الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

 

پیٹرو ڈالر معاہدے کی حقیقت

(ترجمہ)

 

سوال:

 

            الحرہ ویب سائٹ نے 18جون، 2024ء کو شائع کیا: (حال ہی میں، نیوز سائٹس نے 1974 میں سعودی-امریکی معاہدے کے بارے میں بڑے پیمانے پر رپورٹس نشر کی ہیں، جس کے تحت سعودی عرب اپنے تیل کی تمام تر فروخت ڈالر میں کرے گا۔ ان اطلاعات کے مطابق اس50 سالہ معاہدہ کی میعاد اب ختم ہو چکی ہے۔ لیکن لیڈر انسائٹ (Leader Insight)ویب سائٹ نے ان رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے زور دیا کہ "ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا")۔ میں چاہتا ہوں کہ اگر یہ معاہدہ تھا تو اس کی حقیقت اور ڈالر کی بالادستی کو برقرار رکھنے میں تیل کے کردار کی وضاحت فرما دیں اور کیا BRICS بلاک مستقبل میں ڈالر کی بالادستی کو متاثر کرے گا؟

 

 

جواب:

 

مندرجہ بالا سوالات کے جوابات کو واضح کرنے کے لئے، ہم مندرجہ ذیل امور کا جائزہ لیتے ہیں:

 

*اول:* تیل کو محض ڈالرز میں فروخت کرنے کے سعودی امریکی معاہدے کے اختتام کے بارے میں خبروں کی سوشل میڈیا سائٹس پر بھرمار ہے لیکن دونوں ممالک نے کسی سرکاری بیان میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کی، گویا انہوں نے جان بوجھ کر اسے مبہم چھوڑ دیا ہو! جہاں تک مین اسٹریم میڈیا کا تعلق ہے تو اس نے پہلے تو اسے نشر کرنے سے گریز کیا، مگر جب لوگو ں کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں بات کرنی شروع کردی تو مین اسٹریم میڈیا کو اپنی خاموشی توڑنی پڑی۔ مثال کے طور پر، روسی آر ٹی ویب سائٹ نے 15 جون، 2024ء کو شائع کیا (اولگا سموفالووا(Olga Samofalova) نے ایک اخبار، وزگلیاد (Vzglyad) میں لکھا: "سعودی عرب اور امریکہ کے مابین پیٹرو ڈالر معاہدہ، جس پر 1974 میں دستخط کیے گئے تھے، ختم ہوگیا ہے۔ یہ سعودی عرب کو نہ صرف امریکی ڈالر میں بلکہ دیگر کرنسیوں میں بھی اپنا تیل اور دیگر مصنوعات فروخت کرنے کی اجازت دیتا ہے، جیسا کہ میڈیا اس کی تصدیق کر رہا ہے)۔ یہ روسی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس معاہدے کی موجودگی کے بارے میں ایک غیر سرکاری تصدیق ہے۔

 

*دوئم:* تاہم امریکی ذرائع ابلاغ اس معاملے کی تردید کررہے ہیں:

1- 18 جون، 2024ء الحرة ویب سائٹ پر ایک سوال میں کچھ یوں بیان کیا گیا: (۔۔۔ ان رپورٹس کے مطابق 50 سال تک جاری رہنے والا یہ معاہدہ اب ختم ہو چکا ہے جس سے امریکی کرنسی کی بالادستی کے خاتمے کا اشارہ ملتا ہے۔ لیکن لیڈر انسائٹ ویب سائٹ نے پیر کے روز ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے بیان کیا: "ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے")۔

 

2- 17 جون، 2024ء مارننگ اسٹار نیوز پیپر نے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان طویل مدتی پیٹرو ڈالر معاہدے کے خاتمے کے بارے میں سوشل میڈیا سائٹس پر پھیلی ہوئی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "ایسا معاہدہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا"۔

 

یو بی ایس گلوبل ویلتھ مینجمنٹ (UBS Global Wealth Management)کے چیف اکانومسٹ پال ڈونووان (Paul Donovan) نے جمعہ کے روز ایک بلاگ پوسٹ میں بیان کیا کہ [جعلی "پیٹرو ڈالر ڈیل" کی کہانی حیرت انگیز طور پر پھیل گئی ہے، جو کہ "تصدیقی تعصب (confirmation Bias)" کے خطرات کے بارے میں ہمیں ایک اہم سبق فراہم کرتی ہے۔ (مارننگ اسٹار، 17/6/2024)

 

*سوم:* تاہم، کسی بھی فریق نے سرکاری طور پر حالیہ مضامین پر تبصرہ نہیں کیا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان 1974 میں طے پانے والا پیٹرو ڈالر معاہدہ 09 جون، 2024ء کو ختم ہو چکا ہے۔ کسی بھی فریق نے باضابطہ طور پر اس کی تردید یا تصدیق نہیں کی ہے، بلکہ تبصرے میڈیا ذرائع یا اسی طرح کے کچھ اور ذرائع کر رہے ہیں! جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا ہے، مزید بھی شواہد موجود ہیں جن سے یہ امکان ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کوئی معاہدہ موجود تھا، یہ شواہد مندرجہ ذیل ہیں:

 

1- 1978 میں امریکی کنٹرولر جنرل (Comptroller General) کی "امریکی سعودی کمیٹی برائے اقتصادی تعاون" کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا: (کنٹرولر جنرل نے جون 1974 میں قائم ہونے والی سعودی-امریکی اقتصادی تعاون کمیٹی کے کام کو مضبوط بنانے اور ریاض میں امریکی محکمہ خزانہ کے لئے "پیٹرو ڈالر" کو ری سائیکل کرنے کے لئے دفتر کھولنے کی سفارش کی ہے)۔ رپورٹ اپنے تعارف میں اس مشترکہ کمیٹی کے قیام کی تصدیق کرتی ہے۔

 

2- جب پال ڈونووان (Paul Donovan)نے اپنے بلاگ پوسٹ میں کہا کہ "یہ واضح ہے کہ آج جو "پیٹرو ڈالر معاہدے" کی کہانی گردش کر رہی ہے وہ بےبنیاد ہے"، اس نے مزید کہا، "شاید پیٹرو ڈالر معاہدے کے قریب ترین چیز امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان وہ خفیہ معاہدہ ہے جو 1974 کے آخر میں طے پایا تھا،  جس میں سعودی عرب کی جانب سے امریکی خزانے میں تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بدلے میں امریکہ کی طرف سے امداد اور فوجی سازوسامان کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا تھا" (مارننگ اسٹار، 17جون، 2024)

 

3- جب مارننگ اسٹار اخبار نے 17 جون، 2024ء کو یہ خبر شائع کی کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان پیٹرو ڈالر کا معاہدہ کبھی موجود ہی نہیں تھا تو خبر میں مزید یہ بھی بیان کیا کہ، "امریکن اکاؤنٹنگ آفس کی شائع کردہ ایک رپورٹ کی بنیاد پر یہ معاملہ ایک مشترکہ امریکی سعودی کمیٹی سے متعلق ہے جو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لئے قائم کی گئی تھی اور اس کے قیام کا فیصلہ 08 جون، 1974ء کو امریکی وزیر خارجہ کسنجر(Kissinger)اور سعودی ولی عہد فہد بن عبدالعزیز کے درمیان ہوا تھا"۔

 

20 اکتوبر، 2020ء کو کویتی اخبار القبس نے اپنے "نیوز آرکائیو (News Archive)" سے ایک خبر شائع کی جو 7 جون 1974 کے شمارے میں شائع کی گئی تھی، جس میں درج ذیل خبر تھی: (صدر نکسن (Nixon)نے آج سعودی عرب کے شہزادے فہد بن عبدالعزیز، دوئم نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے حصول کے لئے مصراور شام کے "اسرائیل" کے محاذوں پر علیٰحدہ علیٰحدہ فوج کی تعیناتی کے معاہدوں کے تناظر میں تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے سعودی عرب اور امریکہ کے مابین اقتصادی، صنعتی اور دفاعی تعاون کو وسعت دینے کے طریقوں پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔ ان کی یہ بات چیت وائٹ ہاؤس میں صدر نکسن کے دفتر میں ہوئی جس سے قبل امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں اپنے مہمان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا جو گزشتہ روز تین روزہ دورے پر یہاں پہنچے تھے۔ خبر میں بیان کیا گیا کہ شہزادہ فہد امریکہ کو تیل کی فراہمی میں سعودی تعاون جاری رکھنے کے بدلے میں اپنے ملک کے لئے امریکی فوجی امداد میں اضافہ چاہتے ہیں۔

 

5-businesstimes.com.sg نے 18 جون، 2024 کو خبر دی: [ 8جون، 1974ء کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے صفحہ اول پر رپورٹ کیا: (وزیر خارجہ کسنجر اور سعودی عرب کے دوئم نائب وزیر اعظم اور شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی شہزادہ فہد ابن عبدالعزیز نے آج صبح وائٹ ہاؤس سے کچھ ہی دور بلیئر ہاؤس (Blair House) میں چھ صفحات پر مشتمل معاہدے پر دستخط کیے۔)

 

*چوتھا:* مندرجہ بالا تیسرے نکتے پر گہری نظر ڈالیں، خاص طور پر امریکی صدر نکسن کا فہد بن عبدالعزیز کا استقبال، اس دورے کی بڑی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 8جون، 1974 کو اقتصادی تعاون کے لیے امریکی سعودی کمیٹی کا قیام، جس کا حوالہ سرکاری ذرائع نے دیا ہے، بشمول امریکن کنٹرولر جنرل کی رپورٹ، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ایسے معاہدے ہوئے تھے جو ایسے طے پائے جیسے یہ کمیٹی ان پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہو، اور یہ سب امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ایک معاہدے کی موجودگی کی تصدیق کرتا ہے،  چاہے وہ لکھا گیا ہو مگر خفیہ رکھا گیا ہو یا غیر تحریری سمجھوتہ ہو۔ ایک چھوٹی ایجنٹ ریاست اور سب سے طاقتور ریاست، امریکہ کے درمیان اس طرح کے سمجھوتے میں ایجنٹ ریاست مکمل طور پر اس کی پابند ہوتی ہے، وہ اس سے انحراف نہیں کرتے چاہے وہ غیر تحریری ہی کیوں نہ ہو۔

 

مندرجہ بالا تمام حقائق اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اس معاہدے یا پیٹرو ڈالر  کے وجود کی حقیقت ہے، اگرچہ یہ خفیہ ہے اور سرکاری حلقوں کی طرف سے تسلیم نہیں کیا جاتا ہے، لیکن وہ اس سے انکار بھی نہیں کرتے ہیں۔

 

*پانچواں:* جو چیز اس بات کی تصدیق کرتی ہے یا تجویز کرتی ہے وہ ڈالر کو دنیا کی بین الاقوامی کرنسی بنانے میں امریکہ کی دلچسپی ہے:

1- 1944 میں بریٹن ووڈز معاہدے (Bretton Woods Agreement)کے بعد سے، جس میں سونے کے ایک اونس کی قیمت 35 ڈالر مقرر کی گئی تھی، ڈالر عالمی مالیاتی نظام میں بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ لیکن امریکہ کے نوآبادیاتی منصوبوں، خاص طور پر ویتنام کی جنگ، اور جنگ پر بے تحاشا اخراجات کی وجہ سے، امریکہ نے سونے کے تبادلہ میں زیادہ ڈالر چھاپے۔ 1960کے اواخر تک، مالیاتی گردش میں ڈالر کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا، اور دنیا میں سونے کے مقابلے میں زیادہ ڈالرز تھے۔ جس کی وجہ سے دوسرے ممالک اپنے ڈالرز کے بدلے میں سونے کا مطالبہ کرنے لگے اور اس وجہ سے امریکہ کی سونے کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکی سونے کے ذخائر 574 ملین اونس سے کم ہو کر 1971ء میں تقریبا 261 ملین اونس ہو گئے۔ اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن(Richard Nixon)نے 15 اگست، 1971ء کو سونے کے معیار کو ختم کر دیا، اس طرح ڈالر کو سونے سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا، جسے 'نکسن شاک' ‘Nixon Shock’کے نام سے جانا جاتا تھا۔

 

تاہم ڈالر اور سونے کے درمیان اسجدائی نے امریکہ کے لیے ایک سیاسی اور مالی مسئلہ پیدا کر دیا جو یہ تھا کہ دنیا کے ممالک کے پاس اب ڈالر حاصل کرنے کا کوئی محرک نہیں رہا تھا اور اس صورتِ حال نے امریکہ کو ایسے نئے ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کر دیا جن کی بنا پر دوسرے ممالک کو ڈالر کی طلب پر مجبور کیا جا سکے، اور ڈالر کی عالمی حیثیت کو برقرار رکھا جا سکے۔ امریکہ کو اس کا جواز دنیا کی توانائی کی فوری ضرورت کی صورت میں مل گیا اور چونکہ تیل توانائی کا اہم ذریعہ ہے، جس میں سعودی عرب اس وقت سب سے بڑا پروڈیوسر تھا۔

 

نکسن انتظامیہ نے 1972 سے 1974 تک سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کے ذریعے پیٹرو ڈالر کے قیام اور پھر اس معاہدے کے ذریعے اس کام کو پائے انجام تک پہنچایا، جس میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ امریکہ سعودی حکومت کو سکیورٹی کی گارنٹی دے گا، اور اس کے بدلے سعودی عرب، جو دنیا میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جس کے پاس دنیا میں تیل کی آمدنی کے سب سے بڑے ذخائر ہیں،  اپنے تیل کو ڈالرز میں فروخت کرے گا اور سعودی عرب نے اپنے تیل سے حاصل ہونے والے اربوں  ڈالرز کو امریکی ٹریژری بانڈز میں ری سائیکل کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔

 

4- اس معاہدے سے قبل سعودی عرب تیل کے بدلے برطانوی پاؤنڈ میں لین دین کرتا تھا جس کی وجہ اس وقت کے سعودی ایجنٹ حکمرانوں پر برطانوی اثر و رسوخ تھا۔ 8 جون 1974 کو جب وزیر خارجہ کسنجر (Kissinger)اور شہزادہ فہد بن عبدالعزیز کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا تو یہ معاہدہ تیل کے بدلے سٹرلنگ کے بجائے ڈالرز میں لین دین کا پیش خیمہ بنا۔

اس کے بعد شہزادہ فہد نے شہرت حاصل کی اور اپنے بھائی شاہ خالد کے دور حکومت میں 1975 میں ولی عہد بنا۔ شاہ خالد کے دور حکومت میں اس کے پاس بیشتر حکومتی اختیارات تھے اور وہ شاہ خالد کی وفات تک ان اختیارات کا مالک رہا اور 13 جون 1982 کو وہ بادشاہ بن گیا۔ وہ امریکہ کے ساتھ اپنی وفاداری کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔

 

پس 1975 کے آغاز سے سعودی عرب کے تیل کی فروخت محض ڈالرز میں محدود ہو گئی، جیسا کہ ذرائع بتاتے ہیں کہ 1974 کے بعد سعودی عرب تیل کی فروخت محض امریکی ڈالرز میں کرنے لگا، اور اس میں تیل پیدا کرنے والے اوپیک ممالک بھی شامل تھے۔ اور اس طرح ہر تیل کے ضرورت مند ملک کے لیے یہ لازم ہو گیا کہ اس کے پاس کافی مقدار میں ڈالرز موجود ہوں،  جو تیل کے لین دین میں استعمال ہونے والی واحد کرنسی تھی، جس کا مطلب ہے کہ ان ممالک کو ڈالرز میں قرض لینا پڑےگا یا مالیاتی منڈیوں سے ڈالرز خریدنے ہوں گے، یا کسی بھی اور ذریعہ سے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نے ڈالر کے مسلسل بہاؤ کی ضمانت دی، اور فیڈرل ریزرو بینک نے ڈالر کی مسلسل سپلائی کی ضمانت دی ۔۔۔ خاص طور پر چونکہ سعودی ریال ڈالر سے منسلک ہے، لہٰذا سعودی عرب کے لئے معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے امریکی ڈالر کے ساتھ جوڑے رہنے کی رغبت بھی ہے۔ "سعودی وزیر برائے توانائی خالد الفالح نے تصدیق کی ہے کہ امریکی ڈالر ان کے ملک کے خام تیل کی بیرون ملک فروخت اور تجارت کے لئے منظور شدہ کرنسی رہے گا ۔۔۔" (انادولو 09 اپریل، 2019ء)

 

*چھٹا:* جہاں تک یہ سوال ہے کہ آیا سعودی عرب کی برکس بلاکBRICS bloc) ( میں شمولیت، جس کی قیادت امریکہ کے دو حریف چین اور روس کر رہے ہیں، سعودی عرب کی جانب سے اپنے تیل کی قیمت کو محض ڈالرز میں لینے کی پالیسی پر اثر انداز ہو گی، تو یہ مسئلہ دیگر عوامل سے متاثر ہوتا ہے۔ اس کو واضح کرنے کے لیے، ہم درج ذیل کا جائزہ لیتے ہیں۔

 

-1برکس کی اصطلاح برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کی معیشتوں سے منسوب ہے۔ برازیل، روس، بھارت اور چین نے 2006 میں بی آر آئی سی (BRIC)گروپ تشکیل دیا تھا تاکہ ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی معاملات میں زیادہ سے زیادہ کردار دیا جا سکے۔ 2011 میں جنوبی افریقہ کی شمولیت سے اس گروپ کا نام بدل کر برکس (BRICS)کر دیا گیا۔ جنوبی افریقہ کے دارالحکومت جوہانسبرگ Johannesburg))میں 24 اگست 2023 کو اختتام پذیر ہونے والے جی-15 (G-15)سربراہی اجلاس میں مصر، امارات، ایران، ایتھوپیا اور ارجنٹائن کے ساتھ سعودی عرب کو برکس میں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا کہ یہ ممالک 2024 کے آغاز میں برکس کا حصہ بن جائیں گے۔ اس سربراہی اجلاس کا ایک مقصد ڈالر کے غلبے سے چھٹکارا حاصل کرنے اور برکس کے اراکین کے لیے ایک نئی کرنسی کے اجرا کی کوشش کرنا تھا، لیکن یہ ممالک اس پر متفق نہ ہوئے۔ اجلاس میں اس بات کی بھی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی گئی کہ ممبر ممالک اپنی مقامی کرنسیوں میں لین دین کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے تیل برآمد کرنے والے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کو اس گروپ میں مدعو کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2 جنوری 2024 کو سعودی ٹیلی ویژن کی جانب سے سعودی عرب کے برکس میں شمولیت کے باضابطہ اعلان کے باوجود سعودی وزیر تجارت ماجد القصبی نے سوئٹزرلینڈ (Switzerland)کے شہر ڈیووس (Davos)میں ورلڈ اکنامک فورم (World Economic Forum)کے موقع پر ایک پینل مباحثے میں کہا تھا: "سعودی عرب کو برکس میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا تھا، لیکن ہم ابھی تک اس میں باضابطہ طور پر شامل نہیں ہوئے ہیں" (اسکائی نیوز عربی 16/1/2024)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب برکس میں شمولیت کے لیے امریکہ کی منظوری کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اس کی شمولیت امریکہ کے لئے مفید ثابت ہو سکے۔

 

2- برکس گروپ میں سعودی عرب جیسے امریکہ سے وابستہ ممالک کا داخلہ اس گروپ کو کمزور بنادیتا ہے اور برکس کے لیے ایک الگ کرنسی کے خلاف جنوبی افریقہ کی مخالفت بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ روس اور چین کے علاوہ برکس گروپ میں کوئی آزاد ملک شامل نہیں ہے کیونکہ باقی ممالک مغرب بالخصوص امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔ لیکن روس اور چین ایسا ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسے وہ مغرب کا مقابلہ کرنے اور ایک مخالف محاذ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں، اور وہ ہمیشہ ایک ملٹی پولر (Multipolar) دنیا کی بات کرتے ہیں۔ جب امریکہ سعودی عرب اور اپنے دیگر ایجنٹوں کو برکس میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے تو وہ ایسا برکس کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لئے کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس نے 2004 میں خود سے وابستہ مشرقی یورپ (Eastern Europe) کے ممالک کو یورپی یونین(Europian Union) میں داخل ہونے کی ترغیب دی تھی تاکہ ان ممالک کے ذریعے یورپی یونین (Europian Union) پر اثر انداز ہو سکے۔ پولینڈ کے یونین میں داخلے کےذریعے امریکہ، یونین کی اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط بنانے اور یونین کو نیم وفاقی ریاست کی شکل دینے کے لئے آئین کے مسودہ کی تیاری کی کوشش میں رکاوٹ ڈالنے میں کامیاب رہا، تاکہ یہ ایک کمزور اور نازک یونین ہی رہے جو ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا شکار رہے۔ ایسا اس وقت بھی ہوا جب امریکہ نے روس کی تیل کی پیداوار کو کنڑول کرنے کےلئے سعودی عرب، جو اوپیک کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے اور اس پر گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے، کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ کوئی بھی حربہ استعمال کر کے روس اور اوپیک کے درمیان ایسا اتحاد بنائے جس کے ذریعے روس کی تیل کی پیداوار کو اوپیک کی قابلِ قبول حدود کے اندر لایا جاسکے۔

 

3- اور پیوٹن (Putin)جس کا ملک گروپ کا بانی رکن ہے، اور جو گروپ کے لیے ایک الگ کرنسی کے اجرا کے لئے بہت پرجوش بھی ہے، رکن ممالک کی سیاسی حقیقت کے سامنے ہتھیار ڈال چکا ہے اور کہا ہے: "برکس کی توسیع جاری رکھنے سے بین الاقوامی سطح پر بلاک کا کردار فعال ہو سکے گا، اور ایک متحدہ کرنسی کو اپنانے کا مسئلہ اب بھی پیچیدہ ہے اور اس پر مزید بحث کی ضرورت ہے۔ (الجزیرہ، 24/8/2023)  الجزیرہ نے اس سے پہلے 23/8/2023کو شائع کیا تھا: (برکس گروپ کی متحدہ کرنسی کا مسئلہ پانچ ارکان کے درمیان اتفاق رائے کی کمی اور ان کے درمیان اختلافات کی وجہ سے سربراہی اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر نہیں اٹھایا گیا۔۔۔ پیوٹن نے ویڈیو تقریر میں گروپ کو مقامی کرنسیوں میں لین دین کو وسعت دینے کی گزارش کی۔۔۔) اس طرح روس ڈالر کے متبادل کرنسی کی تلاش میں کامیاب نہیں ہوا، جو وہ برکس کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا تھا۔

 

*ساتواں:* جب تک کاغذی کرنسی موجود ہے، جس کی کوئی حقیقی قدر (Intrinsic Value) نہیں ہے، تب تک معاشی مسائل، معاشی قیاس آرائیاں، سیاسی تنازعات اور یہاں تک کہ نوآبادیاتی غلبہ بھی موجود رہے گا۔ اسلام نے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کے ذریعے، سونے اور چاندی کو پیسے کی بنیاد قرار دیا ہے، یعنی ایک ایسی چیز جو ایک حقیقی قدر کی حامل ہے۔ رسول اللہ ﷺنے سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دیا اور محض ان دونوں کو ہی زر کا معیار بنایا جس کے مطابق اشیاٴ اور سروسز کو جانچا جاتا ہے، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن استعمار نے معاشی استعماریت اور مالیاتی استعماریت کو استعمال کرتے ہوئے کرنسی کو استعماریت کے ذریعہ کے طور پر استعمال کیا، لہٰذا انہوں نے کرنسی کو دوسرے نظاموں میں تبدیل کردیا جو سونے یا چاندی پر مبنی نہیں تھے، اور اس طرح ان مسائل کو جنم دیا۔ یہ مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک کہ اسلامی ریاست قائم نہ ہو جائے اور سونے اور چاندی کو واپس زر کی بنیاد نہ بنا دیا جائے، چاہے سونا اور چاندی بذاتِ خود گردش میں ہو، یا سونے اور چاندی کی جگہ کاغذی کرنسی گردش میں ہو جس کاکسی بھی وقت سونے اور چاندی سے تبادلہ کیا جا سکے۔

 

یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت ہے جسے اس نے اپنے علم سے نازل فرمایا۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

 

﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

’’کیا وہ ہی نہ جانے جس نے پیدا کیا ہے جبکہ وہ باریک بین اور سب خبر رکھنے والا ہے؟‘‘  (الملک: 14)

 

1محرم 1446ھ

بمطابق، 07 جولائی، 2024ء

Last modified onپیر, 29 جولائی 2024 07:02

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک