الأحد، 15 محرّم 1446| 2024/07/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

خلافت راشدہ مسلمانوں کی فوجوں کو مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے جہاد میں متحرک کرے گی۔

 

 

خبر:

 

حکومت پاکستان کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے "عید الاضحیٰ کے موقع پر وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا پیغام" جاری کیا جس میں کہا گیا کہ "عید کے اس دن ہم اپنے فلسطینی اور کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے لیے دعا کرتے ہیں جو وحشیانہ غیر ملکی قبضے کا بہادری سے سامنا کر رہے ہیں لیکن اپنے حق خودارادیت کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد میں ثابت قدم ہیں۔ دعا ہے کہ عید الاضحیٰ کا جذبہ اپنے اتحاد و یکجہتی کے پیغام کے ساتھ پوری امت مسلمہ کے لیے خوشحالی، کامیابی اور خوشی لے کر آئے۔"

[1]https://pid.gov.pk/site/press_detail/25642

 

تبصرہ:

 

درحقیقت مسلم دنیا کے حکمرانوں نے مسلمانوں کی فوجوں کو روک کر قبضے کا سامنا کرنے والے مسلمانوں کو تنہا، بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کے ذریعے کافر قابضین کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔ امت اسلامیہ کے اتحاد کے بارے میں یہ حکمران صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں کیونکہ درحقیقت وہ قوم پرست سرحدوں اور قومی ریاستوں کے ذریعے امت کی تقسیم کو یقینی بناتے ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی نسل کشی نے مسلم دنیا کےحکمرانوں کی حقیقت پوری طرح سے بے نقاب کر دی ہے۔ امت اسلامیہ کو حقیقی تبدیلی کے لیے موجودہ حکمرانوں سے آگے دیکھنا چاہیے۔ اب اسے خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام کے لیے حزب التحریر کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

 

خلافت، مسلم سرزمین پر قبضہ کرنے والوں سے جنگی موقف کی بنیاد پر نمٹے گی۔ حزب التحریر آنے والی خلافت کے مجوزہ آئین کے مسودے کے آرٹیکل 189 میں واضح طور پر کہتی ہے، "وہ ریاستیں جو ہمارے ساتھ عملاً حالت جنگ میں ہوں، جیسے "اسرائیل"، ان کے ساتھ ہر حوالے سے حالتِ جنگ کا ہی معاملہ کیا جائے گا"۔ مسلمانوں کی سرزمین کی آزادی کے لیے جہاد سے پہلے خلافت قابض ریاستوں سے تمام تعلقات منقطع کر دے گی۔

 

خلافت دشمنوں کے ساتھ جنگی موقف اپنائے گی کیونکہ یہ سیکولر قومی ریاست نہیں ہوں گی۔ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین اور قوم پرست سرحدوں کی پابند نہیں ہو گی۔ یہ صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام و ممنوعات کی پابند ہو گی۔ سورۃ التوبۃ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں؛

 

﴿انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾

"نکلو (آگے بڑھو) ہلکے اور بوجھل، اور اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور جان سے لڑو ۔ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم کو سمجھ ہے"۔

(التوبۃ؛ 9:41)۔

 

آگے بڑھنے کے حکم کے بعد جہاد کا حکم، یعنی باہر نکلنے کا مطلب ہے کہ لفظ 'جہاد' قتال کرنا ہے۔ قتال کے حوالے سے یہ سورۃ توبہ کی کئی دیگر آیات میں سے ایک آیت ہے۔

 

جہاد کے لئے قرآنی دلیل ایک عمومی دلیل ہے اور دفاعی جہاد اور اقدامی جہاد سمیت یہ دلیل قطعی ہے یعنی اس میں دشمن سے قتال کے اقدامات، دفاعی جنگیں اور دیگر شامل ہیں۔ اس دلیل کی عمومیت اور قطعی ہونے کی وجہ سے اس میں دشمن کے خلاف قتال کی تمام اقسام شامل ہیں۔ لہٰذا جہاد کی تخصیص کرنا یا اقدامی جہاد کو علیٰحدہ کرتے ہوئے، جہاد کو دفاعی جنگ تک محدود کرنے کا تقاضا ہے کہ اس کی تخصیص یا حدود کے لئے الہامی عبارت ہو۔ نہ ہی قرآنِ مجید میں اور نہ ہی سُنت مبارکہ سے ایسے کوئی الہامی الفاظ ثابت ہیں جو جہاد کی تخصیص یا اسے محدود کرتے ہوں۔ لہٰذا جہاد اپنے عمومی فہم میں ہی رہتا ہے جس میں تمام قسم کی جنگیں اور دشمن سے قتال شامل ہیں۔

 

 اصول الفقہ کی حنفی کتاب، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (شرعی ترتیب میں تخلیقی صناعیاں)، میں ذکرہے، أما الجهاد في اللغة فعبارة عن بَذل الجهد وفي عرف الشرع يستعمل في بَذل الوُسع والطاقة بالقتال في سبيل الله عز وجل بالنفس والمال واللسان أو غير ذلك، "جہاں تک جہاد کا ذکر ہے، اس کے لغوی معنی جدوجہد کرنا ہیں۔ عُرفِ شریعہ کی تعریف میں، یہ لفظ استطاعت کے مطابق اللہ عزو جل کی راہ میں قتال کے لئے اپنی جان، مال، زبان اور اس کے علاوہ سب کچھ لگا دینا ہیں"۔

 

اصول الفقہ کی شافعی کتاب، الإقناع، میں جہاد کی تعریف کے حوالے سے مذکور ہوا ہے، أي: القتال في سبيل الله، "یہ اللہ کی راہ میں قتال کرنا ہے"۔ شیرازی اپنی تصنیف، المھذب ، میں تصدیق کرتے ہیں کہ: أن الجهاد هو القتال، "بے شک؛ جہاد تو بس قتال ہے"۔

 

اے افواج پاکستان کے افسران!

ان حکمرانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو جو تمہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور مومنین کے دشمنوں سے لڑنے سے روکتے ہیں۔ نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے فوری قیام کے لیے حزب التحریر کو اپنی نصرت فراہم کریں۔ اس کے بعد آپ کا خلیفہ آپ کو مقبوضہ زمینوں کی آزادی کے لیے متحرک کرے گا۔ غداروں کو اس بات کا موقع فراہم نہ کریں کہ وہ آپ کو جہاد کے عظیم اجر سے محروم رکھیں۔ جہاد کے فرض سے غفلت برت کر آپ ان غدار حکمرانوں کے گناہ اور عذاب میں شریک نہ ہوں۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو سنہری موقع آپ کو دیا ہے اس کو پوری طرح قبول کریں اور متحرک ہوجائیں۔ ابوہریرہ نے بیان کیا: لوگوں نے پوچھا: "یا رسول اللہ ﷺ ! ہمیں ایسا عمل بتائیے جو اللہ کی راہ میں جہاد کے مساوی ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لا تطيقونه "تم وہ عمل نہ کرپاؤ گے"۔ لوگوں نے کہا: 'یارسول اللہ ﷺ ! ہمیں اس عمل کی بابت بتلائیے تاکہ شاید ہم اسے ادا کرنے کے قابل ہو سکیں'۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْقَانِتِ بِآيَاتِ اللَّهِ لَا يَفْتُرُ مِنْ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ حَتَّى يَرْجِعَ الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ المجاهد»

"اللہ کی راہ میں لڑنے والے مجاہد کی مثال اُس شخص جیسی ہے جو روزے رکھے اور رات کو قیام کرے، جو متواتر اللہ کی آیات کی تلاوت کرے اور صوم و صلوٰۃ میں نہ تھکے اور صدقہ کرے حتیٰ کہ اللہ کی راہ میں لڑنے والا وہ مجاہد واپس (اپنے گھر) آجائے"۔

 

اس حدیثِ مبارکہ کےاعتبار سے یہ واضح ہے کہ سوال اس شخص کے حوالے سے تھا جو جہاد میں مصروف ہے، یعنی خاص طور پر وہ جو شخص جو اللہ کی راہ میں قتال کرتا ہے اور جواب سے بھی ان معانی کی وضاحت ہو گئی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«حَتَّى يَرْجِعَ الْمُجَاهِدُ»

"حتیٰ کہ اللہ کی راہ میں لڑنے والا وہ مجاہد واپس (اپنے گھر) آجائے"۔ (بخاری)

 

مصعب عمیر، ولایہ پاکستان

Last modified onہفتہ, 22 جون 2024 21:07

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک