الإثنين، 15 ذو القعدة 1446| 2025/05/12
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

افغانستان میں معاشی جمود قابضین اور استعمار کی جانب سے سرمایہ داریت کو نافذ کرنے کا نتیجہ ہے

حال ہی میں گیلپ سروے کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 67 فیصدافغان یہ سمجھتے ہیں کہ معاشی شرح نمو میں کمی افغانستان کے لیے مسلح تصادم سے زیادہ خطرناک ہے۔


استعمار نے سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام مسلط کر کے فری مارکیٹ "مارکیٹ کو اپنا کام کرنے دو" کا نعرہ لگا کر گزشتہ تیرہ سالوں کے دوران افغان عوام کو قتل،بحران،کرپشن،بے حیائی ،ظلم،معاشرے میں طبقاتی تقسیم،بے روز گاری،غربت،اجارہ داری اور مافیا ۔۔۔وغیرہ کے سوا کچھ نہیں دیا ؛ یہاں تک کہ 10فیصد افغان سرمایہ دار ملک کے 90 فیصد سرمائے کے مالک بن چکے ہیں اورغربت و بے روزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ استعماریت نے افغان معیشت کو استعمار کا غلام بنا رکھا ہے اور افغان حکومت بھی قابض قوتوں کی مدد کے بغیر بجٹ تیار کرنے اور ملازمین کو تنخواہ دینے کے قابل بھی نہیں ہے۔


افغانستان میں صرف یہی ایک مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی تعاون کی تنظیم "اوکسفام" کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016 کے اختتام تک دنیا کے ایک فیصد مالدار افراد دنیا کی دولت باقی 99 فیصد افراد کے مجموعی دولت سے زیادہ ہوجائے گی۔ اس رپورٹ کے حقائق دل دہلا دینے والے ہیں جیسا کہ دنیا کے 80 مالدار ترین افراد کے پاس3.5 ارب غریب لوگوں کی مجموعی دولت کے برابر دولت ہے۔


ان تمام تباہ کاریوں اور مصائب وآلام کی وجہ ، جن کا مسلمانوں اور مجاہد افغان قوم کو سامنا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کا نفاذ اور ریاستی قوانین ہیں۔ اس لیے سرمایہ دارانہ نظام افغان عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتا بلکہ اسی نے ان مسائل میں اضافہ اور ان کو زیادہ پیچیدہ کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام اپنے گڑھ مغرب میں بھی ناکام اور شکست خوردہ ہے اور اس کو موت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ معاشی اور معاشرتی بحران اس نظام کے نفاذ کا نتیجہ ہیں جس نے مغربی اقوام کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور وہ اب اس نظام سے بیزار ہو چکے ہیں۔


اس کے مقابلے میں اسلام وہ نظام ہے جو انسان،کائنات اور حیات کے خالق کی جانب سے ہے اور یہ نظام زندگی کے تمام شعبوں میں احکام شرعیہ کونافذ کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے،جس میں معاشی نظام بھی شامل ہے۔ تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ اسلام نے ہی معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا اور لوگوں کے مابین دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنا یا ،جس سے لوگوں کے درمیان طبقاتی امتیاز کے بغیر خوشحال زندگی کا دور دورہ رہا۔

 

حزب التحریر کا میڈیا آفس
ولایہ افغانستان

 

Read more...

خبر اور تبصرہ راحیل-نواز حکومت نیشنل ایکشن پلان کو پاکستان میں اسلام کی پکار کو دبانے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے

 

خبر: 7 جنوری 2015 کو صدر پاکستان نے اکیسویں آئینی ترمیم پر دستخط کر کے اسے ایک قانون کے شکل دے دی جسے پارلیمنٹ پہلے منظور کرچکی تھی۔ یہ آئینی ترمیم حکومت کو دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا اختیار دیتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ "اکیسویں آئینی ترمیم انصاف کی جلد فراہمی اور ملک سے دہشت گردی کےخطرے کے خاتمے میں معاون ثابت ہوگی"۔ آئین اورملٹری ایکٹ میں اکیسویں ترمیم کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کا شروع ہوچکا ہے۔ فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی۔ایس۔پی۔آر کے مطابق پہلے مرحلے میں کم از کم نو فوجی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔

 

تبصرہ: 16دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے خوفناک حملے کے بعد، جس میں 141 افراد جاں بحق ہوئے جن میں اکثریت بچوں کی تھی، راحیل-نواز حکومت عوامی رائے عامہ کا رخ امریکی مفاد کے مطابق متعین کرنے کے لئےتیزی سے حرکت میں آئی اور امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک نئے مرحلے میں داخل کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کی دو "کل جماعتی کانفرنس" منعقد کیں۔ ان کانفرنسوں کے ذریعے انتہائی سرعت کے ساتھ بیس نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان منظور کرایا گیا۔ اس دستاویز کے اہم نکات میں دہشت گردی میں ملوث ملزمان، مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف مقدمات کو چلانے کے لئے ملک میں دو سال کے لئے فوجی عدالتوں کا قیام اور مذہبی مدارس کی رجسٹریشن شامل ہے۔ پھر اس دستاویز کی بنیاد پر آئین میں اکیسویں ترمیم کو شامل کیا گیا۔


نیشنل ایکشن پلان اور اکیسویں آئینی ترمیم کا ہدف واضح طور پر کفار کی قابض افواج کے خلاف جہاد کے تصور کو ختم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت مخلص مجاہدین کا ہی پیچھا نہیں کررہی جو صرف مغربی صلیبی افواج کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ ان افرادکا بھی پیچھا کررہی ہے جو سیاسی و فکری جدوجہد کے ذریعے ملک میں اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اکیسویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ "آرٹیکل 175 کا اطلاق اس شخص کے مقدمے پر نہیں ہوگا۔۔۔۔جو کسی ایسے دہشت گرد گروہ یا تنظیم سے وابستہ ہو جو مذہب یا مسلک کو استعمال کرتا ہو"۔ اس ترمیم کے ذریعے دہشت کردی کی آڑ کو استعمال کرتے ہوئے راحیل-نواز حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اسلام سے محبت کرنے والوں کا فوجی ٹرائل کیا جائے۔ اگرچہ اس مقصد کی نشاندہی خصوصی طور پر نہیں کی گئی لیکن حکمرانوں میں موجود غداروں کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ پشاور اسکول حملے میں مارے جانے والے معصوم بچوں کے خون کو پاکستان میں امریکی منصوبوں کو مزید آگے بڑھانے کے لئے استعمال کررہے ہیں اور کریں گے۔ حکومت ہر اس شخص کا پیچھا کررہی ہے جو فوجی عدالتوں کے قیام کے اعلان کے باوجود اب بھی پاکستان سے امریکی راج کے خاتمے اور ملک میں اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں۔

 

تقریباً پینتیس سال قبل امریکہ نے پاکستان کے حکمرانوں کی ہمت افزائی کی تھی کہ وہ ملک میں اسلام کی تعلیمات خصوصاً جہاد کی تعلیم کی ترویج کریں کیونکہ وہ افغانستان پر سوویت روس کے قبضے کے خلاف مزاحمت کھڑی کرنا چاہتا تھا۔ امریکہ جانتا تھا کہ مسلمان صرف اور صرف اسلام کے لئے حرکت میں آئیں گے اور سوویت روس کے خلاف لڑیں گے۔ لیکن11/9 کے بعد جب امریکہ خود افغانستان پر قابض ہوگیا اور خطے کے مسلمانوں نے اس کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے تا کہ قابض صلیبی افواج کے خلاف جہاد کے اسلامی فریضے کو ادا کریں تو امریکہ نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں سے مطالبہ کیا کہ اب سابقہ پالیسی کو لپیٹ لیا جائے۔ امریکہ یہ سمجھتا تھا کہ وہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی مدد سے باآسانی یہ کام کرلے گا۔

 

لیکن پاکستان کے مسلمان بہت مضبوطی کے ساتھ اسلام سے جڑے ہوئے ہیں اور اسلام کو اپنے لئے زندگی و موت کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا نیشنل ایکشن پلان جو درحقیقت امریکی ایکشن پلان ہے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی اس خواہش، کہ وہ اس ملک کو ایک اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، سے دستبردار کرانے میں ناکام ہوجائے گا ۔ پاکستان کے عوام اُن لوگوں کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو برطانوی راج کے خلاف کھڑے ہوئےجبکہ برطانوی سلطنت موجودہ امریکی سلطنت سے بھی بہت بڑی تھی۔ اس بات کے باوجود کہ ملک پر برطانیہ کا قبضہ تھا انہوں نے استعماری قوت کا نا صرف بھر پور مقابلہ کیا بلکہ اسے برصغیر پاک و ہند کو چھوڑنے پر مجبور بھی کردیا۔ انشاء اللہ اب جبکہ اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کی خواہش ملک کے کونے کونے میں اور افواج میں بھی پہنچ چکی ہے، اس امریکی پلان کا ناکام ہونا لازمی ہے۔ اور جب خلافت دوبارہ قائم ہوگی جس کا قیام اب دور نہیں ، تو صلیبی اور مسلم دنیا میں موجود اُن کے ایجنٹ اپنے ہی دانتوں سے اپنی اگلیاں کاٹیں گئے، اپنا منہ نوچیں گے اور خود کو بد دعائیں دیں گے کہ اُن کی ساری کوشش ضائع ہوگئی۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

 

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّواْ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوۤاْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ ط لِيَمِيزَ ٱللَّهُ ٱلْخَبِيثَ مِنَ ٱلطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ ٱلْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعاً فَيَجْعَلَهُ فِى جَهَنَّمَ أُوْلَـٰئِكَ هُمُ ٱلْخَاسِرُونَ

"بے شک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لئے خرچ کررہے ہیں کہ اللہ کی راہ سے روکیں، سو یہ لوگ تو اپنے مال کو خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر وہ مال ان کے حق میں باعث حسرت ہو جائے گا، پھر مغلوب ہو جائیں گے اور کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا تا کہ اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے الگ کردے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملا دے، پس ان سب کو اکٹھا ڈھیر کردے ، پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دے۔ ایسے لوگ پورے خسارے میں ہیں"(الانفال:37-36)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

شامی قومی اتحاد کے سربراہ خالد خواجہ امریکی حل کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا﴾ " بہت بڑی بات ہے جو اُن کے منہ سے نکل رہی ہے یہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں بول رہے ہیں"(الکحف:5)

شام قومی اتحاد کے سربراہ خالد خواجہ نے18 جنوری2015 کو شامی عوام کے لیے ایک آڈیو پیغام جاری کیا۔ اس پیغام میں اس نے اپنی ذات اور اپنے اتحاد کی تشہیر اِن جھوٹے وعدوں کے ذریعے کی کہ وہ عوام کی خواہشات کا احترام کر تا ہے تاکہ تحریک کے اہداف کو حاصل کیا جاسکے جو عوام چاہتے ہیں۔ اُس نے اِس بات کو نظر انداز کیا کہ عوام رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق اسلامی خلافت چاہتے ہیں۔ شام کے سچے مسلمانوں نے بابنگ دہل اس کا اعلان کیا جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک نے اس کو ناکام بنانے کے لیے اُن کے خلاف سازشیں شروع کیں۔ بجائے اس کے کہ وہ شام کے سرکش اور اس کے کارندوں کے وحشیانہ جرائم پر محاسبہ کرتے جو وہ شام کے مسلمانوں کے خلاف کر رہے ہیں، خواجہ، حکومت کےسرغنہ کے جانے کی تشہیر کر رہا ہے جو کہ ایک ایسی سودے بازی کے ضمن میں ہے جس میں شکار مسلمان ہوں گے اور وہ اور اُس کے معاونین اس ایجنٹ حکومت کے جانشین ہوں گے کیونکہ یہ حکومت نسل کشی اور قتل و غارت میں اپنا کردار ادا کر چکی ہے۔ وہ ایک ایجنٹ کی جگہ متبادل ایجنٹ کے آنے کو شامی انقلاب کی کامیابی قرار دیتا ہے!

ہم کہتے ہیں کہ اہل شام اس مجرم کو اس کے کیے کی سزا دیے بغیر جانے نہیں دیں گے۔ وہ اُس سے اپنے شہداء اور اپنی پاک دامن خواتین کی عزتوں کا قصاص لیے بغیر اس کو جانے نہیں دیں گے۔ہم خالد خواجہ سے بھی کہتے ہیں کہ تمہارے عوامی ریاست کے اس"انقلابی" منصوبے کو صحابہ رضوان اللہ علیہم کے جانشین جہنم کی نظر کر دیں گے،تمہارے آقا اور اللہ کے دشمنوں کے تمام منصوبوں کو اپنے پیروں تلے رونددیں گے۔ تمام جنگجو گروپوں کو تمہاری یہ دعوت کہ سب متحد ہو کر عبوری حکومت کی وزارت دفاع سے معاونت کریں اوریہی عوامی جمہوری ریاست کے امریکی سیاسی منصوبے کی طرف پہلا قدم ہے ،جس کی رو سے دین کو زندگی سے جدا رکھا جائے گا۔ ان تمام منصوبوں کو وہ مخلص لوگ اللہ کے اذن سے ناکام بنادیں گے جو نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے قیام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی بشارت کو عملی شکل دینے کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ تمہاری طرف سے تمام مجاہدین گرپوں کو امریکی منصوبے کے مطابق اعتدال کی راہ اختیار کرنےاور انتہاپسندی سے دور رہنے کی دعوت دینا اور بدبودار قوم پرستی اور اسلام کے دشمن فرانس کی طرف سے دیے گئے جھنڈے کو بنیاد بنانا، لیکن اس دعوت کا مقابلہ سچے اور برحق دین اسلام کے ساتھ کیا جائے گا۔ اسلام تمام انسانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے، اسی طرح توحید کے علم کو بلند کر کے جو کہ رسول اللہ ﷺ کا علم ہے جس کو ہمیشہ سربلند رکھنے کے لیے صحابہ کرام سردھڑ کی بازی لگاتے تھے،جب ان کے ہاتھ کٹ جاتے تو کندھوں کے سہارے اس کو بلند رکھتے اس کو کسی حال میں گرنے نہیں دیتے تھے۔

اے عزت والے شام کے مسلمانوں! شام کی تحریک کے خلاف امریکی پالیسی کو گہرائی سے دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئی محاذوں پر کس قدر خطرناک سازشوں کا جال بن رہا ہے۔ اس لیے تم اس کو اپنی قیادت سپرد کرو جو اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو،جو اسلام کے دین ہو نے پر راضی ہو ،جو قرآن کے دستور ہو نے پر راضی ہو ،نبی ﷺ کے قائد ہونے پر راضی ہو۔۔۔ استعمار ی کفار اور ان کے ایجنٹوں اور آلہ کاروں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤ،اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ مت کروبلکہ حق پر ثابت قدم رہو ۔ اللہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا وہی تمہاری مدد کرے گا

﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾

"اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرتا ہے بے شک اللہ زبردست طاقتور اور غالب ہے"(الحج:40)۔


احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریرکے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

اردن کی حکومت امت اور دین کے دشمنوں کی مکمل طرفدار بن گئی ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاء وَاتَّقُواْ اللَّهَ

مقامی اور عالمی میڈیا نے خبر دی ہے کہ اردنی حکومت کے سربراہ شاہ عبد اللہ الثانی چارلی ایبڈو میگزین پر ہونے والے حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے ہونے والے مظاہرے میں شرکت کریں گے ۔

یہ مظاہرہ اس وقت ہو رہا ہے جب فرانسیسی اخبار ات نے چارلی ایبڈو کے ساتھ یکجہتی کے لیے رسول کریم ﷺ کے گستاخانہ خاکے کی دوبارہ اشاعت کی ہے ،جس کے ذریعے اسلام ،پیغمبر اسلام ﷺ اور مسلمانوں کے عزت پر حملہ کیا گیا ہے۔۔۔

مظاہرے میں شریک ہو کر اس گناہ کا ارتکاب ایسے وقت میں کیا جارہا ہے جب فرانسیسیوں نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے میگزین کی حمایت کر تے ہوئے "ہم سب چارلی ہیں "کا نعرہ لگا یا ہے۔ اس شرکت کے ذریعے اس حکمران نے عظیم الشان امت اسلامیہ کی توہین کی ہے اور اس کو اللہ کی مخلوقات میں سے سب سے ذلیل مخلوق کا ہدف بنا یا ہے۔۔۔

یہ شرکت ایسے وقت میں ہو رہی ہے کہ جب خود فرانس کے سابق وزیر اعظم نے بڑھتی دہشت گردی کی ذمہ دار مغربی پالیسی کو قرار دیا ہے ،جبکہ ہمارے حکمران اسلام اور شریعت مطہرہ کو اس کا سبب قرار دے رہے ہیں !۔۔۔

یہ شرکت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب صلیبی اتحاد بشمول فرانس کے طیارے شام اور عراق کے مسلمانوں پر آتش و آہن کی بارش کر رہے ہیں اور یہ ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اپنی سر زمین اور فضاء ان کو دینے کے بعد ہو رہا ہے۔۔۔

یہ شرکت ایسے وقت میں ہو رہی ہے کہ جب فرانس مسلمان خواتین کو اسکارف اور حجاب پہنے سے روک رہا ہے ان کی تذلیل اور عزت وناموس پر حملہ کرنے کے لیے انہیں پردہ نہ کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔۔۔

اے مسلمانو ! اردن کی حکومت جو کچھ کر رہی ہے یہ امت اور اسلام کے دشمنوں کی طرفداری کا ایک نیا اور واضح اعلان ہے،اس لیے چاپلوس حکومت اور اس کے ہرکارے لکھاری آپ کویہ یہ دھوکہ نہ دیں کہ یہ سیاست یا ڈپلومیسی ہے ! یہ کیسی ذلت آمیز سیاست اور رسواکن ڈپلومیسی ہے کہ جس سے امت کی کرامت خاک میں ملے اور کفار کو رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی اجازت ملے ،اور اس سے اسلام اور امت پر دست درازی ہو۔

اے مسلمانو ! کب تک تمہاری عزت تمہارے حکمرانوں اور تم پر مسلط حکومتوں کے کرتوتوں کے سبب خاک میں ملتی رہے گی؟!کب تک اللہ کے دین اور اس کے احکامات پر غیرت تمہاری مردانگی اور ایمان کو جوش دلائے گی آخر وہ کیا چیز ہے جو تمہاری غیرت کو جھنجوڑے گی وہ کیا چیز ہے جو تمہاری خاموشی توڑ دے گی؟!!

یاد رکھو اور یقین کر لو کہ اسلام کی حفاظت اس کی ریاست اور اس کے جواں مرد ہی کریں گے۔ تمہار ی عزت و آبرو اور خون کی حفاظت ریاست خلافت ہی کرے گی۔ تمہاری عزتیں صرف اس اسلامی نظام میں محفوظ ہوں گی جس کو اللہ نے تمہارے لیے پسند کیا ہے جو اس خلافت میں نافذ ہو گا جس کی خوشخبری نبی ﷺ نے دی ہے کہ یہ خلافت نبوت کے طرز پر ہو گی۔ اسی کے لیے کام کرنے کی ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں اللہ کی طرف بلانے والوں کی دعوت کا جواب دو اس سے پہلے کہ اللہ کا عذاب سب کو اپنے لپیٹ میں لے،

﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾

"اس عذاب سے بچو جو تم میں سے صرف ظالموں کو اپنے لپیٹ میں نہیں لے گا "(الانفال:25)۔

ہم اردونی حکو مت اور اس کے سربراہ سے پوچھتے ہیں کہ تم کو شرم نہیں آتی، تم تو اپنے آپ کو سید کہتے ہو ؟

ولایہ اردن میں حزب التحریرکا میڈیا آفس

 

 

Read more...

شام کو بچانے کا روڈ میپ "کے جواب میں : ہم اپنے لیے روڈ میپ خود بنائیں گے اور اپنی قربانیوں کے نتیجے میں نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ قائم کر لیں گے

ملک سے باہر بیٹھی  شامی اپوزیشن ،(اور اس کے ساتھ کچھ جنگجو گروہ)اور وہ لوگ جوکے شام کی مجرم حکومت سے  منسلک ہیں شام کے مستقبل کی حکومت کے بارے میں ترجیحات کے حوالے سے مفاہمت پر پہنچ گئے ہیں۔  وہ "شام  کو بچانے کا روڈ میپ " پر معاہدہ کرنے کے لیے اس مہینے کے آخر میں 26 سے 29 کے درمیان  ماسکو جانے سے پہلے وفود کی تشکیل پر اتفاق کر لیا ہے، جہاں جنیوا (1) شقوں  کے مطابق  فیصلے ہوں گے اوریہ تین مہینے کے اندر ہوں گے۔ یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی مفاہمت بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کی شق نمبر چھ کے تحت ہوگی  جس میں بین الاقوامی   نگرانوں کی بات  بھی شامل ہوگی۔ اس مفاہمت کے تحت  عبوری ادارے کی تشکیل کی تجاویز بھی ہیں جس میں "عبوری حکومت"بھی شامل ہے جو   موجودہ دستور  کے مطابق   وزیر اعظم اور  جمہوریہ کے سربراہ کے اختیارات استعمال کرسکے گی ، اس کے ساتھ "ملٹری کونسل" بھی ہوگی جو دونوں گرپوں میں  برابر تقسیم ہوگی  تا کہ اس کے ذریعے  سیکیورٹی کے ڈھانچے کو بحال کیا جائے اور سرکاری فوج سے منحرف ہونے والوں کو دوبارہ شامل کر کے "آئی ایس آئی ایس" تنظیم  کے خلاف لڑا  جائے۔

اے عزت والے شام کے مسلمانوں ! بے شک کافر مغرب اور ایجنٹ حکومتوں اور سیاسی گروپوں میں سے اس کے آلہ کار  جو جھوٹ اور بہتان کے ذریعے اپنے آپ کو شام کے مسلمانوں کا نمائندہ کہتے ہیں حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل چاہتے ہیں  اور شام کے مسلمانوں کو اس ناگفتہ بہ صورت حال سے نکلنے کے لیے اپنے چنے ہوئے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اگر کافر مغرب اس سرکش حکومت کی پشت پر نہ ہو تا  اور وہی ہر قسم کے وسائل  اور اسالیب سے  شام کی مبارک تحریک  کو نہ روکتا تو یہ اس کے سامنے  ڈٹنے کے قابل نہیں  تھی اور اب تک یہ سرکش اپنے گنہگار ہاتھوں کے کیے کی سزا بھگت چکا ہوتا۔

ہم پوچھتے ہیں ؟ان گروپوں کو کس نے ہمارے شہداء کے خون، ہماری پاک دامن خواتین کی آہ و بکا اور ہمارے بچوں کی چیخ و پکار پر مذاکرات کا حق دیا ہے؟کیا یہی  ماسکو   انتہائی بے شرمی  اور بدمعاشی سے اس مجرم حکومت  کے شانہ بشانہ کھڑا نہ  تھا اور اس کو ہر قسم کا اسلحہ فراہم کرتا تھا جس سے وہ آج تک ہر روز ہمیں مار رہا ہے اور اس کے عسکری ماہرین  ہمیں ذبح  کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں؟کیا یہ وہی ماسکو نہیں جس نے چیچنیا اور افغانستان میں  مسلمانوں کو ذبح کیا ؟کیا ماسکو  اور اس کا پشت بان کافر مغرب  بحران  کا کوئی ایسا حل نکالے گا جو مجرم بشار کے حق میں اور ہماری قربانیوں اور ہمارے شہداء کے خون کی قیمت پر نہ ہو؟بلکہ وہ تو ان مذاکرات کے ذریعے اسی مجرم حکومت   کوبحال کرنے کی کوشش  کرے گا جس نے شام کے مسلمانوں کو تکالیف اور مصائب کے سوا کچھ نہیں دیا ،اسی کو ایسے طریقے سے واپس لا یا جائے گا کہ اس کے اور اسلام دشمنوں کے مفادات پورے ہوں۔ جمہوریہ کے سربراہ کے اختیارات کے ساتھ عبوری حکومت  کے قیام سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ وہ بھی اس سرکش کی طرح ہی ایک خائن اور ایجنٹ حکومت ہو گی۔اس دستاویز کو لکھنے والوں نے  دہشت گردی کے پردے  میں اسلام کے خلاف جنگ  کو اپنے آقا  کافر مغرب کی خوشنودی کے لیے چھپایا بھی نہیں۔  اب ہر شخص یہ جانتا ہے کہ  دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے یہ ہر اس شخص کے خلاف جنگ ہے جو امریکہ  اور اس کے کارندوں کے اشاروں پر نہ ناچے۔

اے شام کے مسلمانو ! اللہ اپنی کتاب عزیز میں فرماتا ہے ،

وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ

"یہو د اور نصاریٰ اس وقت تک ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک تم  ان کی ملت کی پیرو نہ کرو"(البقرہ :120)۔

کیا تم اپنے اور اپنے دین کے دشمنوں کے ساتھ بیٹھنے پر راضی ہو گے؟ کیا تم ان کو اجازت دو گے کہ وہ تمہارے مستقبل کے لیے روڈ میپ  اور طرز زندگی  کا تعین کریں ؟اللہ کی قسم یہ تو  کھلا نقصان ہو گا ۔ ہم حزب التحریروہ قائد جو اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا  تمہیں ہمارے ساتھ ایک ہی صف میں ہر اس شخص اور گروہ کے خلاف  کھڑے ہونے کی دعوت دیتے ہیں  جو ہمارے شہداء کے خون کی قیمت پر مذاکرات کرنے کی کوشش کر تا ہے۔ ہم ہر سازشی سے کہتے ہیں :ہم خود اپنا روڈ میپ کھینچیں گے  اور اپنی قربانیوں کے نتیجے میں خلافت راشدہ علٰی منہاج النبوۃ قائم کر لیں گے اور اپنے رب کو راضی اور دشمن کے اندر آگ لگا دیں گے۔اللہ فرماتا ہے ،

قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِير

"اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اگر تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کر لی  بعد اس کے کہ تمہارے پاس علم آچکا تو اللہ کے مقابلے میں تمہارا کو کارساز اور مدد گار نہیں ہو گا"(البقرۃ:120)

 

احمد عبدالوہاب

ولایہ شام میں حزب التحریر

کے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

راحیل-نواز حکومت اور میڈیا میں ان کے ایجنٹ حزب التحریر کے خلاف مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں

حزب التحریر ولایہ پاکستان راحیل-نواز حکومت کی جانب سے حزب پر لگائے جانے والے الزامات اور خصوصاً 16 جنوری 2016 کو "دی نیوز" اور "جنگ" میں عامر میر کی رپورٹ "حزب التحریر کے داعش کے ساتھ تعلقات کی چھان بین" میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان جو دراصل امریکی ایکشن پلان ہے اور اس کا مقصد خطے میں امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنانا ہے۔ اس پلان کے تحت راحیل-نواز حکومت نے حزب التحریر کو نشانہ بنانے کے عمل میں اضافہ کردیا ہے۔ پچھلے حکمرانوں کی طرح ، حزب کی سیاسی و فکری اسلامی تحریک کا جواب موجودہ راحیل-نواز حکومت بھی حزب کوکلعدم قرار دے کر، طاقت یعنی گرفتاریاں، تشدد اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعےہی دے رہی ہے۔ اس حکومت کی جانب سے حزب کےخلاف تازہ ترین جھوٹے الزامات کوئی نئے الزامات نہیں ہیں بلکہ پرانےالزامات جیسا کہ حزب کے عسکریت پسندوں سے تعلقات ہیں، اس کا ہیڈکواٹر برطانیہ میں ہے، باہر سے فنڈز لیتی ہے، سیکوریٹی خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ کو ہی دوبارہ دہرایا گیا ہے۔

ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان الزامات کا جواب دینے سے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں پراور نہ ہی میڈیا میں موجود ان کے ایجنٹوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ سیاسی و اخلاقی طور پر بانجھ ہیں۔ ان کے لئے صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی کافی ہیں۔ ان جھوٹے الزامات کا یہ جواب ہم ان کے لئے قطعاً نہیں دے رہے۔ ہمارا یہ جواب ان لوگوں کے لئے بھی نہیں ہے جو پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور حزب کو جانتے ہیں کیونکہ وہ ان الزامات کے جھوٹا ہونے کے متعلق پہلے سے ہی اچھی طرح واقف ہیں۔ ہم یہ جواب صرف ان مخلص مسلمانوں کے لئے جاری کررہے ہیں جو میڈیا، سیاست دانوں اور افواج میں موجود ہیں اور جن کے اذہان میں شاید کچھ سوالات ہوں یا وہ اس جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہوں۔ اور ہم یہ جواب اس لئے بھی دے رہے ہیں کہ وہ لوگ جو یہ جھوٹ گھڑ اور پھیلا رہے ہیں شاید انہیں اللہ کا خوف آجائے اور وہ اپنے عمل پر اللہ سے معافی مانگ لیں۔ اس سلسلے میں حزب کے موقف کی وضاحت درج ذیل ہے:

1.  حزب ایک مکمل آزاد جماعت ہے جو خلافت راشدہ کے قیام اور اسلام کے نفاذ کے لئے رسول اللہﷺ کے طریقے پر اپنے قیام کے دن سے لے کر آج تک سختی سے کاربند ہے۔ حزب کا طریقہ صرف اور صرف سیاسی و فکری جدوجہد ہے۔ مختلف مسلم ممالک میں جابر حکمرانوں کی جانب سے اس کے خلاف کیے جانے والے بدترین ظلم و ستم کے باوجود حزب نے کبھی بھی اس طریقہ کار سے روگردانی نہیں کی ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تشدد اور غیر قانونی طاقت کے استعمال کا راستہ اختیار کرنا راحیل-نواز حکومت کا طرز عمل ہے ناکہ حزب کا۔

2.  حزب کی قیادت برطانیہ میں مقیم نہیں ہے۔ اس کی قیادت انتہائی مشہور و معروف فقہی اور رہنما شیخ عطا بن خلیل الرشتہ کے زیر سایہ مسلم دنیا میں مقیم ہے۔ اس کے علاوہ حزب کی مقامی قیادت بھی پاکستان میں ہی مقیم ہے جس میں پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ بھی شامل ہیں جنہیں حکومتی ایجنسیوں نے 11 مئی 2012 سے اغوا کر کے اپنی قید میں رکھا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ حزب اپنی جماعت سے باہر کسی سے مالی وسائل وصول نہیں کرتی چاہے وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی۔

3.  ستم ظریفی تو یہ ہے کہ حزب پر غیر ملکی فنڈنگ کا الزام وہ لوگ لگا رہے جن کا غیر ملکی طاقتوں سے تعلق اور ان سے فنڈنگ لینا ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ حزب برطانیہ اور اس کی استعماری پالیسیوں کو برطانیہ اور پاکستان دونوں جگہ چیلنج کرتی ہے۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ راحیل-نواز حکومت اور اس کے سربراہان ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے مدد طلب کرتے ہیں اور فخریہ ان سے میڈل اور گارڈ آف آنر وصول کرتے ہیں ۔

4.  حزب کا داعش، القائدہ یا کسی بھی دوسرے گروہ سے، چاہے وہ عسکریت پسند ہیں یا نہیں، کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ داعش کے ساتھ تعلق ثابت کرنے کی کوشش تو انتہائی مضحکہ خیز اور احمقانہ ہے کیونکہ حزبنے داعش کی جانب سے اسلامی ریاست کے قیام کو کھلم کھلا مسترد کیا ہے اور ان کی زیادتیوں پر ان کا بھر پور احتساب بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ چند ماہ قبل شام میں حزب کے سینئر رہنما مصطفٰی خیالی داعش کی قید میں تشدد کا شکار ہوئے اور ان کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔ کیا راحیل-نواز حکومت نے حزب کا داعش کے ساتھ کوئی تعلق خواب میں دیکھ لیا ہے؟

5.  راحیل-نواز حکومت کی جانب سے حزب التحریر کو نشانہ بنانے کی وجہ "سیکورٹی مشکلات" نہیں ہیں بلکہ حزب کا اس حکومت کی امریکہ و مغربی طاقتوں کے سامنے غلامی اور اسلام اور امت کے خلاف غداریوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ یہ حکومت امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان کو استعمال کر کے پاکستان کو تباہ کررہی ہے۔ اس حکومت نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنے سفارت خانے اور قونصل خانوں کو پاکستان میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کرے۔ اس حکومت نے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو پاکستان میں کام کرنے، قبائلی علاقوں میں موجود گروہوں میں سرائیت کرنے اور پاکستان بھر میں بم دھماکے اور حملے کروانے اور ان کی منصوبہ بندی کرنے کی آزادی فراہم کررکھی ہے۔ ان تمام غداریوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم پشاور اسکول جیسے سانحات کا سامنا کررہے ہیں جہاں ہمارے معصوم بچوں کو اس طرح قتل کردیا جاتا ہے کہ ان کو بیان کرنے کے لئے الفاظ دستیاب نہیں ۔ یہ حزب ہے جو ان تمام غداریوں کو بے نقاب کرتی ہے اور نتیجتاً سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہے۔

6.  حزب راحیل-نواز حکومت کی ان گھٹیا حرکتوں اور الزامات سے نہ تو گھبرانے والی ہے اور نہ ہی خلافت کے قیام کی جدوجہد سے دستبردار ہونے والی ہے۔ ہمارا کا م اللہ کی مدد و نصرت سے جاری و ساری ہے اور دن بدن اس میں تیزی آتی جارہی ہے اور ہم صرف اسی کی رضا چاہتے ہیں۔ خلافت کا قیام صرف حزب کا ہدف اور خواہش نہیں اور یہ قائم ہو کر رہے گی چاہے امریکہ، یورپ اور پاکستان میں اس کے ایجنٹ اس کو روکنے کے لئے دنیا بھر میں کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کرلیں کیونکہ پاکستان اور پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کا یہ مشترکہ ہدف اور خواہش ہے اور اس کا قیام اللہ کی جانب سے امت پر فرض ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ اللہ کا وعدہ ہے اور رسول اللہ ﷺ پہلے ہی امت کو اس کی واپسی کی خوشخبری سنا چکے ہیں۔ یقیناً وہ لوگ بہت ہی بدقسمت ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کو روک سکتے ہیں جس کو پورا کرنے کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کی پیشگوئی رسول اللہﷺ کرچکے ہیں۔

وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (•)وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ (•)

"پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کردیا گیا تھا اور ہم انہی کو پیشوا اور (زمین )کا وارث بنائیں۔ اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت و اختیار دیں اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہیں ہیں"(القصص:6-5)

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس

Read more...

مغرب کا تہذیبی دیوالیہ پن اور مغرب سے مرعوب لوگوں کا المیہ

 

کچھ عرصہ قبل امریکہ کی سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے سرکاری طور پر اس رپورٹ کے کچھ حصوں کو شائع کردیا جو کہ نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے دوران بنائے گئے طریقہ کار اور اس کے مطابق امریکی سی۔آئی۔اے کا قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے متعلق ہے۔   مکمل رپورٹ تو 6000صفحوں پر مشتمل ہے مگر اس کے صرف 400 صفحات کو شائع کرنے کی اجازت دی گئی ۔   لیکن یہ 400 صفحات بھی مغرب اور اس کی حکومتوں کی درندگی  کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ان قیدیوں کومسلسل چھ دن تک جگائے رکھا گیا اور انہیں اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ نیند کے بغیر مسلسل گھڑے رہیں۔اس ذہنی تشدد کے نتیجے میں یہ قیدی نیم پاگل ہو گئے۔    ان میں سے دو قیدیوں کے  پاؤں کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی مگر انہیں بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک قیدی کو یہ گھٹیا دھمکی دی گئی کہ اگر وہ تعاون نہیں کرے گا تو اس کی والدہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔"مہذب" امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی نے واٹر بورڈنگ تکنیک (technique  Water boarding) بھی استعمال کی جو کہ تشدد کا بدترین اسلوب ہے۔  اس تکنیک میں ایک شخص کے ناک اور منہ کو کپڑے سے ڈھانک دیا جاتا ہے اور اس پر بار بار پانی ڈالا جاتا ہے جس سے وہ شخص ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے کہ گویا وہ ڈوب رہا ہے۔  رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد کو 183مرتبہ اس عمل سے گزارا گیا۔

 

یہ ظالمانہ سلوک کوئی نیا نہیں ہے۔  اس سے پہلے عراق کی ابو غریب جیل میں روا رکھنے جانے والے غیر انسانی سلوک کی تصویریں عالمی میڈیا کی زینت بن چکی ہیں۔  اور ماضی میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، سپین، پرتگال اپنی کالونیوں میں لوگوں کو جن ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے اور لاکھوں لوگوں کا قتلِ عام کرتے رہے وہ مغرب کی سیاہ تاریخ کا حصہ ہے۔اس کے باوجود پاکستان کے حکمران اور ایک مخصوص طبقہ مغرب کے متعلق یہ نقطہ نظر رکھتا ہے کہ وہ اخلاق اور تہذیب میں مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔  چنانچہ ہمیں معاشرے میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو مغرب کی اعلیٰ اقدار کے گن گاتے نظر آتے ہیں اورانہیں اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان معاشرہ اجڈ ، جاہل، گنوار اور تہذیب سے عاری ہے، جبکہ مغربی معاشرے مہذب اور بااخلاق ہیں۔  چنانچہ یہ لوگ مغرب کی نقالی کرنے میں کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ایسا کرنا ،مہذب اورپڑھا لکھا ہونے اورروشن فکری کی علامت ہے۔

 

ان لوگوں کے مغرب سے متاثر ہونے کی ایک وجہ ان کی مادی ترقی ہے۔  بلند و بالا عمارتیں، سائنسی ایجادات، مستحکم حکومتوں کی موجودگی، دولت کی فراوانی، مسلم معاشروں کے مقابلے میں مغربی معاشروں میں عوام کے لیے اچھی سہولیات کی فراہمی اور ایک منظم نظام کی موجودگی، انہیں اس سوچ کی طرف لے جاتی ہے کہ مغرب کے لوگ اقدار کے لحاظ سے بھی تیسری دنیا خاص طور پر مسلمانوں سے بہتر ہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب ایجادات اور مادی ترقی کے لحاظ سے مسلم ممالک سے کہیں آگے ہے۔  اور یہ ممالک اس قابل ہیں کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں اور کسی دوسری قوم کی طرف رجوع کرنے کی بجائے خود سے اس کے متعلق غور و فکر کریں۔ تاہم اس کی وجہ یہ نہیں کہ مغرب کے لوگ انسانی صلاحیتوں کے لحاظ سے باقی دنیا  کے انسانوں سے بہتر ہیں یا ان کی تہذیب اور اقدار ہم سے بہتر ہے۔ایسے ممالک کہ جن کے پاس ایک ایسا نظریہ موجود ہو کہ جس میں سے انسانی مسائل کے کے حل نکلتے ہوں ان میں ہمیں یہ صفت نظر آئے گی۔   ماضی میں سوویت رشیا کی بھی یہی صورتِ حال تھی کہ جہاں سوشلزم کے نظریے کے نفاذ نے مادی ترقی اورخوشحالی کو جنم دیا۔مگر ایک نظریئے کی بنیاد پر انسانی مسائل کو حل کرنے اور ان حل کے درست ہونے اور انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے میں فرق ہے۔  حقیقت یہ ہے مغربی تہذیب جس سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر استوار ہے،اس میں سے نکلنے والے  زندگی کے مسائل کے حل کا نفاذ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے ۔یہ کیونکر ہےیہ بحث آج کے موضوع سے الگ ہے، جس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ جو چیز موضوع گفتگو ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی بذاتِ خودمغرب کے اخلاقی و تہذیبی دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ ہے۔

 

اس سے پہلے کہ ہم مغربی تہذیب کی گراوٹ اور مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے ساتھ اس کے فکری تعلق کو بیان کریں ۔  پہلے اس کنفیوژن کو واضح کر دیا جائے جو کہ مغرب کے بعض لوگوں کے حسنِ سلوک اور خیرات اور رفاحی کاموں کی وجہ سے بعض لوگوں کو ہو جاتی ہے۔   یہ لوگ بل گیٹس جیسی  مثالیں پیش کرتے ہیں،کہ   فوربز میگزین کے مطابق 2013میں بل گیٹس اور اس کی بیوی نے 2.65ارب ڈالر بیماریوں سے بچاؤ اور تعلیم کی بہتری کے لیے خیرات کے طور پر دیے ۔  میگزین کے مطابق بل گیٹس اور اس کی بیوی اپنی پوری زندگی میں 30.2 ارب ڈالرکی خطیر رقم  خیرات کے طور پر خرچ کر چکے ہیں جو ان کی دولت کا 37فیصد بنتا ہے۔  اسی طرح فیس بک کے کو فاونڈراور سی ای او مارک زکر برگ نے 2013میں خیرات کے طور پر 991ٍملین ڈالر خرچ کیے۔  ایسی مثالوں کو پیش کر کے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ  اگر مغرب کے لوگ مادہ پرست اور تہذیبی لحاظ سے اس قدر ہی برے ہیں تو پھر ہمیں یہ مثالیں کیوں نظر آتی ہیں۔

اس بحث میں جائے بغیر کے مندرجہ بالا انفرادی مثالوں میں انسانیت کی بہتری اور غریبوں کے مسائل کے حل کے لیے اخلاص کا جذبہ کس حد تک کارفرما ہے اور کس حد تک یہ دولت واقعی غریب لوگوں کے ہاتھوں میں ہی پہنچتی ہے،یہاں یہ سمجھنا ضروری ہےکہ  اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک ہی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جس طرح ہر انسان کو دو آنکھیں ، ناک ، کان اور ہاتھوں سے نوازا ہے ، اسی طرح ہر انسان کے اندر کچھ جبلتیں اور عضویاتی حاجات بھی رکھیں ہیں۔ کوئی انسان بھی سانس لیے بغیر، کھانا کھانے بغیریا پانی پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔  یہ اس کی عضویاتی حاجات ہیں۔  اسی طرح ہر انسان کے اندر تین جبلتیں موجود ہیں۔  جبلتِ بقا کہ جس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے ، جیسا کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت و آسائش کی چیزیں ہوں، اگر وہ میچ کھیل رہا ہے تو وہی جیتے، بحث کے دوران اس کی دلیل حاوی ہو، یہ سب جبلتِ بقا کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔  اسی طرح ہر انسان کے اندر جبلتِ نوع بھی موجود ہے جو کہ اسے اس چیز کی طرف ابھارتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتے ناطے بنائے، اپنی جنسی ضرورت کو پورا کرے، اپنے لیے کنبہ بنائے ،اپنے والدین، بیوی بچوں پر خرچ کرے۔ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف میں دیکھ کر بے چینی محسوس کرتا ہے اور اس کے اندر اس انسان کو اس مصیبت سے نجات دلانے کے جذبات ابھرتے ہیں۔ ان جبلتوں اور جذبات کے لحاظ سے تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ یہ مغرب کا انسان ہو یا مغرب کا۔  کسی انسان کا زندہ جل جانا، ڈوب کر مر جانا، غربت و افلاس کے ہاتھوں خود کشی کر لینامشرق کے انسان کو بھی افسردہ کرتا ہے اور مغرب کے انسان کوبھی۔ اور جس طرح ایک انسان کو مادی قدر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسے انسانی اور اخلاقی قدر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔   اور وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔  چنانچہ جس طرح وہ دولت کو حاصل کرکے اطمینان اور خوشی حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ کسی ڈوبتے ہوئے کی جان بچانے میں اور کسی غریب کی مدد کرنے میں بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔

 

لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی جبلتیں اور ان کی بنا پر جنم لینے والے جذبات  کی تدوین ان افکار کی پر ہو تی ہیں، جو کہ کوئی بھی انسان زندگی کے متعلق رکھتا ہے۔  پس ایک مسلمان کے لیے کسی نبی کی توہین ایک انتہائی قبیح اور ہیجان انگیر حرکت ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایسی حرکت کرنے والے شخص کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔   کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ انبیاء کے متعلق کچھ افکار فراہم کرتا ہے۔ یہ افکار ایک مسلمان میں پائی جانے والی جبلتِ تدین (worship instinct)کو ایک خاص شکل دیتے ہیں ۔  پس ایک مسلمان کے جذبات ان افکار کے مطابق ہوتے ہیں جو وہ جبلتِ تدین کو پورا کرنے کے متعلق رکھتا ہے۔  جبلتِ تدین ، جبلتِ نوع اور جبلتِ بقا کے علاوہ وہ تیسری جبلت ہے جو کہ ہرانسان میں پائی جاتی ہے۔اور یہ بھی افکار کے ذریعے ہی ریگولیٹ ہوتی  ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں انبیاء کی توہین اتنا سنگین مسئلہ تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ مغرب کے نزدیک  آزادی اظہارایک درست تصور ہے اور کوئی شخص کسی نبی کے متعلق کوئی بھی تصور رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے۔  یہ تصور مغرب کے ایک سیکولر شخص کی جبلتِ تدین کو متاثر کرتا ہے اور اس کے اعمال اور طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔

چنانچہ جیسا کہ بیان کیا گیاکہ مغرب کے انسان میں بھی جبلتِ نوع موجود ہے جو اسے دوسرے انسانوں کا خیال رکھنے اور ان کے لیے ایثار کرنے اور ان سے حسنِ سلوک کرنے کی طرف ابھارتی ہے۔  مگر سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی سے سے نکلنے والے افکار کو اپنانے کی وجہ سے مغربی معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے لیے اپنی زندگی کے لیے آسائشوں کا حصول،اپنے لیے مال و دولت کو جمع کرنا اور انفرادیت پسندی ہر چیز پر حاوی ہے۔کیونکہ سرمایہ دارنہ آئیڈیالوجی ایک مادہ پرستانہ آئیڈیالوجی ہے کہ جو یہ فکر دیتی ہے کہ  مادی قدرو قیمت کا حصول ہی کسی بھی انسان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے ۔  اور مال و دولت و آسائشوں کا حصول ہی خوشی و سعادت کا بنیادی ذریعہ ہے ۔سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا صف اول کا مفکر ایڈم سمتھ اپنی دو کتابوں Theory of Moral SentimentsاورThe Wealth of Nationsمیں بیان کرتا ہے کہ اللہ نے اس دنیا کو اس لیے تخلیق کیا ہے کہ انسان اس دنیا کی آسائشوں سے اپنی لیے زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کر سکے۔  اور ہر شخص کی فطرت ہے کہ وہ اپنی بہتری کے لیے ہی کام کرتا ہے۔  جب ہر شخص کو اپنی بہتری کے لیے آزاد ماحول فراہم کر دیا جائے اور حکومت کی مداخلت کم سے کم ہو تو معاشرے کے مفادات کا تحفظ خود بخود ہو جائے گا۔   اخلاق کو قوانین کے ذریعے ریگولیٹ نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ لوگوں کو اس معاملے میں آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔    اور کوئی بھی مذہب جو عقائد و رسومات(مذہبی قانونی ضابطوں) کو اخلاق پر ترجیح دیتا ہے وہ قابلِ مذمت ہے اور ایک مہذب اور پر سکون معاشرے کے لیے خطرے کا باعث ہے۔  چنانچہ یہ آئیڈیالوجی زندگی کے لیے جو پیمانہ مقرر کرتی ہے وہ نفع و نقصان کا پیمانہ ہے  کہ ایک انسان کسی بھی عمل کوکرتے وقت جس چیز کو مدِ نظر رکھے وہ یہ ہے کہ آیا یہ عمل اس کی ذات کے لیے کس حد تک فائدے کا باعث ہے،  خواہ یہ کاروبار ہو ، ذاتی تعلقات ہوں حتیٰ کہ اخلاق بھی۔  چنانچہ اگر کسی جگہ پر اخلاق دکھانا نفع بخش ہے تو وہاں خوش اخلاقی اور ایمانداری دکھائی جائے گی اور جہاں پر اخلاق دکھانا مادی نقصان کا باعث ہو وہاں اخلاق ، رشتوں ناطوں کی پرواہ نہیں کہ جائے گی۔  یہی وجہ ہے کہ مغرب کے معاشرے میں اخلاقیات کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہی رہتی اور جب تک سرمایہ داریت کی آئیڈیالوجی مغرب میں نافذ ہے مغربی معاشرہ اس صورتِ حال سے چھٹکارہ حا صل نہیں کر سکتا۔

 

سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کا بنیادی عقیدہ سیکولرازم ہے ۔  جو دین کو ایک شخص کی ذاتی زندگی تک محدود کر دیتا ہے۔  اور یہ قرار دیتا ہے کہ انسان خود اپنی عقل سے اپنے لیے نظام بنائے گا۔  جو اس بات کا اظہار ہے کہ انسان کی عقل اس بات کا تعین کر سکتی ہے کہ معاشرے میں کیاچیز جائز یا قانونی ہونی چاہئے اور کیا چیز ناجائزاور غیر قانونی۔  گویا انسانی عقل ہی اس چیز کو طے کرے گی کہ کیا چیز معاشرے کے لیے اچھی ہے اور کیا چیز بری ۔پس مغرب کے نزدیک انسانی عقل اس چیز کا تعین بھی کر سکتی ہے کہ اچھا اخلاقی طرزِ عمل کیا ہے اور برے اخلاق کیا ہیں۔  معاشرے کے لیے اچھی یا برے اقدارکا تعین کرنے کے لیے مذہب سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن انسانی عقل سے جنم لینے والی اس آئیڈیالوجی نے مغرب میں کس طرح تہذیبی  گراوٹ کو جنم دیا ہے، آئیے اس کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

 

مغرب کی گراوٹ ان کے معاشرتی نظام میں سب سے نمایاں ہے۔     بچوں کے ساتھ برے  سلوک کی بات پاکستان کے معاشرے کے متعلق بہت کی جاتی ہے لیکن جب ہم مغرب کے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو اس ضمن میں مغرب کا معاشرہ نہایت بھیانک صورت حال پیش کرتا نظر آتاہے۔   11جنوری 2014ء کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ امریکی ریاست فلوریڈا میں پولیس نے25سالہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس نے طیش میں آ کر اپنی بچی کو پل سے نیچے پھینک کر ہلاک کردیا۔ 30 دسمبر2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ فلوریڈا میں ہی پولیس نے ایک جوڑے کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے جس نے اپنی نوزائدہ بیٹی کو کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا اور وہ بھوک و فاقے سے مر گئی جب کہ اس کی عمر صرف 22 دن تھی۔   21دسمبر2014 کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ آسٹریلیا میں ایک عورت نے اپنے سات بچوں اور ایک بھتیجی کو مار ڈالا ، ان بچوں کی عمریں 2سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ 5نومبر2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ نیویارک پولیس نے ایک کروڑ پتی عورت کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس کے خلاف الزام ہے کہ اس نے فروری 2010میں اپنے 8 سالہ بیمار بیٹے کو دوائی کی بہت زیادہ مقدار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔   30 اکتوبر 2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا امریکی ریاست پنسلوانیا میں ایک شادی شدہ جوڑے کے خلاف قتل کا مقدمہ شروع کیا گیا ہے کیونکہ اس نے اپنے 9سالہ بیمار بچے کو کھانے کو کچھ نہیں دیا اور وہ اس وجہ سے ہلاک ہو گیا ۔  اس نو سالہ بچے کا وزن کم ہو کر صرف 17 پاؤنڈ رہ گیا تھا ۔   پولیس کو یہ بچہ اس حال میں ملا کہ اس کی لاش ایک چادر میں لپٹی ہوئی باتھ روم میں پڑی تھی ۔    19اکتوبر 2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ نیویارک سٹی میں ایک 20سالہ شخص نے اپنی 3 سالہ بیٹی کو صرف اس وجہ سے گلا گھونٹ کراور چھری کے وار کر کے مارڈالا کہ اس نے اپنی پینٹ میں ہی پاخانہ کر دیا تھا۔   قائرین یہ وہ اندوہ ناک واقعات ہیں جو محض پچھلے چار ماہ کے دوران خبروں میں آئے، اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ ہے مغرب کے معاشرے کی تصویر کی ایک جھلک جہاں سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی نے اس حد تک انفرادیت اور ذاتی خوشی کے حصول کو معاشرے پر حاوی کر دیا ہے کہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال والدین کو ایک بوجھ محسوس ہو تا ہے ۔ اور وہ اسے اپنی زندگی کے خوشیوں میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔  اور جہاں تک  پاکستان کے معاشرے میں بچوں کے ساتھ برے سلوک کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات مغرب کے معاشرے سے یکسر مختلف ہیں ۔  پاکستان میں بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے اکا دکا واقعات کی اہم وجہ بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق افکاراور شعور کی کمی اور بچوں کے ساتھ سخت گیر رویے کے درست ہونے کا تصور ہے۔ مشکل مالی حالات ، زندگی کے بے شمار مسائل سے دوچار ہونے اور نظام کی طرف سے کسی بھی قسم کی سپورٹ اور رہنمائی کے فقدان کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال پر توجہ دی جاتی ہے اور یہ سب اس وجہ سے ہے مسلم معاشرے اسلام کی دولت سے مالامال ہیں ۔  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

((لیس من امت من لم یجل کبیرنا ویرحم صغیرنا))

''وہ شخص میری امت میں سےنہیں جوہمارےبڑوں کی عزت کونہ جانےاورہمارےچھوٹوں پررحم نہ کرے"۔

 

جہاں تک نظامِ حکومت اور سیاست دانوں کے طرزِ عمل کا تعلق ہے  توعام طور پر  پاکستان کے عوامی نمائندوں پر اٹھنے والے ریاستی خرچ کی خبریں وقتاً فوقتاً میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ کس طرح عوام کے خون کو نچوڑ کر جمع کیے جانے والے ظالمانہ ٹیکس کو بے دردی سےپاکستان کے امیر سیاست دانوں پر دونوں ہاتھوں سے لٹایا جاتا ہے۔اور بعض لوگوں میں یہ تائثر پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کے عوامی نمائندوں کی  صورتِ حال ایسی نہیں  ۔  لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔  امریکی کانگریس بھی اسی طرح امیروں لوگوں کا ٹولہ ہے جیسا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سینٹ کی صورتِ حال ہے۔   امریکہ کے آدھے سے زیادہ عوامی نمائندوں کی دولت ایک ملین ڈالر سے زیادہ ہے اورامریکی  کانگریس کے دوسوممبران ایسے ہیں جو multi millionaireہیں۔جبکہ پچھلے دو الیکشن کے دوران صرف 13 ایسے لوگ امریکی کانگریس کا حصہ بنے جن کا پس منظر ورکر کلاس سے تھا۔   ایک امریکی کانگریس مین کی سالانہ تنخواہ 174000ہے۔  Weekly Standard Magazineکی رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹ کے سو ممبران نے پچھلے پندرہ سالوں کے دوران 5.25ملین ڈالر بالوں کی کٹائی پر خرچ کیے۔  جبکہ ایک سال کے دوران ان کا ذاتی اور دفتری خرچہ 4005900ڈالر تھا۔  یہ صورتِ حال بھی براہِ راست سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے نفاذ کا نتیجہ ہے۔  جہاں یہ آئیڈیالوجی ایک شخص کو زندگی کا یہ مقصد دیتی ہے کہ وہ مال و دولت کو اکٹھا کرنے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جئے ، وہاںوہ  ایسا حکومتی نظام بھی فراہم کرتی ہے کہ جس کے ذریعے مادہ پرست افراد اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں ۔     اس آئیڈیالوجی سے پھوٹنے والا جمہوری نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ منتخب اراکین اپنے مفادات کے مطابق قوانین میں ردو بدل کر کے اپنی  اور اپنےساتھیوں  کی جیبیں بھر سکیں۔  جہاں جہاں جمہوریت موجود ہے وہا ں وہاں اشرافیہ کے ایک مختصرٹولے نے قوانین کو اس انداز سے ترتیب دیاہے کہ  جس کے ذریعے وہ  ایسے  اثاثوں کے مالک بن گئے  جن سے بے پناہ دولت حاصل ہوتی ہے جیسا کہ بجلی، تیل، گیس اور معدنیات کے ذخائر، بھاری صنعتیں اور اسلحہ سازی کی صنعتیں ۔

 

جہاں تک مغرب کی کاروباری ایمانداری کا تعلق ہے ، تو امریکہ سے جنم لینے والا 2008کامالیاتی بحران جس نے یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح سرمایہ دار کمپنیاں لوگوں کے اعتماد سے کھیلتی ہیں، انہیں اندھیرے میں رکھتی ہیں اور غلط معلومات فراہم کر کے ان سے پیسے بٹورتی ہیں۔  2010میں Goldman Sachsکمپنی نے اس چیز کو قبول کیا کہ وہ 550ملین ڈالرجرمانے کے طور پر ادا کر ے گی کیونکہ اس نے جان بوجھ کر اپنے انویسٹرز کو دھوکہ دیا ہے۔    پچھلے سال رائل بینک آف سکاٹ لینڈ نے 150ملین ڈالر ادا کرنا قبول کیا، اس پر الزام تھا کہ 2007 میں اس نے 2.2ارب ڈالر کے mortagage-backed bondکو فروخت کرنے کے لیے شارٹ کٹ کے طور پر ناجائز ذرائع  استعمال کیے ۔ بینک کے خلاف اس چیز کے متعلق بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ اس نے جان بوجھ کر چلتے ہوئے کاروباروں کو دیوالیے سے دوچار کیا تاکہ ان کے اثاثوں کو کوڑی کے داموں خرید سکے۔   اکتوبر 2013 میں ڈان نے گارڈین کے توسعت سے  یورپ میں گوشت میں ملاوٹ کا سکینڈل رپورٹ کیا۔ایگلو آئرش پروسیسر کمپنی  یورپ کی سب سے بڑی گائے کا گوشت سپلائی کرنے والی کمپنی ہے۔ ہر ہفتے  50ملین یورپین اس کمپنی کا پروسیس کردہ گوشت استعمال کرتے ہیں ۔اس کمپنی کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی۔  یہ کمپنی ہالینڈکے بزنس مین ٍSeltenسے گوشت خرید رہی تھی جو گائے کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ  کا دھندا کر رہا تھا۔   Seltenکمپنی کے لیے کام کرنے والے ایک ملازم نے گارڈین کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ وہ سپلائی کے دوران پرانا ڈی فراسٹ ہوا بیف بھی مکس کرتے تھے اور بعض اوقات یہ گوشت اتنا پرانا ہوتا تھا کہ اس کی رنگت سبز ہو چکی ہوتی ۔    دسمبر 2014 میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک  رپورٹ شائع کی کہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح امریکی ملٹی نیشل کمپنیوں نے  ٹیکس بچانے کے لیے اپنے قانونی ایڈریس کیمن جزیرہ، لکسمبرگ، برمودہ وغیرہ میں منتقل کر رکھے ہیں جہاں ٹیکس یا تو انتہائی کم ہے یا بالکل  صفر ہے۔  اس کے لیے وہ کسی چھوٹی سے کمپنی کے ساتھ اپنا mergerبناتی ہیں اور پھر اس کمپنی کے لیے ایسے ممالک کا پتہ رجسٹر کرواتی ہیں جہاں ٹیکس کی شرح بہت کم ہے۔  ایک اندازے کے مطابق یوں یہ کمپنیاں 100ارب ڈالر ٹیکس کی مد میں چوری کر  رہی ہیں۔

 

جہاں سرمایہ دارانہ آیئڈیالوجی سے جنم لینے والی مادیت پرستی نے ایک عام انسان، حکومتی اشرافیہ و سیاستدانوں کی فطرت کو مسخ کیا ہے وہاں مغرب کا مذہبی طبقہ بھی اس کے زہریلے اثرات سے محفوظ نہیں۔جنوری 2012میں کیتھولک چرچ کا سکینڈل منظر عام پر آیا جسے Vatileak Scandalکا نام دیا گیا ۔  پوپ بینی ڈکٹ کے بٹلر Paolo Gabrieleنے ویٹیکن کی خفیہ دستاویزات لیک کیں جن میں وہ خطوط بھی شامل تھے جو پوپ بینی ڈکٹ اور ویٹیکن کے دیگر عہدیداروں کو ویٹیکن کے اندرونی معاملات کے متعلق مختلف لکھے گئے تھے۔ یہ دستاویزات ویٹیکن طاقت کی کشمکش، سازشوں، دھڑے بندیوں اور مالیاتی کرپشن کی منظر کشی کرتی ہیں۔ان معلومات کو بنیاد بنا کر اٹلی کے صحافی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام : His Holiness: The Secret Papers of Benedict XVIہے۔  جس میں چرچ کی کرپشن کا پرہ چاک کیا گیا ہے ۔  24اکتوبر 2013 کو رائٹرز نے رپورٹ کیاکہ پوپ فرانسس نے جرمنی کے بشپ کو اس کے علاقے کی ذمہ داری سے سے ہٹا دیا ہے کیونکہ اس نے چرچ کے فنڈ میں سے  31ملین یورو محض اپنی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر خرچ کیےتھے۔  جائزے کے مطابق گھر کے باتھ روم میں لگے ہوئے سٹینڈنگ باتھ کی مالیت 15000یورو ہے، جو کہ پاکستانی روپے میں 17لاکھ پچاسی ہزار روپے بنتی ہے۔  جبکہ گھر میں رکھی گئی کانفرنس ٹیبل25000یورو(29لاکھ 75ہزار روپے) کی ہے۔   اس شاہ خرچی کی بنا پر جرمنی کے بشپ کو میڈیا میں "luxury bishop"کا خطاب دیا گیا۔

اور وہ مغرب جو مسلم معاشروں پر عورتوں کے ساتھ بد سلوکی ، تشدد اور عدم برداشت کا الزام لگاتا ہے اور اس بنیاد پر پوری دنیا میں واویلا مچاتا رہتا ہے، خود اس کے اپنے معاشرے کی صورتِ حال کیا ہے اس کا پول یورپی یونین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی(FRA)کا سروے کھول کر بیان کرتا ہے۔  یہ سروے 2014 میں 28 یورپی ممالک میں کیا گیا، جس میں 42000عورتوں کے انٹرویو لیے گئے جن کی عمریں 18 سے 74 برس کے درمیان تھیں۔  سروے کے مطابق ہر دس میں سے ایک عورت کو15سال کی عمر کے بعد جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہر بیس میں سے ایک عورت کی عزت مرد کے ہاتھوں تار تار ہوئی ، اور ہر پانچ میں سے ایک عورت کو اپنے خاوند یا پارٹنر کے ہاتھوں جسمانی ظلم و تشددکا سامنا کرنا پڑا۔   رپورٹ کے مطابق  صرف 14 فیصد عورتیں ان زیادتیوں کے متعلق پولیس کو رپورٹ کرتی ہیں   ۔  یہ رپورٹ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ معاشرہ جو مرد و عورت کو برابر کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے وہاں کی عورت کتنی مظلوم ہے۔

 

سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی یہ تصور دیتی ہے کہ انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آزاد چھوڑ دینا ہی خوشی اور اطمینان کی ضمانت ہے۔  پس ہر انسان کو عقیدہ، رائے کے اظہار،ملکیت اور ذاتی زندگی میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہئے اور اس پر کوئی قدغن یا روک ٹوک ہونا درست نہیں۔  خاص طور پر مذہب کی بنیاد پر ایسا کرنا تو دقیانوسیت اور پسماندگی ہے۔  لیکن یہ آئیڈیالوجی انسان کو خوشی اور اطمینان کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔  اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے ہوتا ہے جو مغرب کے صحت کے ادارے اپنے معاشرے میں ڈپریشن Depressionکے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے متعلق فراہم کرتے ہیں۔   امریکہ میں اس وقت ادویات کے استعمال کے لحاظ سے امراض قلب کی دوائیں سرفہرست ہیں۔  اس کےبعددوسرا نمبر ڈپریشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کا ہے۔  اور ایک اندازے کے مطابق 2020تک ڈپرشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات پہلے نمبر پر آجائیں گی۔

 

قارئین یہ ہے مغرب کے معاشرے کا اصل چہرہ جسے ہم سے اوجھل رکھا جاتا ہے۔  اور ہمارے سیاست دان ، حکمران اور لبرل طبقہ رٹو طوطے کی طرح دن رات مغرب کے گن  گاتے رہتے ہیں تاکہ ہم نہ صرف یہ کہ مغرب کی سیاسی بالادستی کو قبول کر لیں بلکہ مغرب کی اس ذلت آمیز غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے پر فخر محسوس کریں۔

آج مغرب سمیت پوری دنیا کو اسلام کی آئیڈیالوجی اور اس سے پھوٹنے والے نظامِ خلافت کی ضرورت ہے جس نے ماضی میں بھی انسانیت کو اعلیٰ اقدار اور تہذیب و اخلاق سے بہرہ ور کیا اور آج بھی اسلام کی آئیڈیالوجی ہی مغرب کی پست اور ناقص تہذیب کا متبادل فراہم کر سکتی ہے۔

 

ڈاکٹر افتخار

 

 

Read more...

خلافت ھندو جارحیت کا خاتمہ کردے گی حکومت ِ پاکستان بھارت پر جارحیت کا الزام لگاتی ہے اور ساتھ ہی دوستی کا ہاتھ بھی بڑھاتی ہے

حزب التحریر بھارت کے ساتھ تعلقات اور معاملات کے حوالے سے حکومت پاکستان کے  غدارانہ طرز عمل کی مذمت کرتی ہے۔ وزیر اعظم  نواز شریف کے قومی سلامتی اور امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے 12 جنوری کو ڈان نیوز کے پروگرام "فیصلہ عوام کا"میں کہا کہ بھارت  افغانستان کی سرزمین کو پاکستان پر حملے کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ لیکن اسی انٹرویو میں سرتاج عزیز نے بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات کے قیام پر زور بھی دیا۔

قومی سلامتی  اور حکومتی حلقوں میں یہ بات تسلسل سے کی جارہی ہے  کہ  بھارت قبائلی علاقوں میں مداخلت کررہا ہے اور پاکستان کی افواج اور شہریوں پر حملے کروا رہا ہے۔  پھر ان حلقوں میں موجود اس رائے عامہ کو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کرنے کے لئے جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر حکومت اپنے دعویٰ میں سچی ہوتی تو وہ  پاکستان میں بھارت کی سفارتی موجودگی کا خاتمہ کرتی کیونکہ بھارت ایک جارح ملک ہے اور اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جانا چاہیے۔ سرد جنگ کے زمانے سے یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں سفارت خانے جاسوسی اور تخریبی کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور  ان نگرانی کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اور جیسے یہی کچھ کم نہ تھا کہ حکمرانوں نے امریکہ سے وفاداری  کے تعلق کو برقرار رکھا ہے جس نے بھارت پر  افغانستان کے دروازے کھولے ہیں۔ امریکہ کی مدد و حمائت سے بھارت نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ افغانستان میں کئی قونصل خانے کھولے ہیں جہاں سے قبائلی علاقے انتہائی قریب ہیں۔  لیکن اس باوجود راحیل-نواز حکومت نے افغانستان پر امریکی قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے  نیٹو سپلائی لائن کو  برقرار رکھا ہے اور ان مجاہدین کے خلاف آپریشن کررہی ہے جوصلیبی  امریکی افواج  کے خلاف افغانستان میں جہاد کررہے ہیں۔

حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت کی اس غداری کو ختم کریں۔ وہ انہیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ خلافت کے فوری قیام کےلئے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں جو اسلامی ریاست ہونے کے ناطے مسلم سرزمین پر دشمن کی موجودگی کا خاتمہ کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں خلافت کا قیام مسلم سرزمینوں کو یکجا کرنے کے لئے نقطہ آغاز ثابت ہوگا اور پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش کے مسلمان ایک عظیم متحد قوت کی صورت میں ہندو مشرکین کے خلاف یکجا ہوں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا

"ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں  اور مشرکوں کو پاؤ گے"(المائدہ:82)

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں جان کیری کے دورہ پاکستان کے خلاف مظاہرے کیے جان کیری کا دورہ نیشنل ایکشن پلان(امریکی راج) کو مستحکم کرنے کے لئے ہیں

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے۔مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ :"جان کیری کا دورہ امریکی راج کو مستحکم کرے گا"، "امریکی راج کا اختتام، خلافت کا قیام

مظاہرین کا یہ کہنا تھا کہ جان کیری کا دورہ پاکستان اور اسٹریٹیجک مذاکرات پاکستان میں امریکی راج کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بنےگا۔ امریکہ پاکستان کا دشمن ہے اور دشمن سے دوستی صرف غدار ہی کرسکتے ہیں۔ امریکہ کی دشمنی ثابت کرنے کے لئے اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ پاکستان میں جس قدر امریکی سیاسی ، معاشی اور فوجی موجودگی کو بڑھاوا دیا جاتا ہے اتنا ہی پاکستان کو سیاسی، معاشی اور دفاعی لحاظ سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پچھلے تیرہ سال میں پاکستان کی معیشت نے تقریباً 100 ارب ڈالر کا نقصان خطے میں امریکی جنگ کا حصہ بن کر اٹھایا ہے اور ہزاروں افراد کا جانی نقصان اس کے علاوہ ہے۔

مظاہرین کا یہ بھی کہنا تھا سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستان امریکہ کی سیاسی و معاشی امداد کے بغیر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ درحقیقت امریکی امداد پاکستان کو کھڑا ہونے کے قابل ہی ہونے دیتی لیکن اگر پاکستان اسلام کے معاشی و سیاسی نظام یعنی خلافت کو قائم کرے تو کسی امداد کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔

مظاہرین نے افواج پاکستان کے مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کے احکام کے مطابق  دشمن امریکہ کی پاکستان میں موجودگی کا خاتمہ کریں، اس کے سفارت خانہ اور قونصل خانوں کو بند کریں اس کے سفارت کاروں اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو ملک بدر کریں اور اس کے تخریب کاروں سی۔آئی۔اے اور بلیک واٹر کا خاتمہ کریں۔ مظاہرین نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے حزب التحریر کو نصرہ فراہم کر کے خلافت کا قیام عمل میں لائیں۔ پھر خلافت امریکی سانپ کے سر کو کچل دے گی اور اس طرح پاکستان کو امریکی نجس وجود سے پاک کردے گی۔

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس

Read more...

سوال کا جواب : تیل کی قیمتوں ہونے والی اچانک کمی کے اسباب

سوال :

آج1دسمبر 2014بدھ کے دن بعض ذرائع ابلاغ نے  خبر شائع کی ہے کہ برنٹ خام تیل کی قیمت 49.66  ڈالر فی بیرل یکارڈ کی گئی ۔ اسی طرح  امریکی خام تیل کی قیمت بھی  تقریبا  47 ڈالر فی بیرل  تک گر گئی ہے۔ یاد رہے کہ 2014 کے جون کے مہینے کی ابتدا  میں  تیل کی قیمتیں 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں تھیں۔ پھر بدتدریج گرنے لگیں  یہاں تک کہ سردیوں کے آغاز   دسمبر 2014 کےاختتام  تک 60 ڈالر فی بیرل  بلکہ  اس سے بھی کم ہوگئیں   یہاں تک کہ وسٹ ٹیکساس خام تیل  کی قیمت 58.53  ڈالر تک گرگئی۔ اب جنوری 2015  کے پہلے ہفتے  میں تیل کی قیمت50 ڈالر تک آگئی  یعنی 50 فیصد سے بھی زیادہ کمی  تقریبا پانچ مہینے کے اندر  ! تیل کی قیمتوں میں اس اچانک کمی کے کیا اسباب ہیں؟ اور مستقبل میں تیل  کی قیمتوں  کے بار میں کیا متوقع ہے؟

 

جواب :

تیل کی قیمتوں میں کمی کے مختلف اسباب ہیں  جن میں سے  نمایاں ترین اقتصادی عوامل ہیں جن کا  سیاسی مقاصد سے تعلق نہیں ہے ۔۔۔لیکن ساتھ ہی ساتھ  سیاسی عوامل بھی ہیں جو اقتصادی عوامل کو حرکت دینے کے لیے ہے  جس سے  سیاسی مفادات کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔۔۔

اقتصادی عوامل  جن کا  سیاسی مقاصد سے تعلق نہیں ہے تو وہ یہ ہیں: تیل کی ترسیل کا زیادہ ہو نا یا  طلب میں کمی ۔۔۔، تیل والے علاقوں اور اس کے آس پاس   ہنگامے خاص کر  عسکری  گرما گرمی۔۔۔،تیل کی مارکیٹ میں غیر یقینی صورت حال  اور تیل کی بر آمد یا در آمد پر اثر انداز ہو نے والے ممالک  کی معیشت  کے حوالے سے اعدادو شمار میں کمی بیشی ۔۔۔۔

 

سیاسی عوامل  کا جہاں تک تعلق ہے تو ایک ریاست کی جانب سے  اقتصادی عوامل کو متحرک کرنا  جیسے  بغیر کسی معاشی ضرورت کے تیل کی پیداوار میں اضافہ کرنا یا ذخیرے میں موجود تیل کی پیداوار کو مارکیٹ میں لے آنا تا کہ تیل کی قیمت پر اثر انداز ہوکر مدمقابل ریاستوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہواجاسکے خصوصاً وہ ممالک جن کی معیشت کا انحصار ہی تیل کی قیمت پر ہوتا ہے یا عام تیل کی قیمت کو اس قدر کم کردینا کہ شیل تیل کو نکالنا معاشی لحاظ سے ناممکن ہوجائے۔

ہم ان  امور کو بیان کریں گے پھر   تیل کی قیمتوں میں قابل ذکر کمی  کے حوالے سے ترجیحی  اسباب  کا خلاصہ پیش کریں گے:

پہلا :سیاسی مقصد سے خالی اقتصادی عوامل:

1-سپلائی اور طلب :

تیل بھی کسی بھی سامان کی طرح ہے  جس کی قیمت  طلب اور رسد  کے مطابق ہی  مقرر ہو تی ہے۔ جب تیل کی مارکیٹ میں  سپلائی  زیادہ ہوتی ہے  تو اس کی قیمت کم ہوجاتی ہے۔ یہ اس وقت  ہوتا ہے جب  تیل در آمد کرنے والے ممالک میں معاشی بحران  کی وجہ سے   طلب کم ہوجاتی ہےکیونکہ بحران کا شکار ملک مہنگے دام میں تیل خریدنے کی سکت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے طلب میں کمی آتی ہے۔۔۔ اسی طرح جب تیل کی طلب بڑھ جاتی ہے اور وہ رسد (سپلائی) سے زیادہ ہوجائے تو قیمت بڑھ جاتی ہے ۔

 

2-پریشانی اور عسکری ہنگامہ آرائی:

ایک اور وجہ ہے جو تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہو تی ہے  اور وہ " تجسس" ہے یعنی تیل کی مارکیٹ کے بارے میں توقعات ،جیسے  تیل والے علاقوں میں ہنگامے یا جنگ کے نتیجے میں تیل کی پیداوار یا سپلائی میں تعطل  کے واقعات۔۔۔اس لیے مشرق وسطیٰ میں  سیاسی کشیدگی  کی وجہ سے بھی تیل کی قیمتوں   اضافہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا    تیل کی رسد (سپلائی)  اور طلب میں کسی تبدیلی کے بغیر بھی صرف  تعطل کے خدشات سے بھی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جیسے ہی حالات بہتر ہوتے ہیں  تیل کی قیمتیں کم ہو کر  سابقہ قیمت یا حقیقی قیمت پر بحال ہو جاتی ہے۔  مثال کے طور پر فروری  2012 میں یہودی ریاست اور امریکہ کی ایران کے ساتھ جنگ  کے بیانات سے تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں تھیں،فوربز میگزین  نے کہا ہے کہ  "کئی سالوں کے بعد تیل کی قیمتیں اس وقت اعلٰی ترین سطح پر پہنچ گئیں تھی اور  اس کا بڑا سبب  جیو اسٹریٹیجک  معاملات تھے جب ایران کے معاملے کو عسکری  طریقے سے حل کرنے کی بات کی گئی "(ایران پر حملے سے امریکہ کو کساد بازاری کا سامنا ہو گا " فوربز  فروری 2012 )۔

 

3-قیاس آرائیاں اور اقتصادی اعداد وشمار سے فائدہ اٹھا نا:

تیل کے درآمد یا بر آمد سے  تعلق والے  بعض ممالک   کے اقتصادیات کے بارے میں برے اعداو وشمار جو تیل  درآمد یا برآمد کرتے ہیں جیسا کہ امریکہ یا چین،  تیل کی قیمتوں  کی کمی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ،قطع نظر اس بات کے کہ طلب اور رسد میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔  اس حالت میں مارکیٹ  اقتصادی  ترقی میں کمی کے حوالے سے خوف  کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ سمجھنے لگتی ہے کہ تیل کے استعمال میں لازمی کمی لازمی ہوگی جس کے نتیجے میں اس کی قیمت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یو ں بیوپاری  تیل کی قیمتوں میں متوقع کمی یا اضافے کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں اور اس طرح  تیل کی قیمت طلب و رسد کی کمی بیشی کی وجہ متاثر ہوتی ہے۔

اقتصادی اعداد وشمار اور قیاس آرائیوں کا انحصار   تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک جیسے روس،کنیڈا اور سعودی عرب ۔۔۔ ، تیل در آمد کرنے والے ممالک جیسے چین ،چاپان  وغیرہ ،  تیل کی ملٹی نیشنل کمپنیاں جیسے ایکزون، بی پی وغیرہ  اورتیل کے کار ٹل  جیسے او پیک ، حصہ دار کے نام سے تیل کے مشہور تاجر وں پر  ہوتا ہے۔  ان میں سے ہر گروپ تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہو نے کی طاقت رکھتا ہے، خواہ تیل کی رسد یا طلب پر ہو اثر انداز ہو کر  یا قیاس آرائیوں کے ذریعے ۔  بحران کے شکار ممالک  کے  اعدادو شمار اور ان کے متعلق قیاس آرائیاں  تیل کی قیمتوں پر  زبردست طریقے سے اثر انداز ہوتی ہیں۔

 

دوسرا: سیاسی عوامل کے حصول کے لئے  اقتصادی عوامل کو متحرک کرنا:

1-شیل آئل کا مسئلہ:

امریکہ  نے زیر زمین چٹانوں کو توڑ کر تیل نکالنے (شیل آئل) کے سبب سب سے زیادہ تیل بر آمد کرنے میں سعودی عرب اور روس پر بھی سبقت حاصل کر لی ہے۔ 2014 کی گرمیوں میں "بینک آف امریکہ" نے کہا کہ امریکہ اس سا ل بھی  دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک رہے گا۔ وہ شیل آئل  نکالنے میں سعودی عرب اور روس سے آگے نکل گیا ہے۔اس سے ملک کی معیشت  میں زندگی آئے گی۔مائع اور اس کو قدرتی گیس سے الگ کرنے کے ساتھ ساتھ  امریکہ کی جانب سے  خام تیل کی پیداوار  بھی اس سال دوسرے ممالک سے زیادہ ہے۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں  یومیہ پیداوار 11 ملین بیرل سے زیادہ  تھی("امریکہ کو سعودی عرب کو پیچھے چھوڑنے کے بعد سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک کے طور دیکھا جاتا ہے"بلوم برگ جون 2014 )۔

امریکہ میں شیل گیس اور آئل کا انقلاب  تیل کی پیداوار میں اضافے کا سبب ہے کہ اس کی پیداوارجو 2011 میں5.5  ملین بیرل یومیہ تھی  اب بڑھ کر 10 ملین  بیرل یومیہ ہو چکی ہے جو اس کی زیادہ تر ضروریات  کو پورا کرتی ہے ۔ اس لیے سعودی عرب سے اس کی در آمد کم ہو کر تقریبا آدھی ہو گئی جو کہ 8 لاکھ 78 ہزار بیرل روزانہ ہے جبکہ پہلے یہ1.32ملین بیرل روزانہ تھی۔

لیکن شیل آئل میں یہ مشکل ہے کہ اس کو نکالنے میں خرچہ بہت  زیادہ ہے جو 75 ڈالر فی بیرل تک پہنچ جاتا ہے  جبکہ قدرتی آئل کا خرچہ  7 ڈالر فی بیرل سے زیادہ نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ  شیل آئل پیدا کرنے والے ممالک اوران  کے سر خیل امریکہ کے لیے   پٹرول  کی قیمت  خرچے سے کم ہو نا تباہ کن ہو گا۔۔۔

2-تیل کی قیمتوں میں کمی   کا موضوع اقتصادی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ مد مقابل  ریاستوں  کو سزا دینے کے حصے کے طور پر ہے:

دو بین الاقوامی مسائل ایسے ہیں  جو دنیا کے لیے اثر اور اہمیت رکھتے ہیں:

ایران کے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات اور روس کی جانب سے کریمیا پر قبضہ،یہ دو ریاستیں اپنی بجٹ کے بڑے حصے میں  تیل کی بر آمدات پر انحصار کرتی ہیں۔اچانک اس کی قیمت میں آدھی تک کمی  یقیناً مذکورہ دو مسائل کے بارے میں ان کی پالیسی پر اثر انداز ہو گا۔ روس کے بجٹ میں  تیل اور گیس  یعنی انرجی کا حصہ 50 فیصدکی حد تک ہے بلکہ بعض اندازوں کے مطابق اس سے بھی زیادہ۔ یوں  روس کو اپنی معیشت کو اعتدال پر رکھنے کے لیے  اس بات کی ضرورت ہے کہ تیل کی قیمت 105 ڈالر  فی بیرل ہو۔

جبکہ ایران کی بجٹ میں تیل کا حصہ اس سے بھی زیادہ ہے ۔۔۔یہ بجٹ کے 80 فیصدسے بھی زیادہ تک پہنچ جاتا ہے۔ ایران سمجھتا  ہے کہ تیل کی قیمت 130 ڈالر  فی بیرل سے زیادہ ہو نی چاہیے تا کہ اپنی اندرونی  منصوبوں کو پروگرام کے مطابق جاری رکھے اور خطے میں اپنے کارندوں کی پشت پناہی کو بھی برقرار رکھ سکے۔ اس لیے پیٹرول کی قیمت میں اس قدر کمی اس کے بجٹ کو متاثر کرے گا۔

 

تیسرا : اوپر ذکر کیے گئے اسباب  کو پرکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے :

1-سیاسی مقصد سے خالی اقتصادی عوامل:

ا-طلب اور رسد   میں حالیہ  برسوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی  اور انتہائی معمولی تبدیلی سے اس طرح اچانک  کمی نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ  گرمیوں تک  تیل کی بین الاقوامی  قیمت  تقریبا 106 ڈالر  (وسٹ ٹکساس خام)فی بیرل تھی۔ یہ قیمت تقریبا چار سال سے تھی لیکن تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی   کی مکمل طور پر اقتصادی توجیہ ممکن نہیں۔ 2004 سے  ایک عشرے تک تیل کی یومیہ پیداوار 80 ملین بیرل سے زیادہ تھی۔2013 کے اختتام پر عالمی منڈی میں تیل کی پیداوار86.6  ملین بیرل  یومیہ تھی،پھر پیداوار اس سے بھی زیادہ ہوئی  اور 2013 کے آخر اور  2014 کی چو تھی  سہ ماہی میں  طلب بڑھ گئی  اور طلب اور رسد  قریب قریب ہو گئی۔ انٹر نیشنل انرجی ایجنسی کی طرف سے جاری کیے جانے والے  اعداد و شمار کے مطابق  2014 کی تیسری سہ ماہی  میں رسد اوسطا93.74 ملین بیرل تک پہنچ گئی جبکہ طلب 93.08  ملین بیرل تھی ( مصدر : انٹر نیشنل انرجی ایجنسی کی وئب سائٹ)۔  چارسالوں میں یہ فرق انتہائی معمولی تھا جس سے تدریجی طور چند ایک ڈالر کی کمی تو ہو سکتی تھی  لیکن پانچ مہینے کے اندر  نصف تک گرنا ممکن نہیں سوائے اس کہ  اقتصادی  عوامل بنیادی سبب نہ ہوں۔

ب-افرا تفری اور عسکری ہنگا مہ آرائی بھی کوئی نئی نہیں بلکہ یہ بھی  گزشتہ چار سالوں سے برقرار ہے۔۔۔ خطے کے بحران اچانک اس قدر شدید نہیں ہوئے جو تیل کی قیمتوں میں  اس  اچانک کمی کا سبب ہوں۔ ہنگامے اور پریشانی تو خطے میں 2011 سے ہیں اور اب بھی  اسی طرح جاری ہیں اس میں اچانک کچھ نیا نہیں ہوا۔

یہ بھی یاد رہے کہ در اصل  خطے اور دنیا میں سیاسی بحرانوں  کے سائے میں تیل کی قیمتوں اضافہ ہو تا ہے  جیسا کہ 1973 سے  مختلف حادثات  کے وقت ہوا۔ اب یوکرائن،شام،عراق اور لیبیا میں زبردست بحرانوں کا سامنا ہے  تو پھر ہونا تو یہ  چاہیے تھا کہ  بیرل کی قیمت بڑھ  120 ڈالر بلکہ  بعض توقعات کے مطابق 150 ڈالرتک پہنچ جاتی۔  اگر اس کے پیچھے صرف  اقتصادی اسباب اور عوامل ہو تے تو قیمتوں میں یہ غیر معمولی کمی  نہ ہوتی  کیونکہ بحران اور جنگیں  سپلائی لائنوں کو متاثر کر تی ہیں  اس لیے رسد میں کمی واقع ہوتی ہے  جس سے قیمتیں کم نہیں زیادہ ہو جاتی ہیں،اس لیے تن تنہا اقتصادی عوامل نہیں  بلکہ دوسرے اسباب بھی ہیں۔

ج-قیاس آرائیوں اور اقتصادی اعداد وشمار سے فائدہ اٹھا نا۔ 2008 سے جب اقتصادی بحران شدت اختیار کر نے  اور معاملات بگڑنے پر بھی   اس قدر شدت نہیں آئی بلکہ  اس میں بہتری دیکھ نے میں آئی تھی ،اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے  صرف اقتصادی عوامل ہی تیل کی قیمتوں میں کمی کا بنیادی سبب نہیں کہ اس  سے  قیمتیں پانچ مہینے پہلے کی نسبت آدھے سے بھی کم ہو جائیں۔

 

2-سیاسی عامل والے کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے  اقتصادی حرکت کے لیے سیاسی عامل:

ا-شیل آئل کا مسئلہ:

شیل آئل کو نکالنے کا خرچہ  70 سے 80 ڈالر  فی بیرل کے درمیان ہے ۔ اس کو نکالنے میں جدید  ترین ٹیکنا لوجی کے استعمال سے  یہ خرچہ کم ہو کر 50 سے 60  ڈالر فی بیرل تک آسکتا ہے ۔I H S   کمپنی (جو کہ تیل تلاش کرنے والی کمپنی ہے) سمجھتی ہے کہ  گزشتہ سال شیل آئل  نکالنے کا خرچہ کم  ہو کر 70 سے 57 ڈالر فی بیرل ہو چکا ہےکیونکہ تیل نکالنے والوں کو جلد سے جلد کنویں کھودنے  اور مزید تیل نکالنے کے  طریقے کا علم ہو گیا ہے  ( "سینٹ بمقا بلہ شیل آئل" اکانومسٹ 6 دسمبر 2014 )۔ اس لیے  تیل کی قیمتوں کا 50  یا 40 ڈالر فی بیرل تک کم ہونے سے    شیل آئل  نکالنا  نقصان کا باعث ہو گا  بلکہ  اگر یہ کمی 60 -70  فی بیرل تک بھی ہوتی  یہ مناسب نہیں تھی کیونکہ   اقتصادی تنا سب کے لیے  خرچ اور قیمت فروخت میں  مناسب فرق درکار ہو تا ہے۔

اس لیے  او پیک  یا سعودیہ کی طرف سے   تیل کی پیداوار میں کمی نہ کر نے کا یہی سبب ہو سکتا ہے۔۔۔یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ امریکہ نے  قدرتی تیل  کی قیمتوں میں اضافہ اور فی بیرل  سو ڈالر سے زیادہ ہو نے پر ہی  شیل آئل سے فائدہ اٹھا نا شروع کیا  اس لیے قدرتی  تیل کی قیمتوں میں کمی   شیل آئل کی پیداوار  کو جاری نہیں رکھ سکتی ۔

قدرتی تیل کی قیمتیں اس کمی کو برداشت کر سکتی ہیں  کیونکہ  اس پر خرچہ 7 ڈالر فی بیرل سے زیادہ نہیں آتا  جبکہ شیل آئل  پر خرچہ اس سے  دس گنا تک زیادہ ہے ۔اس لیے یہ بات سمجھی جانی چاہیے کہ قدرتی تیل کی قیمتوں میں اس کمی کے باوجود یہ منافع بخش ہے جیسا کہ سعودی  وزیر تیل  علی النعیمی نے کہا کہ "اوپیک  اپنی پیداوار میں کمی نہیں کرے گا خواہ  عالمی مارکیٹ میں قدرتی تیل کی قیمتیں 20 ڈالر تک بھی گرجائیں" (الجزیرہ24 دسمبر 2014 )  اور  اس نے یہ وضاحت  بھی کی کہ " کئی سالوں  تک اوپیک اور سعودیہ  کے حصے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ،وہ 30 ملین بیرل یومیہ کی حد میں ہیں جس میں 6.9  ملین بیرل  سعودیہ کی پیداوار ہےجبکہ اوپیک سے باہر دوسرے ممالک   پیداوار میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں"۔

یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ موجودہ شاہ عبد اللہ کی قیادت میں سعودی حکومت  کے انگریز کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں ۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے پیداوار میں کمی نہ کرنے اور اس مقصد کے لیے اوپیک پر دباو نہ ڈالنا   انگریز کی پایسی کے ضمن میں ہے جس کے لیے اس نے سعودیہ کو اپنا ہم نوا بنا کر امریکہ  کے شیل آئل کی پیداوار کو متاثر کر رہا ہے۔

ب-جب امریکہ اوپیک کے اس رویے کو سمجھ گیا جو اس  کے سب سے بڑے حصہ دار سعودیہ کی وجہ سے ہے ،خاص کر تیل بر آمد  کر نے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے  جب 27 نومبر 2014 کو اپنے ہیڈ کواٹر  ویانا میں اپنا اجلاس منعقد  کیا، جہاں تنظیم کے اراکین   نےقیمتوں کو سہارا دینے کے لیے  پیداوار میں کمی پر اتفاق نہیں کیا کیونکہ سعودیہ نے پیداوار میں کمی سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ  کچھ عرصے تک وہ  قیمتوں میں اس کمی کو برداشت کر سکتے ہیں۔ جب  امریکہ یہ بھانپ گیا تو  جان کیری نے 9 نومبر 2014کو سعودیہ کا دورہ کیا اور امریکی وزیر خاجہ نے   اپنے اس   اچانک دورے میں سعودی فرمانروا سے ان کی گرمیوں کی رہائش گا ہ پر  ملاقات کی ۔ اگرچہ ذرائع ابلاغ نے  اس دورے کا   تیل کے علاوہ کوئی اور مقصد بیان کیا مگر قرائن  اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ  دورے کا موضوع تیل اور اس کی قیمتیں تھیں۔۔۔اسی دورے کے بعد ہی  اس  سال  ستمبر کے مہینے کے باقی دنوں میں سعودیہ نے  تیل کی پیداوار میں ایک لاکھ  بیرل یومیہ کا اضافہ کرنا شروع کردیا  دیا  جو نومبر کے مہینے کے  پہلے ہی ہفتے تک جاری رہا ۔ سعودیہ نے  تیل ( عرب لائٹ ) کی قیمت میں 45 سنٹ فی بیرل کمی کر دی  جس سے  تیل کی قیمتیں تیزی سے 80 ڈالر فی بیرل سے نیچے آ گئی۔  امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلٰی عہدہ دار نے  نے  کہا کہ  اس ملاقات میں تیل کی عالمی رسد پر بات ہوئی تھی۔

جب  کیری پیداوار میں کمی پر سعودیہ کو قائل  نہ کر سکا تو  دوسرے پہلو سے قیمتوں میں کمی کی بات کی کیونکہ یہ کمی روس پر اثر انداز ہو گی جس نے کریمیا پر قبضہ کر رکھا ہے اور  ایران کو متاثر کرے گی  جس کے ساتھ ایٹمی موضوع پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس نے یہ دیکھا کہ ان دو  کے ساتھ اس سلوک سے سعودیہ بھی خوش ہو گا۔ لیکن اس نے یہ کہا کہ یہ کمی 80  ڈالر فی بیرل کی حد تک ہو اور ایسا لگتا ہے کہ سعودیہ نے بھی اس  بات کو قبول کیا  یا بظاہر قبولیت کا اظہار کیا  کیونکہ برطانوی میگزین ٹائم نے16 اکتوبر 2014  کو کہا کہ "سعودیہ نے  محتاط انداز سے ایک موقف اختیار کیا کہ  قیمتوں کو 80 ڈالر کے قریب رکھا جائے گا  تاکہ شیل آئل کونکالنے  کی اقتصادی طور پر گنجائش نہ ہو،جس نے امریکہ کو دوبارہ  سعودیہ سے تیل درآمد کرنے اور شیل آئل کو  مارکیٹ   سےباہر کرنے پر مجبور کیا"۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ انگریز  امریکہ کے مقابلے سعودیہ کی پشت پناہی کر رہا تھا  کیونکہ برطانیہ اپنی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے  اور  مالیاتی بحران  سے نجات کے لیے سر گرم تھا  خواہ یہ دوسروں  کے خرچے اور کسی پر ضرب لگانے کے ذریعے سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات مشہور و معروف ہے کہ  عبد اللہ آل سعود کی موجودہ حکومت  انگریز کا ہی خوشہ چین ہے۔

امریکہ نے یہ ظاہر کر دیا کہ اس نے سعودیہ کو کمی پر  مطمئن  کر لیا ۔ اسی طرح  یورپ کے سامنے یہ ظاہر کیا کہ  ان کی طرف سے کریمیا پر قبضے پر روس پر دباو نہ ڈالنے کا الزام غلط ہے اور یہ بھی کہ وہ  ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران پر دباو نہیں ڈال رہا ہے۔۔۔امریکہ نے یہ دکھا یا کہ یہ الزام درست نہیں  اس کی دلیل  تیل کی قیمتوں میں کمی کی موافقت  سے دونوں ریاستوں  کا بجٹ متاثر ہوا۔۔۔اس کے ساتھ روس کے بعض  مخالفین  کو بھی خوش کیا۔ اس سے پہلے مارچ  میں ارب پتی جورج سوروس نے امریکی انتظامیہ کو تجویز دی تھی کہ  کریمیا پر قبضہ کر نے پر  روس کو سبق سکھا نے کے لیے تیل کی قیمتوں میں کمی کی جاسکتی ہے۔۔۔یو  ں کیری نے اس کمی پر   یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ  وہ اس کا حامی ہے  لیکن ایک خاص حد تک ،پھر اس سے یورپ اور روس مخالفین کو دھوکہ دیتا ہے  کہ وہ کریمیا پر  قبضہ کرنے پر روس کے خلاف ہے مگر حقیقت یہ نہیں۔۔۔

لیکن پہلی بار  امریکہ اپنے آپ کو ناکام دیکھتا ہے ۔ ہوائیں اس کی کشتی کے مخالف چلی ہیں  کیونکہ چند مہینوں کے اندر ہی تیل کی قیمتیں کم ہو کر 60 ڈالر فی بیرل تک گر گئیں۔ سعودیہ نے پیداوار میں کمی نہ کرنے پر اصرار کیا  بلکہ پیداوار میں  اضافہ کیا اور اس عمل نے تیل کی مارکیٹ میں رد عمل کوجنم دیا ۔

 

چوتھا : موجودہ توقعات :

1-قیمتوں کی اپنی پرانی جگہ پر بحالی میں  مشکل کا سامنا ہے

2-لیکن کمی کو جاری رکھنے سے بھی دونوں اطراف  متاثر ہوں گے

ا-سعودیہ،  جس کے پیچھے  یورپ  اور خاص  طور پر برطانیہ ہے  ،  کو  اپنی 860 ارب  ریال کی بجٹ میں 145 ارب  ریال خسارے کا سامنا ہے  جو اخراجات کے لیے درکار تھے،یعنی 40 ارب ڈالر  خسارہ اوریہ پٹرول کی قیمتیں کم ہو نے کی وجہ سے  ہوا۔ یہ  خسارہ اس کے اندرونی منصوبوں کو متاثر کرے گا ۔ اس سے بھی اہم یہ کہ  سعودیہ کے لیے برطانیہ سے درآمدات  خصوصا ً اسلحے پر اثر پڑے گا  کیونکہ سعودیہ کو بجٹ میں کمی   اور خسارے کا سامنا ہے۔۔برطانیہ سے سعودیہ کے لیے در آمدات  2012 میں 7.5  ارب پاونڈ اسٹرلنگ تک پہنچ گئی تھیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے  سعودیہ کی معیشت متاثر ہو گی ۔۔۔خاص کر اس کی بجٹ کے 89 فیصدکا دار ومدار تیل کے بر آمدات پر ہے۔  اس لیے قیمتوں میں کمی کا بر قرار رہنا  اس پہلو سے اثر انداز ہو گا۔۔۔

ب-دوسرے پہلو سے قیمتوں میں کمی کا جاری رہنا  امریکہ کی جانب سے شیل آئل کی پیداوار کو متاثر کر ے گا۔ یہ اس لیے کہ  گزشتہ چند سالوں میں  قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے  امریکہ میں شیل آئل  نکالنے پر سرمایہ کاری کی گئی اور وہ  منافع بخش ثابت ہوا تو 2008 سے  اس میں  4 ملین  بیرل  تیل یومیہ کا اضافہ کیا گیا  اور یہ  تیل کی بین الاقوامی پیداوار   میں ایک موثر حصہ ہے۔

اگر چہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ہی  امریکہ میں معاشی سر گرمیاں تیز ہو گئیں  لیکن  شیل آئل  کی تجارت  سے محروم ہونا اس کے لیے زیادہ بھاری  ہے۔  امریکہ  یورپ،سعودیہ اور اوپیک کو آسانی سے اپنی سرمایہ  کاری کو  تباہ کرنے نہیں دے گا  ۔

3-امریکہ   کو یاتو شیل آئل  کی پیداوار کے خرچے کو کم کر نے کے لیے  جدید ٹیکنالوجی  کے اسالیب  پر اعتماد کر نا پڑے گا  تاکہ اس کی قیمت بھی  تیل کی موجودہ قیمتوں کے پیمانے پر آجا ئے۔ یہ  آسان کام نہیں  خاص کر جب   تیل کی قیمتوں میں یہ کمی کا سلسلہ جاری رہے۔ لگ بھی ایسا رہا ہے کہ اس کی قیمتوں میں یہ کمی فی الحال نہیں رکے گی۔  آج 7 جنوری 2015 کی خبر ہے کہ  یہ 50 ڈالر  فی بیرل سے بھی کم ہو چکی ہے۔۔۔یا پھر امریکہ  براہ راست سعودیہ کی طرف متوجہ ہو گا  اور اس کے  لیے کچھ بحران پیدا کر دے گا  اور اس کے بجٹ خسارے کو بڑھا دے گا جس سے مجبور ہو کر  وہ پیداوار میں کمی کرے گا جس کے نتیجے میں  قیمت میں اضافہ ہو گا۔۔۔یا پھر  یمن اور لیبیا میں  برطانیہ کے لیے پیدا کیے گئے بحرانوں میں کمی کرے گا  تا کہ اس کے بدلے  برطانیہ  سعودیہ پر پیداوار میں کمی کے لیے دباو ڈالے  پھر  اوپیک بھی اس میں کمی کرے یوں  تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں۔۔۔چونکہ ان تینوں میں سے کسی بھی حل کے لیے منصوبوں  بلکہ سازشوں کی ضرورت ہے ۔۔۔اس لیے تیل کی قیمتوں میں کمی کا بحران   قابل دید رہے گا۔ یہ طاقتوروں کی رسہ کشی  یا  سرمایہ دارانہ طریقے پر کچھ لو اور کچھ دو کی سوادابازی  سے   کم یا زیادہ ہوتی رہیں گی۔۔۔

پانچواں : یقیناً  عالمی سیاست غیر مستحکم اور پریشان کن ہے،ا یک بحران سے چھٹکارہ پانے سے پہلے ایک اور بحران کا سامنا ہو تا ہے۔ یہ سب دنیا پر مسلط  سرمایہ دارانہ نظام کی کرپشن ہے  جو اپنے  گود میں ہی عالمی بحرانوں  کو پالتا ہے ۔ اسی سے عالمی نظام   عمومی طور پر  اور لوگوں کی زندگی  خاص طور پر  تنگ ہو جاتی ہے۔۔۔  جب تک یہ نظام دنیا میں قائم رہے گا یہ کرپشن،یہ تباہی،یہ بد بختی اور پریشان حالی  باقی رہے گا۔ یہ بحران اس ربانی نظام کو  نافذ کیے بغیر  حل نہیں ہوں گے جس کو اللہ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے  جو کہ خلافت راشدہ کا نظام ہے  جس کے آغوش میں ہی عدل اور اطمینان اور اس کے سائے میں  ہی خوشحالی ہے

﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا

"وہ کہتے ہیں کہ  وہ کب ہے ؟کہہ دیجئے  شاید قریب ہی ہوگا"(الاسراء:51)

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک