بسم الله الرحمن الرحيم
روس کایوکرین پر حملہ
اس کے محرکات اور ممکنہ اثرات
(ترجمہ)
سوال:
تمام واقعات کا بغور جائزہ لینے سے ایک بات جو واضح ہو جاتی ہے وہ یہ کہ یوکرین کا موجودہ بحران روس اور یوکرین کے درمیان صرف ایک تنازعہ نہیں ہے، دراصل یہ روس اور مغرب کے درمیان کشمکش ہے۔کچھ لوگ اس کا موازنہ نازی جرمنی کے چیکوسلواکیہ پر (1939 میں تھوڑا تھوڑا کر کے)قبضے کی پالیسی سے کرتے ہیں، جس کے بعد اس نے پولینڈ پر قبضہ کیا، یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔۔۔ کیا 24 فروری 2022 کو یوکرائن کے خلاف روس کا حملہ اور آج تک اس کا تسلسل، عالمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے؟ کیا امریکہ اور یورپ کی جانب سے فوجی مداخلت کے بغیر، صرف پابندیاں عائد کرنے کا رد عمل اس حملے کا مناسب جواب ہے؟ یا یہ روس کو یوکرائن کی دلدل میں پھانسنے کی سازش ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ بصد شکریہ
جواب:
حالات کو واضح کرنے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل معاملات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے:
پہلا: پچھلے چند دنوں کے واقعات نے کسی شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ثابت کیا ہے کہ روسی صدر 'احساس برتری' کا شکار ہے اور اس کا خیال ہے کہ موجودہ بین الاقوامی حالات میں روس ، امریکہ کے بعددنیا کی دوسری بڑی طاقت کا درجہ بحال کر سکتا ہے۔ وہ مغرب کے روس کے ساتھ معاملات میں نامناسب رویہ پر اور بین الاقوامی معاملات میں اس کے کردار کو محدود کرنے، اور نیٹو کی مشرقی جانب پھیلاؤ پر سخت تنقید کرتا ہے اور 1997 کے بعد نیٹو میں شمولیت اختیار کرنے والے ممالک یعنی پولینڈ، رومانیہ اور دیگر مشرقی یورپی ممالک ، سے امریکی فوجی اڈوں کو ہٹانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ مندرجہ ذیل واقعات اُس کی خود ساختہ عظمت کی غلط فہمی کی طرف نشاندہی کرتے ہیں:
1۔ پیوٹن نے غیر سفارتی انداز میں فرانس، جرمنی اور ایران کے رہنماؤں کا استقبال کیا۔ اُن سے پہلے اس نے ترکی کے صدر کا بھی اسی انداز میں استقبال کیا۔ ان میں سے کچھ کو روسی فتوحات کی علامتوں سے بھرے بڑے کمروں میں اس کا انتظار کرنا پڑا۔ روسی سیکوریٹی نے فرانس کے صدر میکرون سے ہوائی اڈے پر پہنچنے پر کورونا وائرس ٹیسٹ کرانے کو کہا، ملاقات کے دوران پوٹن اس سے چھ میٹر کے فاصلے پر بیٹھا رہا۔اگرچہ اُس نے قازقستان اور بیلاروس کے صدور کے ساتھ ایسا نہیں کیا، جنہوں نے اسی عرصے میں روس کا دورہ کیا۔ اُس نے جرمن چانسلر کو اشارہ کیا کہ جب وہ پریس کانفرنس ہال سے باہر نکلیں تو وہ اس کے پیچھے چلے۔
2. یوکرائن کے بارے میں پیوٹن کا واضح اور اعلانیہ نقطہ نظر یہ ہے کہ یوکرائن کوئی ریاست نہیں ہے اور روس نے اسے اپنی سرزمین ریاست بنانے کے لیے دی اور کئی دہائیوں کے دوران 150 ارب ڈالر کے ساتھ اس کی مدد کی۔ اس نے وہاں کے حکمرانوں کو" کیو [Kiev] کے اقتدار پر قابض" قرار دیا۔ یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ یوریشیائی خطے (یورپ اور ایشیا کے سنگم) کو صرف روسی علاقہ ہونے کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ یوریشیائی خطہ اور روس کو بطور اس کا مرکز دیکھتے ہوئے، روس نے قازقستان میں میں2022کے آغاز ہونے والی بغاوت پر قابو پانے کے لیے 'اجتماعی سلامتی معاہدے' [Collective Security Treaty] کے ممالک کی افواج کو قازقستان بھیجی جانے والی روسی فوج میں شامل ہونے پر مجبور کیا۔
3. فرانس اور کچھ دوسرے ممالک کی طرف سے وسیع پیمانے پر تنقید کے باوجود جنہوں نے یورپ کی سلامتی کو پہلے یورپ کے ہاتھ میں رکھنے کا مطالبہ کیا تھا، پیوٹن نے یورپ میں روس کی سیکوریٹی کی ضمانت امریکہ سے مانگ کر تمام یورپی ممالک کو انتہائی ذلت سے دوچار کردیا ۔ ان یورپی ممالک کا دعوی تھا کہ یورپ کی جانب سے سلامتی کی ضمانت کے حوالے سے، یورپی ممالک کے ساتھ رابطہ کیا جانا چاہیے تھا۔ پیوٹن نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ وہ خود کو یورپی ممالک کے برابر نہیں بلکہ امریکہ کے برابر سمجھتا ہے۔ جب میکرون نے روس کے دورے کے دوران ثالثی کی پیشکش کی تو پیوٹن نے جواب دیا کہ فرانس نیٹو کا سربراہ نہیں ہے۔
دوسرا: کریملین نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ روسی صدر پیوٹن نے اپنے فرانسیسی ہم منصب میکرون کو28 فروری2022 کو ٹیلی فون پر بات چیت میں جنگ روکنے کے لئے روس کی شرائط سے آگاہ کیا، جو یہ تھیں:"کریمیا پر روس کی خودمختاری کا اعتراف، یوکرائنی ریاست کا غیر مسلح ہونا اور نازی ازم کو ترک کرنا اور اس کی غیر جانبداری کی یقین دھانی " (فرانس پریس 28/2/2022) ۔اور ہم نے (حزب) 22 دسمبر 2021 کو دیے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا تھاکہ : "اس طرح موجودہ بحران سے پتہ چلتا ہے کہ روس کا پہلا مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پرکریمیا کے روس کا حصہ ہونے پر سوال اٹھنا بند ہوں ،بلکہ وہ چاہتا ہے کہ امریکہ اور یورپ بین الاقوامی سطح پر اس بات کو تسلیم کرلیں ۔دوسرا مقصد مشرقی یوکرائن کو یوکرائن کے کنٹرول سے باہر کرنا اور روس کا حصہ بنانا ہے،اور تیسرا اور سب سے اہم مقصد یوکرائن کو نیٹو میں شمولیت سے روکنا ہے اور اسے اس بات کی ضمانت چاہیے"۔
روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے اس پر زور دیتے ہوئے کہا: "ان کے ملک کی مسلح افواج یوکرائن میں خصوصی فوجی کارروائی اس وقت تک جاری رکھیں گی جب تک وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر لیتے۔مغربی ممالک کو سابق سوویت یونین کے ان ممالک میں فوجی تنصیبات نہیں بنانی چاہیے جو نیٹو کے رکن نہیں ہیں۔مغربی دنیا روس کے خلاف جنگ میں یوکرائنی عوام کو استعمال کر رہی ہے۔۔۔اہم بات یہ ہے کہ روس کو مغربی ممالک کی جانب سے لاحق فوجی خطرے سے بچایا جائے۔" (انادولو 1/3/2022)۔ لہٰذا یہ بحران حال ہی میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے عالمی بحرانوں میں سے ایک ہے اور یہ روس اور مغرب کے درمیان تلخ تنازعہ کا باعث بنے گا۔اور اس لئے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اپنے اہداف کے حصول سے پہلے رک جائے گا، یا دوسری صورت میں اِس کا انجام روس کے لیے بھیانک ہو گا۔۔۔اس بات کابھی امکان نظر نہیں آتا کہ مغرب ان شرائط کو قبول کرے گا۔
اس لئے موجودہ حالات نے اس بحران کی شدت کو اس حد تک بڑھا دیا کہ روس کو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دینا پڑی۔ روسی صدارتی ترجمان پیسکوف نے اعلان کیا کہ "صدر ولادیمیر پیوٹن نے روسی اسٹریٹجک ڈیٹرنس فورسز کو صاف اور واضح انداز میں جنگی بنیادوں پر الرٹ رہنے کا حکم دیا ہے۔" (ٹی اے ایس ایس 28/2/2022)۔ جس میں جارحانہ جوہری ہتھیاروں کی بجائے دفاعی جوہری ہتھیار شامل ہیں۔اسٹریٹجک ڈیٹرنس فورسز کو اسٹریٹجک جارحانہ فورس اور اسٹریٹجک دفاعی فورس میں تقسیم کیا گیا ہے۔روسی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ اس نے "اسٹریٹجک میزائل فورسز، شمالی اور بحرالکاہل کے بحری بیڑے اور اسٹریٹجک ائرفورس کو الرٹ کر دیا ہے۔"(روسی نووستی، 28/2/2022) ۔ روس نے اپنے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے الفاظ میں اپنے مطالبات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: "نیٹو ممالک کی جانب سے قانونی طور پر حفاظتی گارنٹی کا حصول روس کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔"( ٹی اے ایس ایس 1/3/2022)۔ یہی وجہ ہے کہ روس کی جانب سے اس معاملے میں اپنے اہداف سے پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جب تک کہ یوکرائنی سخت مزاحمت کا مظاہرہ نہ کریں، اور اپنی مزاحمت کو اسی طرح جاری رکھیں جیسا کہ پچھلی صدی میں افغان مجاہدین نے روس کے خلاف جدوجہد کی تھی۔
تیسرا : امریکی موقف: یہ واضح ہے کہ امریکہ نے روس کو دھوکہ دہی اور اشتعال انگیزی کے ساتھ یوکرائنی دلدل میں پھنسانے کی ہر ممکن کوشش کی:
1۔امریکہ نے روس کی جانب سے سلامتی کی ضمانتوں کے مطالبات کا جواب نہیں دیا بلکہ اسے یوکرائن میں پھنسانے کا کام کیا، چنانچہ اس نے یوکرائن کی حکومت کو اس کے مشرقی دونباس کے علاقے میں حملے کرنے پر اکسایا۔اس اشتعال انگیزی کو امریکی بیانات نے مزید ہوا دی ، جیسا کہ19 جنوری2022 کو ایک پریس کانفرنس کے دوران بائیڈن نے کہا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ (پیوٹن) چال چلیں گے، انہیں کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ اگر روس حملہ کرتا ہے تو اس کا احتساب کیا جائے گا اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کرتا کیا ہے , اگر یہ ،یوکرائن میں روس کی طرف سے ایک معمولی دراندازی ہے، تو یہ ایک الگ بات ہے اور اس کی قیمت ایک بڑے پیمانے پر حملے کے برعکس بھاری نہیں ہو گی۔" (سی این این 20/1/2022)۔ اس کے بعد یوکرائن کے ایک عہدیدار (جس کا نام امریکی نیٹ ورک نے نہیں بتایا) نے سی این این کو بتایا کہ ، "بائیڈن نے روسی صدر پیوٹن کو یوکرائن میں داخل ہونے لیے ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔کیوو (Kiev)ان بیانات پر حیرت میں ہے!"۔
2. جب یوکرائن کے خلاف روسی فوجی آپریشن شروع ہوا تو امریکی صدر بائیڈن نے اعلان کیا کہ "اگر روس یوکرائن میں مداخلت کرتا ہے تو امریکہ جوابی مداخلت نہیں کرے گا لیکن اگر وہ نیٹو ممالک میں مداخلت کرتا ہے تو وہ مداخلت کرے گا۔"اور انہوں نے اعلان کیا کہ "تقریباً 7000 امریکی فوجی جرمنی بھیجے جائیں گے۔" امریکہ اس سے قبل جرمنی، پولینڈ اور رومانیہ میں تقریباً 5,000 امریکی فوجی تعینات کر چکا ہے۔اس نے روس کے خلاف پابندیوں کے پیکیج کا بھی اعلان کیا۔بائیڈن نے کہا کہ "ہماری افواج یوکرائن میں لڑنے کے لیے یورپ نہیں گئیں بلکہ اپنے نیٹو اتحادیوں کا دفاع کرنے اور مشرقی اتحادیوں کی یقین دھانی کے لیے وہاں موجود ہیں" (الجزیرہ 24/2/2022)۔ اور بائیڈن نے سٹیٹ آف یونین کے خطاب میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: "ان کے ملک کی افواج روس کے خلاف کسی جنگ میں ملوث نہیں ہوں گی،لیکن اس سے روسی افواج کو مغرب کی طرف دوسرے یورپی ممالک کی طرف بڑھنے سے روکا جا سکے گا۔وہ نیٹو کے کسی بھی رکن ملک کے ہر انچ کا دفاع کریں گی۔ " (الجزیرہ 2/3/2022)
بائیڈن نے روسی طیاروں کے لیے نیٹو کی فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کیا جبکہ یورپی ممالک اور کینیڈا پہلے ہی اپنی فضائی حدود بند کر چکے ہیں۔امریکی صدر کے ان بیانات نے روس کو آمادہ کیا اور اسے یوکرین پر حملے کرنے اور اسے جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد نیٹو کے بیانات سامنے آئے اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نےیکم مارچ 2022 کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں پولش صدر کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران کہا "نیٹو اس تنازعے کا فریق نہیں ہوگا۔لیکن اس سے یوکرائن کو ہر قسم کی فوجی مدد ملے گی۔نیٹو کا کوئی سپاہی اس میں حصہ نہیں لے گا۔ اتحاد دفاعی ہے اور روس سے تصادم کی راہ تلاش نہیں کرتا۔ ہم یوکرائن کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی کوشش کریں گے اور نیٹو اتحادیوں نے روس پر بھاری پابندیاں عائد کی ہے۔" (انادولو 1/3/2022)۔ نیٹو کا یہ بیان بھی امریکی عزائم کی ہی ترجمانی کرتا ہے۔
3. چونکہ امریکہ روس کے ساتھ اشتعال انگیز ی سے کام لے رہا تھا۔ لہٰذا روس اپنے وزیر خارجہ لاوروف کی 24/2/2022 کو جنیوا میں امریکی وزیر خارجہ بلنکن سے ملاقات کا شدت سے انتظار کر رہا تھا، لیکن بلنکن نے یہ دورہ منسوخ کر دیا،"امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ انہوں نے، ان کے اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے درمیان طے شدہ ملاقات، ماسکو کی جانب سے مشرقی یوکرائن کے دو علیحدگی پسند علاقوں کو تسلیم کرنے اور ان میں فوج بھیجنے کے بعد، منسوخ کر دی ہے۔" بلنکن نے واشنگٹن میں اپنے یوکرائنی ہم منصب ڈمیٹرو کلیبا کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا "اب جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ حملہ شروع ہو رہا ہے اور روس نے سفارت کاری کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تو اس وقت اس ملاقات کو آگے بڑھانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔" (البیان 23/2/20)۔
اس ملاقات کے انعقاد سے پہلے ہی، مذاکرات کی اس ناکامی نے روس کو مشتعل کر دیا ۔اس کے بعد یوکرائن پر روسی حملے سے متعلق یکے بعد دیگرے امریکی انتباہات اور اشتعال انگیزیاں شروع ہوئیں، جبکہ دوسری طرف روس اعلان کر رہا تھا کہ وہ یوکرائن پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ واشنگٹن کی طرف سے ہونے والی ہر حرکت نے روس کو اس طرح مشتعل کیا جیسے وہ اسے یوکرائن پر حملہ کرنے پر اکسا رہا ہو۔امریکہ نے روس کو کئی بار یہ اعلان کرکے حملہ کرنے پر اکسایاکہ امریکہ یوکرائن میں داخل نہیں ہو گا، کیونکہ یہ مؤخر الذکر نیٹو کا رکن نہیں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکہ یوکرائن کو نئے ہتھیاروں کی ترسیل میں اضافہ کرتا رہا جو ہر روز امریکی طیاروں کے ذریعے منتقل کیے جاتے رہے جن میں امریکی سٹنگر میزائل اور اینٹی آرمر مواد شامل تھا۔
4. امریکہ نے روسی حملے کے بارے میں اپنے اعلانات میں مسلسل اضافہ کیا اور کہا کہ یہ دعویٰ وہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر خطرے کے احساس میں اضافہ ہوا۔امریکی صدر بائیڈن،ان کے سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری دفاع اور ان کے ترجمان اور یہاں تک کہ امریکی پریس کی جانب سے جاری کردہ حملے کی وارننگ کی بنیاد پر متوقع روسی حملے کے انتظار میں شدت آرہی تھی۔امریکہ نے تب یوکرائن میں جنگ کے خطرات میں مزید اضافہ کر دیا جب اس نے یوکرائن اور علیحدگی پسندوں کے درمیان متنازعہ ڈونباس خطے میں ’رابطہ لائن مشاہدہ مشن‘ میں اپنے اہلکاروں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔اور یہ امریکی ملازمین یورپی سلامتی مشن کا بھی حصہ تھے۔ روس نے ان کے انخلا سے خطرہ محسوس کیا۔روسی وزارت خارجہ کے ترجمان زخارووا نے کہا: "کچھ ممالک نے یوکرائن میں اپنے شہریوں، ملازمین اور تنظیم کے ملازمین کو ’سیکورٹی خدشات‘ کی بنیاد پر واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔" زخارووا نے مزید کہا کہ "ان فیصلوں سے ماسکو کی شدید تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔اور سلامتی مشن کو زبردستی امریکہ کے جنگی خبط میں گھسیٹا جا رہا ہےاور اس کا استعمال جان بوجھ کر ممکنہ اشتعال انگیزی کے لیے کیا جا رہا ہے۔" (صدا البلاد، 13/2/2022)۔ روس نے دیکھا ہوگا کہ امریکہ ڈونباس میں انتہائی حساس تنازعہ کو بھڑکانا چاہتا ہے۔وہ تنازعہ جو 2015 سے منجمد ہے۔
5. ایک طرف امریکہ کی روس کے لئے اشتعال انگیزیوں میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف امریکہ نے اعلان کیا کہ اس نے روس سے قدرتی گیس کے متبادل کے طور پر براعظم یورپ کی گیس کا مسئلہ تقریباً حل کر لیا ہے،جس کو جنگ کی صورت میں روس کی طرف سے منقطع ہونے کی توقع تھی یا اس کی یوکرائنی سپلائی پائپ لائنیں جنگ سے متاثر ہوسکتی تھیں، جس کا دوسرا مطلب تھاکہ روس کو یورپی منڈی سے محروم کرنا اور امریکی اور قطری گیس کو یورپ اور ایشیا کے درآمد کنندگان، خصوصاً جاپان کے لیے متبادل کے طور پر پیش کرنا، جس نے روس کے ساتھ گیس کے فیوچر کنٹریکٹ کر رکھے ہیں۔اور یہ سب ہلکی سردی اور آنے والی بہار کے موسم میں کیا گیا، جب قدرتی گیس کی ضرورت کم تھی۔۔۔اسی طرح روس کے مشرقِ بعید میں بھی بہت خطرناک واقعات رونما ہوئے۔روسی فوج نے اعلان کیا کہ ایک امریکی جوہری آبدوز جزائر کوریل میں روسی سمندری حدود میں داخل ہوئی اور وہ روسی انتباہات کو خاطر میں نہیں لائی۔ اور یہ کہ روسی بحری جہازوں نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کے لیے سخت طریقے استعمال کیے۔اس آبدوز کو روسی سمندری حدود سے باہر دھکیلنے کے عمل میں 3 گھنٹے لگے۔ جزائر کوریل جاپانی جزائر ہیں جن پر دوسری جنگ عظیم کے دوران روس نے قبضہ کیا تھا اور جاپان اب بھی ان پر دعویٰ رکھتا ہے لیکن روس نے اب تک اس کے ان دعووں پر کوئی دھیان نہیں دیا جس کی وجہ سے ٹوکیو نے 1945 سے اب تک روس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ، جاپان سرکاری طور پر 1945 سے اب تک روس کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔اس واقعے کے نتیجے میں امریکی عزائم سے روس کا خوف بڑھ گیا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکہ جاپان کو جزائر کوریل پر قبضہ کرنے کی طرف دھکیلے گا؟
6. معاملات اسی طرح اشتعال انگیزی میں اضافے کی سمت جاری رہیں گے۔جب تک روس یوکرائنی دلدل میں بری طرح پھنس نہیں جاتا ،اُس وقت تک اس میں قدم بہ قدم اضافہ ہوگا۔اُس وقت تک امریکی اشتعال انگیزی، برطانوی اور یورپی اشتعال انگیزیوں کے ساتھ جاری رہے گی مثلاً جرمنی ایک طرف نورڈ اسٹریم منصوبے کو بند کر رہا ہے اور دوسری جانب امریکہ، روس کو یوکرائن میں جنگ جاری رکھنے کی وجہ فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ روس کے لیے بلاواسطہ خطرہ نہیں بننا چاہتابلکہ وہ صرف پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ ظاہر کررہا ہے۔ اس کے سیکریٹری خارجہ بلنکن روسی فوجی تیاریوں کو یوکرائن پر "کامیاب" حملے کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف یوکرائن نے نیٹو میں شمولیت کے مطالبات میں اضافہ کر دیا ہے اور اسی طرح یوکرائن نے مغرب سے مزید اسلحہ کی فراہمی کے مطالبات میں بھی اضافہ کیا ہے جس سے روس کو لاحق خطرات میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور اس کے اس دلدل میں پھنسنے میں تیزی آتی ہے۔ یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ یوکرائن پر حملہ،جنگ اور اس کیچڑ میں مکمل دھنسنا، روس کے لیے واحد راستہ نہیں رہ جاتا۔امریکہ یہی چاہتا ہے جس کے لیے وہ یوکرائن کو روس کے سامنے چارہ کے طور پر رکھ رہا ہے۔ایسا مشکل نظر آتا ہے کہ روس اپنے احمقانہ منصوبے کے تانے بانے بنتے ہوئے اس جال میں پھنسنے سے بچ جائےگا۔
چوتھا: یورپی موقف: یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے جوزیف بوریل نے22 فروری 2022 کو کہا کہ "یہ یورپ کے لئے سیاہ دن ہے، جس دن روس نے ڈونیٹسک اور لوہنسک کے علاقوں کو آزاد علاقہ تسلیم کیا۔" برطانوی وزیر اعظم جانسن نے چند روز قبل کہا تھا کہ "اب روس کے ساتھ ایک نیا اسٹریٹجک مقابلہ شروع ہو گیا ہے جو نسلوں تک پھیل سکتا ہے۔ ان سب باتوں سے تمام امکانات کا دروازہ کھل جاتا ہے اور جوہری خطرات کو خارج از امکان نہیں کہا جاسکتا۔"
اس کے باوجود یورپ نے صورتحال کو پرسکون کرنے اور روس کے ساتھ معاہدے پر پہنچنے کی کوشش کی ہے اور فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے اس سے بات چیت کی کوشش کی ۔ چنانچہ فرانسیسی صدر میکرون نے ماسکو کا دورہ کیا اور انہوں نے یوکرائن میں روسی فوجی کارروائی کے بعد پوٹن سے کئی بار فون پر بات کی۔ ایلیسی پیلس نے اعلان کیا کہ میکرون نے "بات چیت میں دہرایا کہ عالمی برادری نے یوکرائن پر روسی حملے کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا کہ فوری جنگ بندی لازم ہے، شہریوں اور ان کی رہائش گاہوں پر تمام حملوں کو روک دیا جائے گا، تمام شہری بنیادی ڈھانچے محفوظ رکھے جائیں اور سڑکوں کو محفوظ بنایا جائے ، خاص طور پر کیوو کے جنوبی روڈ کو۔" (فرانس پریس 28/2/2022) ۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے بھی ماسکو کا دورہ کیا اور پوٹن سے تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ"ہم جرمنز بلکہ تمام یورپیوں کے لیے اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ روس کے خلاف مستحکم سلامتی حاصل نہیں کی جاسکتی سوائے اس کے کہ وہ ساتھ ہو۔۔۔ یہی وہ بات ہے جس پر روسی صدر اور ہمارا اتفاق ہوا ہے، تاہم یورپ میں موجودہ بحران کے حل کے مواقع اب بھی موجود ہیں۔" (رشیا ٹوڈے، 15/2/2022)۔
اس سب کے باوجود یورپ پہلے ہی یوکرائن کے بحران میں پھنس چکا تھا جیسا کہ امریکہ چاہتا تھا۔یورپ کو یوکرائن کی مکمل حمایت اور مدد کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا گیا ، یہ مدد اس نے فوجی سازوسامان اور جدید ہتھیاروں اور روس پر مختلف شعبوں میں پابندیاں عائد کر کے کی، جو بغیر ایک بھی فوجی بھیجے ہمہ وقت جنگ شروع کرنے کے مترادف ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے26 فروری 2022 کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کہا کہ "یوکرائن کے خلاف روسی جارحیت ایک اہم موڑ ہے، اس سے دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والی پر امن صورتحال کو خطرہ لاحق ہے۔۔۔اس صورت حال میں ہمیں اپنی طرف سے یوکرائن کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنی ہوگی تاکہ وہ حملہ آور پیوٹن کی بے ہودگی کے خلاف دفاع کر سکے۔ جرمنی نے ایک ہزار راکٹ لانچر اور 500 سٹنگر زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل بھیجنے کا فیصلہ کیا۔" شولز نے جرمن پارلیمنٹ سے کہا کہ "یوکرائن پر حملے کے ساتھ ہم ایک نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔۔ جرمنی اب سے ہر سال اپنے دفاعی شعبے میں اپنی جی ڈی پی کے 2 فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری کرے گا۔ ہم اس سال فوجی سازوسامان میں 100 ارب یورو کی سرمایہ کاری کریں گے۔ اس کا مقصد مضبوط اور جدید فوج کا ہونا ہے، جو قابل اعتماد طور پر ہماری حفاظت کرنے کے قابل ہو۔"(فرانس پریس 27/2/2022)۔ روسی فوجی کارروائی کے بعد انہوں نے نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن پر کام معطل کرنے کا اعلان کیا جو روس سے بحیرہ بالٹک کے راستے جرمنی تک پھیلی ہوئی ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ تعلقات اور سلامتی کے افسر جوزیف بوریل نے27 فروری 2022 کو کہا کہ "یونین نے یوکرائن کو فوجی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں 450 ملین یورو مالیت کے ہتھیار اور 50 ملین یورو مالیت کے حفاظتی آلات شامل ہیں۔جس کے لیے رقم ’یورپی امن کے فنڈ‘ اور بین الحکومتی فنڈ سے ادا کی جائے گی۔" (انادولو 28/2/2022) برسلز میں یورپی یونین کے ہنگامی اجلاس میں یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے کہا کہ "پابندیوں کا اثر ہم پر بھی پڑے گا لیکن یہ ہماری آزادی کے دفاع کی واجب الادا قیمت ہے۔" یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزیف بوریل نے کہا: "ہم اپنے سامنے یورپ کے لئے ایک نئے جیوپولیٹیکل حالات کو رونما ہوتا دیکھ رہے ہیں۔آج یورپ کو جس تباہی کا سامنا ہے وہ اُسے پہلے سے کہیں زیادہ متحد ہونے اور تعاون کرنے پر مجبور کرتی ہے۔" یورپی کمیشن کے صدر ارسولا وون ڈیرلیئن نے کہا کہ "یوکرائن کی جنگ سے یورپ کی بقا خطرے میں ہے۔" (الجزیرہ 1/3/2022)
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ اس جنگ میں ملوث ہو چکا ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے موجود امن کی حالت کو یکسر بدل دیا اور اسے مستقل روسی خطرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور گیس اور تیل جیسے توانائی کے وسائل کے نقصان کی وجہ سے اسے ایک بڑے معاشی چیلنج کا سامنا ہے ۔یورپی یونین کو تقریباً 40 فیصد گیس اور 27 فیصد تیل روس سے ملتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یورپ اس کی طرف رجوع کرے اور اس کی زیادہ قیمت اور کم معیار والی گیس پر انحصار کرے۔ نورڈ اسٹریم 2 پائپ لائن نے یورپ کی بیرونی طلب کا ایک تہائی فراہم کرنا تھا وہ بھی اُس لاگت پر جو تقریباً 25 فیصد کم تھی۔ پیوٹن نے اپنی آخری ملاقات میں جرمن چانسلر شولز کے ساتھ پریس کانفرنس میں، جرمنوں پر اپنے احسانات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:" جرمن صارف چاہے وہ صنعتی ہو یا گھریلو ، روس سے(موجودہ قیمت سے) پانچ گنا سستی قیمت پر گیس وصول کرتا ہے، لہٰذا جرمن شہری کو اپنے بٹوے میں جھانکنا چاہیے کہ کیا وہ 3 سے 5 گنا زیادہ قیمت پر گیس خریدنے کے لئے تیار ہے؟یہی وجہ ہے کہ انہیں سابق جرمن چانسلر شروڈر کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے نورڈ اسٹریم 1 منصوبے کی حمایت کی تھی، جس کے ذریعے جرمنی کو تقریباً 55ارب کیوبک میٹر گیس ملتی ہے اور یہ گیس فیوچر کنٹریکٹ پر فراہم کی جاتی ہے۔" (روس ٹوڈے، 15/2/2022)۔ پیوٹن نے کہا کہ جرمنی کے پاس روسی مارکیٹ کا 60 فیصد حصہ ہے۔ پیوٹن نے یہ کام صرف یورپ کو روس کے ساتھ تعاون کرنے اور امریکی جانب سے اس کے خلاف کھڑے نہ ہونے اور اسے یقین دلانے کے لئے کیا کہ روس وسائل کا پیاسا نہیں ہے۔ اس طرح روس خود کو یورپ کی طرف سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔
پانچواں: چینی موقف: چین اس معاملے پر روس کے قریب ہے۔ چین نے یہ اعلان کرکے روس کی حمایت کی ہے کہ مغربی ممالک کو روس کے سلامتی کے مطالبات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔یوکرائن کے بارے میں روس کی پالیسی کے لئے بین الاقوامی حمایت کو متحرک کرنے کے لیے روسی صدر پیوٹن نے بیجنگ (سرمائی کھیلوں) کا دورہ کیا اور چینی صدر سے2 فروری 2022 کو ملاقات کی۔ اور چین نے روسی صدر پیوٹن کے ساتھ اپنے صدر کے دستخط شدہ مشترکہ بیان میں اعلان کیا کہ وہ یوکرائن کے نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کرتا ہے۔ دونوں ممالک (روس اور چین) نے امریکی بالادستی کے سامنے اپنے متحدہ موقف کا اعلان کیا اور بین الاقوامی کثیر قطبیت (International Multipolarity)کا مطالبہ کیا، اور کہا کہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ انہوں نے چین کے لئے روس کی گیس اور تیل میں سرمایہ کاری کے بڑے معاہدوں پر دستخط کیے۔ اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھانے اور اسے 200 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانے کے ازم کا اعادہ کیا۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ چین کی اس معاملے پر کڑی نظر ہے کہ یوکرائن میں روس کی صورتحال کس کروٹ بیٹھتی ہے اور کیا وہ تائیوان کے ساتھ الحاق کے لیے بھی ایسا ہی قدم اٹھا سکتا ہے۔ چین میں ابھی سے آوازیں اٹھنے لگیں ہیں کہ "یہ تائیوان کو واپس لینے کا یہ بہترین موقع ہے۔"
چین نے روس کے خلاف پابندیوں کو مسترد کر دیا ہے تاکہ اگر وہ طاقت کے ذریعے تائیوان پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اسی طرح کے سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن اس نے روسی طاقت کے استعمال کی مذمت میں قرارداد کے مسودے کو ویٹو کرنے سے گریز کیا۔ اس نے روس کے خلاف مغربی مہم سے بچنے کے لئے ووٹ نہ دینے کا انتخاب کیا۔ جب اس نے روس کی مذمت کی قرارداد کے مسودے کو ویٹو نہیں کیا تو ایسا دکھائی دیا کہ وہ روس کی حمایت نہیں کر رہا ۔
غور طلب بات ہے کہ اس نے یعنی چین نے یوکرائن پر حملہ کرنے پر روس کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا، ساتھ ہی وہ استحکام اور علاقائی سالمیت کے اصولوں کو بھی سراہتا ہے۔ اپنے یوکرائنی ہم منصب کے ساتھ بات چیت میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا، "موجودہ بحران کے بارے میں چین، دونوں فریقوں، یوکرائن اور روس، سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اسے حل کرنے کے لیے راستہ تلاش کریں اور سیاسی تصفیے کے لیے تمام تعمیری بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کریں۔" (ٹی اے ایس ایس 1/3/2022)۔ چینی وزیر خارجہ نے پابندیوں کے خلاف اپنے ملک کی مخالفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چین نہ صرف مسائل کے حل کے لیے پابندیوں کی حمایت نہیں کرتا بلکہ ان یکطرفہ پابندیوں کی سخت مخالفت کرتا ہے جو بین الاقوامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ (ٹی اے ایس ایس 27/2/2022)۔
چھٹا: نتیجہ:
1- امریکہ نے روس کو یوکرائن پر مکمل یا تقریباً مکمل حملے میں ملوث کرنے میں "کامیابی" حاصل کی ہے۔ اس سے روس کو مقامی تناؤ اور سیاسی، معاشی خلفشار کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ برسوں تک فوجی طور پر نقصان اٹھا سکتا ہے ۔ چاہے وہ مشرقی یوکرائن پر قبضہ کرنے پر قناعت کرے یا اس سے آگے یوکرائن میں بڑے علاقے پر قبضہ کرے یا تمام یوکرائن پر۔۔۔ اور یہ بات بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ اس سے پیوٹن کا اقتدار میں تسلسل متاثر ہو۔
2- اسی طرح روس کی بین الاقوامی صورتحال بھی اس ہنگامہ آرائی سے متاثر ہوگی، اگرچہ اسے گرنے کی حد تک نا بھی پہنچایا جا سکا، تب بھی امریکی اور یورپی دباؤ کے تحت بین الاقوامی مہم میں توسیع ہوئی ہے تاکہ اس بات کو اجاگر کیا جا سکے کہ روس خود مختار ممالک پر حملے کر رہا ہے جبکہ امریکہ اور یورپ خود یہ بھول گئے ہیں یا اسے بھلانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے خود ماضی قریب میں ایشیا اور افریقہ کے بہت سے خود مختار ممالک پر حملے کیے ہیں۔ یہ تمام ممالک، روس، امریکہ اور یورپ سب کی بنیاد ایک ہی ہے، ان میں سے کوئی بھی انسانی زندگی کی قدر نہیں کرتا۔
3- جہاں تک اس حقیقت کا تعلق ہے کہ یہ حملے تیسری جنگ عظیم کا باعث بنیں گے،جیسا کہ دوسری جنگ عظیم سے قبل 1939 میں نازی جرمنی کے چیکوسلواکیہ پر حملے اور اس پر آہستہ آہستہ قبضہ کے بعد ہوا، جیسا کہ سوال میں کہا گیا ہے، یہاں معاملہ کچھ مختلف ہے۔۔۔ موجودہ تنازعہ کا وقوع ایک جوہری جنگ سے لازم و ملزوم ہے کیونکہ یہ ہتھیار ان ممالک (روس، امریکہ، برطانیہ، فرانس)میں موجود ہیں اور وہ اس پر عمل درآمد سے پہلے ہزار بار اس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، اس لئے نہیں کہ یہ دوسروں کو تباہ و برباد کرسکتا ہے، اس بات کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں، بلکہ اس لئے کہ یہ ان پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے، لہٰذا ان کا معیار منفعت ہےچاہے اس سے دوسروں کو نقصان پہنچنے۔ الجزیرہ نے2 مارچ 2022 کو روسی وزیر خارجہ لاوروف کا ایک انٹرویو شائع کیا اور تیسری جنگ عظیم کے خطرے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں لاوروف نے کہا کہ "پانچ مستقل اراکین کے رہنماؤں نے ایک اعلان پر دستخط کیے کہ جنگ عظیم نہیں پھوٹنی چاہئے، کیونکہ یہ جوہری ہوگی اور اس میں کوئی بھی فاتح نہیں ہوگا،اور اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ یہ امریکی صدر جو بائیڈن ہی تھے جنہوں نے کہا تھا کہ روس کے خلاف پابندیاں تیسری جنگ عظیم کا واحد متبادل ہیں۔" لاوروف کے ملک کو جوہری پلانٹ پر بمباری کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، جب تک کہ اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان ان کے ملک سے بہت دور اور دوسروں کے قریب ہو۔الجزیرہ نے اسی دن خبر نشر کی کہ سب سے نمایاں واقعہ جس کا مشاہدہ جوہری پلانٹ ، جو Zaporizhzhia کے شہر کے قریب ہے، کیا جا سکتا ہے اور جہاں یوکرائن کی حکومت نے روس پر حملے کا الزام لگایا تھا کہ روسی بمباری کے نتیجے میں پلانٹ میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس پر بعد میں قابو پا لیا گیا، اس حملے کے نتیجے میں وہاں کے ملازمین کی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ جبکہ روسی وزارت دفاع نے یوکرائنی افواج پر اس کا ذمہ دار ہونے کا الزام لگایا۔ (الجزیرہ 4/3/2022)
4- یہ سب آج دنیا کے بڑے ممالک ہیں، جنگل کے درندوں کی مانند ، جہاں طاقتور کمزوروں کو کھاتا ہے، اور اگر کمزور مدد کے لئے پکارے تو کوئی مدد نہیں کرتا۔۔۔۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور آج بڑی طاقتوں کی آپس کی کشمکش ماضی کی فارسیوں اور رومیوں کے درمیان تنازعہ کو دہراتی ہے۔ اس معاملے کا جواب وہی ہے جو تب تھا یعنی اللہ کے نازل کردہ کے ساتھ حکمرانی اور اللہ کی راہ میں جہاد۔ اسی سے کمزوروں کی حفاظت ہوتی ہے اور مظلوموں کو انصاف ملتا ہے اور پھر خلافت، جو رسول اللہﷺ کی خوشخبری ہے، لوٹ آئے گی: «ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»"پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت واپس آئے گی۔"
اور خلافت میں طاقتور اس وقت تک کمزور ہوگا جب تک اس سے حق لے نہ لیا جائے جیسا کہ خلیفہ الراشد ابو بکر الصدیقؓ نے کہا ہے, کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال میں عبداللہ بن عقیم کی روایت میں ہے کہ آپؓ نے فرمایا: جب ابو بکر کو بیعت کا عہد دیا گیا تو وہ ممبرِ رسول پر چڑھے لیکن نبیؐ کی نشست سے ایک قدم نچلے درجہ پر بیٹھ گئے۔ آپؓ نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تعریف کی اور فرمایا:... وان اقوامکم عندی الضعیف حتی اخذ لہ بحقہ، وان اضعفکم عندی القوی حتی آخذ الحق منہ"۔۔۔تم میں سے سب سے زیادہ طاقتور میرے آگے سب سے زیادہ کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق نہ لے لوں اور تم میں سے سب سے کمزور میرے آگے سب سے مضبوط ہے جب تک کہ میں اسے اس کا حق نہ دے دوں۔ "
یہی وہ وجہ ہے جس سے دارالسلام میں خیر پھیلتا ہے۔
وَيَوْمَئِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُـوْنَ ٓ بِنَصْرِ اللّـٰهِ ۚ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَآءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِـيْمُ
"اور اس دن ایمان والے خوش ہوں گے ٓ االلہ کی مدد سے، اللہ مدد کرتا ہے جس کی چاہتا ہے، اور وہ غالب رحم والا ہے۔"(الروم: 4-)
1 شعبان 1443ھ
4 مارچ 2022ء