الأحد، 23 صَفر 1447| 2025/08/17
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو بدلنے کے لیے پالیسی ربیع الاول 1434،بمطابق جنوری 2013

 

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" بلوچستان کی پر تشدد بے چینی پر جاری کی ہے جس میں سینکڑوں مسلمان مارے جاچکے ہیں۔

 

ا)مقدمہ:بلوچستان اور اس کے لوگ امت مسلمہ اور پاکستان کا ایسا تاج ہیں جن کا خیال نہیں رکھا گیا

بلوچستان اور اس کے لوگ امت مسلمہ کا تاج ہیں۔اس کے لوگوں نے اس طرح اسلام قبول کیا کہ پورا صوبہ خلافت راشدہ کا حصہ بن گیا۔اس کے لوگ اسلام پر بہت مضبوطی سے قائم اور اس سے مخلص ہیں۔انھوں نے برطانوی استعمار کے حملے کی زبردست مزاحمت کی تھی۔یہ عزت دار اور شاندارلوگ ہیں جو آج بھی اسلام سے محبت کرتے ہیں۔ بلوچستان کی سرزمین پاکستان کے کل رقبے کا چالیس فیصد سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کی آبادی تقریباًسات فیصد ہے۔یہ افغانستان کی سرحد پر واقع ہے جس کی وجہ سے افغانستان،وسطی ایشیأ اور اس سے بھی آگے تک کے علاقوں میں استحکام کے لیے اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔بلوچستان میں گوادار کی بندر گاہ ہے جس کی وجہ سے ہماری بحری قوت اور استعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔بلوچستان میں اس قدر گیس موجود ہے کہ وہ پاکستان کی ضرورت کا ایک تہائی گیس فراہم کرتا ہے۔سیندک کی کانوں سے یومیہ پندرہ ہزار ٹن تانبہ کچی دھات حاصل ہوتی ہے اور اگر ریکوڈک کی کانوں کو بھی بہتر طریقے سے سنبھالا جائے تو پاکستان دنیا کا صف اول کا تانبے کی پیداوار دینے والاملک بن جائے ۔اسی طرح دنیا کے صف اول کا سونے کی پیداوار دینے والا ملک بھی بن جائے کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 21ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔لیکن اس کے باوجود بلوچستان ان تمام چیزوں سے محروم رہا ہے جس کو اسلام نے بنیادی ضرورت قرار دیا ہے یعنی خوراک،لباس اور رہائش۔بلوچستان ان چیزوں سے بھی محروم رہا ہے جن کو فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے جیسے سڑکوں ،صحت اور تعلیم کی سہولت۔ان تمام باتوں سے بڑھ کر بلوچستان کے باشندے بہت پریشانیوں کا شکار رہے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک،نسل یا زبان سے ہو۔انھیں تسلسل سے قتل کیا جارہا ہے۔اس لاپرواہی کا سلسلہ برطانوی راج کے حملے کے وقت سے جاری ہے۔ برطانیہ نے صرف اپنے اقتدار کے مرکز میں ترقیاتی کام کیے لیکن باقی پورے صوبے کو نظر انداز کردیا تا کہ وہ محروم،مفلوق الحال لوگوں کو اپنی طاقت کے بل بوتے پرقابو میں رکھ سکے۔

 

ب)سیاسی ا ہمیت: بلوچستان کی بدحالی کی وجہ استعماری طاقتوں کا منصوبہ ہے

امریکہ کا بلوچستان کے لیے منصوبہ بالکل وہی ہے جو برطانیہ کا تھا یعنی طاقت کے ذریعے ریاست کی رٹ کو قائم کرنا،وسائل کو لوٹنا اور مقامی آبادی کو محروم اور بد حال رکھنا۔امریکہ اپنے اس منصوبے کو پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت میں موجود غداروں کے ذریعے کئی دہائیوں سے نافذ کررہا ہے۔

ب1۔امریکہ پاکستان میں جمہوری نظام کی حمائت کرتا ہے جبکہ یہ نظام ریاست میں موجود چھوٹے گروہوں سے لاپرواہی برتتا ہے۔جمہوریت کا تصور ہی اکثریت کی بات کرتا ہے لہذا چھوٹے گروہ چاہے وہ زبان کی بنیاد پر ہوں یا رنگ،نسل اور مذہب،ان سے متعلق لاپرواہی ہی برتی جاتی ہے۔جمہوریت اس بات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ چھوٹے گروہ قومیت اور فرقے کی بنیاد پر اکٹھے ہوںتا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرسکیں ۔اور پھر امریکہ استعمار کی ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' کی پالیسی کے تحت قوم پرستی اور فرقہ واریت کو سیاسی اور مالی مدد فراہم کر کے ہوا دیتا ہے ۔

ب2۔امریکہ کے بلوچستان میں معاشی مفادات بھی ہیں۔مشرف کی حکومت کے دوران امریکی صدر نے اس امریکی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ غیر ملکی کمپنیاں بلوچستان کے وسیع خزانوں کو نکالیں۔اور ان کمپنیوں نے کیانی زرداری کے دور میں اپنی سرگرمیوں کو مزید تیز کردیا ہے۔

ب3۔امریکہ کے بلوچستان اور ہمسائیہ افغانستان میںسٹریٹیجک مفادات ہیں۔امریکہ ہر صورت افغانستان میں 2015کے بعد بھی اپنی فوجوں کی موجودگی کا خواہش مند ہے اگرچہ وہ اس وقت اس کے برخلاف بات کہتا ہے۔امریکہ نے بلوچستان کے دارلحکومت ،کوئٹہ،سے افغانستان کے لیے کٹھ پتلی صدر،کرزئی کو ،ملازمت کے لیے چنا تھا ۔ اس نے چمن کی سرحد پر امریکی میرینز کو بٹھایا ہوا ہے۔اس کی اس خطے میں انٹیلی جنس موجود ہے اور اس کی افواج نے بلوچستان میں موجود فوجی اڈوں کو اپنی ائر فورس اور ڈرونز کے لیے استعمال کیا ہے۔اس کا ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک بھی اس خطے میں موجود ہے جوکیانی اور زرداری حکومت کی اعانت سے اس خطے میں قاتلانہ حملوں اور بم دھماکوں کی نگرانی کرتا ہے۔

ب4۔بلوچستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کو افواج پاکستان کی مدد و اعانت درکار ہے۔اس نے صوبے میں فتنے کا ماحول پیدا کیا ہے تا کہ افواج کو مجبوراً اس علاقے میں جانا پڑے۔نتیجتاً، ہماری افواج وہاں پھنس جائیں اور ہمارے لوگ اس فتنے کی آگ میں جلتے رہیں تا کہ امریکہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے مفادات کی تکمیل کرسکے۔

 

د)قانونی ممانعت: بلوچستان کے تحفظ اور خوشحالی سے متعلق

د1۔اسلام جمہوری طرز حکمرانی کا خاتمہ کرے گا جس کے نتیجے میں بلوچستان کی یہ صورتحال ہوئی ہے۔خلافت کوئی پولیس سٹیٹ نہیں ہوتی جو طاقت کی بنیاد پر اپنے شہریوں پر حکمرانی کرے اور انھیںظلم و ستم،اغوا اور تشدد کا نشانہ بنائے۔ ریاست کے شہریوں کے اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے متعین کردہ حقوق ہیں۔ خلافت بلا امتیاز نسل یا مسلک کے اپنے شہریوں کی وفاداری اس لیے  حاصل کرپاتی ہے کیونکہ جو چیز لوگوں کو سب سے زیادہ عزیز ہے خلافت اس کی بنیاد پر حکمرانی کرتی ہے یعنی اسلام اور خلافت جو کچھ نافذ کرتی ہے اس کا ثبوت قرآن و سنت سے ثابت کرتی ہے جو اس کے شہریوں کو مزید مطمئن کردیتا ہے۔اس کے علاوہ خلافت کا نظام وحدت پر مبنی اسلام کا نظام ہے جو اپنے تمام شہریوں پر صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے چاہے ان کا تعلق اکثریتی گروہ سے ہو یا اقلیتی گروہ سے۔ اسلام مختلف رنگ، نسل اور زبان کے لوگوں کو محبت اور رحم دلی کے ایسے جذبے میں جوڑ دیتا ہے کہ انھیں ایک امت میں تبدیل کردیتا ہے جیسا کہ اس سے قبل خلافت کے دور میں ہوچکا ہے۔یہاں تک کہ امن اور حقوق کے تحفظ کی وجہ سے خلافت کے غیر مسلم شہری بھی اس کے زبردست وفادار ہوتے ہیں ۔

حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 6میں اعلان کیا ہے کہ''ریاست کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے مابین حکومتی معاملات عدالتی فیصلوں ، لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال اور دیگر امور میں امتیازی سلوک کرے ،بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ تمام افراد کو رنگ نسل اور دین سے قطع نظر ایک ہی نظر سے دیکھے'' ۔اور دستور کی دفعہ 13میں لکھا ہے کہ ''بر ی الذمہ ہونا اصل ہے عدالتی حکم کے بغیر کسی شخص کو سزا نہیں دی جا سکتی ، کسی بھی شخص پر کسی بھی قسم کا تشدد جا ئز نہیں ، جو اس کا ارتکا ب کر ے گا اس کو سزادی جا ئے گی''۔

د2۔  خلافت وفاقی نظام نہیں ہے بلکہ یہ وحدت پر مبنی نظام ہے۔ لہذا کسی ایک خطے میں سرمایہ کاری صرف اس خطے کی آبادی،غربت اوررقبے کو دیکھتے ہوئے نہیں کی جاتی بلکہ اس کا فیصلہ لوگوں کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے جس میں خوراک،لباس،رہائش،تعلیم،صحت،ذرائع آمدورفت اورمواصلات شامل ہیں۔عوامی اثاثے جیسے گیس،تانبہ اور سونا وہ ذخائر ہیں جن کو تمام شہریوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ ان اثاثوں کو عوام سے چھین کر ملکی اورغیر ملکی نجی کمپنیوں کو اپنی دولت بڑھانے کے لیے نہیں دیا جاتا۔

 

حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 16میں اعلان کیا ہے کہ''نظا م حکو مت وحدت کا نظا م ہے اتحا د کا نہیں''۔نے اپنی کتاب ''ریاست خلافت کے انتظامی امور'' میں لکھا ہے کہ ''تمام انتظامی یونٹس(ولایہ) کے محاصل اور ان کے بجٹ بھی ایک جیسے ہوں گے۔ اگر ایک ولایہ (صوبہ) کے محاصل سے حاصل ہونے والی رقم اس کے اخراجات سے دوگنا بھی ہوںتب بھی اس ولایہ میں خرچ اس کی ضرورت کے مطابق ہو گا نہ کہ اس کے محاصل کے مطابق۔ اسی طرح کسی ولایہ (صوبہ)کی اخراجات اس کے محاصل سے سے زیادہ ہوں تو اس کے اخراجات کے مطابق خرچ کرنے کے لیے عمومی بجٹ سے رقم لے کر خرچ کی جائے گی''۔

د3۔اسلام بلوچستان میں استعماری مداخلت کا خاتمہ کردے گا جو فساد اور انتشار کی بنیاد ہے۔بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کے مسئلے کو خلافت میں فیصلہ کن طریقے سے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے گا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام امریکی قونصلیٹس اورسفارت خانوں کو بند اور اس کے تمام اہلکاروں کو ملک بدر کردیا جائے گا۔خلافت میں تمام غیر ملکی حربی طاقتوں کے اہلکاروں سے ہر قسم کے تعلق کو ختم کر دیا جائے گا تاکہ ان کے اثرو رسوخ کا خاتمہ ہوجائے۔

 

حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ189کی شق 3میں اعلان کیا ہے کہ''وہ ریاستیں جن کے ساتھ ہمارے کوئی معاملات نہیں یا ستعماری ممالک جیسے برطانیہ ،امریکا، اور فرانس یا وہ ممالک جو ہمارے علاقوں پر نظریںجمائے ہوئے ہیں،جیسے روس ۔  یہ ر یاستیں  ہمارے ساتھ حکماً متحارب (جنگی حالت میں)ہیں ۔  ان کے حوالے سے ہر طرح کی احتیاط برتی جائے گی۔  ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات استوار کرنا صحیح نہیں ہوگا۔  ان ریاستوں کے شہری ہمارے علاقوں میں پاسپورٹ اور خصوصی اجازت اور ہر شخص کے لیے الگ ویزے کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں ماسوائے کہ ان سے عملاً جنگ شروع ہو جائے''۔

 

نوٹ: خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا ۔ اس پالیسی کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریر کی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات 189,16,13,6سے رجوع کریں۔

 

ج)پالیسی :بلوچستان کو اس کا اصل مقام دلانا

ج1۔  اس خطے میں بسنے والے مسلمانوں کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے اسلام کو نافذ کیا جائے گا جو انھیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ غیر مسلموں کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے انھیں وہ تمام حقوق دیے جائیں گے جو اسلام نے ان کے لیے لازمی قرار دیے ہیں۔

ج2۔ریاست کو لاحق اصل اندرونی خطرے یعنی امریکہ کی موجودگی کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا۔

ج3۔ پاکستان کے وسیع قدرتی وسائل کی نجکاری نہیں کی جائے گی بلکہ انھیں عوامی اثاثجات قرار دے کر بہت بڑی رقم حاصل ہو گی جس کو تمام خطوں کی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بلوچستان کی پر تشدد بے چینی کے خاتمے کے لیے پالیسی دستاویز جاری کر دی

خلافت بلوچستان کو امن، خوشحالی اور عزت دار مقام فراہم کرے گی

 

Read more...

بجلی کے بحران کے حوالے سے پالیسی ربیع الاول 1434،بمطابق جنوری 2013

 

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک میں جاری بد ترین بجلی کے بحران کے حوالے سے ایک پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position"جاری کی ہے ۔اس بحران نے جہاں ملک کی صنعت اور زراعت کے شعبے کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے وہیں روز مرہ کی زندگی کو بھی شدید متائثر کیا ہے۔


ا)مقدمہ:جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام میں نجکاری کے تصور کی حفاظت کرتی ہے جس کی بنا پر بجلی ناپید اور مہنگی ہو گئی ہے۔
پاکستان میں حکومت بجلی کے بحران کی ذمہ دار ہے کیونکہ وہ جمہوریت کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو نافذ کر رہی ہے۔موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نجکاری کے ذریعے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے وسائل سے صرف چند مقامی اور غیر ملکی لوگ فائدہ اٹھائیں جبکہ عوام اس سے محروم رہیں۔ نجکاری کے نتیجے میں بجلی کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے تا کہ نجی مالکان اپنے منافع میں بے تحاشا اضافہ کرسکیں۔مثال کے طور پر ورلڈ بنک نے بجلی کی قیمتوں میں سال 2000سے 2004تک اپنی نگرانی میں اضافہ کروایااور جس میں آج کے دن تک مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں لوگ اب سردیوں کے دنوں میں بجلی کاجتنا بل دیتے ہیں اتنا بل بڑے پیمانے پر بجلی کے کارخانوں کی نجکاری سے پہلیگرمیوں کے اُن دنوں میں جمع کرایا کرتے تھے جن دنوں میں بجلی کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا ایک طرف نجی کمپنیاں بجلی کے پیداواری یونٹس کی مالک ہونے کی بنا پر اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کرتی ہیں وہیں باقی معاشرہ مسلسل مہنگی ہوتی بجلی کی بنا پر اقتصادی بد حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں تک بجلی کی کمی کا تعلق ہے تو حکومت خود چند لوگوں کے فائدے کے لیے اربوں روپے کے قرضوں کی دلدل میں جا گری ہے۔اس لیے نجی کمپنیاں اپنے منافع کی شرح کو برقرار رکھنے کے لیے بجلی کی پیداوار میں کمی کردیتی ہیں کیونکہ انھیں اتنی رقم نہیں دی جاتی جتنا کہ انھیں دینے کے معاہدے کیے گئے ہیں ۔''گردشی قرضے‘‘ (circular debt) کی وجہ سے بجلی کی پیداوار دس ہزار میگاواٹ یا اس سے بھی کم رہ جاتی ہے جبکہ بجلی کی پیداوارکی گنجائش تقریباً بیس ہزار میگاواٹ ہے جو پانی کی کمی کی صورت میں تقریباً پندرہ ہزار میگاواٹ ہو جاتی ہے۔یہ پیداواری صلاحیت ہماری طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ سردیوں میں بجلی کی طلب تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار جبکہ گرمیوں میں ساڑھے سترہ ہزار میگاواٹ ہوتی ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گرمیوں میں آٹھ سے بارہ گھنٹوں جبکہ سردیوں میں چھ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی اصل وجہ استعداد سے کم بجلی پیدا کرنا ہے۔یہ تمام صورتحال صرف اس وجہ سے ہے کہ بجلی کو عوام کا حق قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کو کاروبار کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔

 

ب)سیاسی اہمیت: سرمایہ دارانہ نظام کا بجلی کے پیداواری یونٹس پر کنٹرول کا فائدہ صرف استعماری طاقتوں اور موجودہ حکمرانوں کو حاصل ہوتا ہے جبکہ عوام اس سے محروم رہتے ہیں
ب1۔پاکستان میں بجلی 65فیصد تھرمل ذرائع یعنی فرنس آئل اور گیس سے ،33فیصد ہائیڈل یعنی پانی کے ڈیموں کے ذریعے اور 2فیصد نیوکلیئر یعنی ایٹمی ری ایکٹروں کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان کی بجلی کی پیداواری صلاحیت اتنی ہے کہ پورا سال بجلی کی موجودہ طلب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
ب2۔جہاں تک تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے تو مسلم امہ دنیا کے50فیصدسے زائد تیل اور 45فیصد گیس کے ذخائر کی مالک ہے۔پاکستان میں دنیا کے چندبڑے کوئلے کے ذخائر میں سے ایک ذخیرہ ،تھر میں واقع ہے۔
ب3۔جہاں تک مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے جیسا کہ سورج کی روشنی،ہوا اورپانی کی لہریں،تو امت میں ایسے بے شمار بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو ان وسائل کو استعمال میں لا کر امت کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ب4۔ان عظیم ذخائر کی نجکاری کے ذریعے مقامی اور غیر ملکی استعماری کمپنیاں بھر پور فائدہ اٹھاتیں ہیں ۔یہ کمپنیاں یا تو حکمرانوں کی حمائت سے کام کرتی ہیں یا براہ راست حکمرانوں کے لیے کام کرتیں ہیں۔
ب5۔ لوگوں کا معاشی بد حالی میں مبتلا ہو جانا موجودہ حکمرانوں اور ان کے استعماری آقاوٗں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں لوگوں میں کرپٹ حکمرانوں کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور انھیں اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت میں کمی ہوجاتی ہے۔

 

د)قانونی ممانعت:عوام کے مفاد میں توانائی کے ذخائر سے حاصل ہونے والے فوائدکا تحفظ
خلافت سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا خاتمہ کرے گی اور اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کرے گی۔اسلام کا نظام دولت کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ بجلی کے پیداواری یونٹس کے ساتھ ساتھ کوئلہ ،تیل اور گیس کو عوامی اثاثہ قرار دینا ہے۔یہ اثاثے نہ تو نجی ملکیت میں جاسکتے ہیں اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں۔ ان اثاثوں کا انتظام ریاست سنبھالتی ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے فوائد، بلا امتیاز رنگ،نسل،مسلک اور مذہب کے، ریاست کے تمام شہریوں تک پہنچیں۔خلافت توانائی اور پیٹرول،ڈیزل،فرنس آئل وغیرہ پر عائد ٹیکسس کا خاتمہ کردے گی جس سے ان کی قیمت میں مزید کمی واقع ہوگی۔ ان چیزوں کی صرف اس قدر قیمت لی جائے گی جس کے ذریعے ان کی پیداوار اورانھیں عوام تک پہنچانے پر اٹھنے والی لاگت آئی ہو گی۔ غیر مسلم غیر حربی ممالک کو ان وسائل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔ اسلام کی بجلی کی پالیسی خلافت کے زیر سایہ پاکستان میں زبردست صنعتی ترقی کا باعث بنے گی۔


حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 137میں اعلان کیا ہے کہ''تین طرح کی اشیاء عوام کی ملکیت ہوتی ہیں:۱)ہر وہ چیز جو اجتماعی ضرورت ہو جیسے شہر کے میدان۔ب)ختم نہ ہونے والی معدنیات جیسے تیل کے کنوئیں۔ج)وہ اشیاء جو طبعی طور پر افراد کے قبضے میں نہیں ہوتی جیسے نہریں‘‘۔دستور کی دفعہ 138میں لکھا ہے کہ '' کار خانہ بحیثیت کارخانہ فرد کی ملکیت ہے ،تاہم کارخانے کا وہی حکم ہے جو اس میں بننے والے مواد(پیداوار) کا ہے۔ اگر یہ مواد فردکی املاک میں سے ہو تو کارخانہ بھی انفرادی ملکیت میں داخل ہو گا۔ جیسے کپڑے کے کارخانے (گارمنٹس فیکٹری) اوراگر کارخانے میں تیار ہونے والا مواد عوامی ملکیت کی اشیاء میں سے ہوگا تو کارخانہ بھی عوامی ملکیت سمجھا جائے گا جیسے لوہے کے کارخانے (Steel Mill)‘‘۔اسی طرح دستور کی دفعہ 139میں لکھا ہے کہ '' ریاست کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ انفرادی ملکیت کی چیز کو عوامی ملکیت کی طرف منتقل کرے کیو نکہ عوامی ملکیت میں ہونا مال کی طبیعت اور فطرت اور اسکی صفت میں پائیدار طور پر ہوتا ہے، ریاست کی رائے سے نہیں‘‘۔ اور دستور کی دفعہ 140میں لکھا ہے کہ '' امت کے افراد میں سے ہر فرد کو اسی چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے جو عوامی ملکیت میں داخل ہے ۔ ریاست کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی خاص شخص کو عوامی ملکیت سے فائدہ اٹھانے یا اس کا مالک بننے کی اجازت دے ۔اور باقی رعایا کو اس سے محروم رکھے‘‘۔


نوٹ: خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا ۔ اس پالیسی کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات140,139,138,137سے رجوع کریں۔


ج)پالیسی :دنیا کی صف اول کی ریاست، خلافت کو قائم کرنے کی جدوجہد
ج1۔تیل،گیس،کوئلہ اور بجلی کے یونٹس کو عوامی اثاثہ قرار دے دیا جائے گا جس کے نتیجے میں سستی بجلی میسرہوگی۔
ج2۔سستی بجلی کی فراہمی مضبوط بنیادوں پر صنعتی شعبے کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ایک ریاست کو دنیا کی صف اول کی ریاست بنانے کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔
ج3۔توانائی کے حوالے سے اسلام کی منفرد پالیسی سرمایہ دارانہ نظام سے تنگ آئی ہوئی دنیا کے لیے ایک روشن مثال ہوگی۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز  کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بجلی بحران کے حل کے لیے پالیسی جاری کر دی

سستی اورقابل حصول بجلی کی فراہمی

 

Read more...

بھارتی جارحیت سے متعلق پالیسی ربیع الاول 1434 ہجری، بمطابق جنوری 2013

 

حالیہ دنوں میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کی بنا پر پیدا ہونے والی کشیدگی نے سب کی توجہ حاصل کی۔ لائن آف کنٹرول پربھارتی جارحیت کے حوالے سے حزب التحریرولایہ پاکستان نے ایک پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position"جاری کی ہے۔ اس دستاویز کو عوام الناس،میڈیا،وکلأ،سیاست دانوں اور دانشوروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس دستاویز میں اہل قوت لوگوں سے حزب التحریرکوخلافت کے قیام کے لیے نصرۃ(مادی مدد)دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے تا کہ عملی طور پر مسلمانوں کے معاملات کی دیکھ بھال فوری طور پر شروع کی جاسکے۔


ا)مقدمہ:ہندو جارحیت امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری حمائت کا نتیجہ ہے
یہ کیانی اور زرداری حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے کی جرأت کرتا ہے چاہے وہ حالیہ دنوں میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی چیک پوسٹ پر حملہ ہو یااس سے قبل ہونے والے حملے ہوں۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دور سے کیانی کا آقا امریکہ بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کے لیے پاکستان کواستعمال کرتا آرہا ہے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ بھارت کومسئلہ کشمیر کو دفن کرنے، افغانستان میں بھارتی اثرو رسوخ کو بڑھانے، بھارتی معیشت کو طاقتور بنانے کے لیے پاکستان کی مارکیٹ تک اس کو رسائی فراہم کرانے اور پاکستان کی فوجی خصوصاً ایٹمی صلاحیت میں کمی کروانے کی یقین دہانی کراتا ہے ۔جنرل مشرف کی دست راست ہونے کے ناطے ،جنرل کیانی نے پاکستان میں امریکہ کی فوجی اور انٹیلی جنس موجودگی کو بے تہاشا بڑھانے اور افغانستان میں امریکی قبضے کو مستحکم کرنے میں جنرل مشرف کی زبردست اعانت کی۔اس مشرف کیانی اتحاد کا امریکہ نے بھر پورفائدہ اٹھایا اور بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کے لیے اس نے اپنے دروازے کھول دیے اور اب بھارت نہ صرف افغانستان میں زبردست اثرورسوخ حاصل کرچکا ہے بلکہ اسے پاکستان کے اندر افراتفری پیدا کرنے کا موقع مل گیا ہے۔اس کے علاوہ کشمیر سے دستبرداری اور ہماری افواج کاقبائلی علاقوں میں امریکی فتنے کی جنگ میں ملوث ہو جانے کے بعد بھارت نے سکون کا سانس لیا ہے اوررہی سہی قصرچند دن قبل ہی امریکہ کی خواہش پر افواج پاکستان کی جنگی ڈاکٹرائن میں جنرل کیانی نے اہم تبدیلی کرتے ہوئے ''اندرونی خطرے‘‘ کو پاکستان کی سلامتی کودرپیش سب سے بڑا خطرہ قرار دے کر پوری کردی ہے۔یہ وہ وجوہات ہیں جس کی بنا پر بھارت کو اس قدر جرأت ہوئی کہ وہ ہماری افواج کی جانب میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔

ب)سیاسی قدرو اہمیت:جنوبی اور وسطی ایشیأ میں مسلمانوں کے غلبہ حاصل کرنے کی امید افزا وجوہات
ب1۔امریکہ اور بھارت کا افغانستان پر اثرو رسوخ مکمل طور پر پاکستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی فضائی اور زمینی راہداری، انٹیلی جنس اور اس کی پیشہ وارانہ اور قابل فوج کی مدد کی وجہ سے ہے۔
ب2۔ہندو ریاست ایک کمزور ریاست ہے جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ کر بکھر سکتی ہے۔ اس کی بنیادمیں عصبیت اس حد تک موجود ہے کہ کئی علیحدگی پسند تحریکیں برسرِ پیکار ہیں جو بھارت کی تقسیم چاہتی ہیں۔ بھارت میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے غیر ہندوں شہریوں ،یہاں تک کہ چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوں کو بھی ،تحفظ اور خوشحالی فراہم کرسکے۔
ب3۔ہندو ریاست تیل و گیس کے لیے مسلم علاقوں پر انحصار کرتی ہے جن تک پہنچنے کے لیے پاکستان کی اجازت ضروری ہے۔
ب4۔اسلام جنوبی اور وسطی ایشیأ کے مسلمانوں کو جوڑنے والی قوت ہے ۔ اس خطے میں مسلمانوں کی تعداد پچاس کروڑ سے زیادہ ہے جس میں سے تقریباً بیس کروڑ ہندو ریاست میں بستے ہیں۔مسلمانوں کی مجموعی فوج کی تعداد تقریباًساٹھ لاکھ ہے جبکہ ہندوستان کی فوج کی تعداد دس لاکھ ہے۔ خلافت کی دعوت جنوبی اور وسطی ایشیأ میں پھیل چکی ہے لہذااس خطے میں مسلمانوں کی سرزمینوں کو ملا کر ایک اسلامی ریاست کو قائم کرنے کے لئے درکار تمام عوامل موجود ہیں۔
ب5۔خطے میں ایسے کئی غیر مسلم ممالک ہیں جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے ،جو اپنے ملکوں میں امریکہ اور بھارت کی مداخلت کو قطعاً پسند نہیں کرتے۔ یہ ممالک بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو کر ہماری طاقت میں تقویت کا باعث ہوں گے۔

د)قانونی ممانعت:غیر مسلم حربی،غیر مسلم غیر حربی اور موجودہ مسلم ممالک سے تعلقات
د1۔غیر مسلم حربی ریاستوں سے جنگی قوانین کے مطابق نمٹا جائے گا۔یہ وہ ممالک ہیں جنھوں نے مسلم علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہیں۔
حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ189کی شق 3میں اعلان کیا ہے کہ''وہ ریاستیں جن کے ساتھ ہمارے کوئی معاملات نہیں یا ستعماری ممالک جیسے برطانیہ ،امریکا، اور فرانس یا وہ ممالک جو ہمارے علاقوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں،جیسے روس ۔ یہ ر یاستیں ہمارے ساتھ حکماً متحارب (جنگی حالت میں)ہیں ۔ ان کے حوالے سے ہر طرح کی احتیاط برتی جائے گی۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات استوار کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ ان ریاستوں کے شہری ہمارے علاقوں میں پاسپورٹ اور خصوصی اجازت اور ہر شخص کے لیے الگ ویزے کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں ماسوائے کہ ان سے عملاً جنگ شروع ہو جائے‘‘۔اسی دفعہ کی شق 4میں لکھا ہے کہ ''وہ ریاستیں جو ہمارے ساتھ عملاً حالت جنگ میں ہوں، جیسے اسرائیل۔ ان کے ساتھ ہر حوالے سے حالتِ جنگ کاہی معاملہ کیاجائے گا۔ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے گا گویا ہماری اورا ن کی جنگ ہو رہی ہے اگر چہ ہمارے اور ان کے درمیان سیز فائر جنگ بندی ہو ان کا کوئی شہری ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔
د2۔جہاں تک موجودہ مسلم ممالک کا تعلق ہے تو انھیں ریاست کے اندر ضم کرنے کے زمرے میں رکھا جائے گا کیونکہ خلافت تمام مسلمانوں کی واحد ریاست ہوتی ہے اور امت کے لیے لازمی ہے کہ وہ اسلام کے نفاذ کے لیے خلیفہ کا ساتھ دے۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ181میں اعلان کیا ہے کہ''سیا ست امت کی داخلی اورخارجی معاملات کی نگرانی (دیکھ بھال) کو کہتے ہیں۔ سیاست ریاست اور امت دونوں کی جانب سے ہوتی ہے۔ ریاست خود براہ راست عملی طور پر یہ نگرانی (نگہبانی) کرتی ہے جبکہ امت اس ذمہ داری کی انجام دہی کے حوالے سے ریاست کا احتساب کرتی ہے‘‘۔اور دستور کی دفعہ189کی شق 1میں لکھاہے کہ''وہ ریاستیں جو عا لمِ اسلام میں قائم ہیں،ان سب کو یہ حیثیت دی جائے گی کہ گویا یہ ایک ہی ریاست کے اندر ہیں۔ اس لیے یہ خارجہ سیاست کے ذمرے میں نہیں آتیں۔ نہ ہی ان سے تعلقات خارجہ سیاست کے اعتبار سے قائم کئے جائیں گے، بلکہ ان سب کو ایک ریاست میں یکجا کرنا فرض ہے‘‘۔
د3۔پوری دنیا تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے غیر مسلم غیر حربی ممالک سے تعلقات قائم کرنا۔ اس کے لیے عالمی سطح پر سیاسی عمل کیے جائیں جس کے نتیجے میں دشمن ریاستوں کو تنہا اور کمزور کیاجائے۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ184میں اعلان کیا ہے کہ''خارجہ سیاست میں سیاسی چال چلنا ضروری ہے۔ سیاسی چال کی اصل طاقت اہداف کو خفیہ رکھنا جبکہ اعمال ( کاروائیوں) کا اعلان کرنا ہے‘‘۔اور دستور کی دفعہ 187میں لکھا ہے کہ '' امت کا سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ اسلام اس امت کی ریاست کی قوت ہے، اور یہ کہ اسلامی احکامات کابہترین طریقے سے نفاذ کیا جائے اور دنیا کے سامنے اسلامی دعوت کو پیہم طریقے سے پہنچایا جائے‘‘۔ اس طرح دستور کی دفعہ 189کی شق 2میں لکھا ہے کہ '' وہ ریاستیں جن سے ہمارے اقتصادی ،تجارتی ، اچھے ہمسائیگی یا ثقافتی معاہدات ہیں ،ان کے ساتھ ان معاہدات کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ ۔۔۔۔۔ان کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کچھ متعین اشیاء تک محدود ہو ں گے اور ان اشیاء کی صفات معلوم ہوں۔ اور یہ ایسی اشیاء نہ ہوں کہ جس سے اس ریاست کو تقویت پہنچتی ہو‘‘۔
نوٹ:خلافت کے قیام کے فوراً بعد خارجہ پالیسی سے متعلق دفعات کو نافذ کیا جائے گا ۔ ان دفعات کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات 189,187,185,184,181سے رجوع کریں۔

ج)پالیسی :برصغیر پاک و ہند پر اسلام کے غلبے کی واپسی
ج1۔افغانستان میں موجود نیٹو افواج کی سپلائی کی بندش جو افغانستان میں بھارتی سٹریٹیجک اثرو رسوخ کے بڑھنے کی بنیاد ہے۔ افغانستان سے تمام امریکی اور بھارتی اہلکاروں اور سفارت کاروں کی بے دخلی۔ امریکہ اور بھارت سے توانائی اور تجارت کے حوالے سے تمام تعلقات کا مکمل خاتمہ۔
ج2۔پوری مسلم دنیا کو ایک اسلامی ریاست میں ضم ہونے کی دعوت دینا خصوصاً ان کی افواج کو ،کہ وہ ایجنٹ حکمرانوں ، جن میں بنگلادیش ،افغانستان ، ایران ،ازبکستان بھی شامل ہیں،کو اتارنے کے لیے عوام کی مدد کریں ۔تمام مسلم افواج کو یہ پیغام جاری کرنا کہ کشمیر اور افغانستان کے مسئلہ کا حل ان کی آزادی اور ریاست خلافت میں ان کو ضم کرنا ہے۔
ج3۔خطے کی تمام غیر حربی ریاستوں کو اس بات کی دعوت دینا کہ وہ امریکہ و بھارت کی سازشوں میں ان کی مددو معاونت سے دستبردار ہو جائیں اور اس کے بدلے انھیں مسلمانوں سے بہتر تعلقات اور دیگر فوائد کی پیشکش کرنا۔ ایک علاقائی میڈیا مہم شروع کرناجس کے ذریعے خطے کے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ ریاست خلافت کے شہریوں کو بلا امتیازِ رنگ،نسل،مذہب کس قدر زبردست حقوق اور سہولیات حاصل ہیں۔

نوٹ: اس پالیسی دستاویز  کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریرولایہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کے حوالے سے پالیسی دستاویز جاری کر دی

ہندو ریاست کی جارحیت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ

 

Read more...

اے کیانی ! یہ تم ہو جو پاکستان کو کمزور کر رہے ہو اور خود کو اپنی قوم سے جدا کررہے ہو کیونکہ تم اُس خلافت کے قیام کو روک رہے ہو جسے مسلمان اپنا نظام سمجھتے ہیں

 

امریکی جنگ کو شمالی وزیرستان تک پھیلانے کی سازش میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد اور پاکستان میں امریکی مفادات کی نگہبانی کرنے کی وجہ سے عوام کے غم و غصے کا نشانہ بننے کے بعدپریشان اور خوفزدہ جنرل کیانی اپنی بقا کے لیے مدافعانہ حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس نے 5نومبر کو ایک تقریر کی جس کی بڑے پیمانے پر میڈیا کے ذریعے تشہیر کی گئی،اس تقریر میں جنرل کیانی نے عوام اور افواجِ پاکستان سے درخواست کی کہ وہ موجودہ آرمی چیف ہونے کی بنا پراس پر اعتماد کریں اور اس کی حمایت کریں۔ جنرل کیانی نے کہا کہ ''عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے...اُتنا ہی اہم یہ ہے کہ افواج کی قیادت اور ماتحت فوجیوں کے مابین اعتماد کا رشتہ موجود ہو‘‘۔ یہ بات کرنے کے بعد جنرل کیانی نے الزام لگایا کہ اس کی تاریخی غداری کی مخالفت کرنادرحقیقت اداروں کو'' تقسیم ‘‘ کرنا اورانہیں'' کمزور‘‘ کرنا ہے۔ جبکہ درحقیقت یہ جنرل کیانی اور اس کے حواری ہی ہیں جنھوں نے پاکستان کے اداروں کو ہائی جیک کر کے اور انھیں امریکی عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کر کے پاکستان کو کمزور کیا ہے۔ اورجہاں تک اداروں کو '' تقسیم‘‘ کرنے کا تعلق ہے تو ان چند مٹھی بھر غداروں نے مسلمانوں سے غداری کر کے خود کو اپنے لوگوں اورپاکستان کی مسلح افواج سے تقسیم کر لیاہے۔ جبکہ یہ وہ افواج ہیں کہ جن کا وجود ہی مسلمانوں اور اسلام کی خدمت اور تحفظ کے لیے ہے اور خلافت کے قیام کی خواہش ان افواج میں گہرائی سے پیوست ہے۔ اپنے سنگین گناہوں کے ادنیٰ سے کفارے کے طور پراگر غداروں کا یہ ٹولہ اُن مخلص افسران اور سیاست دانوں کے لیے راستہ چھوڑ دے جو خلافت کا قیام چاہتے ہیں،تو پاکستان بہت جلد اپنی بھرپورطاقت کو بحال کرلے گا اور تما م مسلمان پاکستان کی اس نئی سیاسی و فوجی قیادت کے دل و جان سے وفادار ہوں گے ،اس کی بھر پور حمایت کریں گے اوراس پر اعتماد کریں گے،کیونکہ یہ نئی قیادت ان کے دین یعنی اسلام کو مکمل طور پر نافذکرے گی۔

 

ہمیں اس بات کو جاننا ہو گا اور اچھی طرح سے جاننا ہو گاکہ خلافت کے قیام سے کم کسی چیز کو قبول کر لینے کا مطلب مسلمانوں کو مزید مایوسی،مصائب اور غداریوں کے حوالے کرناہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی،پاکستان کا موجودہ نظام ہمیشہ کیانی اور زرداری جیسے غداروں کو موقع فراہم کرتا رہے گاکہ وہ مغربی کفار کے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں۔ پاکستان کا موجودہ نظام اسی نظام کا تسلسل ہے جسے استعماری مغرب نے مسلم برصغیر پراسلامی حکومت کے خاتمے کے بعد نافذ کیا تھا۔ اس نظام میں حکمران مغربی افکار اور تصورات کے تحت حکمرانی کرتے ہیں اور مغربی استعماری طاقتوں کے مفادات کو'' قانون‘‘'' پالیسی‘‘ اور ''ملکی مفاد‘‘قرار دیتے ہیں۔ ایسا اس لیے ممکن ہے کیونکہ اس نظام میں ان غداروں کے فیصلے اللہ اور اس کے رسولﷺکے احکامات سے بالاتر ہوتے ہیں اوریہ نظام اس بات کی کھلی اجازت دیتا ہے کہ حکمران قرآن و حدیث کے ان سینکڑوں احکامات کو نظر انداز کردیں جو اسلامی معاشرے کے ہر پہلو پر نافذ ہونے چاہئیں اور اس نظام میں یہ حکمران ایسے قوانین بناسکتے ہیں کہ جن کے ذریعے وہ اپنے آقاوں کی خواہشات کو پورا کرسکتے ہیں۔ جبکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے:

 

وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ.

''اور یہ کہ آپ ﷺ ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکمرانی کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے گا۔ او ر ان سے محتاط رہئے گا کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں آپ ﷺ کو فتنے میں نہ ڈال دیں‘‘(المائدہ: 49)

 

لہٰذا اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان اللہ کے عطا کردہ وسائل سے مالا مال ہے ،یہ موجودہ کرپٹ نظام ہی ہے جو پاکستان اور اس کے تمام اداروں کو کمزور کرتا ہے ۔ یہ موجودہ نظام ہی ہے جوغداروں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ہماری تمام تر افواج کو ہائی جیک کرلیں اور انھیں مسلم علاقوں کو آزادکرانے اور اپنی سرحد کے بالکل ساتھ موجود افغانستان پر مغربی استعماری طاقتوں کے قبضے کا خاتمہ کرنے سے روک دیں۔ یہ موجودہ نظام ہی ہے جو ایسی پالیسیاں اور قوانین بنانے کی اجازت دیتا ہے کہ جس کے نتیجے میں دشمن کفار پاکستان میں اپنے فوجی اڈے،سفارت خانے اور قونصل خانے قائم کرتے ہیں،بلیک واٹر جیسی پرائیویٹ فوجی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے، افغانستان پر قابض کفار کو رسد فراہم کی جاتی ہے اور قبائلی علاقوں میں قابض کفار کی فتنے کی جنگ کے لیے فنڈ مہیا ہوتے ہیں کہ جس جنگ میں پاکستان کو اربوں ڈالر زکا نقصان ہو چکا ہے اور ہزاروں فوجی اور سویلین مسلمان اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس نظام نے پورے معاشرے اور اس کے تمام اداروں کو کھوکھلا اور کمزور کردیا ہے۔ اس نظام نے پاکستان کوذلت آمیز شرائط پر حاصل کیے جانے والے سودی قرضوں کا محتاج بنایا ہوا ہے اور ان سودی قرضوں کو بہانہ بناتے ہوئے ورلڈ بینک اور آئی.ایم.ایف(IMF) جیسے استعماری ادارے پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں تاکہ پاکستان پر مغرب کے اثرورسوخ کو برقرار رکھا جائے۔ یہ موجودہ نظام ہی ہے جو پاکستان کو خود اس کے اپنے وسائل سے فائدہ اٹھانے سے روکے ہوئے ہے۔ پس پے درپے دریافت ہونے والے وسیع قدرتی وسائل نجکاری(Privatization)کے نام پر استعماری ممالک کی کمپنیوں کے حوالے کردیے جاتے ہیں اور عوام کو ان کے اپنے ہی وسائل کو استعمال کرنے کے حق سے محروم رکھا جاتاہے۔ مغرب اس کرپٹ نظام کے ذریعے ہی اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پاکستان ہمیشہ مغربی استعماری طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بنا رہے ۔ یہ نظام ایسی پالیسیوں کو نافذ کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں پاکستان بدستورکمزور اور محتاج رہے تا کہ یہ ملک ،اس کے ادارے اور اس کے لوگ ہمیشہ مغرب استعماری طاقتوں کے سامنے سرنگوں رہیں۔ اور یہ کرپٹ نظام ہمیشہ کرپٹ حکمران ہی پیدا کرتا رہے گا کیونکہ یہ نظام ان کرپٹ حکمرانوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کے خلاف لڑیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کے ذریعے حکمرانی کی بات کرتا ہو، چاہے ایسے لوگ فوج میں سے ہوں جیسا کہ بریگیڈئر علی خان جن کا کیانی کی عدالت نے 3اگست2012ء کو کورٹ مارشل کیا یا پھر ایسے لوگوں کا تعلق مخلص سیاست دانوں سے ہو جیسا کہ پاکستان میں حزب التحریرکے ترجمان نوید بٹ جنھیں11 مئی 2012کو کیانی کے غنڈوں نے اغوا کیا تھا اور وہ چھ ماہ گزر جانے پر بھی کیانی کی قید میں ہیں۔

 

صرف خلافت کا نظام ہی پاکستان کو مضبوط اور توانا بنائے گا کیونکہ خلافت کے نظام میں ہی تمام ریاستی ادارے اسلام پر کاربند رہتے ہیں،پس کوئی بھی حکمران اللہ کے نازل کردہ کسی ایک حکم سے بھی رُوگردانی نہیں کر سکتاخواہ یہ حکم کتاب اللہ سے ہو یا سنتِ رسولﷺ میں موجودہو ۔ جو حل اللہ خالقِ کائنات نے عطا کیا ہے اور اسے فرض کر دیا ہے وہی پاکستان کے مسائل کا واحدحل ہے، جویہ ہے کہ موجودہ کرپٹ نظام کو مکمل طورپراس کی جڑوں سمیت اکھاڑ دیاجائے اور اس کی جگہ اسلام کی بنیاد پرنظام قائم کیا جائے جو کہ خلافت کا نظام ہے۔ صرف خلافت ہی امریکہ کو فراہم کیے جانے والے فوجی تعاون کو ختم کرے گی،امریکی اڈوں اور سفارت خانوں کو بند کرے گی،افغانستان پر قابض امریکی افواج کو فراہم کی جانے سپلائی لائن (رسد) کو کاٹ دے گی جس سے دنیا پر امریکی طاقت کی کمزوری آشکار ہو جائے گی۔ صرف خلافت ہی ایسی صنعتی پالیسی نافذ کرے گی کہ جس کے نتیجے میں مسلمان ایک بار پھر ٹیکنالوجی میں اور عسکری میدان میں ویسی ہی برتری حاصل کریں گے جیسا کہ ماضی میں خلافت کے سائے تلے مسلمان صدیوں تک اس میدان میں پوری دنیا سے آگے تھے۔ صرف خلافت ہی مسلم علاقوں میں موجود زبردست قدرتی وسائل کو ایک ایسی مضبوط معیشت کے قیام کے لیے استعمال کرے گی ،جیسا کہ ماضی میں ہوا جب ایک ہزار سال تک دنیا کی اقوام خلافت کی معاشی خوشحالی کورشک اور حسد سے دیکھتی تھیں۔ صرف خلافت ہی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ تمام ادارے بشمول افواج،میڈیا،عدلیہ،حکمران،انتظامی ادارے اور امت کے منتخب نمائندے اسلام کے نفاذ اور سربلندی کے لیے باہم مل کرکام کریں گے۔ یہ ہے وہ ہدف جس کے حصول کے لیے حزب التحریر جدوجہد کررہی ہے یعنی پاکستان اور تمام مسلم دنیا سے موجودہ کرپٹ نظام کو اُکھاڑ پھینکا جائے تاکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ریاستِ خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اسلام کو ایک ریاست کی شکل میں نافذ کرنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا وہ فرض حکم ہے کہ جس کی تکمیل کے لیے حزب التحریر تمام مسلمانوں کو پکارتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشادفرمایا:

 

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

''کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی کا حکم مانو،اللہ کے رسول کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے وہی ہے جو ان پر لازم کردیا گیا ہے۔ اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تمہارے ذمے ہے۔ ہدایت تو تمھیں اسی وقت ملے گی جب رسول ﷺ کی اطاعت کرو گے۔ سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے‘‘(النور:54)۔

 

اے پاکستان کے مسلمانو!

غدارکیانی ، زرداری اور اِن کے حواریوں کا چھوٹا سا ٹولہ اپنے آخری دَموں پر ہے اور یہ اپنی گردنوں کے گرد سخت ہوتے ہوئے شکنجے کو محسوس کررہا ہے۔ امت، اس کے اداروں اور افواج کے خلاف اِن کی غداری لوگوں پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے سوائے ان لوگوں کے جو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی دیکھنے سے قاصر ہیں۔ ماضی کے تمام آمروں اور غداروں کی طرح کہ جو بالآخرماضی کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے گئے ، یہ غدار بھی اپنے دفاع میں آخری حربے کے طور پر ہم سے اس کرپٹ نظام کی حمایت طلب کر رہے ہیں۔ یہ اُس نظام کے لیے حمایت مانگ رہے ہیں جس نے ہمارے ملک کو ہائی جیک کرنے کی اجازت دی اور جو ہمیشہ ہر نئے آنے والے غدار کو حقِ حکمرانی عطا کرتا ہے۔ اپنے آقا کی طرح یہ غدار حکمران بھی مسلمانوں سے مایوس ہوچکے ہیں اور ان کی راتوں کی نیندیں اس وجہ سے حرام ہوچکی ہیں کہ اب امت مزید ان کے جھوٹ اور دھوکوں کا شکار ہونے کو تیار نہیں اور امت اسلام کے نفاذ کی منزل پانے کے لیے قدم بہ قدم تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

 

اس کے علاوہ حزب التحریرآپ کو اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کا یہ خیال کرنا کہ خلافت کا قیام قریب ہے ،بالکل درست ہے۔ اس کی نشانیاں پوری مسلم دنیا میں دیکھیں جاسکتی ہیں چاہے وہ شام کی اسلامی سرزمین ہو یا شام کے علاوہ دیگر اسلامی علاقے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ خواہ خلافت کا قیام پاکستان میں ہو یا کسی اور اسلامی سرزمین پر،یہ حکمران پکڑے جائیں گے اور امت کے خلاف ان کی غداریوں اور جرائم پر سزا دلوانے کے لیے انہیں خلافت کی عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔ اس منزل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جو چیز باقی رہ گئی ہے وہ یہ کہ افواج میں موجود بہادر اور مخلص افسران آگے بڑھیں اور موجودہ کرپٹ نظام کو اکھاڑنے اور اس کی جگہ خلافت کے فوری قیام کے لیے حزب التحریرکو نصرۃ فراہم کریں۔ اور پھراس دن کفار اور ان کے ایجنٹ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ ان کی وہ تمام کوششیں جو انہوں نے کیں، چاہے وہ جھوٹ کے بل بوتے پر کفر کو فروغ دینا ہو یا ظلم وجبرکے ذریعے اسلام کی طرف امت کے تیزی سے بڑھتے قدموں کو روکنا ہو، سب ضائع ہو گئی ہیں:

 

يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلاَّ أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

''وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں ،مگراللہ اپنے نور کوپورا کرکے رہے گاخواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘(التوبۃ:32)۔

Read more...

نوید بٹ کے اغوا کے خلاف حزب التحریر کے ملک گیر مظاہرے ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کے اغوا کو چھ ماہ گزر گئے

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کے اغوا اور چھ ماہ گزر جانے کے باوجود ان کی عدم بازیابی کے خلاف ملک گیر مظاہرے کیے۔ یہ مظاہرے کراچی، لاہور اور روالپنڈی اسلام آباد میں کیے گئے۔ مظاہرین نے بینراور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ "حزب التحریر" کے ترجمان نوید بٹ کا اغوا خلافت کے قیام کو روک نہیں سکتا'' اور ''امریکی راج کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں نوید بٹ کو اغوا ہوئے چھ ماہ ہو چکے ہیں"۔ مقررنین نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوید بٹ کو حکومتی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا ہوئے چھ ماہ گزر چکے ہیں نا تو انھیں رہا کیا گیا اور نا ہی انھیں کسی مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نوید بٹ کا جرم یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کی غداریوں کو بے نقاب کرتے تھے اور پاکستان سے امریکی راج کے خاتمے اور خلافت کے قیام کا مطالبہ اور اس مقصد کے حصول کے لیے پرامن سیاسی جد و جہد کرتے تھے۔ مقررنین نے کہا کہ غدار حکمران یہ جان لیں کہ ان کے یہ گھٹیہ اقدامات حزب اور اس کے شباب کو مزید بلند حوصلہ اور متحرک کر دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکمران اور ان کی ایجنسیاں اب یہ جان چکی ہوں گی کہ نوید بٹ کا اغوا نہ تو حزب اور اس کے شباب کو خوفزدہ کر سکا اور نہ ہی ان کی جد و جہد میں کسی قسم کی کمی کا باعث بن سکا۔

جنرل کیانی کے حالیہ بیانات اور میڈیا میں حزب التحریر کے حوالے سے چلائی جانے والی یکطرفہ مہم اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مظالم حزب کی جد و جہد میں مزید تیزی لانے کا باعث بنے ہیں۔ انھوں نے کہا نوید بٹ کا اغوا حزب التحریر اور اس کے شباب کو خلافت کے قیام کی جد و جہد سے کسی صورت روک نہیں سکتا۔ مقررنین نے مطالبہ کیا کہ نوید بٹ کو فوراً رہا کیا جائے اور حکمرانوں کو خبردار کیا کہ جلد ہی قائم ہونے والی خلافت اس امت کے خلاف ان کی غداریوں اور جرائم کا پورا پورا حساب لے گی اور آخرت میں اللہ سبحانہ وتعالی کا احتساب تو اس دنیا کے احتساب سے تو کئی گنا زیادہ شدید ہو گا۔ مظاہرین نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے خلاف، نوید بٹ کی رہائی اور خلافت کے قیام کے لیے زبردست نعرے بازی کی۔ آخر میں مظاہرین "جمہوریت کو ہٹاؤ ۔ خلافت کو لاؤ"، "امت کی طاقت ۔ خلافت "اور "امت کی وحدت ۔ خلافت" کے نعرے لگاتے ہوئے پرامن طریقے سے منتشر ہو گئے۔

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

جنرل کیانی امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ہماری جان اور عزت کی ہر قیمت لگانے کے لئے تیار ہے

 

امریکہ سوات سے تعلق رکھنے والی چودہ سالہ مسلمان لڑکی ملالہ یوسفزئی پر سفاک حملے پراپنی خوشی کو چھپا نہ سکا کیونکہ اس واقعہ کے نتیجے میں امریکہ کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنی جنگ کو بڑھانے کا ایک اور موقع میسر آگیا ہے۔ 12اکتوبر2012ء کو امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ''یہ بات واضح ہے کہ جتنا پاکستان کے لوگ اُن کے خلاف ہوں گے اتنا ہی ان کی حکومت کو ان کے خلاف کاروائی میں مدد ملے گی ۔ یہ (ملالہ حملے کے )اس ہولناک واقعہ کا ایک مثبت پہلو ہے‘‘۔ اور چونکہ وکٹوریہ اس بات سے واقف ہے کہ مسلمان ایسی سفاک کاروائیوں کے پسِ پردہ کارفرماامریکہ کے گھناؤنے کردار سے آگاہ ہو چکے ہیں اور اس بات سے باخبرہیں کہ جب بھی امریکہ کو فوجی آپریشنوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس طرح کے موقعوں اور ماحول کا بندوبست کرتا ہے ،چنانچہ امریکی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ ملالہ کے متعلق اپنے بیان میں یہ کہنا نہ بھولی کہ ''کیااب بھی ملک کے نمایاں سیاست دان اور دانش ور حضرات یہ بات ہی دوہراتے رہیں گے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ امریکہ کا پیدا کردہ ہے؟‘‘۔

 

جہاں تک امریکہ کے سب سے وفادار اور قابلِ اعتماد ایجنٹ جنرل کیانی کا تعلق ہے ،تووہ اس واقعہ کے بعد اپنے امریکی آقاؤں کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے بہت تیزی سے متحرک ہو گیا۔ جنرل کیانی کے لیے یہ ایسا زبردست موقع تھا جسے وہ کسی صورت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا ،پس کیانی نے شمالی وزیرستان میں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف فوجی آپریشن کے خلاف افواجِ پاکستان میں پائی جانے والی شدید ہچکچاہٹ کودُور کرنے کے لیے اس واقعے کو استعمال کیا۔ بے شک یہ شمالی وزیرستان کے بہادر مسلمان ہی ہیں جنھوں نے افغانستان پر امریکہ کے فوجی قبضے کو اس حد تک کمزور کردیا ہے کہ افغانستان کی یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں امریکی صدر اوبامہ کے لیے انتہائی شرمندگی اور سیاسی ناکامی کا باعث بن گئی ہے کہ جب امریکہ میں صدارتی انتخابات سر پر پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا 9اکتوبر2012کو جنرل کیانی نے اعلان کیا : ''ہم دہشت گردی کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم لڑیں گے خواہ ہمیں اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘‘۔ اس کے بعد کیانی نے انتہائی عجلت میں 11اکتوبر کو فوجی قیادت کااجلاس طلب کیا تا کہ پاکستان کی افواج کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے امریکی مطالبے کے سامنے جھکانے کی کوشش کی جائے۔ پھر اسی رات کیانی نے اپنے حواری صدر زرداری سے ملاقات کی تاکہ وہ ملک کی سیاسی قیادت کو بھی امریکی مطالبے کے سامنے سرنگوں کرنے کے لیے کیانی کی مدد کرے۔ اور پھر 13اکتوبرآئی.ایس.پی.آر کے ترجمان لیفٹنینٹ جنرل عاصم باجوہ نے جنرل کیانی کی ہی زبان بولتے ہوئے براہ راست میڈیا کے سامنے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے معاملے کو اٹھایا۔

 

اس امرکے باوجود کہ امریکہ مسلمانوں کے خون اور حرمتوں کو مسلسل پامال کررہا ہے ،پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور کبھی بھی امریکہ کی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت کو فوری طور پر متحرک کرنے کے لیے کیانی کی یہ پھرتیاں اورتیزیاں ہمیں اُس وقت نظر نہیں آئیں جب امریکی رسول اللہ ﷺ کی توہین کررہے تھے اور امریکی صدر اوبامہ انتہائی بے شرمی سے مسلمانوں کو آزادی رائے کے نام پر اس توہین کو قبول کرلینے کا درس دے رہا تھا۔ اسی طرح ایسے سخت الفاظ کیانی نے اس وقت تو ادا نہیں کیے جب امریکہ نے پاکستان کی علاقائی خودمختاری کو پامال کرتے ہوئے ایبٹ آباد پر حملہ کیا اور جس کے نتیجے میں پاکستان کی بہادر افواج اور اس کی صلاحیتیوں کا مذاق اڑایا گیا۔ اورایسے پرعزم اقدام کا اعلان کیانی نے اس وقت تو نہیں کیا جب امریکہ کی سرکردگی میں نیٹو نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے افواج پاکستان کے چوبیس جوانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اورنہ ہی اس قسم کے بے باک موقف کا مظاہرہ کیانی نے اُس وقت کیا تھاجب امریکی دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ اور نہ ہی کیانی نے ایسے جارحانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ اس وقت کیا جب امریکیوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی عزت کو پامال کیا تھا۔

 

یہ غدار نہ صرف امریکہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور کبھی بھی اس کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ یہ مسلمانوں کے قتلِ عام اور عزتوں کی پامالی کے لیے امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ یہ امریکیوں کو اڈے اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتے ہیں تا کہ امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کے گھروں کو ملیامیٹ کیا جائے اور ان کے گھروں کو ہی ان کے لیے قبرستان بنا دیا جائے ۔ ان غدارحکمرانوں نے بلیک واٹر جیسی غیر سرکاری فوجی تنظیموں کو پاکستان کے انتہائی حساس فوجی علاقوں اور بڑے شہروں کے پوش رہائشی علاقوں میں ٹھکانہ بنانے کے مواقع فراہم کیے ہیں تا کہ یہ امریکی تنظیمیں بم دھماکوں اور قاتلانہ حملوں کی مہم کے ذریعے ہزاروں مسلمان شہریوں اور فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتاریں اور اس کا الزام قبائلی علاقوں کے مسلمانوں پر ڈال کر ملک میں امریکی جنگ کی آگ کو مزید بھڑکائیں۔ یہ غدار امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی حفاظت کرتے ہیں جو کہ درحقیقت پوری دنیا میں فتنہ و انتشار پھیلانے کے اڈے ہیں اور جن کا اسلامی سرزمین پر موجود ہونا جائز نہیں۔ اس سے بڑھ کر ان غداروں نے اسلام آباد میں امریکہ کو دنیا کادوسرا بڑا سفارت خانہ بنانے کی اجازت بھی دے دی ہے جو کہ حقیقت میں سفارت خانہ نہیں بلکہ ایک قلعہ نماامریکی فوجی اڈہ ہوگا۔ یہ غداراللہ رب العالمین کے سامنے نہیں بلکہ امریکہ کے سامنے جھکتے ہیں ،اور فتنے کی جنگ کو جاری رکھنے کے لیے اسی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ،اسی سے اپنی اس خدمت کا صلہ مانگتے ہیں اور اسی کی خوشنودی کے طلبگار ہوتے ہیں، جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اورپاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچ چکا ہے۔

 

اے پاکستان کے مسلمانو!

بابرکت اسلامی سرزمین کا حامل پاکستان، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، جس کا رقبہ تقریباًبرطانیہ اور فرانس کے مجموعی حجم کے برابر ہے،جس کی فوج دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے جو کہ ایٹمی ہتھیاروں سے بھی لیس ہے ،اسے فوجی و سیاسی قیادت میں موجودمٹھی بھر غداروں نے اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ یہ طاقتورملک امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے ۔ یہ مٹھی بھر غدار ہماری ہی افواج، انٹیلی جنس اداروں، سرزمین اور فضاؤں کو ہمارے علاقوں میں امریکہ کے مفادات کو پوراکرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ،وہ مفادات جن کو امریکہ اپنے بل بوتے پر حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اوراگرچہ ہمارے قدموں تلے ایسے قدرتی وسائل موجودہیں جن سے دنیا کی کئی بڑی طاقتیں محروم ہیں،لیکن اس کے باوجود ان غداروں نے اُن مغربی طاقتوں کو ہماری سرزمین پر اجارہ داری کاموقع فراہم کر رکھا ہے جنھیں پوری دنیا ان کے غرور اور ناانصافی کی وجہ سے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ انھوں نے دشمن کفار کو ہم پرمسلط کردیا ہے جو اسلام اور امتِ مسلمہ سے شدید نفرت کرتے ہیں، جبکہ ہم وہ امت ہیں جو اسلام پر ایمان رکھتے ہیں جو دنیا کا واحد سچا دین ہے ،اور جس دین نے ایسی عظیم شان اسلامی ریاستِ خلافت کو جنم دیاتھاجس نے صدیوں دنیا پر حکمرانی کی اور جو اس قدر قابلِ رشک تھی کہ اس سے قبل دنیا کی کسی تہذیب اور ریاست کو یہ مقام حاصل نہ ہو سکا۔

 

تویہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم ان مٹھی بھر غداروں کی اتنی سنگین غداری کے سامنے جھک جائیں اور اسے قبول کر لیں جبکہ ہم میں سے ہر ایک پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کلمۂ حق کو بلند کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو یہاں تک کہ اسلام اور اس کی ریاست یعنی خلافت اس سرزمین پر قائم ہوجائے۔ کیا ظلم وجبراور فتنے کے سامنے جھک جانا تباہی و بربادی کو دعوت دینا نہیں؟ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے:

 

وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الأنفال: 25)

''اور ڈرو اس فتنے سے جو تم میں سے صرف ظالم لوگوں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا ۔ اور جان لو کہ اللہ شدید عذاب دینے والا ہے‘‘(الانفال: 25)

اور رسول اللہ ﷺ نے فرما یا:

 

((و الذی نفسی بیدہ لتامرون بالمعروف و لتنہون عن المنکر و لتاخذن علی ید الظالم و لیطرنہ علی الحق اطرا او لیضربن اللہ قلوب بعضکم علی بعض و لیعلننکم کما لعنہم))

''قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے، تمہیں ضرورنیکی کا حکم دینا ہے اور برائی کوروکنا ہے اور جابر کے ہاتھ کو روکنا ہے اور اسے حق بات کی جانب موڑنا ہے اور اسے حق پر قائم رکھنا ہے ورنہ اللہ تمھارے قلوب کو ایک دوسرے کے خلاف کردے گا اور تم پر ویسے ہی لعنت کرے گا جیسا کہ تم سے پچھلے لوگوں پر کی تھی‘‘(الطبرانی)۔

 

ملکِ شام میں موجود اپنے مسلمان بھائیوں سے سبق حاصل کرو کہ وہ بھی ہماری طرح ہی مسلمان ہیں اور ہماری طرح ہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کے ظالم و جابر حکمران بشار الاسدکے خلاف ایسی بہادری اور استقامت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ بشارالاسد کا آقا امریکہ بھی شام میں خلافت کے سورج کو اُبھرتے دیکھ کر حواس باختہ ہورہاہے ۔

 

اے افواج پاکستان کے افسران!

حزب التحریر اور اس کے شباب نے اس بات کی قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اللہ کے اذن سے خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کو عملی زندگی میں نافذ کر کے رہیں گے۔ چنانچہ جس طرح ہم یہ جانتے ہیں کہ عوام کی مشکلات اور مصائب کیا ہیں، اسی طرح ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ افواجِ پاکستان کن مشکلات اور مصائب سے دوچارہیں۔ ہم امریکہ کے ہاتھوں آپ کی ذلت و رسوائی پر آپ کے غم و غصہ سے واقف ہیں۔ ہم آپ کو پکارتے ہیں اور آپ سے ہرگزمایوس نہیں کیونکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ کے دل ایمان سے لبریز ہیں اور آپ کے دل شہادت کی آرزو کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ اس امت کے بیٹے ہیں اور دشمن امریکہ آپ کے عزم و حوصلے کو توڑ نے میں ناکام رہا ہے اور نہ ہی آپ امریکہ سے ڈرتے ہیں اس بات کے باوجود کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے آپ کو امریکہ سے خوفزدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر لی ہے۔ کیانی اور اس کے چمچوں نے ان لوگوں کی عزت کو خاک میں ملا دیا ہے کہ جن کی حفاظت کی خاطر آپ نے جان کی بازی لگا دینے کی قسم اٹھا رکھی ہے، اور اب یہ غدار قیادت آپ کو بھی آپ کی ذمہ داری ادا کرنے سے روک رہی ہے۔ اس غدار قیادت نے آپ کو مقبوضہ مسلم علاقوں کو آزاد کروانے کی ذمہ داری سے روک رکھا ہے جبکہ یہ وہ ذمہ داری ہے جو آپ کے رب اللہ سبحانہ و تعالی نے آپ پر عائد کی ہے اور اس کی بجائے یہ غدار آپ کو قبائلی علاقوں میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے کا حکم دے رہے ہیں جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں آپ پر لازم ہے کہ آپ وہی کردار ادا کریں جورسول اللہ ﷺ کے دورِمبارک میں انصار نے کیا تھا اور اسلامی سرزمین پر اسلام کی حکمرانی کو قائم کرنے کے لیے نصرۃ (عسکری مدد) فراہم کرکے کفار کے مکروہ منصوبوں کو ملیا میٹ کردیں۔ یہ صرف خلیفۂ راشد ہی ہو گا کہ جس کی قیادت کے تحت آپ دشمن کے خلاف لڑیں گے اور اُس عزت کا ذائقہ پھر سے چکھیں گے کہ جس کے آپ حقدار ہیں اوراُس اجر کو سمیٹ سکیں گے کہ جس کی آپ تمنا کرتے ہیں۔

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ * تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ * يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچائے گی۔ یہ کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اورجانوں کے ساتھ جہاد کرو ۔ یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اگر تم جانو۔ وہ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور ہمیشہ رہنے والے باغوں میں عمدہ رہائش۔ اوریہ بڑی کامیابی ہے ‘‘(الصف: 10-12)

 

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک