بسم الله الرحمن الرحيم
بھارت کی جانب سے آبی معاہدہ کے منسوخ کر دیئے جانے کے بعد، کیا یہی وہ وقت نہیں کہ پاکستان (پاک سرزمین) کی افواج کے شیر کشمیر کی آزادی (تحریر) کے لئے پاکستان میں انقلاب برپا کریں؟!
)ترجمہ(
خبر :
23 اپریل 2025ء : متنازعہ علاقے کشمیر کے سیاحتی شہر پہلگام میں چند مسلح افراد کی جانب سے 26 افراد کو ہلاک کر دئیے جانے کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بتدریج کم کرتے ہوئے کئی اقدامات کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت کے خارجہ سیکرٹری وکرم مصری نے بدھ کے روز ایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ 22 اپریل کو بھارتی زیرِ کنٹرول کشمیر میں ہونے والے حملے کے سرحد پار روابط سامنے آ چکے ہیں اور حکومت نے پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
بھارت کے اس اعلان کے جواب میں پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف کے دفتر نے بھارت کے خلاف جوابی اقدامات کا اعلان کیا، جن میں تمام بھارتی یا بھارت کے زیرِ انتظام آپریٹ ہونے والی ایئرلائنز کے لئے فضائی حدود کی بندش اور سارک پروگرام کے تحت بھارتی شہریوں کو ویزا جاری کرنے کی معطلی شامل ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دفتر نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس آبی معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام پر اعتراض کیا اور خبردار کیا کہ پانی کا رخ موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔
)ذرائع : الجزیرہ انگریزی(
تبصرہ :
بھارت کے اس اقدام کے محرکات پر سیاسی تجزیے کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اور خاص طور پر اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ منگل کو ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری کسی معروف گروپ نے قبول نہیں کی ہے، جبکہ اس حملہ میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے، اور یہ حملہ ایک مسلم اکثریتی علاقے میں رُونما ہوا، جبکہ حملہ آوروں نے پاکستان کے ساتھ یکجا ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، پاکستان اس وقت کشمیر کے ایک چھوٹے حصے پر کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہے، جبکہ پاکستان اور بھارت، دونوں ہی پورے کے پورے کشمیر کی دعویدار ہیں۔ کشمیر ایک ایسا علاقہ ہے جس نے کشیدگی کے مختلف ادوار کا مشاہدہ کیا ہے جن میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ شدت برقرار رہی ہے۔ شریعت کے مطابق، کشمیر ایک اسلامی سرزمین ہے، مگر بھارت اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی طور پر متنازعہ ہے۔ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر حقِ خود ارادیت دیا گیا تھا۔ تاہم بھارت نے کشمیری عوام سے یہ حق چھین لیا، ان پر جبری قبضہ کر لیا، اور 1947ء میں پاکستان کی بھارت سے ”آزادی“ کے بعد سے بھارت نے کشمیر پر مارشل لاء نافذ کر رکھا ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں مقامی مسلمانوں میں ایک مزاحمتی تحریک بھڑک اٹھی، جو دہائیوں سے جاری ہے۔
بجائے اس کے کہ پاکستان، کشمیری مسلمانوں کی جانب سے بھارت کے خلاف اس مزاحمت کی حمایت کرتا اور خطے کے عوام کو دئیے گئے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرنے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالتا، لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کشمیری عوام کو تنہا اپنے ازلی دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ کشمیر اور اس کے عوام کے حوالے سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اس غدارانہ رویے کے باعث بھارت نہ صرف کشمیر اور اس کے باشندوں بلکہ خود پاکستان کے خلاف بھی مزید دلیر ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ آبی وسائل کو خطرے میں ڈالنا اسی دلیری کی صرف ایک مثال ہے۔
جب بھی پاک بھارت سرحد پر کوئی بھی واقعہ رونما ہوتا ہے یا کوئی قتل پیش آتا ہے، تو بھارت پاکستان اور اس کے عوام کے اعصاب کو آزمانے کی کوشش کرتا ہے۔ جن میں کبھی تو وہ پاکستان کو قحط اور پیاس کی دھمکی دیتے ہوئے دریاؤں کے ڈیم بند کرنے کی بات کرتا ہے، اور کبھی ان ڈیموں کے بند کھول کر پاکستان کے لوگوں پر سیلاب برپا کر دیتا ہے، جس سے فصلیں اور مال مویشی تباہ ہو جاتے ہیں۔ اور پاکستان کے ایک ایٹمی اسلحہ سے لیس طاقت ہونے کے باوجود، یہ سب کچھ صرف اس لئے ممکن ہو پاتا ہے کیونکہ پاکستان کی قیادت نے انتہائی ذلت کی حد تک ایک کمزور مؤقف اختیار کر رکھا ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ خود کو صرف فوجی پریڈیں منعقد کرنے اور دونوں ممالک کی سرحد پر ملی ترانے اور حب الوطنی کے نعرے لگانے تک ہی محدود رکھے ہوئے ہے، اور ان ڈرامائی مظاہروں پر تماشائیوں کی تالیاں اور داد ملنے سے ہی خوش ہے۔ مگر ایسی تماشے اور نمائشی کاروائیاں نہ تو کبھی دشمن پر ہیبت طاری کر سکتی ہیں اور اور نہ ہی کسی جارح قوت کو روک سکتی ہیں۔ صد افسوس تو اس بات پر ہے کہ اب تو کسی مؤثر اقدام کی امید بھی بہت کم رہ گئی ہے۔
بدھ کی شام نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس X-“ پر نشر ہونے والے اس اعلان کے باوجود کہ قومی سلامتی کمیٹی، جس میں سینئر سول اور فوجی حکام شامل ہیں، جمعرات کو بھارتی حکومت کے بیان پر ردِ عمل کے لئے باہمی اجلاس کرے گی، لیکن اس اعلان کے باوجود بھی اس کمیٹی یا مجموعی طور پر اسٹیبلشمنٹ سے کسی بھی قسم کے مناسب ردعمل کی توقع نہیں کی جا رہی۔
ہم ان کے اس بودے ڈھکوسلوں کے عادی ہو چکے ہیں، جو شاذ و نادر ہی مذمت کرنے، بیان بازی کرنے، اور اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر رونے دھونے سے آگے بڑھ پاتے ہیں، جبکہ یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ وہ ادارہ ہے جو کفر اور اس کے اتحادیوں کے حق میں جانبدار ہے۔ آج تک اقوام متحدہ نے کبھی بھی پوری مسلم دنیا میں کسی بھی مسلمان کے مسئلے پر کوئی انصاف فراہم نہیں کیا۔ کشمیر اور ارضِ مقدس فلسطین کے واقعات اس منافقت کی سب سے کھلی اور واضح مثالیں ہیں۔
حالیہ واقعات پاکستان کے لئے ایک سنہری موقع ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ تمام امن اور معمول کے معاہدوں کو منسوخ کر دے، اور جموں و کشمیر کو آزاد کرا کے پاکستان کے ساتھ متحد کر دے، اور خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب مغربی دنیا اور چین آپس میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ تاہم، موجودہ قیادت کے تحت ایسے اقدام کی قطعی کوئی امید نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اس قیادت کو امت کے مسائل، بشمول کشمیر اور بابرکت سرزمین فلسطین کے ساتھ غفلت اور غداری برتنے والا سمجھا جاتا ہے۔
لہٰذا، پاک فوج کی صفوں میں موجود مخلص شیردلوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی قیادت کو دلیر مردوں میں گیدڑ کی مانند موجود ان بزدل عناصر سے پاک کر دیں، اور حزب التحریر کو نصرۃ (مادی مدد) فراہم کریں، جو کہ امت، اس کے عوام، اور اس کی ایٹمی طاقت سے لیس فوج کی قیادت کرے گی، اور تمام مقبوضہ مسلم سرزمینوں کو قبضہ سے آزاد کرائے گی، اور مسلمانوں کی ایک نگہبان قیادت تلے پورے برصغیر کو دارالاسلام کے طور پر بحال کرے گی۔ بلاشبہ، یہ سب جلد واقع ہو کر رہے گا، اِن شاء اللہ !
مخلص شیروں پر لازم ہے کہ وہ صرف اس شرعی فریضہ کی پیروی کریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے ذمہ کیا ہے، تا کہ وہ ہند کی فتح (غزوۂ ہند) کا اعزاز اور اس کا اجر حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جائیں، جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ»
”میری امت میں دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جہنم کی آگ سے پناہ بخشی ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو ھند کو فتح کرے گا۔ اور دوسرا گروہ وہ ہو گا جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہو گا“ (مسند احمد)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے لکھا گیا
بلال المہاجر – ولایہ پاکستان