الخميس، 07 ربيع الثاني 1446| 2024/10/10
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

یہ حدیث کس حد تک صحیح ہے اور اس کی تفسیر کیا ہے؟

«عُصَيْبَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَفْتَتِحُونَ الْبَيْتَ الْأَبْيَضَ»

’’مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی فوج وائٹ ہاؤس (بیت الابیض) پر قبضہ کر لے گی‘‘

)ابرار ثوابتہ کےلئے)

سوال:

 

السلام علیکم، میرا ایک سوال ہے، برکات اللہ!

 

كتَبتُ إلى جابِرِ بنِ سَمُرَةَ مع غُلامي، أخبِرْني بِشَيءٍ سَمِعتَهُ مِن رَسولِ اللهِ ﷺ، قالَ: فكتَبَ إليَّ: سَمِعْتُ رَسولَ اللهِ ﷺ يَومَ الجُمُعَةِ، عَشِيَّةَ رَجْمِ الأسلَمِيِّ يَقولُ: «لا يَزالُ الدِّينُ قائِماً حتى تَقومَ السَّاعةُ، أو يَكونَ عليكم اثنا عَشَرَ خَليفةً كُلُّهُم مِن قُرَيشٍ». وسَمِعتُهُ يَقولُ: «عُصبةُ المُسلِمينَ يَفتَتِحونَ البَيتَ الأبيَضَ، بَيتَ كِسْرى وآلِ كِسْرى». وَسَمِعتُهُ يَقولُ: «إنَّ بَينَ يَدَيِ السَّاعةِ كَذَّابينَ، فاحذَرُوهم». وَسَمِعتُهُ يَقولُ: «إذا أعطى اللهُ أحَدَكم خَيراً، فَلْيَبْدَأْ بِنَفْسِهِ، وأهلِ بَيتِهِ». وَسَمِعتُهُ يَقولُ: «أنا فَرَطُكم على الحَوضِ»

’’میں نے جابر بن سَمُرَہ کو ایک خط لکھا اور اسے اپنے غلام کے ہاتھ ان کے پاس بھیجا اور ان سے کہا کہ وہ مجھے اس بات کی خبر دیں جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ انہوں نے مجھے لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعہ کی شام یہ فرماتے ہوئے سنا جس دن اسلَمِی کو (زنا کی پاداش میں) سنگسار کیا گیا تھا: ’’دین اسلام اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ قیامت قائم نہیں ہو جاتی، یا تم پر بارہ خلفاء حکومت کریں گے اور ان سب کا تعلق قریش سے ہو گا‘‘۔ آپ ﷺ کو یہ کہتے بھی سنا: ’’مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی فوج وائٹ ہاؤس، فارس کے شہنشاہ یا اس کی اولاد کے گھر پر قبضہ کر لے گی۔ میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ قیامت کے دن سے پہلے بہت سے کذاب ظاہر ہوں گے۔ تمہیں ان سے بچنا ہے‘‘۔ میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ جب اللہ تم میں سے کسی کو مال عطا کرے تو وہ پہلے اسے اپنے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے (پھر اسے مسکینوں کو صدقہ کرے)۔ اور میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا: ’’میں حوض پر آپ کا پیش رو رہوں گا (تمہاری آمد کا منتظر ہوں گا) ‘‘۔

 

یہ حدیث کتنی صحیح ہے «عُصَيْبَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَفْتَتِحُونَ الْبَيْتَ الْأَبْيَضَ» اور اس کی کیا وضاحت ہے کہ "مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی فوج وائٹ ہاؤس (بیت الابیض) پر قبضہ کر لے گی ؟‘‘

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

آپ نے اپنے سوال میں جس حدیث مبارکہ کا ذکر کیا ہے وہ احمد کی روایت سے ماخوذ ہے اور مسلم نے اس حدیث مبارکہ کو بعض الفاظ میں معمولی فرق کے ساتھ نقل کیا ہے۔ مسلم نے اپنی صحیح میں عامر بن سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

 

(كَتَبْتُ إِلَى جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ مَعَ غُلَامِي نَافِعٍ أَنْ أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ فَكَتَبَ إِلَيَّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ جُمُعَةٍ عَشِيَّةَ رُجِمَ الْأَسْلَمِيُّ يَقُولُ: «لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِماً حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ أَوْ يَكُونَ عَلَيْكُمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «عُصَيْبَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَفْتَتِحُونَ الْبَيْتَ الْأَبْيَضَ بَيْتَ كِسْرَى أَوْ آلِ كِسْرَى» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «إِنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ فَاحْذَرُوهُمْ» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «إِذَا أَعْطَى اللَّهُ أَحَدَكُمْ خَيْراً فَلْيَبْدَأْ بِنَفْسِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنَا الْفَرَطُ عَلَى الْحَوْضِ»

 

"میں نے جابر بن سَمُرَہ کو ایک خط لکھا تھا۔ سَمُرَہ نے اسے اپنے غلام نافع کے ذریعے ان کے پاس بھیجا اور اس سے کہا کہ وہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی بات کی خبر دیں۔ انہوں نے مجھے لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعہ کی شام یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس دن اسلَمِی کو (زنا کی پاداش میں) سنگسار کیا گیا تھا: "دین اسلام اس وقت تک قائم رہے گا جب تک قیامت قائم نہیں ہو جاتی، یا تم پر بارہ خلفاء کی حکومت ہو گی، ان سب کا تعلق قریش سے ہو گا"۔ "مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی فوج وائٹ ہاؤس، فارس کے شہنشاہ یا اس کی اولاد کے گھر پر قبضہ کر لے گی۔ میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ قیامت کے دن سے پہلے بہت سے کذاب نمودار ہوں گے، تمہیں ان سے بچنا ہے''۔ اور میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ جب اللہ تم میں سے کسی کو مال عطا کرے تو وہ پہلے اسے اپنے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے (پھر اسے مسکینوں کو صدقہ کرے)۔ اور میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے بھی سنا: "میں حوض پر آپ کا پیش رو ہوں گا (آپ کی آمد کی امید ہے) ‘‘۔

 

یہ حدیث صحیح حدیث ہے اور اس کی صداقت کے لئے یہ کافی ہے کہ یہ صحیح مسلم میں ہے۔

 

حدیث کی وضاحت کے سلسلے میں بہت سے نکات بیان کئے گئے ہیں، پہلا یہ کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

 

«لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِماً حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ أَوْ يَكُونَ عَلَيْكُمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ»

"دین اسلام قیامت تک قائم رہے گا، یا تم پر بارہ خلفاء کی حکومت ہو گی، اور ان سب کا تعلق قریش سے ہو گا"۔

 

فقہاء کا مختلف آراء کی بنیاد پر اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے، اور میرے نزدیک جو رائے سب سے زیادہ درست ہے، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے، وہ ابن جوزی نے "کشف المشکل" میں اس حدیث کے بارے میں دونوں صحیح احادیث میں تیسرے پہلو کے عنوان کے تحت ذکر کی ہے، جہاں وہ کہتے ہیں:  (اور تیسرا پہلو: اس سے مراد خلافت کے پورے دور میں قیامت تک بارہ خلفاء کا وجود تھا، وہ وہی کریں گے جو صحیح ہے، اگرچہ ان کے دن لگاتار نہ بھی ہوں، تو آدمی (خلیفہ) انصاف پسند ہو سکتا ہے، اور اس کے بعد کوئی (دوسرا خلیفہ) آئے گا جو ظالم ہو، اور پھر تھوڑے عرصہ کے بعد کوئی (دوسرا خلیفہ) آئے گا جو انصاف پسند ہو، اس طرح بارہ کا انصاف قیامت تک پورا ہو جائے گا۔ اس پہلو کی نشاندہی اس بات سے ہوتی ہے جو ہمیں ابو منصور (...) نے بتائی تھی۔ ابو بحر نے ہمیں بتایا کہ ابو مجلد نے ان سے کہا اور انہوں نے قسم کھائی: یہ قوم اس وقت تک ہلاک نہیں ہو گی جب تک کہ اس میں بارہ خلفاء نہ ہوں، وہ سب ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ کام کریں گے، جن میں رسول اللہ ﷺ کے خاندان کے دو افراد بھی شامل ہیں جن میں سے ایک چالیس سال اور دوسرا تیس سال زندہ رہے گا۔

یہ سب سے صحیح معنی ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے، کیونکہ حدیث میں کہا گیا ہے: «لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِماً حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ أَوْ يَكُونَ عَلَيْكُمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ» "دین اسلام اس وقت تک قائم رہے گا جب تک قیامت قائم نہ ہو جائے، یا تم پر بارہ خلفاء کی حکومت ہو، اور ان سب کا تعلق قریش سے ہو گا"۔ لہٰذا بحث قیامت تک دین کے قیام کے بارے میں ہے اور اس میں قریش کے بارہ خلفاء کی حکومت کی تکمیل بھی شامل ہے۔ چونکہ قریش اور دوسرے علاقوں کے بہت سے خلفاء نے حکومت کی ہے، اس لئے اس حدیث کو قریش کے بارہ مخصوص خلفاء کی حکومت کی طرف اشارہ کرنے کے طور پر بیان کیا جانا چاہیے، کیونکہ وہ محض عام خلیفہ نہیں ہوں گے جو دوسرے خلفاء کی طرح اسلام کے مطابق حکومت کرتے ہیں، بلکہ وہ خاص، ممتاز خلیفہ ہوں گے جو نبوت کے نقشِ قدم پر عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کریں گے۔ ان کی پوری خلافت میں "ہدایت اور دین حق پر عمل کیا جائے گا"۔یہ بات عین ممکن ہے کہ ان میں سے چار خلفاء راشدین ہوں گے اور  پانچویں عمر بن عبدالعزیز۔ اور یہ کہ مستقبل قریب میں جب نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت راشدہ ثانی قائم ہوگی تو ان کے طریقے اور راستے پر چلنے والے لوگ آئیں گے۔ یعنی ایسے خلفاء ہوں گے جو قیامت تک اسلام کے مطابق حکومت کریں گے۔ اس کے بعد جابرانہ حکمرانی کا دور ختم ہو جائے گا، جس میں ہم اس وقت ہیں، پھر خلافت نبوت کے نقشِ قدم پر واپس آئے گی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں نعمان بن بشیر نے حذیفہ سے روایت کیا ہے۔ نبوت کے نقشِ قدم پر اس دوسری خلافت کے زمانے میں اسلام کے مطابق حکومت کرنے والے بہت سے خلفاء ہوں گے، ان میں سے سات صالح خلفاء ایسے ہوں گے جو نبوت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے رہنمائی حاصل کریں گے، چاہے ان کی حکومت لگاتار نہ بھی ہو۔ یوں پھر نبوت کے نقشِ قدم پر بارہ منصفانہ خلفاء مکمل ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں یہی سب سے زیادہ ممکن ہے، اور اللہ بہتر جانتا ہے اور وہ سب سے زیادہ حکمت والا ہے۔

 

3- نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کے معنی کے بارے میں:

 

«عُصَيْبَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَفْتَتِحُونَ الْبَيْتَ الْأَبْيَضَ» "مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی فوج وائٹ ہاؤس (بیت الابیض) پر قبضہ کر لے گی" وائٹ ہاؤس کی وضاحت حدیث میں ہی کی گئی ہے، آپ ﷺ نے اس کی وضاحت میں فرمایا: «الْبَيْتَ الْأَبْيَضَ بَيْتَ كِسْرَى أَوْ آلِ كِسْرَى» "وائٹ ہاؤس (بیت الابیض) فارس کے شہنشاہ یا اس کی اولاد کا گھر ہے۔ یہ خسرو کا محل ہے اور عمر بن خطابؓ کے زمانہ میں صحابہ اکرام نے اسے کھولا۔ نوویؒ نے مسلم کی شرح میں فرمایا: «عُصَيْبَة مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَفْتَتِحُونَ الْبَيْت الْأَبْيَض بَيْت كِسْرَى» "مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی فوج وائٹ ہاؤس یعنی فارس کے شہنشاہ کے گھر پر قبضہ کر لے گی" یہ رسول اللہ ﷺ کے ظاہری معجزات میں سے ایک ہے اور انہوں نے عمر بن خطابؓ کے زمانے میں اسے فتح کر لیا تھا۔ الحمد للہ! لفظ 'عُصَيْبَة' سے مراد چھوٹا سا "عُصْبَة" گروہ ہے، خسرو (کسراء) )حرف کاف پر کَسرا یا فَتْحَ کی آواز کے ساتھ کہا جا سکتا ہے)۔

 

4- رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے بارے میں:

 

«إِنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ فَاحْذَرُوهُمْ»

"قیامت کے دن سے پہلے بہت سے کذاب نمودار ہوں گے۔ تمہیں ان سے بچنا ہے''۔

 

علماء نے اس کی متعدد طریقوں سے تشریح کی ہے، جیسا کہ مرقاۃ المفاتیح کے مصنف نے مشكاة المصابيح کی شرح اس طرح بیان کی ہے:

"جابر بن سَمُرَہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے «إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ» "کہ قیامت سے پہلے بہت سے کذاب نمودار ہوں گے"۔ مظہر کہتے ہیں: اس کا مطلب بہت زیادہ جہالت اور علم کی کمی اور من گھڑت احادیث اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف من گھڑت باتیں بنانا تھا۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد نبوت کا دعویٰ ہو جیسا کہ آپ ﷺ کے زمانے میں اور آپ ﷺ کے زمانے کے بعد تھا، یا یہ کہ ان سے مراد وہ گروہ ہے جو بدعنوان خواہشات کا دعویٰ کرتے ہیں اور بدعت کے تمام لوگوں کی طرح اپنے جھوٹے عقیدے کو آپ ﷺ سے منسوب کرتے ہیں۔

 

5- باقی حدیث کے بارے میں، نوویؒ نے اس کی وضاحت کچھ ایسے کی ہے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِذَا أَعْطَى اللَّه أَحَدكُمْ خَيْراً فَلْيَبْدَأْ بِنَفْسِهِ» "جب اللہ تم میں سے کسی کو مال عطا کرے تو پہلے اسے اپنے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے (پھر اسے مسکینوں کو صدقہ کر دے)"۔ اس سے ملتی جلتی حدیث ہے: «اِبْدَأْ بِنَفْسِك ثُمَّ بِمَنْ تَعُول» "اپنے آپ سے شروع کرو اور اپنے زیر کفالت افراد سے" آپ ﷺ نے فرمایا: «أَنَا الْفَرَط عَلَى الْحَوْض»"میں حوض میں آپ کا پیش رو رہوں گا (تمہاری آمد کا منتظر ہوں گا)"۔ لفظ (الفَرَط) کے ساتھ حرف الراء پر فتح ہے، اس کا مطلب ہے: پیش رو اور وہ جو کسی کو اس میں سے مشروب دینے کا انتظار کر رہا ہو۔ الْفَرَط اور الْفَارِط کے معانی ہیں: وہ جو لوگوں سے پہلے پانی کی طرف جاتا ہے تاکہ ان کی ضرورت کے مطابق تیاری کر سکے۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

26 شوال 1445ھ

05 مئی 2024ء

Last modified onجمعہ, 17 مئی 2024 14:19

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک