السبت، 21 محرّم 1446| 2024/07/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ایک اسلامی ریاست یہ تقاضا کرتی ہے کہ تمام قوانین اور فیصلوں کی بنیاد صرف اسلام ہو، نہ کہ جعلی شرعی عدالت کی طرف سے منظور کردہ چند قوانین

 

ارم نورین

 

ٹرانس جینڈر ایکٹ پر بحث

پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ اس نے ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کی چند شقوں کو اسلام کے منافی قرار دیا۔ لہٰذا، ان کا اطلاق اب  ختم ہو جائے گا، جبکہ باقی قوانین لاگو رہیں گے۔ اس سے ایک طرف تو ایک بار پھر سیکولر اور لبرل دانشوروں کے درمیان  اور دوسری طرف اسلامی ذہن رکھنے والے علماء اور سیاسی جماعتوں کے درمیان گرما گرم بحث  شروع ہو گئی ہے۔ اس فیصلے اور اس  ایکٹ کے مکمل مضمرات کو سمجھنے کے لئے ہمیں اس کا خلاصہ کرنے کی ضرورت ہے۔

 

ٹرانس جینڈر ایکٹ میں صنفی شناخت

ٹرانس جینڈر ایکٹ کی دفعہ 2 (f) میں اصطلاحات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ، "جنسی شناخت، کا مطلب ہے،  کسی شخص کے اندر کا باطنی اور انفرادی احساس جیسا کہ مرد، عورت یا دونوں میں سے کچھ نہیں  یا دونوں کا مرکب: جو پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنس سے مطابقت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔"

 

سیکشن 2 (n) میں کہا گیا ہے کہ "ٹرانس جینڈر شخص" وہ شخص ہے جو "(1) انٹرسیکس (خنثیٰ) جس میں مرد اور عورت دونوں  کی جنسی خصوصیات یا پیدائشی ابہام کا امتزاج ہو، یا (ii) خواجہ سرا کو پیدائش کے وقت مرد قرار دیا گیا ہو، لیکن اس کا اعضائے تناسل کاٹ دیا گیا یا  اسےخصی کردیا ہو؛ یا (iii) ایک ٹرانس جینڈر مرد، ٹرانس جینڈر خاتون، خواجہ سرا یا کوئی بھی شخص ، جس کی صنفی شناخت اور / یا صنفی اظہار،  سماجی اصولوں اور ثقافتی توقعات سے مختلف ہو، جس کی بنیاد ان کی پیدائش کے وقت انہیں تفویض کی گئی جنس پر مبنی ہے۔

 

ایکٹ میں صنفی شناخت  کا  انتخاب

صنفی شناخت کے انتخاب کے حق کا معاملہ اس ایکٹ کے سیکشن 3 میں شامل ہے، جس میں 'ٹرانس جینڈر شخص کی شناخت'   کے عنوان کے تحت کہا گیا ہے، '(1) ایک ٹرانس جینڈر شخص کو اس ایکٹ کی دفعات کے مطابق اس کی خود ساختہ صنفی شناخت کے مطابق تسلیم کیے جانے کا حق ہوگا۔ (2) ذیلی دفعہ (1) کے تحت ٹرانس جینڈر کے طور پر تسلیم شدہ شخص کو تمام سرکاری محکموں  میں خود کو خود ساختہ صنفیشناختکے مطابق رجسٹر کرنے کا حق حاصل ہوگا اور یہ صرف نادرا تک محدود نہیں ۔ (3) ہر ٹرانس جینڈر، جو پاکستان کا شہری ہونے کے ناطے اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچ چکا ہو، وہ  نادرا آرڈیننس 2000 ء کی دفعات کے مطابق شناختی کارڈ، سی آر سی، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ پر نادرا  میں  خود ساختہ صنفی شناخت کے مطابق اپنا اندراج کرانے کا حق رکھتا ہے۔ (4)  ایسا  ٹرانس جینڈر  شخص جس کو نادرا کی جانب سے پہلے ہی شناختی کارڈ جاری  کیا جا چکا ہو،  اسے نادرا آرڈیننس 2000 کی دفعات کے مطابق شناختی کارڈ، سی آر سی، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ پر اپنی  نئی شناخت کے مطابق نام اور جنس تبدیل کرنے کی اجازت ہوگی۔

 

ایکٹ میں ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق

ایک اور سیکشن میں ان کے حقوق کے بارے میں مزید وضاحت کی گئی ہے، مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 7 میں "وراثت کا حق" کے عنوان کے تحت کہا گیا ہے کہ ، "(1) وراثت کے قانون  کے تحت،متعین کردہ جائیداد کے مکمل حصہ کے حصول میں، ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔(2) خواجہ سراؤں کے حصے کا تعین پاکستان میں وراثت کے قانون کے مطابق شناختی کارڈ پر اعلان کردہ جنس کے مطابق کیا جائے گا (3) ٹرانس جینڈر افراد کے لئے وراثت کا حصہ درج ذیل ہوگا (i) ٹرانس جینڈر مرد کے لئے وراثت کا حصہ مرد کا ہوگا۔ (ii) ٹرانس جینڈر خواتین کے لئے وراثت کا حصہ عورت کا ہوگا (iii) جس شخص میں مرد اور عورت دونوں یا مبہم خصوصیات ہوں، جیسے پیدائش کے وقت ان کی حالت کا تعین کرنا مشکل ہو، مندرجہ ذیل کا اطلاق ہوگا: (الف) 18 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد، اگر اس شخص کی خود ساختہ صنفی شناخت ٹرانس جینڈر مرد ہے، تو وراثت کا حصہ مرد کا ہوگا۔ (ب) 18 سال کی عمر میں اگر اس شخص کی خود ساختہ صنفی شناخت ٹرانس جینڈر خاتون ہے تو وراثت کا حصہ عورت کا ہوگا۔ (ج) 18 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد، اگر اس شخص کی خود ساختہ صنفی شناخت نہ تو ٹرانس جینڈر مرد ہے اور نہ ہی ٹرانس جینڈر عورت، تو وراثت کا حصہ اوسطا ً مرد اور عورت کے لئے دو الگ الگ  حصوں میں تقسیم ہوگا۔ اور (د) اٹھارہ سال سے کم عمر کی جنس کا تعین میڈیکل آفیسر کی جانب سے، مرد یا عورت کی نمایاں خصوصیات کی بنیاد پرکیاجائے گا۔"

 

امتیازی سلوک اور ہراسانی کی سرگرمی سے متعلق ایکٹ میں شقیں

اس ایکٹ کی بقیہ شقیں امتیازی سلوک، ہراسانی کی ممانعت اور تعلیم، روزگار، ووٹ، صحت، اجتماع اور عوامی عہدے پر فائز رہنے کے حقوق اور عوامی مقامات تک رسائی کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کے تحت بنیادی حقوق کی ضمانت سے متعلق ہیں۔

 

موجودہ صورتحال کا تعلق وفاقی شرعی عدالت کی کارروائی سے ہے، جس نے سیکشن 2(f) کو ختم کر دیا ہے جس میں "جنسی شناخت" کی تعریف موجود  ہے۔ اس نے سیکشن 2(n)   (iii)، سیکشن 3 اور سیکشن 7 کو بھی منسوخ کر دیا ہے، جس کا عنوان ہے، " The Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018."۔ اس نے انہیں یہ کہتے ہوئے  ختم کیا ہے کہ وہ اسلام کے احکام کے خلاف ہیں، جو کہ قرآن پاک اور سنت رسول ﷺ میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ ان کا قانونی اثر فوری طور پر ختم ہو جائے گا۔

 

شرعی عدالت کی آئینی بنیاد

اس فیصلے کے خلاف پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے نہ صرف تفصیلی فیصلے کو سمجھنا ضروری ہے بلکہ خود وفاقی شرعی عدالت کی آئینی  حیثیت کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کا قیام 26 مئی 1980ء کو صدر مملکت کے حکم نمبر 1980ء کے تحت عمل میں آیا جسے آئین پاکستان 1973ء کے ساتویں حصے میں باب A3 کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔

 

ان اور کچھ دیگر نام نہاد اسلامی شقوں کو آئین کا حصہ بنایا گیا تاکہ عام لوگوں کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ یہ ایک اسلامی آئین ہے۔

 

"تمہید" میں کہا گیا ہے، "جبکہ پوری کائنات پر حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اور پاکستان کے عوام کے لیے ،اس(اللہ)  کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے ، اختیار (اتھارٹی) کو استعمال کرنا ایک مقدس امانت ہے ۔"

قراردادمقاصد کے آرٹیکل 2 (A) میں کہا گیا ہے کہ" اگرچہ پوری کائنات  کی حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور جو اختیار(اتھارٹی) اس (اللہ )نے ریاست پاکستان کو، اس کے عوام کے ذریعے  تفویض کی ہے ، مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئےاس کو  استعمال  کرنا ایک مقدس امانت ہے۔"

 

حصہ 9، "اسلامیدفعات" میں کہا گیا ہے، "قرآن و سنت سے متعلق227 دفعات " اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے:" (1) تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلام کے احکام کے مطابق ڈھالا جائے گا، "اس حصے میں جسے اسلام کے احکامات کہا گیا ہے ، "اور ایسا کوئی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا جو ان احکامات کے منافی ہو۔"

 

حصہ VII میں  ، "عدلیہ" باب3   A  میں ایک وفاقی شرعی عدالت کے قیام کا  موقع فراہم کیا گیا ہے۔ یہ بیان کیا گیا ہے کہ "عدالت کےD 203 اختیارات، دائرہ اختیار اور افعال" کے تحت ، (1) عدالت ،[یا تو اس کے  اپنے  موشن یا]   پاکستان کے کسی شہری یا وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کی  پٹیشن  پر ، اس سوال کا جائزہ لے سکتی ہے اور فیصلہ کرسکتی ہے کہ آیا کوئی قانون یا قانون کی شق اسلام کے احکام کے منافی ہے یا نہیں، جیسا کہ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ میں بیان کیا گیا ہے، جس کو پھر  اسلام کے احکامات کے طور پر جانا جاتا ہے۔"


شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا آئینی حق

وفاقی شرعی عدالت کے حکم کے خلاف آئین میں اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ یہ سپریم کورٹ میں اپیل کے آرٹیکلF 203 کے تحت  موجود ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ " (1) آرٹیکلD 203  کے تحت عدالت کے سامنے ہونے والی کسی بھی کارروائی کا  کوئی بھی متاثرہ فریق، اس طرح کے فیصلے میں ناپسندیدگی کی صورت میں،  ساٹھ دن کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل کو کر سکتا ہے: بشرطیکہ اس فیصلے کے چھ ماہ کے اندر،  وفاق یا صوبے کی طرف سے اپیل کی جاسکتی ہے۔"

 

((2A کے تحت کہا گیا ہے کہ " (2A) وفاقی شرعی عدالت کے کسی بھی فیصلے، حتمی حکم یا سزا سے متعلق اپیل،  سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی۔"اس میں مزید کہا گیا ہے کہ" (3)   اس آرٹیکل کے تحت تفویض کردہ دائرہ اختیار کے استعمال کے مقصد کے لئے ، سپریم کورٹ میں ایک بنچ تشکیل دی جائے گی ،جسے شریعت اپیلٹ بنچ کہا جائے گا۔"

 

انسانی حقوق کی تنظیموں اور ٹرانس جینڈر کارکنان نے مذکورہ بالا فیصلے کی مذمت کی ہے اور وہ اس فیصلے کو اپنے حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہوئے جلد از جلد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس  کے تحت ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جائے گا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان، ضروری تحفظ کے خاتمے کو روکنے کے لیے فوری اور  جلداقدامات کرے۔ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی مداخلت کے بغیر ٹرانس جینڈر اور صنفی طور پر متنوع افرادکی ہراسانی، امتیازی سلوک اور تشدد  کا نشانہ بننے کا خطرہ اور بھی بڑھ جائے گا۔

 

ٹرانس جینڈر ایکٹ پر فیصلے سے متعلق مسائل

تمام درخواست گزاران اور مدعا علیہان کو سننے کے بعد، جس میں کچھ انٹر سیکس (خنثیٰ)افراد بھی شامل ہیں، جو اس قانون کے خلاف درخواست گزار کے طور پر شامل ہوئے تھے،  وفاقی شرعی عدالت نے 108 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ سنایا ہے  ۔ عدالت نے اس سلسلے میں طبی ماہرین اور ماہرین نفسیات کو بھی سنا۔

یہاں اس حوالے سے اہم سوالات یہ ہیں،

  1. کیا انٹر سیکس(خنثیٰ)، خواجہ سرا اور خواجہ سرا مردوں یا خواتین کے حقوق،مذکورہ ایکٹ کے تحت محفوظ ہیں یا پاکستان کے آئین کے تحت؟
  2. کیا خواجہ سراؤں کی تعریف، اسلام کے مطابق درست ہے؟
  3. کیا وفاقی شرعی عدالت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق،اس کے احکامات کو صرف سفارشی حیثیت دیتا ہے اور اس لیے ان پر عمللازمی نہیں ہے؟
  4. چونکہ آئین کے تحت ، پارلیمنٹ بالادست ہے اور کسی بھی معاملے پر، جس طرح بھیاراکین مناسب سمجھیں، قانون سازی کر سکتی ہے،تو کیا اسے (پارلیمنٹ کو) شرعی عدالت یا سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے کسی فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا حق حاصل ہے؟
  5. کیا آئین کی اسلامی دفعات اسے اسلامی آئین بناتی ہیں؟ اور کیا یہ اسلام کے مطابق ہے کہ پہلے انسانی ذہن کے مطابق قانون سازی کی جائے اور پھر قرآن و سنت کے ساتھ اس کے تضادات کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے؟
  6. انٹر سیکس (خنثیٰ)لوگوں کی صحیح تعریف کی گئی ہے اور کیا اسلام نے ان کوحقوق دیے ہیں؟

مغربی نقطہ نظر کے ساتھ تصادم

زیادہ تر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ٹرانس جینڈر کارکن، جو اس مسئلے کو اٹھا رہے ہیں، اپنے خیالات اور تصورات کو حقوق اور فرائض کی مغربی تعریفوں کی بنیاد پر اپناتے ہیں۔ وہ اظہار رائے کی آزادی اور شخصی آزادی سمیت تمام  مغربی آزادیوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ لفظ اسلام یا شریعت کے ذکر سے بھی انہیں شدید نفرت ہوتی ہے۔ وہ اسلام، اسلامی قانون اور شریعت کے احکام کے بارے میں مبہم، ناقص اور مکمل طور پر غلط تصورات رکھتے ہیں۔

 

ان کے خیال میں اسلام انٹر سیکس (خنثیٰ) افراد کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے بعد وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں ان کا وجود ممنوع ہے۔ یہ بالکل مضحکہ خیز خیال ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر انٹر سیکس(خنثیٰ) افراد کو، جو مبہم جنسی اعضاء کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، خواجہ سراؤں کے ساتھ الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو مرد کے طور پر پیدا ہوتے  ہیں لیکن کسی حادثے کی وجہ سے یا جان بوجھ کر مردانہ جنسی اعضاء کھو  دیتے  ہیں۔ وہ لوگوں کے ایسے  گروپ کے ساتھ بھی انٹرسیکس(خنثیٰ) کو الجھانا چاہتے ہیں جو اپنے جذبات اور  ادراک کی بنیاد پر اپنے آپ کو مرد یا عورت  سمجھتے ہوئے،مغربی سرمایہ دارانہ نظریے کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اپنی جنس کو جان بوجھ کر تبدیل کرنا چاہتے ہیں  ، لہٰذا، انہوں نے یہ الجھن پیدا کی ہے جس کی وجہ سے حقیقی   انٹرسیکس (خنثیٰ)افراد بھی اس ٹرانس جینڈر ایکٹ کو اپنے حقوق کی  مخالفت اور خلاف ورزی  سمجھتے ہوئے ،اسے چیلنج کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔

 

اصل  ایکٹ کی شرائط کے تحت ، کسی بھی شخص کے لئے یہ ممکن ہو گیا  ہے کہ وہ اپنے  بارے میں الجھے ہوئے تصور کی بنیاد پر، مرد یا عورت کے طور پر،  اپنی شناخت کو تبدیل کرلے۔ صرف انسانی مرضی کی بنیاد  پر،  وہ سرکاری دستاویزات میں ، اداروں میں اپنا اندراج کروا سکتا یا کرواسکتی ہے اور اس بنیاد پر قومی شناختی کارڈ حاصل کر سکتا یا کرسکتی ہے۔

 

اس  نے معاملہ خراب کردیا ہے۔ لوگ مرد ہوتے ہوئے ، خواتین کی تمام جگہوں جیسے عوامی پارکوں، بیت الخلاء، لڑکیوں کے کالجوں اور ہاسٹل تک رسائی حاصل کرسکیں گے کیونکہ وہ خود کو خاتون قرار دیں گے۔ ہم پہلے ہی مغربی ممالک میں اس افراتفری کو دیکھ رہے ہیں جہاں اس طرح کے معاملات کے بارے میں بڑی بحث چل رہی ہے۔

 

مبہم جنسی اعضاء کے بارے میں اسلامی قانون

انٹرسیکس (خنثیٰ) افراد کے بارے میں اسلامی قانون بالکل واضح ہے، جس میں انہیں خنثیٰ کہا جاتا ہے۔ لفظ خنثیٰ کے لغوی معنی "دوگنا" یا "دوگنا ہونا" ہیں۔ یہ لفظ اس بچے پر لاگو ہوتا ہے جو مرد اور عورت دونوں جنسی اعضاء یا مبہم جنسی اعضاء کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ یہاں خواجہ سرا اور ہجڑا(hermaphrodite) کے الفاظ سے گریز کیا جا رہا ہے ، کیونکہ ان کا مطلب مختلف ہوسکتا ہے۔ معنی کو بیان کرنے کے لئے لفظ خنثیٰ استعمال کیا جائے گا۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ﴾۔"اور مرد عورت کی مانند نہیں ہے۔" (سورۃ آل عمران  3:36 )۔اسلام میں  بنیادی طور پر  دو ہی جنسیں ہیں۔ دونوں جنسوں کا تعین صرف حیاتیاتی (biological) لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ جنس کا تعین فرد کے فیصلے یا اپنے ذاتی ادراک سے نہیں ہوتا ہے۔ مبہم صنف کا تعین ماہرین کے ذریعہ کیا جاتا ہے ، کیونکہ یہ دو صنفوں میں سے ایک ہے۔

 

لفظ 'خنثیکا اطلاق ایسے شخص پر ہوتا ہے جسے ، حیاتیاتی لحاظ سے مرد یا عورت کے طور پر آسانی سے شناخت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ انسان ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کی جسمانی ساخت ہوتی  ہے ، یا جس کے پاس ان دونوں میں سے  کوئی ساخت  نہ ہو۔ اسلام میں ماہر ، حیاتیاتی  حقیقت کا مطالعہ کرنے کے بعد مبہم صنف کو دو صنفوں میں سے ایک، مرد یا عورت قرار دیتا ہے۔ قدیم اور مستند فقیہہ،  ابن قدامہ نے اپنی کتاب المغنی میں،  مبہم جنسی اعضاء کے بارے میں لکھا ہے کہ" یہ مرد یا عورت ہونے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔" اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: 

 

﴿وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالأُنْثَى﴾

" اور اس نے شریک حیات، مرد اور عورتوں کو پیدا کیا" (سورۃ النجم: 53:45)۔

 

 اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً﴾

" اور اس نے بے شمار مردوں اور عورتوں کو پھیلایا" (سورۃ النساء 4:1)

 

اور اسی لیے مرد یا عورت کے علاوہ کوئی تیسری تخلیق نہیں ہے۔

لہٰذا اسلام کسی تیسری جنس کا تعین نہیں کرتا۔ ایک قابل اعتماد مسلمان ڈاکٹر جو پیدائشی خرابیوں، صنفی اناٹومی، جینیات اور صنفی طرز عمل کے معاملات میں مہارت رکھتا ہے، صنف کی تصدیق کرتا ہے۔ لہٰذا وہ ہمدردانہ اور حساس انداز میں سب سے پہلے یہ دیکھنے کے لیے کہ مرد یا عورت کی خصوصیات میں کیا غالب ہے، حیاتیاتی، اناٹمی  کے اعتبار سے، جسمانی خصوصیات کا تفصیل سے جائزہ لیتا ہے۔ وہ جسمانی معاملات کی جانچ پڑتال کرتا ہے ، جیسے جنسی اعضاء ، اور پیشاب کرنے والے اعضاء ، نیزX اورY جنسی کروموسومز پر غور کرتے ہیں ، جو صنف تشکیل دیتے ہیں۔ اگر، بہت ہی نایاب معاملات میں، کہ جس میں صرف جسمانی اور جینیاتی خصوصیات ہی ابہام کو حل نہیں کرتیں، تو صنف کا تعین کرنے سے پہلے مرد اور عورت کے حیاتیاتی، جنسی رجحانات اور خواہشات کے معاملے پر بھی غور کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسلامی احکام کا اطلاق ، جس میں شادی، صنفی کردار اور ذمہ داریاں شامل ہیں ،طے شدہ جنس کے مطابق ہوتا ہے ۔

 

والدین کی درخواست پر یا جب قومی شناختی کارڈ جاری کیا جا رہا ہو ، تو ابتدائی طبی معائنے سے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ لہٰذا  ، انٹرسیکس(خنثیٰ) کو  اس کے بعد مرد یا عورت کا درجہ تفویض کیا جاتا ہے۔

 

فقہ میں یہ معاملات مشہور ہیں جن میں فقہ حنفی  بھی شامل ہے اور امام ابوحنیفہ، امام محمد الشعبانی اور امام ابو یوسف کی آراء اور موقف شامل ہیں۔ ان تفصیلی قوانین کا صدیوں سے فقہی کتابوں میں ایک  بڑا اور طویل مجموعہ موجود ہے اور ان کا اطلاق پوری  مسلم  سرزمین  پر  درست طریقے سے کیا  جاتا  تھا۔

 

لہٰذا مذکورہ بالا مثالیں یہ واضح کرتی ہیں کہ اسلام نے ہمیں انسانی معاشرے کے ہر مسئلے کے بارے میں قواعد و ضوابط کا ایک تفصیلی مجموعہ دیا ہے۔ اللہ ہی ہمارا خالق ہے اور ہمیں اس سے بہتر کون جانتا ہے؟ اس کے قوانین منصفانہ،  عادلانہ اور انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہیں۔ یہ ماننا بالکل تباہ کن ہے کہ شریعت بعض معاملات پر خاموش ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے خود  قوانین بنائے۔ انسانی ذہن اپنے فہم  میں محدود ہے، بحیثیت انسان ہم سب اپنی حدود اور خامیوں کو جانتے ہیں۔ نیز، تمام انسانوں کی اپنی اپنی سمجھ ہوتی ہے، جس پر ان کے صحیح یا غلط عقائد، پرورش اور معاشرتی اثر و رسوخ  اثر انداز ہوتے ہیں۔  جس کی وجہ سے قوانین کے اندر بے شمار تضادات  پائے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں مزید نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔

 

اسلام میں جنس صرف خود شناسی سے نہیں ہے

ٹرانسجینڈر کی تعریف ان لوگوں کے طور پر کی گئی ہے جو مرد کے طور پر پیدا ہوتے ہیں، لیکن  خود کو عورت سمجھتے یا محسوس کرتے  ہیں، یاعورت کے طور پر پیدا ہوتے ہیں لیکن خود کو مرد سمجھتے ہیں۔اس چیز کی  شریعت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔  ایسے افراد کو ذہنی طور پر بیمار یا نفسیاتی طور پر  مریض سمجھا جائے گا۔ انہیں فوری تھراپی کی ضرورت  ہو گی۔ اگر وہ بیمار نہیں ہیں تو انہیں اسلامی قانون کے مطابق سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب انہیں ذہنی طور پر تندرست قرار دیا جاتا ہے، لیکن وہ اس کے باوجود  اس طرح کے گھناؤنے رویے پر اصرار کرتے ہیں۔ لہٰذا مغرب کی طرف سے پیدا کی جانے والی الجھنوں کو واضح کرنے کے لیے بہتر ہے کہ ان کی اصطلاحات کو چھوڑ دیا جائے اور شریعت کی اصطلاح خنثیٰ  پر قائم رہاجائے جیسا  کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔

 

موجودہ آئین کی اسلام کے تحفظ میں  ناکامی

اب ہم اس سوال پر آتے ہیں کہ کیا مذکورہ ایکٹ یا پاکستان کا آئین خنثیٰ کے حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے؟ جب ہم آئین کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اسلامی آئین نہیں ہے۔ اسلامی اقدار کے نام پر ناقص بیانات کو ، مکمل طور پر ایک استعماری  آئین میں شامل کیا گیا ہے، جو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935 پر مبنی ہے۔

 

اس ایکٹ نے مختلف شکلیں بدلیں اور کئی مراحل سے گزر کر 1956 ، 1962 اور پھر 1973 کا  آئین  بنا، جس میں اب تک 26 بڑی ترامیم کی  جا چکی  ہیں۔ اسلامی کہلانے والی شقیں، در اصل محض دکھاوا ہیں اور ان کا اصل مقصد  آئین کی سیکولر اور لبرل بنیادکو تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔

 

مثال کے طور پر،  اس آرٹیکل پر غور کریں کہ "پوری کائنات  کی  حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور پاکستان کے لوگوں کا  اللہ  کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اختیار (اتھارٹی) استعمال کرنا ایک مقدس امانت ہے۔" یہ آرٹیکل پاکستان کے عوام کو ان کے نمائندوں کے ذریعے قانون سازی کا اختیار دے رہا ہے، جبکہ واضح طور پر یہ بھی کہہ رہا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے۔ لہٰذا، صرف اس ایک  آرٹکل ہی میں،  ایک واضح تضاد   صاف ظاہر ہے۔ یہ بیان کرنے کے بجائے کہ تمام قوانین کا منبع قرآن، سنت نبویﷺ، اجماع صحابہؓ اور قیاس ہوں گے، یہ مضمون انسانی ذہن کو قانون کا منبع بناتا ہے۔

 

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ایک مقدس امانت ہے اور  اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر  محدود ہونا چاہیے۔ اس آرٹیکل کے تحت یہ فرض کیا گیا ہے کہ شریعت صرف وسیع اصول فراہم کرتی ہے، جبکہ باقی فیصلہ انسان پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لہٰذا  زکوٰۃ  کو فرض سمجھا جاتا ہے اور سود کو حرام سمجھا جاتا ہے، البتہ باقی معاشی نظام جیسے کرنسی، زمین کے قوانین، کمپنی کا ڈھانچہ، سرکاری املاک کی ملکیت، ریاست کے فنڈز، ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز انسانی استدلال کا کھیل بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت زکوٰۃ    کی عدم ادائیگی پر بھی کوئی  عمل درآمد نہیں کرتی۔ جہاں تک سود کا تعلق ہے، یہ وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے، جبکہ اس کے خلاف مقدمہ کئی دہائیوں سے آگے پیچھے  گھمایا جا رہا ہے۔

 

لہٰذا اسمبلیوں میں بیٹھے قانون ساز اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ان مسائل پر قانون سازی کرتے ہیں۔ وہ  سرمایہ دارانہ نظام   یا دنیا کے دیگر نظاموں سے  قوانین اپناتے ہیں، اس حقیقت سے قطع نظر کہ ہمارے پاس معاشی، سماجی، عدالتی، نظام  حکمرانی  اور تعلیم اور خارجہ پالیسیوں کے ہر پہلو کے بارے میں تفصیلی اسلامی قوانین موجود ہیں۔

 

دلچسپ بات یہ ہے کہ 1973ء کے اس آئین کے مسودے کو ڈرافٹ کرنے  میں متعدد قابل ذکر اسلامی اسکالرز بھی شامل تھے۔ تاہم انہوں نے جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر،  ہزاروں کتابوں میں موجود اسلامی قانون اور فقہ کو نظر انداز کیا  جو 1918 تک نافذ  تھے ۔ یہ واضح ہے کہ یہ اسلامی شقیں نظام مصطفی اور شرعی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والے عوام کی اکثریت کو مطمئن کرنے کے لئے شامل کی گئی تھیں۔ مسودہ ساز اور اعلان کرنے والے اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ اسلامی آئین نہیں ہے اور اس کے تحت اسلام کو نافذ نہیں کیاجا سکتا اور نہ کبھی  کیا  جا سکے  گا۔ لہٰذا  انہوں نے ایسی دفعات شامل کیں جن میں اسلام کے بتدریج نفاذ کو ریاست پاکستان کا مقصد قرار دیا گیا۔

 

لہٰذا آرٹیکل 227 کے تحت یہ کہا گیا ہے کہ" تمام موجودہ قوانین قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلام کے احکامات کے مطابق ڈھالیں جائیں گے اور اس حصے میں جسے اسلام کے احکام کہا جاتا ہے  اور ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا جو ان احکامات کے منافی ہو۔" اس کا نفاذ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے ذریعے کیا گیا۔ اس سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے دن سے اسلامی قانون کو مکمل اور جامع طریقے سے نافذ کرنے کا ارادہ نہیں تھا،بلکہ اسلام کے نام پر عوام کو دھوکہ دینا  تھا۔

 

وفاقی شرعی عدالت جو ملکی قوانین کو قرآن و سنت کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کے لیے بنائی گئی تھی، اس کے پاس اعلیٰ اختیار نہیں ہے۔ اس کے فیصلوں اور احکامات کو سپریم کورٹ کے شرعی اپیلیٹ بنچ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، جو پاکستان کے سیکولر آئین کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کرتا ہے۔ سیکولر آئین اس بات کا تعین کرتا ہے کہ لوگوں کے حقوق مغربی قانون دانوں کے متعین کردہ تعریفات، آزادیوں  کے سیکولر نظریات اور انسانی حقوق کے تابع ہوں۔ اسلامی قانون ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ساتھ ساتھ صدر پاکستان کی خواہشات کے سامنے بے بس رہتا ہے۔ پاکستان میں شریعت،  سپریم قانون نہیں ہے کیونکہ  حکمران  طبقے کے پاس حتمی اختیار ہے۔ وہ کسی بھی اسلامی قانون کو پارلیمنٹ میں بل کی شکل میں اکثریتی ووٹ سے منظور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ وہ 51 فیصد اکثریت کے ساتھ کسی بھی قانون کو ختم کرسکتے ہیں یا دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم بھی کرسکتے ہیں۔ تو پھر پاکستان میں کسی بھی گروہ کے اسلامی حقوق کا تحفظ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

 

اس کے برعکس اسلام تمام لوگوں کو ان کے مذہب، ذات، عقیدہ، جنس یا نسل  سے قطع نظر،  خوراک، رہائش، لباس، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے حصول کا حق دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام نے ریاست پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ انہیں ہر شہری کو فراہم کرے۔  پیغمبر اسلام  ﷺ کے تحت اسلامی حکمرانی کے آغاز سے لے کر خلافت عثمانیہ کے خاتمے تک،  یہ حقوق  پورے  کیے گئے۔ تاہم پاکستان میں سرمایہ دارانہ آئین کے تحت ریاست یہ سہولیات فراہم کرنے کا دعوی  تو ٰ کرتی ہے لیکن سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود  ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

 

یہ قانون کسی کے حقوق کا تحفظ نہیں کرے گا کیونکہ ریاست سرمایہ دارانہ نظام اور آئین کے تحت چلتی ہے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ان ترامیم کو آئین پاکستان کے تحت سپریم کورٹ کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر شریعت کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ کی طرف سے برقرار رکھا جاتا ہے تو مقننہ،  ارکان پارلیمنٹ کی مرضی اور خواہشات کے مطابق نئے قوانین منظور کرسکتی ہے۔ شریعت کو انسانوں کے سامنے ووٹ ڈالنےکے لیے رکھ دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس کی کوئی قطعی اہمیت نہیں ہے۔

 

اگر پاکستان کے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، چاہے وہ کسی بھی جنس، ذات،  عقیدے ، نسل یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، تو صرف ایک ہی راستہ ہے جو  کہ موجودہ آئین اور نظام کو مکمل طور پر ختم کرنا اور خلافت کے نظامِ  حکمرانی  کے تحت مکمل اور جامع طریقے سے اسلامی قوانین کو  نافذ کرنا  ہے۔

 

Last modified onجمعہ, 02 جون 2023 00:39

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک