الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

انسانی دودھ کے بینک کاتنازعہ:

نبوت کے نقش قدم پر قائم خلافت انسانی مسائل کو صرف اسلامی شریعت سے حل کرتی ہے

 

 

خبر:

 

ڈیلی ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ، "سندھ نے انسانی دودھ بینک کو معطل کر دیا، اس معاملے کو اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالہ کر دیا... پاکستان کا پہلا انسانی دودھ بینک اس مہینے کے شروع میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹولوجی (SICHN)نے قائم کیا تھا... یہ ادارہ یونیسیف کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا ، جسے 'زچہ کی صحت میں اہم سنگ میل' قرار دیا گیا..."۔ SICHN نے 21 جون کو ایک بیان میں کہا کہ، "دارالعلوم کراچی کی جانب سے 16 جون 2024 کو جاری کردہ ایک حالیہ نظر ثانی شدہ فتویٰ نے ہمیں انسانی دودھ کے بینک کے کام کو بند کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ تازہ ترین مذہبی رہنمائی کے مطابق ہے اور اسلامی فقہ کے ڈھانچے کے اندر کام کرنے کے لیے ہمارے جاری عزم کی عکاسی کرتا ہے۔"

https://dailytimes.com.pk/1202974/sindh-suspends-human-milk-bank-refers-initiative-to-islamic-ideology-council/

 

تبصرہ:

 

جیسا کہ پوری مسلم دنیا میں ہوتا ہے، ویسے ہی پاکستان کی سیکولر ریاست قرآن اور سنت نبوی ﷺ سے متصادم قوانین اور پالیسیاں بنانے کی مسلسل اجازت دیتی ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کے علم میں آتا ہے کہ ایک غیر شرعی کام ہوگیا ہے، پھر وہ اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ، یہاں تک کہ حکومت اس معاملے سے دستبردار نہ ہو جائے۔ یہ بھی اسی صورت میں ہی ہوتا ہے جب مسلمان شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں، سیکولر ریاست اپنی مجرمانہ خاموشی ترک کرتی ہے، اور مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے علامتی اقدامات کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اس معاملے میں ریاست کی ناک کے نیچے استعماری ادارے یونیسیف نےانسانی دودھ کا بینک قائم کیا۔ جب مسلمانوں کو اس معاملے کا عمل ہوا تو انہوں نے اس پر شدید ردعمل دیا، کیونکہ وہ اس بات سے واقف ہیں کہ مختلف ماؤں کے بچوں کو چند شرائط پورا کرتے ہوئے اگر ایک ہی عورت کے ذریعہ دودھ پلایا جاتا ہے، تو ان بچوں کی ایک دوسرے سے شادی کرنا ممنوع ہوجاتا ہے کیونکہ وہ رضاعی بہن بھائی بن جاتے ہیں۔

اسلام نے ہمیں جو احکام دیے ہیں ان میں ہمارے مسائل کے حل کے بہت سے حلال طریقے موجود ہیں۔ ہم یتیموں کا ایک رجسٹر، اور اُن خواتین کا ایک رجسٹر بنا سکتے ہیں جو اپنا دودھ پلانے کے لیے تیار ہیں۔ پھر ہم ان کے درمیان رابطے کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ اس طرح دودھ پلانے والی ماں بچے کو جان جاتی ہے۔ اس طرح مستقبل میں شادی کا تعین کیا جا سکتا ہے، اور رضاعت کے رشتے میں منسلک بچوں کی شادی سے گریز کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام مقامی سطح پر ماہرین اطفال اور نرسوں کے ذریعے صحت کی دیکھ بھال کرنے والے دیگر کارکنوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہم انسانوں کو ذہانت سے نوازا ہے ، لیکن انسانی ذہانت کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم اور حکمت سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔

سیکولر ریاست کے برعکس، اگر آج خلافت راشدہ موجود ہوتی تو وہ کبھی بھی انسانی دودھ کے بینک کے قیام کی اجازت نہیں دیتی جس میں الگ الگ شناخت کے ساتھ علیحدہ برتنوں میں الگ الگ ماؤں کا دودھ رکھنے کے بجائے کئی ماؤں کے عطیہ کردہ دودھ کو ایک برتن میں ملا دیا جاتا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ انسانی دودھ کے بینک کا موجودہ ماڈل، یا لیکٹیریم (lactarium)، گمنام عطیہ دہندگان پر انحصار کرتا ہے، جس میں دودھ کے عطیات کو ایک جگہ ملا دیا جاتا ہے۔ خلافت الہامی نصوص کی بنیاد پر صحابہ ؓاور کلاسیکی علمائے کرام کے اقوال کو مدنظر رکھتے ہوئے طبی تجاویز کا جائزہ لیتی ہے، اور سب سے مضبوط رائے کو اختیار کرتی ہے۔

 

وہ دودھ پلانا جس سے نکاح کی حرمت قائم ہوتی ہے، وہ ہے جو معدے کو بھر دے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا،

 

لَا يُحَرِّمُ مِنْ اَلرَّضَاعَةِ إِلَّا مَا فَتَقَ اَلْأَمْعَاءَ, وَكَانَ قَبْلَ اَلْفِطَامِ

"وہ دودھ پلانا جو نکاح کو حرام کرتا ہے، وہ ہے جو آنتوں تک پہنچ جائے اور دودھ چھڑانے سے پہلے (دو سال کے عمر سے پہلے) لیا جائے۔"(ترمذی)۔

 

دودھ پلانا وہ ہے جو کہ پیدائش کے دو ہجری سال کے اندر، دودھ چھڑانے سے پہلے پلایا جائے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

حَوۡلَيۡنِ كَامِلَيۡنِ‌ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ

" اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔"(البقرۃ، 2:233)۔

 

اماں عائشہؓ نے فرمایا،

كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنْ الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ

"قرآن مجید کی جو باتیں نازل ہوئیں ان میں یہ بھی تھی کہ رضاعت کی دس یقینی صورتیں ایک شخص کو محرم بناتی ہیں، پھر اسے منسوخ کر دیا گیا اور اس کی جگہ پانچ یقینی دودھ پلانے (کےمواقع) سے تبدیل کر دیا گیا۔(یعنی پانچ بار دودھ پلایا گیا ہو) "(مسلم)۔

 

ابن قدامہؒ نے کہا،

الرضاع الذي لا يشك في تحريمه، أن يكون خمس رضعات فصاعدا

"دودھ پلانے کی (تعداد) جس کے متعلق کوئی شک نہیں کہ اس سے محرم کا رشتہ قائم ہوتا ہے پانچ یا اس سے زیادہ ہیں۔"

 

النووی نے کہا،

اخْتَلَفَ الْعُلَمَاء فِي الْقَدْر الَّذِي يَثْبُت بِهِ حُكْم الرَّضَاع , فَقَالَتْ عَائِشَة وَالشَّافِعِيّ وَأَصْحَابه : لا يَثْبُت بِأَقَلّ مِنْ خَمْس رَضَعَات

"دودھ پلانے کی تعداد کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے جن پر رضاعت کا حکم لاگو ہوتا ہے۔ عائشہ اور شافعی اور ان کے اصحاب نے کہا کہ پانچ سے کم تعداد کی کوئی دلیل نہیں ہے۔"

 

النووی نے مزید کہا،

وَقَالَ جُمْهُور الْعُلَمَاء يَثْبُت بِرَضْعَةٍ وَاحِدَة . حَكَاهُ اِبْن الْمُنْذِر عَنْ عَلِيّ وَابْن مَسْعُود وَابْن عُمَر وَابْن عَبَّاس وَعَطَاء وَطَاوُسٍ وَابْن الْمُسَيِّب وَالْحَسَن وَمَكْحُول وَالزُّهْرِيّ وَقَتَادَة وَالْحَكَم وَحَمَّاد وَمَالِك وَالأَوْزَاعِيّ وَالثَّوْرِيّ وَأَبِي حَنِيفَة رَضِيَ اللَّه عَنْهُمْ

"جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اگر ایک بار دودھ پلایا جائے تو اس (رضاعت) کا حکم لاگو ہوجاتا ہے۔ اسے ابن المنذر نے علی، ابن مسعود، ابن عمر، ابن عباس، عطاء، طاووس، ابن المصیب، الحسن، مخول، الزہری، قتادہ، حماد، مالک، الاوزاعی، الثوری اور ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے- اللہ ان سے راضی ہو ۔"

 

چنانچہ خلافت راشدہ میں خلیفہ شواہد کا مطالعہ کرے گا اور آراء پر غور کرے گا۔ اس کے بعد وہ اپنے خیال میں مضبوط ترین رائے کو اختیار کرے گا اور اس کی رائے کی پیروی کرنا مسلمانوں پر لازم ہو جائے گی۔ اگر وہ (خلیفہ)کوئی شرعی حکم اختیار کرتا ہے تو صرف یہی حکم شرعی حکم بن جاتا ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا قانون بن جاتا ہے جس کی ہر شہری کو کھلے اور نجی طور پر اطاعت کرنی چاہیے۔

 

خلیفہ کی جانب سے ایک مسئلے کے حوالے سے موجود مختلف آراء میں ایک رائے کو اختیار کرنا، اس کا اختیار ہے اور اس کی دلیل صحابہ کرامؓ کے اجماع سے ماخوذ ہے۔ خلیفہ مخصوص شرعی احکام کو اختیار کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ خلیفہ کے اختیار کردہ احکام پر عمل کرنا واجب ہے اور اس کی دلیل بھی اجماع صحابہؓ ہے۔ ایک مسلمان کو کسی بھی حکم پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے، سوائے اس کے جو خلیفہ نے احکام کے معاملے میں اختیار کیا ہو، چاہے یہ احکام شرعی احکام ہی کیوں نہ ہوں جو مجتہدین (علمائے اسلام) میں سے ایک نے اختیار کیا ہو۔ یہ اس لیے ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم جو تمام مسلمانوں پر واجب ہوتا ہے وہی ہے جسے خلیفہ نے اختیار کیا ہوتا ہے۔ خلفائے راشدین اسی طرح آگے بڑھے۔ انہوں نے بہت سے مخصوص احکام کو اپنایا اور ان پر عمل درآمد کا حکم دیا۔

 

اسلامی قانون سازی کا کوئی بھی عمل سیکولر ریاست میں نہیں ہوتا، کیونکہ سیکولر ریاست میں دین اسلام سے قطع نظر، فیصلہ اکثریت کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہم عظیم حکمت والے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکام کے تحت پرسکون زندگی گزارنے کے بجائے انسانوں کی نام نہاد حکمت کے تحت بننے والے قوانین سے پیدا ہونے والی تکلیف اٹھاتے ہیں۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـًٔـا وَّهُوَ خَيۡرٌ لَّـکُمۡ‌ۚ وَعَسٰۤى اَنۡ تُحِبُّوۡا شَيۡـًٔـا وَّهُوَ شَرٌّ لَّـكُمۡؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ

" عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور (ان باتوں کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔"(البقرۃ، 2:216)۔

 

لہٰذا جو مسلمان دین اسلام کے تحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں، انہیں نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے کام کرنا چاہیے۔

مصعب عمیر، ولایہ پاکستان

Last modified onجمعرات, 27 جون 2024 01:57

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک