بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 10 مئی 2019
۔ریاست مدینہ معیشت سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں قرآن و سنت کو نافذ کرتی ہے
-اسلام نے آنکھ سے چاند دیکھنا فرض قرار دیا ہے
- گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عہدے پر ڈاکٹر باقر رضا کی تقرری نے آزادی کا پردہ چاک کردیا ہے
تفصیلات:
ریاست مدینہ معیشت سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں قرآن و سنت کو نافذ کرتی ہے
5 مئی 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے یہ کہا کہ ان کی حکومت ملک کو ریاست مدینہ کے نمونے پر اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کام کررہی ہے جہاں دولت چند افراد کے ہاتھوں میں گردش نہیں کرے گی بلکہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے گی۔
پاکستان کے عوام اسلام سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ان کے آباو اجداد نے بیک و قت انگریز سامراج اور ہندو سے سیاسی جنگ لڑ کر پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں پر اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کیا جائے گا اور دنیا کو ایک بار پھر ریاست مدینہ کا نمونہ پیش کیا جائے گا۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد یہاں کی سیاسی و فوجی اشرافیہ نے انگریز کے چھوڑے آئین، قانون اور معاشی نظام یعنی سرمایہ داریت کو ہی نافذ کیا جس کا سلسلہ آج کے دن تک جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی خواہش کے مطابق ریاست مدینہ کا نمونہ نہیں بن سکا اور اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہوتا رہا۔ جب بھی پاکستان کے مسلمان اس کفر نظام کے خلاف کھڑے ہوئے تو انہیں دھوکہ دینے کے لیے کسی نئی سیاسی قیادت کو آگے لایا گیا جس نے کبھی نظام مصطفی تو کبھی اسلامی سوشل ازم کا نعرہ لگا کر عوام کی اسلام سے محبت کا فائدہ اٹھا کر انہیں دھوکہ دیا لیکن اسلام اور اس کا معاشی نظام کبھی نافذ نہیں کیاگیا۔
اب ایک بار پھر جب پاکستان کے مسلمان جمہوری سرمایہ داریت اور اس کی پروردہ سیاسی قیادت سے سخت بے زار ہوگئے اور خلافت کو اپنی منزل قرار دینے لگے تو پھر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود مغربی ایجنٹوں نے ایک نئی سیاسی قیادت متعارف کرادی اور اسے مسلمانوں کے اسلامی جذبات سے کھیلنے اور انہیں دھوکہ دینے کے لیے ریاست مدینہ کا نعرہ بھی دے دیا۔ لیکن یہ دھوکہ زیادہ دن نہیں چل سکا کیونکہ اس نئی سیاسی قیادت کو تو اسلام اور اس کے احکامات سے کوئی غرض ہی نہیں ہے۔ جو قیادت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے واضح حکم کے باوجود مزید سودی قرضے اور استعماری اداروں یعنی آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکجز حاصل کرے اور اب ان ہی استعماری اداروں کے ایجنٹوں کو اپنی معاشی ٹیم میں شامل کرے وہ کس طرح پاکستان کو ریاست مدینہ کا نمونہ اور اسلامی فلاحی ریاست بنا سکتی ہے؟ ایسی قیادت جو سرمایہ دارانہ معاشی نظام نافذ کرے جس کی وجہ سے دولت چند ہاتھوں میں محدود ہوجاتی ہے وہ کیسے دولت کے ارتکاز کو ختم کرسکتی ہے؟ پاکستان کے مسلمانوں کو اب مزید دھوکے نہیں کھانے چاہیں اور ان دھوکوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی رسی کو مضبوطی سےتھام لینا چاہیے اور حقیقی تبدیلی کی جدوجہد کرنے والے خلافت کے داعیوں کے شانہ بشانہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
"اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرتے رہو اور راست بازوں کے ساتھ رہو"(التوبۃ:119)
اسلام نے آنکھ سے چاند دیکھنا فرض قرار دیا ہے
وزارتِ سائنس , جس کی سربراہی فواد چوہدری کر رہے ہیں ، نے قمری مہینوں کی تاریخ کے تعین کے لیے قمری کیلنڈر کی تیاری کا اعلان کیا ہے اور ا س کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ کیلنڈر کی تیاری کے لیے جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ہر سال چاند کی رویت پر ملک میں ایک تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے اور پاکستان کے مختلف حصوں میں مختلف دن پر رمضان کا اعلان ہوتا ہے اور مختلف دنوں پر عید منائی جاتی ہے۔ علم فلکیات کی مدد سے قمری کیلنڈر کی تیاری اس صورتِ حال سے نجات دلائے گی ۔
وزراتِ سائنس کا یہ اقدام غلطی کے جواب میں ایک اور غلطی کے مترادف ہے ۔پاکستان میں چاند کی رویت کے مسئلے کے ناقابل حل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے رویت کے لیے شرع کو بنیاد بنانے کی بجائے قومیت کو بنیاد بنارکھا ہے اور اس میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی ہٹ دھرمی اور اللہ سے بے باکی کا عنصر بھی شامل ہے۔ پس پاکستانی حکومت پاکستان کی حدود سے باہر چاند کی رویت کو قبول نہیں کرتی ہے خواہ یہ چاند لاکھوں کلمہ گومسلمانوں نے دیکھا ہو۔ نبی ﷺ نے اپنے قول و عمل سے ہمارے لیے بیان کیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں چاند کی رویت باقی تمام مسلمانوں کے لیے حجت ہے بشرطیکہ یہ چاند کسی مسلمان نے دیکھا ہو۔
یہ فتنہ انگیز صورتِ حال کچھ کم نہ تھی کہ اب حکومت پاکستان ایک اور باغیانہ روش کا آغاز کرنے جا رہی ہے تاکہ رمضان کے آغاز اور عیدین کے تعین کے متعلق اسلام کے احکامات کی عمارت کو بالکل ہی مسمار کر دیا جائے۔ آنکھ سے چاند کی رویت کو سائنسی حساب کتاب سے تبدیل کر دینا اور اسلامی مہینوں کے آغاز اور اختتام کا پیشگی اعلان کردینا اسلامی احکامات کے برخلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اسلامی مہینوں کے لیے چاند کو انسانی آنکھ سے دیکھنا فرض ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: صومو لرؤیتہ و افطرو لرؤیتہ فان غبی علیکم فاکملو عدۃ شعبان ثلاثین یوماً"اس (چاند) کے نظر آ جانے پر روزہ رکھو اور اس (چاند) کے نظر آجانے پرروزوں کا اختتام کرو، اگر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کر لو"۔ اس حدیث میں لفظ رؤیہ کا استعمال کیا گیا جو آنکھ سے کسی چیز کے دیکھے جانے کو کہتے ہیں ۔ اور حدیث کے آخرمیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کرویعنی اس کے بعد ہی رمضان کا آغاز کرو۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ اگر چاند نظر نہ آئے تو اس بات کا تخمینہ لگاؤ کہ چاند کے نظر آنے کا امکان کتنے فیصد ہے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرو بلکہ محض ماہِ شعبان کی گنتی کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ حدیث سائنسی یا غیر سائنسی اندازے یا تخمینے کا دروازہ مکمل طور پر بند کر دیتی ہے۔ یہ اللہ کے نبی ﷺکا حکم ہی ہے کہ جس کی وجہ سے مسلمان صدیوں سے چاند کی حرکت کے متعلق سائنسی حساب کتاب سے واقف ہونے کے باوجود ماہِ رمضان کے آغاز اور عیدین کے لیے چاند کےانسانی آنکھ سے مشاہدہ کرنے کو فرض سمجھتے تھے۔
جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ اگر چاند دیکھنے کے لیے دوربین کا سہارا لیا جا سکتا ہے تو علمِ فلکیات کا کیوں نہیں، تو یہ استدلال ہرگزدرست نہیں کیونکہ دوربین کی مدد سے چاند آنکھ سے ہی دیکھا جاتا ہے اور یہ چاند کا حقیقی مشاہدہ ہی ہوتا ہے ۔ اسلام ہمیں سائنسی آلات کی مدد لینے سے منع نہیں کرتا مگر مہینے کے آغاز کے تعین کے لیےتخمینے اور اندازے سے روکتا ہے ۔
پاکستان کی وزارتِ سائنس کی قرآن و سنت کے احکام سے روگردانی رسول اللہﷺ کی اس حدیث کی یاد دہانی کراتی ہے:
" تنقض عری الاسلام عروۃ عروۃ الاولھا الحکم و اخرھا الصلاۃ
"اسلام کی گرہیں ایک ایک کر کے کھل جائیں گی، سب سے پہلے جو گرہ کھلے گی وہ (اسلام کے مطابق )حکمرانی کی گرہ ہو گی اور سب سے آخر میں نماز کی گرہ کھلے گی"۔
گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عہدے پر
ڈاکٹر باقر رضا کی تقرری نے آزادی کا پردہ چاک کردیا ہے
ڈان اخبار کی 5 مئی کی خبر کے مطابق اسٹیٹ بینک کے گورنر کو رات گئے نوٹیفیکیشن کے ذریعے ہٹا کر آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازم ڈاکٹر باقر رضا کو تین سال کے لیے گورنر مقرر کر دیا گیا۔ ڈاکٹر باقر رضا آئی ایم ایف کے جانب سے مصر میں تعینات ملازم ہیں جو پچھلے اٹھارہ سالوں سے آئی ایم ایف کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ دو سال ورلڈ بینک کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں ۔
یقینا آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازم کو اسٹیٹ بینک کے گورنر جیسے حساس عہدے پر فائز کرنا وہ بھی ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کی سخت شرائط پر مزاکرات جاری ہیں، آئی ایم ایف اور عالمی استعمار کی غلامی کی بدترین مثال ہے۔ حکومت کے اس عمل نے اس حقیقت کا پردہ چاک کردیا ہے کہ ہم آج بھی عالمی استعمار کے شکنجوں میں قید ہیں اور ہماری آزادی محض ڈھونگ اور دکھاوہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج عالمی استعمار ہمارے ملک پر براہ راست قابض نہیں جیسے نو آبادیت میں ہوتا رہا ہے بلکہ آج نوآبادیت کی ایک اور شکل جسے نیو قلونیئل ازم کہتے ہیں کا سامنا ہے ،جہاں عالمی استعماری ممالک جیسے امریکہ ملکوں پر براہِ راست قبضے کے بجائے کرپٹ حکمران، جمہوری سرمایہ دارانہ نطام اور عالمی اداروں جیسے ورلڈبنک اور آئی ایم ایف کے ذریعے ایک ملک، اس کی معیشت اور اس کی اندرونی اور خارجی پالیسی کو اپنے قبضے میں رکھتے ہیں ۔ اور اس کا اعتراف خود امریکی بھی کرتے ہیں جیسا کہ امریکی فوج کے مطابق آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور معیشتی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD)جیسے استعماری مالیاتی ادارے "تنازعات کے دوران اور بڑے پیمانے پر کھلی جنگ ہونے کی صورت میں غیر روایتی مالیاتی ہتھیار" کا کام دیتے ہیں (یو ایس آرمی فِیلڈ مینول3-05.130، آرمی اسپیشل فورسز اَن کنوینشنل وارفئیر، ستمبر 2008)۔ لہٰذا پی ٹی آئی جو تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر حکومت میں آئی تھی کا عوام کی توقعات کو پورا کرنے میں سابقہ حکومتوں کی طرح پیچھے رہ جا نا فطری بات ہے کیونکہ آنے والی جو بھی حکومت موجودہ جمہوری سرمایہ دارانہ نطام میں آئی گی وہ عالمی استعماری اداروں کی بالادستی کو قبول کریگی اور پاکستان کو ایک پستی سےمزید ایک اور پستی کی طرف لے کر جائے گی۔ لہٰذا کوئی بھی تبدیلی نظام کی تبدیلی کے بغیر حقیقی تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کا گورنر آئی ایم یف سے آئے یا نہ آئے اس عہدے پر آنے والا ہر شخص ایک ہی طرح کی استعماری پالیسیوں کو نافذ کرتا ہے ،کیونکہ اصل مسئلہ پاکستان کی آئی ایم ایف اور دیگر استعماری اداروں کے ساتھ وابستگی ہے جس کے نتیجے میں چاہے کوئی بھی پاکستان کے اسٹیٹ بینک کا گورنر ہو وہ اپنی مالیاتی پالیسی آئی ایم ایف اور ان اداروں کے اشاروں پر چلائے گا ۔ اس تناظر میں آئی ایم ایف کے ذریعےیا اس کے نامزدکردہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کے ذریعے معاشی استحکام کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ جیسا کے اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے-
وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی
((اور ( ہاں ) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی ، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے)) ۔
پاکستان میں معاشی استحکام صرف اسلام کے ہمہ گیر نفاذ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ اسلام نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک سمیت تمام استعماری اداروں سے معاملات طے کرنے کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا
"اللہ ایمان والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کفار کو خود پر بالادستی قائم کرنے کاموقع فراہم کریں"(النساء:141)۔
لہذا آنے والی خلافت نہ صرف آئی ایم ایف اورعالمی بینک سمیت تمام استعماری اداروں کا انکار کرے گی بلکہ اسلام کے نفاذ کے ذریعے ایک بار پھر اس خطے کو وہ ترقی دے گی جس کا ماضی میں یہ خطہ غمازی کرتا تھا۔