بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
ترکی اور یونان کے درمیان کشیدگی خاص کر بحیرہ ایجین (Aegean Sea) کے جزائر کے تنازعہ کی کیا حقیقت ہے
سوال:
دارالحکومت برسلز میں سربراہی اجلاس کے اختتام پر یورپی یونین نے ترکی اور یونان کے تعلقات ، خصوصاً بحیرہ ایجین میں واقع جزائر کے تنازع کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا جس کا عنوان تھا" مشرقی بحیرہ روم"(Eastern Mediterranean)۔ اس بیان میں یہ کہا گیا کہ، "یورپی یونین ترکی کے حالیہ بیانات اور اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ترکی پر لازم ہے کہ وہ یونین کے تمام رکن ممالک کی خود مختاری اور ان کی زمینوں کی وحدت کا احترام کرے۔۔۔" (وائس آف امریکہ 24/6/2022) ۔دوسری طرف ترکی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ،"یورپی یونین کے ریاستی اور حکومتی سربراہان کے اجتماع میں ہمارے ملک کے حوالے سے فیصلوں میں جانبدارانہ، ناعاقبت اندیشانہ اور زمینی حقائق سے ہٹ کرموقف اختیار کرناافسوسناک ہے، اور یہ بات قابل قبول نہیں کہ یورپی یونین اُن انتہاپسندانہ تجاویز کو جواز دینے کی کو شش کرے جو مشرقی بحیرہ روم اور بحیرہ ایجین کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں۔۔۔"(اناتولیہ 24/6/2022)۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ترکی اور یونان کے درمیان کشیدگی دوبارہ نئے سرے سے سر اٹھارہی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ صورتحال ان دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے تک لے جائے گی جبکہ دونوں نیٹو اتحاد کے رکن ہیں؟ امریکہ کا اس کے حوالے سے کیا موقف ہے جوکہ اس اتحاد کا سربراہ بھی ہے؟ کیا وہ اس کشیدگی کو ختم کرکے حالات کو معمول پر لائے گا یا یہ کشیدگی اسی طرح بڑھتی رہے گی؟
جواب:
جواب کو واضح کرنے کےلیے ہم مندرجہ ذیل امور پیش کرتے ہیں:
1۔ بحیرہ ایجین میں تقریباً 1800 چھوٹے بڑے جزیرے اور چٹانی سلسلے ہیں، جن میں تقریباً 100 گنجان آباد ہیں، اورصرف 24 جزیرے ایسے ہیں جن کا رقبہ 100 مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ جزیرے یونان کے ساتھ اس وقت سے اسلام اور سلطان المسلمین کی سرپرستی میں داخل ہونا شروع ہوئے تھے جب محمد الفاتح رحمہ اللہ نے 1453 عیسوی میں مشرقی روم کے دار الحکومت استنبول کی عظیم الشان فتح کے بعد 1456 میں یہاں فتوحات شروع کیں تھیں۔ تاہم جب عثمانی ریاست کے بطور اسلامی ریاست کے کمزوری نمایاں ہونے لگی تو کافر ریاستوں نے صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اسلامی ریاست کے خلاف سازشیں شروع کر دیں، یونانیوں کو اس کے خلاف بغاوت پر اکسایا، بلکہ برطانیہ، فرانس اور روس نے یونان کو اسلامی ریاست سے الگ کرنے کےلیے سمندری جنگ میں براہ راست کود گئے یہاں تک کہ 1830 عیسوی کو یونان الگ ہوگیا۔ لیکن اس کے بعد بھی بہت سارے جزائر خلافت عثمانیہ کی سرپرستی میں ہی رہے۔ 1912 میں اٹلی نے لیبیا میں جنگ کے دورا ن ڈوڈیکنیز (Dodecanese) جزائر پر قبضہ کیا جن کو بارہ جزائر کہا جاتاہے۔ یہ درحقیقت 14جزائر ہیں، دس چھوٹے جزائر اور کچھ چٹانی سلسلے اس کے علاوہ ہیں۔
ان جزائر نے اہمیت اختیار کر لی کیونکہ لوزان معاہدے کی رو سے تقسیم کے بعد یہ ترکی کی سرحد کے ساتھ ہی ہیں۔ ان جزائرمیں سے کچھ ترک سرحد سے صرف 3کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، جبکہ یونان کے قریب ترین ساحل سے بھی یہ جزائر 500 کلومیٹر دور ہیں۔ لوزان معاہدے میں یہ جزیرے اٹلی کو دئیے گئے، جس پر مصطفی کمال کی قیادت میں انقرہ حکومت نے اپنے نمائندے عصمت اینونو نے دستخط کیے تھے جس کے تحت خلافت عثمانیہ کی وسیع اراضی سے انقرہ حکومت دستبردار ہوگئی اور موجودہ ترکی پر اکتفا کر لیا جس کی سرحدوں کا تعین اتحادیوں نے برطانیہ کی قیادت میں کیا تھا۔ برطانیہ نے جرمنی اور عثمانی ریاست کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کے بدلے ان جزائر پر اٹلی کا حق تسلیم کرلیا۔ پھر دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بعد 1947 میں اتحادیوں اور اٹلی کے درمیان پیرس میں امن معاہدہ ہوا اور معاہدے میں لکھا گیا کہ اٹلی ڈوڈیکنیز کے بارہ جزائر اس شرط پر یونان کو دے گا کہ یہ جزائر غیر مسلح(demilitarize) رہیں گے۔ ترکی بہت سارے متنازعہ جزائر ، اور ان چھوٹے جزائرکے جن کو سابقہ معاہدوں میں کسی بھی ملک کو نہیں دیا گیا، کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کےلیے مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کرتاہے ، جبکہ یونان بحیرہ ایجین کے تمام جزائر پر اپنے حق کا دعوی کرتا ہے سوائے ان جزائر کے کہ جن کو لوزان معاہدے کی رو سے ترکی کو دیا گیا تھا۔
یونانی اپنی سمندری حدود کو 6 میل سے بڑھا کر12 میل کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ ترکی بدستور پیرس معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے حلانکہ وہ اس میں نہ فریق تھا نہ ہی اس پر دستخط کیے تھے! ترک وزیر خارجہ کاووسوگلو (Cavusoglu) نے 26/5/2022 کوحریت اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا"یونان کو 1947 میں ہونے والے امن معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے جس کے مطابق یونان ڈوڈیکنیز کے جزائر پر ایک چھوٹا سا فوجی یونٹ ہی رکھ سکتاہے۔" وزیر نے یونان کی جانب سے امن معاہدے کے شقوں کی پاسداری نہ کرنے کی صورت میں سخت موقف اختیار کرنے کی دھمکی دی۔ اس بحران کے دوسرے پہلو کا تعلق ان علاقوں میں بحری بالادستی کے حقوق اور اقتصادی علاقوں اور ان جزیروں اور ان کے قرب وجوار میں توانائی کے وسائل جیسا کہ تیل اور گیس کی تلاش کے حوالے سے ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس خطے میں یورپی اور خاص طور پر فرانسیسی عزائم اور ان جزائر پر امریکی اڈے قائم کرنے کا مسئلہ بھی شامل ہے۔
2۔ فرانس سامنے آگیا اور ترکی کے خلاف کھل کر یونان کی حمایت کا اظہار کیا۔ اس نے 2020 کے موسم گرما کے بحران کے دوران ترکی کے خلاف یونان کی طرفداری کا اعلان کیا، اور مشرقی بحیرہ روم میں ترکی کے فوجی اور تحقیقی بحری جہازوں کےخلاف رافیل فضائی جنگی جہاز اور جنگی بحری جہاز بھیجے۔ فرانس نے ستمبر 2021 میں یونان کے ساتھ دوطرفہ تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے جس کی عبارت یہ تھی" اگر دنوں میں سے کسی بھی ایک ملک پر کوئی مسلح حملہ ہو یا کسی بھی ایک کی سرزمین پر دست درازی ہو تو تمام مناسب وسائل سے دونوں ملک ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔" پھر فرانس نے جنوری 2022 میں دونوں ملکوں کے درمیان عسکری تعاون کے معاہدے پر دستخط کرکے اس معاہدے کو مضبوط کیا اورفرنچ جنرل اسٹاف کے بیان کے مطابق اس معاہدے سے " اسٹریٹیجک اور آپریشنل دونوں سطحوں پر دفاعی عسکری تعلقات کو مضبوط کرنے اور اس کو طویل المیعاد بنانے میں مدد ملی گی، فرانس اور یونان کے درمیان دوطرفہ عسکری تعاون مستحکم ہوگا ۔ اس دوطرفہ عسکری تعاون کو وسعت دی جائے گی۔"(فرانس پریس 22/1/2022) ۔
اس معاہدے پر دستخط سے دو دن پہلے یونان نے فرانس سے 18 میں سے 6 رافیل فضائی لڑاکا طیارے وصول کرنے کا اعلان کیا جن کو یونان نے گزشتہ سال فرانس سے خریدنے کااعلان کیا تھا اور ان کے ساتھ 3 فریگیٹس بھی تھے اور ان سب کی قیمت5.5 ارب یورو ہے۔ فرانس پریس نے ماہرین کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے کہا:" یہ دفاعی معاہدہ بے مثال اور غیر معمولی ہے، کیونکہ اس سے نیٹو کے دو رکن ممالک ایک دوسرے سے منسلک ہوئے اور اس اتحاد کے ایک اور رکن ترکی کو ہدف بنایا۔" فرانس اپنے اس موقف کو لے کر یورپی یونین پراثر انداز ہوا، اور اسی لیے یونین کا موقف بھی ترکی کے مقابلے میں یونان کی حمایت میں تھا۔
3۔ امریکہ فرانس کی اس حرکت پر خاموش نہیں رہا بلکہ اس کے اثر کو کم کرنے کےلیے متحرک ہوگیا اور پہلے یونان کو تھپڑ مارا۔ یونان، قبرص اور یہودی وجود نے 20/12/2018 کو مشرقی بحیرہ روم سے یورپ کےلیے قدرتی گیس پائپ لائن منصوبے کا اعلان کیا جس میں ترکی اور قبرص کے ترک شمالی حصے کا کوئی حصہ یا کردارنہیں تھا۔ یہ طے کیا گیا تھا کہ اس پائپ لائن کے ذریعے 10 ارب معکب میٹر قدرتی گیس یورپ پہنچائی جائے گی۔ مگر امریکہ نے اس منصوبے کی معاونت سے انکار کردیا۔اس نے 10/1/2022 کو یونان اور یہودی وجود کو بتادیا کہ "وہ اس منصوبے کی سیاسی اور مالی معاونت نہیں کرے گا۔" امریکہ کے اس فیصلے کو "ترکی کےلیے بڑی کامیابی کہا گیاجس کو اس منصوبے سے الگ کیا گیا تھا۔"(الشرق الاوسط 10/1/2022) ۔یونانی عسکری میگزین نے 10/1/2022 کو شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ"جیو پولیٹیکل اثرورسوخ میں اضافے اور توانائی کا مرکز بننے اور اسرائیل کے ساتھ تاریخی اتحاد کا ایتھنز کا منصوبہ، جس سے ترکی کو دور رکھا گیا تھا اور دیگر مقاصد کے حصول کےلیے تھا، مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔۔۔اسی کا اطلاق مینیاٹیس (Manyatis)قانون پر بھی ہوتا ہے، جو یونانی براعظمی شیلف کی بیرونی حدود کی وضاحت کرتا ہے۔دونوں اہداف منہدم ہو گئے اور ترکی نے مینیٹس قانون کو توڑ دیا جسے وہ بلیو ہوم کہتا ہے اور اس نے ترک لیبیا معاہدے سے یونانی پوزیشنوں پر اپنی بالادستی کو مضبوط کر لیا ہے اور اب واشنگٹن کی پوزیشن اسے (ترکی کو)موقع دینے کے لیے آ گئی ہے۔ " میگزین نے کہاکہ " یونانی وزیر اعظم میتسو تاکس (Mitsotakis) ترکی سے بات چیت شروع کرنا نہیں چاہتا۔۔بالکل ویسے ہی جیسے اس نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے۔۔۔"مزید کہاکہ"امریکہ نے جرمنی کے ذریعے گزشتہ سال مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے وسائل کی کھوج پر ترکی پر پابندیوں کو ناکام بنادیا۔"
ہم موضوع کو باریک بینی سے دیکھتے ہیں تو امریکہ نے فرانس سے تعاون کرنے پر یونان کو تھپڑ مارا اور خطے میں فرانس کی حرکت کے اثرات کو بے کار کردیا۔ امریکہ نے فرانس کا مقابلہ کرنے کےلیے ترکی کو اس منصوبے میں شامل کردیا جو کہ اس کا قابل اعتماد اتحادی ہے اور اسی کے مدار میں گردش کرتا ہے۔
4۔ یونان سمجھ گیا کہ اس نے فرانس کے ساتھ معاہدے اور قربت سے امریکہ کو ناراض کرلیا، اور اس کے تدارک کےلیے اس نے امریکہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کی حامی بھرلی۔ یونانی پارلیمنٹ اس پر دستخط کرنے کو 14/10/2021 سے 13/5/2022 تک موخر کرتی رہی تب جا کر اس پر دستخط ہوئے۔۔۔ووٹنگ کے دوران یونانی وزیر اعظم میتسو تاکیس نے معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا: " امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ یہ یونان پر اعتماد کی ووٹنگ ہے، یہ اہم ہے کیونکہ یہ پہلی بار یونان میں امریکی موجودگی کو (ایک سال کی بجائے جیسا کہ پہلے تھا)ہر پانچ سال میں توثیق کی پابندی کی ضمانت دیتاہے، دونوں فریقوں کو اس کو ختم کرنے کا حق حاصل رہے گا اگر اس کو ضروری سمجھے۔"
دوسرا :امریکہ کے ساتھ یہ دو طرفہ تعاون اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ نہ صرف مناسب وقت میں وسیع ہورہا ہے بلکہ مناسب جگہ وسیع ہورہا ہے۔ سودا (Souda)نیول بیس ( کریٹ کے جزیرے ) میں، انفراسٹریکچر کو مکمل طور پر جدید بنایا جارہا ہے اور اڈے کے کردار کو بڑھایا جارہا ہے۔ سودا وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں مشرقی بحیرہ روم میں امریکی ائرکرافٹ کیرئیر لنگر انداز ہوسکتےہیں، اس کے علاوہ یہاں لیٹو ٹشورو(Litochoro) کا فائرنگ رینج اور دو عسکری کیمپس، ولوس (Volos) اور الیکزیڈرو پولیس(Alexandroupolis) ہیں۔ تیسرا، نیا معاہدہ اہم ہے کیونکہ یہ سرزمین کی خود مختاری اور وحدت کےلیے کسی بھی خطرے اور مسلح حملے کے خلاف مشترکہ دفاع کے ارادے کو واضح کرتاہے(الیوم السابع نیوز ایجنسی سے 13/5/2022 ) ۔
یوں امریکہ نے یونان کو اپنے ارادے کے سامنے جھکادیا اور وہاں اپنے اثرورسوخ کو بڑھادیا اورفرانس کے ساتھ اس کے تعاون کو مفلوج کردیا!
5۔ اس کے بعد یونانی بیانات کی شدت میں کمی آگئی چنانچہ یونانی وزیر اعظم نے کہا،" ترکی کے ساتھ رابطوں کے چینلز کو کھلے رکھنا ضروری ہے، اگر چہ اس سے قبل تند وتیز بیانات کی وجہ سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔" ( الخلیج الجدید 17/6/2022) ۔ مگر اس صورت حال نے یورپی یونین کو مشکل میں ڈال دیا! اس لیے اپنی رسوائی پر پردہ ڈالنے کےلیے یونان کی حمایت کے اظہار کے ساتھ نیٹو کا رکن ہونے کے ناطے ترکی کے حوالے سے عام اور نرم سا اعلان کرنے پر اکتفاکیا ۔ برسلز میں 24/6/2022 کو سربراہی اجلاس کے اختتام پر "مشرقی بحیرہ روم" کے عنوان کے تحت بیان جاری کیا گیا کہ ،" یورپی یونین ترکی کے حالیہ بیانات اور اقدامات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ترکی کو چاہیے کہ وہ یورپی یونین کے تمام رکن ممالک کی سرزمین کی خودمختاری اور وحدت کا احترام کرے۔"
اس کے بعد یونانی وزیر اعظم نے کہا، " یورپی یونین کے اختتامی بیان میں جو کچھ آیا ہے، ہم اس کی تائید کرتے ہیں ، جس میں ترکی کو یورپی یونین کے تمام ممالک کی خود مختاری اور ان کی سرزمین کی وحدت کے احترام کا پابند کیا گیا ہے، اور اس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کشیدگی میں کمی کرے۔ مجھے امید ہے کہ اس بار ترکی ان آوازوں کو سننے گا۔ کیونکہ ہمارے پڑوسی کی جانب سے گزشتہ دو ماہ کے دوران مشرقی بحیرہ روم میں کشیدگی کو مکمل ہوا دی گئی، اس میں کمی کا یہی واحد طریقہ ہے۔"( وائس آف امریکہ 24/6/2022 )۔
6۔ اس طرح امریکہ، ترکی اور یونان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ترکی امریکہ کے مدار میں گردش کرتا ہے ، جبکہ یونان امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے میں پھنس کر اس کے قابو میں آگیا، اور اس طرح یونان پر یورپی یونین خاص کر فرانس کا اثر کم ہوگیا۔ اسی لیے یہ بات بعید از امکان ہے کہ بحیر ہ ایجین کے جزائر، جن میں ڈوڈیکنیز (Dodecanese) کے جزائر بھی شامل ہیں، کے مسئلے کا مستقبل قریب میں کوئی حل نکل آئے، یہ دہائیوں تک اپنی جگہ جوں کاتوں رہے گا، بلکہ ترک حکومت 1947 کے پیرس معاہدے میں بارہ جزیرے یونان کو دینے کا ضمناً اعتراف کرچکی ہے۔ ترک حکومت کے پاس ان کو واپس لینے کا کوئی منصوبہ نہیں، اسی طرح اُن دیگر جزیروں کا بھی جن کی ملکیت یونان کو دینے کا کسی معاہدے میں فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ ترکی کی سیکولر حکومت سے یہ توقع نہیں کہ وہ بحیرہ ایجین کے ان جزیروں کو واپس لینے کےلیے کوئی سنجیدہ اقدام کرے جن پر یونان نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اردوگان زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کرتا اور یوٹرن لیتا رہتاہے جیسا کہ 2020 میں ہوا کہ مشرقی بحیرروم میں تیل وگیس کی تلاش کرنے والے جہازوں کو واپس بلالیا اور معاملے پر پردہ ڈال لیا۔ اسی لیے ان جزیروں کی واپسی کےلیے ترکی اور یونان کے درمیان جنگ چھڑنے کی کوئی توقع نہیں۔ مسئلے کی ڈوریاں امریکہ کے ہاتھ میں ہیں، ترکی اس کے مدار میں گردش کرتاہے، جبکہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد یونان پر امریکی اثرورسوخ میں اضافہ ہوگیا ہے۔۔۔
7۔ آخر میں یقیناً1353 عیسوی میں قسطنطینہ کو فتح کرنے کے بعد بحیر ہ ایجین کے جزیرے بلکہ یونان بھی اسلامی ریاست (عثمانیہ) میں شامل تھے، جو کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی صداقت تھی،
(لتفتحن القسطنطینیۃ فلنعم الامیر امیرھا ولنعم الجیش ذالک الجیش)
"تم ضرور قسطنطینیہ کو فتح کرو گے، اس کا امیر کیا ہی اچھا امیر ہوگا اور وہ فوج کیا ہی اچھی فوج ہوگی۔" (اس کو احمد نے اپنے مسند میں ذکر کیا ہے)
اس کے تین سال بعد یعنی 1456 عیسوی میں فتوحات کا رخ یونان اور ان جزیروں کی طرف ہوا اور یہاں سے اذان کی صدائیں( اللہ اکبر اللہ اکبر) بلند ہوئیں، اور یہ اللہ کے اذن سے اُس دن پھر ہونے والا ہے جس دن مومنین اللہ کی مدد سے خوش ہونگے، جس دن مومنوں کی قیادت ان کا خلیفہ کریں گے، جو اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکومت کرے گا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا، دارالاسلام کو اس کی بنیاد یعنی اسلامی عقیدے اور اس سے نکلنے والے احکامات کی جانب واپس لوٹائے گا۔ خلیفہ ہی امت کی ڈھال اور دشمن کے مقابلے میں ان کی حفاظت ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا:
(انما الامام جنۃ یقاتل من ورائہ ویتقی بہ)
"صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں قتال کیا جاتا ہے اور جس کے ذریعے حفاظت حاصل ہوتی ہے۔" (مسلم)
5 ذی الحجہ 1443 ہجری
4/7/2022