الأحد، 27 صَفر 1446| 2024/09/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

سوال کا جواب شام کے حوالے سے تازہ ترین سیاسی پیش رفت

سوال :

یہ خبر شائع ہو چکی ہے کہ امریکہ اور ترکی نے نام نہاد معتدل اپوزیشن  کے عناصر کو تربیت دینے کے معاہدے پر دستخط کر دئیے۔۔۔کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ بشار کا متبادل  تلاش کر لینے کے قریب پہنچ گیاہے اور اسی لیے  وہ اس کی مدد کے لئے فضائی قوت کے ساتھ ساتھ مناسب زمینی قوت بھی تیار کر رہا ہے؟یا یہ کہ وہ معتدل عناصر کی صرف تربیت کے ذریعے  ایک دوسال تک وقت کو ٹالنا چاہتا ہے ،یہاں تک کہ  امریکہ متبادل تلاش کرلے ؟دوسرے الفاظ میں  کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ متباد ل قریب ہی ہے اور اس لیے اُس کی مدد کی تیاری کر رہا ہے، یا متبادل دور ہے  اس لیے معتدل عناصر کی تربیت کے ذریعے  متبادل کی فراہمی تک وقت کو ٹال رہے ہیں ؟اللہ آپ کو بہترین جزا دے ۔

 

جواب :

جواب کو واضح کرنے کے لیے ہم امریکی موقف  اور خطے کے ممالک کے ساتھ  اس کی سرگرمیوں کی وضاحت کریں گے:

1 - اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہا تھا کہ "ہم شام میں معتدل اپوزیشن کی حمایت اس لئے کر رہے ہیں تا کہ شام کے ساتھ ساتھ ہر جگہ انتہا پسندانہ آئیڈیالوجی کے خلاف جدوجہد اور لوگوں کو اس کے خلاف کھڑا کرنے کی کوششوں کو تقویت حاصل ہو۔ان کوششوں کے لیے وقت اور توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے"۔  مزید کہا کہ "سمندر پار   بڑی تعداد میں زمینی فوج  بھیجنے کی بجائے امریکہ  جنوبی ایشیاء سے شمالی افریقہ  تک پھیلے ہوئے ممالک  کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہوں سے محروم کرنے پر کام کررہا ہے  جو امریکہ کے لیے خطرہ  ہیں"۔ ((https://www.whitehouse.gov/the-press-office/2015/01/20/president-obamas-state-union-address-prepared-delivery 20/01/2015)

 

اس بیان سے  واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ خطے میں بڑی قوت بھیج کر سابقہ تجربہ دہرانا نہیں چاہتا، بلکہ خطے کے ممالک  کو استعمال کرتے ہوئے  خطے کے لوگوں کے ذریعے ہی  ایک نام نہاد معتدل  قوت تشکیل دینا چاہتا ہے جس کی وہ پشت پناہی کرے گا اور امریکی اہداف کے حصول کے لیے اس کو استعمال کرتا  رہے گا۔امریکی صدر نے  اس کو ایک سیاسی لکیر کے طور پر واضح کیا  ہے جس پر اس کے ملک کی خارجہ پالیسی گامزن  ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ خطے میں اسلام کی حکمرانی کی واپسی،اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے اور وسائل کو لوٹنے کے لیے کوئی بڑی زمینی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا،لیکن وہ  اسلام کے خلاف اپنی  اس جنگ میں خود مسلمانوں کو استعمال کرنا چاہتا ہے،اس لیے وہ  مخصوص امدادی کاموں یا تربیت کے لیے  یا پھر خاص آپریشنز کے لئے محدود بری فوج بھیجتا   اور  فضائیہ کے ذریعے شریک ہو تا ہے۔

 

2 - امریکہ نے نام نہاد معتدل اپوزیشن  یعنی اپنے ماتحت لوگوں کی تربیت کا فیصلہ گزشتہ سال کی گرمیوں میں ہی کر لیا تھا ، جس کا اعلان گزشتہ سال موسم خزاں میں  کیا گیا تھا۔امریکی صدر اوباما نے 13 جون 2013 کو  اس اپوزیشن کو مسلح کرنے کے لیے  خفیہ کاروائیوں  کی منظوری  دی تھی اور اس عمل  کو سی۔آئی۔اے  کے ذریعے  کروایا جانے گااور اس  کا اعلان 20 ستمبر 2014 کو یہ کہہ کر کیا کہ ،"واشنگٹن   امداد دینے کے لیے  براہ راست عملی   اقدامات شروع کر چکا ہے جس میں شام کی اپوزیشن  کی عسکری امداد بھی شامل ہے  تاہم یہ نئی کوششیں  شام  کی اپوزیشن  کے جنگجوں کی تربیت اور ان کو جنگی آلات کی فراہمی  کی گارانٹی ہیں تا کہ وہ طاقتور ہوں  اور شام کے اندر  دہشت گردوں  کا راستہ  روکیں" (اے اے پی 20 ستمبر 2014 )۔ اور " کانگریس  نے بھی 18 ستمبر 2014کو صدر اوباما کے منصوبے کی منظوری دی" ۔ امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف  جنرل مارٹن ڈیمپسی نے وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ "اگر  میدان جنگ کے قائدین نے  مجھ سے یا وزیر دفاع سے  عراقیوں یا شام کی نئی افواج  کی مدد کے لیے اسپیشل فورس بھیجنے کا مطالبہ کیا  اور ہمیں لگا کہ یہ ہمارے اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے  تو ہم صدر باراک اوباما سے اس کا مطالبہ کریں گے " (سکائی نیوز 5 مارچ 2014 )۔

 

امریکہ نے پہلے شام کی  صورت حال کو قابو کر نے کے لیے مذاکرات کے رستے کو اختیار کیا تھا جیسے جنیوا 1 اور 2 اور وہ اس قسم کی قوت تشکیل دینے پر مجبور نہیں ہواتھا، اسی لیے اُس نے  انقلابیوں کی نمائندگی کرنے کے لیے  اتحادی کونسل تشکیل دی  لیکن یہ  کونسل شامی عوام  میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکی اور نہ ہی  شام میں   اس کی کوئی قوت موجود تھی،اس لیے یہ طریقہ کار ناکام  ہو گیا ۔اس ناکامی کے بعد  امریکہ نے اپنے ماتحت ایک قوت تیار کرنے کا فیصلہ کیا جس کے ذریعے  وہ ان مذاکرات کاروں کے موقف کو تقویت پہنچائےگا  جیسے یہ اصل انقلابیوں کے نمائندے ہیں۔  اسی لیے امریکہ نے ایک ایسی  معتدل شامی قوت کو تیار کرنے کے منصوبے کو قبول کیا  جس کو وہ خود تربیت دے گا تا کہ اس کے ذریعے  وہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکے  اور اس کے ذریعے ہی اُس کے منصوبوں کو مسترد کرنے والے انقلابیوں  کے خلاف جنگ کرسکے ناکہ اس کا مقصد حکومت سے لڑنا ہوگا۔شام  کی حکومت ،  اس کے آس پاس موجود لوگ اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ تمام امریکہ کے ایجنٹ ہیں،لیکن اہل شام اور وہ انقلابی جو اس حکومت کے خلاف  اٹھ کھڑے ہوئے  وہ امریکہ کے ساتھ نہیں، بلکہ وہ اس کے خلاف ہیں، اسی لیے امریکہ   ایسی فورس اور ایجنٹ تیار کرنا چاہتا ہے جو حکومت میں تو نہ ہوں  لیکن  انہیں زمین پر ایک قوت بنا کر نئے مذاکرات   میں انقلابیوں کا نمائندہ بنا کر بٹھانا چاہتا ہے۔ وہ  شامی حکومت میں موجود اپنے موجودہ ایجنٹوں کو اس وقت تک ہٹا نا نہیں چاہتا جب تک اس کو اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ اب  کوئی اور ایسا متبادل تیار ہے جو معاملات کو قابو کرنے اور تحریک کو دبانے پر قادر ہو۔

 

3 - امریکہ  ترکی میں اپنے وفادار حکومت کے ساتھ  اس حوالے سے اتفاق رائے تک پہنچ چکا ہے ۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ  "میں اس بات کی یقین دہانی کرا سکتی ہوں کہ ہم نظریاتی طور پر ترکی کے ساتھ اس اتفاق رائے تک پہنچ چکے ہیں کہ شامی اپوزیشن جماعتوں کو تربیت دی جائے اور ان کو مسلح کیا جائے"۔مزید کہا کہ "جیسا کہ  پہلے بھی ہم یہاں اعلان کر چکے ہیں کہ  ترکی نے اس کی حامی بھری ہے کہ وہ خطے میں  شام کی معتدل اپوزیشن  قوتوں کو تربیت دینے اور مسلح کرنے والے ممالک کے میزبانوں میں سے ایک ہو گا۔ہم  عنقریب ترکی کے ساتھ معاہدے کے انجام پانے اور اس پر دستخط کرنے کی توقع کرتے ہیں"(سکائی نیوز17 فروری 2015)۔ یہ اتفاق رائے  30 امریکی فوجی افسران پر مشتمل وفد کے  انقرہ کے دورے اور مذاکرات  کے بعد سامنے آیا  اور امریکی وزارت دفاع نے اعلان کر دیا کہ وہ  400 فوجی اپوزیشن کو تربیت دینے کے لیے سعودیہ،ترکی اور قطر بھیجے گا۔ سیکریٹری خارجہ جان کیری نے وضاحت کرتے ہوئے کہا  کہ "ہماری ٹیم  سعودیوں کے ساتھ  مل کر تربیت اور مسلح کرنے کے اس پروگرام کی  تیاری کر رہی ہےاور یہ  اندازہ لگا رہی ہے کہ  ہمیں تربیت کاروں کی تیاری اور اس سے متعلقہ کن چیزوں کی ضرورت ہے "۔  چیف آف سٹاف مارٹن ڈیمپسی نے کہا تھا کہ "اس پروگرام  کی تیاری کا مرحلہ 3 سے 5 مہینے لے گا  اور شام کی معتدل اپوزیشن کے  5000 جنگجوں کی تربیت میں 8 سے 12 مہینے لگیں گے تا کہ وہ الدولۃ تنظیم سے لڑیں اور اس کے بعد بشار حکومت سے "(اناتولیہ 16 اکتوبر 2014 )۔ دفتر  خارجہ کی ترجمان ماری ہاروی نے 10 اکتوبر 2014 کو کہا  کہ، " ترکی نے معتدل شامی اپوزیشن کو تربیت دینے اور تیار کرنے کی کوششوں کی حمایت کا اعادہ کیا ہے" (رائٹرز10 مارچ 2014 )۔  یوں خطے کے ممالک خواہ سعودیہ ہو یا ترکی یا کوئی اور  شام  کی صورت حال سے  بڑی تشویش میں مبتلا ہیں۔  خطے کے ممالک چاہتے ہیں کہ شام  کی یہ صورت حال ختم ہو کیونکہ وہ اس سے متاثر ہو رہے ہیں، اسی لیے وہ امریکہ سے تعاون کررہے ہیں،معتدل اپوزیشن  قوت تیار کرنے کی سوچ کی حمایت کررہے ہیں، ساتھ ہی مختلف شکل میں انقلابیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں اور یہ سب کچھ اس تحریک کے تمام مخلص لوگوں پر ضرب لگانے اور کسی بھی اسلامی  منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ہے۔

 

4 - اسی بنیاد پر گزشتہ مہینے ترکی اور امریکہ  نے اس پر رسمی طور پر دستخط کر دئیے۔  امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 19 فروری 2015 کو دستخط کے دن کہا  کہ "میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج شام انقرہ میں اس معاہدے پر دستخط ہو گئے"اور دستخط کرنے والے ترکی کے معاون وزیرخارجہ فریدون سینیر لی اوغلو اور انقرہ میں امریکی سفیر  جون باس تھے۔ اناتولیہ نیوز ایجنسی نے 19 فروری 2015 کو ترک وزیر خارجہ جاویش اوغلو کا یہ بیان نقل کیا کہ "دونوں ممالک پہلے ہی اس معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جس کے تحت شامی اپوزیشن کی تربیت کی جائے گی اور یہ اپوزیشن  داعش  اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ساتھ شام کی حکومت  سے لڑیں گی"۔ اس نے مزید کہا "ہم فائر بندی کو خوش آمدید کہیں گے چاہے یہ صرف چھ ہفتوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو"۔ اخبار ترکی نے 20 فروری 2015کو ترک وزیر خارجہ جاویش اوغلوا کا یہ بیان نقل کیا  کہ"اس معاہدے کا مقصد  شام  میں جنیوا اعلامیے کی بنیاد پر حقیقی سیاسی تبدیلی  کو لانا ہے اور اپوزیشن کو ان کی جنگ میں مضبوط کرنا ہے جیسا کہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور ان تمام عناصر  کے خلاف جو اپوزیشن کے لئے خطرہ ہیں "۔  ترک وزیر خارجہ نے قطر اور سعودیہ کی جانب سے شام کی اپوزیشن  کی اپنی سرزمین پر تربیت اور تیاری کی میزبانی  کرنے  کا بھی تذکرہ کیا۔ رائٹرز نے 19 فوری 2015 کوتین امریکی عہدیداروں  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جنہوں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی تھی کہ " ممکن ہے کہ تربیت مارچ کے وسط میں شروع ہو  اور یہ کہ و ہ تین سال تک   ہر سال 5000 شامی جنگجوؤں کی تربیت کریں گے جو کہ شام  کی معتدل اپوزیشن  کی حمایت کے منصوبے کے مطابق ہے"۔  یوں ترک وزیر خارجہ کھل کر اعلان کرتا ہے کہ ان قوتوں کو تربیت دینے کا مقصد  جن کو وہ معتدل اپوزیشن کہتے ہیں  جنیوا کی بنیاد پر سیاسی تبدیلی  اور ان عناصر پر ضرب لگانا ہے  جو اس سیاسی تبدیل کو مسترد کرتے ہیں اور کچھ اور چاہتے ہیں۔

 

5 - پس  امریکی منصوبوں کو بے نقاب اور ان  کی مخالفت کرنے والی قوتوں  پر ضرب لگانے کے بعد ہی متبادل آئے گا جن کا زمین پر وزن موجود ہوگا اور  پھر ایجنٹ قوت کو معتدل اپوزیشن کے نام پر اُن کی جگہ لایا جائے گا۔  اس پروگرام کی تکمیل کے لیے تین سال درکار ہیں ، تب ہی متبادل تیار ہو گا۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ متبادل فی الحال تیار نہیں اور اس وقت عملی مذاکرات نہیں ہورہے ہیں۔  زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ  پہلے ان قوتوں پرضرب لگائی جائے گی جن کو وہ انتہا پسند قرار دے رہے ہیں  یا کم ازکم ان کو غیر فعال کیا جائے گا  جس سے  اُن کا اثر زائل ہو گا اوراس کے لیے انہوں نے اپنے اندازوں کے مطابق تین سال مقرر کیے ہیں،ہر سال 5000 ۔۔۔اس مہینے کےشروع میں اردوگان کا سعودیہ کا دورہ اسی سلسلے میں تھا۔  خبروں کے مطابق شام  ہی ان کے درمیان بحث کا موضوع تھا اورظاہری بات ہے کہ  بات چیت معتدل اپوزیشن  کو مضبوط  کرنے  اور آنے والے متبادل  کی حمایت کے حوالے سے تھا جو کو امریکہ نامزد کرے گا۔اخبار ترکی نے 2 مارچ 2015  کو ترک صدر کے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ "سعودی فرمانروا سلمان بن عبد العزیز نے پیر2 مارچ 2015 کو دارالحکومت کے شاہی محل میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان سے ملاقات کی۔ دونوں نے شام  کی اپوزیشن کو  دی جانے والی مدد میں اضافے  کی ضرورت پر زور دیا تا کہ  اس کا اچھا نتیجہ  بر آمد ہو"۔ یعنی یہ دو نوں ممالک  سعودیہ اور ترکی جو کہ امریکہ کے وفادار ہیں معتدل اپوزیشن کی سوچ کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دونوں     اچھے  نتائج کے لیے مل کر  ایڑھی چوٹی کا زور لگائیں گےاورایسا نہیں ہو گا جو کونسل کے ساتھ ہوا  کہ جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اورجس کی ناکامی کی وجہ سے اب اس قوت کو وجود میں لانے کی ضرورت پڑی۔ کیونکہ یہ دونوں  امریکہ کے ساتھ مل کر  یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی قوت تیار کیے بغیر جس کا زمین پر کنٹرول ہو  اور وہ یہ دعوی کرتی ہو کہ وہ انقلابیوں کی نمائندگی کر تی ہے  یہ کسی قابل ذکر حل تک نہیں پہنچ سکتے  بلکہ ناکام  ہو جائیں گے، لہٰذا اس کے بعد ہی متبادل کے موضوع پر مذاکرات ہو سکتے ہیں اور جنیوا کی طرح کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا سکتا ہے۔

 

6 - امریکہ کے طریقہ کار  میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ  جن انقلابیوں کا  کنٹرول ہے، جنگ بندی کے ذریعے   ان  کے کنٹرول کا خاتمہ کیا جائے اور  اپنی منتخب قوتوں  کو مشقوں کا موقع دیا جائے تاکہ وہ  غیر معتدل "انتہا پسندوں " کو شکست دینے کے قابل ہوسکیں اور ان کی جگہ لیں۔  ساتھ ہی حکومت کے خلاف جنگ بندی سے  مختلف گروپ آپس میں  لڑیں گے جو ان کی کمزوری  اور پھر شکست کا سبب بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی منصوبے کے مطابق  لڑائی کو منجمد کرنے کے نام پر جنگ کو روکنا  ضروری ہے تا کہ   اُن کی جگہ معتدل قوتوں کو  لاکر  حکومت اور معتدل اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا آغاز کیا جاسکے۔  امریکہ نے اقوام متحدہ کے نمائندے ڈی میسٹورا  کے زبانی یہ بات کی ہے جو بنیادی طور پر اسی کا نمائندہ  اور اس کے منصوبے کا عالمبردار ہے۔ڈی میسٹورا نے دمشق کے دو روزہ دورے  کے بعد کہا  کہ"صدر اسد حل کا حصہ ہے ،میں اس کے ساتھ گفت وشنید کروں گا۔ وہ اب بھی شام  کا صدر ہے۔۔۔ اور اب بھی شام کے بڑے حصے پر شامی حکومت کا کنٹرول  ہے"۔  اس  نے کہا کہ "واحد حل سیاسی حل ہی ہے  معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں صورت حال  کا فائدہ  الدولۃ الاسلامیۃ تنظیم  کو ہو گا" (اے ایف پی 13 فروری 2015 )۔  یوں امریکہ نے ڈی میسٹورا کی زبانی بشار کے صدر ہو نے کا اعتراف کیا   اوریہ کہ اس  کے ساتھ  مذاکرات اور سیاسی حل چاہتا ہے اور اسی لیے اپنے ایجنٹ بشار کے خلاف لڑائی روکنا چاہتا ہے۔ یہ اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ  جب امریکہ ان قوتوں کو لانے کے بعد جو مذاکرات کرے گا اُن میں بشار  کے انجام کا فیصلہ ہو گا لیکن ابھی اس کی قسمت کا فیصلہ  نہیں ہوگا۔  اس لیے امریکہ جنگ رکوانے  اور اپنے ماتحت معتدل قوتوں کو  حاوی کرنے سے پہلے بشار کو گرانا نہیں چاہتا ،اس کے بعد ہی متبادل  کو پیش کیا جائے گا  اور معتدل اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے سرے سے مذاکرات ہوں گے۔

 

7 - خلاصہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ متبادل تیار ہے اور بشار کے دن گنے جا چکے ہیں بلکہ وہ اس مرحلے میں اقتدار میں رہے گا  یہاں تک کہ مذاکرات نئے سرے سے شروع نہ ہو جائیں  اور صورت حال  کے لیے کوئی فارمولا طے  نہ کیا جائے۔ جن معتدل قوتوں کو لانے کے لیے یہ کام کر رہے ہیں  وہ  مختصر مدت میں تیار نہیں ہو سکتی  بلکہ اس میں کم ازکم ایک سال لگے گا، یعنی 5000 کو تربیت دینے کے پہلے مرحلے کے بعد ۔۔۔پھر لڑائی روک کر  ان تیار کی ہوئی قوتوں کو  اندر قدم جمانے کے قابل نہ بنا دیا جائے جس کی ابتدا  انتہاپسند تحریکوں سے مڈبیر سے ہو گی  اس کے بعد ہی  حکومت میں اپنے ایجنٹوں  اور معتدل اپوزیشن نامی اپنے ایجنٹوں کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کر ے گا ، یہاں پہنچ کر متبادل کی تجویز اور حکومت کی تشکیل  کے بارے میں فریقین  کے درمیان ساز باز کرائی جائے گی۔

 

یہ تو امریکہ ، اس کے پیرو کاروں کے  اور اس کے اتحادیوں  کے منصوبوں کے مطابق ہے ، یہ ان کی سازشیں اور چالیں ہیں۔۔۔ لیکن اللہ کے دین کے بھی ایسے جوان مرد ہیں جنہوں نے اپنا دن رات ایک کیا ہوا ہے، جو اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ساتھ مخلص ہیں، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سچے ہیں ، اللہ  سبحانہ وتعالٰی کے  وعدے اور اس کے رسول ﷺ کی خلافت راشدہ کے قیام کے بارے میں بشارت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے  تن من دھن کی بازی لگا رہے ہیں جو اس ملک جبری کے بعد ہی ہو گی جس میں آج ہم زندگی گزار رہے ہیں ۔۔۔ اس وقت ان لوگوں کی سازشیں اور مکر  غبار بن کر ہوا کی نظر ہو جائیں گی

 

﴿وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ﴾

" یہ تو اپنے مکر کر چکے  اور اللہ بھی ان کے مکر کو دیکھ رہا ہے اگرچہ ان کا مکر ایسا ہے کہ اس سے پہاڑ  اپنی جگہ سے ہٹ جائیں"(ابراھیم:46)۔

 

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ "اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں"

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:«بدأ الإسلام غريباً وسيعود غريباً كما بدأ فطوبى للغرباء قالوا يا رسول الله ومن الغرباء؟ قال الذين يصلحون عند فساد الناس» "اسلام کی ابتداء اجنبی تھی اور یہ دوبارہ اجنبی ہو جائے گا جیسا کہ یہ اپنی شروعات میں تھا۔  انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ، یہ اجنبی کون ہیں؟  آپ ﷺ نے جواب دیا: جو اس وقت لوگوں کی اصلاح کریں گے جب ان میں خرابی پھیل جائے گی''(طبرانی )۔   اور فرمایا: ((إن الدين بدأ غريباً ويرجع غريباً، فطوبى للغرباء الذين يصلحون ما أفسد الناس من بعدي من سنتي))"بے شک دین ایک اجنبی کی طرح شروع ہوا اور یہ پھر اجنبی ہو جائے گا، پس ان اجنبیوں پر رحمت ہو جو میرے بعد میری سنت کی اصلاح کریں گے جسے لوگوں نے بگاڑ دیاہو گا''۔    بے شک  آج اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو یہ دور وہی دور ہے جس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی اِن احادیث میں کیا ہے۔   دین اجنبی ہو چکا ہے،فساد اور خرابی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے،نبی کریم ﷺ کی سنت کو بگاڑاجا چکا  ہےاوراسلام کو مساجد تک محدود کر دیا گیا ہے،بلکہ کئی جگہ مساجد کے منبروں سے بھی  اسلام کی صحیح تصویر پیش نہیں کی جا رہی  ہے۔    دوسری طرف مسلم دنیا کے حکمرانوں نے استعماری کفار کے ساتھ مل کر اسلام کے خلاف ایک جنگ برپا کر رکھی ہے۔  پچھلی کئی دہائی سے جاری اس جنگ کی تازہ کڑی یہ ہے کہ  پہلے جہاد کے تصور کو بدنام کیا گیا اور اب خلافت کے تصور کو داغ دار کیا جا رہا ہے۔

 

لیکن الحمد اللہ مسلم معاشروں سے اسلام کو مٹائے جانے کے احساس نے آج امت کو دوبارہ متحرک کردیا ہے۔ مسلمان اس کوشش میں ہیں کہ آج پھر سے اسلام کو زندہ کیا جائے،اسلام کے افکار پر صدیوں سے جمی ہوئی گرد کو صاف کیا جائے،اسلام کا درخت دوبارا ہرا بھرا ہو،یہ امت دوبارا بہترین امت بن کر ابھرےاور اس دین کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے۔

تاہم یہ کام آسان نہیں ہے۔   اس رستے میں مشکلات ہیں، آزمائشیں ہیں۔اسلام کی وہ ریاست کہ جس کو تباہ کرنے کے لیے کفار نے  جنگیں لڑیں ، صدیوں تک سر جوڑ کر سازشیں کیں،وہ اس ریاست کے دوبارا ابھرنے کو ٹھنڈے پیٹ کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔  آج جو بھی اس کام کو کرنے کے لیے اٹھ رہا ہے کفار مسلم دنیا میں موجود اپنے  ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعےانہیں مسلم معاشروں سے کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مجرم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔     پس آج جو بھی اسلام کو دوبارا نظام اور ریاست کے طور پر واپس لانے کے لیے  کام کرے گا اسے اجنبی بننا پڑے گا۔

آج ایک حامل دعوت کو اس صورتِ حال کے لیے بھی تیار ہونا ہو گا کہ اسے ماحول کے دھارے کے خلاف چلنا ہے۔  کیونکہ وہ چیزیں جو اللہ کی نظر میں اہم نہیں انہیں اہم بلکہ زندگی کا مرکز و محور بنا دیا گیا ہے، اور وہ امور جو کہ مسلمانوں کے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں ، بے وقعت کیے جا چکے ہیں۔   یہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا اثرہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے مسلم دنیا پر نافذ ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ ایک حامل دعوت کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب اس کے تمام دوست  اپنے مستقبل کو سنوارنے (کیرئر ) کی لگن میں جتے ہوتے ہیں ،تو وہ ان لوگوں پر اپنا وقت خرچ کر رہا ہوتا ہے، جن سے اس کی کوئی رشتے داری نہیں،کوئی دنیاوی غرض نہیں، کوئی دوستی نہیں ۔اس کے گھر والے، رشتے دار، عزیز و عقارب اسے دوسروں کی مثالیں دیتے ہیں کہ کامیاب زندگی اسے کہتے ہیں، دیکھو فلاں شخص نے کتنی تیزی سے دنیا میں ترقی کی ہے، اپنی زندگی کو مستحکم  ( settle)کیا ہے ،اب اس کا اپنا گھر ہے، نئی گاڑی ہے، اس نے  اپنے والدین کے لیے کتنی آسائشوں اور ان کےحج و عمرے کا بندوبست کیا  ہے ۔   اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ تم کن کاموں میں پڑ گئے ہو، اپنی اور اپنے بال بچوں کی فکر کرو،اپنے مستقبل کی فکر کرو۔   جب ایک حاملِ دعوت یہ باتیں سنتا ہے تو اسےمحسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے احکام، اسلام کے تقاضے، رسول اللہ ﷺ کی سنت، صحابہ کے طریقے، سیرتِ نبوی، یہ سب اجنبی ہو چکے ہے۔  ایک حاملِ دعوت کو یہ اجنبیت دعوت کے کسی نہ کسی موڑ پر ضرور محسوس ہوتی ہے۔

 

ایک حاملِ دعوت اس اجنبی ماحول میں استقامت کی راہ سے ڈگمگانے سے  اسی صورت محفوظ رہ سکتا ہے جب وہ انبیاء اورصحابہ کے واقعات پر غور و فکر کرتا رہے اور اپنے آپ کو یاددہانی کراتا رہے کہ کس طرح ان ہستیوں نے دین کے مقابلے میں دنیاوی آسائشوں کو بے وقعت سمجھا، دین و دنیا کی تجارت میں دین کا انتخاب کیا،کس طرح مجاہدینِ اسلام  نے اسلام کی سربلندی کو اپنی زندگیوں کا نصب العین بنایا۔

اور یہی وہ اجنبیت ہے کہ جس کے بدلے میں اجر ہے، وہ اجر نہیں جو کہ اصحاب الیمین کو ملے گا  بلکہ ویسا اجر جو کہ سابقون الاولون کو ملے گا، ان لوگوں کو ملے گا جو قیامت کے دن اللہ کے مقرب ہوں گے،   نور کے منبروں پر بیٹھے گے، انہیں رحمٰن کے قدموں میں جگہ دی جائے گی۔  یہ اجر ان لوگوں کو ملے گا کہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ" لا خوف علیھم ولاھم یخزنون"انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمزدہ ہوں گے"(یونس:62)۔

بے شک جو لوگ اپنی دنیا میں مگن ہیں یا پھر اس انتظار میں ہیں کہ جب دین کو فتح حاصل ہو جائے گی  اور خلافت قائم ہو جائے گی تو وہ بھی ساتھ شامل ہو جائیں گے، وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہیں جو آج کفر کی موجوں کے تھپیڑے برداشت کر رہے ہیں، ایجنٹ حکمرانوں کے قید خانوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے غنڈوں کے شر سے نبٹ رہے  ہیں، ان کے بنائے ہوئے کالے قوانین سے ٹکڑا رہے ہیں ،اورخلافت کے قیام کی جدوجہد میں اپنے بیوی بچوں کی قربانی دے رہے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی یہی صورتِ حال تھی ،جب باقی عالمِ عرب رسول اللہ ﷺ اور ان کے مختصر گروہ اور مشرکین مکہ کی کشمکش کو دیکھ رہا تھا۔امام بخاری نے روایت کیا ہے : " تمام عرب اپنے اسلام کے لیے فتحِ مکہ کا منتظر تھا ۔  وہ کہتے تھے کہ محمد کو اپنی قوم سے نبٹ لینے دو۔  اگر وہ غالب آ گئے تو وہ سچے پیغمبر ہیں ۔  پس جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قبیلے کے لوگ تیزی سے اسلام کی طرف لپکے"۔  لیکن جب مکہ فتح ہو گیا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےاعلان فرمادیا:

لَا یسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قَاتَلَ ط اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِینَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَ قَاتَلُوْا

''تم میں سےجن لوگوں نےفتح سےپہلےخرچ کیااورقتال کیاوہ (بعد والوں کے) برابرنہیں۔  ان کادرجہ ان لوگوں سےکہیں بڑھ کرہےجنہوں نےبعد میں اموال خرچ کیےاورقتال کیا''(الحدید:10)۔

انشاء اللہ ایسے ہی درجات  ان لوگوں کے منتظر ہیں جنہوں نے آج اجنیبیت کی زندگی کو دنیادی آسائشوں پر ترجیح دی ہے۔

لیکن ان درجات کے کچھ لوازمات ہیں جن کے بغیر وہ اجر حاصل نہیں ہو سکتا کہ جو اس دعوت کے ساتھ منسلک ہے۔ان درجات کو حاصل کرنے کے لیے اس دعوت کے لیے ویسی ہی سرگرمی دکھانا ہو گی جو کہ ان لوگوں نے دکھائی جنہوں نے پہلی مرتبہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا، اتنا ہی سنجیدہ اور یکسو ہونا ہو گا جیسا کہ صحابہ کرامؓ تھے، ویسی ہی عادات اپنانا ہوں گی جیسا کہ صحابہؓ کی تھیں۔  کیونکہ یہی وہ گروہ ہے کہ جن کے ایمان ، ایثار اور صبر و استقامت کی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تصدیق کی ہےاور ان کے متعلق کہا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،اور ان کے متعلق گواہی دی ہے:

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَنَصَرُوا أُوْلَئِكَ هُمْ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

"اورجو لوگ ایمان لائے ، ہجرت کی ، اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں(نے مہاجرین کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی ، یہی لوگ سچے مومن ہیں ۔ ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کا رزق ہے" (سورۃ الانفال:75) ۔

 

ایک حاملِ دعوت جب اس حدیث کو پڑھتا ہے :ثم تکون خلافةعلی منهاج النبوۃ"پھر نبوت کے تقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی" تواسے   رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دی گئی بشارت پر خوشی ہوتی ہے اور دل میں ایک اطمینان پیدا ہوتا ہے۔   تاہم اسے  اس حدیث پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ حدیث جس طرح ہمیں بتاتی ہے کہ خلافت نے دوبارہ قائم ہونا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس چیز کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ یہ خلافت نبوت کے نقشِ قدم پر ہوگی۔ یعنی اس گروہ میں وہ خصوصیات ہوں گی جو اس پہلے گروہ میں تھیں کہ جس نے پہلی اسلامی ریاست کو قائم کیا تھا۔   تو پھر  ہم پر لازم ہے کہ ہم ان لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں کی جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر اس اسلامی ریاست کو پہلی مرتبہ قائم کیا تھا، کہ نئی قائم ہونے والی خلافت اسی کا عکس اور اس کے نقشِ قدم پر قائم ہوگی۔  ہم ان صحابہ کی زندگی کا جائزہ لیں کہ انہوں نے دین کی دعوت کو کیا اہمیت دی تھی، ان کی صفات کیا تھیں۔   یاددہانی کے طور پرکچھ واقعات کا ذکرکرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ

فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

"یاد دہانی مومنین کو فائدہ دیتی ہے"(الذریت:55)۔

عمرو بن جموحؓ انصاری صحابی تھے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں جد بن قیس کی جگہ پربنو سلمہ قبیلے کا سردار بنایا تھا۔  وہ ایک پاؤ ں سے معذور تھے جس کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چلتے تھے۔  بدر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی ۔  آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ معذور ہیں لہٰذا آپ کے لیے اللہ کی طرف سے رخصت ہے ۔ چنانچہ وہ بدر کی جنگ میں شرکت نہ کر سکے۔  ان کے چار بیٹے تھے جو کہ بدر میں شریک ہوئے۔  معاذؓ جنہوں نے بدر کی جنگ میں ابوجہل کو اپنا ہدف بنایا تھا اور ابوجہل کی ٹانگ کاٹی تھی عمرو بن جموحؓ ہی کے بیٹے تھے۔ جب  احد کا موقع آیا تو عمرو بن جموح  نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں بھی تمہارے ساتھ جہاد میں شرکت کروں گا۔  بیٹوں نے کہا کہ آپ معذور ہیں ، اللہ کی طرف سے آپ کےلیےرخصت ہے ۔  لیکن وہ نہ مانے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے بیٹے مجھے آپ کے ساتھ جانے سے روکتے ہیں۔  اور کہا: اللہ کی قسم میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اسی معذور ٹانگ کے ساتھ میں جنت کی زمین پر سیر کروںگا۔  آپ کے  اصرار پر آپ ﷺ نے بیٹوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: کیا حرج ہے اگر تم انہیں نہ روکو، شائد اللہ تعالیٰ ان کو شہادت نصیب فرمائے ،چنانچہ وہ جہاد کے لئے نکلے۔  چونکہ ٹانگ سے معذور تھے ،جو کہ لڑائی ، حملےاور بچاؤ میں رکاوٹ تھی، چنانچہ جلد ہی شہید ہو گئے۔   اسی غزوہ میں ان کے بیٹے خلاد بن عمرو بن جموح بھی شہید ہوئے ۔  جنگ کے بعد عمرو بن جموح کی بیوی ہندہ بنت عمرو بن حرام نے اپنے بیٹے اور شوہر کو ایک اونٹ پر ڈال کر مدینہ واپس لے جانے کا ارادہ کیا، تاکہ انہیں وہاں دفن کریں۔  مگر جب وہ مدینہ کا ارادہ کرتیں تو اونٹ بیٹھ جاتا اور جب احد کا رخ کرتی ہیں تو تیز چلنے لگتا ہے۔   انہوں نے آ کر رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ۔ آپ ﷺنے فرمایا: عمرو بن جموح نے مدینہ سے چلتے وقت کچھ کہا تھا۔ ہندہ  نے کہا ہاں انہوں نے دعا مانگی تھی:اللّٰھم لا تعد نی الی اھلی"اے اللہ مجھے  گھر والوں کی طرف واپس نہ بھیجنا"۔   آپ ﷺ نے فرمایا : اسی وجہ سے اونٹ نہیں چلتا۔ اور فرمایا: قسم ہے اس کی ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم میں بعض ایسے بھی ہیں اگر اللہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم کو ضرور پورا کرے ان میں سے عمرو بن جموح بھی ہیں۔

 

سبحان اللہ یہ تھے رسول اللہ ﷺ کے صحابی کہ جن کی معذوری انہیں جہاد پر جانے سے نہیں روک سکی،انہوں نے اس معذوری کو بہانہ نہیں بنایا،  چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے۔  رسول اللہ ﷺنے عمرو بن جموح کو عبد اللہ بن عمرو بن حرام کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کیا اور فرمایا:عمرو بن جموح اور عبد اللہ بن عمرو کو ایک ہی قبر میں دفن کر دو،یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محض اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے محبت کیا کرتے تھے۔  اُس وقت صورتِ حال یہ تھی  کہ شہداء کو دفن کرنے کیلئے کفن میّسر نہ تھے،اس لئے عبداللہ بن عمروؓ ایک چادر میں کفن دیا گیاجس میں چہرہ تو چھپ گیا لیکن پاؤں کھلے رہے جن پر گھاس ڈالی گئی ۔یہ قبر نشیب میں واقع تھی ۔اتفاق سے چالیس سال بعد معاویہؓ کے زمانے میں یہاں سیلاب آگیا اور وہاں سے ایک نہر نکالنی پڑی۔اُس موقع پر قبر کو عبداللہ بن عمروؓ کے بیٹے جابربن عبد اللہؓ کی موجودگی میں کھولا گیا تو دونوں کے اجسام بالکل صحیح و سالم اور تر و تازہ تھے۔بلکہ ایک روایت یہ ہے کہ اُن کہ چہرے پر جو زخم تھا اُن کا ہاتھ اُ س زخم پر رکھا ہوا تھا۔لوگوں نے ہاتھ وہاں سے ہٹایا توتازہ خون بہنے لگاپھر ہاتھ دوبارہ وہاں رکھاتو خون بند ہو گیا (طبقات ابن سعد، موطا امام مالک، کتاب الجہاد، باب الدفن من قبر واحد من ضرورۃ)۔

صحابہ کی خوبی یہ تھی کہ وہ دین کی راہ میں آگے بڑھتے تھے،اپنے آپ کو پیچھے نہیں رکھتے تھےاور اس کوشش میں مشکلات اور آزمائشوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان کا ہر آنے والا دن اجر و ثواب کے لحاظ سے پچھلے دن سے بہتر ہو۔  بےشک آج بھی خلافت کے  قیام کے ذریعے دین کے نفاذ کی جدوجہدمحض معمول کا کام نہیں ہوگا، یہ صحابہ کی طرح دن اور رات کو ایک کرنےسے ہی ہو سکتا ہے،اس کے لیے حاملِ دعوت کو وہی تڑپ ،لگن ، اورشوق کو اپنے اندر اُجاگر کرنا ہو گا، جیسا ذوق اور شوق صحابہؓ کے اندر تھا۔غزوہ تبوک میں ہمیں اس شوق اور جنون کی ایک اور مثال ملتی ہے۔   غزوہ تبوک غزوہ عسرت بھی کہلاتا ہے، کیونکہ اس میں جنگی سامان اور سواریوں کی کمی تھی۔   رسول اللہ ﷺ نے غزوہ کے لیے تیاری کی ترغیب دی اور اس سلسلے میں صحابہ کرام ؓسے کہا کہ وہ اس کے لیے اپنا مال خرچ کریں۔  صحابہ کرام ؓنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔  تبوک مدینہ منورہ سے بہت دور تھا۔  پیدل سفر دشوار تھا اس لئے سواریوں کا انتظام کیا گیا۔  چند تنگ دست صحابہؓ جن کی تعداد سات تھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم جہاد میں شریک ہونا چاہتے ہیں مگر ہمارے پاس سواری نہیں ۔  آپ ہمارے لیے سواری کا بندوبست فرما دیں۔  ان کی درخواست سن کر رسول للہ ﷺ نے فرمایا:  لا اجد ما احملکم عليه"میرے پاس سواری نہیں کہ جس پر تم کو سوار کروں"۔  یہ سن کر ساتوں افراد رونے لگے  اور غزوہ میں شرکت سے محرومی پر افسوس کرتے ہوئے چلے گئے۔  ان سات لوگوں میں سالم بن عمیر بھی تھے جو کہ اصحابِ صفہ میں سے تھے۔     اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبۃ میں ان کے اخلاص اور رغبت کی گواہی ان الفاظ میں دی ہے:

 

وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ
'' اور ان لوگو ں پر بھی کوئی گناہ نہیں کہ جب وہ آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں سواری دیں تو آپ نے کہا کہ میں تمہیں سوار کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتا تو وہ اس حالت میں واپس ہوئے کہ ان آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ وہ خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پارہے ہیں"(التوبۃ:92)۔

 

اسی طرح کا واقعہ حضرت ابوذر غفاری کا بھی ہے۔  تبوک کے موقع پر سخت گرمی کا موسم تھا اور اس وقت کی سپر پاور روم سے لڑائی تھی۔  منافقین کی کوشش تھی کہ کسی طرح اس جنگ میں شریک نہ ہونے کا بہانہ تلاش کیا جائے۔  اللہ نے قرآن میں منافقین کی صورتِ حال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:وَقَالُوا لاَ تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ oفَلْيَضْحَكُوا قَلِيلاً وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ''اوراُنہوں نےکہاکہ اس گرمی میں مت نکلو۔  کہہ دیجئےکہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے کاش کہ وہ سمجھ سکتے۔ پس انہیں چاہیے کہ بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں بدلے میں اس کے جو یہ کرتے ہیں''(التوبہ: 81-82 )۔  اِنہی بہانہ بنانےوالوںمیں سےایک بنی سلمہ قبیلےکےجدبن قیس سےاللہ کےرسول ﷺنےپوچھاکہ'' اےجد!کیاتم بنیاصفرلڑناچاہوگے؟''  تواُسنےجوابدیا، ''اےاللہ کےرسولﷺ،آپ مجھےرہنےدیجئے،امتحان میں نہ ڈالئےمیرےسارےلوگ جانتےہیں کہ میں عورتوں کےمعاملےمیں کچاہوں،وہاںبنیاصفرکی رومی عورتیں دیکھوں گاتوخودکوروک نہ پاؤں گا''۔  آپﷺنےاُس سےمنہ پھیرلیا۔  اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی:

وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ

''ان میں سےکوئی توکہتاہےمجھےاجازت دیجئے،مجھےفتنےمیں نہ ڈالئے،آگاہ رہووہ توفتنےمیں پڑچکےہیں اوریقیناًدوزخ کافروں کوگھیرلینےوالی ہے''(التوبہ: 49 )۔

لیکن دوسری طرف ابوذرغفاری جیسے صحابہ کرام تھے ۔  ان کا اونٹ کمزور تھا اورسفر کے دوران سست ہو گیا۔  حضرت ابوذر غفاریؓ نے اس کو چلانے کی کافی کوشش کی مگر وہ نہ چلا۔  چنانچہ آپؓ نے اس پر سے ساز و سامان اتار کر اپنی پیٹھ پر لاد لیااور سخت گرمی کے موسم میں پیدل لشکر کے پیچھے روانہ ہو گئے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ سے جا ملے۔

صحابہ کی دوسری نمایاں صفت دنیا سے بےرغبتی تھی۔ایک حاملِ دعوت جب لوگوں کے سامنے اس دعوت کو پیش کرتا ہے تو اسے کتنے ہی ایسے لوگ ملتے ہیں، جو کہ اس دین سے محبت کرتے ہیں، لیکن جو چیز ان کے لیے اسلامی ریاست کے قیام کے عظیم کام کا بیڑا اٹھانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے وہ دنیا کی نعمتوں کے چھن جانے کا خوف اور مال کی محبت ہے، طرز زندگی کی فکر ہے، کاروبار میں کمی کا ڈر ہے۔بے شک آج سرمایہ دارانہ نظام سے پھوٹنے والا مادہ پرستی کا عظیم فتنہ دنیا کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔

ابو بکرؓنے اپنے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ پینے کے لیے پانی مانگا تو لوگ شہد کا شربت لائے،  آپؓ نے پیالے کو منہ لگایا اور پھر ہٹا کر رونے لگے۔  جو لوگ پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی رو پڑے۔  لوگوں نے پوچھا کہ کس چیز نے آپ کو رُلا دیا ۔  آپ نے فرمایا: ایک دن میں رسول اللہ کے ساتھ  تھا ۔ میں سے دیکھا کہ آپﷺ کسی آدمی کو دھکیل رہے ہیں،  حالانکہ کوئی شخص آپ کے پاس نہ تھا۔  میں نے پوچھا کہ آپﷺ کس کو دھکیل رہے ہیں ۔  آپ ﷺنے فرمایا: دنیا میرے سامنے مجسم ہو کر آئی تھی میں نے اس سے کہا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ وہ ہٹ گئی، پھر دوبارا آئی اور کہا آپ مجھ سے بچ کر نکل جائیں تو نکل جائیں لیکن آپ کے بعد کے لوگ مجھ سے نہیں بچ سکتے ۔  ابوبکرؓ فرماتے ہیں مجھے یہی واقعہ یاد آ گیا اور میرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں یہ دنیا مجھے چمٹ نہ جائے۔ابوبکر کس قدر فکر مند اور خبردار تھے۔  کہ ایک نعمت کی فراوانی نے انہیں فکر مند کر دیا کہ کہیں دنیا ان سے چمٹ نہ جائے۔  اور آج ہم کتنی نعمتیں کھاتے ہیں، پہنتے ہیں، استعمال کرتے ہیں، لیکن کیا ہمیں یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے؟!

 

یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ بے شک ایسا نہیں تھا کہ صحابہؓ اللہ کی نعمتوں کو استعمال نہیں کرتے تھے، اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے تھے۔  عشرہ مبشرۃ میں سے دو صحابی عثمان ؓ اور عبد الرحمن بن عوف ؓ کے پاس مال و دولت کی فراوانی تھی۔     ابو بکرؓ اور عمرؓکے پاس قطع اراضی تھے جن پر وہ کاشت کاری کیا کرتے تھے۔  اوربے شک یہ تصور درست نہیں کہ  ہر کسی کے لیے اتنا ہی ہونا چاہئے کہ جتنا کہ بس اس کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو، اور اسے آسائشوں کو حاصل نہیں کرنا چاہئے۔ اگر اسلام میں ایسا ہوتا تو پھر اسلام میں وراثت کے احکامات موجود نہ ہوتے۔  اور رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ سے ڈرے دولت مندی کا اسے کوئی مضائقہ نہیں (احمد)۔     مگر جس چیز سےایک حاملِ دعوت کو خبردار رہنا ہے وہ یہ ہے کہ آج جب ایک ایمان دار شخص کے لیےجائز طریقوں سے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، جبکہ دوسری طرف اس نظام نے حرام ذرائع سے دولت کے حصول کے دروازے کھول رکھے ہیں،اورحکمرانوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کو نافذ کر کے لوگوں کی  زندگی کو اجیرن کر رکھا ہے، تو یہ صورتِ حال کہیں اسےگرفت میں نہ لے لے کہ اس کے بڑھتے ہوئے قدم سست پڑ جائیں، اور شیطان اس کی ترجیحات کو تبدیل کردےاوروہ دنیا کی طرف نہ جھک جائے۔   کیونکہ  رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:((يهرمابنادموی شبمنهاثنانالحرصعلی المالوالحرصعلی العمر))"آدمی بوڑھا ہوتا جاتا ہے مگر دو چیزیں اس میں جوان ہی رہتی ہیں مال اور عمر کے لمبا ہونے کی حرص"(متفق علیہ)۔    پس اسے رسول اللہ ﷺ کے ان فرمودات کو اپنے سامنے رکھنا ہے: ان لکل امة فتنة وفتنة امتی المال "بے شک ہر امت کا ایک مخصوص فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے"(ترمذی)۔   اور فرمایا:  لا الفقر اخشی علیکم و لکن اخشی ان تبسط علیکم الدنی افتنافسوهاکماتنافسوهافتهلک کمکمااھلکتهم"میں تم پر فقر کا خوف نہیں لیکن اس بات کا خوف رکھتاہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے گی اور تم اس میں ایسے ہی رغبت کرو گے جیسے پہلوں نے کی اور وہ تمہیں ایسے ہی ہلاک کرے گی جیسے پہلوں کو کیا"(بخاری)۔   اور فرمایا:

 

(( ان اخوف ما اتخوف علی امتی الهوی وطولالاملفاماالهویٰ فی صدعن الحقواماطولا لاملفی نسیا لآخرۃ))

"بے شک میں اپنی امت پر جن چیزوں کا خوف رکھتا ہوں ان میں سب سے زیادہ خوف خواہشاتِ نفس اور لمبی امیدوں کا ہے۔ خواہشات حق سے روک دیتی ہیں اور لمبی امیدیں آخرت سے غافل کر دیتی ہیں"(بیھقی)۔

اورامام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

((اثنان یکرھھماابنادمیکرہالموتوالموتخیرللمومنینمنالفتنةویکرہقلةالمالوقلةالمالاقلللحساب))

"انسان دوچیزوں کو اچھا نہیں سمجھتا حالانکہ وہ دونوں اس کے لیے بہتر ہیں۔  وہ موت سے کراہت کرتا ہے حالانکہ موت مومن کے لیے بہتر ہے جس کی وجہ سے وہ فتنے سے بچ جائے گا اور وہ مال کی کمی کو اچھا نہیں سمجھتا حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی کا سبب ہے"۔

 

صحابہ کرام ؓ لوگوں کو بھی دنیا کی بے وقعتی کی یاددہانی کراتے رہتے تھے۔ ایک دن ابو ہریرۃ ؓ نے بازار میں جا کر لوگوں کو پکارا کہ تمہیں کس چیز نے مجبور کر رکھا ہے؟ لوگوں نے پوچھا کس چیز سے؟  آپؓ نے کہا وہاں رسول اللہﷺ کی میراث تقسیم ہو رہی ہے اور تم لوگ یہاں بیٹھے ہو۔  لوگوں نے پوچھا  : کہاں تقسیم ہو رہی ہے۔  آپؓ نے کہا : مسجد میں۔  لوگ لپک کر مسجد پہنچے۔  لیکن وہاں مال کی تقسیم کا کوئی معاملہ نہ تھا۔  انہوں نے واپس آ کر صحابی رسول سے کہا کہ وہاں تک کچھ بھی تقسیم نہیں ہو رہا، البتہ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ تلاوتِ قرآن پاک میں مشغول ہیں ، کچھ حلال و حرام پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ہیں۔  ابوہریرۃ ؓ نے فرمایا: تم لوگوں پر افسوس ہے ، یہی تو تمہارے نبی کی میراث ہے۔

دارمی نے عبد اللہ بن عمر و بن العاصؓ سے روایت کیا کہ ایک دفعہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اور فقراء مہاجرین کا ایک گروہ بھی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا   کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے  اور ان میں آ کر بیٹھ گئے۔  میں ان کے پاس آیا۔  اور رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔  فقرا مہاجرین اس چیز کے ساتھ خوش ہو جائیں جو انہیں خوش کرے گی۔  وہ جنت میں مالداروں سے چالیس سال پہلے داخل ہو ں گے۔  عبد اللہ بن عمر وؓفرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے روشن ہو گئے یہاں تک کہ میں نے آروز کی کہ میں بھی انہی میں سے ہوتا۔

بیت المقدس کی فتح کے بعد جب عمرؓ نے بلاد الشام کا رخ کیا تو وہاں ان کی ملاقات حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ سے ہوئی۔  ایک دن عمرؓ نے ابو عبیدہؓ سے فرمایا کہ مجھے اپنے گھر لے چلئے۔  ابو عبیدہ نے جواب دیا  آپ میرے گھر میں کیا کریں گے  اور عمرؓ کو ٹالنے کی کوشش کی۔ لیکن عمرؓ کے اصرار پر انہیں ساتھ گھر لے آئے۔  ان کی گھر میں ڈھال ، تلوار اور اونٹ کے کجائے کے علاوہ کوئی خاص سامان نہ تھا۔    عمرؓ نے فرمایا: اے ابو عبیدہ کاش تم ضروری سامان تو فراہم کر لیتے۔  اس پر ابو عبیدہ بن جراح نے جواب دیا : ہمیں قبر تک پہنچانے کے لیے اتنا سامان ہی کافی ہے۔

یہ تھے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام اور ان کا طرزِ عمل۔   آج حاملینِ دعوت کو صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل کو مشعلِ راہ بنانا ہے۔تبھی وہ کفر کے اژدھام کے باوجود آگے سے آگے بڑھ سکے گا۔  اورلوگوں کے لیے اس کی حیثیت  وہی  گی کہ جیسے اندھیری رات میں چراغ کی ہوتی ہے۔  اور اسلام کی سربلندی کا ہدف ان کے ہاتھوں اسی طرح پورا ہوگا جیسا کہ ماضی میں صحابہ ؓ کے ہاتھوں ہو ا۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

تحریر: افتخار احمد

 

 

‫‏یمن‬ میں بحران افواج ‏پاکستان‬ ‫امریکی‬ سیاسی مفادات اور اُس کی کٹھ پتلیوں کے تحفظ کے لئے نہیں بلکہ اسلام اور خلافت کے لئے مسلم دنیامیں مداخلت کرے

سعودی عرب کی سربراہی میں مشرق وسطیٰ کے ممالک پر مشتمل اتحاد نے 26 مارچ 2015 سے ثناء، عدن اور یمن کے دیگر شہروں میں بمباری کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس میں حوثی تحریک کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس اتحاد کو امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سعودیہ نے پاکستان سے بھی اس فوجی آپریشن میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ سعودیہ کی جانب سے اس خواہش کے اظہار پر راحیل-نواز حکومت نے فوراً ایک اعلٰی سطحی اجلاس طلب کیا جس میں اس درخواست کا جائزہ لیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک اعلٰی سطحی وفد سعودیہ عرب بھیجا جائے جو صورتحال کا تجزیہ کرے۔ حکومت نے کہا کہ اگر سعودی عرب کی جغرافیائی سرحدوں کو خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان کا ردعمل سخت ترین ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بحران بھی مغربی استعماری طاقتوں اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کے حصول کی کوششوں کا ہی حصہ ہے۔ یہ بحران سعودی عرب اور ایران یا سنی و شیعہ کے درمیان مسابقت کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کو کہنا ہے بلکہ یہ بحران امریکہ اور یورپ کے درمیان مسابقت کا نتیجہ ہے جو اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے دور بیٹھ کر اپنی کٹھ پتلیوں کی ڈورے ہلا رہے ہیں۔


سعودی عرب، خلیجی ریاستیں ، اردن اور مصر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ یمن کے لوگوں اور اس کی قانونی حکومت کے تحفظ کے لئے مدد کو آئے ہیں۔ یہ وہی حکومتیں ہیں کہ جو پچھلے چار سالوں سےبشار کے ہاتھوں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام خاموشی سے دیکھ رہی ہیں، یہ وہی حکومتیں ہیں کہ جب یہودی وجود غزہ میں خوفناک بمباری کر کے اسکولوں اور مساجد میں پناہ لیے ہوئے مسلمانوں کو قتل کررہا تھا تو یہ مُردوں کی طرح چِت پڑے رہے اور یہ وہی حکومتیں ہیں کہ جنہوں نے امریکی آشیر باد سے ہونے والی سیسی کی فوجی بغاوت کی حمایت کی۔ اِن حکومتوں کے اس طرز عمل کے بعد کوئی احمق ہی ہوگا جو یمن کے حوالے سے ان کی فکر مندی سے متاثر ہوگا۔

اس صورتحال میں اگر راحیل-نواز حکومت اس اتحاد کا حصہ بنتی ہے تو یہ انتہائی شرمناک بات ہو گی کہ پاکستان کی افواج کو امریکی مفاد کے لئے استعمال کیا جائے ۔ وہ تمام لوگ جو اس منکر کو روک سکتے ہیں وہ اس کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور جو یہ نہیں کرسکتے انہیں اس خیانت کے خلاف آواز کو بلند کرنا چاہیے۔


یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پاکستان آرمی کو دوسرے ممالک میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مسلم دنیا درحقیت ایک ہی ہے۔ مسلم دنیا میں موجود سرحدیں کافر استعماری طاقتوں کی قائم کردہ ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کو تقسیم اور انہیں کمزور کرنا ہے۔افواج پاکستان کو مسلم دنیا میں مداخلت کرنی چاہیے لیکن امریکہ کے کہنے پر نہیں بلکہ یہ فیصلہ آزادانہ اور اسلام کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی جانب پہلا قدم تو یہ ہے کہ افواج پاکستان حزب التحریرکو خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ دیں۔ پھر خلافت مسلمانوں کے وسائل اور افواج کو کافر استعماری طاقتوں کے مفاد میں استعمال ہونے سے روک دے گی اور مسلم دنیا کو ان جنگوں سے نجات مل جائے گی جو ان طاقتوں کے مفادات کے حصول کےلئے ہی بھڑکائی جاتی ہیں۔ خلافت مسلم دنیا کو ایک وحدت بخشے گی جو اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہﷺ کا حکم ہے اور مسلمانوں کی خواہش بھی ہے۔


ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکا میڈیا آفس

"پریونٹ"(باز رکھنا)کا قانون محض ایک زہریلی چھاپ ہی نہیں بلکہ یہ زہریلا منصوبہ ہے جسے چیلنج کرنے کی ضرورت ہے

دارالحکومت کے سابق پولیس کمانڈرڈال بابو نے حکومت کی  انتہاپسندی کو روکنے کی پالیسی 'پریونٹ' (باز رجھنے) کی مخالفت کی اور کہا کہ اس نے  ایک زہریلی شکل اختیار کرلی ہے، جسےبرطانیہ کے مسلمان شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔  ان کا یہ تبصرہ  سنڈے ٹیلی گراف  کے اس اعلان کے ایک دن بعد سامنے آیا تھا جس میں سیکریٹری داخلہ تھریسامے نےانتہا پسندی  کا مقابلہ کرنے والے قوانین کی مدت میں  اضافے  کا اعلان کیا تھا  اور   جس  کا حزب اختلاف  کے عدلیہ کے معاملات کے شیڈو وزیر صادق خان نے پُرجوش خیر مقدم کیا۔  یہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ   "شدت پسندی " کا سب سے زیادہ مخالف ظاہر کرنے کے لئے اب سر کردہ پارٹیوں کے درمیان  گویا جیسے  ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ شروع ہوگئی ہے۔

تاجی مصطفی  ٰنے،جو برطانیہ میں حزب التحریر کے میڈیا  کے نمائندے ہیں ،نے اس خبر پرتبصرہ کرتے ہوئے  کہا کہ"یہ 'پریونٹ' کا قانون یقیناً ایک زہریلا نشان  ہے۔ صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس کو غلط طور پر نافذ  کیا گیا یا اس کے حوالے سے  غلط فہمی ہوئی ہے ،  بلکہ یہ اپنی بنیاد سے ہی ایک ناقص اور زہر آلود  منصوبہ ہے ، کیونکہ اس کی   بنیاد ایک باطل مفروضے پر رکھی گئی ہے اور وہ یہ کہ ایک انسان جتنا زیادہ اسلام پسند ہوگا ،اتنا ہی وہ اندرونی طور پر خطرےکا باعث ہو سکتا ہے"۔

"یہ قانون اس مفروضے پر نافذ کیا گیا کہ ایسے  لوگ جو اسلامی اقدار کے حامل ہوتے ہیں یا ریاست  کے نقطۂ نظر کے برعکس  سیاسی رائے رکھتے ہیں، یہی لوگ مشکوک تصور کئے جائیں گے ،چنانچہ ریاست کو چینل پروگراموں کے ذریعے دوبارہ پروگرامنگ کی ضرورت ہے"۔

"اس قانون  میں جان بوجھ کر خارجہ پالیسی کو کلی طور پر نظر انداز کیا گیا ، جب کہ  برطا نیہ کے اندر تشدد کی کاروائیوں کا  خارجہ پالیسی کے ساتھ تعلق  ثابت شدہ ہے"۔

"یہ وہ  پالیسی ہے جس میں  سیاسی اور مذہبی  عقائد  سے نبٹنے کے لئے سیکورٹی  وجوہات  کو دلیل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔  یہ اُس وقت  ہی واضح ہوگیا تھا   جب دسمبر 2014 میں  پولیس چیف سر پیٹر فاہی نے کہا تھا کہ  مجھے خدشہ ہے کہ  پولیس "افکار کی نگرانی کرنے والی پولیس" میں تبدیل ہوجائے گی"۔

"یہ وہ پالیسی ہے جو اکثر جابر ریاستوں میں نظر آتی ہے۔ فاہی نے اپنے  اسی تبصرے میں اشارہ کیا تھا کہ کیونکہ  شدت پسندی کی باریکی سے تعریف نہیں کی گئی تھی  لہٰذا پولیس اپنے طور پروضع کردہ مخصوص تعریفوں کی بنیاد پر کام کرتی رہی۔ اس نے مزید  اپنے خدشات کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ   یہی "پولیس اسٹیٹ" کی طرف بڑھنے کاراستہ ہے"۔

"دہشت گردی کی روک تھام کا موجودہ قانون اور سیکورٹی ایکٹ نے فکری پولیسنگ کا  کام کرنے کی ذمہ داری  استادوں ، نرسری ورکرز، صحت کے شعبےمیں کام کرنے والوں  اور یونیورسٹیوں  پر ڈالی ہے۔   یہ پالیسی 1950 کی میک کارتھیسیزم  کی یاد دلاتی ہے،  بلکہ مشرقی جرمنی کے سٹاسی قوانین کی یاد دلاتی ہے"۔

"حزب التحریر کو اس بات کا احساس  ہے کہ   مسلم کمیونٹی اور بالعموم پورے معاشرے کے سامنے ان   ناپاک ، بے وقعت اور ناقص  ہتھکنڈوں  کو مسلسل بے نقاب کرنا واجب ہے ، اور ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم ایسا ہی کرتے رہیں گے   جیسا کہ ہم  ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں"۔

برطانیہ میں حزب التحریر کا  میڈیا آفس

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک