بسم الله الرحمن الرحيم
پریس ریلیز
طوفانی بارشوں اور سیلاب کے بعد کی صورتحال نے ایک بار پھر یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ مسلمانوں کو ایک نگہبان خلیفہ کی ضرورت ہے
26 جون کے بعد سے خیبر پختونخواہ، پنجاب اور کراچی کے مختلف علاقوں میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں اب تک ساڑھے چھ سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ ہزاروں مکانات پانی کی نذر ہو گئے، لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی، گھریلو سامان اور گاڑیاں بہہ گئیں۔ ہماری بہنیں اور بیٹیاں، جو عفت و عصمت کی علامت ہیں، اپنے گھروں اور چار دیواری سے محروم ہو کر کھلے آسمان تلے آگئیں۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان اپنے تمام مسلمان بہن بھائیوں کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ ہم اس تکلیف پر صبر کرتے ہیں اور دیگر مسلمانوں کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا هَمٍّ وَلَا حُزْنٍ وَلَا أَذًى وَلَا غَمٍّ حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ»
"کسی مسلمان کو کوئی تھکان، بیماری، غم، دکھ، تکلیف یا پریشانی نہیں پہنچتی، حتیٰ کہ وہ کانٹا بھی جو اسے چبھتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔" (بخاری و مسلم)
لیکن اس موقع پر ہمارے حکمرانوں کی نااہلی، غفلت اور بے پرواہی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان کو سیلابی آفت نے گھیر لیا ہو۔ 2010 اور 2022 کے تباہ کن سیلاب سب کے سامنے ہیں۔ صرف 2022 کے سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ متاثر ہوا تھا اور تین کروڑ تیس لاکھ افراد مشکلات کا شکار ہوئے تھے۔ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ یہاں 9 ہزار سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں، جو قطب شمالی و جنوبی کے علاوہ دنیا میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کے تیز رفتار پگھلاؤ نے سیلابوں کے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
تاہم ہمارے حکمران ہمیشہ کی طرح صرف میڈیا کوریج کے چند دنوں تک فعال نظر آتے ہیں اور پھر سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، خیبر پختونخوا حکومت نے حالیہ سیلاب کے لیے محض 80 کروڑ روپے پورے صوبے کے لیے اور ضلع بونیر کے لیے صرف 50 کروڑ روپے مختص کیے، جو نہ تو انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے کافی ہیں اور نہ ہی متاثرہ عوام کی بنیادی بحالی کے لیے۔ ان جمہوری حکمرانوں کی سیاست عوامی خدمت کے بجائے محض میڈیا مینجمنٹ تک محدود ہے۔
اس کے برعکس، خلافت میں خلیفہ پوری امت کی نگہبانی کا ذمہ دار ہوتا ہے، اور وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے بھی جواب دہ ہے اور امت کے احتساب کے دائرے میں بھی۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»
"تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ امام (خلیفہ) نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔" (بخاری و مسلم)
اگر آج خلافت قائم ہوتی تو وہ اپنی کوتاہیوں کو "کلاؤڈ برسٹ" جیسی اصطلاحات کے پیچھے چھپانے کے بجائے ادارہ جاتی اور نظامی سطح پر انفراسٹرکچر قائم کرتی، طویل المیعاد منصوبہ بندی کرتی اور نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھاتی۔ لیکن پاکستان کی پے در پے آنے والی حکومتوں نے گزشتہ سات دہائیوں سے اس پہلو کو نظرانداز کیا ہے کیونکہ ان کی ترجیحات ہمیشہ استعماری طاقتوں کے مفادات کے گرد گھومتی رہی ہیں۔ عوام کے مسائل کو صرف اپنی حکومت بچانے کی حد تک سنجیدہ لیا جاتا ہے۔
اسلامی خلافت میں ایک مسلمان کی جان کی حرمت ہے اور اس کی جان کے نقصان میں انسانی کوتاہی یا غفلت پر فدیہ ادا کیا جاتا ہے، لیکن جمہوری نظام میں انسان کی قدر صرف اس کے سیاسی اثر و رسوخ اور اقتدار کے کھیل پر اثرانداز ہونے کی طاقت تک محدود ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام بار بار مسلمانوں کو ذلت، محرومی اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں دے رہا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس نظام کو دفن کر کے خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ پاکستان کے مسلمان اور ہماری افواج مل کر اس فرسودہ نظام کا خاتمہ کریں اور خلافت کے قیام کا اعلان کریں۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
ہجری تاریخ :27 من صـفر الخير 1447هـ
عیسوی تاریخ : جمعرات, 21 اگست 2025م
حزب التحرير
ولایہ پاکستان