بسم الله الرحمن الرحيم
تفسیر سورۃ البقرۃ : آیت 204-207
فقیہ اور مدبر سیاست دان ،امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابوالرَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٝ فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّـٰهَ عَلٰى مَا فِىْ قَلْبِهٖ وَهُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ (204)وَاِذَا تَوَلّـٰى سَعٰى فِى الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْـهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (205) وَاِذَا قِيْلَ لَـهُ اتَّقِ اللّـٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْـمِ ۚ فَحَسْبُهٝ جَهَنَّـمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ (206) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِىْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ رَءُوْفٌ بِالْعِبَادِ (207) ﴾
" اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جس کی بات دنیا کی زندگی میں آپ کو بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے۔اور جب پیٹھ پھیر کر جاتا ہے تو ملک میں فساد ڈالتا اور کھیتی اور مویشی کو برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔اور جب اسے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو شیخی میں آ کر اور بھی گناہ کرتا ہے، سو اس کے لیے دوزخ کافی ہے، اور البتہ وہ برا بچھونا ہے۔جبکہ بعض ایسے ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان بھی بیچ دیتے ہیں، اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔"
مذکورہ آیات کریمہ کا عطف گزشتہ آیات پر ہے، یعنی (فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الـدُّنْيَا وَمَا لَـهٗ فِى الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (200) وَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الـدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِى الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ) (201) ترجمہ: "پھر بعض تو یہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے، اور اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھی نیکی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔"
تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اِن آیات سے پہلے جب حج سے متعلقہ آیات ذکر فرمائیں اور یہ بیان فرمایا کہ حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد لوگ دو صنفوں میں بٹ جاتے ہیں: ایک صنف وہ ہے جو اللہ سے صرف دنیا مانگتے ہیں ،ایسے لوگوں کا آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ، جبکہ دوسری صنف وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے دنیا بھی مانگتے ہیں اور آخرت کا ثواب بھی طلب کرتے ہیں اور ایسا حج کے موقعہ پر ہوتا ہے،تو اَب مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ صرف دنیا پر نظر رکھنے یا اس کے ساتھ آخرت کو مد نظر رکھنے کی صفت جس طرح حج کے موقع پر لوگوں میں پائی جاتی ہے ، حج کے علاوہ میں بھی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے دونوں معطوفین Appositions)((یعنی حج اور غیر حج میں لوگوں کی دو قسموں)کے درمیان ایک اورحکم کو ذکر کرکے جدائی(separation) کی ہے، اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں دو دنوں میں جلدی کرنے یا تین دن تک تاخیر کا ذکر کیا ہے۔ اور جب دو معطوفوں)Appositions( کے درمیان کسی اور چیز کا ذکر داخل کیا جائے تو عربی زبان کے فصحاء کے نزدیک اس سے مقصود اس چیز کو نمایاں کرناہوتا ہے۔ اور اس پر زور دینا پیشِ نظر ہوتا ہے ، تاکہ لوگ اس کو غیر ضروری نہ سمجھیں ۔ قرآن کریم میں یہاں ایسا کیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جب سابقہ آیات کریمہ میں ( فاذا قضیتم مناسککم)کوذکر کیاجس کے معنی ہیں کہ" جب تم حج کے امور سر انجام دو۔" اور حج کے امور کی تکمیل عرفات سے مزدلفہ کی طرف چلے جانے کے بعد ہوتی ہے، تواللہ تعالیٰ نے اس کے بعد تشریق کے کم از کم دو ر اتیں وجوبی طور پر گزارنے کی تاکید کی تاکہ لوگ یہ راتیں گزارنے کو غیر ضروری سمجھ کر فقط عرفات سے مزدلفہ آنے اور پھر قربانی کرنے پر اکتفا کرکے یہ راتیں گزارنا چھوڑ نہ دیں۔ اسی وجہ سے اوپر والی آیات میں دو معطوفوں کے درمیان مَبِیت یعنی شب باشی یا رات گزارنے کو ذکر کیا ،اس طرح اس میں زیادہ تاکید پیدا کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس سیاق میں لوگوں کی دو اور اصناف کا بھی ذکر کیا ہے:
1 – ایک فریق وہ ہے کہ دنیوی زندگی کے بارے میں اس کی باتیں تمہیں بڑی اچھی لگتی ہیں ، اسے بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے، بناوٹی الفاظ کا استعمال کرسکتا ہے ، خود اعتمادی کے ساتھ بات کرنے کی قدرت رکھتا ہے، میٹھی اور چکنی چپڑی باتیں کرکے اپنی شیریں زبانی کا گرویدہ بنالینے کے گُر جانتا ہے، اس کے ساتھ وہ اس بات پر اللہ کو گواہ بناکر کہتا ہے کہ اس کا ظاہر و باطن یکساں ہیں،جبکہ اسی وقت ایسا شخص دشمنی میں کٹر پن کی انتہاؤں پر کھڑا ہوتا ہے ، نور اسلا م اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں دن رات ایک کئے ہوتا ہے۔
یہ آدمی آپ لوگوں سے الگ ہوکرجب کہیں جاتا ہے تو اس کی دوڑ دھوپ زمین میں فساد پھیلانے کے لیے ہوتی ہے،یوں بڑے پیمانے پر فصلیں اور نسلیں تباہ کرتا جاتا ہے ،اور نہایت سُرعت اور پھرتی سے انسانوں ،حیوانوں اور ہر قسم کے جانداروں کے قتل کے اسباب تلاش کرتا پھرتا ہے۔
اگر آپ اسے دیکھ لیتے ہیں پھراس کے کرتوتوں کو اس پر واضح کردیتے ہیں ،اُسے اللہ کی یاد دلاتے اور ڈراتے ہیں، تو بجائے اس کے کہ وہ ظلم و تکبر اور اپنی بُری عادتوں سے باز آجائے، اس کی غیرت و حمیت جاگ جاتی ہے ،اور اپنی بے راہ روی میں مزیدبڑھتا چلا جاتاہے۔ ایسے شخص کا انجام دوزخ ہے اور وہ بُرا ٹھکانہ ہے۔
(فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ) یعنی دنیا کے اُمور اور معاش کے اسباب میں ، پس حیات سے مُراد اسبابِ حیات یعنی وسائلِ زندگی ہیں۔
(وَهُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ) یعنی باطل کی حمایت میں سخت مخاصمت اوردُشمنی والا ۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔ اور اَلَدّ ُ صفت ہے جیسے اَحْمَرُ کیونکہ اس کی جمع لُدٌّ اور اس کا مؤنث لَدَّاءُ آتا ہے۔ یہ اَفعُل التفضیل نہیں، کیونکہ افعل التفضیل اپنے بعض کی طرف مضاف ہوکر آتا ہے، مثلاً (زیدٌ افضلُ القومِ ) "زید اپنی قوم میں سے سب سے اچھا ہے۔" اور چونکہ خِصام بمعنی خصومت کے ہے ، اس لیے بھی یہ افعل التفضیل نہیں ہوسکتا کیونکہ آدمی اپنے کا م کا بعض نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں پھر اس کے معنی بنیں گے (وھو اَلَدَّ الخِصامِ) کہ وہ خصومت میں سے زیادہ خصومت والا ہے،جو کہ غلط ہے ۔بعضوں نے الخصام کے لفظ کو خَصمٌ کی جمع قرار دیا ہے ۔ ہماری ذکر کردہ توجیہ کی بنیاد پر اَلَدُّ الِخصَامِ بمعنی اَلَدُّ الخُصُومۃِ ہوگا۔ مگر ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر اُسی معنی کو راجح قرار دیتی ہے جو ہم نے شروع میں ذکر کیا ہے ، یعنی باطل کے حوالے سے سخت ترین مخاصمت والا ، اوریہ کہ اَلَدُّ صفت ہے، افعل التفضیل نہیں، اس میں اس بات پر دلالتِ اشارہ موجود ہے کہ سخت مخاصمت مذموم ہے ،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ(( اَبغضُ الرِّجالِ اِلَی اللہِ الاَلَدُّ الخَصْمُ)) (بخاری مسلم ترمذی) " اللہ کے ہاں تمام لوگوں میں مبغوض ترین آدمی وہ ہے جو مخاصمت میں سخت ترین ہو۔" یہ منافقین کی صفات میں سے ہے کیونکہ وہ دنیا سے بہت محبت کرنے کی وجہ سے اس کی خاطر لڑتے جھگڑتے بھی زیاد ہ ہیں۔
(وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ) یعنی فصلیں اور ہر ذی روح چیز۔ حرث کے معنی ہیں : کھیتی، اور نسل کے معنی ہیں : ہر ذی روح شے۔ کہتے ہیں نَسَلَ یَنسِلُ نُسُولاً بمعنی نکلنے کے ۔ کیونکہ نسلیں بھی اپنے باپوں اور ماؤں کی پشتوں سے نکلتی ہیں۔
(اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْـمِ)عزت ذلت کا الٹ ہے مگر یہاں مجازی طور پر اس سے مُراد نخوت و غرور اور غیرت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شرم دلائی جانے اور ڈرانے کے باوجود گویا کوئی اس کو ناک سے پکڑ کر گناہوں کی طرف ہنکا لے جاتا ہے یہ تکبر، ضد اور باطل پرستی میں بڑھے چلے جانے سے کنایہ ہے۔
(وَاِذَا قِيْلَ لَـهُ اتَّقِ اللّـٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْـمِ ۚ) یہ اس شخص کے گناہ کے سنگین اور بڑاہونے پر دلالت کرتا ہے جو کسی گنا ہ کے کام میں مبتلا ء ہو اور آپ اس کو تقویٰ اختیار کرنے کا کہتے ہیں اس کو نصیحت کرتے ہیں مگر وہ اس کے باوجود اس گناہ سے بچتا نہیں ، نصیحت قبول نہیں کرتا بلکہ وعظ و نصیحت سے بے چینی میں مبتلا ہوتا ہے۔
یہ آیات (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٝ فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّـٰهَ عَلٰى مَا فِىْ قَلْبِهٖ وَهُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ (204)وَاِذَا تَوَلّـٰى سَعٰى فِى الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْـهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (205) وَاِذَا قِيْلَ لَـهُ اتَّقِ اللّـٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْـمِ ۚ فَحَسْبُهٝ جَهَنَّـمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ (206)) اَخنَس بن شَرِِیق کے بارے میں نازل ہوئیں جو بنی زَہرۃ کا حلیف تھا: " وہ نبی ﷺ کے پاس مدینہ آیا اور اپنا اسلام ظاہر کیا ،نبی ﷺ کو اس کی یہ بات بہت پسند آئی اور یہ بھی کہا کہ میں صرف اسلام قبول کرنے کے ارادے سے آیا ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں سچا ہوں۔ پھر جب وہ نبی ﷺ کے پاس سے نکل گیا تھوڑا آگے جاکر مسلمانوں کے کھیتوں اور گدھوں کے پاس سے اس کا گزر ہوا تواس نے کھیتوں کو آگ لگا دی اور گدھوں کو مار ڈالا ۔"( تفسیر الدر المنثور2/572، تفسیر طبری 2/312)
یہ الفاظ عام ہیں یہ اخنس او رہر اس آدمی کو شامل ہیں جس کے اندر یہ صفات موجود ہوں اور اس قسم کے تمام لوگ اس میں داخل ہیں۔
(فَحَسْبُهٝ جَهَنَّـمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ) مِہاد کے معنی بستر کے ہیں، یہ الفاظ پھبتی کسنے کے لیے اور مذاق اُڑانے کے لیے ہیں کیونکہ دوزخ توشعلہ بار آتش ہے، بستر نہیں جسے لیٹنے یا سونے کے لیے بچھایا جائے۔
2 – اور ایک فریق وہ ہے جو اپنے آپ کو فروخت کرنے والا ہے اور اپنی جان کو اللہ کی راہ میں صرف کر دینے والا ہے ، اور اس میں صرف اللہ کی رضا مطمحِ نظر ہوتی ہے، چنانچہ یہ گروہ نعمتوں والی جنت میں داخل ہوگا، فریق اول کی طرح یہ دنیا کی چکروں میں نہیں پڑتا بلکہ اس گروہ کا آخری مقصد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا جوئی اور خوشنودی ہوتی ہے۔
آخر میں اللہ تعالیٰ نے آیت کا اختتام(وَاللّـٰهُ رَءُوْفٌ بِالْعِبَادِ) سے کیا ہے۔ عباد سے مؤمنین مراد ہیں ، تو اللہ جل جلالہ ان پر مہربان ہیں ،ان سے محبت کرتے ہیں ،اور ان کی رہنمائی اس طرف کرتے ہیں جہاں اس کی رضا ملے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فردوسِ بریں میں اعلیٰ ترین درجات پالیتے ہیں۔
(يَّشْرِىْ نَفْسَهُ) ' اپنی جان کو بیچ دیتا ہے' یعنی جہاد اور اسلا م کی طرف دعوت میں اس کو لگا دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے طرز پر ہے:(ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ)
یہ آیت صحابی جلیل صہیب بن سنان رومی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جیسا کہ ابنِ عباس اور انس بن مالک وغیرہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا ہے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب وہ مکہ میں اسلام قبول کرچکے اور مدینہ ہجرت کرنا چاہا تو لوگوں نے انہیں ہجرت کرنے سے روکا سوائے اس شرط پر کہ وہ اپنا مال ساتھ نہ لے جائے ۔ تو انہوں نے ایسا ہی کیا اور ان سے جان چھڑانے کے لیے انہیں اپنا سارا مال دے دیااور جیسا کہ روایت میں ہے کہ جس جگہ وہ مال موجود تھا اس کا پتہ بھی بتایا ۔ پھر ہجرت کی ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ الحرہ کی اطراف میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت کی ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ کی بیع سود مند ہوئی ، صہیبؓ نے کہا :اللہ آپ کو بھی تجارت میں نقصان سے بچائے ، بات کیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ کے بارے میں یہ آیت(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِىْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ رَءُوْفٌ بِالْعِبَادِ) نازل ہوئی ہے، اور ہمیں یہ بات رسول اللہ ﷺ نے بتلائی۔
اور حارث بن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں اور ابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب سے نقل کیا ہے، فرماتے ہیں کہ: صہیبؓ نبی ﷺ کے پاس ہجرت کرنے نکلے تو قریش کے چند لوگوں نے ان کا پیچھا کیا، وہ اپنی سواری سے اترے اور اپنے ترکش سے تمام تیر نکال کر دکھائے اور کہا کہ اے قریش والو! تمہیں پتہ ہے کہ میں تم سب سے زیادہ تیر انداز مرد ہوں ،خدا کی قسم تم مجھ تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میرے ترکش میں موجود سارے تیرختم نہ ہو جائیں، تیر ختم ہونے کے بعد پھر میں اپنی تلوار سے اس وقت تک مارتا رہوں گا جب تک میری تلوار کا کوئی بھی حصہ میرے ہاتھوں میں باقی رہے۔ اب تمہاری مرضی ،کرو جو کرنا چاہتے ہو۔ تم چاہتے ہو تو مکہ میں موجود اپنے مال کا پتہ بتا دیتا ہوں مگر میرا راستہ چھوڑ نا ہوگا۔ قریشیوں نے کہا ٹھیک ہے ۔جب نبی ﷺ کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابو یحییٰ آپ کی بیع نفع بخش رہی۔
پھر یہ آیت( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِىْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ رَءُوْفٌ بِالْعِبَادِ) نازل ہوئی۔ حاکم نے مستدرک میں اسی طرح کی حدیث سعید بن مسیب عن صہیب سے موصولاً روایت کی ہے۔
یہ آیت اگر چہ صہیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی مگر اس کے الفاظ عام ہیں یہ ہر اس شخص کے لیے بشارت ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے یا اسلام کی طرف دعو ت دیتے ہوئے کلمۂ حق کا اظہار کرے اور جہاد میں یا دعوت کی راہ میں اُسے کوئی اذیت پہنچ جائے ، اور اپنے آپ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضامیں کھپا دے ، ایسے شخص کے لیے وہی بشارت اور خوشخبری ہے جو صہیب کو دی گئی تھی۔