بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب:
روس کے شہر سوچی میں اردگان اور پیوٹن کی سربراہی کانفرنس
(عربی سے ترجمہ)
سوال:
بدھ 29 ستمبر 2021کو روس کے شہر سوچی میں اردوگان اور پیوٹن کے درمیان ایک سربراہ اجلاس منعقد ہوا۔ ترک صدر ایک وفد کے سربراہ تھے جس میں انٹیلی جنس سروس کے سربراہ حاقان فدان اور صدارتی محکمہ مواصلات کے سربراہ فہرتین التون اور صدارتی ترجمان ابراہیم کلین شامل تھے ، اس وفد میں ان کا کوئی وزیر نہیں تھا!
["یہ بات قابل ذکر تھی کہ 3 گھنٹے تک جاری رہنے والی یہ ملاقات بند دروازوں کے پیچھے ہوئی اور کریمِلن کے ایسے دوروں کے پروٹوکول کے برعکس، دونوں صدور نے آخر میں مشترکہ پریس کانفرنس نہیں کی ۔ اس کے علاوہ دونوں صدور نے کوئی حتمی بیان بھی جاری نہیں کیا"(الاشرق الاوسط30 ستمبر 2021)]۔ اس دورے کی وجوہات کیا ہیں؟ اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
جواب:
مندرجہ بالا سوالات کے جوابات کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل معاملات کا جائزہ لینا ہوگا:
1- امریکہ کے موجودہ مفادات کا مشاہدہ کرنے سے یہ واضح ہے کہ وہ اپنی کوششوں کو چین کی طرف مرکوز کر رہا ہے۔ وہ خود کو چین کیلئے فارغ رکھنے کے لئے مشرق وسطیٰ سے انخلا کا ارادہ رکھتا ہے، وہ خطے میں اپنے ایجنٹوں کو وہ کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپے گا جو وہ چاہتا ہے۔ اس پالیسی پر ٹرمپ انتظامیہ کی آمد سے کچھ قبل ہی سے عمل درآمد شروع کیا گیا کیونکہ امریکی پالیسی میں تبدیلی آئی تھی۔ امریکہ چین کے گرد اپنی سیاسی اور فوجی افواج کو متحرک کر رہا تھا لہذا اس نے ترکی جیسے اپنے ماتحت ممالک کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا۔ اسی پالیسی کے تحت ٹرمپ انتظامیہ نے شام، لیبیا، مشرقی بحیرۂ روم اور دیگر علاقوں میں ترکی کو یہ کردار دیا۔ ترکی کے لئے اس نئے کردار کے ساتھ امریکہ نے عملی طور پر خود کو شامی بحران کے غور و خوض سے الگ کرکے اسے ترکی اور روس کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس طرح آستانہ اور جنیوا میں ترک-روس مذاکرات سامنے آئے اور ترک فوج شمالی شام میں داخل ہو گئی۔
2- بعد میں ڈیموکریٹس کی جانب سے اپنائے گئے سیاسی خیالات کی وجہ سے بائیڈن دور کے آغاز کے ساتھ ہی ترکی کا یہ کردار کم ہو گیا۔ امریکی صدر بائیڈن اور ترک اردگان کے درمیان پہلی فون کال23 اپریل 2021 کو یعنی کافی دیر سے ہوئی تھی، یعنی بائیڈن کے واشنگٹن میں صدارت سنبھالنے کے تین ماہ بعد۔ فون کال میں 14 جون 2021 کو برسلز میں ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر دونوں ممالک کے مابین اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق ہوا اور ان کے درمیان اختلافات کے واضح اشارے میں امریکی صدر نے ترک سربراہ سے رابطے کے ایک دن بعد ہی واضح کردیا کہ ترکی نے جسے آرمینیائی قتل عام کا نام دیا ہے، وہ دراصل نسل کشی ہے۔ بائیڈن نے اردگان کو آپس کی فون کال میں ہی بتادیاکہ وہ اس بات کا اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے نتیجے میں ترکی اور اردوگانبے چین اور غصے میں تھے لیکن یہ سارا شورشرابا میڈیا کی روشنی میں رہا اور جب ان کے درمیان 14 جون 2021 کو برسلز میں نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر بند کمرے میں ملاقات ہوئی تو افغانستان کے بارے میں ان کا معاہدہ سامنے آیا، اور اردگان نے اس کام پر خوشی کا اظہار کیا۔ "اردگان نے اشارہ دیا کہ اس نے بائیڈن کے ساتھ افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور اردوگان نے کہا کہ ہم تیار ہیں، ہم افغانستان میں طالبان کو نظر انداز نہیں کر سکتے، اگر ہمیں امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو ہم ان سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں..." (سی این این عربیہ،14 جون 2021)]، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جو چیز زیادہ اہم تھی وہ شام سے انخلا کا معاملہ ہے، خاص طور پر روس کے ساتھ انخلا کے بارے میں بات چیت میں ترکی کا کردار...
3- اس وقت امریکہ کے لیے سب سے پیچیدہ انخلا شام کا ہے کیونکہ یہ مسئلہ صرف اس سے متعلق نہیں ہے۔ اس میں ایران، ایرانی جماعت، ترکی اور سب سے بڑھ کر روس شامل ہیں جسے 29 ستمبر 2015کو اوبامہ کی پیوٹن سے ملاقات کے دوران امریکہ کے حکم پر شام میں لایا گیا تھا۔ ان تمام چیزوں کیلئے کچھ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ امریکہ اپنی افواج واپس بلانے سے پہلے دوسروں خصوصاً روس کے مکمل انخلا کو یقینی بنائے، خاص طور پر اس لئے کہ اس نے کردوں میں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کی حمایت کرتا ہے اور انہیں افغانستان کی طرح تنہا نہیں چھوڑے گا. ]شامی ڈیموکریٹک فورسز کے کمانڈر ان چیف مزلوم عبدی نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے وعدہ کیا تھا کہ گزشتہ ماہ افغانستان سے دستبرداری اختیار کرنے کے بعد امریکہ شام میں اپنے کرد اتحادیوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا ۔ الحساکہ کے قریب اپنے ہیڈ کوارٹر سے عبدی نے 'دی ٹائمز' کو بتایا، "انہوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ یہ افغانستان نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں 'امریکی' پالیسی بالکل مختلف ہے۔ (آر ٹی، 28 ستمبر 2021)[
4- امریکہ واپس نہیں جانا چاہتا جبکہ روس وہاں موجود رہے، خاص طور پر جب روس امریکی پالیسی اور چین پر ساری توجہ مرکوز کرنے سے تنگ آگیا ہے اور روس ایک سے زیادہ جگہوں پر چین کے قریب آ رہا ہے، لہٰذا یہ غالب امکان ہے کہ16 جون 2021 کو جنیوا میں دونوں صدور، امریکی بائیڈن اور روسی پیوٹن کی ملاقات کے دوران امریکہ روس پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ چین سے دور ہو جائے اور امریکہ کے قریب آئے۔۔۔ اگرچہ امریکہ شام سے دستبردار ہونے اور اس کی طرف سے معاملات کو سنبھالنے کی ذمہ داری اپنے ایجنٹوں کو تفویض کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ امریکہ شام سے اپنی افواج کو مستقل طور پر واپس بلا لے اور اپنے ایجنٹوں کو اس خلا کو پُر کرنے کی ذمہ داری سونپے اور خود کو چین پر مرکوز کرلے، روس کا انخلا امریکہ کے لئے ایک اہم معاملہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ روس کو اپنا ہم پلہ نہیں بنانا چاہتا، لہذا اس نے روس سے شام سے انخلا کے معاملے پر براہ راست بات نہیں کی، بلکہ اردگان کو ہدایت کی کہ وہ اُس مسئلے پر روس سے اِس بنیاد پر بات کرے یعنی یہ کہ امریکہ روس کو اتنی عزت بھی نہیں دیتا کہ وہ شام سے انخلا کے منصوبے پر براہ راست بات چیت کریں، خاص طور پر اس کے بعد کہ امریکہ کو یقین دلایا گیا ہے کہ اس کے ایجنٹ بشار نے اردن، شام اور لبنان کے ذریعے مصری گیس کی ترسیل کے لئے بات چیت کے بعد خطے کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا ہے، اور امریکہ اس پر اس وقت تک بھروسہ کر سکتا ہے جب تک کہ اسے اس کا مناسب متبادل نہ مل جائے۔
اس طرح امریکہ نے اردگان کو روس کے ساتھ شام سے روس کے انخلا کے معاملے پر بات کرنے کا کام سونپا۔ اردگان نے کہا کہ وہ 29 ستمبر کو پیوٹن سے ملاقات کرے گا جس میں دو طرفہ تعلقات اور شام کے صوبے اِدلب میں تازہ ترین پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ایک پریس بیان میں اردگان نے کہا: "پیوٹن کے ساتھ میری ملاقات کسی تیسرے شخص کی موجودگی کے بغیر دو طرفہ ہوگی اور یہ صرف ادلب کی صورتحال تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ہم شام کی عمومی صورتحال، اس ملک میں ہم جو اقدامات اٹھائیں گے اور دو طرفہ تعلقات پر بھی بات کریں گے"۔ اردگان نے اشارہ دیا کہ ترکی اور روس خطے کے اہم ممالک ہیں اور انہوں نے نشاندہی کی کہ پیوٹن ایک سیاستدان ہیں اور انہوں نے آذربائیجانی آرمینیائی تنازعہ کے حل میں یہ ثابت کیا(الجزیرہ نیٹ، 28ستمبر 2021) ۔ اردگان، جس کے ساتھ قومی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ ہاکن فدان بھی تھے، نے روسی شہر سوچی میں صدر پیوٹن سے ملاقات سے قبل کہا: "شام میں امن ترکی اور روس کے درمیان تعلقات سے جڑا ہوا ہے اور دونوں ممالک مل کر جو اقدامات اٹھاتے ہیں وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں"(انادولو ایجنسی،29 ستمبر 2021)۔
5- روس نے اس بات کو محسوس کیا اور اسے اپنی توہین سمجھا کہ امریکہ کی براہِ راست بات چیت کی بجائے اردگان اس کے ساتھ شام سے انخلا کے معاملے پر بات چیت کررہا ہے، خاص طور پر اس لئے کہ اسی نے روس کو شام میں متعارف کرایا تھا، لہذا اب وہ اس سے براہ راست انخلا کے معاملے پر کیسے بات نہیں کررہا، بلکہ اردگان کو یہ ذمہ داری سونپ دی؟! اسی مناسبت سے اس نے اسے توہین سمجھا، خصوصاً جب پیوٹن امریکہ کو دنیا کے ایک بڑے بااثر ملک کے طور پر ظاہر کرنا چاہتا ہے! اس لئے روس نے اردوگان کے بارے میں موقف اختیار کیا کہ وہ ترکی کو سبق سکھائے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کو یہ پیغام بھی دے کہ وہ واپس آکر اس مسئلے پر بات چیت کرنے پر رضامند ہو یعنی براہ راست انخلا پر بات ہو:
ا۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بدھ کے روز اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردگان کی اپنے ملک آمد کو نظر انداز کر دیا اور ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کرنے کے بجائے سوچی کے میئر الیکسی کوبایگورودسکی اور کراسنودر علاقے کے ڈپٹی گورنر الیگزینڈر رباول کو اس سے ملنے کے لیے بھیج دیا۔ روسی وزارتِ خارجہ، ماسکو میں ترک سفیر ایگور بوگادشیف، نووروسیسک کے قونصل جنرل محمد سیمسر، فرات بیار اور ترک سفارت خانے کے ملازمین نے ہوائی اڈے پر اردگان کا استقبال کیا۔ (ترکی ناؤ 29 ستمبر 2021)۔
ب۔پیوٹن نے پراوڈا اخبار کو اردگان کو غریب آدمی قرار دے کر ان کی توہین کرنےکی ہدایت بھی کی! یہ معلوم ہے کہ پراوڈا ایک روسی اخبار ہے جو سوویت دور میں گردش میں آنے والے دنیا کے سب سے بڑے اخبارات میں سے ایک تھا اور اب یہ کریملین کے ساتھ قربت رکھنے والے معروف اخبارات میں سے ایک ہے: [روسی اخبار پراوڈا جو کریملین سے قربت رکھتا ہے ، نے ترک صدر رجب طیب اردگان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں غریب قرار دیا، سوچی کے دورے سے قبل مذمتی الفاظ پر مشتمل ایک مضمون میں اور اخبار پراوڈا میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں روسی صحافی الیگزینڈر سٹرام نے کہا کہ "غریب شخص کے دوبارہ منتخب ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے"۔ (ترکی ناؤ 29 ستمبر 2021)]] ۔
6- اس لیے پیوٹن اور اردگان کے درمیان ملاقات شروع سے آخر تک بلکہ شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام رہی! ایسا لگتا ہے کہ اردگان اس کی توقع کر رہا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اجلاس میں حاضری بہت محدود ہو یعنی ان کے اور پیوٹن کے درمیان اور ناکامی سے واقف لوگوں کا دائرہ وسیع نہ ہو اور یہی ہوا۔اس طرح اس ملاقات سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور وہ خالی ہاتھ گیا، یہاں تک کہ میٹنگ کے بعد روایتی طور پر ہونے والی پروٹوکول پریس کانفرنس بھی نہیں ہوئی! [روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردگان کی ملاقات آج بدھ کو روسی شہر سوچی میں پریس کانفرنس کیے بغیر اختتام پذیر ہو رہی ہے۔ تین گھنٹے کی ملاقات کے بعد فریقین نے نتائج یا مفاہمت کا اعلان نہیں کیا، سوائے سفارتی بیانات کے جن میں اجلاس کے مواد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ سیاسی تجزیہ کار درویش خلیفہ نے العربیہ الجدید کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس سے کسی بھی نتیجے کا اعلان نہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان کوئی اتفاق نہیں بلکہ اختلافات ہیں، یہی وجہ ہے کہ کوئی پریس کانفرنس نہیں ہوئی۔ خلیفہ نے مزید کہا کہ شامی فائل اس ملاقات کی بنیاد ہے نہ کہ یوکرائن یا لیبیا جیسے کچھ لوگوں نے کہا ہے۔ (العربی الجدید30 ستمبر 2021)]۔
7- جہاں تک اکتوبر کے آخر میں جی 20 سربراہ اجلاس کے موقع پر بائیڈن کے ساتھ اردگان کی طے شدہ ملاقات کا تعلق ہے، [ترک صدر رجب طیب اردگان اگلے اکتوبر میں ہونے والے جی-20 رہنماؤں کے سربراہ اجلاس کے دوران اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے ساتھ دو طرفہ ملاقات کریں گے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اردگان سربراہی اجلاس کے موقع پر اپنے امریکی ہم منصب بائیڈن سے ملاقات کریں گے۔ (اناطولیہ ایجنسی، 28 ستمبر 2021)]۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ پیوٹن کے ساتھ اردگان کی ملاقات کی ناکامی کے بعد اگلے قدم کے بارے میں سوچ رہا ہے!
توقع کی جاتی ہے کہ اگر امریکہ چین کے بارے میں روس کے موقف پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے یعنی روس کو چین کے خلاف اپنے سے قریب تر کر سکتا ہے تو امریکہ اردگان کو کوئی اہمیت نہیں دے گا، بلکہ اس کی ناکامی کو اس کے ساتھ تنہا چھوڑ دے گا! اور اگر وہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ چین سے دُور ہو جائے گا تو وہ روس کے ساتھ معاہدے پر واپس آ سکتا ہے۔ یہ استعماری ممالک جب اپنا مفاد دیکھتے ہیں تو اپنے ایجنٹوں یا اپنے گرد گھومتی ریاستوں میں موجود لوگوں کا احترام کرنے کی پرواہ نہیں کرتے!
8- درج ذیل نکات میں خلاصہ بیان کیا جاتا ہےکہ
الف۔امریکہ مشرق وسطیٰ سے دستبردار ہونے اور معاملات اپنے ایجنٹوں اور اپنے گرد گھومتی ریاستوں کو سونپنے کی تیاری کر رہا ہے اور وہ چین پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے، چاہے وہ روایتی تنازعہ نہ ہو بلکہ سرد جنگ ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ امریکہ پر واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے الزام لگایا تھا، لیو پینگیو نے امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے اتحاد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: [ان ممالک کو خارجی بلاک نہیں بنانا چاہئے جو دوسروں کے مفادات کو نشانہ بناتے ہیں یا نقصان پہنچاتے ہیں، اور سب سے اہم کام جو انہیں کرنا چاہئے وہ سرد جنگ کی ذہنیت اور نظریاتی تعصب سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے... (الجزیرۃ نیٹ16 ستمبر 2021)]۔
ب۔روس کو پریشان کرنے والی عثمانی ریاست اب موجود نہیں ہے، چنانچہ روس اور دشمنوں نے سکھ کا سانس لیا اور اب روس کے نقطہ نظر سے ترکی کے حکمران بہت کمزور ہیں اور ان کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے، وہ انہیں کسی بھی معاملے میں کوئی اہمیت نہیں دیتے!
ج۔جو کچھ بھی ہوا اس میں ایک مثبت نکتہ ہے، جو یہ ہے کہ استعماری کافر ممالک تقریبا اپنا بوریا بستر سمیٹ رہے ہیں اور مسلم ممالک کو چھوڑ رہے ہیں، اور یہ ان لوگوں کے لئے مناسب موقع ہے جو دعوت حق لے کر چل رہے ہیں اور ہر اس شخص کے لیے بھی جو حق کی پیروی کرنا چاہتا ہے جو اسلام اور اس کے لوگوں کے اعلیٰ مقام کے قریب ہونے پر خوش ہونا چاہتا ہے، اور کفر اور اس کے لوگوں کی حیثیت کا خاتمہ دیکھنا چاہتا ہے:
﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ﴾
"بے شک اس میں اس کے لیے نصیحت ہے جس کا دل ہو یا جو حاضر(دماغ) ہوتے ہوئے سنتا ہو "[ق: 37]
29 صفر 1443ھ
6 اکتوبر 2021ء