
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه 4)
نہضہ(نشاط ثانیہ) کی تعریف اور اس کا تصور
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ چوتھی قسط ہے، جس کا عنوان " نہضہ (نشاط ثانیہ) کی تعریف اور اس کا تصور " ہے۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ چار پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒ نے بیان کی ہے۔
لسانی تعریف:
المحیط" کے مصنف نے کہا: " نَهَضَ نَهْضاً وَنُهُوضاً بِمَعنَى قَامَ: "نَہضہ" کا مطلب ہے اٹھنا یا کھڑا ہونا، اور پودے کے حوالے سے "نَہضہ" کا مطلب ہے سیدھا ہونا، جبکہ "أنْهَضَهُ" کا مطلب ہے قائم کرنا یا سہارا دینا۔"
"اللسان" کے مصنف نے کہا:
لنُّهُوضُ البَرَاحُ مِنَ المَوضِعِ وَالقِيَامُ عَنهُ، وَالنَّهضَةُ: الطَّاقَةُ وَالقُوَّةُ
"نُہوض" سے مراد کسی جگہ سے اٹھنا اور کھڑے ہونا ہے، اور "نَہضہ" سے مراد توانائی اور قوت ہے
لسانی تجزیہ:
ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ "نہضہ" کا مطلب اٹھنا ہے، اور اٹھنا صرف بیٹھنے کی حالت سے ہی ہوتا ہے۔ ہم "اللسان" کی تعریف میں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ "نہوض" کا مطلب ایک جگہ سے نکل کر دوسری جگہ جانا ہے، اور مزید یہ کہ "نہضہ" توانائی اور قوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اصطلاحی تعریف:
روایتی طور پر نہضہ (نشا ط ثانیہ) کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ" یہ انسان کے رویے کو حیوانی سطح سے بلند کرنے کاعمل ہے۔
انسان اس وقت ہی ترقی کرتا ہے جب وہ ایک ایسی فکر اپناتا ہے جو اس کی نہضہ (نشا ط ِ ثانیہ) کے لیئے توانائی اور حیات نو کے لیے مواد بن جاتی ہے۔ اس فکر کے مؤثر ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ ایک مضبوط عقیدے سے جڑی ہو، جو مطلوبہ نہضہ (نشا ط ِ ثانیہ) کے لیے درکار تحریک فراہم کرسکے۔
یہ بات واضح ہے کہ انسان اپنے رویے اور عمل کو ان اقدار، تصورات، اور خیالات کی بنیاد پر ترتیب دیتا ہے جو وہ اپناتا ہے۔ یہ اقدار، تصورات، اور خیالات کسی منظم عقائد سے جتنی مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں ، ان کی تحریکی قوت اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ یہ فکری توانائی اُس وقت عملی قوت میں تبدیل ہوجاتی ہے جب اس کو عمل میں لایاجائے، یہ انسان کو عمل اور رویے کی طرف متحرک کرتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ عملی میدان میں فعال ہو جاتا ہے۔
یہ بات معلوم ہے کہ انسانوں اور جانوروں کے رویے کے پیچھے محرک قوتیں ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ دونوں بنیادی، جسمانی ضروریات اور جبلتی ضروریات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بنیادی، جسمانی ضروریات اور جبلتی ضروریات میں فرق یہ ہے کہ اگر جسمانی ضرورت پوری نہیں ہوتی تو یہ موت کا باعث بن سکتی ہے، جبکہ جبلتی ضرورت کی عدم تکمیل موت کا سبب نہیں بنتی، بلکہ اس کے نتیجے میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ جسمانی ضروریات جسم کے اندر سے جنم لیتی ہیں، جیسے بھوک اور پیاس کا احساس۔ اس کے برعکس، جبلتی ضروریات بیرونی عوامل سے متحرک ہوتی ہیں۔ مثلاً، جنسی جبلت اس وقت بے چین ہو جاتی ہے جب ایک مرد ایک عورت کو دیکھتا ہے، یا جب ایک عورت ایک مرد کو دیکھتی ہے۔ بقا کی جبلت اس وقت متحرک ہوتی ہے جب کوئی فرد اپنی زندگی یا اپنی نسل کے وجود کو خطرے میں محسوس کرتا ہے۔
یہ جبلتیں اور جسمانی ضروریات انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے تسکین کی ضرورت کے لحاظ سے یکساں اہم ہیں۔ تاہم، چونکہ انسان کو عقل سے نوازا گیا ہے، اس لیے اس کے خالق نے چاہا کہ وہ اپنے رویے کو محض حیوانی اعمال اور صرف شہوانی محرکات سے بلند کریں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ انسان محض اپنی جبلتوں کی آگاہی ، جوکہ جانوروں میں بھی موجود ہے ، سے اوپر اُٹھ کر ، اپنی عقل اور عقائد کو بہتر بنانے کے لیئے راہنمائی حاصل کرے۔ یہ ضروری ہےتا کہ وہ اپنی عقل کو محفوظ رکھ سکیں اور ان چیزوں سے بلند ہو جائیں جو انہیں پستی یا زوال کی طرف لے جا سکتی ہیں۔
لہٰذا، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانوں پر ظلم کرنے والے ،انسانیت کے دشمن، صدیوں سے انسانی عقل کو تباہ کرنے اور اسے اس کی فطری اور صحیح حالت سے ہٹا دینے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے انسانوں کو بدعنوان، گھٹیا اور گمراہ کن عقائد کی ترغیب دے کر یہ حاصل کیا، جس سے انسانیت کی تنزلی ہوئی اور ظالم حکمرانوں کے زیر تسلط افراد کو محکوم اور غلام بنانا آسان ہو گیا۔ نتیجتاً، لوگ ایک ریوڑ کے محض حصے میں تبدیل ہو گئے، ان کی مرضی اور روح کو کچل کر انہیں اپنے خالق کے بجائے کسی اور ہستی کی غلامی پر مجبور کر دیاگیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أسْفَلَ سَافِلِينَ إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
"بیشک ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا، پھر ہم نے اسے پست ترین درجے میں گرا دیا۔
سو ائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، "
اس طرح، ایک شخص صرف اس وقت ترقی کرتا ہے جب وہ ایک مضبوط نظریاتی عقیدہ رکھتا ہو، جس سے اس کی تمام فکر جنم لیتی ہے۔جو اُس کائنات کے ساتھ ، جس میں وہ رہتاہے، اس کے تعلقات کو تشکیل دیتی ہے، اُس کی زندگی میں دوسروں کے ساتھ اس کے تعاملات کو ، اور خود اپنے خالق کے ساتھ ، کائنات ، انسان اور حیات کے خالق کے ساتھ، اس کے تعلق کو تشکیل دیتی ہے۔
ایک نہضہ (نشاط ثانیہ )کی حامل اُمت وہ ہے جو اپنی مرضی رکھتی ہے، اپنے آپ کو دوسروں کی غلامی سے آزاد کرتی ہے، اور صرف تمام مخلوقات کے رب کی عبادت کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلامی انسانی شخصیت کو کچل دیتی ہے، اور اس کی انسانیت کو مسخ کر دیتی ہے۔ ایک اُمت جو اپنی مرضی نہیں رکھتی اور اپنے لوگوں کی مرضی کو آزاد نہیں کر اسکتی، وہ نہ تو ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی حقیقی نہضہ (نشاط ثانیہ) حاصل کر سکتی ہے، کیونکہ وہ بیرونی طاقتوں کے فیصلوں سے بندھی ہوئی ہوتی ہے اور ان کی زنجیروں میں جکڑی ہوتی ہے۔
مغربی کافر دنیا، جس کی بہت سے لوگ سائنس ،ٹیکنالوجی ، صنعت اور آرام دہ زندگی ، میں ترقی کی وجہ سے تعریف کرتے ہیں، انسانیت کے لیے کوئی عالمگیر نشاط ثانیہ کا منصوبہ نہیں رکھتی۔ اس کا نشاط ثانیہ کا منصوبہ صرف اپنے ہی لوگوں میں سے مخصوص گروہ کے لیے ہے۔ اسی لیے، ہم انہیں اِس دنیا کو پہلی ، دوسری، اور تیسری دنیاؤں میں تقسیم کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اور ان کے اُن طریقوں کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو وہ تیسری دنیا کو ہمیشہ پیچھے رکھنے کے لیئے اختیار کرتے ہیں ۔ ہم نے انہیں اپنے وسائل کی لوٹ مار کرتے ہوئے، ہمیں اپنی نوآبادیات کے ذریعے غلام بناتے ہوئے، ایسے نظام اور ادارے مسلط کرتے ہوئے دیکھا ہے جو صرف ہمارے وسائل کا استحصال کریں ، ہمارے لوگوں کو دبا کر رکھیں اور ہمیں قرضوں میں جکڑیں، جبکہ ہماری دولت ہمارے پیروں تلے سے لوٹی جا رہی ہے۔ وہ ہمارے ساتھ کوئی رحم یا لحاظ نہیں کرتے، ہمارے لوگوں کو شدید تکلیف میں مبتلا رکھتے ہیں، مختلف اقسام کے ظلم و ستم اور تذلیل کی مشق کرتے ہیں، جیسے ہماری اُمت کے لوگ انسانی نسل کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ انسانیت اور اس کے معانی کو نا ہی سمجھتے ہیں ، نا ہی اس کا احترام کرتے ہیں، حالانکہ وہ اور ان کے پیروکار اس کے دعوے بہت کرتے ہیں۔
بے شک، مغربی زبانوں میں ایسی کوئی اصطلاح نہیں ہے جو ہماری زبان میں "انسان" کے لفظ کے تصور کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہو۔
"Human" کا لفظ انگریزی میں درحقیقت "مردانہ مخلوق" کے طور پر ترجمہ ہوتا ہے اور یہ قرآن کی عربی زبان میں "انسان" کے لفظ کے برابر نہیں ہے۔
انسانیت جس کی مستحق ہے ، صحیح معنوں میں نہضہ (نشاط ثانیہ ) کا منصوبہ وہ ہے جس کا مقصد انسان کو اس کے جوہر میں بلند کرنا ہے، رنگ، نسل، یا اس کے مقام کی پرواہ کیے بغیر، اور اسے ہر قسم کی غلامی اور بندگی سے آزاد کرانے کی کوشش کرناہے۔
اور یہ منصوبہ آج صرف تیسری دنیا کے مسلمانوں کے درمیان موجود ہے!! نہضہ (نشاط ثانیہ) کا یہ منصوبہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہے ، جو انسانی روحوں سے وحشت کو ختم کرتا ہے اور انہیں اپنے عقیدے اور قانون شریعت کے ذریعے ان کی اصل، صحت مند فطرت کی طرف واپس لے جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ تمام لوگ زمین کے فوائد اور برکتوں، اور ان نعمتوں کو جو اللہ نے اس میں رکھی ہیں، میں شریک ہوں ، امن و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں، اور زمین پر انصاف اور برابری کی ایک جنت قائم کریں، تاکہ وہ آخرت میں ہمیشہ کی جنت کے مستحق بن سکیں۔
اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، جو بہترین مخلوق ہیں، کی امت کے بیٹو !
اگر آپ اپنی امت کو بلند کرنا چاہتے ہیں اور اسے اس حالت سے نکالنا چاہتے ہیں جس کا وہ شکار رہی ہے، یعنی ذلت، زوال، اور تنزلی، تو مغرب کی فریب کاریوں میں مت آئیں، نہ ہی اس کے خیالات اور منصوبوں میں، جو نہ تو آپ کی نہضہ (نشاط ثانیہ) کے لیے موزوں ہیں اور نہ کبھی ہوں گے۔ بلکہ اپنے عقیدے کی طرف رجوع کریں ، اسے صحیح فکری بصیرت کے ساتھ سمجھیں، تاکہ یہ آپ کی فکر کی بنیاد اور نقطہ ء آغاز بن سکے، اور آپ کی عقلیہ کی تعمیر کا پیمانہ بن سکے۔ اپنی شریعت کے اصولوں کو اپنائیں تاکہ یہ آپ کے رویے کا معیار بن سکے، اس طرح آپ کو نہضہ اور فکر کی بلندی حاصل ہوسکے گی ۔ پھر اللہ کی طرف سے نازل کردہ نہضہ کے اس منصوبے کو تمام انسانیت کے لیے لے کر جائیں ، اسے سامراجی لالچ، ظالموں کے استبداد اور غلامی کے شر سے آزاد کرنے کے لیے۔
اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں ریاست ِ خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔