الأحد، 23 صَفر 1447| 2025/08/17
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

يُخَادِعُونَ ٱللهَ وَٱلَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنْفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ "وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اورایمان والوں کو دھوکہ دیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں مگرسمجھتے نہیں" (البقرۃ:9)  

کچھ عرصے سے امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کی بات کررہا ہے۔ یکم دسمبر 2009ء کو امریکی صدر اوبامہ نے ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ "ہماری افواج گھر واپس آنا شروع ہو جائیں گی"۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے بارہ سال تک یہ جنگ اس لیے نہیں لڑی کہ وہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کیے بغیر افغانستان سے نکل جائے جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں اس کی افواج کا شیطانی روپ بھی دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور اس کی معیشت اس حد تک خراب ہوگئی کہ ایک وقت پرایسا لگنے لگا کہ اس کی معیشت بالکل ہی ڈوب جائے گی۔ اس وقت امریکہ خطے میں اپنے اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی مدد پر انحصار کررہا ہےبالکل ویسے ہی کہ جس طرح امریکہ پاکستان کی مدد سے ہی افغانستان میں فوجیں داخل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن امریکہ کوئی ٹھوس وجہ بیان کر کے اس جنگ کے لیے پاکستان کے مسلمانوں کی حمایت اور تائید حاصل کرنے سے قاصرہے، بلکہ کوئی ٹھوس اور سچی وجہ تو کیا وہ کوئی جھوٹا جواز پیش کرکے ہمیں قائل کرنے سے بھی قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے پاکستان میں بم دھماکوں اور قتل وغارت گری برپا کرنے کا حربہ استعمال کیاکہ کسی طرح پاکستان کے مسلمان اس جنگ کو اپنی جنگ مان لیں، ایسے دھماکے اورقتل و غارت گری کہ جس سے نہ توہمارے فوجی محفوظ ہیں اور نہ ہی عام شہری، ہمارے بازار ہوں یا عبادت گاہیں ، یہاں تک کہ عورتیں ، بچے، بوڑھے، مسلمان ، غیر مسلم، کوئی بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔ پس جب یہ بم دھماکے اور قتل و غارت گری ہوتی ہے تو امریکہ کے ایجنٹ فوراًیہ پکارنے لگتے ہیں "دیکھو، یہ ہماری ہی جنگ ہے"۔ یہ ہے وہ شیطانی دھوکہ اور سازش کہ جس کی عمارت لوگوں کی لاشوں پر کھڑی کی گئی ہے اورمسلمانوں کے خون سے اس عمارت کی بنیادوں کو پختہ کیا گیا ہے!

یہ بات عقل و بصیرت رکھنے والے لوگوں کے مشاہدے میں ہے کہ امریکہ ہمیشہ ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان کی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یکم دسمبر 2009 کو اوبامہ نے کہا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہاپسندوں کے خلاف جدوجہد اُن کی جنگ نہیں...لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے...تو یہ بات واضح ہو گئی کہ پاکستان کے لوگوں کو انتہاء پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے"۔ اور پھر ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی شروعات کےتین سال بعد 12 اکتوبر 2012ء کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ "لہٰذا ظاہر ہے کہ پاکستان کے لوگ جتنا زیادہ اِن کے خلاف ہونگے اتنا ہی اُن کی حکومت کو اِن کے خلاف کام کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ شاید اس بھیانک المیے کا ایک مثبت پہلو ہے"۔

عقل و بصیرت رکھنے والے لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات بھی ہےکہ ان حملوں میں ہمارے بازاروں، گھروں،افواج اور لوگوں کو تونشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک میں موجود سی.آئی.اے اور ایف.بی.آئی کے دفاتر، امریکی فوجی اڈے، بلیک واٹر کی رہائش گاہیں اورامریکی قونصل خانےحملے اور تباہی سےمحفوظ رہیں ۔ حقیقت پر غور کرنے والےاس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ ملک میں امریکہ کے داخل ہونے سے قبل ہم کبھی بھی اس قدر تباہی و بربادی کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ کوئی بھی مخلص اور سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان اس قسم کی دہشت گرد کاروائیوں کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتا جو کہ واضح اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے : ((وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ ٱللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً))"اور جو کوئی کسی ایمان والے کو جانتے بوجھتے قتل کرڈالے ، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہےاوراس پر اللہ کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے"(النساء:93)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان غیر مسلم ذمیوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے کہ جو مسلمانوں کے تحفظ کے تحت ہوں ، اور فرمایا ہے کہ ((أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ ٱللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا)) "جس کسی نے ایسے شخص (اہلِ معاہد) کو قتل کر ڈالا کہ جس کے پاس اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی جانب سے تحفظ کا وعدہ موجود ہو تو اُس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کیا ہوا وعدہ توڑڈالا ۔ پس ایسا شخص جنت کی خوشبو کو بھی نہ پاسکے گا جبکہ اس کی خوشبو ستر سالوں کے سفر کی دُوری سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے"۔(ترمذی)

درحقیقت، پاکستان میں امریکی موجودگی کا ایک اہم مقصد پاکستان بھر میں بم دھماکے اور قتل کروانا ہے۔ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت میں موجود مشرف اور کیانی، اورزرداری و نواز شریف جیسے چند مُٹھی بھر غداروں کی مدد سے امریکہ نے پہلے پاکستان کےدروازےاپنے لیے کھلوائے اور پھر انھیں مسلسل کھلا رکھاگیا تا کہ امریکی فوجی، بلیک واٹر جیسی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے کارندے اور انٹیلی جنس کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک پاکستان میں داخل ہوسکے اور اپنے قدم جما سکے۔ اس قسم کے امریکی نیٹ ورک لاطینی امریکہ سے لے کر مشرق بعید تک افراتفری پھیلانے کے حوالے سے پوری دنیا میں بدنام ہیں۔ بم دھماکے اور شخصیات کوقتل کروانا اُن کی روز مرہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایجنٹوں کو تیار کر کے مقامی گروہوں میں داخل کرتے ہیں تا کہ آپ کی نگاہوں میں اُس مزاحمت کی قدرو قیمت کو ختم کردیا جائے جو افغانستان میں امریکہ کے قبضے کے خلاف جاری ہے۔ یہ دھوکہ دہی امریکی جنگ کا طرہ امتیاز ہے اور ایسے حملے False flag attacks کے نام سے جانے جاتے ہیں، یعنی خود کاروائی کر کے اس کا الزام دشمن پر ڈال دینا تاکہ اپنی جنگ کےحق میں عوامی حمایت حاصل کی جائے۔

اورامریکہ کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ اس قسم کی گٹھیا اور شیطانی دہشت گردی کی کاروائیاں روک دے ۔ امریکہ 2014 ءکے بعد بھی پاکستان اور افغانستان میں اپنی افواج، انٹیلی جنس اور کرائے کے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بلکہ امریکہ اپنی موجودگی کو مزید بڑھا رہا ہے اور اسی لیے وہ اسلام آباد میں ایک قلعہ نما سفارت خانہ تعمیر کررہا ہے، جو دنیا میں امریکہ کا دوسرا بڑاسفارت خانہ ہے۔ دوسری طرف وہ اٖفغانستان میں اپنے لیے 9 اڈے برقرار رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان اور افغانستان میں ایک لاکھ بیس ہزار نجی سیکورٹی اہلکاروں کی تعینا تی اس کے علاوہ ہے۔ لہٰذا امریکہ پاکستان کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا کیونکہ اس امرکے باوجود کہ ہماری قیادت میں اس کے لیے کام کرنے والے غدار موجود ہیں،پھر بھی وہ ہم پر اور ہماری افواج اور انٹیلی جنس اداروں پربھروسہ نہیں کرتاہے۔ امریکہ اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ ہم سب میں اسلامی جذبات مضبوطی سے پیوست ہیں اور ہمارے اندرامریکہ کےظلم وجبرکے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتاہے۔ اس کے علاوہ کافر استعماری طاقتیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ پوری امت خلافت کے قیام کے لیے کھڑی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ شام ، پاکستان اور دیگر اسلامی علاقوں کی یہ صورتِ حال کفار کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ لہٰذا یہ بم دھماکے دوہرا کام کرتے ہیں ،ایک تو امریکہ ان بم دھماکوں کے ذریعے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کے لیے ہماری حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ان بم دھماکوں کو ایک دباؤ کے طور پر استعمال کرتا ہے تا کہ ہم اس کے سامنے سرنگوں ہو جائیں اور وہ امن مذاکرات کے ذریعے مسلم دنیا کی سب سے طاقتور ریاست پاکستان، کی دہلیز پر اپنی موجودگی میں اضافہ کر سکے۔

اے پاکستان کے مسلمانو! ہم اس وقت تک امن کا منہ نہیں دیکھ سکیں گے جب تک امریکہ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہماری قیادت میں موجود غداراپنے آقاؤں کی ہدایت پر ہمیں دھوکہ دینے کے لیے اس صورتحال کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اس کی بنیاد ی وجہ کی طرف انگلی نہیں اٹھاتے، اور یہ بنیادی وجہ ہمارے درمیان امریکہ کی موجودگی ہے۔ آپ جان لیں کہ امریکہ کبھی بھی خود بخودہمارے خطے سے نہیں نکلے گا کیونکہ وہ ہماری سرزمین اور ہمارے وسائل کو اپنا سمجھتا ہے کہ انہیں جیسے چاہے لوُ ٹتا رہے۔ امریکہ کولازماً قوت و طاقت کے ذریعے ہی نکالنا ہو گا۔ جب تک امریکہ کو ہم پر دسترس حاصل رہے گی خواہ وہ ایک فوجی اڈےیاقونصل خانےیاانٹیلی جنس دفتر کی صورت میں ہی ہو، وہ ہمارے درمیان شر اور فساد پھیلاتا رہے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ...إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ)) "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو...اگر وہ کہیں تم پر قابو پالیں تو وہ تمھارے (کھلے)دشمن ہو جائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور خواہش کرنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ" (الممتحنہ:1-2)۔

اے افواجِ پاکستان کے افسران! آپ نے اس اسلامی سرزمین اور اس میں رہنے والوں کی حفاظت کی قسم کھائی ہے ۔ جو صورتحال اب تک بن چکی ہے اور بنتی نظرآرہی ہے وہ اب آپ کی گردن پرہے۔ اب بھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا اور بچاؤ عین ممکن ہے۔ پس امریکہ کی جنگ کو اس کے منہ پر دے مارو، اس کے دھوکے اور سازشوں کو ناکام بنا دو، اورپاکستان کی سرزمین کو امریکہ کی نجاست سے پاک کردو۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ حزب التحریر کو خلافت کے قیام کے لیے نصرت دیں،جو ایک قابل فقیہ اورمدبر سیاست دان عطا بن خلیل ابورَشتہ کی قیادت میں سرگرمِ عمل ہے ۔ اُسی صورت میں آپ کا حرکت میں آنا آپ کے دین کی خواہش کے مطابق ہو گا،اور آپ پاکستان اور اس خطے سے صلیبیوں کی موجودگی کے خاتمے کے لیےحرکت میں آسکیں گےاور ان کے فوجی اڈوں ، انٹیلی جنس دفاتر، قونصل خانوں اور سفارت خانوں کا خاتمہ ہو سکےگا۔ تب ہم سے نفرت کرنے والے یہ دشمن یہ جان لیں گے کہ وہ اس امت کی حقیقت کے متعلق اپنے آپ کو ہی دھوکے میں ڈالے ہوئے تھے ۔ حزب التحریر نے خلافت کے قیام کا عَلم بلند کررکھا ہے اور اس کی یہ دعوت آپ کے ہر گوشے میں پہنچ چکی ہے ۔ تو کیا آپ جواب دیں گے؟! ((إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ))"اس میں ہر اس شخص کے لیے عبرت ہے جو سمجھنے والاقلب رکھتا ہو اور وہ متوجہ ہو کر کان لگائے" (ق:37)

 

Read more...

''ہفتۂ نوید بٹ رہا کرو‘‘ 11مئی 2013 تا 17 مئی 2013

 

11مئی 2012 کو پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کو کیانی - زرداری حکومت کے غنڈوں نے اغواء کیا۔ اس مکروہ اغواء کے واقعے کو ایک سال ہو جانے پرحزب التحریر ولایہ پاکستان ''ہفتۂ نوید بٹ رہا کرو‘‘ کا اعلان کرتی ہے۔ ہم ، تمام مسلمانوں کودعوت دیتے ہیں کہ وہ 11مئی 2013تا 17 مئی2013 کے دوران ، پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں بالخصوص ملٹری انٹیلی جنس(MI) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI)، میں موجوداپنے رشتہ داروں، سابقہ ہم جماعتوں( class fellows) اوردوستوں سے رابطہ کریں اور ایجنسیوں کے افسران اور دیگر سٹاف تک ذیل میں درج پیغام، تحریری یا زبانی طور پرپہنچائیں۔


انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران اور دیگر سٹاف کے نام
اسلام و علیکم! 11 مئی 2012 کو پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود غدّاروں کے حکم پر اغواء کر لیا گیا۔ ان غدّاروں کا آقا امریکہ ہماری اسلامی سر زمینوں پر خلافت کی واپسی سے خوفزدہ ہے، وہ خلافت جو ان زمینوں سے امریکی وجود کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گی۔ پس اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے قہر کو دعوت دیتے ہوئے کہ وہ انہیں آ لے ، ان غدّاروں نے خلافت کے داعیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر کے اپنے بہت سے اور گناہوں میں مزید اضافہ ہی کیا ۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے حدیث قدسی میں فرمایا:

((قَالَ رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ قالَ مَنْ عادَی لِي وَلِیًّا فقدْآدئتُہُ بالحَرْبِ))

''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا'جس نے بھی میرے ولی کواذیت پہنچائی میں اس کے خلاف جنگ کا اعلان کروں گا ‘‘‘۔


پس غدّاروں کا یہ ٹولہ، آپ کی توجہ، امریکی راج کو درپیش '' اندرونی خطرے‘‘ کی طرف مبذول کرانے میں مصروف ہے ۔ دراصل امریکی راج کو درپیش خطرہ ، بہادر اور قابل ترین بیٹوں کی قیادت میں یہ پوری مسلم امت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نوید بٹ جیسے سولین کے اغواء اور بریگیڈئر علی خان جیسے عسکری افسران کے کورٹ ماشل کے احکامات جاری کئے۔ وہ آپ کے اداروں کو اپنی ذات کیخاطر ایسے غلیظ کاموں کا حکم دیتے ہیں جن کے نتیجے میں آپ لامحالہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے سزا اور ان مسلمانوں کے رشتہ داروں کی بد دعاؤں کے حقدار بنتے ہیں جن کو آپ امریکہ کو خوش کرنے کے لئے اذئیت دیتے ہیں، اغواء کرتے ہیں اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
جہاں تک آپ کا تعلق ہے، تو جان لیں کہ امریکی اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ جب خلافت قائم ہو جائے گی جو کہ انشاء اللہ عنقریب ہے،توآپ کے ادارے،یہ انٹیلی جنس ایجنسیاں، ایسے ہونگی کہ جیسا اسلام تقاضا کرتا ہے یعنی دشمن کے لئے باعث خوف اور اسلام کی برتری کا ا یک عملی ذریعہ۔اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے فرمایا:

(وَلَن یَجْعَلَ اللّہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلا)

''اور اللہ کافروں کو مسلمانوں پر راہ (اتھارٹی) نہیں دیتا‘‘

یہ خلافت ہی ہوگی جو آپ کواللہ سبحانہٗ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا مقرب بنا دے گی تاکہ آپ عزت اور وقار کے ساتھ سر اٹھا کر چل سکیں۔

اس صورت حال میں آپ پر فرض ہے کہ آپ خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو نصرۃ دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہی وہ خلافت ہے جو ہمارے مالک، اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دی گئی ہے اور جس کی بشارت ہمارے آقا، سیدنا محمد ﷺ نے دی :

((ثم تکون ملکاً جبرےۃ فتکونُ ما شاء اللّٰہ ان تکون ثم یر فعُھا اذا شاءَ ان ےَرْ فعَھا ثم تکونُ خلافۃ علی مِنْھاج النبوۃ، ثم سکت))

''پھر تم پر جبری حکومت کا دور شروع ہوگا،تو جب تک اللہ چاہے گا یہ دور تم میں قائم رہے گا پھر جب اللہ چاہے گا اسے ختم کر دے گا۔ پھرتم میں نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہوگی اور پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے‘‘۔

 

تاہم، اگر اس دنیا کی محبت اور موت کا خوف آپ کے آڑے آ رہا ہے اور اس فریضہ کی ادایئگی میں آپ کوسستی کا شکار کر رہا ہے تو کم از کم آپ نوید بٹ کی بازیابی کو یقینی بنائیں، وہ شخص جو اسلام کی خاطر موت سے محبت کرتا ہے جیسے کچھ اورلوگ اس زندگی سے محبت کرتے ہیں جو مختصر اورعارضی لذتوں والی ہے۔ اور جہاں تک نوید بٹ کی بازیابی کے لئے بہانے تلاش کرنے کی بات ہے توفقط اسی بات پر غور کر لیں کہ روزِ جزا آپ ا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے سامنے کیا بہانہ پیش کریں گے جب نوید بٹ آپ کے خلاف گواہی دیں گے۔

Read more...

کتاب "طلوع خلافت" جاری کر دی گئی خلافت میں قیادت کا کوئی فقدان نہیں ہو گا


آج حزب التحریر ولایہ پاکستان نے عربی، اردو اور انگریزی زبان میں کتاب "طلوع خلافت" جاری کر دی ہے۔ یہ کتاب اس بات پر مفصل روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح اسلامی دستور پر مبنی پالیسیاں خلافت کے قیام کے بعد پاکستان کو حقیقی تبدیلی کی راہ پر ڈال دیں گی۔ اس کتاب میں حکمرانی کے اہم شعبوں جیسے معیشت، تعلیم، افواج اور خارجہ پالیسی پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ہر نئے آنے والے حکمران نے غیر اسلامی نظام کو اسلامی بنانے کا جھوٹا وعدہ کر کے عوام کو دھوکہ دیا، یہ کتاب اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اسلامی آئین بغیر کسی التوأ کے فوری اور مکمل طور پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب کئی دہائیوں سے لوگوں کی اس شکایت کا بھی جواب ہے کہ "قیادت کا فقدان ہے"۔

نظام خلافت شخصیات پر انحصار نہیں کرتی بلکہ یہ ایک ایسا مضبوط اور شفاف نظام ہے جو صرف اور صرف اسلام پر مبنی ہے۔ خلافت 1973 کے آئین کے تحت لوگوں کی ذاتی خواہشات اور مفادات کی بنیاد پر حکمرانی کا خاتمہ کر دے گی۔ خلافت میں ہر قانون صرف اور صرف وحی یعنی قرآن اور سنت سے اخذ کیا جاتا ہے۔ خلافت اس سلسلے کا بھی خاتمہ کر دے گی جہاں آئین کو اسمبلی میں بیٹھے انسان، وہ انسان جس کی ذہنی استعداد انتہائی محدود ہے، دو تہائی اکثریت سے تبدیل کر دیتے ہیں۔ خلافت میں آئین کی ہر شق قرآن و سنت سے لی جاتی ہے جس کو نازل کرنے والا اللہ سبحانہ و تعالی ہیں جو تمام علم رکھتے ہیں، جو البصیر اور السمیع ہیں۔ خلافت کا نظام ایسا ہے کہ جو مخلص رہنماوں میں موجود قابلیت کو ابھارتا ہے اور کرپٹ لوگوں کو حکمرانی سے دور رکھتا ہے۔ یقیناً ماضی میں خلافت نے زبردست رہنما پیدا کیے جنھوں نے اسلام کو نافذ کیا، ایسے مسلمان سیاست دان پیدا کیے جنھوں نے امت کے لیے انصاف، خوشحالی اور تحفظ کو یقینی بنایا تھا۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ

"اللہ تعلی تمھیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاو! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو!" (النسأ:58)

نوٹ :اس کتاب کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

https://docs.google.com/folder/d/0B-q13r1ewMMDZ05QcDBZRktxNEU/edit

Short Link:

http://pk.tl/197q

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

کمر توڑ مہنگائی کے خاتمے کی پالیسی ربیع الاول 1434 ہجری، بمطابق فروری 2013  

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کمر توڑ مہنگائی کے خاتمے کے لیے ایک پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے۔ اس دستاویز میں پچھلی ایک دہائی میں مشرف اور شوکت عزیز حکومت اور کیانی، زرداری حکومت کے دوران مسلسل بڑھتی قیمتوں، جس نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، کو قابو کرنے کے حوالے سے مختلف حل تجویز کیے گئے ہیں۔

ا)      مقدمہ: قیمتوں میں مسلسل اور انتہائی بڑے اضافے کی وجہ کاغذی کرنسی ہے جس کی قیمت کم ہوتی رہتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد سونے اور چاندی پر نہیں ہوتی۔

دوسری کرنسیوں کی طرح، جیسے ڈالر، پائونڈ اور فرانک، روپیہ کی بنیاد بھی اصل دولت یعنی قیمتی دھات پر ہوتی تھی۔ ڈالر کی بنیاد سونے پر جبکہ روپے کی بنیاد چاندی پر ہوتی تھی۔ اس نظام نے کرنسی کی قدر و قیمت کو اندرون ملک اور بیرون ملک بین الاقوامی تجارت میں استحکام فراہم کر رکھا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سونے کی جو قیمت 1890ء میں تھی وہی قیمت کم و بیش 1910ء میں بھی تھی۔ آج دنیا میں اس قدر سونا اور چاندی موجود ہے جو دنیا کی اصل معیشت یعنی کاروباری معاملات جیسے خوراک، کپڑے، رہائش، اشیائے ٔ تعیش، صنعتی مشینری، ٹیکنالوجی اور دیگر اشیأ کی خرید و فروخت کے لیے درکار ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے کرنسی کی پیداوار کی طلب میں اس قدر اضافہ کر دیا جس کو سونے اور چاندی کے ذخائر پورا نہیں کر سکتے تھے۔ ریاستوں نے قیمتی دھات کے پیمانے کو چھوڑ دیا لہٰذا کرنسی نوٹ کی بنیاد قیمتی دھات سے ہٹ کر جاری کرنے والی ریاست کی طاقت ہو گئی جس کے نتیجے میں ریاستوں کے پاس زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار آگیا۔ اب کرنسی کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی بنیاد سونا یا چاندی نہیں رہے جس کے نتیجے میں ہر نیا چھپنے والا نوٹ پہلے نوٹ کے مقابلے میں کم قدر و قیمت رکھتا ہے۔ چونکہ کرنسی نوٹ اشیأ اور خدمات کے تبادلے میں استعمال ہوتے ہیں اس لیے کرنسی کی قدر و قیمت کا مکمل خاتمہ تو نہیں ہوتا لیکن اس میں مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے۔ چونکہ خریداری کے لیے کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اشیأ اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا روپیہ جو برطانوی قبضے سے قبل 11 گرام چاندی کے برابر قیمت رکھتا تھا اب دو سو سالہ سرمایہ دارانہ نظام سے گزرنے کے بعد ایک گرام چاندی کے نو سو وے (1/900) حصے کے برابر قیمت رکھتا ہے۔ 14 جون 1994 کو ایک ڈالر خریدنے کے لیے 30.97 روپے درکار تھے۔ پھر مشرف اور شوکت عزیز کی حکومت میں جمعہ 15 اگست 2008 کو ایک ڈالر کی قیمت بڑھ کر 76.9 روپے ہو گئی جب پاکستان میں افراط زر تیس سالہ تاریخ میں اپنی بلند ترین سطح پر تھا۔ اور اب جنوری 2013 میں کیانی، زرداری حکومت میں ایک ڈالر کی قیمت 98 روپے سے بڑھ چکی ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ اس کی قوت خرید بھی کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ قیمتیں اس قدربڑھتی جا رہی ہیں کہ اکثر لوگوں کے لیے گوشت خریدنا ناممکن، پھل خریدنا عیاشی اور سبزیوں کی خریداری ایک بوجھ بن گئی ہے ۔آج روپے کی قیمت کچھ دہائیوں قبل پیسے کی قیمت سے بھی کم ہو گئی ہے۔ حکمرانوں کے دعوں کے برعکس روپیہ کسی بھی وقت ردی کے کاغذ میں تبدیل ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں قیمتوں میں انتہائی زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے جس کے بہت ہی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں اور یوں حکومت کرنسی کی قبر کھود رہی ہے جو معیشت کے لیے خون کی حیثیت رکھتی ہے۔

ب)    سیاسی قدر و اہمیت: وہ وجوہات جن کی بنا پر سونے اور چاندی کے محفوظ ذخائر سے زائد کرنسی چھاپنے کی ضرورت پڑتی ہے

ب 1۔ مہنگائی یا افراط زر سود پر مبنی بینکاری کا براہ راست نتیجہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام شرح سود کے تعین کی اجازت دیتا ہے۔ نجی بینک ذیادہ شرح سود حاصل کرنے کی خاطر اپنے کھاتیداروں کی رقم کو سٹیٹ بینک کے مخصوص اکاؤنٹ میں جمع کراتے ہیں جیسے 1992 سے 2013 تک اوسطاَ شرح سود 12.75 فیصد سود رہی۔ چونکہ سٹیٹ بینک کے پاس نجی بینکوں کو اس سود کی ادائیگی کے لیے زائد رقم موجود نہیں ہوتی تو وہ مزید نوٹ چھاپتا ہے تا کہ سود کی رقم ادا کر سکے۔ پھر نجی بینک اس حاصل ہونے والے سود کو اپنے کھاتیداروں کو نسبتاَ کم شرح سود پر سود ادا کرتے ہیں اور باقی رقم منافع کے طور پر رکھ لیتے ہیں۔ لہذا سود مہنگائی کو ختم کرنے کی بجائے بذات خود مہنگائی کو بڑھانے کی وجہ بنتا ہے کیونکہ یہ مزید نوٹ چھاپنے پر مجبور کرتا ہے جس کے نتیجے میں روپے کی قدر مزید کم ہو جاتی ہے۔ اگر بینک نجی ملکیت میں نہ ہوتے تو انھیں "قرضے" کو ایک "کاروبار" سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ ان قرضوں پر منافع سود کی شکل میں حاصل نہ کرتے۔ لہذا سرمایہ دارانہ بینکنگ نظام میں معاشرے کا ایک بہت ہی قلیل طبقہ ان سودی قرضوں سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ خرچ کرنے کی جگہ سودی منافع کے حصول کے لیے جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں، روپیہ اپنی قدر کھو دیتا ہے، قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، کاروبار بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بے روزگاری بڑھنی شروع ہو جاتی ہے اور یہ سب کچھ معیشت کو تباہی کے گرداب میں پھنسا دیتا ہے۔

ب2۔ سرمایہ دارانہ نظام میں برآمدات اور درآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے روپے کی قدر کم کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا صنعتی شعبہ کمزور ہے اور ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں ہمیشہ زائد ہوتی ہیں۔ لہذا پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومت آئی۔ایم۔ایف (I.M.F) کے حکم پر روپے کی قدر کو کم کر دیتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کرنے کا مقصد پاکستان کے تجارتی توازن کو بہتر کرنا بتایا جاتا ہے۔ ریاست تجارتی توازن حاصل کرنے کے لیے درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جبکہ اندرون ملک تیار ہونے والی اشیاء کو زیادہ سے زیادہ برآمدکرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی حکومت پیداواری لاگت میں اضافہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں زراعت، ٹیکسٹائل اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں ایک افراتفری مچ جاتی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بلند شرح سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ لہذا مہنگے قرضے اور پیداواری لاگت میں اضافہ بہت سی کمپنیوں اور صنعتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں۔ جب پاکستانی مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے کوئی خریدار نہیں ڈھونڈ پاتیں تو پاکستان کی اہم برآمدی اشیأ کی برآمد میں کمی آ جاتی ہے اور پاکستان کی ادائیگیوں کا توازن خراب ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ مزید گھمبیر ہو جاتا ہے جب درآمدات کا سلسلہ ویسے ہی جاری و ساری رہتا ہے۔ دنیا کی چوتھی بڑی زرعی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان اشیائے خورد و نوش درآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اشیائے خورد و نوش کی درآمد پر، روپے کی قدر میں کمی وجہ سے، زیادہ خرچ کرتا ہے، نتیجتاً اندرون ملک کھانے پینے کی اشیأ مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ حالیہ سالوں میں ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت اور پاکستانی روپے کا اس سے منسلک ہونے کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کی مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ نوٹ چھاپنے کی ناکام پالیسی کو چھپانے اور ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کا تارکین وطن کی بھیجی ہوئی رقوم اور اشیائے خورد و نوش جیسے چاول، گندم کی برآمدات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ان اشیأ کی اندرونِ ملک قلت ہو جاتی ہے اور ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اتنی محنت سے کمایا ہوا زرمبادلہ، ملکی معیشت میں نہیں ڈالا جاتا بلکہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے واپس بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے جس سے غیر ملکی معیشتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ لہذا حکومت پاکستان ادائیگیوں میں آنے والے فرق کو پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے جس سے اس کے مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ نئے قرضے سود پر حاصل کیے جاتے ہیں اور دیگر "ترقی پزیر" ممالک کی طرح پاکستان اصل قرضے کی رقم بھی کئی بار ادا کر دینے کے باوجود قرضے سے نجات حاصل نہیں کر پاتا کیونکہ یہ قرضے ایسی شرائط کے ساتھ آتے ہیں جن سے معیشت مزید کمزور ہوتی ہے، شرح سود بڑھتی ہے، کرنسی کی قیمت کم ہوتی ہے اور زرعی اور صنعتی شعبے کی پیداوار زوال پزیر ہوجاتی ہے۔

ب 3۔ مسلمانوں کے لیے سونے اور چاندی کے پیمانے کی جانب دوبارہ لوٹنا عملی طور پر ممکن ہے۔ جن مسلم علاقوں میں خلافت کے دوبارہ قیام کے امکانات ہیں وہ سونے اور چاندی کے وسائل سے بھر پور ہیں جیسے پاکستان میں سینڈک اور ریکوڈیک کے میدان۔ امت کے پاس ایسے وسائل ہیں جن کی دوسرے ممالک کو شدید ضرورت ہوتی ہے جیسے تیل، گیس، کوئلہ، معدنیات اور زرعی اجناس جن کے بدلے سونا اور چاندی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ مسلم علاقوں میں موجود بینکوں میں غیر ملکی اثاثے جیسے ڈالر، یورو اور پاونڈ سٹرلنگ موجود ہیں اور انھیں بھی تبادلے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مسلم علاقے بنیادی ضروریات کے حوالے سے خود کفیل ہیں لہذا حقیقی معیشت مستحکم ہوگی اور غیر حقیقی معیشت (سٹاک مارکیٹ، ڈیری ویٹوز وغیرہ) کے خاتمے کے بعد معیشت سٹے بازی کے اثرات سے بھی محفوظ ہو جائے گی۔

د)     قانونی ممانعت: سونے اور چاندی کے پیمانے کی واپسی

د1۔ اسلام نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ریاست کی کرنسی کی بنیاد قیمتی دھات کی دولت کو ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں افراط زر کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سونے کے دینار، جن کا وزن 4.25 گرام اور چاندی کے درہم، جن کا وزن 2.975 گرام ہو، ریاست کی کرنسی کے طور پر استعمال کریں۔ اس وجہ سے ہزار سال تک ریاست خلافت میں قیمتوں کو استحکام حاصل رہا۔ آج خلافت تانبے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو سونے اور چاندی کی خریداری کے لیے استعمال کرے گی اور بین الاقوامی تجارت کے نتیجے میں ملک میں آنے اور جانے والے سونے کی مقدار پر نظر رکھے گی اگرچہ مسلم دنیا اکثر معاملات میں خود کفیل ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تجارت میں سونے اور چاندی کا کرنسی کے طور پر دوبارہ اجرأ امریکہ کی عالمی تجارت میں بالادستی کا خاتمہ کر دے گا کیونکہ اس وقت امریکہ دنیا کو بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کے استعمال پر مجبور کر دیتا ہے۔

جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 166 میں اعلان کیا ہے کہ "ریاست اپنی ایک خاص کرنسی، آزادانہ طور پر جاری کرے گی اور اس کو کسی غیر ملکی کرنسی سے منسلک کرنا جائز نہیں"۔ اسی طرح دستور کی دفعہ 167 میں لکھا ہے کہ "ریاست کی نقدی (کرنسی) سونے اور چاندی کی ہوگی، خواہ اسے کرنسی کی شکل میں ڈھالا گیا ہو یا نہ ڈھالا گیا ہو۔ ریاست کے لیے سونے چاندی کے علاوہ کوئی نقدی جائز نہیں۔ تاہم ریاست کے لئے سونا چاندی کے بدل کے طور پر کوئی اورچیز جاری کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ ریاست کے خزانے میں اتنی مالیت کا سونا چاندی موجود ہو"۔ ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 168 کے مطابق "اسلامی ریاست اور دوسری ریاستوں کی کرنسیوں کے مابین تبادلہ جائز ہے جیسا کہ اپنی کرنسی کا آپس میں تبادلہ جائز ہے"۔

د2۔ ریاست خلافت کا سٹیٹ بینک ایک مالیاتی ادارہ ہوگا جس کا کام حقیقی معیشت جیسے زراعت اور صنعتوں میں ترقی اور اضافے کے لیے مدد فراہم کرنا ہوگا۔ ریاست خلافت کا سٹیٹ بینک کوئی خون چوسنے والا ادارہ نہیں ہوگا جو سود کے ذریعے معیشت سے خون نچوڑتا ہو جیسا کہ آج کے بینک کرتے ہیں یعنی مسلسل کرنسی کے پھیلاو کی ضرورت کو پیدا کرنا، کرنسی کی قیمت میں کمی اور اس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ۔ ریاست خلافت میں سٹیٹ بینک کا واحد مقصد قرضوں کے ذریعے مقامی زرعی اور صنعتی شعبے کو مدد فراہم کرنا اور ایک متحرک اور طاقتور معیشت کو قائم کرنا ہوگا۔

جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 169 میں اعلان کیا ہے کہ "بینک کھولنے کی مکمل ممانعت ہوگی اور صرف اسٹیٹ بینک موجود ہوگا۔ کوئی سودی لین دین نہ ہوگا اور اسٹیٹ بینک بیت المال کے محکموں میں سے ایک محکمہ ہوگا"۔

د3۔ اگر خلافت پاکستان میں قائم ہوتی ہے تو معیشت کو تباہ کرنے اور پھر مزید قرضوں کے حصول کے لیے بھیک مانگنے کی بجائے دنیا بھر میں مغربی استعماری سود پر مبنی قرضوں کے نتیجے میں ہونے والے ظلم کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متحرک کرے گی۔ یہی وہ ظلم پر مبنی نظام ہے جو کئی ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے روکتا ہے۔ یہ نظام قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط عائد کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں معیشت کا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ معیشت کی اصل قرض کی رقم سے بھی کئی گنا زائد سود دینے کے باوجود قرضے سے جان نہیں چھوٹتی۔ جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 165 میں اعلان کیا ہے کہ "یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ غیر ملکی سرمایہ ہی ہے جو اسلامی علاقوں میں کفار کے قدم جمانے اور ان کے اثر و نفوذ کو مضبوط کرنے کا سبب رہا ہے اور کفار کو مسلمانوں کے علاقوں میں قدم جمانے کی اجازت یا سہولت دینا حرام ہے"۔

نوٹ: خلافت کے قیام کے فوراً بعد کرنسی سے متعلق دفعات کو نافذ کیا جائے گا۔ ان دفعات کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریر کی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات 165 ،166 ،167 ،168 ،169 سے رجوع کریں۔ متعلقہ آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm

ج) پالیسی: خلافت کو دنیا کے سامنے ایک معاشی ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے گا

ج1۔      حقیقی دولت کے ذریعے یعنی سونے اور چاندی کے ذریعے کرنسی کو مستحکم اور طاقتور کیا جائے گا تاکہ عمومی افراط زر کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جس نے گھروں، صنعتوں اور زراعت کو مفلوج کر دیا ہے۔

ج2۔ نجی بینکوں کا سودی بینکاری کے کاروبار کا خاتمہ اور غیر سودی ریاست کا بینک قائم کیا جائے گا تاکہ ایک متحرک معیشت کے لیے زرعی اور صنعتی شعبوں کو مالیاتی مدد فراہم کی جائے۔

ج3۔ عالمی سطح پر استعماری قرضوں کے خاتمے کے لیے کام کرنا تا کہ وسائل رکھنے کے باوجود قوموں کو بھکاری بنا دینے کے سلسلے کا خاتمہ ہوسکے۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے مہنگائی (افراط زر) کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی

صرف خلافت ہی مسلسل بڑھتی مہنگائی کے عذاب کا خاتمہ کرے گی

 

Read more...

ٹیکس اور اخراجات کے ظالمانہ نظام میں تبدیلی کے حوالے سے پالیسی ربیع الثانی 1434،بمطابق فروری 2013

 

حزب التحریرولایہ پاکستان نے ٹیکس اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو خرچ کرنے کے حوالے سے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے جس میں واضح طور پر یہ دیکھایا گیا ہے کہ اسلام کی محصول(Revenue) اوراخراجات (Expenditure)کی پالیسیاں معاشی استحکام اور خوشحالی کا باعث بنیں گی۔

ا)مقدمہ:معاشی استحکام جمہوریت اور آمریت کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔یہ دونوں نظامِ حکمرانی کرپٹ ہیں کیونکہ یہ استعماری طاقتوں اور پاکستان کے حکمران بننے والے ان کے ایجنٹوں کے مفاد کو پورا کرنے والی محصول اورا خراجات کی پالیسیاں بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔
ریاست کے خزانے میں محاصل کی اچھی اور بڑی مقدار لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور ریاست کے امور جیسے افواج،صحت اور تعلیم کو چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ لیکن پاکستان کے موجودہ نظام ،جمہوریت اور آمریت دونوں، کافر استعماری طاقتوں اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدارایجنٹوں کے چھوٹے سے ٹولے کے معاشی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے عالمی بینک،آئی۔ایم۔ایف(I.M.F)حکومت کے ساتھ مل کر ٹیکس اور نجکاری کی انتہائی تذہیک آمیز پالیسیاں بناتے ہیں۔ان پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کو ان عوامی اثاثوں سے محروم کردیا جاتا ہے جن سے بہت بڑی مقدار میں محصول حاصل ہوسکتا ہے جس کے بعد ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے درکار محاصل کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور ان کے لیے ٹیکسوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں پر انتہائی منفی اثر پڑنا شروع ہوجاتا ہے اور ان کے پاس جو تھوڑی بہت دولت بچتی ہے وہ اس سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور ان کی غربت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔خوراک، لباس،رہائش ،روزگار،وراثت،صحت اور تعلیم وہ بنیادی ضروریات ہیں جن کو سب کے لیے یقینی بنایا جانا چاہیے لیکن ان پر ٹیکس لگنے سے یہ چیزیں عوام کے لیے ایک آسائش بن جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ جہاں تک ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کو خرچ کرنے کا تعلق ہے تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کافر استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل کے حل کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ حکمرانی میں کون آتا ہے ،آیا وہ جمہوری حکمران ہے یا آمر،اس استعماری نظام میں پاکستان کے محاصل اورا خراجات کی حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکمرانی میں پاکستان کی معاشی خودمختاری کی دھجیاں اڑائی گئیں اور یہ سلسلہ کیانی اور زرداری کے دور حکومت میں بھی جاری ہے اور آنے والے نئے ایجنٹ حکمرانوں کے دور میں بھی جاری رہے گا۔اور ایسا صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ جمہوریت اور آمریت میں اللہ سبحانہ وتعالی کے قوانین کو نافذ نہیں کیا جاتا بلکہ انسان اپنی خواہشات کے مطابق قوانین بناتے اور نافذ کرتے ہیں۔


ب)سیاسی ا ہمیت:
ب1۔ معاشرے کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے محاصل سے محروم کردینا
سرمایہ داریت،چاہے وہ جمہوریت یا آمریت کسی بھی شکل میں پاکستان میں نافذ ہو،نجکاری کے ذریعے ریاست اور عوام دونوں کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے بہت بڑے محاصل کے ذخیرے سے محروم کردیتی ہے جیسا کہ تیل،گیس اور بجلی۔لہذاتیل، گیس اور بجلی کے قیمتی اثاثوں کے ملکی اور غیر ملکی مالکان ان اثاثوں سے زبردست محاصل اور منافع حاصل کرتے ہیں ۔آنے والی خلافت ان اثاثوں کو عوامی ملکیت قرار دے کر ان توانائی کے وسائل کو اُن ممالک کو برآمد کر ے گی جن کی مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ دشمنی کا تعلق نہ ہواوریوں کثیر محصول حاصل کرے گی۔اس طرح سے خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ امت کی اس دولت کو امت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ ان عظیم وسائل سے چند لوگ یا کمپنیاں منافع کمائیں اور حکومت اِن وسائل پر بڑے بڑے ٹیکس لگا کر عوام کی کمر توڑ دے ۔ اس کے علاوہ سرمایہ داریت نجی ملکیت کے تصور کو فروغ دیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ادارے کہ جن کو بنیادی طور پر ریاست کی ملکیت میں ہونا چاہیے جیسے اسلحہ سازی،بھاری مشینری کی تیاری ،ذرائع مواصلات،بڑی بڑی تعمیرات اور ٹرانسپورٹ،ان کا قیام بھی نجی شعبہ کی ذمہ داری بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں عوامی مفادات کے تحفظ پر آنچ آتی ہے۔ آنے والی خلافت انشأ اللہ ایسے اداروں کو بنیادی طور پر سرکاری شعبے میں قائم کرے گی اور نجی کمپنیاں بھی ان شعبوں میں حکومت کی نگرانی میں کام کرسکیں گی تاکہ آج جس طرح سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کو عوامی مفادات کو پس پشت ڈال دینے کی اجازت دے رکھی ہے اس کا تدارک ہوسکے ۔یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نطام میں دنیا کی دولت مند ترین کمپنیاں وہ ہیں جو توانائی، اسلحہ،بھاری مشینری،ادویات اور مواصلات کے شعبوں میں کام کررہی ہیں۔لہذا حکومتوں کے پاس صرف ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ لوگوں پر مزید ٹیکس عائد کر کے ان کے لیے سانس لینا بھی دشوار کردے۔اس کے علاوہ پاکستان کے معاملے میں ایجنٹ حکمران، استعماری طاقتوں کے ایمأ پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جیسے مشینری اور دوسرے پیداواری وسائل کی درآمد پر ایکسائز ڈیوٹی کی کم شرح ، منافع پر ٹیکسوں کی چھوٹ جس کو واپس بھیج کر غیر ملکی معیشت کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ اور پاکستان کی پیداواری صنعت کو غیر ملکی اداروں کے ہاتھوں تباہ و برباد کروانا جس کا ثبوت خود حکومت کے غیر ملکی سرمایہ کاری کے اعدادوشمار ہیں۔ یہ اعدادوشمار مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکومت میں بڑھتے رہے اور زرداری اور کیانی کی حکومت میں بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔
ب2۔بڑی اکثریت پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر انھیں بدحال کیا جا رہا ہے جبکہ چند لوگ مالدار بنتے جارہے ہیں
آئی۔ایم۔ایف(I.M.F) کے زیر نگرانی مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکومت اور کیانی اور زرداری حکومت کے دوران بھی آمدنی اور اشیأکی خریداری اوران کے استعمال پر بہت بڑی تعداد میں ٹیکسوں کی بھر مار نے پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ 1987-88میں کل محاصل117,021ملین ،2002-03میں 706,100ملین اور 2011-12میں 2,535,752ملین روپے تھے۔ان محاصل میں سے براہ راست ٹیکسوں یعنی انکم ٹیکس ،پراپرٹی ٹیکس اور کورپوریٹ ٹیکس کی مد میں 1987-88میں 12,441ملین روپے حاصل ہوئے اور پھر 2002-03میں بڑھ کر 153,072روپے اور 2011-12میں 745,000ملین روپے حاصل ہوئے۔ ان اعدادو شمار سے یہ واضح ہے کہ پہلے براہ راست ٹیکس کل محاصل کا 10فیصد تھے جو بڑھ کر20 فیصد اور پھر کیانی زرادی کے دور حکومت میں 2011-12میں یہ کل محاصل کا 29فیصد تک ہوگئے۔
اس کے علاوہ صرف انکم ٹیکس،جو کہ ریاست کے لیے محصول کا ایک اہم زریعہ ہے، 1987-88میں اس کا کل محاصل میں حصہ17فیصد تھا جو 2002-03میں 32فیصد تک پہنچ گیا تھا۔جس کا مطلب ہے کہ ملازمت پیشہ افراد پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا گیا جس نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔جب تک یہ کرپٹ نظام چلتا رہے گا چاہے کوئی بھی حکومت میںّ آجائے صورتحال مزید خراب ہی ہوگی۔حکومت نے 2011-12میں صرف انکم ٹیکس کی مد میں 730,000ملین روپے اکٹھے کیے جو 2002-03میں حاصل ہونے والے کل محاصل کے برابر ہے۔اس کے علاوہ 2012-13کے بجٹ میں حکومت نے انکم ٹیکس کی مد میں اکٹھی ہونے والی رقم کا ہدف 914,000ملین روپے رکھا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت مزید ٹیکس لگانے کا اعلان کررہی ہے جو دراصل مغربی استعماری طاقتوں کے مطالبے کے عین مطابق ہے تا کہ جو تھوڑا بہت معیشت میں باقی رہ گیا ہے اس کو بھی نچوڑ لیا جائے۔
اس کے علاوہ بل واستہ ٹیکسوں کو دیکھا جائے ،جن میں ایکسائز، بین الاقوامی تجارت پر ٹیکس ،سیلز ٹیکس ،گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات پر سر چارج اور اس کے علاوہ سٹامپ ڈیوٹی،بیرون ملک سفر پر ٹیکس، موٹر وہیکل ٹیکس شامل ہیں ،کی مد میں 1987-88میں 81,015ملین روپے جو 2002-03میں بڑھا کر 397,875ملین حاصل کئے گئے ۔ صرف سیلز ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی رقم 1988-87میں کل محاصل کا 9فیصد تھی جو مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکومت میں 43فیصد تک پہنچ گئی۔اس سیلز ٹیکس کی وجہ سے لوگوں کے لیے ادویات،خوراک اور زراعت اور صنعت کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کی خریداری اس حد تک تکلیف دہ بن گئی کہ ان کے لیے معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا اور اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن بن گیا۔اس قسم کی ٹیکس پالیسی معاشرے میں دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا باعث بنتی ہے اور معاشرے کاوہ طبقہ جو سیڑھی کی سب سے نچلی جگہ پر ہے اس پالیسی سے اس بری طرح سے متاثر ہوتا ہے کہ وہ کیا کمائے اور کیا خرچ کرے۔ اس صورتحال کے تسلسل کے نتیجے میں زراعت اور صنعتی شعبہ مزید تباہ ہوجاتا ہے اور چند لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز مزید بڑھتا ہے ۔اور اگر یہی نظام جاری و ساری رہا تو یہ صورتحال مزید خراب تر ہوتی جائے گی۔ حکومت نے 2011-12میں جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 852,030ملین روپے اکٹھے کیے تھے اور 2012-13کے بجٹ میں اس کا ہدف 1,076,500ملین روپے ہے۔
تو اس سرمایہ دارانہ نظام نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ صرف سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی مدمیں حاصل ہونے والی رقم حکومت کے کل محاصل کا 60فیصد بن جاتے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ حکومت کے لیے درکار محاصل کا بہت بڑا حصہ عوام کے حق پر ڈاکہ ڈال کر حاصل کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں وہ ضروری اشیأ کی خریداری سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔یہ کرپٹ نظام اسی قسم کی خرابی کو ہی پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کو بنایا ہی اس طرح گیا ہے کہ وہ عوام کی ضروریات سے غفلت برتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام لوگ جواس نظام میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔جہاں تک انکم ٹیکس کا تعلق ہے تو یہ نظام اس ٹیکس کے ذریعے لوگوں کی اس محنت کی کمائی پر ٹیکس لگاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کی تکمیل کی امید رکھتے ہیں بجائے اس کے کہُ ان کی اس فاضل دولت پر ٹیکس لگتا جو ان کی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچتی ہے۔ اسی طرح سیلز ٹیکس کی صورت میں بھی ان اشیأ پرٹیکس لگایا جاتا ہے جو کے لوگوں کی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کی اشیاء ہیں بجائے اس کے کہ صرف لوگوں کی اس فاضل دولت پر ٹیکس لگتا جو ان کی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچتی ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود غدار ایجنٹ حکمران اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ نظام ''عوام کے لئے(for the people)‘‘ ہے۔ اس کے برعکس خلافت میں نہ تو انکم ٹیکس ہوتا ہے اور نہ ہی سیلز ٹیکس، کیونکہ بنیادی طور پر نجی ملکیت ''ناقابل دسترس‘‘ ہے۔ٹیکس صرف اس فاضل دولت پر لگتا ہے جو بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بچتی ہے اور یہ ٹیکس بھی ریاست انتہائی سخت شرائط کو پورا کرنے کے بعد ہی عائد کرسکتی ہے۔کم ٹیکس کی یہ پالیسی اس لیے ممکن ہوتی ہے کیونکہ ریاست خلافت کے پاس عوامی اور ریاستی اثاثوں سے محاصل کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مزید محصول کے لیے زرعی اور صنعتی شعبے سے ٹیکس حاصل کرنے کے لیے منفردقوانین کا ایک نظام بھی موجود ہوتا ہے ۔
ب3۔اخراجات میں استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹ حکمرانوں کے مفادات کی تکمیل کو فوقیت دی جاتی ہے
امت کو اس کے محاصل کے ذرائع سے محروم ، کمانے اور خرچ کرنے کی اہلیت کو محدود کرنے کے بعد ، حکومت استعماری ممالک سے سودی قرضے حاصل کرتی ہے ۔یہ قرضے بنیے سے حاصل کردہ قرضوں کی مانند ہوتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر رکھنا ہوتا ہے تا کہ ان قرضوں کی ادائیگی کے نام پر اس کے اثاثوں کو ہتھیالیا جائے اور اس کو اس قابل ہی نہ چھوڑا جائے کہ وہ کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا اور مغربی استعمار کے لیے کوئی چیلنج بن سکے۔پاکستان کا کل قرضہ 1990-2000کے عرصے میں 15,451ارب ڈالر تھا جبکہ اس عرصے کے دوران 36,111ارب ڈالر ادا بھی کیے گئے۔کئی دہائیوں سے پاکستان ہر سال 3.66بلین ڈالر سالانہ ادا کررہا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا بیرونی قرضہ دوگنا ہوچکا ہے اورہر گزرتی دہائی کے ساتھ صورتحال بد ترہوتی جارہی ہے۔ وزارت مالیات کے پاکستان اکنامک سروے کے مطابق مارچ 2012کے اختتام پرپاکستان کے ذمہ صرف ایک استعماری ادارے آئی۔ایم۔ایف (I.M.F)کا قرضہ8.1ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔اب پاکستان اپنے بجٹ کا 35فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے جو 2011-12کے 30ارب ڈالر کے بجٹ میں 11ارب ڈالر بنتی ہے۔یہ وہ رقم ہے جس کو معیشت سے نکال لیا گیا ہے حالانکہ جس کے ذریعے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے اور ان کوکئی سہولیات پہنچائی جاسکتی ہیں۔یہ ہے عالمی انصاف کہ پاکستان کی طرح دنیا کے کئی ممالک اپنے قرضوں سے کئی گنا زیادہ رقم ادا کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود سود اور استعماری ممالک کی شرائط کی وجہ سے ان کا قرض ختم ہی نہیں ہوتا۔


د)قانونی ممانعت: معیشت کو مستحکم بنیادوں پر قائم کرنا
د1۔محاصل اور اخراجات ایک نظر میں
سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسلام آمدن اور اخراجات پر ٹیکس کو محاصل کے حصول کا بڑا ذریعہ نہیں بناتا۔ اس کے محاصل کی بنیادبنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچنے والی فاضل دولت اور اصل پیداوار ہے۔ خلافت صرف سخت شرائط کے ساتھ ہی ٹیکس لگاسکتی ہے اور وہ بھی صرف اخراجات کے بعد جمع ہونے والی دولت پر لگتا ہے لہذا ان لوگوں پر ٹیکس لگ ہی نہیں سکتا جو غریب ہیں یا اپنی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کرسکتے۔ یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ ایک تو ریاست خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں، جیسے توانائی کے وسائل، بھاری مشینری کے اداروں سے بہت بڑی تعداد میں محاصل حاصل کرسکے گی اور دوسرے اسلام کے وہ منفرد قوانین جو محاصل کے حصول کو یقینی بناتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے میں دولت کا ارتکاز نہیں ہوتا بلکہ اس کی منصفانہ تقسیم میں اضافہ ہوتا ہے ۔حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ148میں اعلان کیا ہے کہ''ریاستی بجٹ کے دائمی ابواب (مدات) ہیں جن کو شرع نے متعین کیا ہے۔ جہاں تک بجٹ سیکشنز کا تعلق ہے یا ہر سیکشن میں کتنا مال ہوتا ہے یا ہونا چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر سیکشن میں موجود مال سے متعلقہ امور کا تعلق خلیفہ کی رائے اور اجتہاد پر منحصر ہے‘‘ ۔اور دستور کی دفعہ 149میں لکھا ہے کہ '' بیت المال کی آمدن کے دائمی ذرائع مندرجہ ذیل ہیں: فئی ،جزیہ ،خراج ، رِکاز کا خمس (پانچواں حصہ) اور زکوٰۃ۔ ان اموال کو ہمیشہ وصول کیا جائے گا خواہ ضرورت ہو یا نہ ہو‘‘۔اور دفعہ 151میں لکھا ہے کہ ''وہ اموال بھی بیت المال کی آمدن میں شمار ہوتے ہیں جو ریاست کی سرحدوں پر کسٹم کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں یا عوامی ملکیت اور ریاستی ملکیت سے حاصل ہوتے ہیں یا ایسی میراث جس کا کوئی وارث نہ ہو یا پھر مرتدوں کے اموال ‘‘۔
د2۔صنعتی شعبہ محاصل کے حصول کا ایک ذریعہ ہے
خلافت میں صنعتی شعبہ تیزی سے ترقی کرے گا۔ صنعتی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے مشینری اورتوانائی پر مختلف قسم کے ٹیکس لگا کر صنعتی شعبے کو مفلوج نہیں کیا جائے گا۔بلکہ ریاست تجارت سے حاصل ہونے والے منافع سے محاصل حاصل کرے گی۔ اس عمل کے نتیجے میں کاروباری حضرات کو بغیر کسی رکاوٹوں کے پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کا بھر پور موقع میسر ہو گا اور وہ اپنے منافع یا جمع شدہ دولت پر حکومت کو محاصل دیں گے جس کے نتیجے میں دولت کی گردش کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 143میں اعلان کیا ہے کہ''مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔ زکوٰۃ ان اموال پر لی جائے گی جن پر زکوٰۃ لینے کو شریعت نے متعین کر دیا ہے جیسا کہ نقد ی،تجارتی مال ، مویشی اور غلہ۔ جن اموال پرزکوٰۃ لینے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ،ان پر زکوٰ ۃ نہیں لی جائے گی۔ زکوٰۃ ہرصاحب نصاب شخص سے لی جائے گی خواہ و ہ مکلف ہو جیسا کہ ایک عاقل بالغ مسلمان یا وہ غیر مکلف ہو جیسا کہ بچہ اور مجنون۔ زکوٰۃ کو بیت المال کی ایک خاص مد میں رکھا جائے گااور اس کو قرآن کریم میں وارد ان آٹھ مصارف میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد کے علاوہ کہیں اور خرچ نہیں کیا جائے گا‘‘۔
د3۔زراعت:خراج محصول کا طریقہ ہو گا لیکن یہ کاشتکاروں پر بوجھ نہیں ہو گا
اسلام کے زیر سایہ ،برصغیر ہندوستان نے،جو کے ایک زرعی معاشرہ تھا، دنیا کی کل پیداوار کی25فیصد پیداوار دی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ خراج کا نظام تھا۔خراج کے نظام کے تحت زمین کی ملکیت تمام مسلمانوں کی ہوتی ہے لیکن اس زمین کو استعمال کرنے کا حق اور اس سے حاصل ہونے والی منفعت زمین کو کاشت کرنے والے کی ہوتی ہے۔لہذا جو اس زمین کو کاشت کرتا ہے وہی اس زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار کا مالک بھی ہوتا ہے۔ اس نظام نے پیداوار میں اضافہ کیا اور دولت کی تقسیم کو یقینی بنایا۔ اس زمین کے استعمال کے عوض اور اس زمین کی استعداد کے مطابق مسلمانوں نے اس زمین سے ریاست کے لیے محصول حاصل کیا ۔ برطانوی راج میں جب سرمایہ دارانہ نظام رائج کیا گیاتو کاشتکاروں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے، پھر ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ سودی قرض حاصل کریں جس کے نتیجے میں کاشتکارقرضوں تلے دب گئے اور آخر کار انھیں اپنی زمینیں بیچنی پڑیں۔ اس کے علاوہ استعماری طاقت نے اپنے لیے اور اپنے ساتھیوں کے لیے زمینوں پر زبردستی قبضہ بھی کیا۔ آج بھی زرعی شعبہ سرمایہ داریت کی وجہ سے نقصان برداشت کررہا ہے اگرچہ اس تمام صورتحال کے باوجودپاکستان کی بچ جانے والی زراعت کئی شعبوں میں اب بھی دنیا میں بے مثال ہے اور اس میں اتنی استعداد ہے کہ وہ تیزی سے پھل پھول سکے۔ کاشتکاروں پر زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے کھاد،بیج،مشینری اور تیل پر بھاری ٹیکس عائد ہیں۔ جس کے بعد انھیں اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے منافع میں اضافے کے لیے اپنی پیداوار بیرون ملک برآّمد کریں۔ اس عمل کے نتیجے میں پاکستان کو نقصان ہوتا ہے اور پاکستان کو وہی اشیاء مہنگے داموں درآمد کرنا پڑتی ہیں جو وہ خود بہت بڑی تعداد میں پیدا کرسکتا ہے۔ اسلام میں محصول زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء پر ٹیکس لگا کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے حاصل کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سستے خام مال کی وجہ سے کاشتکار کو اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ وہ پیداوار میں اضافہ کرے۔جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ145میں اعلان کیا ہے کہ''خراجی زمین پر خراج اس زمین کے مطابق لیا جائے گا جبکہ عشری زمین پر زکوٰۃ اس کی عملی پیداوار پر لی جائے گی‘‘۔
د4۔ریاست کو ٹیکس لگانے کابنیادی اختیار نہیں ہے بلکہ صرف چند کڑی شرائط کے ساتھ اُسے ٹیکس لگانے کا اختیار ہے
اسلام نے افراد کی نجی ملکیت کوتحفط فراہم کیا ہے اور بغیر شرعی جواز کے اس میں سے کچھ بھی لینے سے منع فرمایا ہے لہذا ریاستِ خلافت میں انتہائی مجبوری میں ٹیکس لگایا جاسکتا ہے اور وہ بھی کڑی شرائط کو پورا کرنے کے بعد جیسے اگر جو محصول شریعت نے عائد کیے ہیں اگر وہ ریاست کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہیں تو صرف اُن افراد کی اُس فاضل دولت پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے جو ان کی بنیادی ضروریات اور آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بچتی ہے۔ لہذا اسلام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ لوگوں کی محنت کی اُس کمائی پر ٹیکس نہ لگے جو ان کی بنیادی ضروریات اور کسی حد تک آسائشوں کی پورا کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے جبکہ سرمایہ داریت میں انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی صورت میں کم صاحب حیثیت کے لوگوں کو سزا دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسلام کا ٹیکس کا نظام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دولت معاشرے میں گردش کرے نہ کہ چند ہاتھوں میں جمع ہوجائے۔ پاکستان میں سب سے امیر تیس افراد کی دولت تقریباً 15ارب ڈالر ہے اور یہ وہ اعدادو شمار ہیں جو ظاہر کیے گئے ہیں۔ ان افراد پر صرف 30فیصد ٹیکس ریاست کے لیے 4.5ارب ڈالر کے محصول کا باعث بنے گا۔ لہذا ہنگامی صورتحال میں دولت مندوں پر عائد کیے گئے اس ٹیکس کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم پاکستان کی زوال پزیر صنعتی شعبے کی بحالی پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست خلافت اپنے عوام سے مختلف منصوبوں کے لیے رضا کارانہ بنیادوں پر قرضہ بھی حاصل کرسکتی ہے اور یہ امت اللہ کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے آج بھی بغیر کسی ریاستی تعاون کے خود کئی ایسے منصوبوں پر مال خرچ کررہی ہے۔حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ150میں اعلان کیا ہے کہ'' بیت المال کی دائمی آمدنی اگر ریاست کے اخراجات کے لیے ناکافی ہو تب ریاست مسلمانوں سے ٹیکس وصول کرے گی اور یہ ٹیکس کی وصولی ان امور کے لیے ہے:۱) فقراء، مساکین، مسافر اور فریضہ جہاد کی ادائیگی کے لیے بیت المال کے اوپر واجب نفقات کو پورا کرنے کے لیے۔ب) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جنہیں پورا کرنا بیت المال پر بطورِ بدل واجب ہے جیسے ملازمت کے اخراجات، فوجیوں کا راشن اور حکام کے معاوضے۔ج۔) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جو مفاد عامہ کے لیے بغیر کسی بدل کے بیت المال پر واجب ہیں۔ جیسا کہ نئی سڑکیں بنوانا، زمین سے پانی نکالنا، مساجد ، اسکول اور ہسپتال بنوانا۔د) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جو بیت المال پر کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے واجب ہوں جیسے ہنگامی حالت میں قحط ، طوفان اور زلزے وغیرہ کی صورت میں‘‘۔اور دفعہ 146میں لکھا ہے کہ ''مسلمانوں سے وہ ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کی شرع نے اجازت دی ہے اور جتنا بیت المال کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔ شرط یہ ہے کہ یہ ٹیکس اس مال پر وصول کیا جائے گا جو صاحبِ مال کے پاس معروف طریقے سے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد زائد ہواور یہ ٹیکس ریاست کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی بھی ہو‘‘۔ اس کے علاوہ دفعہ 147میں لکھا ہے کہ '' ہر وہ عمل (کام) جس کی انجام دہی کو شرع نے امت پر فرض قرار دیا ہے اگر بیت المال میں اتنا مال موجود نہ ہو جو اس فرض کام کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو تب یہ فرض امت کی طرف منتقل ہوگا۔ ایسی صورت میں ریاست کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ امت سے ٹیکس وصول کر کے اس ذمہ داری کو پورا کرے‘‘۔
د5۔اخراجات کے رہنما اصول
خلافت ریاستی اموال، عوامی اثاثوں کے ذریعے،زراعت اور صنعتوں کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبائے بغیر اور دولت مندوں کی فاضل دولت پر ٹیکس لگا کر بہت بڑی تعداد میں محصول اکٹھا کرتی ہے۔ جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے اسلام ریاست کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ ہر اس چیز پر خرچ کرے جو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے ضروری ہے۔ یقینی طور پر خلافت استعماری طاقتوں کی مجرم تنظیموں اور اداروں کو مزید کوئی رقم ادا نہیں کرے گی جبکہ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہم دیگر کئی ممالک کی طرح اصل رقم کئی بار ادا کرچکے ہیں۔ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ152میں اعلان کیا ہے کہ''بیت المال کے نفقات (اخراجات)کو چھ مصارف میں تقسیم کیا جاتا ہے۔(۱) وہ آٹھ مصارف جو زکوٰۃ کے اموال کے مستحق ہیں ان پر زکوٰۃ کی مد سے خرچ کیا جائے گا۔ (ب) فقراء ، مساکین، مسافر اورجہاد فی سبیل اللہ اور قرضداروں پر خرچ کرنے کے لیے اگر زکوٰۃ کے شعبے میں مال نہ ہو تو بیت المال کی دائمی آمدنی سے ان پر خرچ کیا جائے گا۔ اگر اس میں بھی کوئی مال نہ ہو تو قرضداروں کو توکچھ نہیں دیا جائے گالیکن فقراء ، مساکین، مسافر اور جہاد کے لیے ٹیکس نافذ کیاجائے گا ۔اگرٹیکس عائد کرنے سے فساد کا خطرہ ہو تو قرض لے کر بھی ان حاجات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔(ج) وہ اشخاص جو ریاست کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں جیسے ملازمین ،افواج اور حکمران ،ان پر بیت المال کی آمدن میں سے خرچ کیا جائیگا۔ اگر بیت المال میں موجود مال اس کام کے لیے کافی نہ ہو تو ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس لگایا جائے گا اور اگر فساد کا خوف ہو تو قرض لے کر یہ ضروریات پوری کی جائیں گی۔ (د) بنیادی ضروریات اور مفادات عامہ جیسے سڑکیں، مساجد، ہسپتال، سکول وغیرہ پر بیت المال میں سے خرچ کیا جائے گا۔ اگر بیت المال میں اتنا مال نہ ہو تو ٹیکس وصو ل کرکے ان ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔(و) اعلیٰ معیارِ زندگی مہیا کرنے کے لیے بھی بیت المال سے مال خرچ کیا جائے گا اگر بیت المال میں مال کا فی نہ ہو توپھر ان پرکچھ خرچ نہیں کیا جائے گا اور ایسے اخراجات کو مؤخر کیا جائے گا۔(ہ) اتفاقی حادثات یا ہنگامی حالات جیسے زلزلے، طوفان وغیرہ کی صورت میں بھی بیت المال سے مال خرچ کیا جائے گا۔ اگر بیت المال میں مال نہ ہو تو قرض لے کر خرچ کیا جائے گا پھر ٹیکس وصول کر کے وہ قرض ادا کیے جائیں گے‘‘۔


نوٹ:خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا ۔ اس پالیسی کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیی حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات143سے 152تک سے رجوع کریں۔ متعلقہ آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm


ج)پالیسی :محصول اور اخراجات کا مقصد دنیا کی صف اول کی ریاست کو مزید آگے لے جا نا
ج1۔ تیل،گیس اور بجلی کے عوامی اداروں،اس کے علاوہ ریاستی ملکیت میں چلنے والے بھاری مشینری اور اسلحے کے کارخانوں اور مواصلات اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے ذریعے بہت بڑی تعداد میں محاصل کا حصول۔
ج2۔صنعت اور زراعت کے شعبوں کے لیے درکار اشیاء پر ٹیکس کا خاتمہ جو ان کی پیداوار کو مفلوج کرتا ہے۔محصول ،صنعتی شعبے سے پیدا ہونے والی اشیأ کی تجارت پر ہونے والے منافع اور زراعت سے ہونے والی پیداوار پر لیا جائے گا۔
ج3۔ مغربی سرمایہ دارانہ اداروں کے قرضوں کی واپسی ختم کردی جائے گی کیونکہ ان قرضوں کو ظالمانہ سود سمیت کئی بار اداکیا جاچکا ہے ۔اخراجات کو مسلمانوں کی ضروریات اور ان کے مفادات کے حصول کو مد نظر رکھ کر کیا جائے گا جس میں طاقت اور خوشحالی کے لیے مضبوط صنعتی شعبے کے قیام کے لیے خرچ کرنا بھی شامل ہے۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ظالمانہ ٹیکس اور اخراجات کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی

صرف خلافت ہی غریب پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کرے گی

 

Read more...

کراچی کی خراب صورتحال کی بہتری کے لیے پالیسی ربیع الاول 1434ہجری،بمطابق فروری 2013

 

حزب التحریرولایہ پاکستان نے دنیا کے تیسرے بڑے شہرکراچی کی مسلسل خراب ہوتی صورتحال کی بہتری کے لیے پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position"جاری کی ہے۔


ا)مقدمہ:کراچی ایک سیاسی،نظریاتی اور معاشی طاقت کا مرکز بننے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن ایک کے بعد دوسرے امریکی ایجنٹ حکمران نے ایک پالیسی کے تحت کراچی کواس کے کردار کی ادائیگی سے روک رکھا ہے۔

کراچی جس کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے ،آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا شہر،پاکستان کا سب سے بڑا شہر،پاکستان کا سابق دارلحکومت اور ایک ساحلی شہر ہے جس کے پاس دو بندرگاہیں ہیں۔تقریباً ہر دس پاکستانیوں میں سے ایک کا تعلق کراچی سے ہے۔اس شہر میں پشاور اور کابل سے بھی زیادہ پشتون مسلمان بستے ہیں۔اس کے علاوہ بلوچ اور پنجابی مسلمان بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔کراچی کی آبادی کا بڑا حصہ اردو بولنے والے ،مہاجر،مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے جو تقسیم ہند کے وقت شمالی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ پانچ سو سال سے بھی زائد عرصے تک یہ اردو بولنے والے مسلمان برصغیر میں اسلامی حکومت میں اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ برصغیر پر دو سو سالہ برطانوی راج کے خلاف برپا ہونے والی مزاحمت میں بھی اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ لہذا کراچی کے مسلمانوں کا نہ صرف پورے پاکستان سے قدرتی رابطہ اور تعلق ہے بلکہ ان کا ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں سے بھی تعلق اور روابط ہیں۔ ایک طرح سے کراچی قدرتی طور پر پورے پاکستان کو سیاسی و نظریاتی طاقت فراہم کرتا ہے۔کراچی میں بندرگاہیں بھی ہیں جو اس خطے کو مشرق وسطی کے مسلم علاقوں سے جوڑتی ہیں اور پاکستان کے تمام علاقوں کی معاشی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کی صنعتوں کا ایک تہائی کراچی میں واقع ہے اور اس کی معیشت بہت متحرک اور وسیع ہے۔لیکن اقتدار میںآنے والی ہر حکومت نے کراچی کو اسلام کی قوت سے محروم کرکے اس خطے میں کراچی کو اس کے قدرتی کردار کی ادائیگی سے روکا ہے۔ ایجنٹ حکمرانوں نے اس شہر میں لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کی اور مسلسل فسادات کے ذریعے اس کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔حکمرانوں کے انتہائی منفی کردار کے باوجود کراچی نے ہر اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جو اس خطے کے مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم تھیں ،چاہے ہندوستان سے جنگ ہو یا اسلامی تحریکوں کی پرورش اور ان کو پروان چڑھانا یا ملک میں آنے والے زلزلوں اور سیلابوں کے دوران اپنے بھائیوں کی بھر پور مددو معاونت ہویا رفاحی کاموں کے لیے سرمائے کی فراہمی، ہر اہم موقع پر اس شہر اور اس کے رہنے والوں نے اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے۔


ب)سیاسی قدرو اہمیت:کراچی کو مفلوج کرنے کا مقصد
ب1۔جمہوریت حقیقت میں صرف ان لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جو اقتدار میں ہوں کیونکہ وہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ باقی تمام لوگوں کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ایک طرف جمہوریت ایک پوری آبادی سے لاتعلق ہو جاتی ہے اور انھیں مسائل کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے جبکہ دوسری جانب جمہوریت اقتدار میں بیٹھے لوگو ں کو دوسروں کے حقوق کو غصب اور ان کے خلاف جرائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کراچی میں جرائم پیشہ عناصراور گروہوں کوسیاسی جماعتوں کے ذریعے ر یاست کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔یہ پشت پناہی ریاستی اداروں پر اثرو رسوخ کے ذریعے کی جاتی ہے جیسے پولیس اور عدلیہ پر اثر انداز ہو کر ، اسمبلیوں کے ذریعے قوانین بنوا کر اور انتظامی احکامات کے اجرأ کے ذریعے۔ جمہوریت طاقتور گروہوں ،قانون سازوں اور حکومتی مشینری کے درمیان تعلق کی حوصلہ افزائی کرتی ہے لہذا اس حقیقت میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر مکمل تحفظ کے ساتھ کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔
ب2۔جمہوری نظام میں لوگوں کا خصوصاً نسل کی بنیاد پر جماعتیں تشکیل دینا جمہوریت کا اہم مظہر ہے کیو نکہ اکثریتی گروہوں کی ضروریات کو اقلیتی گروہوں کی ضروریات پر فوقیت دی جاتی ہے۔پھر یہ لسانی گروہ اپنے حقوق اور ریاست کے مال میں اپنے حصے کے حصول کے لیے دوسرے گروہوں سے لڑتے ہیں۔یہ صورتحال ریاست کے مختلف شہریوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دیتی ہے اور معاشرے میں اس تقسیم کو قوت فراہم کرتی ہے۔اور کراچی کئی دہائیوں سے لسانی نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے۔
ب3۔امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کراچی مسلسل اس دشمنی کی آگ میں جلتا رہے۔وہ نا صرف موجودہ استعماری جمہوری نظام کی بقأ کو یقینی بناتے ہیں بلکہ براہ راست رابطہ کر کے لسانی جماعتوں کو قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔کراچی میں موجود لسانی گروہوں کو استعمال کر کے بلوچستان تک میں لسانی فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے میں امریکی قونصلیٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔انھوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو کراچی تک پھیلانے کی تیاریاں کر لی ہیں۔اس طرح استعماری طاقت شہر میں افراتفری پیدا کرتی ہے اور پھر اپنے مفادات کو درپیش خطرات کو ختم کرتی ہے جیسے ان مخلص سیاست دانوں کا قتل جو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔

د)قانونی ممانعت:دشمنی کا خاتمہ اور کراچی کے مختلف گروہوں کے درمیان اتحاد و یگانگت
د1۔جس طرح یثرب کے لوگ تقسیم اور مصیبت زدہ تھے اور انھوں نے صرف اسی صورت میں امن اور خوشحالی کا منہ دیکھا جب انھوں نے اسلام قبول کیااور یثرب کومدینے میں تبدیل کرکے پہلی اسلامی ریاست قائم کی،بالکل اسی طرح کراچی بھی صرف اسلام کی حکمرانی میں ہی امن اور خوشحالی کا دور دیکھ سکتا ہے۔تمام مسلمانوں کے درمیان واحد مشترک چیز اسلام ہے چاہے وہ کسی بھی نسل یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔شریعت وہ قانون ہے جو ان کے عقیدے ،اسلام پر مبنی ہے۔اسلام احکامات اور حرمات کا مجموعہ ہے جس کو اللہ نے قرآن اور سنت کی شکل میں نازل کیا۔خلافت حکمران کو رعایا پر فوقیت نہیں دیتی اور نہ ہی ایک لسانی یا مسلکی گروہ کو کسی دوسرے لسانی یا مسلکی گروہ پر فوقیت دیتی ہے۔ جمہوریت میں صرف ان علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں جو حکومتوں کے مرکز ہوتے ہیں،جہاں حکمران رہتے ہیں یا وہ لوگ رہتے ہیں جن کی حمائت کی وجہ سے حکمرانوں کا اقتدار قائم ہوتا ہے۔لیکن خلافت پورے معاشرے کے معاملات کی نگہبانی اس طرح سے کرتی ہے جیسا کہ کی جانی چاہیے ۔لہذا خلافت نہ صرف کراچی سمیت تمام نظر انداز کیے گئے بڑے شہروں کی ترقی کو یقینی بنائے گی بلکہ چھوٹے شہروں اور گاوءں دیہاتوں کی ترقی کو بھی یقینی بنائے گی جس کے نتیجے میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کے سلسلہ میں کمی واقع ہو گی بلکہ شہروں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے مسئلہ کا بھی خاتمہ ہو گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ7میں اعلان کیا ہے کہ''ریاست ان تمام افراد پر جو اسلامی ریاست کے شہری ہوں مسلم ہوں یا غیر مسلم حسب ذیل طریقے سے اسلامی شریعت نافذکرے گی :ا)مسلمانوں پر بغیر کسی استثناء کے تما م اسلامی احکامات نافذکرے گی۔ب)غیر مسلموں کو ایک عام نظام کے تحت ان کے عقیدے اور عبادت کی آزادی دی جائے گی‘‘۔
د2۔خلافت میں سیاسی جماعتیں کسی لسانی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر قائم ہوسکتی ہیں۔سیاسی جماعتوں سمیت کسی بھی فرد یا حکومتی اہل کار کو غیر ملکی سفارت کاروں سے رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کافر حربی ممالک کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کردیا جائے گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ21میں اعلان کیا ہے کہ'' حکا م کے احتسا ب یا امت کے ذریعے حکو مت تک پہنچنے کے لیے سیا سی پا رٹیا ں بنا نے کا حق مسلما نوں کو حا صل ہے بشر طیکہ ان پا رٹیوں کی بنیا د اسلا می عقیدہ ہواور جن احکا مات کی یہ پا رٹیا ں تبنی کر تی ہوں وہ اسلا می احکا ما ت ہوں ۔کوئی پا رٹی بنا نے کے لیے کسی N.O.C(اجا زت ) کی ضرو رت نہیں ، ہا ں ہر وہ پارٹی ممنو ع ہو گی جس کی اسا س اسلا م نہ ہو‘‘۔
د3۔معاشرے کی عمومی فضأ اسلام کی بنیاد پر ہو گی جو تمام لسانی اکائیوں کے درمیان مشترک رشتہ ہے۔تعلیمی نظام،میڈیا،حکمرانوں کا طرز عمل اور امت جو ان کا احتساب کرے گی، ان سب کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہوگی جس کے نتیجے میں لسانیت پر مبنی پست سوچ کا خاتمہ ہوجائے گا۔اس کے علاوہ اگر چہ علاقائی زبانیں موجود ہوں گی لیکن ریاست کی سرکاری زبان صرف عربی ہو گی جو کہ قرآن کی زبان ہے، اللہ کے رسولﷺ کی زبان ہے اور قانون کی زبان ہے۔اس کے نتیجے میں زبان کی بنیاد پر اس کشیدگی کا خاتمہ ہو جائے گا جس کا پاکستان کو اس کے قیام کے وقت سے سامنا ہے۔ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 8میں لکھا ہے کہ ''عر بی زبان چو نکہ اسلام کی زبا ن ہے ، اس لیے ریا ستی زبان صرف عر بی ہی ہو گی‘‘۔
نوٹ:خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی سے متعلق دفعات کو نافذ کیا جائے گا ۔ ان دفعات کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات21,8,7سے رجوع کریں۔


ج)پالیسی :کراچی کو اس کی مکمل استعداد کا حامل بنایا جائے گا
ج1۔اسلام کا مکمل نفاذ ،جو کہ تمام مسلمانوں کے درمیان ایک مشترک رشتہ ہے،لوگوں کے درمیان ہم آہنگی لائے گا اور کراچی تمام لسانی نفرتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے اسلام کے زیر سایہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔خلافت اپنے تمام شہریوں کے معاملات کا ،بلا امتیازرنگ،نسل،مذہب،مسلک یا جنس، خیال اور تحفظ کرے گی۔
ج2۔سیاسی جماعتیں اسی وقت تک کام کرسکیں گی جب تک وہ اسلام کے اصولوں کو اپنائیں گی اور امت کے درمیان لسانی نفرتوں کے بیج نہیں بوئیں گی۔ان کے اراکین غیر ملکی سفارت کاروں سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھ سکیں گے اور تمام کافر حربی ممالک کے سفارت خانوں کو بند کردیا جائے گا۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کراچی کی خراب صورتحال میں تبدیلی کے لیے پالیسی جاری کر دی

صرف خلافت ہی کراچی کو اس کی اصل استعداد کے مطابق مقام دلوائے گی

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک