الأحد، 27 صَفر 1446| 2024/09/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

‏حزب‬ التحریرکے خلاف ‫‏راحیل_نواز‬ حکومت کا عدالتی جبر گرفتاریاں اور طویل قیدو بند ‫‏خلافت‬ کے قیام کو روک نہیں سکتیں

منگل 31 مارچ 2015 کو لاہور ہائیکورٹ کے بینچ نے تین ماہ تک تاریخوں پر تاریخیں دیتے رہنے کے بعد حزب التحریر کے 12 شباب کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔ ان بارہ شباب کو 5 دسمبر 2014 کے دن لاہور گلبرگ سے ایک اسلامی درس کی محفل سے گرفتار کیا گیا تھا۔
راحیل-نواز حکومت حزب التحریر اور اس کے شباب کو خلافت کے قیام کی جدوجہد سے روکنے کے لئے برطانوی سامراجی عدالتی نظام کا سہارا لے رہی ہے۔ یہ نظام بنا ثبوت اور جرم کو ثابت کیے بغیر بے گناہ اور معصوم لوگوں کو سالوں قید میں بند رکھنے کا قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔ چار ماہ سے گرفتار ان افراد کے خلاف نہ تو مقدمہ شروع کیا گیا ہے اور نا ہی انہیں ضمانت فراہم کی جارہی ہے۔ تین ماہ تک تاریخیں دیتے رہنے کے بعد جب عدالتی بینچ نے استغاثہ سے مبینہ جرم کے حوالے سے ثبوت دیکھانے کا مطالبہ کیا تو اُس درس میں رکھی ہوئی حزب التحریر کی کتابیں پیش کی گئی لیکن بینچ نے ان کتابوں کو ایک نظر دیکھے بغیر ہی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔ حزب کی تمام کتابیں اسلام کے عقائد سے لے کر نظام ہائے زندگی تک صرف اور صرف قرآن و سنت پر مبنی ہیں اور آج تک کوئی یہ ثابت نہیں کرسکا کہ ان کے پڑھنے اور پڑھانے سے اسلام کی نہیں بلکہ نفرت، فرقہ واریت یا دہشت گردی کی ترویج ہوتی ہے۔
یہ بارہ شباب معاشرے کے معزز خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اعلٰی تعلیم یافتہ اور اس معاشرے کے نگینے ہیں جو ایک طرف اپنے تعلیمی و کاروباری صلاحیتوں سے معاشرے کو فائدہ پہنچاتے آرہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خلافت کے قیام کے لئے رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے سیاسی و فکری جدوجہد کررہے ہیں جس کا قیام پوری امت پر فرض ہے اور جس کے ذریعے سے امت ذلت و رسوائی کی دلدل سے نکل کر ایک بار پھر عزت و مرتبے کے مقام پر فائص ہو گی۔


حزب التحریر راحیل-نواز حکومت کو بتا دینا چاہتی ہے کہ تمھاری کوئی کوشش خلافت کے قیام کو کسی صورت روک نہیں سکتی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا وعدہ ہے اور ان کا وعدہ سچا ہے۔ لہٰذا جو کوئی اس وعدے اور بشارت کو روکنے کی کوشش اور ظالموں کی معاونت کرتا ہے درحقیقت وہ انتہائی بدقسمت ہے۔ حزب التحریر یہ یاد دہانی کروا کر صرف حجت تمام کر رہی ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس وعدے کو روکنے اور اس وعدے کی تکمیل کے لئے کام کرنے والوں پر ظلم کرتے ہیں اور ظالموں کی معاونت کرتے ہیں وہ یہ جان لیں کہ جب خلافت قائم ہو جائے گی تو وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے اور جب وہ روز قیامت اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے تو ان کا خسارہ تو اس دنیا کے خسارے سے بھی شدید ہوگا۔
لہٰذا حزب التحریر اور اس کے شباب پوری قوت سے خلافت کے قیام کی جدوجہد کرتے رہیں گے اور اللہ کے حکم سے خلافت قائم ہو کر رہے گی۔ تو اے ظالموں اور ان کی معاونت کرنے والوں! تم اپنا زور لگا لو اور حزب التحریر اور اس کے شباب اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی پر بھروسہ کرتے ہوئے اس جدوجہد سے کسی صورت تائب نہیں ہوں گے۔


إِنَّ ٱللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ
"اللہ اپنا کام پورا کر کے رہے گا" (طلاق:3)


شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

بالآخر ایجنٹ حکمرانوں کے طیارے حرکت میں آگئے..... مگر  دشمنوں سے لڑنے کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کو قتل کرنےکے لئے!  

اقوامِ متحدہ کے لئے سعودی سفیر عادل الجبیر نے جمعرات کی صبح 26 مارچ 2015 کو یمن کے حوثیوں کے خلاف عسکری آپریشن کا اعلان کردیا ۔ اس  آپریشن کے دوران فضائی کاروائیوں میں حصہ لینے والا اتحاد دس ممالک  پر مشتمل ہے،  جس میں عمان کے سواء  باقی تمام خلیجی ممالک  شامل ہیں ۔ سعودی سفیر نے واضح کیا کہ سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے قبل امریکہ سے مشاورت کی تھی۔ مصر کے وزیر خارجہ نے  اس آپریشن میں شرکت کا اعلان کیااور بتایا کہ چار  مصری بحری جہاز  خلیجِ عدن کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ جبکہ سوڈانی مسلح افواج کے ترجمان نے   اعلان کیا  کہ"اپنی اسلامی ذمہ داری کی بنیاد پر سوڈان اس(حملے) میں شرکت کرے گا۔ہم  ایسی صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے جبکہ مسلمانوں کے قبلہ اور وحی کے نزول کی سر زمین پر خطرات  کے بادل منڈلا رہے ہوں"۔

 

یوں بجائے یہ کہ حکمرانوں کے طیارے اور جنگی بحری جہازیہود یوں سے لڑنےکے لیے حرکت میں آتے وہ یمن پر بم برسانے کے لئے حرکت میں آئےحالانکہ سبا(یمن )کی سرزمین کی بنسبت یہودی وجود ان کے زیادہ قریب  واقع ہے!اس کاروائی کے  لیے جو جواز پیش کیے گئے ہیں ان میں سے بد ترین جوازیہ ہے کہ یہ حملہ مسلمانوں کے قبلہ کےتحفظ کی خاطر ہے، حالانکہ   حرم شریف  پر تو حملہ ہوا بھی نہیں جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول جس پر یہودی حملہ کر کے قبضہ کر چکے ہیں اور وہ کئی  دہائیوں سے یہودیوں کے قبضے میں ہے ، اورپکار پکار کر اِن  حکمرانوں سے مدد کے لئے فریاد کرتا آرہا ہے،اس کی خاطریہ  حکمران حرکت میں نہیں آتے!ان کے طیارے یمن کی طرف اس لئے پرواز کرتے ہیں تاکہ استعماری کفار کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے،  یہ طیارے فلسطین کی ارضِ مقدس کو چھڑوانے کے لئےکبھی نہیں  اُڑتے جس پرمسلمانوں کے شدید ترین دشمن  قابض  بنے بیٹھے ہیں!

 

ہر صاحب بصیرت شخص  جانتا ہے کہ یمن میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ امریکہ اور  اس کے  حوثی حواریوں اور ان کے ہمنوا ؤں اوردوسری طرف برطانیہ اور اس کے حواریوں ہادی،عبد اللہ صالح اور  ان کے ہمنواؤں کی باہمی کشمکش ہے ،جیسا کہ ہم نے اس معاملے کے متعلق سابقہ دستاویزات میں لوگوں پر یہ  واضح کیا تھا کہ"حقیقت یہ ہے  کہ یمن میں جاری جنگ دوفریقوں کے درمیان ہورہی ہے: فریق اول امریکہ ،اس کے حواری اور ایجنٹ  اورفریقِ ثانی برطانیہ ، اس کے حواری اور ایجنٹ ۔ دونوں فریق  اپنے اپنے وسائل اور  اسالیب استعمال کررہے ہیں  .... امریکہ یمن میں حوثیوں  کی مادی قوت ، جنوبی علاقوں میں جاری  تحریک اور ایران کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھارہا ہے اور مذاکرات کے میدان میں یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی مشیرجمال بن عمرکو استعمال کر تا ہے۔جبکہ برطانیہ اپنی سیاسی مکاری کو بروئے کار لاتا ہے اورامریکی دباؤ کے خلاف مزاحمت کے طور پر ہادی  اور اس کی صدارت کو استعمال کررہا ہے اور اس بات کو یقینی بنارہاہے کہ کوئی امریکی حواری طاقت کے اہم مراکز میں سے کسی پربھی قابض نہ ہوسکے ۔ساتھ ہی ساتھ برطانیہ نے بذاتِ خود علی صالح  اور اس کے آدمیوں کو  حوثیوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دی تا کہ اگر ہادی اپنے مقصد میں ناکام ہوجائے اور حوثی  اقتدار پر قابض ہو جائیں  تب بھی برطانیہ علی صالح کے ذریعے اقتدار کے کچھ حصے پر  قابض  رہ سکے ۔یہ ہے یمن کی صورتِ حال کی حقیقت ۔چونکہ برطانیہ اب پہلے کی طرح  یمن پر اپنی بالادستی قائم رکھنےکے قابل نہیں رہا ،جبکہ دوسری طرف  وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں  کا عسکری طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے وہ اپنے ایجنٹ ہادی اور علی صالح کے ذریعے  سیاسی مکاری پر ہی بھروسہ کرتا ہے،جنہوں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیاہے "(یکم اکتوبر 2014) ۔

 

امریکہ نے ایران کے ذریعے حوثیوں کو انواع واقسام کا اسلحہ اور سامان ِجنگ فراہم کرکے ان کی مدد کی تاکہ وہ طاقت کے بل بوتے پر یمن پر تسلط حاصل کرلیں ۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ سیاسی میدان میں زیادہ تر برطانیہ کے پروردہ سیاست دان چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکہ نے حوثیوں کے ذریعے  طاقت کے بل بوتے پریمن پر تسلط جمانے کی راہ اختیار کی ۔حوثیوں نے صدر کا محاصرہ کر لیااور اس پر زور ڈالا کے وہ ان کی مرضی کے قوانین منظور کرے۔ یمن کا صدر ہادی ان قوانین کے نفاذ پرحوثیوں کے ساتھ  اتفاق کرلیتا اور پھر اِن معاہدوں اور قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں  ٹال مٹول کرنے لگتا تھا ، یہ کھیل جاری رہا اور پھر وہ وقت آگیا جب حوثیوں نے  صدر کو اس کے گھر میں قید کردیا لیکن وہ کسی طرح فرار ہو کر عدن پہنچ گیا۔ حوثیوں نے عدن  تک اس کا پیچھا کیا، مگر وہ دوبارہ ان کے ہاتھوں بچ نکلا۔ یوں یہ کشمکش طویل ہوتی چلی گئی اور حوثیوں کی طاقت کسی ایک مرکز پر جمع نہ رہ سکی بلکہ  پورے ملک کے اندر پھیل جانے سے کمزور ہوگئی اور حوثی وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو وہ چاہتے  تھے سوائے اس کے کہ  علی صالح اور اس  کے حواریان کے ساتھ شامل ہوگئے تا کہ اگر حوثی ، صدر ہادی کے خلاف کامیاب ہو جاتے ہیں  تو حاصل ہونے والے انعام میں سے وہ بھی اپنا حصہ وصول کرسکیں ۔ اور اگر حوثی ناکام ہو جاتے ہیں  تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔ برطانوی ایجنٹوں کی اس حکمتِ عملی کے ابتدائی  آثار دکھائی دے  رہے ہیں ۔ پس عوامی نیشنل کانگریس ، جس کی سربراہی سابق یمنی صدر علی عبد اللہ صالح کررہا ہے،  نے اعلان کیا کہ "حوثی ملیشیا کی تحریک  ، حوثیوں  کی جانب سے جنوبی صوبوں پر قبضہ کرنے کی کوشش اور ملک کی قانونی اتھارٹی کے خلاف بغاوت کرنے کے عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے "۔  عوامی  کانگریس پارٹی کے پولیٹیکل آفس  کی جنرل کمیٹی کی طرف سے بیان دیا گیا کہ "یمن میں جو کچھ ہورہا ہے، یہ بعض دھڑوں کے درمیان  اقتدار کی کشمکش  ہے، اور نیشنل کانگریس کا اس سے دور ونزدیک کا کوئی واسطہ نہیں"(العربیۃ26 مارچ 2015)۔ عوامی نیشنل کانگریس کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا حالانکہ کل تک وہ اس صلح یاجنگ میں حوثیوں کی حلیف تھی! اور یہ  کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی  کہ اگرمستقبل میں حوثیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے  تو عوامی کانگریس دوبارہ حوثیوں  کی اتحادی بن جائے۔ اِن  ایجنٹوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ ضرورت کے لحاظ سے اپنے آقا کے تیار کردہ کردار کے مطابق اپنےرنگ بدل لیتے ہیں!کیا ہی برا اُن کا یہ چلن ہے...!

 

جب امریکہ نے دیکھا کہ ان کے حوثی   حواری مخمصے کا شکار ہیں ، انہوں نے اپنی قوت کو پورے یمن میں پھیلا دیا ہے جس کے باعث نہ تو وہ مکمل طور پر اپنی بالادستی کو قائم  کر پارہے ہیں  اور نہ ہی وہ  شمال میں اپنے مرکزکی طرف  واپس جاسکتے ہیں،تو امریکہ نے محدود فوجی آپریشن کے ذریعے  انہیں اس صورتحال سے نکالنے کا فیصلہ کیاکہ ایک تیر سے دو شکار  ہوجائیں۔  پہلا :لوگ حوثیوں کو ایک جابر کی نظر سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں یہ فوجی حملے ان کے مظلوم ہونے کا تاثر قائم کریں گے اور  دوسرا یہ کہ بحران کے بڑھنے سے ہنگامی مذاکرات کے لئے ماحول بن سکے گا  اور کوئی مصالحتی حل سامنے آئے گا۔ ہر اس معاملے میں جہاں  امریکہ تنہا کوئی مفاد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ یہی روش اختیار کرتا ہے۔

 

جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے اس نے صورتحال کو واضح کردیا ہے۔  سعودی عرب  نے عسکری کاروائی سے قبل امریکہ   سے مشاورت کی ، اورامریکہ کے ایجنٹ ہی اس  آپریشن میں پیش پیش  ہیں یعنی سعودی عرب کا شاہ سلمان اورمصر کا جنرل سیسی ۔  جہاں تک باقی خلیجی ریاستوں اور اُردن ومراکش  کا تعلق ہے تو ان کا کردار زیادہ تر سیاسی ہے ، ان کا رویہ برطانیہ جیسا ہے، کہ برطانیہ امریکہ کا ساتھ دیتا ہے ، تا کہ یہ نظر آئے کہ وہ بھی متحرک ہے اور عنقریب ہونے والے مذاکرات میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہو  اور اس طرح جو بھی حل سامنے آئے اس کے نتیجے میں طاقت کے مراکز میں اس کا بھی اثرو رسوخ موجود رہے۔اگر چہ فوجی کاروائی کو مسلط کرنا بسا اوقات مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے میں کا میاب رہتا ہے ، مگر کبھی یہ حربہ ناکام بھی ہو جاتا ہے ،  جس کے نتیجے میں  یمن کی  صورتحال مزید غیر مستحکم  ہو سکتی ہے اور اسے  جنگ کی آگ  میں دھکیل سکتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یمن    مستحکم اور خوشحال تھا جب اس  کی پاک مٹی پر   ایجنٹوں اور استعماری کفار کے ناپاک قدم نہیں  پڑے تھے۔

 

اے مسلمانو! یہ ہیں ہمارے حکمران ۔ یہ  حکمران ہی  وہ سب سے بڑی  مصیبت ہیں کہ جس سےآج  ہم دوچار ہیں۔ اگر ہم نے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ان کے ظلم وستم سے نجات کے لیے  کوشش نہیں کی تو یہ ہمارے لئے مزید تباہی و بربادی کا باعث بن جائیں گے۔ ہمارے ذخائر لوٹے گئے ،ہمارا خون بہایا گیا ،جبکہ ہم نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کےاس قول کواپنے سامنے نہیں رکھا کہ :

 

﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾،

" ڈرو اس فتنے سے جس کا شکار صرف وہ لوگ نہیں ہوں گے جو تم میں سے ظالم ہیں ، اور جان لو کہ اللہ کا عذاب شدید ہے"

 

اور آپ ﷺ کے اس ارشاد کو بھی کہ

«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا ظَالِمًا، فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ»

"بے شک جب لوگ کسی کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ روکیں ، تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب میں گھیر لے"(ترمذی)۔

 

یہ  ہیں ہمارے حکمران ۔  کہ  اسراء ومعراج کی سرزمینِ فلسطین اور قبلۂ اول  فریاد کررہےہیں ،مگر وہ اس کی فریاد پر کان نہیں دھرتے ،وہ ان سے مددطلب کررہے ہیں ، مگر وہ مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتے گویا ان کے کانوں  اور آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں...لیکن جب بات ہوتی ہے کفر یہ  استعماری ریاستوں کے مفادات کی تکمیل اور نفاذ کی تو یہ    ذلیل بن کر دوڑتے ہوئے  آتے  ہیں اور اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری کواپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے طیارے ،ٹینک اور جنگی کشتیاں  اسلام کی ترویج اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لئے حرکت میں نہیں آتے بلکہ بیرکوں میں پڑے رہتے ہیں ۔  لیکن جب وہ   مغربی استعماری طاقتیں کہ جنہیں ایمان والوں سے نفرت ہے،صرف  اشارہ ہی کرتی ہیں تویہ حکمران اس وقت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور شیر کی طرح دھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ حکمران اہل وطن کے سامنے توبڑے تکبر  سے  آتے ہیں ،مگر دشمنوں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں ، اللہ ان کو غارت کرے۔

 

اے مسلمانو! امریکہ یا  برطانیہ کی حمایت کر کے یا ان کے ایجنٹوں میں سے کسی ایک کی حمایت کر کےیمن کو  تباہ کن صورتحال سے نہیں نکالا جاسکتا  بلکہ یمن کو اس  کے عوام اس صورت  بچا سکتے ہیں اگر وہ  بھر پور قوت کے ساتھ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی  اور اس کے رسول ﷺ کے لئے متحرک ہوجائیں ، دونوں جانب کے جابروں کو ہٹا دیں،   ملک  کو  ان کی خیانتوں سے محفوظ بنائیں  اور یمن کو اس کی اصل کی طرف لوٹا دیں یعنی اسے دوبارا ایمان وحکمت کی سرزمین بنا دیں ، جو عقاب کے جھنڈے کو بلند کرے، جو اللہ کے رسول ﷺ کا جھنڈ ا  ہے ، اور نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت کی موجودگی میں اللہ کی شریعت کے ذریعے فیصلے کیے جائیں

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾،

"اوراس روز مومن خوش  ہوجائیں گے ،اللہ کی مدد سے ،وہ جسے چاہتاہے مدد دیتاہے اوروہ غالب اورمہربان ہے " (الروم : 4-5)

 

اے مسلمانو! اے یمن والو!حزب التحریر اخلاص اور صدق کے ساتھ آپ سے مخاطب ہے کہ آپ کو امریکہ کے تکبراور ان کے حواریوں کے غرور سے  ہرگزخائف نہیں ہونا چاہئے  اور نہ ہی  برطانوی خباثت  اور اس کے حواریوں کی فریب کاریوں سے  دھوکہ کھانا ہے۔  یہی دشمن ہیں  لہٰذا  ان سے محتاط رہو!   اور تم اللہ کے دین کی  مدد کرو، اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔

 

(إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ)

"یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو یا جو حاضر دماغ بن کر کان دَھرے"(ق:37)

خلافت: ایک قطعی فرض الٰہی

"چاروں امام (ابو حنیفہ، مالک، شافعي، احمد،رحمۃ اللہ عليھم) اس بات پر متفق ہیں کہ امامت (خلافت) ایک فرض ہے اور یہ کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک امام (خلیفہ) کو مقرر کریں جو دین کے احکامات کو نافذ کرےاور مظلوموں کو ظالموں کے خلاف انصاف فراہم کرے ۔ چاروں امام اس بات پر بھی متفق ہیں کہ مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں کہ ایک وقت میں ان کے دو امام (خلیفہ) ہوں، خواہ متفقہ يا متفرقہ طور پر۔۔۔"۔(چار مذاہب کی فقہ: الفقہ علی المذاھب الاربعہ 5:416)۔

یہ قول امام الجزيری کا ہے جو کہ چودھویں صدی ہجری کے معروف عالم ہیں اور ان کی رائے تقابلی فقہ میں مستند مانی جاتی ہے۔ یہاں پر انہوں نے  مختلف فقہا کاخلافت کے موضوع پر نقطہ نظر  پیش کیا ہے جو کہ وہی موقف ہے جو صحابہ رضی اللہ عنھم کے وقت سے چلا آرہا ہے۔

تمام مکتبہ فکر کے چوٹی کے علماء نے ہمیشہ خلافت کے موضوع کو انتہائی اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ

"شریعت کہ ضروريات میں سے ہے جسے کسی صورت چھوڑا نہیں جاسکتا"

(الغزالی، الاقتصاد فی الاعتقاد،199)،

"مسلمانوں کے اہم ترین مفادات میں سے ہے اور دین کے اہم ترین ستونوں میں سے"

(الآمدی، غايۃ المرام،366)،

"دین کے عظیم ترین ستونوں میں سے ایک عظیم  ستون ہے"

(القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1:265)،

"دین کے اہم ترین فرائض میں سے ہے"

(ابن تیمیہ، السیاسیہ الشریعہ، 129)،

اور "اہم ترین فرائض میں سے ایک فرض"

(الحصکفي، رد المحتار، 1:548)۔

 

باالفاظ دیگر خلافت صرف ایک فرض نہیں بلکہ اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ یہ اسلام کا ستون ہے جسے چھوڑا نہیں جاسکتا کیونکہ اس کے بغیر اسلام جامع اور مکمل  طور پر  نافذ ہی نہیں ہوسکتا۔

 

لیکن کچھ "جدیدیت"اور "اصلاح"پسند اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے کہنے کہ مطابق ایک ہزار سال کا علم و فضل اس موضوع (اور اس کے ساتھ دیگر کئی موضوعات) کو صحیح نہیں سمجھ سکا اور اب وہ لوگ ہی قرآن اور سنت کی صحیح تعبیر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی بلند بانگ دعویٰ ہے جس سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا لیکن اس معاملے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہم اس کو دلائل کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

 

ڈاکٹر غامدی ،جو اسی سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ خلافت کا فرض ہونا تو دور کی بات یہ تو کوئی "دينی اصطلاح" بھی نہیں ہے۔

 

پہلے ایک اصولینقطہ۔کوئی بھی اصطلاح تین قسم کی معنوں ميں سے ایک کی حامل ہوسکتی ہے: لغوی، اصطلاحی يا شرعی۔ شرعی کا یہاں اسلامی شریعت کی طرف نسبۃ ہے۔ لھذا شاید غامدی صاحب کا "دينی اصطلاح" کہنے کا مطلب تیسری قسم کے معنی سے ہے۔صحيح طور پر اس کو شرعی اصطلاح کہہ جاتا ہے-اسے اسلامی اصطلاح بھی کہا جاسکتا ہے۔

 

لغوی معنی لوگوں کی جانب سے آتےہیں جو اصل میں ایک زبان کو پیدا کرتے ہیں جیسا کہ پرانے عرب یا یونانی۔ اصطلاحی معنی ان لوگوں کی جانب سے آتے ہیں جو کسی مخصوص شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں جیسے فقہاء، محدثین یا طبیعات کے علماء وغیرہ مخصوص اصطلاحات روشناس کراتے ہیں۔ پھر یہ اصطلاحات انہیں شعبوں میں اپنے مخصوص معنوں میں ہی استعمال ہوتی ہیں جبکہ اسی وقت وہی اصطلاح کسی اور شعبے میں کسی اور معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر فقہ میں لفظ "سنت" کا مطلب مندوب اعمال ہے یعنی ایسے اعمال جن کا کرنا شارع کی طرف سے مطلوب ہے ليکن فرض نہیں جبکہ حدیث کے شعبے میں اس کا مطلب رسول اللہﷺ کا عمل، قولیااقرار ہوتا ہے۔

 

شرعی معنی صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہﷺ کی جانب سے ہوتے ہیں کیونکہ یہ معنی شریعت بتاتی ہے جس کی بنیاد وحی ہے۔ غامدی صاحب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن حیرانگیز طور پر اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ قرآن اور سنت میں لفظ خلافہ کو لغوی معنی یعنی "جاں نشین" کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ درحقیقت یہ لفظ کئی احادیث میں  محض "جاں نشینی " کے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک مخصوص معنی میں استعمال ہوا ہے جو کہ ایک خاص قسم کی جاں نشینی ہے جس سے عرب کے لوگ اسلام سے قبل آشنا نہ تھے۔ مثال کے طور پر رسول اللہﷺ نے فرمایا  کہ ,

«كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وستكون خلفاء فتكثر» ، قالوا: فما تأمرنا؟ قال: «فوا ببيعة الأول، فالأول، وأعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم»

"بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا، جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے البتہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:تم ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پورا کرنا اور انہیں ان کا حق ادا کرنا کیونکہ اللہ تعالٰی ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا جو اس نے انہیں دی"(مسلم، 1842)۔

 

یہاں رسول اللہﷺخصوصاً ان لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں جو مسلمانوں پر حکمرانی میں خلفاء (اس کی واحد خلیفہ ہے)کی حیثیت سے  ان کے جاں نشین ہوں گے۔  یہاں پر کسی عام جاں نشینی کا ذکر نہیں ہورہا بلکہ ان جاں نشینوں کا ذکر ہو رہا ہے جو ایک خاص طریقے یعنی بیعت کے ذریعے حکمران بنیں گے اور جو ایک خاص طریقے سے حکمرانی کریں گے یعنی اسلام کے مکمل اور جامع نفاذ کے زریعے۔ یقیناً حکمران ہونے کی حیثیت میں ان کا تمام تر کردار شریعت کے قوانین اور اصولوں  کے تابع ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے اُس وقت ایک نیا طرز حکمرانی دیا  اور جس نے اُس تمام وقتوں کے لئے ایکمنفردطرز حکمرانی مقرر کيا۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو محض حکمرانوں کے متعلق ہی بات کرنا ہوتی تو وہ لفظ "حکام"،جس کا واحد حاکم ہے، استعمال کرتے جو کہ عربی زبان میں حکمرانوں کے لئے سیدھا سادہ لفظ ہے۔

 

اسی طرح رسول اللہﷺ نے مسلمانوں پر حکمرانی کے حوالے سے آنے والے ادوار کے ذکر میں خاص لفظ "خلافہ" استعمال کیا۔ آپﷺ نے فرمایاکہ،

 

«تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء الله أن يرفعها، ثم تكون ملكا عاضا، فيكون ما شاء الله أن يكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون ملكا جبرية، فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج نبوة»

"تم میں نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے اٹھا لیں گے۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ ہوگی، اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے اٹھا لیں گے۔ پھر وراثتی حکمرانی ہو گی، اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے بھی اٹھا لیں گے۔ پھر جابرانہ حکمرانی کا دور ہو گااور اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے بھی اٹھا لیں گے۔ اور پھر نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ ہوگی"(احمد،18406)۔

 

یہاں پر یہ بات غور طلب ہے  کہ تمام ادوار حکمرانی ہی کے ادوار ہیں چاہے وہ کسی ایک قسم کے ہوں یا دوسری قسم کے لیکن ان میں کچھ ادوار کو خصوصاً خلافہ کہا گیا۔ لہٰذا خلافہ محض کسی بھی قسم کی حکمرانی کی وضاحت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے ایک اپنے مخصوص نظام حکمرانی کی وضاحت کرتا ہے اور یہی وہ واحد طرز حکمرانی ہے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے صرف اس طرز حکمرانی کابيان کيا۔

لہٰذا لفظ "خلافہ" اسلامی طرز حکمرانی کو بیان کرتا ہے جس کو یہ معنی شارع نے خود دیا ہے نا کہ کسی عالم یا فقيہ نے، تاہم یہ ایک شرعی یا اسلامی اصطلاح ہے۔

 

لیکن اگر پھر بھی غامدی صاحب کی دلائل کو قبول کرلیا جائے کہ خلافہ محض مسلمانوں کی ایجاد کردہ ایک "پوليٹيکل سائنس اور سوشيالوجی کی اصطلاح ہے جیسے فقہ، کلام اور حدیث"، تو یہ سوال اھٹتا ہے  کہ اس اصطلاح کو اسلامی حکومت کے لئے کیوں نہیں قبول اور استعمال کرليتے بالکل ویسے ہی جیسے آپ نے فقہ یا حدیث کی اصطلاح کو قبول بھی کیا اور اسے استعمال بھی کرتے ہیں؟ اس خلافہ کی اصطلاح کے لئے ایک دوسرا طرز عمل کیوں اختیار کیا جائے؟ اور اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ  اس اصطلاح  کو غیر دينی ثابت کیا جائے؟

 

جہاں تک اس شرعی حکم کا بات ہے کے صرف ایک ہی خلیفہ  ہوسکتا ہے تو اس حوالے سے احادیث بالکل واضح ہيں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

«إذا بويع لخليفتين، فاقتلوا الآخر منهما»

"جب دو خلفاء کے لئے بیعت لے لی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کردو"(مسلم،1853)۔

رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ،

«من أتاكم وأمركم جميع على رجل واحد، يريد أن يشق عصاكم، أو يفرق جماعتكم، فاقتلوه»

"اگر تم متحد ہو ايک بندے کے تحت اور کوئی تمہاری صفوں میں رخنہ ڈالنا چاہے یا تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالے تو اسے قتل کردو"(مسلم، 1852)۔

 

غامدی صاحب اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ پہلی حدیث سند کے لحاذ سے صحيح نہیں ہے جبکہ یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے جس کی ہر حدیث کو محدثين نے متفقہ طور پر "صحیح" قرار دیا ہے۔

 

اس سے بھی بڑھ کر وہ ان احادیث کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ اتفاق یا وحدت برقرار رکھنے کا یہ حکم کسی ایک مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمانوں سے متعلق ہےیعنی کہ مسلمانوں کی ایک سے زیادہ ریاستیں ہوسکتی ہیں اور لازماً پھر ایک سے زیادہ حکمران  بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ  احادیث عام ہیں اور ان میں غامدی صاحب کی بیان کی گئی تشریح کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ۔ اس کے علاوہ اُس وقت جب یہ احادیث بیان کی گئیں تو مسلمانوں کی ایک سے زیادہ ریاستیں موجود ہی نہ تھیں کہ غامدی صاحب کی بیان کی گئی تشریح ممکن بھی ہوسکے۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ رضی اللہ عنھم کے ذریعے  آنے والے تمام وقتوں کے مسلمانوں سے خطاب فرما رہے تھے ۔

 

اپنی تشریح کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ڈاکٹر غامدی  اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک قول میں تبدیلی تک کردی۔  فرمایا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ، "ریاست کا صرف ایک ہی حکمران ہوسکتا ہے"، جبکہ انہوں نے جس روایت کو بیہقی کی سنن الکبری (نمبر16550) سے نقل کیا ہے اس میں "ریاست" کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہیں کہ، "اس بات کی اجازت نہیں کہ مسلمانوں کے دو حکمران ہوں"، اور بالکل یہی ہمارا موقف ہے۔

 

اصولِ فقہ میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ "لام الجنس" عمومیت کی علامت ہے، اسی لئے مسلمانوں سے مراد تمام مسلمان ہیں ناکہ چند مسلمان۔ مسلمان بحیثیت مجموعی صرف ایک ہی حکمران تعینات کرنے کی مجاز ہیں جو ان کی رہنمائی کرے اور وہ حکمران خلیفہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر تفرقہ، تقسیم اور اختلاف لازم ہے جس کو بیان کرنے کےلئے الفاظ کی کوئی ضروت نہیں بلکہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال ہی اس کا بیان کرنے کے لئے  کافی ہے۔

 

غامدی صاحب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایک سے زیادہ حکمران بہت زیادہ نا اتفاقی اور تفرقے کا باعث ہوگی۔ لیکن حیرت ہے کہ انہیں مسلمانوں کے پچاس سے زائد غیر مؤثر ممالک میں تقسیم ہونے سے کوئی انکار نہیں ہے۔

 

حقیقت یہ ہے کہ "جدیدیت" اور "اصلاح" پسندی کے پردے کے پیچھے سے پیش کیے جانے والے یہ انتہائ کمزور فکری دلائل موجودہ وقت کی سیکولر لبرل طاقت کی مرہون منت ہے۔ یہ جدیدیت اور اصلاح پسندی اسلامی شریعت کو سیکولر لبرل فکر اور موجودہ عالمی آرڈرکےچشمے سےدیکھنے کا نام ہے۔ اس فکر کے حامل افراد اسلام کو موجودہ دور کی حقیقت کو  سامنے رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اسلام کو حقیقت سے جدا گانہ طریقے سے سمجھ کر پھر اس کا اطلاق موجودہ حقیقت پر کیا جاتا ہے۔ اس طرز فکر کا نتیجہ ہے کہ یہ حضرات اُن نتائج پر پہنچتے ہیں کہ جن کو اختیار کرنے سے مقامی یا بین الاقوامی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی بلکہ سٹیٹس کو برقرار رہتا ہے۔

 

خلافت کا تصور عالمی صورتحال اور اس کے جابرانہ ڈھانچے کو مکمل طور پر چیلنج کرتا ہے۔ یہ دنیا کے مسلمانوں کو یکجا کرنے اور ایک بار پھر اسلام کو دنیا کی امامت کے مقام پر فائز کرنے کی بات کرتا ہے جبکہ غامدی اور ان جیسے دیگر افراد اس کی مخالف سوچ رکھتے ہیں یعنی وہ اسلام کو استعمال کرتے ہوئے سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے اس عمل میں پوری طرح سے مسلسل ناکام ہیں کیونکہ امت جدید سیکولر ماڈل کی حقیقت کو جان چکی ہے جو کہ ایک ایسا نظام ہے جہاں اقلیتی اشرافیہجمھور عوام کا استحصال کرتی ہے اور امت جانتی ہے کہ خلافت اس کے بالکل الٹ چیز ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ ایک فرض الٰہی ہے اور ظلم سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ ناصرف اس کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے۔

 

عمر علی

مسلم سیاسی کارکن، لکھاری اور عربی اور اسلام کا طالب علم

مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کا شعبہ خواتین ایک بے مثال بین الاقوامی خواتین کانفرنس بعنوان "عورت اور شریعت :حقیقت اور افسانے میں تمیز کے لیے" منعقد کررہا ہے

ہفتہ 28 مارچ 2015 کو مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کا شعبہ خواتین ایک شاندار اور بے مثال بین الاقوامی خواتین کانفرنس "عورت اور شریعت :حقیقت اور افسانے میں تمیز کے لیے"کے عنوان سے منعقد کررہا ہے۔ یہ شاندار کانفرنس مختلف براعظموں کے پانچ ممالک : فلسطین، ترکی، تیونس، اینڈونیشیا اور برطانیہ میں منعقد کی جارہی ہے جس میں دانشور خواتین شریک ہوں گی۔ یہ کانفرنس الیکٹرانک ہالز میں منعقد کی جائیں گی جنہیں ایک دوسرے سے منسلک کر دیا جائے گا جس کے نتیجے میں کسی بھی ایک مقام پر ہونے والی تقریر دیگر تمام مقامات پر براہ راست دیکھی اور سنی جاسکے گی۔ ان پانچ مقامات کے علاوہ اردن سے بھی ایک تقریر براہ راست نشر کی جائے گی۔ یہ کانفرنس دنیا بھر کے عوام کے لئے بھی براہ راست نشر کی جائے گی۔ شرکاء میں خواتین صحافی، سیاست دان، وکیل، دانشور اور مختلف تنظیموں کی نمائندگان شامل ہیں۔ یہ کانفرنس چھ ہفتے پر مشتمل ایک عالمی مہم کا اختتام ہو گی جس کے دوران ایک زبردست سوشل میڈیا مہم چلائی گئی، بین الاقوامی میڈیا سے رابطہ کیا گیا اور دنیا بھر میں خواتین سے بات چیت کی گئی۔

کانفرنس میں جن موضوعات پر بات چیت کی جائے گی وہ یہ ہیں: بین الاقوامی یا شرعی قوانین کو مسلم دنیا میں خواتین کے حقوق کا تعین کرنا چاہیے؟؛ کیا اسلامی نسوانی تحریک خواتین کے مقام کو بہتر بنانے کا راستہ ہے؛ میڈیا کی جانب سے خواتین اور شریعت کے متعلق بنائے گئے تصوارت کو ختم کرنا؛ اسلام کے معاشرتی نظام کی فطرت؛ خلافت میں اسلامی قوانین کے تحت خواتین کا مقام؛ اور حقیقی سیاسی تبدیلی میں خواتین کا کردار۔ اس کانفرنس میں عالمی سطح پر مسلم خواتین میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی بڑھتی حمایت اور حزب التحریر کی خواتین کا خلافت کے قیام میں کردار پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر منعقد کی جارہی ہے جب کئی مسلم ممالک میں یہ بحث شدید ہوتی جارہی ہے کہ کیا خواتین کے حقوق کا بہترین تحفظ سیکولر نظام کے تحت ممکن ہے یا سلامی نظام کے تحت۔ اس کے علاوہ حالیہ سالوں میں سیکولر سیاست دانوں، نسوانی حقوق کے لئے کام کرنے والی خواتین اور لبرل میڈیا کے کچھ حصوں نے خواتین کے اسلامی لباس، مردوں کی ایک سے زائد شادیوں، وارثت کے قوانین، مرد و خواتین کے درمیان اختلاط کی ممانعت، شادی شدہ عورت کے حقوق و فرائض پر شدید حملے کیے ہیں اور انہیں جابرانہ ، ظالمانہ اور خواتین کے خلاف امتیازی بنا کر پیش کیا ہے۔ اس صورتحال نے مشرق و مغرب کے مختلف معاشروں میں بحث کے دروازے کھول دیے ہیں کہ کیا خواتین سے متعلق شرعی قوانین کو تبدیل کیا جانا چاہیے؟ سیکولر حضرات کی کئی نسلوں نے شریعت کے خلاف اس قسم کے حملے کیے ہیں جس میں جھوٹ کی زبردست آمیزش شامل ہے۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شریعت عورت کے لیے غلامی، اس کے مقام کو گرانے اور جبر کا باعث ہے۔ ان تمام باتوں نے ایک خوف پیدا کردیا ہے کہ آنے والی ریاست خلافت میں خواتین کا کیا مقام ہوگا؟ اس کانفرنس کا یہ ہدف ہے کہ ان غلط تصورات کو مسترد اور ریاست خلافت میں اسلامی قوانین کے تحت عورت کے اصل اور صحیح مقام ، حقوق اور کردار کو واضح کیا جائے۔ یہ کانفرنس خواتین سے متعلق خاص احکامات پر لگائے جانے والے الزامات کو غلط ثابت کرے گی اور اُن بنیادوں، اقدار کو بھی بیان کرے گی جو اسلام کے معاشرتی نظام کی انفرادیت ہے اور کس طرح یہ منفرد قوانین خواتین، بچوں، خاندانی زندگی اور معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین کا مقام کے زیر انتظام اس ماہ ہونے والے عالمی سیشن میں عالمی رہنماوں نے 1995 کے بیجنگ علامیہ کی بیسویں سالگرہ منائی گئی جس میں انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ مرد و عورت کے درمیان برابری کے قیام کے لئے اپنی کوششوں میں اضافہ کریں گے۔ ہماری کانفرنس نسوانیت اور مرد و عورت کے مابین برابری کے مغربی تصورات کو چیلنج کرے گی اور کیا یہ تصورات واقعی خواتین کو ظلم سے نجات اور ایک اچھی زندگی فراہم کرسکتے ہیں۔ یہ کانفرنس اس بات پر روشی ڈالی گی کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر قائم ہونے والی ریاست خلافت راشدہ کے قوانین، نظام اور ادارے آج مسلم دنیا کی خواتین کو درپیش سیکڑوں مسائل کو کس طرح حل کرتے ہیں۔ ہم میڈیا میں موجود اُن تمام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جو اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ عورت کے لئے ایک محفوظ، مثبت اور باعزت مستقبل پیدا کیا جائے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوں اور اس اہم کانفرنس کو رپورٹ کریں۔

ایڈیٹر حضرات کے لئے نوٹ: یہ کانفرنس ہفتہ 28 مارچ 2015 کو گرینچ مین ٹائم کے مطابق صبح 9:30 پر شروع ہو گی۔ مرد و خواتین صحافیوں کے لئے ایک پریس کانفرنس اُسی دن جکارتہ کے وقت کے مطابق شام 3:30 پر آئی پی بی انٹرنیشنل کنونشن سینٹر، ای ایف میٹنگ روم، بوٹانی اسکوائر بلڈنگ دوسری منزل، جے آئی، پاجاجارن، بوگور-جاوا بارت16127، انڈونیشیا میں ہو گی۔ کانفرنس میں صرف خواتین کو ہی شرکت کی اجازت ہوگی۔ پریس معلومات کے لئے اس ویب سائٹ سے رابطہ کرے: This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.. ۔ یہ کانفرنس www.htmedia.info پر براہ راست دیکھی جاسکتی ہے۔ مہم فیس بک صفح: https://www.facebook.com/womenandshariahA

ڈاکٹر نسرین نواز
مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر شعبہ خواتین

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک