بسم الله الرحمن الرحيم
1342 ہجری بمطابق 1924 عیسوی کو خلافت کے خاتمے اور اس کی غیر موجودگی کی ایک صدی ہجری مکمل ہونے کے موقع پر امیر حزب التحریر اور جلیل القدر فقیہ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی تقریر
عربي | English | Türkçe | Deutsch |
Kiswahili | русский | Український | Malaysia |
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، درودو سلام ہواللہ کے رسولﷺ پر، ان کی آل اوران کے اصحاب پر اور ہر اس شخص پر جس نے آپﷺ کی پیروی کی ۔
امت اسلامیہ اور خاص طور پراُن دعوت کے علمبردار مرد اور خواتین کی طرف خطاب ،جو خلافتِ راشدہ کے دوبارہ قیام کے لئےسرگرمِ عمل ہیں،
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته،
ایک سو ہجری سال قبل یہی وہ دن تھے جب رجب 1342 ہجری کے آخری ایام، یعنی مارچ 1924 عیسوی کے شروع میں، اس وقت کے استعماری کفار برطانیہ کے زیر قیادت،عربوں اور ترکوں میں موجود غداروں کے ذریعے خلافت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مجرمِ زمانہ مصطفیٰ کمال نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا، اس نےاستنبول میں خلیفہ کا محاصرہ کر کے دن طلوع ہونے سے قبل ہی خلیفہ کو ملک سے نکال دیا۔ یہ وہ قیمت تھی جو برطانیہ نے طلب کی جس کے عوض مصطفیٰ کمال کو سیکولر ترک جمہوریہ کی صدارت عطاکی گئی ۔ یوں یہ سانحہ رونما ہوا اور مسلمانوں کی زمینوں میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ۔ خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلمانوں کی شان و شوکت اور ان کے رب کی رضا کا ذریعہ ختم ہو گیا۔
بے شک مجرم مصطفیٰ کمال نے خلافت کا خاتمہ کر کے کھلم کھلا کفر کا اعلان کیا۔ اس وقت امت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس مجرم کے خلاف تلوار سونت کر بر سر پیکار ہو جاتی جیسا کہ عبادہ بن صامتؓ سے روایت کردہ رسول اللہﷺ کی متفق علیہ حدیث میں حکم دیا گیا ہے،
«وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْراً بَوَاحاً عِنْدَكُمْ مِنْ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ»
"۔۔۔اور یہ بھی کہ حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے بارے میں اس وقت تک جھگڑا نہ کریں گے جب تک ان کی طرف سے کھلم کھلا کفر نہ دیکھ لیں کہ جس کے متعلق تمہارے پاس اللہ کی طرف سے قطعی دلیل موجو دہو"۔
مصطفیٰ کمال نے شدید مظالم ڈھائے اور مسلمانوں کا خون بہایا خصوصاً اس نے درجنوں علماء کو نشانہ بنایا جن میں شیخ سعید بیرانؒ بھی شامل تھے،جبکہ کئی علماء کوجیلوں میں ڈال دیا گیا۔یہ سب امت کی کوتاہی میں سے تھا کیونکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امت اس غدار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی اور اس کو اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ کر انہیں ختم کردیتی، لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ اور ایمان والوں سے غداری کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل کمزور اور انتہائی ناکافی تھا۔ لہٰذا ، کھلم کھلا کفر کا مرتکب، اپنے گھناؤنے اعمال کے ذریعہ، امت کے ہاتھوں ایک بدترین انجام سے "بچنے" میں کامیاب ہوگیا!
اس کے بعد استعماری کفار کا اثر و رسوخ مسلم سرزمین پر مکمل طور پر حاوی ہوگیا ، چنانچہ انہوں نےمسلمانوں کے علاقوں کوپچپن کے قریب ٹکڑوں میں کاٹ کر تقسیم کردیا ۔ یہ خلافت کے خاتمے کے زلزلے کا نتیجہ تھا۔ پھر ایک دوسرا زلزلہ اُس وقت آیا جب مقدس سرزمین، رسول اللہﷺ کے مقام ِاسراء اور معراج، پر یہود کی ریاست قائم کردی گئی ، اور کفار نے اس ناجائز یہودی وجود کو برقرار رکھنے کے لیے تمام وسائل اور ذرائع استعمال کیے۔ وہ پہلا ذریعہ جوکفار نے اس یہودی وجود کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کیا وہ اس کے گرد موجود ایجنٹ حکمران تھے۔ نہ صرف یہ کہ یہ حکمران یہود کے ساتھ لڑی جانے والی ہر جنگ میں ناکام ہوئے بلکہ انہوں نے یہودی وجود کو وہ حیثیت دلائی جو اس کی اصل حیثیت سے کہیں زیادہ تھی۔ پھر یہ ایجنٹ حکمران یہاں پر ہی نہ رُکے بلکہ انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف لڑائی مول لینے کی ہرممکن کوشش کی تا کہ یہ معاملہ فلسطین سے یہودی وجود کے جڑ سے خاتمے کا نہ رہے بلکہ یہودی وجود کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں تا کہ شاید وہ ان علاقوں میں سے چند سے دستبردار ہوجائے جن پر اس نے 1967 میں قبضہ کیا تھا ۔ پھر یہ ایجنٹ حکمران اس پستی سے بھی مزید نیچے گرگئے۔ ان حکمرانوں میں یہودی وجود کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی چاہے یہودی وجود کسی علاقے سے دستبردار نہ بھی ہو!! کچھ ایجنٹ حکمرانوں نے تعلقات قائم کرنے کا جرم خفیہ طور پر کیا اور کچھ نے علی الاعلان یہ جرم سرانجام دیا۔ مصر کے حکمرانوں نے اس ذلت و رسوائی کے مارچ کی قیادت کی، تنظیمِ آزادئِ فلسطین (پی ایل او) نے ان کی پیروی کی، پھر اردن کے حکمرانوں نے قدم بڑھایا اور ان کے بعد متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے ان کی تقلید کی۔ سعودی حکمران ذلت و رسوائی کی اس شاہراہ کے سرے پر کھڑے ہیں اور ہاتھ ہلا ہلا کر ان ممالک کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں جو اس عمل میں پیچھے نہیں بلکہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا یہ سب اس ذلت کی پرواہ کیے بغیر، جس نے سر سے پیرتک ان کو ڈھانپ رکھا ہے، اس جرم میں شرکت کے لیے بھاگے چلے جارہے ہیں،
﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ﴾
"جو لوگ جرم کرتے ہیں ان کو اللہ کے ہاں ذلّت اور عذابِ شدید ہوگا اس لیے کہ مکّاریاں کرتے تھے "(الانعام:124) ۔
ان حکمرانوں نے صرف فلسطین کے معاملے میں ہی غداری نہیں کی بلکہ انہوں نے دیگر اسلامی علاقے بھی کفار کے حوالے کردیے۔ ہندو مشرکین نے کشمیر کو اپنی ریاست میں شامل کرلیا، روس نے کریمیا کو شامل کرلیا، جنوبی سوڈان اپنے شمالی حصے سے جدا ہوگیا اور مشرقی تیمور انڈونیشیا سے لے لیا گیا۔ اور قبرص کا کیا کہنا، یہ کئی سال تک مسلمانوں کا قلعہ رہا لیکن اب اس کے زیادہ تر حصے پر یونان کا کنٹرول ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کو میانمار(برما) میں قتل کیا جارہا ہے اور جب وہ اس خوفناک ظلم سے بچنے کے لیے بنگلا دیش میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے اور انہیں بھیڑ بکریوں کے طرح ہانک کر باسان تشار کے جزیرے پر پھینک دیا جاتا ہے جہاں پر سیلاب آتے رہتے ہیں ،یہ خطرات سے پُر علاقہ ہے جو کسی بھی طرح انسانوں کے رہنے کےلائق نہیں ہے۔ پھر مشرقی ترکستان کہ جہاں چین بدترین مظالم ڈھا رہا ہے اوراُس نے اِس علاقے کو مسلمان مرد و خواتین کے قید خانے میں تبدیل کردیا ہے،اس نے ایغور مسلمانوں کے خلاف ایسا وحشیانہ رویہ اپنایا ہےکہ وحشی جنگلی درندے بھی ایسی درندگی کا مظاہرہ نہ کریں۔ یہ تمام مظالم رات کے اندھیروں میں چھپ کر نہیں بلکہ دن کی روشنی میں کھلم کھلا کیے جاتے ہیں جن سے مسلم ممالک کے حکمران بخوبی واقف ہیں لیکن انہوں نے قبر کی سی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، اور اگروہ اس معاملے پر بات کرتے بھی ہیں تو یہ کہ مسلمانوں پر مظالم چین کا اندرونی معاملہ ہے!
﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِباً﴾
"(یہ) بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے (اور کچھ شک نہیں) کہ یہ جو کہتے ہیں محض جھوٹ ہے"(الکہف:5) ۔
جہاں تک مسلم علاقوں کا تعلق ہے تو ان پر "رويبضات" (جاہل ) حکمران حکمرانی کررہے ہیں، جو استعماری کفار کی مکمل پیروی کرتے ہیں اور کفار جدھر کا رخ کرتے ہیں یہ بھی اپنا منہ اسی جانب کرلیتے ہیں۔ یہ نہ توملک کی سیکیورٹی برقرار رکھتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ لوگوں کی دولت لوٹی جا رہی ہے اور ان کی عزتیں تار تار ہو رہی ہیں۔ جہاں تک خود حکمرانوں کا تعلق ہے ،تو استعماری کفار خصوصاًامریکا کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہے جو اپنےایجنٹوں کو اس طرح مخاطب کرتا ہے کہ وہ پست اورذلیل نظر آئیں۔ وہ انہیں حکم دیتا ہے، "ہمارے بغیر تم اپنی کرسی پر چند دن بھی ٹھہر نہیں سکتے، پس جتنی دولت دے سکتے ہو ہمیں دوبلکہ اپنی استطاعت سے بھی زیادہ دو" ۔ بے شک جوذلیل ہو اسے ذلت ناگوار نہیں گزرتی!!
اے مسلمانو!
خلافت کے خاتمے کے بعد آج آپ کی یہ صورتحال ہے، آپ پر اقوام ہر طرف سے حملہ آور ہیں، جبکہ خلافت کے سائے میں آپ کی کیا صورتحال تھی؟
اس وقت آپ بہترین امت تھے جنہیں انسانیت کے لیے کھڑا کیا گیا تھا،آپ خاتم النبین ، امام المجاہدین محمدﷺ کی اتباع کرنے والے تھے۔۔۔ آپ کے آباؤ اجداد خلفائے راشدینؓ اور عظیم فاتحین ہیں۔ آپ فاتح صلاح الدین کی اولاد ہیں جس نے اسی رجب کے مہینے 583 ہجری میں صلیبیوں کو عبرتناک شکست دے کر القدس کو آزاد کرایا تھا۔ آپ قُطز اور بیبرس کی اولاد ہیں جنہوں نے تاتاریوں کو بدترین شکست سے دوچار کیا تھا۔ آپ محمد الفاتح کی اولاد ہیں ، وہ نوجوان امیر جو 23 سال سے زیادہ کا نہیں تھا جب اس نے 857 ہجری بمطابق 1453 عیسوی کو قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا ، جس کی بشارت رسول اللہﷺ نے دی تھی،اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے عزت سے سرفراز کیا ۔ احمد نے بشر الخثعمی سے یہ حدیث روایت کی:
«فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ»
" کیا اعلیٰ وہ امیر ہوگا اور کیا اعلیٰ وہ فوج ہو گی (جو قسطنطنیہ فتح کرے گی)"۔
آپ خلیفہ سلیما ن القانونی کی اولاد ہیں جس سے فرانس نے 1525 عیسوی میں یہ درخواست کی تھی کہ ہمارے بادشاہ کو قید سے رہا کروانے میں مدد فراہم کریں۔ لیکن آج فرانس مسلمانوں کے خلیفہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی معاونت کو بھول گیا ہے یا بھلا دینا چاہتا ہے، لہٰذا وہ اسلام اور رسول اللہﷺ کی اہانت کرتا ہے، مگر اس عظیم شیطانی جرم کی سزا سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ اسلام کی ڈھال – خلافت- موجود نہیں ہے۔ آپ خلیفہ سلیم سوئم کی اولاد ہیں جس کے دورِ حکمرانی میں امریکا خلافت کو سالانہ ٹیکس دیتا تھا تا کہ اس کے بحری جہازوں پر الجزائر میں موجود عثمانی بحریہ حملہ نہ کرے اور وہ بحفاظت بحر روم سے بحر اوقیانوس تک سفرکرسکیں۔ اس حوالے سے تحریر ہونے والا معاہدہ عثمانی ریاست کی زبان میں لکھا گیا تھا اور پہلی بار ایسا ہوا کہ امریکا ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور ہوا جو اس کی ریاست کی زبان میں تحریر نہیں کیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ 1210 ہجری بمطابق 1795 عیسوی میں طے پایا تھا۔ لیکن اب امریکا مسلم دنیا کے حکمرانوں کو کنٹرول کرتا ہے اور کہتا ہے، "پیسے دو کیونکہ ہم تمہاری حفاظت کرتے ہیں"۔ آپ خلیفہ عبدالحمید دوئم کی اولاد ہیں جسے یہود نے فلسطین کے عوض لاکھوں سونے کے سکوں کی پیشکش کی لیکن وہ اس پیشکش سے قطعی طور پر متاثر نہیں ہوا اور یہ مشہور الفاظ ادا کیے، "میرے لیے اپنے جسم کو خنجر سے کاٹنا آسان ہے بجائے یہ کہ فلسطین کو خلافت سےکاٹ دیا جائے"، پھراس نے مزید کہا"۔۔۔ یہود اپنے لاکھوں اپنے پاس رکھیں۔۔۔اور اگر ایک دن خلافت ختم ہوگئی تو پھر وہ فلسطین کو بغیر کسی قیمت کے حاصل کرسکتے ہیں"۔ اور پھر تاریخ نے ان کے الفاظ درست ثابت کر دیے۔ آپ ان کی اولاد ہیں جنہوں نے گھڑی ایجاد کی اور اسے یورپ کے عظیم بادشاہ شارلی میگنی (Charlemagne) کو تحفے کے طور پر پیش کیا اور اس کے درباری یہ سمجھے کہ اس کے اندر بھوت اور جن ہیں جو اسے چلا رہے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم روشن افکار کے مالک تھے اور جب کفارکے افکار بہت پست اور کمزور تھے۔
اے مسلمانو!
یہ تھی آپ کی صورتحال جب خلافت ایک ڈھال کی طرح آپ کی حفاظت کرتی تھی، اور جب آپ سے آپ کا سایہ چھن گیا تو اب آپ کی صورتحال اس قدر ذلت آمیز ہو چکی ہے ، تو اے بصیرت والو، نصیحت پکڑو۔
آخر میں ، اے اہل طاقت و قوت ، اے خالدبن ولید ؓ، صلاح الدین اور محمد الفاتح کے جانشینو!
صرف آپ ہی وہ لوگ ہیں جو اس زخمی امت کو شفا بخش سکتے ہیں کہ جس کے سینے کو آپ کے دشمنوں اور آپ کے دین کے دشمنوں نے چھلنی کر رکھا ہے۔ مسلمان اپنی ہی سرزمین میں ، جواسلام کی سرزمین ہے، جس ذلت سے دوچار ہیں اسے صرف آپ ہی ختم کر سکتے ہیں۔ امت کی امید وں کو زندہ کرنے اور اسے پورا کرنے کا اعزاز آپ کا منتظر ہے ، جب پوری امت آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی ، جب اس کی ساری فوجیں آپ کے سامنے اور آپ کے پیچھے کھڑی ہوں گی۔ آپ اس وقت ،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اِذن سے، اکیلے نہیں ہوں گے ، لہٰذا آپ اپنا فرض ادا کریں اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو برکت عطا کر ے گا، آپ ہماری نُصرت کے لیے کھڑے ہوں، نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام کے لیے آپ حزب التحریر کو نُصرۃ دیں کیونکہ یہ صرف حقیقت کے لحاظ سے ہی فتح کا راستہ نہیں ہے، بلکہ اول بات یہ ہے کہ یہ ایک فرضِ عظیم ہے جس کے ذریعہ اسلام کےاحکامات قائم ہوتے ہیں اور حدود نافذ ہوتی ہیں۔ خلافت کے بغیرآج اسلام کے احکامات لوگوں پر نافذ نہیں اور نہ ہی ان کے درمیان اللہ کی حدود نافذ ہیں، اور اس دوران جو خلافت کے قیام اور خلیفہ کے تقرر کی جدوجہد نہیں کرتا جبکہ وہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہو تو وہ بہت بڑے گناہ میں مبتلا ہے کیونکہ اگر اُسے اِس حالت میں موت آجائے تووہ ایسی موت ہو گی جیسا کہ زمانہِ جاہلیت کی موت ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس گناہ کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے فرمایا،
«...وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»
"۔۔۔اور جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس نے خلیفہ کی بیعت نہ کی ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔
مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کے جنازے کو تیار کرنے اور ان کے جسمِ اطہر کی تدفین سے قبل خلیفہ کو بیعت دی، جو اِس بیعت کے فرض کی عظمت و اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سب خلافت کی عظمت اور اہمیت کی بنا پر ہے۔
اے اہل طاقت وقوت ، اے اہلِ نُصرۃ، اے مسلم افواج!
کیا آپ میں کوئی مُصعب بن عمیرؓ، اسعد بن زُرارہؓ، اُسید بن حضیر ؓ اور سعد بن معاذؓ موجود نہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی حمایت کرے اور دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کی کامیابی سمیٹ لے؟ سعد بن معاذؓ وہ تھے جنہوں نے اللہ کے دین کے لیے نُصرۃ دی تھی اور ان کے انتقال پر الرحمٰن کا عرش ہل گیا تھا، بخاری نے جابرؓ سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا،«اهْتَزَّ العَرْشُ لِمَوت سعد بن معاذ» "سعد بن معاذ کی موت کی وجہ سے اللہ کاعرش لرز اُٹھا" ۔ کیا آپ میں کوئی ایساصاحبِ بصیرت ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی حمایت میں اسلام کی دعوت کے علمبرداروں کو نُصرۃ دے؟ امت آپ کی جانب دیکھ رہی ہے اور آپ کی منتظر ہے، وہ آپ کی تکبیروں کی منتظر ہے کہ وہ بھی آپ کی تکبیروں میں شامل ہوجائے، جب آپ کے ہاتھوں سے الرَایہ کا جھنڈا بلند ہو اور وہ آپ کے لیے نعرے بلند کرے۔ امت کو زوال سے نکالنے کا یہی واحد راستہ ہے کہ خلافتِ راشدہ قائم کی جائے جو اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرے اور دعوت و جہاد کے ذریعے اس کے پیغام کو پوری دنیا تک لے جائے اور اللہ اس کی مدد و نصرت کرے:
﴿إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ﴾
"ہم اپنے پیغمبروں کی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کی ،دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے (یعنی قیامت کو بھی)"(غافر:51)۔
اے اللہ کے سپاہیو!
ہمیں یہ ادراک ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کہ آسمان سے فرشتے اتریں اور ہماری بجائے خلافت کو قائم کریں اور اسلام اور مسلمانوں کو طاقت پہنچانے کے لیے ان کی فوج کی قیادت کریں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہماری مدد کے لیے صرف اسی صورت میں فرشتے بھیجیں گے جب ہم پورے اخلاص اور سچائی کے ساتھ اس دنیا میں اسلامی طرزِ زندگی کی بحالی اور خلافت کے قیام کے لیے بھرپور جدوجہد کریں گے۔ خلافت کا قیام اللہ کا وعدہ ہے جواللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی حدیث میں مذکورہے۔ ان لوگوں کے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جو کہتے ہیں کہ آج خلافت کا قیام ایک خیالی تصور ہے۔ دراصل جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خلافت کا قیام خیالی تصور ہے وہ خیالی دنیا میں ہے ، جبکہ خلافت کا قیام ایک حقیقت ہے جو اللہ کے اِذن سے واقع ہوکر رہے گا ، جس کی تصدیق چار حقائق سے ہوتی ہے:
پہلا: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے:
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾
"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین میں خلافت عطا کرے گا جیسے ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا"(النور:55)۔
دوسرا: رسول اللہ کی یہ بشارت کہ ظلم و جبر کے دَور کے بعد نبوت کے نقش قدم پر خلافت واپس لوٹے گی، ارشاد فرمایا
«...ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» ثُمَّ سَكَتَ، "
۔۔۔ پھر جبر کا دور ہوگا اور اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر اللہ اسے ہٹا دے گا جب وہ چاہے گا، پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہوگی" اس کے بعد آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔(احمد نے حذیفہ سے روایت کی)۔
تیسرا: ایک زندہ و متحرک امت ، جو وہ بہترین امت ہے جو بنی نوع انسان کے لیے کھڑی کی گئی ہے:
﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ﴾
"جتنی امتیں لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو"(آل عمران:110)۔
اگر یہ امت خلافت کے قیام سے کچھ عرصہ رکی ہوئی ہے تو یہ حملہ کرنے سے پہلے شیر کے آرام کرنے کی طرح ہے۔
چوتھا: یہ حزب جو اللہ کے اِذن سےاللہ کے ساتھ مخلص اور رسول ﷺ کے ساتھ سچی ہے ،اور اللہ کے وعدے اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے حصول کے لئے دن رات جدوجہد کررہی ہے ، گویا یہ اس حدیث کی تصدیق ہے ،
«لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَذَلِكَ»
" میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا ،کوئی ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آئے (یعنی قیامت)اور وہ اسی حال میں ہوں گے"(مسلم نے ثوبان سے روایت کی)۔
ان چاروں میں سے کوئی ایک بھی بات یہ بیان کرنے کے لئے کافی ہے کہ خلافت کے لئے کام کرنا خیالی گھوڑے دوڑانا نہیں ہے ، اور اگر یہ چاروں ہی موجود ہوں، تو کیاہی اعلیٰ امر ہے؟!پس خلافت کا قیام ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا وقت اللہ کے اِذن سے دور نہیں۔ اس کے قیام کے بعد اللہ کے اذن سے اسے مضبوطی اور استحکام حاصل ہو گا ، اور آج کی بڑی طاقتوں کے ڈھانچے گر جائیں گے اور ان کا عبرتناک انجام ہوگا ۔ یہ ممالک اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اللہ کے مخلص بندوں کی نظر میں پست ہیں۔ بے شک ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک انتہائی چھوٹی
مخلوق کورونا وائرس نے، جو خالی آنکھ سے دکھائی بھی نہیں دیتی ، ان ممالک کا کیا حال کردیا ہے جس میں ان کا سرغنہ امریکا بھی شامل ہے ۔ ذرا نظر ڈالیں کہ انتخابات میں امریکا کے ساتھ کیا ہوا ، کہ ایک گروہ انتخابات کو چوری شدہ اور فراڈ سمجھتا ہے اور دوسرا انہیں ایک بڑی فتح سمجھتا ہے!ان انتخابات کا خاتمہ محض چپقلش پر نہیں ہوا بلکہ سرکاری اداروں پر حملہ ہوگیا اور سرمایہ داریت کے علمبردار ملک کے اقتدار کے ایوانوں میں فائرنگ سے لوگ قتل ہوگئے، جبکہ دونوں جماعتیں تباہ کن جمہوریت کا ہی مطالبہ کررہی تھیں!یہ ہے آج کی دنیا، جوافراتفری اور بدانتظامی میں مبتلا ہے۔ اس دنیا کواسلام کی ریاست، نبوت کے نقش قدم پر خلافت، قائم کر کے ہی بچایا جاسکتا ہے۔
بھائیو اور بہنو!
ہم جدوجہد کرتے تھے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ خلافت کا قیام اس کے خاتمے کی ایک صدی مکمل ہونے سے پہلے ہی ہوجائے ،یوں حزب کی زندگی کے ان ستر سالوں میں دن رات گزرتے رہے۔ ہم خلافت کے قیام کے قریب پہنچے، لیکن پھر منزل دور ہو گئی۔ لیکن اس کے باوجود ہم کبھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت اور قدرت سے مایوس نہیں ہوئے۔پس ہم بھرپور انداز میں کام کرتے ہیں اور ہماری آنکھیں خلافت کے سورج کے طلوع ہونے کی طرف لگی ہیں اور ہمارے دل اس کے لیے دھڑکتے ہیں۔ مگر ہمارے قلب مطمئن ہیں کہ یہ قائم ہوکررہے گی ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کی اطلاع دی اور خوشخبری سنائی«...ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»"اور پھر خلافت قائم ہو گی نبوت کے نقش قدم پر"۔ یہ تمام باتیں ہماری ہمت کو بڑھانے اور ہمارے ارادوں کو مضبوط کرنے کے لیے کافی ہیں۔یہ دوبارا سے چنگاری کوبھڑکا کر آگ بناتی ہیں اور ایک شخص کو، جو سانحے کے صدمے سے مبہوت ہے ، ایسے فرد میں تبدیل کردیتی ہیں جو اس سانحے کے بعد کامیابی و راحت کی امید رکھتا ہے۔
اسی کے متعلق اللہ العلیم الکبیر نے ہمیں آگاہ فرمایا ہے ، ارشاد ہوا
﴿فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً * إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً﴾
"ہاں ہاں! مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے ، اور بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے"(الشرح:6-5)۔
اور یہی بات ہمیں نبیٔ صادق و امین نے بیان کی،
«وَلَنْ يَغْلِبَ عُسْرٌ يُسْرَيْنِ»" ایک تنگی دو آسانیوں پر غالب نہیں آ سکتی" (رزین) یہی پیغام عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو دیا تھا، (فَإِنَّهُ لَمْ تَكُنْ شِدَّةٌ إِلاَّ جَعَلَ اللَّهُ بَعْدَهَا مَخْرَجاً، وَلَنْ يَغْلِبَ عُسْرٌ يُسْرَيْنِ)" کوئی مشکل نہیں سوائے اس کے کہ اللہ اس کے بعد اس سے نکلنے کا موقع نہ پیدا کردے اور سختی دو آسانیوں پر قابو نہیں پاسکتی"۔ لہٰذا اللہ رب العالمین کے اذن سے آسانی و راحت کے دن آنے والے ہیں اور خلافت سچے ایمان والوں کے ہاتھوں قائم ہو گی، وہ یہودی وجود کو مٹا ئے گی اور فلسطین کو ایک بار پھر اسلام کا مسکن بنادے گی۔قسطنطنیہ (استنبول) کے فتح ہو چکنے کے بعد روم بھی فتح ہوگا اور اللہ القوی العزیزکے مخلص بندے پکار کر کہیں گے،
﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وزهق الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً﴾
"اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا۔ بےشک باطل نابود ہونے والا ہے"(الاسراء:81)۔
اللہ کی زمین تکبیرات سے گونج اٹھے گی اور دنیا اسلام کے نور سے چمک اٹھے گی:
«لَيَبْلُغَنَّ هَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَلَا يَتْرُكُ اللَّهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ هَذَا الدِّينَ بِعِزِّ عَزِيزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ عِزّاً يُعِزُّ اللَّهُ بِهِ الْإِسْلَامَ وَذُلّاً يُذِلُّ اللَّهُ بِهِ الْكُفْرَ»
" یہ دین وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ کوئی کچا یا پکا گھر نہیں چھوڑے گا مگر اس میں اسلام کو داخل نہ کر دے ۔ خواہ اسے عزت کے ساتھ قبول کر لیا جائے یا اسے رد کر کے ذلت قبول کر لی جائے؛ عزت وہ ہوگی جو اللہ اسلام کے ذریعے عطا کرے گا اور ذلت وہ ہوگی جس سے اللہ کفر کو ذلیل کر دے گا "(احمد نے تمیم الداری سے روایت کی)۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ اسلام کے دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ وہ گزرے ہوئے لوگوں کے ہی الفاظ دہراتے ہیں جو مذاق اڑایا کرتے تھے،﴿غَرَّ هَؤُلَاءِ دِينُهُمْ﴾"ان لوگوں (مسلمانوں) کو ان کے دین نے مغرور کر رکھا ہے"(الانفال:49)۔
لیکن یہ بات ان لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث بن گئی جنہوں نے یہ کہی تھی کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے دین کو بلند کرتاہے اور اس کے لوگوں کی مددو نصرت کرتا ہے۔ وہ دن ان لوگوں کے لیے بہت ہی خوفناک ہوگا کیونکہ العزیز الحکیم اپنے ان بندوں کے ساتھ ہے جو اس پر ہی بھروسہ کرتے ہیں، جو اس سے وفادار ہیں، جو اپنے نبیﷺ کے ساتھ سچے ہیں، جو پوری تندہی اور بہادری کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں، اور ان کے دل اور سینے اللہ کی بات سے مطمئن ہیں،
﴿إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً﴾
"اللہ اپنےامر کو پورا کرکے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے"(الطلاق:3)۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم اس طے کردہ امر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
"اور اللہ اپنےامر پر قادر ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"(یوسف:21)
والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہفتہ، 29 رجب 1442 ہجری
13 مارچ 2021 ء
آپ کا بھائی
عطا بن خلیل ابو الرَشتہ
امیر حزب التحریر