الثلاثاء، 17 ربيع الأول 1447| 2025/09/09
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پریس ریلیز

 

سیلاب کا مسئلہ ہو یا کشمیر کا، معیشت کا معاملہ ہو یا ہمارے دریاؤں پر ہندو ریاست کا قبضہ، آخر کب تک ہم 'بین الاقوامی برادری' کی آس پر مسائل کے حل کا انتظار کریں گے؟

 

خیبر پختونخوا کے شمالی علاقوں، خصوصاً بونیر وغیرہ میں شدید سیلابی صورتحال کے بعد، جس میں سینکڑوں جانوں کے نقصان کے علاوہ گھر، مویشی، اسباب اور گاڑیاں پانی میں بہہ گئیں، اب دیگر سیلابی ریلے پنجاب سے گزر رہے ہیں، جس کے بعد یہ سندھ کا رخ کریں گے۔ اس سے قبل کراچی بھی شدید بارشوں کی زد میں آیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خیر و عافیت کا معاملہ کرے، کیونکہ مزید بارشوں کی پیش گوئی کے علاوہ ہمارے حکمرانوں نے اس پورے معاملے کو بین الاقوامی برادری کی آس پر چھوڑ کر اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ وہ مسلسل اس پورے معاملے کو اس انداز سے پیش کر رہے ہیں کہ یہ ایسی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جن میں ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں اور اگر 'بین الاقوامی برادری' آگے نہ آئی، تو وہ جائز طور پر مکمل طور پر بے بس ہوں گے، جیسے کہ اپنے عوام کے جان و مال کی حفاظت ان کی نہیں بلکہ انٹرنیشنل آرڈر کی ذمہ داری ہے!

 

ان حکمرانوں کے لیے کروڑوں لوگوں کی یہ حالتِ زار بذاتِ خود دنیا بھر سے چندا اور خیرات کے نام پر بھیک جمع کرنے کا ایک اور موقع ہے، جو عملاً ان کی تجوریاں بھرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے پاکستان اوسطاً 1.4 ارب ڈالر سے لے کر 2 ارب ڈالر تک ماحولیاتی فنانس حاصل کر رہا ہے۔ خصوصاً 2020 کے سیلاب کے بعد 2021 میں پاکستان کو چار ارب ڈالر حاصل ہوئے۔ پاکستان موجودہ حاصل ہونے والی رقم سے آٹھ گنا زیادہ کے مطالبات بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھ چکا ہے، جن میں سے ایک ارب ڈالر آئی ایم ایف کی Resilience and Sustainability Facility کے تحت ہے، جس کا مقصد Climate Adaptation and Disaster Risk Management ہے۔ 9 جنوری 2023 کو International Conference on Climate Resilient Pakistan کا انعقاد جنیوا میں ہوا، جس میں پاکستان کے آٹھ ارب ڈالر کے مطالبات کے جواب میں اس سے زائد کے وعدے ہوئے، اگرچہ ابھی تک اس کا 20 فیصد بھی حاصل نہیں ہوا۔ پس حکمرانوں نے اس معاملے کے حل کی ذمہ داری اٹھانے کے بجائے بین الاقوامی برادری کے سر ڈال کر خود بری الذمہ ہو گئے، اور حاصل ہونے والی کچھ فیصد رقم کو اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

 

یہ معاملہ صرف سیلاب تک محدود نہیں بلکہ یہ ان حکمرانوں کا مستقل ویژن ہے۔ یہ حکمران اشرافیہ اس امر پر قائل ہے کہ ہمارے مسائل کا حل صرف اور صرف انٹرنیشنل آرڈر کے پاس ہے، جن کی مدد اور رہنمائی کے بغیر ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کی طاقت اور اہلیت نہیں رکھتے۔ ہمارے حکمران اور پالیسی میکرز مغربی پالیسی میکنگ اور مسائل کے حل کو مرعوبیت سے دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ جڑے رہنے کو ترقی، تہذیب اور اعلیٰ پروفیشنلزم کا معیار سمجھتے ہیں، بلکہ اکثریت انہی سے براہِ راست تربیت یافتہ ہے۔ یہ اسی 'ویژن' کا ہی نتیجہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے پاس ہمارے معاملات میں مداخلت کا راستہ مہیا ہے اور وہ ہمارے معاملات کو اپنی پالیسیوں کے تحت ترتیب دینے کا ایجنڈا نافذ کرتے ہیں۔ کشمیر کا معاملہ اقوامِ متحدہ پر چھوڑنا ہو یا سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کو ورلڈ بینک کو آؤٹ سورس کرنا اس ویژن کا شاخسانہ ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہو، ریاستی محاصل کی کمی ہو یا توانائی کا بحران، ہمارے حکمرانوں نے اسی ویژن کے باعث آئی ایم ایف کے ایجنڈے اور ڈکٹیشن کو نافذ کیا۔ اسی ویژن کے باعث مختلف طبقات کے حقوق کا معاملہ اکثر و بیشتر یورپی اور امریکی ایجنڈے کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے، جس پر پاکستان کے عوام مسلسل سراپا احتجاج رہتے ہیں۔ پاکستان کے اہم ترین اداروں کے اندر مداخلت کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات کے نام پر ورلڈ بینک یا ایشیائی ترقیاتی بینک کی مجوزہ اصلاحات نافذ کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی فوجی اور جنگی پالیسیاں ہوں، بارڈر تنازعات یا افغان پالیسی، پینٹاگون، سینٹ کام اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ براہِ راست ان کی نگرانی کرتے ہیں، جبکہ یہ حکمران اپنے آپ کو مسلسل ان کے ساتھ Align رکھتے ہیں۔ اسی ویژن کے باعث ہماری خودمختاری انٹرنیشنل آرڈر کو گروی ہو چکی ہے۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ اس غلامانہ ویژن کے باعث ہمارے مسائل کو حل کرنے میں اپنی ناکامی کو یہ حکمران 'اللہ کی مرضی' قرار دے کر اپنی کھال بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کاش کہ ان حکمرانوں میں کم از کم اتنی اخلاقی جرات ہوتی کہ اپنی ناکامی کو قبول کرتے!

 

اسلام کی رو سے خلیفہ لوگوں کے تمام امور کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے اور وہ مسلمانوں کا کوئی بھی معاملہ کفر اتھارٹی کے حوالے نہیں کر سکتا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:

 

﴿وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا

 

"اور اللہ کبھی بھی کافروں کو مؤمنوں پر غالب آنے کا کوئی راستہ (حقیقی سبیل) نہیں دے گا۔" (النساء: 141)

 

اس آیت میں طلب موجود ہے کہ مسلمان کفار کو اپنے کسی بھی معاملے میں اختیار نہ دیں، اور ایسا کرنا صریحاً حرام ہے۔ مسلمانوں کا خلیفہ اس غلامانہ ویژن کو مسترد کر کے مسلمانوں کے تمام امور کی براہِ راست ذمہ داری اٹھائے گا۔ ہمارے موجودہ بجٹ دستاویز کے مطابق پاکستان 10 ہزار ارب روپے کا سود ادا کر رہا ہے۔ خلیفہ اس Fiscal Space کو ان حرام اور ناجائز جگہوں پر استعمال سے روک کر باآسانی سیلاب اور دیگر معاملات میں مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کے طویل المعیاد منصوبے مکمل کر سکتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں اور اس غلامانہ ویژن سے جان چھڑائے بغیر پاکستان کے مسلمانوں کی نجات کی کوئی صورت موجود نہیں۔

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

 

 

ہجری تاریخ :10 من ربيع الاول 1447هـ
عیسوی تاریخ : منگل, 02 ستمبر 2025م

حزب التحرير
ولایہ پاکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک