لبنان کو درپیش ہوں گی، صدر عون نے اپنی افتتاحی تقریر کے آغاز میں کہا، ”معزز نمائندوں نے مجھے لبنانی جمہوریہ کا صدر منتخب کرکے عزت بخشی ہے، جو کہ میرے لئے سب سے بڑا اعزاز اور سب سے بڑی ذمہ داری ہے، لہٰذا میں گریٹر لبنان کی ریاست کے قیام کی پہلی صد سالہ تقریبات کے بعد پہلا صدر بن گیا ہوں، جبکہ مشرق وسطیٰ میں ایک بھونچال برپا ہے جس میں اتحاد ٹوٹ چکے ہیں، حکومتیں گر چکی ہیں اور سرحدیں تبدیل ہو سکتی ہیں“ (انڈیپنڈنٹ عرب، 11 جنوری، 2025)۔ اسی ذرائع کے مطابق وہ اپنے پہلے غیر ملکی دورہ کی منزل کے طور پر سعودی عرب جائیں گے، ”لبنانی صدر جوزف عون نے آج ہفتہ کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران دورہ کرنے کی دعوت ملنے کے بعد کہا کہ سعودی عرب ان کی پہلی غیر ملکی منزل ہوگی“۔
ج) اس سب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اس بار سعودی عرب کو لبنان کے مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری دے رہا ہے، جبکہ پہلے ایران کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اسی لیے سعودی عرب کا کردار لبنان کے معاملات میں نمایاں ہوگا، اور اس کا ہاتھ لبنان کی تعمیر نو میں ہوگا، خاص طور پر کیونکہ یہ توقع کی جارہی ہے کہ ایران پر نئی تجارتی اور مالی پابندیاں عائد کی جائیں گی جو ٹرمپ کی حکومت نافذ کرے گی۔ لہٰذا سعودی عرب سیاسی اور مالی دونوں لحاظ سے لبنان کی فوج کو مضبوط بنانے اور ایرانی پارٹی کے اسلحہ کے خاتمے میں مدد دینے کے لیے، لبنان میں ایران کا متبادل بن جائے گا۔ اس سے لبنان کو یہودی وجود کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی جانب دھکیلنا ممکن ہے، خاص طور پر چونکہ اگلے امریکی صدر ٹرمپ، سعودی عرب کو یہودی وجود کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں تیزی سے کام کر رہے ہیں۔
چہارم : یہ خوفناک صورتحال لبنان اور لبنان کے ارد گرد اس وقت تک جاری رہنے کا امکان ہے جب تک کہ اللہ ایک وعدہ شدہ امر لے آئے، پھر اسلامی ریاست، خلافت کا قیام ہو گا، اور یہ تمام سیاسی قوتیں لبنان سے اور لبنان کے ارد گرد سے فرار ہو جائیں گی، اور ان کے ساتھ ہی یہودی وجود بھی ختم ہو جائے گا، بالکل ویسے ہی جیسا کہ بشار حکومت شام سے فرار ہو چکی ہے۔ پھر شام کی سرزمین پہلے کی طرح پوری اسلامی امت کا مرکز بن کر واپس آ جائے گی۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ خلافت کا دوبارہ قیام ہو گا اس جابرانہ حکمرانی کے دور کے بعد جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں۔ احمد نے حذیفہ کی سند سے روایت کیا ہے کہ حذیفہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، »
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ. ثُمَّ سَكَتَ «
”پھر جابرانہ حکمرانی )ملكًا جبرية( ہو گی اوریہ تب تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی“۔
پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے۔
جہاں کہیں بھی یہ خلافت قائم ہو گی، وہ شام تک پہنچ جائے گی اور وہیں بس جائے گی۔ ابو طبرانیؒ نے حضرت سلمہ بن نفیل سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: »عُقْرُ دَارِ الإِسْلامِ بِالشَّامِ« ”اسلام کا قلب شام میں ہے“۔
خلافت یہودیوں سے جنگ کرے گی اور ان کے وجود کو ہی ختم کر دے گی جو مقدس سرزمین پر قابض ہیں اور فلسطین کو مکمل طور پر اسلام کے دائرے میں واپس لے آئے گی، اور دیکھنے والے کے لئے کل بس قریب ہی ہے۔ لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قانون یہ تقاضا کرتا ہے کہ اللہ ہمارے لیے آسمان سے فرشتے نہیں بھیجے گا جو ہمیں خلافت قائم کر کے دیں جو ہمارے دشمنوں سے جنگ کرے جبکہ ہم خاموش بیٹھے رہیں۔ بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے فرشتوں کو بطور مددگار اور اپنی فتح کی خوشخبری دینے کے لیے ان لوگوں کے پاس بھیجتا ہے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور جن کو اللہ نے مزید ہدایت عطا کی، اور ان مسلمان مجاہدین کے پاس جو جنگ میں صابر رہنے والے ہیں، اپنے ایمان کی طاقت سے ہی وہ لڑتے ہیں اور خلیفہ کی قیادت میں اپنے دشمنوں سے لڑتے ہیں۔ اور پھر ہم ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو اس بشارت کے مستحق ہیں:
﴿نَصْرٌ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾
”اللہ کی مدد اور فتح بس قریب ہی ہے۔ پس (اے نبی)، ایمان والوں کو خوشخبری دے دو“ (الصف؛ 61:13)۔
23 رجب، 1446ھ
23 جنوری، 2025ء
Latest from
- خلافت کے انہدام کی یاد منانا، ماتم کرنے کے لیے نہیں،...
- یہودی وجود، فلسطین کے لوگوں کی جانب سے اپنی امت اور افواج کو مدد کے لیے پکارنے سے خوفزدہ ہے۔
- "شام میں تبدیلیاں... خدشات اور وعدے!"
- شام میں مغربی وفود کا تانتا اور سابقہ نظام حکومت کی نقل تیار کرنے کی کوشش۔
- "خلافت کے انہدام کی 104ویں برسی کے موقع پر خطاب!"