بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کا دورہ اور ایٹمی فائل
سوال:
امریکی صدر جوبائیڈن بدھ کو دارالحکومت واشنگٹن سے مشرق وسطیٰ کے سرکاری دورے پر روانہ ہوئے، جس میں "اسرائیل" ،مغربی کنارہ (فلسطین) اور سعودیہ کا دورہ بھی شامل ہے۔۔۔(العربیہ نیٹ 13/7/2022 )۔ الیوم السابع نے 10/7/2022 کو اپنے ویب پیج پر یہ خبر شائع کی تھی:" امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ اگلے ہفتے ایک نئے دور کے آغاز اور خطے میں امریکہ کے کردارکا وعدہ پورہ کرنے کےلیے مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہوں گے۔۔۔"۔ الشرق الاوسط نے 5/7/2022 کو اپنی ویب سائٹ پر خبر شائع کی تھی کہ ،"امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس(Ned Price) نے کہا کہ ایران نے حالیہ مہینوں اور ہفتوں کے دوران بار بار 2015 میں انجام پانے والےایٹمی معاہدے کے فریم ورک کے دائرے سے باہر نکل کر مطالبات کیے ہیں ۔۔۔رائیٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق انہوں نے کہا کہ فی الحال ایران کے ساتھ بات چیت کا کوئی دور نہیں ہوگا۔۔۔"۔
اب سوال یہ ہے کہ : کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ نے ایٹمی معاہدے سے منہ موڑ لیا ہے؟ اس کے ساتھ اس وقت بائیڈن کے دورے کا کیا مقصد ہے؟ کیا اس دورے کا ایٹمی معاہدے سے کوئی تعلق ہے یا یہ کہ اس دورے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ کیا ایران کےلیے ایٹمی قوت بننا ممکن ہے؟ اللہ برکت دے، اور آپ کی مدد کرے اور آپ کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائے۔۔۔
جواب:
اس سوال کے دو حصے ہیں: پہلا ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کا مسئلہ ، اور دوسرا بائیڈن کا خطے کا دورہ ، اور جواب یہ ہے:
پہلا: ایٹمی معاہدہ:
1۔ ایرانی ایٹمی فائل اپنی مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی اہمیت کی وجہ سے ایران کے بارے میں امریکی پالیسی کا اہم حصہ ہے، بلکہ دوسرے مسائل کے ساتھ مل کر امریکی اسٹریٹیجی میں علاقائی اور بین الاقوامی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ اسی لیے امریکہ 2015 میں معاہدے پر دستخط کرنے کے وقت سے اور اور پھر 2018 میں اس سے الگ ہونے کے بعد ، اور اب دوبارہ مذاکرات کی شروعات کرنےتک، امریکہ اپنی پالیسی کے نت نئے تقاضوں کے مطابق دائیں بائیں سینگ مارتا ہوانظر آتاہے۔ ایرانی ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکی اسٹریٹیجک نقطہ نظر کو باریک بینی سے دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ اس مسئلہ کی بہت قریبی نگرانی کرے لیکن اس کا مطمع نظر اس مسئلہ کو حل کرنا نہیں ہے۔ ایٹمی فائل کے حوالے سےامریکی نقطہ نظر کسی بھی حالت میں اسلامی خطے اور دنیا کے بارے میں امریکی اسٹریٹیجی (حکمت عملی)سے الگ تھلک نہیں ہے۔
2۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ایران اپنی خارجہ پالیسی کےبیشتر حصے میں پس پردہ امریکہ کے ساتھ ساز باز کرکے ہی چلتا ہے اور کبھی امریکی پالیسی کے خلاف نہیں جاتا۔ 2003 میں امریکہ کے عراق پر قبضے نے اس ایرانی امریکی گٹھ جوڑ کو بڑی حد تک بے نقاب کردیا تھا، کیونکہ عراق میں امریکی اور ایرانی اثرورسوخ شانہ بشانہ چل رہے تھے، پھر امریکی سربراہی میں الدولہ تنظیم (داعیش) کے خلاف بین الاقوامی اتحاد اور شام میں امریکی مداخلت کےدوران ملکِ شام میں کسی ایرانی ہدف کو اور نہ ہی اس کی کسی ملیشیا کو نشانہ نہیں بنایا گیا ، امریکہ نے ان کو شامی انقلابی تحریک کو کچلنے کی کھلی چھٹی دی، خود امریکہ نے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام پر شام کے انقلابیوں پر بمباری کی۔ یہ معاملہ صرف انہی ممالک کے درمیان ہوتا ہے جو اپنے لیے چنے گئے کردار کو ادا کرنے کے لیے راضی ہوتے ہیں۔ امریکی اور ایرانی دونوں امریکی ایجنٹ بشار کو بچانے کی تگ ودو کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ افغانستان پر امریکی قبضے نے بھی امریکی ایرانی گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا، اور بعض ایرانی بیانات نے یہ واضح کیا کہ ایران نے افغانستان پر قبضے میں امریکہ کو مدد فراہم کی اور اسے اپنا احسان قرار دیا!
3۔ 1988 میں عراق ایران جنگ کے اختتام اور عراق کے ایک بڑی فوجی طاقت کے طور پر سامنے آنے کے بعد، ایران نے 1989 میں ایران عراق کے ساتھ جنگ میں ہونے والے والی ہار پر پردہ ڈالنے کےلیے میزائل اور ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ امریکہ پچاس کی دہائی سے ہی ایٹمی تحقیق میں سرکاری طور پر ایران کی مدد کرتا چلا آرہا تھا، لیکن خمینی انقلاب کے بعد یہ معاونت رک گئی تھی، تاہم 1989 میں اس معاونت کے سلسلے کو دوبارہ شروع کیا گیا۔ پھر سنہ 1990- 1991 میں امریکی فوج کی جانب سے عراقی فوجی طاقت کو تباہ کرنے اور کویت سے اس کو نکالنے کے بعد جب عراق میں تفتیشی مہم (بڑے پیمانے پر تباہی پیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش) شروع کی گئی اور پابندیاں لگائی گئیں تب ایران کے لیے علاقائی قوت بننے کےلیے میدان صاف ہوگیا۔ سرد جنگ یعنی سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ کی یہ کوشش تھی کہ ایک خیالی دشمن تلاش کیا جائے تا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا میں امریکی عسکری اڈوں کی موجودگی کو جواز فراہم کیا جائے ، اور ایران اس مقصد کے لیے بہانہ اور جواز بنا۔ امریکہ اپنی زیادہ تر پالیسیوں کے لیے ایرانی خطرے کو جواز کے طور پر پیش کرتا تھا حتیٰ کہ امریکہ کی جانب سے ایرانی میزائلوں کےخطرے کا جواز پیش کرکے پولینڈ اور رومانیہ میں امریکی دفاعی میزائل شیلڈ نصب کیے جانے پر روس نے شدید حیرانگی کا اظہار کیا!
4۔ یوں ایرانی ایٹمی پروگرام اور ایران کی جانب سے یورینیم کو افزودہ (خالص بنانے کا عمل) کرنےکےلیے ہزاروں آلات کی تنصیب نے بڑے یورپی ممالک اور اسی طرح خلیجی ریاستوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ باریک بینی سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کئی پہلوں سے امریکی پالیسی کےلیے ضروری تھا:
ا۔ تیل سے مالامال خلیجی ریاستوں کو ایرانی خطرے سے ڈرا کر امریکہ نے ان ممالک کے حکمرانوں کو اپنی حمایت کی پیشکش کی۔ چنانچہ صدر ٹرمپ ڈینکیں مارتا تھا کہ امریکہ سعودیہ کا دفاع کرتاہے، اور اس تحفظ کے بدلے میں مال مانگنے کے لیے امریکہ نے بلیک میلنگ اور مافیا کا طرز عمل اختیار کیا۔ ٹرمپ کہتا تھا کہ سعودیہ امریکی حمایت اور تحفظ کے بغیر دو ہفتے بھی نہیں ڈٹ سکتاہے۔
ب۔ بین الاقوامی سطح پر امریکہ نے روس کے گرد اسٹریٹیجک محاصرے میں مزید اضافہ کرتے ہوئے روسی سرحد کے ساتھ میزائل دفاعی شیلڈ نصب کی، اور اس کا جواز یہ پیش کیا کہ یورپی ممالک کو ایرانی میزائلوں کے خطرے سے بچانا ہے ۔
5۔ یورپ کے خوف وہراس میں اضافے کے ساتھ ہی عالمی قوتوں نے 2006 سے ہی اس امید پر ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات شروع کر دیے تھے کہ وہ ایرانی ایٹمی پروگرام کنٹرول کرسکیں اور اس کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لیے استعمال ہو نہ کہ فوجی مقاصد کے لیے، اور اسی مقصد کےلیے ایک گروپ پی 5 + 1 تشکیل دیا گیا یعنی پانچ ایٹمی طاقتیں اور پلس جرمنی ۔ اگر چہ امریکہ بھی ان پانچ عالمی طاقتوں میں سے ایک تھا مگر ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات میں امریکہ باقی طاقتوں کے ساتھ براہ راست شامل نہیں تھا، یعنی وہ مذاکرات جو 9 سال (2015)تک جاری رہے امریکہ اس میں ایرانی ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے میں سنجیدہ نہیں تھا ، لہٰذا یورپی ممالک روس اور چین کو ساتھ لے کر ایران کے ساتھ بات چیت کا ایک کے بعد ایک دور کرتے تھے مگر ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تھا۔ ان مذاکرات نے بھی ایرانی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور اس کے خطرے کو نمایاں کرنے میں مدد کی۔
6۔ اس کے ساتھ امریکہ میں اندرونی اختلاف رائے نے ایرانی ایٹمی پروگرام پر بھر پور اثر ڈالا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار کے دوران امریکہ میں یہ اختلاف رائے خطرناک حد کو پہنچ گئی۔ اس وقت صدر ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اپنے پیش رو اوباما کی پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، اور 2018 میں ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدسے نکلنے اور ایران پر سخت پابندیوں کا اعلان کیا اور ایران کو تنگ کرنے کےلیے یہودی وجود کی حوصلہ افزائی کی۔ ٹرمپ نے چونکہ "کاو بوائے" جیسا متکبرانہ رویہ اپنایا ہوا تھا اس لیے جنوری 2020 میں ایرانی پاسدان انقلاب میں القدس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو قتل کرکے ایران کو ذلیل کیا، اور چونکہ ٹرمپ انتظامیہ اوباما کی ڈیموکریٹک انتظامیہ کے برعکس نیتن یاہو کی قیادت میں یہودی وجود کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کی حالت میں تھی، اسی لیے یہودی وجود بڑھ چڑھ کر ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنانے لگی، چاہے یہ براہ راست ایٹمی تنصیبات ہوں جیسے کہ "نطنز" کے اسٹیشن کو تخریب کا نشانہ بنانا ، یا براہ راست نہ ہوں جیسے یہودی وجود کی جانب سے ایران سے حساس ایٹمی دستاویزات چرانا اور ساتھ ساتھ ایرانی ایٹمی ماہرین اور سائنسدانوں کو قتل کرنا وغیرہ۔۔۔
7۔ امریکہ میں ڈیموکریکٹس نےحکومت سے باہر ہوتے ہوئے بھی ایرانی حکمرانوں خاص کر اس وقت کے وزیر خارجہ جواد ظریف سےرابطے رکھے اور ان کو یقین دلاتے رہے کہ اگر وہ 2020 کے انتخابات میں کامیاب ہوگئے تو ایٹمی معاہدے کی طرف دوبارہ آنے کو ترجیح دیں گے۔ یہ ڈیموکریٹک امیدار بائیڈن کی جانب سے صدر بننے سے پہلے ہی ایک اعلانیہ وعدہ تھا۔ اس طرح بائیڈن نے امریکہ میں داخلی اختلاف رائے سےتعلق رکھنے والے وجوہات کی بنا پر اپنے آپ کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی طرف دوبارہ لوٹنے کا پابند کردیا۔پھر ایسا ہی ہوا، 2021 میں بائیڈن کی جانب سے صدارت کا منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی امریکہ نے ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات شروع کیے تاہم مذاکرات اب تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکے،کیونکہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں امریکہ کی واپسی اب امریکی حکمت عملی کا تقاضا نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے وہ ایرانی خطرات کو دوبارہ اجاگر کررہا ہے۔ اس پر مستزاد امریکی کانگریس میں ریپبلکن نمائندہ گان نئے ہونے والے معاہدے کو کانگریس کے سامنے پیش کرنے اور اس پر ووٹنگ کا مطالبہ کررہے ہیں اور یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر جب بھی کانگریس میں ان کو اکثریت مل گئی وہ اس معاہدے سے نکل جائیں گے۔ اس صورتحال نے مذاکرات کے عمل کو الجھن کا شکارکردیا ہے، یوں ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بائیڈن انتظامیہ ایران کے ساتھ کسی ایٹمی معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
8۔ اس کے علاوہ یوکرائن میں جنگ سے ایٹمی معاہدے کا موضوع پس منظر میں چلا گیا۔ بائیڈن انتظامیہ نے یورپ کے لیے تیل کی سپلائی کےلیے روس کے متبادل کی گارنٹی کو اپنے کندھے پر لےلیا کیونکہ نیٹو اتحاد کے سربراہ کے طور پر ایسا کرنا امریکہ کے لیے ضروری ہے ، اسی لیے بائیڈن نے ایران پر لگی پابندیاں اٹھانے اور اس کی تیل کی تجارت کو عالمی منڈی میں لانے کےلیے اپنے کارڈز کھیل رہا ہے۔ یہی معاملہ وینزویلا اور سعودیہ کے ساتھ بھی ہے۔ امریکہ نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں جلد بازی کا اظہار مارچ 2022 میں کیا یعنی روس کے یوکرائن پر حملے کے فوراً بعد۔ اس لیے بائیڈن انتظامیہ پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے ہٹانے کے ایرانی مطالبے کو پورا کرنے کےلیے تیار تھی جس کو سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اس فہرست میں شامل کیا تھا، یوں امریکہ کا ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر واپس آنا دو کمان یا اس سے بھی زیادہ قریب ہوگیا جو یوکرائن جنگ کے بعد امریکی پالیسی کا تقاضا تھا، مگر جب روس نے، جو کہ 5 + 1 میں شامل ہے، ایران کے ساتھ اپنی تجارتی تعلقات کو روس پر مغربی پابندیوں سے مستثنی کرنے کی شرط لگائی تب امریکہ نے معاہدے پر دستخط کرنے سے پیچھے ہٹ گیا ۔ اس بات کی توقع ہے کہ اگر روس اپنی شرط پر ڈٹا رہا تو ایٹمی معاہدے کا موضوع نومبر 2022 میں امریکہ میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات تک سردمہری کا شکار رہے گا۔۔۔یہ دیکھا جارہا ہے کہ بائیڈن نےایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے مقابلے میں وسط مدتی انتخابات پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔۔۔
دوسرا: بائیڈن کا خطے کا دورہ:
1۔ بائیڈن کے خطے کے دورے پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس کا بنیادی مقصد اس سال امریکہ میں ہونے والےوسط مدتی انتخابات میں بائیڈن اور اس کی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ کرنا ہے اگر چہ ظاہری طور پر اس دورےکے اہداف کچھ اور ہیں! بائیڈن اندرونی بحران سے دوچار ہے خاص طور پر ریپبلکن پارٹی کے ساتھ دوقابل ذکر امور میں: پہلا یہ کہ ریپبلکن پارٹی نے دباؤ اور پابندیوں میں اضافہ کیے بغیر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی میں بائیڈن کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو اس کے خلاف استعمال کیا، جبکہ ٹرمپ نے ایران پر دباؤ بھی بڑھایا تھا اور پابندیوں میں اضافہ بھی کیا تھا ، اور دوسرا یہ کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے اور تقویت دینے کا اس قدر اہتمام نہ کرنا جیسا کہ ٹرمپ کرتا تھا۔ یہ دونوں امور کانگریس کےلیے ہونے والے وسط مدتی انتخابات پر اثرانداز ہو رہے تھے اس لیے بائیڈن نے نومبر 2022 میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات کےلیے ان دونوں امور کو حل کرنے کی کوشش کے طور یہ دورہ کیا:
٭ پہلے امر کا حل بائیڈن نے اس دورے سے پہلے امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائیس(Ned Price) کے بیان کے ذریعے بتایا جس کو الشرق الاوسط نے 5/7/2022 کو شائع کیا کہ،"۔۔۔فی الحال ایران کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کا کوئی دور نہیں ہوگا۔۔۔"۔ یہ اس معاہدے کے بارے میں بائیڈن کے مبہم بیانات کے علاوہ ہے، جو ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کے ادوارکو ختم کرنے، یا ان میں سست روی کا اشارہ دیتے ہیں، جب تک کہ وسط مدتی انتخابات نہ ہو جائیں تا کہ ریپبلکن پارٹی کو بائیڈن اور اس کی پارٹی کے خلاف ایران ایٹمی معاملے کو استعمال کرنے سے روکا جا سکے۔
٭ دوسرے امر کا حل یہ ڈھونڈا کہ یہودی وجود کی بے مثال اورتاریخ کی سب سے بڑی امداد 4 ارب ڈالر کا اعلان کیا۔۔۔یہ اعلان یہودی وجود کے ساتھ نرملائزیشن کو تیز کرنے کے علاوہ کیا۔ یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا کہ وسط مدتی انتخابات میں یہودی لابی کے ووٹ دیموکریٹک پارٹی کو ملیں۔ اور اس طرح یہ دیکھا یا کہ اس کی پارٹی ٹرمپ اور اس کی پارٹی سے زیادہ یہودی وجود کی حمایت کرتی ہے۔۔۔ 2022 کے جولائی کے اس مہینے میں خطے کا خاص کر یہودی وجود کے دورے کر کے اور ان کی حمایت کا اظہار کر کے بائیڈن اس لابی کے ووٹ حاصل کرنا چاہتاہے۔۔۔اس کے علاوہ خطے میں اس کے ایجنٹوں اور پیرو کاروں کی جانب سے اس کی تائید کا اظہار اس کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کےلیے ہے! خاص طور پر سعودیہ اور خلیجی ممالک کے ساتھ توانائی کے موضوع پر بات چیت سے انتخابات میں اس کا پلہ بھاری ہوگیا ، اوراس کی تائید مندرجہ باتوں سے ہوتی ہے:
ا۔ ( وائٹ ہاوس نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اپنے مشرقی وسطی کے دورے سے - جس کو وہ بدھ سے شروع کر رہے ہیں- اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم ترین خطے میں امریکی کردار کو مضبوط کرنے کےلیے فائدہ اٹھانا چاہتاہے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان (Jake Sullivan) نے پیر کو وائٹ ہاوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دورے کے اہداف کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن کا صدر بننے کے بعد یہ پہلا دورہ ہے، اور اس دورے میں وہ اسرائیل ، فلسطین اور سعودیہ جائیں گے جہاں خلیج تعاون کونسل کے قائدین، مصری، اردنی اور عراقی رہنما جمع ہوں گے۔ نارملائزیشن کے متعلق بات کرتے ہوئے سولیوان نے امریکی انتظامیہ کی خواہش کی طرف اشارہ کیا کہ اسرائیل اور مزید عرب حکومتوں کے درمیان تعلقات کو بہتر اور مضبوط کرناہے، یہ نارملائزیشن مثبت اقدام ہوگا۔ تیل کی بڑتی ہوئی قیمتوں اور 100 ڈالر فی بیرل کی سطح سے بلند ہونے کی وجہ سے بائیڈن نے خلیجی ریاستوں سے تیل کی پیداوار میں اضافے کا مطالبہ کیا ؛ کیونکہ روس یوکرائین جنگ کے مسلسل جاری رہنے سے توانائی اور غذا کے حوالے عالمی تشویش میں اضافہ ہوا اور نتیجے میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا۔)الجزیرہ 11/7/2022)۔
ب۔ الجزیرہ نے 10/7/2022 کو واشنگٹن پوسٹ کے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ،"۔۔۔امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ آنے والے ہفتے میں نئے دور کے آغاز کےلیے، مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار کے حوالے سے دورہ کرے گا ۔۔۔ اس مضمون میں ،جس کو واشنگٹن پوسٹ نے شائع کیا، بقول امریکی صدر کے کہ سعودیہ کے شہر جدہ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس مشرق وسطیٰ میں استحکام کی ضامن ہوگی ۔۔۔ اس نے اشارہ کیا کہ وہ پہلا امریکی صدر ہوگا جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے۔۔۔ اسرائیل سے جدہ جائے گا ، بائیڈن نے اشارہ دیا کہ ان کی انتظامیہ تل ابیب کو تاریخ میں سب بڑی امداد 4 ارب ڈالر دے گی۔۔۔")۔
ج۔ الشرق الاوسط نے 5/7/2022 کو اپنی ویب سائیٹ پر خبر دی کہ : ( واشنگٹن: "الشرق الاوسط آن لائن" امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اتوار کو کہا کہ ایران نے حالیہ ہفتوں میں 2015 کو طے پانے والے معاہدے کے فریم ورک سے ہٹ کر مطالبات کیےہیں۔ مزیدیہ کہ نئے مطالبات اس بات کا اشارہ ہے کہ تہران سنجیدہ نہیں۔ گزشتہ ہفتے دوحہ میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان بلواسطہ مذاکرات اختتام پذیر ہوئے جس سے ایٹمی معاہدے کی کیفیت بغیر کسی پیش رفت کے سردمہری کا شکار ہوگئی۔ رائیٹرزنیوز ایجنسی کے مطابق پرائس نے کہا کہ فی الحال ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کا کوئی اور دور نہیں ہوگا ۔)
د۔ 5/5 / 2022 کو الیوم السابع نے خبر دی کہ : ( امریکی صدر جو بائیڈن اور ڈیموکریٹک پارٹی کو کانگریس کے وسط مدتی انتخابات کے قریب ہونے کی وجہ سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال اُن پے در پے آنے والے بحرانوں کے بعد پیدا ہوئی جن کا سامنا امریکی انتظامیہ نے کیا۔ ان بحرانوں میں روس کو یوکرائن میں جنگ جاری رکھنے سے روکنے میں ناکامی ہے جبکہ امریکہ نے روس کے خلاف کئی معاشی پابندیاں عائد بھی کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطحی پر مہنگائی اور توانائی کا مسئلہ درپیش ہے جس نے امریکی فیڈرل ریزو کو شرح سود میں0.5فیصد اضافہ کرنے پر مجبورکیا جو کہ گزشتہ 22 سال کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ ماہرین اور امریکی میڈیا کے مطابق وسط مدتی انتخابات بائیڈن کی صدارت کے پہلے دو سال کے لیے ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔)
یوں اس وقت بائیڈن کے خطے کے دورے کا اصل ہدف یعنی وسط مدتی انتخابات سے قبل وہی ہے جو ہم نے شروع میں ذکر کیا: " بائیڈن کے خطے کے دورے پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس کا بنیادی مقصد اس سال امریکہ میں ہونے والےوسط مدتی انتخابات میں بائیڈن اور اس کی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ کرنا ہے اگر چہ ظاہری طور پر اس دورےکے اہداف کچھ اور ہیں!)
تیسرا: آخر میں ہم دو باتوں پر زور دیں گے:
1۔ یہ نام نہاد ریاستیں حالات کی نزاکت کی وجہ سے لڑکھڑارہی ہیں جو بعض اوقات ان کی جماعتوں کے درمیان گرما گرم تنازعہ کا باعث بنتے ہیں۔ مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان کو اپنے مسائل کا حل ہماری قیمت پر اورہماری سرزمین میں نظر آتا ہے! بائیڈن ہماری سرزمین کا دورہ کرتاہے جس کی ابتدا ہمارے بدترین دشمن یہودی وجود کے دورےسے کرتا ہے جو ہماری مبارک سرزمین فلسطین کو غصب کرکے اس پر قائم کی گئی ہے، پھر وہ براہ راست حجاز کی سرزمین جاتا ہے اور ذلیل حکمران سرجھکاکر اس کا استقبال کرتے ہیں۔ بائیڈن فخر کرتاہے( وہ اشارہ کرتا ہے کہ وہ پہلا صدر ہوگا جو "اسرائیل" سے جدہ جائے گا۔۔۔ اوریہود ی وجود کو تاریخ کے سب سے بڑی امداد دیتاہے۔۔۔)اس کے باوجود آلِ سعود کے حکمران کو غیرت نہیں آتی بلکہ وہ تو غیرت ہی کھو چکے ہیں! اس کے بعد بائیڈن امریکہ میں مہنگائی کو کم کرنے کےلیے تیل کی پیداوار میں اضافے کے لیےخلیج کے حکمرانوں سے ملاقات کرتا ہے ، اس کے بعد وہ یہودی وجود کے ساتھ نارملائزیشن کےلیے مصری، اردنی، عراقی حکمرانوں اور فلسطینی اتھارٹی سے ملاقاتیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ، "کسی بھی قسم کی نارملائزشن مثبت امر ہے"۔۔۔یوں بائیڈن چاہتا ہے کہ یہ حکمران یہودی وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کےلیے جہاد کی بجائے اس کے ساتھ تعلقات قائم کریں! یہ حکمران اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مومنین سے حیا کیے بغیر بائیدن کےلیے تالیاں بجاتے ہیں! بجائے اس کے کہ یہ امریکہ اور یہودی وجود کو دشمن سمجھیں:
﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾
"یہی دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہو اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کدھر بھٹکے جا رہے ہیں۔"(المنافقون:4)
یہ حکمران ان کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہیں، ان کے سامنے جھکتے ہیں!
2۔ رہی یہ بات جو سوال کے آخر میں ہے کہ،"کیا ایران ایٹمی قوت بن سکتا ہے"، تو جی ہاں ایران ایٹمی قوت بن سکتا ہے اگر اس کی امریکی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساز باز نہ ہو جیسا کہ امریکہ کے ساتھ اس کے ساز باز کو بیان کیا گیا ہے، تب ہی وہ قابل ذکر قوت بن سکتا ہے۔۔۔ مگر ایران کی جانب سے اپنے آپ کو امریکی پالیسی کے ساتھ نتھی کرنا اور اور اس کے مدار میں گردش کرنے سے کبھی بھی وہ قوت نہیں بنے گا، اُس نے بدستور اپنے آپ کو امریکہ کے ساتھ باندھا ہوا ہے، اس کا حکمران طبقہ امریکہ سے جڑا ہوا ہے، امریکہ کی پالیسیوں سے اپنے آپ کو کسی حال میں الگ نہیں کرتے، اور امریکہ ان کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی بجائے ان کو ویانا مذاکرات کی جال میں پھنسا کر رکھتا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ "اگر کل ویانا میں کوئی ڈیل ہو جاتی ہے تو ایران نے جو بھی اقدامات کیے ہیں وہ تکنیکی طور پر واپس ہوسکتے ہیں۔"( انڈیپنڈنٹ عربی 13/6/2022 )۔ اس لیے ایران میں حقیقی تبدیلی اس وقت تک بعید از امکان ہے جب تک وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات ہمیشہ کےلیے قطعی طور منقطع نہ کردے، اور ایران میں داخلی طور پر اور خارجی طور پر اسلام کی حکمرانی نہ قائم ہو جائے ۔۔۔
ہم یہ کہتے ہیں اور ہم ایرانی سیاست دانوں میں اس بنیادی تبدیلی کے واقع ہونے کو بعید از امکان سمجھتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں:
﴿مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾
"تمہارے رب کے سامنے عذر پیش کرنے کےلیے شاید وہ ڈر جائیں"۔(الاعراف:164)
15 ذی الحج 1443 ہجری
14/7/2022