الأحد، 15 محرّم 1446| 2024/07/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

حدیث شریف کے ساتھ

صنعتی شعبہ

 

ہر جگہ پر موجود آپ سب پیاروں کو، ہم، آپ کے پروگرام "حدیث سریف کے ساتھ" کے اس نئے حلقے میں خوش آمدید کہتے ہیں، اور ہم بہترین سلام سے شروع کرتے ہیں، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 

مسلم نے اپنی صحیح حدیث میں روایت کی ہے کہ:

محمد بن رافع نے مجھے حدیث سنائی اور انہوں نے عبد الرزاق سے روایت کی، جنہوں نے ابن جریج سے روایت کی، جنہوں نے موسیٰ بن عقبہ سے روایت کی، جنہوں نے ابو النضر سے روایت کی انہوں نے ایک ایسے صحابی رسول ﷺ کے لکھے ہوئے خط سے روایت کی جو قبیلہ اسلم سے تھے، ان کا نام عبداللہ بن ابی اوفی تھا۔ یہ خط انہوں نے عمر بن عبیداللہ کو اس وقت لکھا تھا جب وہ خوارج کے خلاف لڑائی کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ خط میں لکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن جب دشمن سے مقابلہ کر رہے تھے تو لڑائی شروع ہونے سے پہلے سورج غروب ہونے تک انتظار کرتے رہے۔ پھر آپ ﷺ لوگوں کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا: "اے لوگو! دشمن سے ملاقات کی خواہش مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی دعا مانگو۔ لیکن جب ان کا مقابلہ کرنا پڑے تو صبر کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ ﷺ دوبارہ کھڑے ہوئے اور دعا مانگی: "اے اللہ! قرآن کے نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، دشمنوں کے لشکر کو ہرانے والے! ان کو شکست دے اور ہماری ان پر مدد فرما۔"

 

اے پیارے دوستو!

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہے ہیں کیونکہ وہ انہیں بتا رہے ہیں کہ جہاد ہی جنت کا راستہ ہے .... حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح جنگ شروع کرنے کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کرتے تھے اور وہ ﷺ دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تھے، اور ان سے مدد کا سوال کرتے تھے۔ اس سے مسلمانوں کو یہ پتہ چلتا ہے کہ اسباب اختیار کرنا ان احکامات میں سے ہے جن پر پوری توجہ دی جانی چاہیے تاکہ جہاد کا مقصد حاصل ہو جو کہ ممالک کی فتح اور اسلام کا پھیلاؤ ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام جہاد پر کتنا زور دیتا ہے، کیونکہ وہ مومنوں کو اس پر ترغیب دیتا ہے اور انہیں اس میں رغبت دلاتا ہے، اور پھر انہیں جہاد میں مدد دینے والی اور اس کے مقصد کو حاصل کرنے میں حصہ ڈالنے والی ہر چیز کا جائزہ لینے کی تعلیم دیتا ہے ... لہذا جہاد ہی اسلام کی دعوت کو پہنچانے کا شرعی طریقہ ہے، اور دین کی بنیادی اور ضروری باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جہاد اسلام کی انتہائی بلندی ہے۔ اسلام تمام انسانوں کے لیے ایک عالمی پیغام ہے .... جسے پہنچانے کا کام رسول اللہ ﷺ کو سونپا گیا تھا، اور اسی طرح ان کے بعد یہ کام مسلمانوں کو سونپا گیا ہے.... اور اسلام نے مسلمانوں کو صرف اسلام کی دعوت کو پہنچانے کا کام نہیں سونپا، بلکہ انہیں یہ بھی بتایا کہ دعوت کو کیسے پہنچایا جائے، یعنی دعوت کو پہنچانے کا طریقہ یہ ہے کہ جہاد کیا جائے، جو کہ ریاست کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

(وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)

"اور اللہ کی راہ میں لڑواور جان لو کہ اللہ سننے والا، جاننے والاہے" (سورۃ البقرة : 244)۔

 

اور اللہ کا فرمان ہے:

 

(وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ)

"اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے"

(سورۃ التوبۃ : 36)۔

 

اور ریاست کی طرف سے جہاد کی تیاری میں اسباب اختیار کرنے میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جنگ کے لیے تمام اقسام کے ہتھیار فراہم کرے: ... ہلکے اور بھاری، میکانیکی اور خودکار اور یہاں تک کہ جوہری بھی ... کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

(وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآَخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ)

"اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی" (سورۃ الانفال : 60)۔

 

اور ان ہتھیاروں کو جنگ میں موثر طریقے سے فراہم کرنا، انہیں باہر سے خرید کر نہیں ہو گا، بلکہ ان ہتھیاروں کو ریاست کے اندر مقامی طور پر تیار کرنے سے ہو گا، تاکہ ریاست ان ممالک کی رحم و کرم پر نہ آ جائے جن سے وہ ہتھیار خریدتی ہے، جب وہ جنگ میں داخل ہو اور اسے ہتھیاروں، گولہ بارود اور اسپیئر پارٹس کی بھاری مقدار میں ضرورت ہو.... یہ چیز ریاست کی طرف سے جہاد کا اعلان کرنے کے فیصلے کو ان ممالک کے ہاتھوں میں گروی رکھ سکتی ہے اور اس کی جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت کو بھی کنٹرول کر سکتی ہے، اس کے ذریعے کہ وہ ممالک اس ریاست کو کون سے اور کتنے ہتھیار، اسپیئر پارٹس اور گولہ بارود فروخت کرتے ہیں۔ یہ معاملات ان شرائظ کے علاوہ ہیں جو وہ ممالک اس ریاست پر عائد کر سکتے ہیں جس سے جہاد کے فرض کو انجام دینے اور دعوت کو آگے بڑھانے کے لیے اس ریاست کی صلاحیت پر اثر پڑ سکتا ہے .... اس لیے یہ ضروری ہے کہ خلافت درکار ہتھیار اور آلات حرب اور اسپیئر پارٹس خود بنائے اور اپنے ہتھیاروں کو بہتر سے بہتر بنانا جاری رکھے یہاں تک کہ وہ کسی بھی دوسرے ملک سے اس کی فوجی صلاحیت میں ہم آہنگ ہو جائے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ جائے، اور اس کے لیے اسے ضروری ہے کہ وہ بھاری صنعت کو اپنائے، اور سب سے پہلے ان کارخانوں کی پیداوار شروع کرے جو جنگی اور غیر جنگی دونوں قسم کی بھاری صنعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے اس کے پاس جوہری ہتھیاروں، خلائی گاڑیوں، میزائل، مصنوعی سیاروں، طیاروں، ٹینکوں، توپوں، جنگی جہازوں، مختلف قسم کے بکتربند گاڑیوں، بھاری اور ہلکے ہتھیاروں کی مختلف اقسام کی پیداوار کے لیے کارخانے ہونے چاہئیں اور اس کے پاس مشینیں، انجن، مواد اور الیکٹرانک صنعتوں کی پیداوار کے لیے کارخانے ہونے چاہئیں، اور ساتھ ہی ساتھ عوامی ملکیت سے وابستہ کارخانے اور جنگی صنعتوں سے وابستہ ہلکے کارخانے بھی ہونے چاہئیں۔

 

اور نتیجہ یہ ہے کہ خلافت کی ریاست جو اسلام کی دعوت کو دعوت اور جہاد کے طریقے سے لے جانے والی ریاست ہے، وہ جہاد کے لیے ہمیشہ تیار رہنے والی ریاست ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھاری یا ہلکی صنعت سے متعلق کارخانے جنگی پالیسی کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں تاکہ اگر ریاست ان کارخانوں کو مختلف قسم کے جنگی آلات کو پیدا کرنے والے کارخانوں میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہو تو وہ ایسا کسی بھی وقت آسانی سے کر سکے .... لہذا خلافت کی ریاست میں تمام صنعتوں کو جنگی پالیسی کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔ اور تمام کارخانوں کی تعمیر اسی جنگی پالیسی کی بنیاد پر ہوتی ہے، چاہے وہ بھاری صنعتوں کی پیداوار کرتے ہوں یا ہلکی صنعتوں کی پیداوار کرتے ہوں، اور چاہے یہ کارخانے عوامی ملکیت کی کارخانوں کی قسم کے ہوں یا نجی ملکیت کی کارخانے ہوں اور جنگی صنعتوں سے تعلق رکھتے ہوں .... اس پالیسی کی بنیاد پر ریاست کے لیے ضرورت کے وقت ان کی پیداوار کو کسی بھی وقت جنگی پیداوار میں تبدیل کرنا آسان ہوتا ہے۔

 

اللہ کے اذن سے قائم والی خلافت کی ریاست میں صنعت سے متعلق تمام امور کو سنبھالنے والا شعبہ، صنعت کا شعبہ ہے.... یہ امیر جہاد کے ماتحت نہیں ہے بلکہ یہ براہ راست خلیفہ کے ماتحت ہے جیسے کہ ریاست کے اداروں میں سے کوئی بھی اور ادارہ۔

 

ہمارے پیارے دوستو!، ہم آپ کو ایک اور "حدیث نبوی کے ساتھ" کے پروگرام تک اللہ کے سپرد کرتے ہیں، والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته۔

Last modified onمنگل, 16 جولائی 2024 00:53

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک